145۔ 1 یہ کمزوری اور بذدلی مظاہرہ کرنے والوں کے حوصلوں میں اضافہ کرنے کے لئے کہا جا رہا ہے کہ موت تو اپنے وقت پر آکر رہے گی، پھر بھاگنے یا بذدلی دکھانے کا کیا فائدہ ؟ اسی طرح محض دنیا طلب کرنے سے کچھ دنیا تو مل جاتی ہے لیکن آخرت میں کچھ نہیں ملے گا، اس کے برعکس آخرت کے طالبوں کو آخرت میں اخروی نعمتیں تو ملیں ہی گی، دنیا بھی اللہ تعالیٰ انہیں عطا فرماتا ہے۔ آگے مذید حوصلہ افزائی اور تسلی کے لئے پچھلے انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے پیروں کاروں کے صبر اور ثابت قدمی کی مثالیں دی جا رہی ہیں۔
[١٣٢] اس آیت میں مسلمانوں کو ایک نہایت جرات مندانہ سبق سکھلایا گیا ہے۔ جس سے میدان جنگ میں بہادری اور شجاعت کے جوہر دکھانے میں کئی گناہ اضافہ ہوجاتا ہے جو یہ ہے کہ موت کا تعلق میدان جنگ سے قطعاً نہیں بلکہ وہ گھر پر بھی آسکتی ہے۔ اس کا تو ایک وقت مقرر ہے اب دیکھئے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفائے راشدین نے بیشمار غزوات میں شرکت فرمائی لیکن چونکہ ابھی موت کا وقت نہیں آیا تھا۔ اس لیے صحیح سلامت واپس آتے رہے اور جب موت کا وقت آجاتا ہے تو گھر پر بھی انسان اس سے بچ نہیں سکتا۔ اسی طرح سپہ سالار ہونے کی حیثیت سے حضرت خالد بن ولید کا جو مقام ہے اسے سب جانتے ہیں۔ آپ کی ساری زندگی جنگوں میں گزری۔ جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں تلوار یا نیزہ کا نشان موجود نہ ہو۔ لیکن موت میدان جنگ میں نہیں بلکہ گھر پر بستر مرگ پر ہی آئی۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ موت کا جنگ اور میدان جنگ سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا اپنا ایک مقررہ وقت ہے اور جب وہ آجاتا ہے تو کوئی انسانی تدبیر مرنے والے کو موت کے منہ سے بچا نہیں سکتی۔- [١٣٣] ایک متواتر حدیث ہے۔ (اِنَّمَا الاَعْمَال بالنِّیَاتِ ) یعنی کوئی عمل کرتے وقت انسان کی جیسی نیت ہوگی ویسا ہی اسے بدلہ ملے گا۔ ایک ہی کام ہوتا ہے جو نیت کی تبدیلی سے کچھ کا کچھ بن جاتا ہے۔ مثلاً دور نبوی میں ایک صحابی نے مسجد نبوی کی طرف اپنے مکان کی کھڑکی رکھی۔ آپ نے پوچھا : یہ کھڑکی کیوں رکھی ہے ؟ اس نے جواب دیا۔ اس لیے کہ ہوا آتی جاتی رہے۔ آپ نے فرمایا : اگر تم یہ نیت رکھتے کہ ادھر سے آذان کی آواز آئے گی تو تمہیں ثواب بھی ملتا رہتا اور ہوا تو بہرحال آنا ہی تھی۔ اگر غور کیا جائے تو انسان کے بہت کاموں کا یہی حال ہے۔ مثال کے طور پر ہر انسان خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم اپنے بال بچوں کی پرورش اور ان پر خرچ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ اب اگر یہی کام ایک مسلمان اللہ کا حکم سمجھ کر کرے تو اسے اخروی زندگی میں صدقہ کا ثواب بھی مل جائے گا۔ یعنی جو لوگ صرف دنیوی مفاد چاہتے ہیں اللہ انہیں وہی دیتا ہے اور جو اخروی مفاد چاہتے ہیں اللہ انہیں اخروی تو ضرور دیتا ہے۔ علاوہ ازیں دنیاوی مفاد بھی جتنا اس کے مقدر ہے اسے عطا کرتا ہے۔
وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ : اس سے مقصود مسلمانوں کو جہاد پر ابھارنا اور ان کے ذہن میں یہ بات بٹھانا ہے کہ موت سے فرار کی راہ اختیار کرنے سے انسان موت کے پنجے سے نجات نہیں پاسکتا، اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کی موت کا ایک وقت مقرر فرمایا ہے، جو آگے پیچھے نہیں ہوسکتا۔ ( اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ ) میں ” اِذْنٌ“ بمعنی علم ہے، یعنی ہر شخص کی موت کا وقت اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” اِذْنٌ“ بمعنی قضا و قدر ہو۔ الغرض تمہیں چاہیے کہ موت سے بھاگنے کی فکر چھوڑ کر بےجگری سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرو اور اس جہاد سے تمہارا مقصود آخرت کا ثواب ہونا چاہیے، ورنہ اگر تم صرف دنیا کا ثواب، شہرت اور مال غنیمت وغیرہ ہی چاہو گے تو تمہیں صرف وہی ملے گا اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت پر اور آخرت سے محروم رہو گے۔ یہاں ( كِتٰبًا مُّؤَجَّلًا ۭ ) سے مراد وہ کتاب ہے جو ” آجَالٌ“ (مقررہ اوقات) پر مشتمل ہے۔ بعض نے اس سے مراد لوح محفوظ لیا ہے۔ احادیث میں ہے : ” اللہ تعالیٰ نے قلم سے فرمایا : ( اُکْتُبْ فَکَتَبَ مَا ھُوَ کَاءِنٌ ) ” لکھ دے، تو قلم نے جو کچھ ہونے والا تھا، سب لکھ دیا۔ “ [ أحمد : ٥؍٣٧٣، ح : ٢٢٧٩١ ]- اس آیت میں اشارہ ہے کہ جنگ احد میں حاضر ہونے والے اپنی نیتوں کے اعتبار سے دو قسم کے تھے، بعض غنیمت کے طالب تھے اور بعض آخرت کے۔ یہ آیت گو خاص جہاد کے بارے میں نازل ہوئی ہے مگر حکم کے اعتبار سے عام ہے اور تمام اعمال کا مدار انسان کے ارادے اور نیت پر ہے۔ معلوم ہوا مقتول بھی موت کے مقررہ وقت پر مرتا ہے اور مقررہ وقت میں تبدیلی ناممکن ہے۔
اس کے بعد دوسری آیت میں بھی حوادث اور مصائب کے وقت ثابت قدم رہنے کی تعلیم دینے کے لئے یہ ارشاد فرمایا کہ ہر انسان کی موت اللہ تعالیٰ کے نزدیک لکھی ہوئی ہے اس کی تاریخ، دن اور وقت معین ہے، نہ اس سے پہلے کسی کو موت آسکتی ہے نہ اس کے بعد وہ زندہ رہ سکتا ہے، پھر کسی کی موت سے ایسے سراسیمہ ہوجانے کے کوئے معنی نہیں۔ آخر میں اس پر تنبیہ فرمائی کہ اس حادثہ کے ظاہری اسباب میں ایک سبب یہ بھی تھا کہ جن حضرات کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عقب کی جانب پہاڑی پر نگراں بنا کر بٹھایا تھا، ابتدائی فتح کے وقت عام مسلمانوں کو مال غنیمت جمع کرنے میں مشغول دیکھ کر ان میں بھی چند حضرات کو یہ خیال پیدا ہوگیا کہ اب فتح ہوگئی، اس جگہ ٹھہرنے کی ضرورت نہ رہی، پھر ہم بھی مال غنیمت جمع کرنے میں کیوں حصہ نہ لیں ؟ وہ اپنی جگہ سے ہٹ گئے، اس لئے فرمایا : (ومن یرد ثواب الدنیا نوتہ منھا ومن یرد ثواب الاخرۃ نوتہ منھا وسنجزی الشکرین) یعنی جو شخص اپنے عمل سے دنیا کا بدلہ چاہتا ہے ہم اس کو دنیا میں کچھ حصہ دیدتے ہیں، اور جو آخرت کا ثواب چاہتا ہے تو اس کو آخرت کا ثواب ملتا ہے اور ہم عنقریب شکر گزاروں کو بدلہ دیں گے۔ اس میں اشارہ فرمایا کہ مال غنیمت جمع کرنے کی فکر میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقرر کردہ کام کو چھوڑ بیٹھنے میں ان سے غلطی ہوئی، یاد رہے کہ حقیقت کے اعتبار سے مال غنیمت جمع کرنا بھی نری دنیا طلبی نہیں جو شرعا مزموم ہے، بلکہ مال غنیمت جمع کر کے محفوظ کرنا اور پھر اس کو اس کے مصرف میں صرف کرنا یہ بھی ایک جزو جہاد ہے، اور عبادت ہی ہے، ان حضرات صحابہ کا اس میں شریک ہونا صرف طمع دنیوی کی وجہ سے نہ تھا، کیونکہ شرعی ضابطہ سے اگر وہ اس مال کے جمع کرنے میں شریک نہ ہوتے جب بھی ان کو مال غنیمت میں وہ حصہ ملتا جو اب ملا، اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان حضرات نے طمع دنیا کے لئے اپنے مقام کو چھوڑا، لیکن جیسا کہ پہلی آیت کی تفسیر میں بتلایا گیا ہے کہ بڑوں کی تھوڑی لغزش بھی بڑی سمجھی جاتی ہے، ان کے معمولی جرم کو بڑا سخت جرم قرار دے کر عتاب و خطاب کیا جاتا ہے، وہی یہاں بھی ہے کہ مال غنیمت جمع کرنے میں کچھ نہ کچھ دنیوی منفعت کا تعلق ضرور تھا، اور اس تعلق کا طبعی اثر قلوب میں ہونا بھی مستبعد نہ تھا، صحابہ کرام کے معیار اخلاق کو بلند سے بلند کرنے کے لئے ان کے اس عمل کو بھی ارادہ دنیا سے تعبیر کردیا کہ طمع دنیا کا ادنی سا غبار بھی ان کے قلوب تک نہ جاسکے۔
وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُـوْتَ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ كِتٰبًا مُّؤَجَّلًا ٠ ۭ وَمَنْ يُّرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِہٖ مِنْھَا ٠ ۚ وَمَنْ يُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَۃِ نُؤْتِہٖ مِنْھَا ٠ ۚ وَسَنَجْزِي الشّٰكِرِيْنَ ١٤٥- نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - أجل - الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص 28] .- ( ا ج ل ) الاجل - ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - ثوب - أصل الثَّوْب : رجوع الشیء إلى حالته الأولی التي کان عليها، أو إلى الحالة المقدّرة المقصودة بالفکرة، وهي الحالة المشار إليها بقولهم : أوّل الفکرة آخر العمل . فمن الرجوع إلى الحالة الأولی قولهم : ثَابَ فلان إلى داره، وثَابَتْ إِلَيَّ نفسي، وسمّي مکان المستسقي علی فم البئر مَثَابَة، ومن الرجوع إلى الحالة المقدرة المقصود بالفکرة الثوب، سمّي بذلک لرجوع الغزل إلى الحالة التي قدّرت له، وکذا ثواب العمل، وجمع الثوب أَثْوَاب وثِيَاب، وقوله تعالی: وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر 4]- ( ث و ب ) ثوب - کا اصل معنی کسی چیز کے اپنی اصلی جو حالت مقدمہ اور مقصود ہوتی ہے اس تک پہنچ جانا کے ہیں ۔ چناچہ حکماء کے اس قول اول الفکرۃ اٰخرالعمل میں اسی حالت کی طرف اشارہ ہے یعنی آغاز فکر ہی انجام عمل بنتا ہے ۔ چناچہ اول معنی کے لحاظ سے کہا جاتا ہے ۔ شاب فلان الی درہ ۔ فلاں اپنے گھر کو لوٹ آیا ثابت الی نفسی میری سانس میری طرف ہوئی ۔ اور کنوئیں کے منہ پر جو پانی پلانے کی جگہ بنائی جاتی ہے اسے مثابۃ کہا جاتا ہے اور غور و فکر سے حالت مقدرہ مقصود تک پہنچ جانے کے اعتبار سے کپڑے کو ثوب کہاجاتا ہے کیونکہ سوت کاتنے سے عرض کپڑا بننا ہوتا ہے لہذا کپڑا بن جانے پر گویا سوت اپنی حالت مقصود ہ کی طرف لوٹ آتا ہے یہی معنی ثواب العمل کا ہے ۔ اور ثوب کی جمع اثواب وثیاب آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر 4] اپنے کپڑوں کو پاک رکھو ۔- آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی
جہاد کی ترغیب - قول باری ہے (وماکان لنفس ان تموت الاباذن اللہ کتبامؤجلا، کوئی ذی روح اللہ کے اذن کے بغیر نہیں مرسکتا ، موت کا وقت تو لکھا ہوا ہے) آیت میں جہاد پر ابھارا گیا ہے اس لیے کہ اللہ کے اذن کے بغیر کسی کو موت نہیں آسکتی تو پھر جہاد پر جانے میں کوئی پس وپیش نہیں ہونی چاہیے۔ آیت کا ایک پہلویہ بھی ہے کہ اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کی صورت میں لوگوں کو پہنچنے والے صدمے کو یہ کہہ کر زائل کیا گیا ہے کہ آپ کی وفات بھی تو اللہ کے اذن سے ہوئی ہے۔ آیت سے یہ پہلو اس لیے احتد کیا گیا ہے کہ اس سے پہلے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کا تذکرہ ان الفاظ میں گزرچکا ہے ومامحمد الارسول قد خلت من قبلہ الرّسل افان مّات او قتل انقلبتم علی اعقابکم محمد اس کے سواکچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں ان سے پہلے اور رسول بھی گزرچکے ہیں پھر کیا اگر وہ مرجائیں یا قتل کردیے جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤگے ؟ )- قول باری ہے (ومن یردثواب الدنیا نؤتہ منھا جو شخص ثواب دنیا کے ارادے سے کام کرے گا اس کو ہم دنیا ہی میں سے دے دیں گے) اس کی تفسیر میں ایک قول ہے کہ جو شخص دنیا کے لیے کام کرے گا تو اسے دنیا ہی میں اس کا متصررحصہ دے دیاجائے گا آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا ابن اسحاق سے یہی تفسیر مروی ہے۔ ایک قول ہے کہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص جہلا کرتے ہوئے دنیا کے اجرکا ارادہ رکھے گا تو وہ مال غنیمت میں اپنے حصے سے محروم نہیں رکھاجائے گا ایک قول یہ بھی ہے کہ جو شخص نفلی عباوتوں کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہے گا جب کہ وہ اللہ کے علم میں اس وجہ سے جنت کے مستحقین میں سے نہیں ہوگا، کہ وہ کاف رہے یا اس کے اعمال حبط اور بے کار ہوگئے ہیں، تو ایسی صورتوں میں اسے دنیا ہی میں اس کی عبادتوں کا بدلہ دے دیا جائے گا، آخرت کے ثواب میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (من کان یرید العاجلۃ عجلنا لہ فیھا مانشاء لمن نرید جعلنا لہ جھنم یصلنھا مذموما مدحورا، جو کوئی دنیا کی نیت رکھے گا ہم اس کو دنیا میں سے جتنا چاہیں گے جس کے واسطے چاہیں گے فوراہی دے دیں گے پھر ہم اس کے لیے جہنم رکھیں گے اس میں وہ بدحال اور راندہ ہوکرداخل ہوگا۔
(١٤٥) کسی بھی شخص کو بغیر حکم خداوندی اور مشیت الہی کے موت آنا ممکن نہیں اس کی زندگی اور روزی کی میعاد لکھی ہوئی ہے، جس میں ایک کو دوسرے پر تقدیم وتاخیر نہیں ہوسکتی اور جو شخص اپنے عمل اور جہاد سے دنیاوی فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو ہم دنیا ہی میں اس کی نیت کے مطابق دے دیتے ہیں، البتہ آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں رہتا۔- اور جو اپنے عمل اور جہاد سے آخرت میں ثواب چاہتا ہے تو ہم اسے اس کی نیت کے موافق آخرت میں دیتے ہیں اور مومنین کو ہم ان کے ایمان اور جہاد کا جلد ہی نیک بدلا دیں گے۔
آیت ١٤٥ (وَمَا کَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ الاَّ بِاِذْنِ اللّٰہِ ) (کِتٰبًا مُّؤَجَّلاً ط) ّاجل معین کے ساتھ ہر ایک کا وقت طے ہے۔ لہٰذا انسان کی بہترین محافظ خود موت ہے۔ آپ کی موت کا جو وقت مقرر ہے اس سے پہلے کوئی آپ کے لیے موت نہیں لاسکتا۔ - (وَمَنْ یُّرِدْ ثَوَاب الدُّنْیَا نُؤْتِہٖ مِنْہَا ج) (وَمَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَۃِ نُؤْتِہٖ مِنْہَا ط) - یہ مضمون سورة البقرۃ کی آیات ٢٠٠۔ ٢٠٢ میں حج کے سلسلے میں آچکا ہے۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :104 اس سے یہ بات مسلمانوں کے ذہن نشین کرنا مقصود ہے کہ موت کے خوف سے تمہارا بھاگنا فضول ہے ۔ کوئی شخص نہ تو اللہ کے مقرر کیے ہوئے وقت سے پہلے مر سکتا ہے اور نہ اس کے بعد جی سکتا ہے ۔ لہٰذا تم کو فکر موت سے بچنے کی نہیں بلکہ اس بات کی ہونی چاہیے کہ زندگی کی جو مہلت بھی تمہیں حاصل ہے اس میں تمہاری سعی و جہد کا مقصود کیا ہے ، دنیا یا آخرت؟ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :105 ثواب کے معنی ہیں نتیجہ ، عمل ۔ ثواب دنیا سے مراد وہ فوائد ومنافع جو انسان کو اس کی سعی و عمل کے نتیجہ میں اسی دنیا کی زندگی میں حاصل ہوں ۔ اور ثواب آخرت سے مراد وہ فوائد ومنافع ہیں جو اسی سعی و عمل کے نتیجہ میں آخرت کی پائیدار زندگی میں حاصل ہوں گے ۔ اسلام کے نقطہ نظر سے انسانی اخلاق کے معاملہ میں فیصلہ کن سوال یہی ہے کہ کارزار حیات میں آدمی جو دوڑ دھوپ کر رہا ہے اس میں آیا وہ دنیوی نتائج پر نگاہ رکھتا ہے یا اخروی نتائج پر ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :106 ”شکر کرنے والوں“سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کی اس نعمت کے قدر شناس ہوں کہ اس نے دین کی صحیح تعلیم دے کر انہیں دنیا اور اس کی محدود زندگی سے بہت زیادہ وسیع ، ایک ناپیدا کنار عالم کی خبر دی ، اور انہیں اس حقیقت سے آگاہی بخشی کہ انسانی سعی و عمل کے نتائج صرف اس دنیا کی چند سالہ زندگی تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس زندگی کے بعد ایک دوسرے عالم تک ان کا سلسلہ دراز ہوتا ہے ۔ یہ وسعت نظر اور یہ دور بینی و عاقبت اندیشی حاصل ہوجانے کے بعد جو شخص اپنی کوششوں اور محنتوں کو اس دنیوی زندگی کے ابتدائی مرحلہ میں بار آور ہوتے نہ دیکھے ، یا ان کا برعکس نتیجہ نکلتا دیکھے ، اور اس کے باوجود اللہ کے بھروسہ پر وہ کام کرتا چلا جائے جس کے متعلق اللہ نے اسے یقین دلایا ہے کہ بہرحال آخرت میں اس کا نتیجہ اچھا ہی نکلے گا ، وہ شکر گزار بندہ ہے ۔ برعکس اس کے جو لوگ اس کے بعد بھی دنیا پرستی کی تنگ نظری میں مبتلا رہیں ، جن کا حال یہ ہو کہ دنیا میں جن غلط کوششوں کے بظاہر اچھے نتائج نکلتے نظر آئیں ان کی طرف وہ آخرت کے برے نتائج کی پروا کیے بغیر جھک پڑیں ، اور جن صحیح کوششوں کے یہاں بار آور ہونے کی امید نہ ہو ، یا جن سے یہاں نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو ، ان میں آخرت کے نتائج خیر کی امید پر اپنا وقت ، اپنے مال اور اپنی قوتیں صرف کرنے کے لیے تیار ہوں ، وہ ناشکرے ہیں اور اس علم کے ناقدر شناس ہیں جو اللہ نے انہیں بخشا ہے ۔
48: اس سے اشارہ مال غنیمت کی طرف ہے، اور مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص صرف مال غنیمت حاصل کرنے کی نیت سے جہاد میں شریک ہوگا، اسے مال غنیمت میں سے حصہ تو مل جائے گا، لیکن آخرت کا ثواب حاصل نہیں ہوگا، اس کے برعکس اگر اصل نیت اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کی ہوگی تو آخرت کا ثواب حاصل ہوگا، اور مال غنیمت بھی ایک اضافی فائدے کے طور پر ملے گا (روح المعانی)