رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا مغالطہٰ اور غزوہ احد میدان احد میں مسلمانوں کو شکست بھی ہوئی اور ان کے بعض قتل بھی کئے گئے ۔ اس دن شیطان نے یہ بھی مشہور کر دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی شہید ہو گئے اور ابن قمیہ کافر نے مشرکوں میں جا کر یہ خبر اڑا دی کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر کے آیا ہوں اور دراصل وہ افواہ بے اصل تھی اور اس شخص کا یہ قول بھی غلط تھا ۔ اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ تو کیا تھا لیکن اس سے صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ قدرے زخمی ہوگیا تھا اور کوئی بات نہ تھی اس غلط بات کی شہرت نے مسلمانوں کے دل چھوٹے کردیئے ان کے قدم اکھڑ گئے اور لڑائی سے بد دل ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ اگلے انبیاء کی طرح یہ بھی ایک نبی ہیں ہوسکتا ہے کہ میدان میں قتل کردیئے جائیں لیکن کچھ اللہ کا دین نہیں جاتا رہے گا ایک روایت میں ہے کہ ایک مہاجر نے دیکھا کہ ایک انصاری جنگ احد میں زخموں سے چور زمین پر گرا پڑا ہے اور خاک و خون میں لوٹ رہا ہے اس سے کہا کہ آپ کو بھی معلوم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم قتل کردیئے گئے اس نے کہا اگر یہ صحیح ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنا کام کر گئے ، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر سے تم سب بھی قربان ہو جاؤ ، اسی کے بارے میں یہ آیت اتری پھر فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قتل یا انتقال ایسی چیز نہیں کہ تم اللہ تعالیٰ کے دین سے پچھلے پاؤں پلٹ جاؤ اور ایسا کرنے والے اللہ کا کچھ نہ بگاڑیں گے ، اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کو جزائے خیر دے گا جو اس کی اطاعت پر جم جائیں اور اس کے دین کی مدد میں لگ جائیں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری میں مضبوط ہوجائیں خواہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوں یا نہ ہوں ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کی خبر سن کر حضرت ابو بکر صدیق جلدی سے گھوڑے پر سوار ہو کر آئے مسجد میں تشریف لے گئے لوگوں کی حالت دیکھی بھالی اور بغیر کچھ کہے سنے حضرت عائشہ کے گھر پر آئے یہاں حضور علیہ السلام پر حبرہ کی چادر اوڑھا دی گئی تھی آپ نے چادر کا کونہ چہرہ مبارک پر سے ہٹا کر بےساختہ بوسہ لے لیا اور روتے ہوئے فرمانے لگے میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ، اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دو مرتبہ موت نہ لائے گا جو موت آپ پر لکھ دی گئی تھی وہ آپ کو آچکی ۔ اس کے بعد آپ پھر مسجد میں آئے اور دیکھا کہ حضرت عمر خطبہ سنا رہے ہیں ان سے فرمایا کہ خاموش ہو جاؤ انہیں چپ کرا کر آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مرگئے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا وہ خوش رہے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے اس پر موت نہیں آتی ۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی لوگوں کو ایسا معلوم ہونے لگا گویا یہ آیت اب اتری ہے پھر تو ہر شخص کی زبان پر یہ آیت چڑھ گئی اور لوگوں نے یقین کرلیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ( صلی اللہ علیہ وسلم ) حضرت صدیق اکبر کی زبانی اس آیت کی تلاوت سن کر حضرت عمر کے تو گویا قدموں تلے سے زمین نکل گئی ، انہیں بھی یقین ہوگیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس جہان فانی کو چھوڑ کر چل بسے ، حضرت علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں فرماتے تھے کہ نہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی موت پر مرتد ہوں نہ آپ کی شہادت پر اللہ کی قسم اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم قتل کئے جائیں تو ہم بھی اس دین پر مرمٹیں جس پر پر شہید ہوئے اللہ کی قسم میں آپ کا بھائی ہوں آپ کا ولی ہوں آپ کا چچا زاد بھائی ہوں اور آپ کا وارث ہوں مجھ سے زیادہ حقدار آپ کا اور کون ہوگا ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ہر شخص اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور اپنی مدت پوری کرکے ہی مرتا ہے جیسے اور جگہ ہے وما یعمر من معمر ولا ینقص من عمرہ الی فی کتاب نہ کوئی عمر دیا جاتا ہے نہ عمر گھٹائی جاتی ہے مگر سب کتاب اللہ میں موجود ہے اور جگہ ہے ( هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِيْنٍ ثُمَّ قَضٰٓى اَجَلًا ) 6 ۔ الانعام:2 ) جس اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا قھر وقت پورا کیا اور اجل مقرر کی اس آیت میں بزدل لوگوں کو شجاعت کی رغبت دلائی گئی ہے اور اللہ کی راہ کے جہاد کا شوق دلایا جارہا ہے اور بتایا جارہا ہے کہ جو انمردی کی وجہ سے کچھ عمر گھٹ نہیں جاتی اور پیچھے ہٹنے کی وجہ سے عمر بڑھ نہیں جاتی ۔ موت تو اپنے وقت پر آکر ہی رہے گی خواہ شجاعت اور بہادری برتو خواہ نامردی اور بزدلی دکھاؤ ۔ حجر بن عدی جب دشمنان دین کے مقابلے میں جاتے ہیں اور دریائے دجلہ بیچ میں آجاتا ہے اور لشکر اسلام ٹھٹھک کر کھڑا ہوجاتا ہے تو آپ اس آیت کی تلاوت کرکے فرماتے ہیں کہکوئی بھی بے اجل نہیں مرتا آؤ اسی دجلہ میں گھوڑے ڈال دو ، یہ فرما کر آپ اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیتے ہیں آپ کی دیکھا دیکھی اور لوگ بھی اپنے گھوڑوں کو پانی میں ڈال دیتے ہیں ۔ دشمن کا خون خشک ہوجاتا ہے اور اس پر ہیبت طاری ہوجاتی ہے ۔ وہ کہنے لگتے ہیں کہ یہ تو دیوانے آدمی ہیں یہ تو پانی کی موجوں سے بھی نہیں ڈرتے بھاگو بھاگو چنانچہ سب کے سب بھاگ کھڑے ہوئے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جس کا عمل صرف دنیا کیلئے ہو تو اس میں سے جتنا اس کے مقدر میں ہوتا ہے مل جاتا ہے لیکن آخرت میں وہ خالی ہاتھ رہ جاتا ہے اور جس کا مقصد آخرت طلبی ہو اسے آخرت تو ملتی ہی ہے لیکن دنیا میں بھی اپنے مقدر کا پالیتا ہے جیسے اور جگہ فرمایا من کان یرید حرث الاخرۃ الخ ، آخرت کی کھیتی کے چاہنے والے کو ہم زیادتی کے ساتھ دیتے ہیں اور دنیا کی کھیتی کے چاہنے والے کو ہم گو دنیا دے دیں لیکن آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں اور جگہ ہے من کان یرید العاجلتہ جو شخص صرف دنیا طلب ہی ہو ہم ان میں سے جسے چاہیں جس قدر چاہیں دنیا دے دیتے ہیں پھر وہ جہنمی بن جاتا ہے اور ذلت و رسوائی کے ساتھ میں جاتا ہے اور جو آخرت کا خواہاں ہو اور کوشاں بھی ہو اور باایمان بھی ہو ان کی کوشش اللہ تعالیٰ کے ہاں مشکور ہے اسی لئے یہاں بھی فرمایا کہ ہم شکر گزاروں کو اچھا دبلہ دے دیتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ احد کے مجاہدین کو خطاب کرتا ہوا فرماتا ہے کہ اس سے پہلے بھی بہت سے نبی اپنی جماعتوں کو ساتھ لے کر دشمنان دین سے لڑے بھڑے اور وہ تمہاری طرح اللہ کی راہ میں تکلیفیں بھی پہنچائے گئے لیکن پھر بھی مضبوط دل اور صابرو شاکر رہے نہ سست ہوئے نہ ہمت ہاری اور اس صبر کے بدلے انہوں نے اللہ کریم کی محبت مول لے لی ، ایک یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ اے مجاہدین احد تم یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوئے کیوں ہمت ہار بیٹھے؟ اور کفر کے مقابلے میں کیوں دب گئے؟ حالانکہ تم سے اگلے لوگ اپنے انبیاء کی شہادت کو دیکھ کر بھی نہ دبے نہ پیچھے ہٹے بلکہ اور تیزی کے ساتھ لڑے ، یہ اتنی بڑی مصیبت بھی ان کے قدم نہ ڈگمگا سکی اور کے دل چھوٹے نہ کرسکی پھر تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر اتنے بودے کیوں ہوگئے ربیون کے بہت سے معنی آتے ہیں مثلاً علماء ابرار متقی عابد زاہد تابع فرمان وغیرہ وغیرہ ۔ پس قرآن کریم ان کی اس مصیبت کے وقت دعا کو نقل کرتا ہے پھر فرماتا ہے کہ انہیں دنیا کا ثواب نصرت و مدد ظفرو اقبال ملا اور آخرت کی بھلائی اور اچھائی بھی اسی کے ساتھ جمع ہوئی یہ محسن لوگ اللہ کے چہیتے بندے ہیں ۔
144۔ 1 محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف رسول ہی ہیں یعنی ان کا امتیاز بھی وصف رسالت ہی ہے۔ یہ نہیں کہ وہ بشری خصائص سے بالاتر اور خدائی صفات سے متصف ہوں کہ انہیں موت سے دو چار نہ ہونا پڑے 144۔ 2 جنگ احد میں شکست کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کافروں نے یہ افواہ اڑا دی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتل کردیئے گئے۔ مسلمانوں میں جب یہ خبر پھیلی تو اس سے بعض مسلمانوں کے حوصلے پست ہوگئے اور لڑائی سے پیچھے ہٹ گئے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کافروں کے ہاتھوں قتل ہوجانا یا ان پر موت کا وارد ہوجانا، کوئی نئی بات تو نہیں ہے۔ پچھلے انبیاء (علیہم السلام) بھی قتل اور موت سے ہمکنار ہوچکے ہیں۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی (بالفرض) اس سے دو چار ہوجائیں تو کیا تم اس دین سے ہی پھر جاؤ گے۔ یاد رکھو جو پھرجائے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا، اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سانحہ وفات کے وقت جب حضرت عمر (رض) شدت جذبات میں وفات نبوی کا انکار کر رہے تھے، حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے نہایت حکمت سے کام لیتے ہوئے منبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہلو میں کھڑے ہو کر انہی آیات کی تلاوت کی جس سے حضرت عمر (رض) بھی متاثر ہوئے اور انہیں محسوس ہوا کہ یہ آیات ابھی ابھی اتری ہیں۔ 144۔ 3 یعنی ثابت قدم رہنے والوں کو جنہوں نے صبر و استقامت کا مظاہرہ کر کے اللہ کی نعمتوں کا عملی شکر ادا کیا۔
[١٣١] جب حضرت عبداللہ بن جبیر کے ساتھی درہ چھوڑ کر لوٹ مار میں لگ گئے تو خالد بن ولید (جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اور کفار کے ایک دستہ کی کمان کر رہے تھے) پہاڑی کا چکر کاٹ کر اسی درہ سے مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے۔ سو سوار ان کے ہمراہ تھے۔ ادھر حضرت عبداللہ کے ساتھ صرف بارہ آدمی رہ گئے تھے۔ دس بارہ تیر انداز بھلا سو سواروں کی یلغار کو کیسے روک سکتے تھے۔ انہوں نے مقابلہ تو بڑی بےجگری سے کیا مگر سب شہید ہوگئے۔ مسلمان مجاہدین اپنے عقب یعنی درہ کی طرف سے مطمئن تھے کہ اچانک مشرکین کا یہ رسالہ ان کے سروں پر جا پہنچا اور سامنے سے مشرکوں کی جو فوج بھاگ کھڑی ہوئی تھی وہ بھی پیچھے پلٹ آئی اور مسلمان دونوں طرف سے گھر گئے۔ بہت زور کا رن پڑا اور بہت سے مسلمان شہید اور زخمی ہوئے۔ اسی دوران ابن قیہ نے ایک بھاری پتھر آپ پر پھینکا جس سے آپ کا سامنے کا دانت بھی ٹوٹ گیا اور چہرہ مبارک بھی زخمی ہوا۔ اس ضرب کی شدت سے آپ بےہوش ہو کر گرپڑے اور ابن قمیئہ یا کسی اور نے دور سے پکارا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتل کردیئے گئے یہ سنتے ہی مسلمانوں کے اوسان خطا ہوگئے اور پاؤں اکھڑ گئے بعض مسلمان جنگ چھوڑ کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے۔ اب لڑنے کا کیا فائدہ ہے اور بعض کمزور دل مسلمانوں کو یہ خیال آیا کہ جاکر مشرکوں کے سردار ابو سفیان سے امان حاصل کرلیں اور اس بدحواسی کے عالم میں بعض یہ بھی سوچنے لگے کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتل ہوگئے تو ہمیں اپنے پہلے دین میں واپس چلے جانا چاہئے۔ یہی وہ وقت تھا جب منافقوں نے یوں زبان درازی شروع کردی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر اللہ کے رسول ہوتے تو مارے نہ جاتے۔ اس وقت حضرت انس بن مالک (رض) کے چچا انس بن نضر نے کہا اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتل ہوگئے تو رب محمد قتل نہیں ہوئے۔ آپ کے بعد تمہارا زندہ رہنا کس کام کا ؟ جس بات پر آپ نے جان دی ہے اسی پر تم بھی اپنی جان دے دو اور کٹ مرو۔ یہ کہہ کر آپ کافروں میں گھس گئے اور بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے آخر شہید ہوگئے۔ اتنے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہوش آگیا تو آپ نے آواز دی الی عباد اللہ انا رسول اللہ (اللہ کے بندو ادھر آؤ میں اللہ کا رسول ہوں) اور کعب بن مالک آپ کو پہچان کر چلائے۔ مسلمانو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہاں موجود ہیں۔ چناچہ مسلمان آپ کے گرد جمع ہونا شروع ہوگئے۔ تیس کے قریب صحابہ (رض) نے آپ کے قریب ہو کر دفاع کیا اور مشرکوں کی فوج کو منتشر کردیا۔ اس موقع پر سعد بن ابی وقاص اور ابو طلحہ (رض) نے نہایت جانبازی اور جانثاری کا نمونہ پیش کیا۔ اس موقع سے متعلق یہ آیت نازل ہوئی یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخر اللہ تو نہیں جو حی وقیوم ہوں، ایک رسول ہی ہیں۔ ان سے پہلے سب رسول دنیا سے رخصت ہوچکے پھر آگر آپ فوت ہوجائیں یا شہید ہوجائیں تو کیا تم اسلام چھوڑ دو گے ؟۔ دین کی حفاظت اور جہاد فی سبیل اللہ ترک کردو گے ؟ تمہیں ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہئے اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو اپنا ہی نقصان کرے گا۔ اللہ کا تو کچھ بھی بگاڑ نہیں سکے گا۔- واضح رہے کہ اس آیت کے نزول کے ساڑھے سات سال بعد جب فی الواقعہ آپ کی وفات ہوگئی تو اس وقت مسلمانوں کو اتنا صدمہ ہوا کہ ان کے اوسان خطا ہوگئے۔ دوسرے صحابہ (رض) کا کیا ذکر حضرت عمر (رض) جیسے فقیہ اور مدبر صحابی کھڑے ہو کر تقریر کر رہے تھے کہ جو شخص یہ کہے گا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوگئے ہیں میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) آئے اور حضرت عمر (رض) کو بیٹھ جانے کو کہا۔ لیکن جوش خطابت میں انہوں نے اس بات پر کان ہی نہ دھرا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) الگ کھڑے ہو کر تقریر کرنے لگے تو لوگ ادھر متوجہ ہوگئے۔ آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا : تم میں سے جو شخص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پوجتا تھا تو وہ سمجھ لے کہ بلاشبہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پاگئے اور جو شخص اللہ کو پوجتا تھا تو اللہ ہمیشہ زندہ ہے اور کبھی مرنے والا نہیں۔ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی (وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ ۭ وَمَنْ يَّنْقَلِبْ عَلٰي عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَـيْـــًٔـا ۭ وَسَيَجْزِي اللّٰهُ الشّٰكِرِيْنَ ١٤٤۔ ) 3 ۔ آل عمران :144) تک۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں ایسا معلوم ہوتا تھا گویا لوگوں کو پتا نہیں تھا کہ اللہ نے یہ آیت بھی نازل فرمائی ہے۔ جب تک حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے یہ آیت نہ پڑھی پھر ابوبکر صدیق (رض) سے لوگوں نے یہ آیت سیکھی۔ پھر جسے دیکھو وہ یہی آیت پڑھ رہا تھا اور خود حضرت عمر (رض) کہتے ہیں۔ اللہ کی قسم مجھے یوں معلوم ہوا کہ میں نے یہ آیت ابوبکر صدیق (رض) کی تلاوت کرنے سے پہلے سنی ہی نہ تھی اور جب سنی تو سہم گیا۔ دہشت کے مارے میرے پاؤں نہیں اٹھ رہے تھے میں زمین پر گرگیا اور جب میں نے ابوبکر صدیق (رض) کو یہ آیت پڑھتے سنا تب معلوم ہوا کہ واقعی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب مرض النبی)- پھر اس بات پر بھی غور فرمائیے کہ یہ آیت غزوہ احد کے موقعہ پر نازل ہوئی تھی اور حضرت عمر (رض) نے اور اسی طرح دوسرے صحابہ کرام (رض) نے اسے سینکڑوں بار پڑھا بھی ہوگا۔ لیکن اس آیت کی صحیح سمجھ انہیں اس وقت آئی جب فی الواقع رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی۔ اس سے پہلے نہیں آئی اور یہی مفہوم ہے اللہ تعالیٰ کے قول (وَلَمَّا يَاْتِهِمْ تَاْوِيْلُهٗ 39) 10 ۔ یونس :39) کا۔ نیز اس سے لفظ تاویل کا صحیح مفہوم بھی سمجھا سکتا ہے۔- پھر جس وقت میدان احد میں بعض کمزور ایمان والوں نے سوچا کہ اسلام کو چھوڑ کر پہلے دین میں چلے جائیں، اسی طرح آپ کی وفات پر واقعی کئی عرب قبائل مرتد ہوگئے وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ دین اسلام کی ساری سربلندیاں آپ کی ذات سے وابستہ ہیں۔ پھر جب آپ نہ رہے تو اسلام از خود مٹ جائے گا۔ چناچہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ایسے مرتدین سے جہاد کیا اور انہیں شکست فاش دی۔ ان میں سے کچھ مارے گئے اور باقی پھر سے دین اسلام پر قائم ہوگئے۔ گویا ان لوگوں نے اپنا ہی نقصان کیا۔ اسلام اللہ کے فضل سے سربلند رہا۔
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ : جنگ احد میں بعض صحابہ نے تو مرتبۂ شہادت حاصل کرلیا اور بعض میدان چھوڑ کر فرار ہونے لگے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی زخمی ہوگئے اور کسی شیطان نے آپ کی شہادت کی افواہ پھیلا دی، صحابہ کرام (رض) کے دل اس افواہ سے ٹوٹ گئے اور وہ ہمت ہار بیٹھے اور منافقین نے طعن و تشنیع کے نشتر چبھونے شروع کردیے کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ہوتے تو قتل کیوں ہوتے ؟ اس پر یہ آیات اتریں : ( وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ ) ” نہیں ہے محمد مگر ایک رسول۔ “ اس میں حصر قلب ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق تم نے جو سمجھا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہیں، یا اللہ تعالیٰ کے اختیارات کے مالک ہیں، ایسا نہیں، وہ محض اللہ کا پیغام پہنچانے والے ہیں۔ وہ قتل بھی ہوسکتے ہیں، فوت بھی ہوسکتے ہیں اور ان سے پہلے کئی رسول گزر چکے ہیں۔ کیا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل ہونے یا طبعی موت مرجانے سے تم اللہ کا دین چھوڑ بیٹھو گے ؟ تمہیں چاہیے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہو۔ (ابن کثیر۔ قرطبی) - شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” اور اشارتاً یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات پر بعض لوگ پھرجائیں گے۔ اسی طرح ہوا کہ بہت سے لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد مرتد ہوئے تو ابوبکر صدیق (رض) نے ان کو پھر مسلمان کیا اور بعضوں کو مارا۔ “ (موضح) - 2 عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ (جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو) ابوبکر صدیق (رض) اپنے گھر سے، جو ” اَلسُّنْح “ میں تھا، گھوڑے پر تشریف لائے، وہ گھوڑے سے اتر کر مسجد میں آگئے، لوگوں سے انھوں نے کوئی بات نہ کی، بلکہ سیدھے عائشہ ( ) کے ہاں چلے گئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قصد کیا، اس وقت آپ یمنی دھاری دار چادر سے ڈھانپے ہوئے تھے۔ انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے سے کپڑا ہٹایا، پھر آپ پر جھک کر آپ کو بوسہ دیا، پھر رو پڑے اور کہنے لگے : ” میرے ماں باپ آپ پر قربان اے اللہ کے نبی اللہ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا، جو موت آپ پر لکھی گئی تھی، وہ آپ فوت ہوچکے۔ “ (بخاری) ابو سلمہ کہتے ہیں، مجھے ابن عباس (رض) نے بتایا کہ ابوبکر (رض) نکلے، عمر (رض) لوگوں سے باتیں کر رہے تھے، تو فرمایا : ” بیٹھ جاؤ۔ “ انھوں نے نہ مانا، پھر فرمایا : ” بیٹھ جاؤ۔ “ وہ پھر بھی نہ مانے تو ابوبکر (رض) نے خطبہ پڑھا، اب لوگ ان کی طرف متوجہ ہوگئے اور عمر (رض) کو چھوڑ دیا۔ ابوبکر (رض) نے فرمایا : ” اما بعد تم میں سے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت کرتا تھا تو بیشک محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوگئے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو بیشک اللہ زندہ ہے، کبھی فوت نہیں ہوگا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ( وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۭ ) یہ مکمل آیت تلاوت کی۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : ” اللہ کی قسم ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ لوگ جانتے ہی نہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے، یہاں تک کہ ابوبکر صدیق (رض) نے یہ آیت پڑھی تو لوگوں نے اسے ان سے لے لیا تو جسے سنو یہی آیت پڑھ رہا تھا۔ “ سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ عمر (رض) نے فرمایا : ” اللہ کی قسم میں نے ابوبکر (رض) سے جب اس آیت کی تلاوت سنی تو میں کھڑے کا کھڑا رہ گیا، میرے پاؤں مجھے اٹھا نہیں رہے تھے، یہاں تک کہ میں گرگیا۔ “ [ بخاری، المغازی، باب مرض النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ووفاتہ : ٤٤٥٢، ٤٤٥٣، ٤٤٥٤ ]
خلاصہ تفسیر :- اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نرے رسول ہی تو ہیں (خدا تو نہیں جس پر قتل یا موت ممکن نہ ہو) آپ سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں (اسی طرح آپ بھی ایک روز گزر ہی جائیں گے) سو اگر آپ کا انتقال ہوجاوے یا آپ شہید ہوجاویں تو کیا تم لوگ (جہاد یا اسلام سے) الٹے پھر جاؤ گے (جیسا کہ اس واقعہ میں بعضے مسلمان میدان جنگ سے بھاگ پڑے تھے اور منافقین ترغیب ارتداد کی دے رہے تھے) اور جو شخص (جہاد یا اسلام سے) الٹا پھر جاوے گا تو اللہ تعالیٰ کا کوئی نقصان نہ کرے گا (بلکہ اپنا ہی کچھ کھو دے گا) اور اللہ تعالیٰ جلد ہی (نیک) عوض دے گا، حق شناس لوگوں کو (جو ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ کے انعامات کو یاد رکھ کر اس کی اطاعت پر قائم و مستقل رہتے ہیں، اور قیامت کو ملنا جلد ہی ملنا ہے، کیونکہ قیامت روزانہ قریب ہی ہو رہی ہے) اور (نیز کسی کے مرنے سے اتنا گھبرانا بھی فضول ہے، کیونکہ اول تو) کسی شخص کو موت آنا ممکن نہیں (خواہ طبعا خواہ عقلا) بدون حکم خدا کے (پھر جب خدا کے حکم سے ہے تو اس پر راضی رہنا ضرور ہے، دوسرے یہ کہ جس کی موت آتی بھی ہے تو) اس طور سے کہ اس کی میعاد معین لکھی ہوئی رہتی ہے (جس میں تقدیم و تاخیر نہیں ہوسکتی، تو پھر ارمان اور حسرت محض بیکار ہے، تو وہ وقت پر ضرور ہوگی، اور وقت سے پہلے ہرگز نہ ہوگی) اور (پھر یہ کہ اس توحش پر بھاگنے کا آخر نتیجہ کیا، بجز اس کے کہ دنیا میں اور چند روز زندہ رہیں، سو ایسی تدبیر کا اثر سن لو کہ) جو شخص (اپنے اعمال و تدابیر میں) دنیوی نتیجہ چاہتا ہے تو ہم اس کو دنیا کا حصہ (بشرط اپنی مشیت کے) دیدیتے ہیں (اور آخرت میں اس کے لئے کچھ حصہ نہیں) اور جو شخص (اپنے اعمال و تدابیر میں) اخروی نتیجہ چاہتا ہے (مثلا جہاد میں اس لئے ثابت قدم رہا کہ یہ تدبیر ہے ثواب آخرت کی) تو ہم اس کو آخرت کا (حصہ اور ذمہ کر کے) دیں گے، اور بہت جلد (نیک) عوض دیں گے (ایسے) حق شناسوں کو (جو اپنے اعمال میں آخرت کی نعمت چاہیں) ۔- معارف و مسائل :- یہ آیات بھی غزوہ احد کے واقعات سے متعلق ہیں، کیونکہ ان واقعات کو کئی وجوہ سے خاص اہمیت حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے سورة آل عمران کے چار پانچ رکوع تک غزوہ احد میں پیش آنے والی فتح و شکست اور ان دونوں میں جو قدرتی ہدایات پوشیدہ تھیں ان کا بیان مسلسل فرمایا ہے۔- مذکورہ آیتوں میں سے پہلی آیت میں بعض صحابہ کرام کی ایک لغزش پر تہدید آمیز تنبیہ کر کے ایک ایسے اصولی مسئلہ کی طرف ہدایت کی گئ ہے کہ سوچنے والوں کو اس سے یہ بھی پتہ لگ جاتا ہے کہ اس عارضی شکست اور اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زخمی ہونے اور حضور کی وفات کی خبر پھیل جانے کی اور اس پر بعض صحابہ کی ہمت پست ہوجانے میں یہ راز بھی تھا کہ مسلمان اس اصولی مسئلہ پر عملی طور پر پختہ ہوجائیں، وہ مسئلہ یہ تھا کہ جہاں اصول اسلام میں اس کی بری اہمیت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت و محبت کو جزو ایمان قرار دیا گیا ہے، اس میں ادنی کمزوری کو کفر کے مرادف بتلایا گیا ہے، وہیں یہ بات بھی اتنی ہی اہم تھی کہ کہیں مسلمان اس مرض کا شکار نہ ہوجائیں جس میں نصاری اور عیسائی مبتلا ہوگئے تھے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عظمت و محبت کو پرستش اور عبادت کی حد تک پہنچا دیا، اور ان کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک خدائی ٹھہرا لیا۔- غزوہ احد کی عارضی شکست کے وقت جب کسی نے یہ مشہور کردیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو صحابہ کرام پر جو کچھ گزری اور گزرنی چاہئے تھی اس کا ادنی سا اندازہ کرنا بھی ہر شخص کے لئے آسان نہیں، اس کا اندازہ کچھ وہی لگا سکتا ہے جس کو صحابہ کرام کی جاں نثاری اور عشق رسول کا کچھ اندازہ ہو، جس کو یہ پوری طرح معلوم ہو کہ یہ وہ حضرات ہیں جنہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت میں مال، اولاد اور اپنی جانیں اور سب کچھ گنوا دینے کو دنیا کی سب سے بڑی سعادت سمجھی اور عمل سے اس کا ثبوت دیا ہے۔ ان عشاق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کانوں میں جب یہ خبر پری ہوگی ان کے ہوش و حواس کا کیا عالم ہوگا خصوصا جب کہ میدان جنگ گرم ہے، اور فتح کے بعد شکست کا منظر آنکھوں کے سامنے ہے، مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ رہے ہیں، اس عالم میں وہ ہستی جو ساری کوششوں کا محور اور ساری امیدوں کا مظہر تھی، وہ بھی ان سے رخصت ہوتی ہے، اس کا طبعی نتیجہ یہ تھا کہ صحابہ کرام کی ایک بھاری جماعت سراسیمہ ہو کر میدان جنگ سے ہٹنے لگی، یہ میدان جہاد سے ہٹ جانا اگرچہ ہنگامی اور سرسری اور وقتی سراسیمگی کا نتیجہ تھا، خدانخواستہ اسلام سے پھرجانے کا کوئی شبہ یا وسوسہ بھی نہ تھا، لیکن حق تعالیٰ تو اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کو ایک ایسی پاکباز فرشتہ خصلت جماعت بنانا چاہتا ہے جو دنیا کے لئے نمونہ عمل بنے، اس لئے ان کی ادنی لغزش بھی سخت قرار دی گئی۔- نزدیکاں رابیش بود حیرانی ان کے لئے میدان جنگ چھوڑنے پر ایسا خطاب کیا گیا جیسے اسلام چھوڑنے پر کیا جاتا ہے، اور سخت عتاب کے ساتھ اس بنیادی مسئلہ پر تنبیہ کی گئی کہ دین و عبادت اللہ کے لئے اور جہاد اسی کے لئے ہیں، جو ہمیشہ زندہ اور قائم ہے، اگر بالفرض یہ خبر صحیح بھی ہوتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی تو بہرحال یہ تو ایک دن ہونا ہی ہے اس پر ہمت ہار بیٹھنا اور دین کا کام چھوڑ دینا ان حضرات کے شایان شان نہیں۔ اس لیے ارشاد فرمایا : (وما محمد الا رسول) یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رسول ہی تو ہیں۔ (خدا تو نہیں) آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں، اگر آپ کی وفات ہوجائے یا آپ کو شہید کردیا جائے تو کیا تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤ گے، اور جو کوئی الٹے پاؤں پھرجائے گا، وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑے گا اور اللہ تعالیٰ ثواب دے گا شکر گزاروں کو۔ اس میں تنبیہ فرمادی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ایک نہ ایک دن اس دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں، آپ کے بعد بھی مسلمانوں کو دین پر ثابت قدم رہنا ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اس عارضی شکست کے وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مجروح ہونے اور وفات کی خبر مشہور ہونے میں یہ قدرتی راز تھا کہ آپ کے بعد جو حالات صحابہ کرام پر پیش آسکتے تھے وہ آپ کی دنیوی حیات ہی میں ظاہر کردیئے گئے تاکہ ان میں جو لغزش ہو اس کی اصلاح خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے ہوجائے، اور آئندہ جب یہ واقعہ وفات سچ مچ پیش آئے تو یہ عشاق رسول از جار فتہ نہ ہوجائیں، چناچہ یہی ہوا آپ کی وفات کے وقت جب بڑے بڑے صحابہ کرام کے ہوش و حواس بجا نہ تھے، تو حضرت صدیق اکبر (رض) نے اسی قسم کی آیات قرآنیہ کی سند لے کر ان کو سمجھایا، اور وہ سب سنبھل گئے۔
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ٠ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ ٠ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ ٠ ۭ وَمَنْ يَّنْقَلِبْ عَلٰي عَقِبَيْہِ فَلَنْ يَّضُرَّ اللہَ شَـيْـــًٔـا ٠ ۭ وَسَيَجْزِي اللہُ الشّٰكِرِيْنَ ١٤٤- حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گومن وجہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشاره پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پر مذ کور ہے ۔- رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - خلا - الخلاء : المکان الذي لا ساتر فيه من بناء ومساکن وغیرهما، والخلوّ يستعمل في الزمان والمکان، لکن لما تصوّر في الزمان المضيّ فسّر أهل اللغة : خلا الزمان، بقولهم : مضی الزمان وذهب، قال تعالی: وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران 144] - ( خ ل و ) الخلاء - ۔ خالی جگہ جہاں عمارت و مکان وغیرہ نہ ہو اور الخلو کا لفظ زمان و مکان دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چونکہ زمانہ میں مضی ( گذرنا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے اہل لغت خلاالزفان کے معنی زمانہ گزر گیا کرلیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) تو صرف ( خدا کے ) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہوگزرے ہیں ۔ - موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - انقلاب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، - والِانْقِلابُ : الانصراف، قال : انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] ، وقال : إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف 125] - ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں - الانقلاب - کے معنی پھرجانے کے ہیں ارشاد ہے ۔ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ ( یعنی مرتد ہوجاؤ ) وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] اور جو الٹے - پاؤں پھر جائے گا ۔إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف 125] ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ - عقب - العَقِبُ : مؤخّر الرّجل، وقیل : عَقْبٌ ، وجمعه : أعقاب، وروي : «ويل للأعقاب من النّار» واستعیر العَقِبُ للولد وولد الولد . قال تعالی: وَجَعَلَها كَلِمَةً باقِيَةً فِي عَقِبِهِ [ الزخرف 28] ، وعَقِبِ الشّهر، من قولهم : جاء في عقب الشّهر، أي : آخره، وجاء في عَقِبِه : إذا بقیت منه بقيّة، ورجع علی عَقِبِه : إذا انثنی راجعا، وانقلب علی عقبيه، نحو رجع علی حافرته ونحو : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] ، وقولهم : رجع عوده علی بدئه قال : وَنُرَدُّ عَلى أَعْقابِنا [ الأنعام 71] ، انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ [ آل عمران 144] ، وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران 144] ، ونَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] ، فَكُنْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ تَنْكِصُونَ [ المؤمنون 66]- ( ع ق ب ) ب والعقب پاؤں کا پچھلا حصہ یعنی ایڑی اس کی جمع اعقاب ہے حدیث میں ہے ویلمَةً باقِيَةً فِي عَقِبِهِ [ الزخرف 28] وضو میں خشک رہنے والی ایڑیوں کے لئے دوزخ کا عذاب ہے اور بطور استعارہ عقب کا لفظ بیٹے پوتے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ اور یہی بات اپنی اولاد میں پیچھے چھوڑ گئے ۔ جاء فی عقب الشھر مہنے کے آخری دنوں میں آیا ۔ رجع علٰی عقیبہ الٹے پاؤں واپس لوٹا ۔ انقلب علٰی عقیبہ وہ الٹے پاؤں واپس لوٹا جیسے : ۔ رجع علٰی ھافرتہ کا محاورہ ہے اور جیسا کہ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] تو وہ اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے لوٹ گئے ۔ نیز کہا جاتا ہے ۔ رجع عودہ علٰی بدئہ یعنی جس راستہ پر گیا تھا اسی راستہ سے واپس لوٹ ایا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَنُرَدُّ عَلى أَعْقابِنا [ الأنعام 71] تو کیا ہم الٹے پاؤں پھرجائیں ۔ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ [ آل عمران 144] تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ ( یعنی مرتد ہوجاؤ ) اور جو الٹے پاؤں پھر جائیگا ۔ ونَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] تو پسپا ہوکر چل دیا ۔ فَكُنْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ تَنْكِصُونَ [ المؤمنون 66] اور تم الٹے پاؤں پھر پھرجاتے تھے ۔ عقبہ وہ اس کے پیچھے پیچھے چلا اس کا جانشین ہوا جیسا کہ دبرہ اقفاہ کا محاورہ ہے ۔- ضر - الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] ، فهو محتمل لثلاثتها،- ( ض ر ر) الضر - کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں - جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها۔ - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکافات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔
(١٤٤) صحابہ کرام (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احد کے دن ہمیں یہ اطلاع ملی کہ خدانخواستہ آپ شہید کردیے گئے آپکی جدائی کے عظیم صدمہ و پریشانی سے وقتی طور پر ہم حوصلہ چھوڑ گئے اور ظاہرا ہمیں شکست ہوگئی، اللہ تعالیٰ اس چیز کا تذکرہ فرما رہے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں، اسی طرح اگر آپ انتقال فرما جائیں یا شہید کردیے جائیں تو کیا تم اپنے پہلے والے دین کی طرف لوٹ جاؤ گے اور جو شخص اپنے سابقہ دین کی طرف پھرجائے گا تو اس کا یہ لوٹنا اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا، اللہ تعالیٰ مومنین کو ان کے ایمان اور جہاد کے عوض جلد ہی نیک بدلہ دے گا۔- شان نزول : (آیت) ” وما محمد الا رسول “۔ (الخ)- ابن منذر (رح) نے حضرت عمر فاروق (رض) سے روایت کیا ہے کہ احد کے دن ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علیحدہ ہوگئے میں اچانک پہاڑ پر چڑھا، ایک یہودی سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید کردیے گئے، میں نے یہ عزم کیا کہ جس کسی کو بھی یہ کہتے ہوئے سنوں گا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید کردیے گئے تو اس کی گردن اڑا دوں گا، اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) تشریف لارہے ہیں اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ (آیت) ” وما محمد الا رسول “۔ (الخ )- اور ابن ابی حاتم (رح) نے ربیع سے روایت کیا ہے کہ غزوہ احد میں جب مسلمان شہید اور زخمی ہوئے تو انہوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلاش شروع کی تو کچھ بدبخت بولے کہ آپ شہید کردیے گئے، اس پر کچھ لوگوں نے کہا کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی شہید نہیں کرسکتا اور بعض لوگوں نے کہا کہ جس چیز پر تمہارے نبی نے جہاد کیا، اسی پر تم جہاد کرو یہاں تک کہ تمہیں فتح حاصل ہو یا یہ کہ تم شہید ہوجاؤ، اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ،- اور بیہقی (رح) نے دلائل میں ابو نجیح سے روایت کیا ہے کہ مہاجرین میں سے ایک شخص ایک انصاری کے پاس سے گزرا اور وہ اپنے بدن سے خون صاف کررہے تھے، مہاجر کہنے لگا کہ تمہیں معلوم ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید کردیے گئے، انصاری نے کہا کہ اگر ایسا ہی ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو اپنے مقام اصلی پر پہنچ گئے تم اپنے دین کی حمایت میں لڑتے رہو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- اور ابن راہویہ نے مسند میں زہری سے روایت کیا کہ شیطان نے احد کے دن بلند آواز سے چیخ ماری کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید کردیے گئے، کعب بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں پہلا شخص ہوں جس نے میدان جنگ میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دور پہچانا، میں نے آپ کی آنکھوں کو خود نیچے سے دیکھا، دیکھتے ہی خوشی ومسرت میں بلند آواز کے ساتھ میں نے پکارا کہ اے صحابہ کرام (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ١٤٤ (وَمَا مُحَمَّدٌ الاَّ رَسُوْلٌ ج) - غزوۂ احد کے دوران جب یہ افواہ اڑ گئی کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوگیا ہے تو بعض لوگ بہت دل گرفتہ ہوگئے کہ اب کس لیے جنگ کرنی ہے ؟ حضرت عمر (رض) بھی ان میں سے تھے۔ آپ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کی خبر سن کر تلوار پھینک دی اور دل برداشتہ ہو کر بیٹھ گئے کہ اب ہم نے جنگ کر کے کیا لینا ہے یہاں اس طرز عمل پر گرفت ہورہی ہے کہ تمہارا یہ رویہ غلط تھا۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں ‘ وہ معبود تو نہیں ہیں۔ تم ان کے لیے جہاد نہیں کر رہے ‘ بلکہ اللہ کے لیے کر رہے ہو ‘ اللہ کے دین کے غلبے کے لیے اپنے جان و مال قربان کر رہے ہو۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو اللہ کے رسول ہیں۔ - (قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ ط) (اَفَاءِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَآٰی اَعْقَابِکُمْ ط) - کیا اس صورت میں تم الٹے پاؤں راہ حق سے پھر جاؤ گے ؟ کیا یہی تمہارے دین اور ایمان کی حقیقت ہے ؟- (وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْءًا ط ) (وَسَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْنَ ) - حضرت عمر (رض) چونکہ جذباتی انسان تھے لہٰذا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کی خبر سن کر حوصلہ چھوڑ گئے۔ آپ (رض) ‘ کی تقریباً یہی کیفیت پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انتقال پر ہوگئی تھی۔ آپ (رض) ‘ تلوار سونت کر بیٹھ گئے تھے کہ جو کہے گا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوگیا ہے میں اس کا سر اڑا دوں گا۔ حضرت ابوبکر (رض) ثانئ اسلام و غار وبدر و قبر اس وقت مدینہ کے مضافات میں تھے۔ آپ (رض) ‘ آتے ہی سیدھے اپنی بیٹی حضرت عائشہ (رض) کے حجرے میں گئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرۂ مبارک پر چادر تھی ‘ آپ (رض) نے چادر ہٹائی اور جھک کر آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیشانی کو بوسہ دیا اور رو دیے۔ پھر کہا : اے اللہ کے رسول ‘ میرے ماں باپ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا۔ یعنی اب دوبارہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر موت وارد نہیں ہوگی ‘ اب تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کو حیات جاودانی حاصل ہوچکی ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) باہر آئے اور لوگوں سے خطاب شروع کیا تو حضرت عمر (رض) بیٹھ گئے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا : مَنْ کَانَ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَاِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ ‘ وَمَنْ کَانَ یَعْبُدُ اللّٰہَ فَاِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ لاَ یَمُوْتُجو کوئی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوچکا ہے ‘ اور جو کوئی اللہ کی عبادت کرتا تھا اسے معلوم ہو کہ اللہ تو زندہ ہے ‘ جسے موت نہیں آئے گی۔ اس کے بعد آپ (رض) نے یہ آیت تلاوت فرمائی : (وَمَا مُحَمَّدٌ الاَّ رَسُوْلٌج قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُط اَفَاءِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَآٰی اَعْقَابِکُمْط وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْءًاط وَسَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْنَ ) حضرت ابوبکر (رض) کی زبانی یہ آیت سن کر لوگوں کو ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے یہ آیت اسی وقت نازل ہوئی ہو۔ (١)
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :103 جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر مشہور ہوئی تو اکثر صحابہ کی ہمتیں چھوٹ گئیں ۔ اس حالت میں منافقین نے ( جو مسلمانوں کے ساتھ ہی لگے ہوئے تھے ) کہنا شروع کیا کہ چلو عبداللہ بن ابی کے پاس چلیں تاکہ وہ ہمارے لیے ابوسفیان سے امان لے دے ۔ اور بعض نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسول ہوتے تو قتل کیسے ہوتے ، چلو اب دین آبائی کی طرف لوٹ چلیں ۔ انہی باتوں کے جواب میں ارشاد ہو رہا ہے کہ اگر تمہاری ” حق پرستی“ محض محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت سے وابستہ ہے اور تمہارا اسلام ایسا سست بنیاد ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہوتے ہی تم اسی کفر کی طرف پلٹ جاؤ گے جس سے نکل کر آئے تھے تو اللہ کے دین کو تمہاری ضرورت نہیں ہے ۔