146۔ 1 یعنی ان کو جو جنگ کی شدتوں میں پست ہمت نہیں ہوتے اور ضعف اور کمزوری نہیں دکھاتے۔
[١٣٤] اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے سابقہ انبیاء اور مجاہدین کی مثال دے کر اہل احد کو ہدایت فرمائی ہے کہ اگر تمہیں وقتی طور پر شکست کا حادثہ پیش آبھی گیا تھا تو اس وقت بےصبری یا بےدلی کا مظاہرہ کرنا ایمان والوں کا شیوہ نہیں۔ تم سے پہلے لوگوں پر اس سے زیادہ سختیاں آئیں۔ لیکن انہوں نے بےصبری اور بےدلی کا قطعاً مظاہرہ نہیں کیا نہ ہی باطل کے آگے سرنگوں ہوئے۔ یہ خطاب دراصل کمزور ایمان والوں سے ہے جن میں کچھ تو ابو سفیان کی پناہ میں آنے کی بات سوچ رہے تھے اور کچھ ارتداد کی۔
آیت ١٤٦ تا ١٤٨ : ربیون : یہ ” رِبِّیٌّ“ کی جمع ہے، جو ” رَبَّانِیٌّ“ کا ہم معنی ہے۔ (کشاف) ایک معنی اور بھی اہل علم نے کیا ہے کہ یہ ” رِبَّۃٌ“ کی طرف منسوب ہے، جس کا معنی کثیر جماعت ہے، یعنی ان کے ہمراہ بہت سی جماعتیں تھیں۔ (قرطبی)- ” وَھْنٌ، ضُعْفٌ اور اِسْتِکَانَۃٌ“ یہ تینوں لفظ قریب المعنی ہیں، کمزوری کے معنی میں یہ بالترتیب واقع ہوتے ہیں۔ ” وَہْنٌ“ دل سے ہمت ہارنا، ” ضُعْفٌ“ عام کمزوری اور ” اِسْتِکَانَۃٌ“ دشمن کے سامنے عاجزی کا اظہار۔ ان تینوں آیتوں سے مقصود ان لوگوں پر عتاب اور تنبیہ ہے جو احد کے دن شکست کے آثار دیکھ کر ہمت ہار بیٹھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شہادت کی افواہ سن کر بالکل ہی پست ہوگئے، پس فرمایا کہ تم سے پہلے انبیاء کے متبعین گزر چکے ہیں، ان کی اتباع کرو اور اس قسم کی کمزوری نہ دکھاؤ۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) - یعنی ان لوگوں میں سے بہت سے ” رِبِّیُّوْنَ “ اپنے انبیاء کے ساتھ مل کر جہاد کرتے رہے، لیکن انھوں نے اپنی تعداد کی قلت اور بےسروسامانی کے باوجود کبھی ہمت نہیں ہاری اور نہ کبھی اپنے انبیاء کے وفات پا جانے یا شہید ہوجانے کی صورت میں وسوسوں میں مبتلا ہوئے، بلکہ ہمیشہ اور ہر حال میں صبر و استقلال سے کام لیتے رہے اور اللہ تعالیٰ سے اپنی کوتاہیوں پر عفو و درگزر کی درخواست کرتے رہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں دنیا و آخرت دونوں کے ثواب سے نواز دیا، بلکہ آخرت کے حسن ثواب سے اور احسان کا مرتبہ پالینے کی وجہ سے اپنی محبت بھی عطا فرمائی۔ ( وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِـنِيْنَ )
ربط آیات :- سابقہ آیات میں غزوہ احد میں پیش آنے والی بعض کوتاہیوں پر مسلمانوں کو تنبیہ اور ملامت تھی، ان آیات میں بھی اس کا تکملہ پچھلی امتوں کے بعض حالات و واقعات کی طرف اشارہ کر کے کیا گیا ہے کہ وہ کس طرح میدان جنگ میں ثابت قدم استقلال کے ساتھ رہے، تمہیں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے۔- بعض لغات کی تشریح :- (ربیون) بکسر راء و تشدید باء مک سورة و ضم یاء رب کی طرف منسوب ہے، جیسے ربانی معنی ہیں رب والے، اس میں حرف راء مفتوح کی بجائے مکسور خلاف قیاس استعمال ہوا ہے، (روح) بعض حضرات نے ربیون کے معنی بہت سی جماعتوں کے کئے ہیں، ان کے نزدیک یہ ربہ بکسر راء بمعنی الجماعۃ کی طرف منسوب ہے، ربیون (اللہ والے) سے مراد یہاں کون لوگ ہیں ؟ حضرت عبداللہ بن عباس اور حسن بصری سے منقول ہے کہ اس سے مراد علماء و فقہاء ہیں، (روح المعانی) استکانوا، استکانۃ سے مشتق ہے جس کے معنی دب جانے اور عاجز ہو کر رک جانے کے ہیں۔ (بیضاوی) وھنوا وھن سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ضعف و کمزوری۔- خلاصہ تفسیر :- اور بہت نبی ہوچکے ہیں جن کے ساتھ بہت بہت اللہ والے (کفار کے ساتھ) لڑے ہیں، نہ انہوں نے ہمت ہاری ان مصائب کی وجہ سے جو ان پر اللہ کی راہ میں واقع ہوئیں اور نہ ان کے (قلب یا بدن) کا زور گھٹا اور نہ وہ (دشمن کے سامنے) دبے (کہ ان سے عاجزی اور خوشامد کی باتیں کرنے لگیں) اور اللہ تعالیٰ کو ایسے مستقل مزاجوں سے محبت ہے (اور افعال میں تو ان سے کیا لغزش ہوتی) ان کی زبان سے بھی تو اس کے سوا اور کچھ نہیں نکلا کہ انہوں نے (اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں) عرض کیا کہ اے ہمارے پروردگار ہمارے گناہوں کو اور ہمارے کاموں کو حد سے آگے نکل جانے کو بخش دیجئے، اور ہم کو (کفار کے مقابلہ میں) ثابت قدم رکھئے، اور ہم کو کافر لوگوں پر غالب کیجئے تو (اس استقلال اور دعا کی برکت سے) ان کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کا بدلہ بھی دیا (یعنی فتح و ظفر) اور آخرت کا بھی عمدہ بدلہ دیا (یعنی رضا اور جنت) اور اللہ تعالیٰ کو ایسے نیکو کاروں سے محبت ہے۔- معارف و مسائل :- آیات مذکورہ میں سابق انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ جہاد میں شریک اللہ والوں کی جنگ میں ثابت قدمی اور مصائب و شدائد سے نہ گھبرانا نہ کمزور ہونا بیان فرمانے کے بعد ان کی ایک اور عظیم الشان صفت کا بیان بھی اس طرح فرمایا ہے کہ وہ اپنی اس بےمثال قربانی کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں چند دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ اول یہ کہ ہمارے پچھلے گناہ معاف فرمادے۔- دوسرے یہ کہ حالیہ عمل جہاد میں ہم سے جو کوتاہی ہوگئی ہو اسد کو معاف فرمادے۔ تیسرے یہ کہ ہمیں ثابت قدمی پر قائم رکھے۔ چوتھے یہ کہ ہمیں دشمنوں پر غالب کرے۔ ان دعاؤں کے ضمن میں مسلمانوں کے لئے چند اہم ہدایات ہیں۔ اپنے کسی نیک عمل پر ناز نہیں کرنا چاہے بلکہ ہر حال میں اللہ سے مغفرت اور عمل پر قائم رہنے کی دعا کرتے رہنا چاہئے :- اول یہ کہ حقیقت شناس مومن کا کام یہ ہے کہ وہ کتنا ہی بڑا نیک کام اور کتنی ہی جدوجہد اللہ کی راہ میں کر راہ ہو، اس کو یہ حق نہیں کہ اپنے عمل پر ناز و فخر کرے، کیونکہ درحقیقت اس کا عمل بھی اللہ تعالیٰ ہی کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے، اس کے بغیر کوئی نیک عمل ہو ہی نہیں سکتا، حدیث میں مذکور ہے : (فوا اللہ لو لا اللہ ماھتدینا ولا تصدقنا ولا صلینا) " یعنی اگر اللہ کا فضل و کرم نہ ہوتا تو ہمیں نہ سیدھے راستہ کی ہدایت ملتی اور نہ ہم سے زکوٰۃ و نماز ادا ہوسکتی "۔ اس کے علاوہ جو نیک عمل کوئی انسان کرتا ہے وہ کتنا ہی درست کر کے کرے لیکن مالک الملک والملکوت کی شان جلالی کے مطابق کرلینا اس کے بس میں نہیں، اس لئے اس کے ادائے حق میں کوتاہی ناگزیر ہے، اس سے حالت عمل میں بھی استغفار کی ضرورت ہے، نیز یہ بھی کسی اطمینان نہیں ہوسکتا کہ جو نیک عمل وہ اس وقت کر رہا ہے آگے بھی اسے اس کی توفیق ہوگی، اس لئے موجودہ عمل میں کوتاہی پر ندامت اور آئندہ کے لئے اس پر قائم رہنے کی دعا مومن کا وظیفہ ہونا چاہئے۔ مذکورہ دعاؤں میں سب سے پہلے اپنے پچھلے گناہوں کی معافی کی درخواست کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ دنیا میں انسان کو جو رنج و غم یا کوئی تکلیف یا دشمن کے مقابلہ میں شکست پیش آتی ہے وہ اکثر اس کے سابقہ گناہوں کا اثر ہوتا ہے، جس کا علاج استغفار و توبہ ہے۔ مولانا رومی نے فرمایا :- غم چو بینی زود استغفار کن - غم بامر خالق آمد کارکن - آخری آیت میں اللہ والوں کو دنیا وآخرت دونوں میں اچھا بدلہ دینے کا ذکر ہے کہ دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ انجام کار دشمنوں پر غالب اور اپنے مقصد میں کامیاب فرماتے ہیں، پھر آخرت کا بدلہ تو اصل بدلہ اور دائمی راحت ہے، جس کو کبھی فنا نہیں، اس کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ثواب آخرت کے ساتھ لفظ حسن بڑھا دیا گیا۔ وحسن ثواب الاخرۃ فرمایا۔
وَكَاَيِّنْ مِّنْ نَّبِيٍّ قٰتَلَ ٠ ۙ مَعَہٗ رِبِّيُّوْنَ كَثِيْرٌ ٠ ۚ فَمَا وَہَنُوْا لِمَآ اَصَابَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَمَا ضَعُفُوْا وَمَا اسْتَكَانُوْا ٠ ۭ وَاللہُ يُحِبُّ الصّٰبِرِيْنَ ١٤٦- نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- ربیون - ۔ زمخشری نے اس کے معنی رب والے کیا ہے الربیون الربانیون۔ قرطبی نے اس کا معنی ابنوہ کثیر کئے ہیں۔ اس صورت میں اس کا واحد ربی اور ربہ ہوگا۔ بمعنی جماعت کی طرف منسوب ہے۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- وهن - الوَهْنُ : ضعف من حيث الخلق، أو الخلق . قال تعالی: قالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي - [ مریم 4] ، فَما وَهَنُوا لِما أَصابَهُمْ [ آل عمران 146] ، وَهْناً عَلى وَهْنٍ [ لقمان 14] أي : كلّما عظم في بطنها : زادها ضعفا علی ضعف : وَلا تَهِنُوا فِي ابْتِغاءِ الْقَوْمِ- [ النساء 104] ، - ( و ھ ن ) الوھن - کے معنی کسی معاملہ میں جسمانی طور پر کمزور ہونے یا اخلاقی کمزور یظاہر کرنے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ قالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي[ مریم 4] اے میرے پروردگار میری ہڈیاں بڑھاپے کے سبب کمزور ہوگئی ہیں فَما وَهَنُوا لِما أَصابَهُمْ [ آل عمران 146] تو جو مصیبتیں ان پر واقع ہوئیں ان کے سبب انہوں نے نہ تو ہمت ہاری ۔ وَهْناً عَلى وَهْنٍ [ لقمان 14] تکلیف پر تکلیف سہہ کر ۔ یعنی جوں جوں پیٹ میں حمل کا بوجھ بڑھتا ہے کمزور ی پر کزوری بڑھتی چلی جاتی ہے ولا تَهِنُوا فِي ابْتِغاءِ الْقَوْمِ [ النساء 104] اور دیکھو بےدل نہ ہونا اور کسی طرح کا غم کرنا ۔ اور کفار کا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرنا - ( صاب) مُصِيبَةُ- والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. - مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- ضعف - والضَّعْفُ قد يكون في النّفس، وفي البدن، وفي الحال، وقیل :- الضَّعْفُ والضُّعْفُ لغتان . قال تعالی: وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال 66]- ( ض ع ف ) الضعف - اور الضعف رائے کی کمزوری پر بھی بولا جاتا ہے اور بدن اور حالت کی کمزوری پر بھی اور اس میں ضعف اور ضعف ( ولغت ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال 66] اور معلوم کرلیا کہ ابھی تم میں کس قدر کمزور ی ہے ۔ - واسْتَكانَ- فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] . ماستکانوا۔ ماضی منفی جمع مذکر غائب۔ باب افتعال سکن مادہ۔ الشکون۔ حرکت کے بعد ٹھہرنا۔ ( باب نصر) رہائش اختیار کرنا۔ سکون ۔ راحت۔ تسلی سب کو محیط ہے۔ لیکن مفسرین نے مسکین کے معنی من لاشیء لہ ( یعنی جس کے پاس کچھ نہ ہو) کئے ہیں۔ اور تسکن مسکین اور محتاج ہوتا ہے۔ اور اسلکان واستکانۃ واستکن بمعنی ذلیل و عاجز ہونا ہے۔ پس ما استکانوا کا مطلب ہوا۔ وہ دب نہیں گئے۔ وہ عاجز نہیں آئے۔ انہوں نے کمزروی نہیں دکھائی ہمت نہیں ہاری۔ ہار نہیں مانی۔- حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں
قول باری ہے (وکایّن مّن نّبیّ قاتل معہ ربّیّون کثیر، اس سے پہلے کتنے ہی نبی ایسے گزرچکے ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت سے خدا پرستوں نے جنگ کی) ابن عباس (رض) اور حسن کا قول ہے کہ اس سے مراد علماء اور فقہاء میں مجاہد اورقتادہ نے کہا کہ بہت سے گردہوں نے ان کے ساتھ مل کر جنگ کی (فما وھنوالما اصابھم فی سبیل اللہ وماضعفواومااستکانوا۔ اللہ کی راہ میں جو مصیبتیں ان پڑیں ان سے وہ دل شکستہ نہیں ہوئے ، انھوں نے کمزوری نہیں دکھائی اور وہ (باطل کے آگے) لفظ الوھن کے متعلق کہا گیا ہے کہ اس کے معنی جسم کاٹوٹنا ہیں اور ضعف، قوت میں کمی کو کہئے ہیں۔ لفظ الا ستکانۃ کے متعلق کہا گیا ہے کہ اس کے معنی اظہار ضعف کے ہیں۔ ایک قول ہے کہ اس سے مراد جھک مارنا اور رسرنگوں ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا کہ خدا پرست دل شکستہ نہیں ہوئے۔ نہ ہی دشمنوں کے مقابلہ میں کمزورپڑے اور نہ ہی جہاد میں پہنچنے والی تکلیفوں کی وجہ سے وہ اپنے دین سے ہٹ کر کسی اور طرف جھک گئے۔ آیت میں جہاد فی سبیل اللہ کی ترغیب دی گئی ہے، اور انبیاء سابقین کے اہل علم، صحابہ کی راہ پرچلنے کی تلقین کی گئی ہے۔ نیز جہاد میں صبرو استقامت کے سلسلے میں ان کی اقتدا کرنے کا حکم دیاگیا ہے۔
(١٤٦) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے بھی بہت سے نبی ہوچکے ہیں جن کے ساتھ اہل ایمان کی بڑی بڑی جماعتوں نے مل کر کفار کے ساتھ مقابلہ کیا ہے تو اس مقابلے میں قتل وزخم کی وجہ سے نہ انہوں نے کام سے ہمت ہاری اور نہ دشمنوں کے مقابلہ سے ان میں کسی قسم کی کوئی کمزوری آئی اور ایک یہ بھی معنی بیان کیے گئے ہیں کہ بہت سے نبی شہید کردیے گئے۔- حالانکہ ان کے ساتھ مسلمانوں کی بڑی بڑی جماعتیں بھی تھیں مگر جہاد فی سبیل اللہ میں جو ان کو پریشانیاں ہوئیں آزمائشیں آئیں اور ان کے نبی شہید کردیے گئے ان باتوں نے ان کو اطاعت خداوندی سے کمزور نہیں کیا۔ اور جو اہل ایمان انبیاء کرام کے ساتھ دشمنوں کے مقابلہ میں ثابت قدم رہتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے ہی لوگوں کو پسند فرماتے ہیں۔
آیت ١٤٦ (وَکَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰتَلَ لا مَعَہٗ رِبِّیُّوْنَ کَثِیْرٌج ) ۔- اے مسلمانو تمہارے ساتھ جو یہ واقعہ پیش آیا ہے وہ پہلا تو نہیں ہے۔ اللہ کے بہت سے نبی ایسے گزرے ہیں جن کی معیت میں بہت سارے اللہ والوں نے ‘ اللہ کے ماننے اور چاہنے والوں نے ‘ اللہ کے دیوانوں اور متوالوں نے ‘ اللہ کے غلاموں اور عاشقوں نے اللہ کے دشمنوں سے جنگیں کی ہیں۔ رِبِّیْ اور ربّائی کا لفظ آج بھی یہودیوں کے ہاں استعمال ہوتا ہے۔- (فَمَا وَہَنُوْا لِمَآ اَصَابَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) (وَمَا ضَعُفُوْا وَمَا اسْتَکَانُوْا ط) (وَاللّٰہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَ ) - تو اے مسلمانو ان کا کردار اپناؤ اور دل گرفتہ نہ ہو۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :107 یعنی اپنی قلت تعداد اور بے سروسامانی ، اور کفار کی کثرت اور زور آوری دیکھ کر انھوں نے باطل پرستوں کے آگے سپر نہیں ڈالی ۔