Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اسوہ حسنہ کے مالک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ اپنے نبی پر اور مسلمانوں پر اپنا احسان جتاتا ہے کہ نبی کے ماننے والوں اور ان کی نافرمانی سے بچنے والوں کے لئے اللہ نے نبی کے دل کو نرم کر دیا ہے اگر اس کی رحمت نہ ہوتی تو اتنی نرمی اور آسانی نہ ہوتی ، حضرت قتادہ فرماتے ہیں ما صلہ ہے جو معرفہ کے ساتھ عرب ملا دیا کرتے ہیں جیسے آیت ( فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ ) 4 ۔ النسآء:155 ) میں اور نکرہ کے ساتھ بھی ملا دیتے ہیں جیسے آیت ( عما قلیل ) میں اسی طرح یہاں ہے ، یعنی اللہ کی رحمت سے تو ان کے لئے نرم دل ہوا ہے ، حضرت حسن بصری فرماتے ہیں یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق ہیں جن پر آپ کی بعثت ہوئی ہے یہ آیت ٹھیک اس آیت جیسی ہے آیت ( لقد جاء کم ) الخ ، یعنی تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آئے جس پر تمہاری مشقت گراں گزرتی ہے جو تمہاری بھلائی کے حریص ہیں جو مومنوں پر شفقت اور رحم کرنے والے ہیں ، مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو امامہ باہلی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا اے ابو امامہ بعض مومن وہ ہیں جن کے لئے میرا دل تڑپ اٹھتا ہے ، ( فظاً ) سے مراد یہاں سخت کلام ہے ۔ کیونکہ اس کے بعد ( غلیظ القلب ) کا لفظ ہے ، یعنی سخت دل ، فرمان ہے کہ نبی اکرم تم سخت کلام اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ تمہارے پاس سے منتشر ہو جاتے اور تمہیں چھوڑ دیتے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں آپ کے جاں نثار و شیدا بنا دیا ہے اور آپ کو بھی ان کے لئے محبت اور نرمی عطا فرمائی ، اور تا کہ ان کے دل آپ سے لگے رہیں حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفوں کو اگلی کتابوں میں بھی پاتا ہوں کہ آپ سخت کلام سخت دل بازاروں میں شور مچانے والے اور برائی کا بدلہ لینے والے نہیں بلکہ درگذر کرنے والے اور معافی دینے والے ہیں ، ترمذی کی ایک غریب حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لوگوں کی آؤ بھگت خیر خواہی اور چشم پوشی کا مجھے اللہ کی جانب سے اسی طرح کا حکم کیا گیا ہے جس طرح فرائض کی پابندی کا ، چنانچہ اس آیت میں بھی فرمان ہے تو ان سے درگذر کر ، ان کے لئے استغفار کر ، اور کاموں کا مشورہ ان سے لیا کر ، اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ لوگوں کو خوش کرنے کے لئے اپنے کاموں میں ان سے مشورہ ان سے لیا کرو ، اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ لوگوں کو خوش کرنے کے لئے اپنے کاموں میں ان سے مشورہ کیا کرتے تھے ، جیسے کہ بدر والے دن قافلے کی طرف بڑھنے کے لئے مشورہ لیا اور صحابہ نے کہا کہ اگر آپ سمندر کے کنارے پر کھڑا کر کے ہمیں فرمائیں گے کہ اس میں کود پڑو اور اس پار نکلو تو ہم سرتابی نہ کریں گے اور اگر ہمیں برک انعماد تک لے جانا چاہیں تو بھی ہم آپ کے ساتھ ہیں ہم وہ نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کے صحابیوں کی طرح کہدیں٠ کہ تو اور تیرا رب لڑ لے ہم تو یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہم تو آپ کے دائیں بائیں صفیں باندھ کر جم کر دشمنوں کا مقابلہ کریں گے ، اسی طرح آپ نے اس بات کا مشورہ بھی لیا کہ منزل کہاں ہو؟ اور منذر بن عمرو نے مشورہ دیا کہ ان لوگوں سے آگے بڑھ کر ان کے سامنے ہو ، اسی طرح احد کے موقع پر بھی آپ نے مشورہ کیا کہ آیا مدینہ میں رہ کر لڑیں یا باہر نکلیں اور جمہور کی رائے یہی ہوئی کہ باہر میدان میں جا کر لڑنا چاہئے چنانچہ آپ نے یہی کیا اور آپ نے جنگ احزاب کے موقع پر بھی اپنے اصحاب سے مشورہ کیا کہ مدینہ کے پھلوں کی پیداوار کا تہائی حصہ دینے کا وعدہ کر کے مخالفین سے مصالحت کر لی جائے؟ تو حضرت سعد بن عبادہ اور حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اس کا انکار کیا اور آپ نے مجھے اس مشورے کو قبول کر لیا اور مصالحت چھوڑ دی ، اسی طرح آپ نے حدیبیہ والے دن اس امر کا مشورہ کیا کہ آیا مشرکین کے گھروں پر دھاوا بول دیں؟ تو حضرت صدیق نے فرمایا ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے ہمارا ارادہ صرف عمرے کا ہے چنانچہ اسے بھی آپ نے منظور فرما لیا ، اسی طرح جب منافقین نے آپ کی بیوی صاحبہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما پر تہمت لگائی تو آپ نے فرمایا اے مسلمانو مجھے مشورہ دو کہ ان لوگوں کا میں کیا کروں جو میرے گھر والوں کو بدنام کر رہے ہیں ۔ اللہ کی قسم میرے گھر والوں میں کوئی برائی نہیں اور جس شخص کے ساتھ تہمت لگا رہے ہیں واللہ میرے نزدیک تو وہ بھی بھلا آدمی ہے اور آپ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی جدائی کے لئے حضرت علی اور حضرت اسامہ سے مشورہ لیا ، غرض لڑائی کے کاموں میں اور دیگر امور میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے مشورہ کیا کرتے تھی ، اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ یہ مشورے کا حکم آپ کو بطور وجوب کے دیا تھا یا اختیاری امر تھا تاکہ لوگوں کے دل خوش رہیں ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس آیت میں حضرت ابو بکر و عمر سے مشورہ کرنے کا حکم ہے ( حاکم ) یہ دونوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حواری اور آپ کے وزیر تھے اور مسلمانوں کے باپ ہیں ( کلبی ) مسند احمد میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں بزرگوں سے فرمایا اگر تمہاری دونوں کی کسی امر میں ایک رائے ہو جائے تو میں تمہارے خلاف کبھی نہ کروں گا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ عزم کے کیا معنی ہیں تو آپ نے فرمایا جب عقلمند لوگوں سے مشورہ کیا جائے پھر ان کی مان لینا ( ابن مردویہ ) ابن ماجہ میں آپ کا یہ فرمان بھی مروی ہے کہ جس سے مشورہ کیا جائے وہ امین ہے ، ابو داؤد ترمذی نسائی وغیرہ میں بھی یہ روایت ہے ، امام ترمذی علیہ الرحمہ اسے حسن کہتے ہیں ، اور روایت میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے مشورہ لے تو اسے چاہئے بھلی بات کا مشورہ دے ( ابن ماجہ ) پھر فرمایا جب تم کسی کام کا مشورہ کر چکو پھر اس کے کرنے کا پختہ ارادہ ہو جائے تو اب اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو اللہ تعالیٰ بھروسہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔ پھر دوسری آیت کا ارشاد بالکل اسی طرح کا ہے جو پہلے گذرا ہے کہ آیت ( ۭوَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ ) 3 ۔ آل عمران:26 ) یعنی مدد صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب ہے اور حکمتوں والا ہے ، پھر حکم دیتا ہے کہ مومنوں کو توکل اور بھروسہ ذات باری پر ہی ہونا چاہئے ۔ پھر فرماتا ہے نبی کو لائق نہیں کہ وہ خیانت کرے ، ابن عباس فرماتے ہیں بدر کے دن ایک سرخ رنگ چادر نہیں ملتی تھی تو لوگوں کے کہا شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لے لی ہو اس پر یہ آیت اتری ( ترمذی ) اور روایت میں ہے کہ منافقوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی چیز کی تہمت لگائی تھی جس پر آیت ( وما کان ) اتری ، پس ثابت ہوا کہ اللہ کے رسول رسولوں کے سردار صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر قسم کی خیانت سے بیجا طرف داری سے مبرا اور منزہ ہیں خواہ وہ مال کی تقسیم ہو یا امانت کی ادائیگی ہو ، حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی جانب داری نہیں کر سکتا کہ بعض لشکریوں کو دے اور بعض کو ان کا حصہ نہ پہنچائے ، اس آیت کی یہ تفسیر بھی کی گئی ہے کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ نبی اللہ کی نازل کردہ کسی چیز کو چھپا لے اور امت تک نہ پہنچائے ۔ یغل کے معنی اور خائن یغل کو یے کے پیش سے بھی پڑھا گیا ہے تو معنی یہ ہوں گے کہ نبی کی ذات ایسی نہیں کہ ان کے پاس والے ان کی خیانت کریں ، چنانچہ حضرت قتادہ اور حضرت ربیع سے مروی ہے کہ بدر کے دن آپ کے اصحاب نے مال غنیمت میں سے تقسیم سے پہلے کچھ لیے لیا تھا اس پر یہ آیت اتری ( ابن جریر ) پھر خائن لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے اور سخت عذاب کی خبر دی جاتی ہے ۔ احادیث میں بھی اس کی بابت کچھ سخت وعید ہے چنانچہ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ سب سے بڑا خیانت کرنے والا وہ شخص ہے جو پڑوسی کے کھیت کی زمین یا اس کے گھر کی زمیں دبا لے اگر ایک ہاتھ زمین بھی ناحق اپنی طرف کر لے گا تو ساتوں زمینوں کا طوق اسے پہنایا جائے گا مسند کی ایک اور حدیث میں ہے جسے ہم حاکم بنائے اگر اس کا گھر نہ ہو تو وہ گھر بنا سکتا ہے ، بیوی نہ ہو تو کر سکتا ہے ، اس کے سوا اگر کچھ اور لے گا تو خائن ہو گا ، یہ حدیث ابو داؤد میں بھی دیگر الفاظ سے منقول ہے ، ابن جریر کی حدیث میں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں تم میں سے اس شخص کو پہچانتا ہوں جو چلاتی ہوئی بکری کو اٹھائے ہوئے قیامت کے دن آئے گا اور میرا نام لے لے کر مجھے پکارے گا میں کہدوں گا کہ میں اللہ تعالیٰ کے پاس تجھے کام نہیں آسکتا میں تو پہنچا چکا تھا اسے بھی میں پہچانتا ہوں جو اونٹ کو اٹھائے ہوئے آئے گا جو بول رہا ہو گا یہ بھی کہے گا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں کہوں گا میں تیرے لئے اللہ کے پاس کسی چیز کا مالک نہیں ہوں میں تو تبلیغ کر چکا تھا اور میں اسے بھی پہچانوں گا جو اسی طرح گھوڑے کو لادے ہوئے آئے گا جو ہنہنا رہا ہو گا وہ بھی مجھے پکارے گا اور میں کہدوں گا کہ میں تو پہنچا چکا تھا آج کچھ کام نہیں آسکتا اور اس شخص کو بھی میں پہچانتا ہوں جو کھالیں لئے ہوئے حاضر ہو گا اور کہہ رہا ہو یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں کہوں گا میں اللہ کے پاس کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا میں تجھے حق و باطل بتا چکا تھا ، یہ حدیث صحاح ستہ میں نہیں ، مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ ازد کے ایک شخص کو حاکم بنا کر بھیجا جسے ابن البتیہہ کہتے تھے یہ جب زکوٰۃ وصول کر کے آئے تو کہنے لگے یہ تو تمہارا ہے اور یہ مجھے تحفہ میں ملا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے ہم انہیں کسی کام پر بھیجتے ہیں تو آ کر کہتے ہیں یہ تمہارا اور یہ ہمارے تحفے کا یہ اپنے گھروں میں ہی بیٹھے رہتے پھر دیکھتے کہ انہیں تحفہ دیا جاتا ہے یا نہیں؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے تم میں سے جو کوئی اس میں سے کوئی چیز بھی لے لے گا وہ قیامت کے دن اسے گردن پر اٹھائے ہوئے لائے گا اونٹ ہے تو چلا رہا ہو گا ۔ گائے ہے تو بول رہی ہو گی بکری ہے تو چیخ رہی ہو گی پھر آپ نے ہاتھ اس قدر بلند کئے کہ بغلوں کی سفیدی ہمیں نظر آنے لگی اور تین مرتبہ فرمایا اے اللہ کیا میں نے پہنچا دیا ؟ مسند احمد کی ایک ضعیف حدیث میں ہے ایسے تحصیلداروں اور حاکموں کو جو تحفے ملیں وہ خیانت ہیں یہ روایت صرف مسند احمد میں ضعیف ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اگلی مطول روایت کا ماحاصل ہے ، ترمذی میں ہے حضرت معاذ بن جبل میں رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن میں بھیجا جب میں چل دیا تو آپ نے مجھے بلوایا جب میں واپس آیا تو فرمایا میں نے تمہیں صرف ایک بات کہنے کے لئے بلوایا ہے کہ میری اجازت کے بغیر تم جو کچھ لو گے وہ خیانت ہے اور ہر خائن اپنی خیانت کو لئے ہوئے قیامت کے دن آئے گا بس یہی کہنا تھا جاؤ اپنے کام میں لگو ، مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز کھڑے ہو کر خیانت کا ذکر کیا اور اس کے بڑے بڑے گناہ اور وبال بیان فرما کر ہمیں ڈرایا پھر جانوروں کو لئے ہوئے قیامت کے دن آئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد رسی کی عرض کرنے اور آپ کے انکار کر دینے کا ذکر کیا جو پہلے بیان ہو چکا ہے اس میں سونے چاندی کا ذکر بھی ہے ، یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے ، مسند احمد میں ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگ جسے ہم عامل بنائیں اور پھر وہ ہم سے ایک سوئی یا اس سے بھی ہلکی چیز چھپائے تو وہ خیانت ہے جسے لے کر وہ قیامت کے دن حاضر ہو گا ، یہ سن کر ایک سانولے رنگ کے انصاری حضرت سعید بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہو کر کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں تو عامل بننے سے دستبردار ہوتا ہوں ، فرمایا کیوں؟ کہا آپ نے جو اس طرح فرمایا ، آپ نے فرمایا ہاں اب بھی سنو ہم کوئی کام سونپیں اسے چاہئے کہ تھوڑا بہت سب کچھ لائے جو اسے دیا جائے وہ لے لے اور جس سے روک دیا جائے رک جائے ، یہ حدیث مسلم اور ابو داؤد میں بھی ہے حضرت رافع فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عموماً نماز عصر کے بعد بنو عبدالاشہل کے ہاں تشریف لے جاتے تھے اور تقریباً مغرب تک وہیں مجلس رہتی تھی ایک دن مغرب کے وقت وہاں سے واپس چلے وقت تنگ تھا تیز تیز چل رہے تھے بقیع میں آ کر فرمانے لگے تف ہے تجھے تف ہے تجھے میں سمجھا آپ مجھے فرما رہے ہیں چنانچہ میں اپنے کپڑے ٹھیک ٹھاک کرنے لگا اور پیچھے رہ گیا بلکہ یہ قبر فلاں شخص کی ہے اسے میں نے قبیلے کی طرف عامل بنا کر بھیجا تھا اس نے ایک چادر لے لی وہ چادر اب آگ بن کر اس کے اوپر بھڑک رہی ہے ۔ ( مسند احمد ) حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت کے اونٹ کی پیٹھ کے چند بال لیتے پھر فرماتے میرا بھی اس میں وہی حق ہے جو تم میں سے کسی ایک کا ، خیانت سے بچو خیانت کرنے والے کی رسوائی قیامت کے دن ہو گی سوئی دھاگے تک پہنچا دو اور اس سے حقیر چیز بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں نزدیک والوں اور دور والوں سے جہاد کرو ، وطن میں بھی اور سفر میں بھی جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جہاد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مشکلات سے اور رنج و غم سے نجات دیتا ہے ، اللہ کی حدیں نزدیک و دور والوں میں جاری کرو اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے کی ملامت تمہیں نہ روکے ( مسند احمد ) اس حدیث کا بعض حصہ ابن ماجہ میں بھی مروی ہے ، حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامل بنا کر بھیجنا چاہا تو فرمایا اے ابو مسعود جاؤ ایسا نہ ہو کہ میں تمہیں قیامت کے دن اس حال میں پاؤں کہ تمہاری پیٹھ پر اونٹ ہو جو آواز نکال رہا ہو جسے تم نے خیانت سے لے لیا ہو ، میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر تو میں نہیں جاتا آپ نے فرمایا اچھا میں تمہیں زبردستی بھیجتا بھی نہیں ( ابو داؤد ) ابن مردویہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر کوئی پتھر جہنم میں ڈالا جائے تو ستر سال تک چلتا رہے لیکن تہہ کو نہیں پہنچتا خیانت کی چیز کو اسی طرح جہنم میں پھینک دیا جائے گا ، پھر خیانت والے سے کہا جائے گا جا اسے لے آ ، یہی معنی ہیں اللہ کے اس فرمان کے آیت ( ومن یغلل یات بما غل یوم القیامتہ ) مسند احمد میں ہے کہ خیبر کی جنگ والے دن صحابہ کرام آنے لگے اور کہنے لگے فاں شہید ہے فلاں شہید ہے جب ایک شخص کی نسبت یہ کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہرگز نہیں میں نے اسے جہنم میں دیکھا ہے کیونکہ اس نے غنیمت کے مال کی ایک چادر خیانت کر لی تھی پھر آپ نے فرمایا اے عمر بن خطاب تم جاؤ اور لوگوں میں منادی کر دو کہ جنت میں صرف ایماندار ہی جائیں گے چنانچہ میں چلا اور سب میں یہ ندا کر دی ، یہ حدیث مسلم اور ترمذی میں بھی ہے امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں ، ابن جریر میں ہے کہ ایک دن حضرت عمر نے حضرت عبداللہ بن انیس سے صدقات کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نہیں سنا ؟ کہ آپ نے صدقات میں خیانت کرنے والے کی نسبت فرمایا اس میں جو شخص اونٹ یا بکری لے لے وہ قیامت والے دن اسے اٹھائے ہوئے آئے گا ۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا ہاں یہ روایت ابن ماجہ میں بھی ہے ، ابن جریر میں حضرت سعد بن عبادہ سے مروی ہے کہ انہیں صدقات وصول کرنے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجنا چاہا اور فرمایا اے سعد ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن تو بلبلاتے اونٹ کو اٹھا کر لائے تو حضرت سعد کہنے لگے کہ نہ میں اس عہدہ کو لوں اور نہ ایسا ہونے کا احتمال رہے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کام سے انہیں معاف رکھا ، مسند احمد میں ہے کہ حضرت مسلم بن عبدالملک کے ساتھ روم کی جنگ میں حضرت سالم بن عبداللہ بھی تھے ایک شخص کے اسباب میں کچھ خیانت کا مال بھی نکلا سردار لشکر نے حضرت سالم سے اس کے بارے میں فتویٰ پوچھا تو آپ نے فرمایا مجھ سے میرے باپ عبداللہ نے اور ان سے ان کی باپ عمر بن خطاب نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے اسباب میں تم چوری کا مال پاؤ اسے جلا دو ، راوی کہتا ہے میرا خیال ہے یہ بھی فرمایا اور اسے سزا دو ، چنانچہ جب اس کا مال بازار میں نکالا تو اس میں ایک قرآن شریف بھی تھا حضرت سالم سے پھر اس کی بابت پوچھا گیا آپ نے فرمایا اسے بیچ دو اور اس کی قیمت صدقہ کر دو ، یہ حدیث ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے ، امام علی بن مدینی اور امام بخاری وغیرہ فرماتے ہیں یہ حدیث منکر ہے ، امام دارقطنی فرماتے ہیں صحیح یہ ہے کہ یہ حضرت سالم کا اپنا فتویٰ ہے ، حضرت امام احمد اور ان کے ساتھیوں کا قول بھی یہی ہے ، حضرت حسن بھی یہی کہتے ہیں حضرت علی فرماتے ہیں اس کا اسباب جلا دیا جائے اور اسے مملوک کی حد سے کم مارا جائے اور اس کا حصہ نہ دیا جائے ، ابو حنیفہ مالک شافعی اور جمہور کا مذہب اس کے برخلاف ہے یہ کہتے ہیں اس کا اسباب نہ جلایا جائے بلکہ اس کے مثل اسے تعزیر یعنی سزا دی جائے ، امام بخاری فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خائن کے جنازے کی نماز سے انکار کر دیا اور اس کا اسباب نہیں جلایا ، واللہ اعلم ، مسند احمد میں ہے کہ قرآن شریفوں کے جب تغیر کا حکم کیا گیا تو حضرت ابن مسعود فرمانے لگے تم میں سے جس سے ہو سکے وہ اسے چھپا کر رکھ لے کیونکہ جو شخص جس چپز کو چھپا کر رکھ لے گا اسی کو لے کر قیامت کے روز آئے گا ، پھر فرمانے لگے میں نے ستر دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی پڑھا ہے پس کیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پڑھائی ہوئی قرأت کو چھوڑ دوں؟ امام وکیع بھی اپنی تفسیر میں اسے لائے ہیں ، ابو داؤد میں ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب مال غنیمت آتا تو آپ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیتے ایک مرتبہ ایک شخص اس کے بعد بالوں کا ایک گچھا لے کر آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس یہ رہ گیا تھا آپ نے فرمایا کیا تو نے حضرت بلال کی منادی سنی تھی؟ جو تین مرتبہ ہوئی تھی اس نے کہا ہاں فرمایا پھر تو اس وقت کیوں نہ لایا ؟ اس نے عذر بیان کیا آپ نے فرمایا اب میں ہرگز نہ لوں گا تو ہی اسے لے کر قیامت کے دن آنا ۔ اللہ دو عالم پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی شرع پر چل کر اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے مستحق ہونے والے اس کے ثوابوں کو حاصل کرنے والے اس کے عذابوں سے بچنے والے اور وہ لوگ جو اللہ کے غضب کے مستحق ہوئے اور جو مر کر جہنم میں ٹھکانا پائیں گے کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ قرآن کریم میں دوسری جگہ ہے کہ اللہ کی باتوں کو حق ماننے والا اور اس سے اندھا رہنے والا برابر نہیں ، اسی طرح فرمان ہے کہ جن سے اللہ کا اچھا وعدہ ہو چکا ہے اور جو اسے پانے والا ہے وہ اور دنیا کا نفع حاصل کرنے والا برابر نہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ بھلائی اور برائی والے مختلف درجوں پر ہیں ، وہ جنت کے درجوں میں ہیں اور یہ جہنم کے طبقوں میں جیسا کہ دوسری جگہ ہے آیت ( وَلِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا ) 6 ۔ الانعام:32 ) ہر ایک کے لئے ان کے اعمال کے مطابق درجات ہیں ۔ پھر فرمایا اللہ ان کے اعمال دیکھ رہا ہے اور عنقریب ان سب کو پورا بدلہ دے گا نہ نیکی ماری جائے گی اور نہ بدی بڑھائی جائے گی بلکہ عمل کے مطابق ہی جزا سزا ہو گی ۔ پھر فرماتا ہے کہ مومنوں پر اللہ کا بڑا احسان ہے کہ انہی کی جنس سے ان میں اپنا پیغمبر بھیجا تاکہ یہ اس سے بات چیت کر سکیں پوچھ گچھ کر سکیں ساتھ بیٹھ اٹھ سکیں اور پوری طرح نفع حاصل کر سکیں ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً ) 30 ۔ الروم:21 ) یہاں بھی یہی مطلب ہے کہ تمہاری جنس سے تمہارے جوڑے اس نے پیدا کئے اور جگہ ہے آیت ( قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّمَآ اِلٰــهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَاسْتَقِيْمُوْٓا اِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوْهُ ۭ وَوَيْلٌ لِّـلْمُشْرِكِيْنَ ) 41 ۔ فصلت:6 ) کہدے کہ میں تو تم جیسا ہی انسان ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تم سب کا معبود ایک ہی ہے ، اور فرمان ہے آیت ( وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّآ اِنَّهُمْ لَيَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَيَمْشُوْنَ فِي الْاَسْوَاقِ ) 25 ۔ الفرقان:20 ) یعنی تجھ سے پہلے بھی ہم نے مردوں کو وحی کی تھی جو بستیوں کے رہنے والے تھے اور ارشاد ہے آیت ( يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ وَيُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَا ) 6 ۔ الانعام:130 ) یعنی اے جنو اور انسانو کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی رسول نہیں آئے تھے؟ الغرض یہ پورا احسان ہے کہ مخلوق کی طرف انہی میں سے رسول بھیجے گئے تاکہ وہ پاس بیٹھ اٹھ کر بار بار سوال جواب کر کے پوری طرح دین سیکھ لیں ، پس اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ وہ اللہ کی آیتیں یعنی قرآن کریم انہیں پڑھاتا ہے اور اچھی باتوں کا حکم دے کر اور برائیوں سے روک کر ان کی جانوں کی پاکیزگی کرتا ہے اور شرک و جاہلیت کی ناپاکی کے اثرات سے زائل کرتا ہے اور انہیں کتاب اور سنت سکھاتا ہے ۔ اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے تو یہ صاف بھٹکے ہوئے تھے ظاہر برائی اور پوری جہالت میں تھے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

159۔ 1 نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو صاحب خلق عظیم تھے، اللہ تعالیٰ اپنے اس پیغمبر پر ایک احسان کا ذکر فرما رہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اندر جو نرمی اور ملائمت ہے یہ اللہ کی خاص مہربانی کا نتیجہ ہے اور یہ نرمی دعوت و تبلیغ کے لئے نہایت ضروری ہے اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اندر یہ نہ ہوتی بلکہ اس کے برعکس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تندخو اور سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے قریب ہونے کی بجائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دور بھاگتے۔ اس لئے آپ درگزر سے ہی کام لیتے رہئیے۔ 159۔ 2 یعنی مسلمانوں کی طیب خاطر کے لئے مشورہ کرلیا کریں۔ اس آیت سے مشاورت کی اہمیت، افادیت اور اس کی ضرورت و مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ مشاورت کا یہ حکم بعض کے نزدیک وجوب کے لئے اور بعض کے نزدیک استحباب کے لئے ہے (ابن کثیر) امام شوکانی لکھتے ہیں حکمرانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ علماء سے ایسے معاملات میں مشورہ کریں جن کا انہیں علم نہیں ہے۔ یا ان کے بارے میں انہیں اشکال ہیں۔ فوج کے سربراہوں سے فوجی معاملات میں، سربرآوردہ لوگوں سے عوام کے مصالح کے بارے میں اور ماتحت حکام و والیان سے ان کے علاقوں کی ضروریات و ترجیحات کے سلسلے میں مشورہ کریں "۔ ابن عطیہ کہتے ہیں کہ ایسے حکمران کے وجوب عزل پر کوئی اختلاف نہیں ہے جو اہل علم و اہل دین سے مشورہ نہیں کرتا "۔ یہ مشورہ صرف ان معاملات تک محدود ہوگا جن کی بابت شریعت خاموش ہے یا جن کا تعلق انتظامی امور سے ہے۔ (فتح القدیر) 159۔ 3 یعنی مشاورت کے بعد جس پر آپ کی رائے پختہ ہوجائے، پھر اللہ پر توکل کرکے اسے کر گزریئے۔ اس سے ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ مشاورت کے بعد بھی آخری فیصلہ حکمران کا ہی ہوگا نہ کہ ارباب مشاورت یا ان کی اکثریت کا جیسا کہ جمہوریت میں ہے۔ دوسری یہ کہ سارا اعتماد و توکل اللہ کی ذات پر ہو نہ کہ مشورہ دینے والوں کی عقل و فہم پر۔ اگلی آیت میں بھی توکل علی اللہ کی مذید تاکید ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٥٣] مسلمانوں کو یہ ہدایات دینے کے بعد پھر سے غزوہ احد کے حالات اور نتائج کا ذکر شروع ہوا ہے۔ اللہ کے رسول کی نافرمانی کے نتیجہ میں مسلمانوں کو جو سزا ملی وہ عبرت ناک تھی اور اس واقعہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نافرمانی کرنے والوں پر شدید گرفت فرماتے یا کم از کم ان سے خفا ہی ہوجاتے۔ لیکن یہ بھی اللہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ آپ مومنوں کے حق میں بہت نرم دل تھے۔ ورنہ اگر آپ سخت دل ہوتے یا کم از کم اسی نافرمانی پر شدید گرفت فرماتے تو پھر مسلمان آپ کے قریب آنے سے ہی گریز کرنے لگتے۔ اللہ تعالیٰ نے خود ان نافرمانی کرنے والوں کو اور راہ فرار اختیار کرنے والوں کو معاف کر ہی دیا تھا۔ اب اپنے پیغمبر کو ہدایت فرما دی کہ آپ بھی ان سے درگزر کیجئے اور نہ صرف درگزر فرمائیے بلکہ ان کے لیے مجھ سے بخشش بھی طلب کیجئے اور جیسے غزوہ احد سے پیشتر ان سے مشورہ کرتے اور مجلس مشاورت میں شریک کیا کرتے تھے۔ اسی طرح آئندہ بھی کیا کیجئے۔ یعنی اپنے دل میں ان کے لیے کسی قسم کا رنج نہ رہنے دیجئے۔- [١٥٤] مشورہ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ معاملہ کے سارے پہلو کھل کر سامنے آجائیں اور ہر شریک مشورہ شخص کو کھل کر اپنی رائے دینے کا موقع مل سکے۔ مشورہ صرف ان امور میں کیا جاسکتا ہے جن میں کتاب و سنت میں صریح حکم موجود نہ ہو اور جہاں صریح حکم موجود ہو وہاں مشورہ کی ضرورت نہیں رہتی اور یہ عموماً تدبیری امور میں کیا جاتا ہے۔ جیسے مثلاً جنگ کہاں لڑی جائے ؟۔ اس کا طریقہ کار کیا ہو ؟۔ قیدیوں سے کیا سلوک کیا جائے ؟ لوگوں کی معاشی اور اخلاقی بہبود کے لیے کیا طریقے استعمال کئے جائیں وغیرہ وغیرہ۔ مشورہ میں صرف یہ دیکھا جائے کہ کون سی رائے اقرب الی الحق ہے۔ یعنی کتاب و سنت کی منشا کے مطابق ہو۔ یہ رائے خواہ تھوڑے آدمیوں کی ہو یا زیادہ آدمیوں کی۔ گویا مشورہ کا اصل مقصد دلیل کی تلاش ہے۔ رائے دینے والوں کی کثرت یا قلت تعداد اس پر اثر انداز نہیں ہوتی اور کسی رائے کو اقرب الی الحق قرار دینے کا اختیار میر مجلس مشاورت کو ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر آخری فیصلہ کا اختیار میر مجلس کو ہوتا ہے اور اسی فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے کے ارادہ کا نام عزم ہے یعنی عزم کے بعد اللہ کا نام لے کر اور اس پر بھروسہ کرکے وہ کام شروع کردینا چاہئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ : یہاں جار مجرور ” بِرَحْمَۃٍ “ پہلے آنے سے ہی تاکید پیدا ہوگئی تھی، پھر ” مَا “ لا کر ” فَبِمَا رَحْمَةٍ “ میں تاکید مزید ہوگئی۔ ’ رَحْمَةٍ “ پر تنوین تعظیم کی ہے، اس لیے ترجمہ ” بڑی رحمت “ کیا ہے۔ - 2 وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ ) احد کے دن مسلمانوں نے خوف ناک غلطی کی اور میدان چھوڑ کر فرار اختیار کیا، پھر جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت سے دوبارہ جمع ہوئے تو آپ نے ان کو کسی قسم کی سرزنش نہیں کی، بلکہ حسن اخلاق سے پیش آئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” آپ کا یہ حسن خلق اور طبیعت کی نرمی اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و احسان اور رحمت کا نتیجہ ہے، ورنہ مسلمانوں کا جمع ہونا ممکن نہ تھا۔ (قرطبی) معلوم ہوا دعوت دین کے لیے نرمی اور حسن اخلاق نہایت ضروری چیزیں ہیں، بدخلقی، درشتی اور سخت دلی سے لوگ کبھی قریب نہیں آسکتے۔ - 3 فَاعْفُ عَنْھُمْ ۔۔ : یعنی جنگ میں ان سے جو غلطیاں ہوئیں وہ انھیں معاف کردیں، اللہ سے بھی ان کے لیے استغفار کریں اور مشورے سے محروم نہ کریں بلکہ برابر مشورہ کرتے رہیں۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” شاید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دل مسلمانوں سے خفا ہوا ہوگا اور چاہا ہوگا کہ اب ان سے مشورہ نہ پوچھیے، سو حق تعالیٰ نے تلقین فرمائی کہ اول مشورہ کرلینا بہتر ہے، جب ایک بات طے ہوجائے پھر پس و پیش نہ کرے۔ “ (موضح) اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جا رہا ہے کہ جب کبھی جنگ یا انتظامی قسم کا کوئی ایسا معاملہ در پیش ہو، جس میں ہماری طرف سے بذریعہ وحی کوئی متعین حکم نہ دیا جائے تو اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرلیا کرو، تاکہ ان کی دل جوئی ہو اور انھیں بعد میں باہمی مشورہ سے مل کر کام کرنے کی تربیت بھی حاصل ہو۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اکثر اہم امور میں صحابہ کرام (رض) سے مشورے فرمائے اور ان پر عمل بھی ہوا۔ (دیکھیے ابن کثیر زیر بحث آیت) اس کے بعد خلفائے راشدین بھی اس سنت پر پوری طرح کار بند رہے۔ پھر اگر مشورے کے بعد کسی چیز کا فیصلہ کرلیا جائے تو اسے پوری دل جمعی سے کر گزرنے اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دینے کا نام توکل ہے۔ چناچہ مذکور ہے کہ جنگ احد کے موقع پر کھلے میدان میں لڑائی کرنے کے فیصلے کے بعد جب آپ مسلح ہو کر تشریف لے آئے اور صحابہ کرام (رض) نے اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے آپ کی رائے کے مطابق شہر ہی میں رہ کر مقابلہ کرنے پر رضا مندی ظاہر کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا یَنْبَغِیْ لِنَبِیٍّ إِذَا لَبِسَ سَلاَحَہٗ اَنْ یَضَعَہَا حَتّٰی یُقَاتِلَ ) ” کسی نبی کے لائق نہیں کہ جب اپنا اسلحہ نہیں لے کر لڑنے سے پہلے اسے اتار دے۔ “ (قرطبی، تفسیر ثعالبی) یہ آیت اور آیت : ( وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَيْنَهُمْ ۠ ) [ الشوریٰ : ٣٨ ] اسلامی طرز حکومت کے لیے بنیادی حیثیت کی حامل ہیں۔ چناچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی زندگی میں صحابہ کرام (رض) سے بہت سے معاملات میں مشورہ کرتے تھے۔ انس (رض) بیان کرتے ہیں : ”(جنگ بدر کے موقع پر) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب ابو سفیان کے آنے کی خبر ملی تو آپ نے مشورہ کیا۔ ابوبکر و عمر (رض) نے بات کی تو آپ نے ان سے اعراض کیا۔ سعد بن عبادہ (رض) نے کھڑے ہو کر کہا : ” شاید آپ ہم ( انصار) سے پوچھنا چاہتے ہیں، اے اللہ کے رسول اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر آپ ہمیں حکم دیں کہ ہم گھوڑوں کو سمندر میں ڈال دیں تو ہم ضرور ڈال دیں گے اور اگر آپ حکم دیں کہ گھوڑوں کو برک الغماد (مدینہ سے بہت دور ایک جگہ) تک لے جائیں تو ہم ضرور لے جائیں گے۔ “ [ مسلم، الجہاد والسیر، باب غزوۃ بدر : ١٧٧٩ ] امام بخاری (رض) فرماتے ہیں : ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد خلفاء برابر دیانت دار اہل علم سے مشورہ لیتے رہے۔ “ ( قرطبی)- آج کل بہت سے لوگ مشورے اور ووٹ کو ایک چیز سمجھتے ہیں اور جمہوریت کو اسلامی شوریٰ قرار دیتے ہیں حالانکہ موجودہ جمہوریت اور اسلامی شوریٰ الگ الگ چیزیں ہیں، بلکہ جمہوریت ایک مستقل دین ہے۔ اس میں : 1 ہر اہل اور نااہل کا ووٹ برابر ہے۔ 2 اس میں عوام کی اکثریت فیصلہ کن ہے، فیصلوں میں انہی کو اللہ اور رسول کا مقام حاصل ہے، خواہ وہ سود کو حلال کردیں، یا زنا اور قوم لوط کے عمل کو۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی کوئی شرط نہیں، اگر کہیں ہے بھی تو دھوکا دینے کے لیے۔ 3 اس میں فیصلہ اکثریت کے نمائندوں کی اکثریت کا ہوتا ہے، صدر اس فیصلے کا پابند ہے، خواہ اسے غلط سمجھتا ہو یا صحیح۔ 4 ان کے ہاں مشورے کا معنی اکثریت ہے۔ جب کہ اسلام میں 1 امیر مشورہ لینے کا پابند ہے، مگر صرف ان امور میں جو قرآن و سنت میں مذکور نہ ہوں، بلکہ تدبیری اور انتظامی قسم کے ہوں۔ 2 امیر مشورہ ان لوگوں سے لے گا جو اس معاملے میں رائے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ امام شوکانی (رض) لکھتے ہیں : ” حکمرانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ علماء سے ایسے معاملات میں مشورہ کریں جن کا انھیں علم نہیں ہے، یا ان کے بارے میں انھیں اشکال ہے، فوج کے سربراہوں سے فوجی معاملات میں، سربرآوردہ لوگوں سے عوام کے مصالح کے بارے میں اور ماتحت حکام و والیان سے ان کے علاقوں کی ضروریات و ترجیحات کے متعلق مشورہ کریں۔ “ 3 مشورے کے بعد آخری فیصلہ امیر کا ہوگا، فرمایا : ( فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ ) [ آل عمران : ١٥٩ ] اگر وہ مناسب سمجھے تو اکثریت کے فیصلے پر عمل کرے اور اگر کم لوگوں میں زیادہ اہلیت والے لوگ ہونے کی وجہ سے ان کی رائے کو بہتر سمجھے تو اس پر فیصلہ کرے، کیونکہ فیصلوں کے نتائج کا آخری ذمہ دار امیر ہوگا، اکثریت نہیں اور وہ بھی اللہ پر توکل کرتے ہوئے فیصلے پر عمل کرے گا، نہ کہ مشورہ دینے والوں کی یا اپنی عقل و فہم پر۔ اگلی آیت میں پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کی تاکید ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات :- غزوہ احد میں بعض مسلمانوں کی لغزش اور میدان چھوڑنے سے جو صدمہ اور غم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچا تھا، اگرچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے طبعی اخلاق اور عادات عفو و کرم کی بنا پر ان کو اس پر کوئی ملامت نہیں کی اور کوئی معاملہ سختی کا بھی نہیں کیا، لیکن اللہ تعالیٰ کو اپنے رسول کے ساتھیوں کی دلجوئی اور ان کے دلوں میں اس غلطی پر جو صدمہ اور اپنے قصور پر جو ندامت تھی ان سب کو دھو دینا منظور ہوا تو اس آیت میں آپ کو مزید لطف و کرم کی ہدایت اور صحابہ کرام سے معاملات میں مشورہ لینے کا حکم دیا۔ - خلاصہ تفسیر - بعد اس کے (کہ صحابہ کرام سے ایسی لغزش ہوئی جس پر آپ کو ملامت اور مواخذہ کرنے کا حق تھا) خدا ہی کی رحمت کے سبب (جو کہ آپ پر ہے) آپ ان کے ساتھ نرم رہے اور اگر آپ (خدانخواستہ) تند خو سخت مزاج ہوتے تو یہ (بیچارے) آپ کے پاس سے سب منتشر ہوجاتے (پھر ان کو یہ فیوض برکات کہاں نصیب ہوتے) سو (جب آپ نے برتاؤ میں ایسی نرمی فرمائی تو ان سے جو غلطی آپ کی تعمیل حکم میں ہوگئی ہے اس کو دل سے بھی ان کو معاف کر دیجئے (اور ان سے جو غلطی اللہ تعالیٰ کے حکم میں کوتاہی سے ہوئی اس کے لئے) آپ ان کے لئے استغفار کیجئے (اگرچہ اللہ تعالیٰ نے خود انکی معافی اور مغفرت کا اعلان پہلے ہی فرما دیا تھا مگر آپ کا ان کے لئے دعا مغفرت کرنا مزید ان کے لئے مفید اور موجب تسلی ہوگا) اور ان سے خاص خاص باتوں میں (بدستور) مشورہ لیتے رہا کیجئے (تاکہ اس خصوصی لطف سے ان کے دلوں سے غم دھل جائے) پھر (مشورہ لینے کے بعد) جب آپ (کسی ایک جانب) رائے پختہ کرلیں (خواہ وہ ان کے مشورہ کے موافق ہو یا مخالف) تو اللہ تعالیٰ پر اعتماد (کر کے اس کام کو کر ڈالا) کریں بیشک اللہ تعالیٰ ایسے اعتماد کرنے والوں سے محبت رکھتے ہیں۔- معارف و مسائل - مرشد و مربی کی خاص صفات :۔- صحابہ کرام جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عشاق اور اپنی جان و مال سے زیادہ آپ کو عزیز رکھنے والے تھے، ان سے جب آپ کے حکم کے خلاف ایک لغزش صادر ہوگئی تو یہاں اسی کی طرف تو یہ خطرہ تھا کہ ان حضرات کو جب اپنی لغزش اور خلاف ورزی حکم پر تنبیہ ہو تو ان کا صدمہ حد سے بڑھ جائے، جو ان کے قلب و دماغ کو معطل کر دے۔ یا رحمت سے مایوس بنا دے، اس کا علاج تو پچھلی آیت میں بتلا دیا گیا کہ فاثا بکم غما علم اس لغزش کی سزا دنیا میں دی جا چکی ہے آخرت کا کھاتہ بیباق ہوگیا۔- دوسری طرف رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس غلطی اور لغزش کے نتیجہ میں زخمی ہوئے، جس سے جسمانی تکلیف بھی پہونچی، اور روحانی تکلیف تو پہلے ہی سے تھی، تو اس جسمانی و روحانی تکلیف سے یہ احتمال تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک میں صحابہ کرام کی طرف سے تکدر پیدا ہوجائے جو ان کی ہدایت و تلقین میں مخل ہوجائے، اس کے لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہ یہ تعلیم دینا تھی کہ آپ ان کی خطا سے درگذر فرمائیں، ان کی لغزش دل سے معاف کردیں، اور آئندہ کے لئے بھی لطف و مہربانی کا معاملہ جاری رکھیں۔ اس مضمون کو حق تعالیٰ نے ایک عجیب و غریب اسلوب بیان کے ساتھ ارشاد فرمایا، جس میں ضمنی طور پر چند اہم فوائد بھی آگئے۔- ایک یہ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان چیزوں کا حکم ایسے انداز سے دیا گیا ہے جس میں آپ کی ثناء و تعریف اور عظمت شان کا اظہار بھی ہے کہ یہ صفات آپ کے اندر پہلے سے موجود ہیں اور دوسرے اس سے پہلے فبما رحمة کا لفظ بڑھا کر یہ بھی بتلا دیا کہ ان صفات کمال کا آپ کے اندر ہونا یہ ہماری رحمت سے ہے، کسی کا ذاتی کمال نہیں پھر لفظ رحمت کو بصورت نکرہ لا کر رحمت کے عظیم اور وسیع ہونے کی طرف اشارہ کر کے یہ بھی واضح کردیا کہ یہ رحمت صرف صحابہ کرام پر ہی نہیں، بلکہ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ہے کہ آپ کو ان صفات کمال کے ساتھ متصف فرما دیا۔ اس کے بعد ایک تیسرا اہم فائدہ بعد کے جملوں سے ظاہر فرما دیا کہ یہ نرم خوئی، خوش اخلاقی، عفو و درگزر اور لطف و مہربانی کی صفات اگر آپ کے اندر نہ ہوتیں تو اصلاح خلائق کا جو کام آپ کے سپرد ہے وہ حسب منشاء انجام نہ پاتا، لوگوں کے ذریعہ اپنی اصلاح اور تزکیہ اخلاق کا فائدہ حاصل کرنے کے بجائے آپ سے بھاگ جاتے۔- اور اس سب مجموعہ سے ایک اور اہم فائدہ یہ حاصل ہوا کہ ارشاد اصلاح اور تبلیغ کے آداب اس سے معلوم ہوگئے کہ جو شخص رشد و ہدایت اور دعوت الی اللہ اور اصلاح خلق کے کام کا ارادہ کرے اس کے لئے ضروری ہے کہ یہ صفات اپنے اندر پیدا کر ے، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کے محبوب رسول کی سختی برداشت نہیں ہو سکتی تو پھر کس کی مجال ہے کہ وہ تشدد اور کج خلقی کے ساتھ خلق اللہ کو اپنے گرد جمع کرسکے اور ان کی اصلاح کا فرض انجام دے سکے۔- اس آیت میں حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اگر آپ تند خو، سخت طبیعت ہوتے تو لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہوجاتے، اس سے معلوم ہوا کہ مرشد و مبلغ کے لئے تند خوئی سخت کلامی، زہر اور اس کے کام کو ضائع کرنے والی چیز ہے۔- اس کے بعد ارشاد فرمایا فاعف عنھم یعنی ان سے جو خطا ہوگئی ہے اس کو آپ معاف فرما دیں، اس سے معلوم ہوا کہ مصلح کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ عوام کی خطاؤں کا انتقام نہ لے۔ بلکہ عفو و درگزر سے کام لے، برا کہنے والوں پر مشتعل نہ ہو، ایذا دینے والوں سے نرمی کا معاملہ کرے۔- اس کے بعد ارشاد فرمایا واستغفرلھم، یعنی آپ ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بھی مغفرت طلب کریں، جس میں یہ ہدایات ہے کہ صرف یہی نہیں کہ خود ان کی ایذاؤں پر صبر کریں۔ بلکہ دل سے ان کی خیر خواہی نہ چھوڑیں اور چونکہ سب سے بڑی خیر خواہی ان کی آخرت کی درستی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے عذب اسے بچانے کے لئے بخشش کی دعا مانگیں۔- اس کے بعد ارشاد ہے وشاورھم فی الامر یعنی حسب سابق اپنے فیصلوں اور کاموں میں ان حضرات سے مشوہ بھی لیا کریں تاکہ ان کی پوری تسلی ہوجائے، اس میں اس کی طرف ہدایت فرمائی کہ جو خیر خواہی کا داعیہ ان کے لئے قلب میں ہے عمل سے بھی اس کا اظہار کریں کہ اپنی مشاورت سے ان کو مشرف فرماویں۔- اس پوری آیت میں مصلح و مبلغ کے لئے چند صفات کا ہونا ضروری قرار دیا گیا، اول سخت کلامی اور کج خلقی سے بچنا، دوسرے ان لوگوں سے کوئی غلطی یا ان کے متعلق ایذاء کی کوئی چیز صادر ہوجائے تو انتقام کے در پے نہ ہونا بلکہ عفو و در گزر کا معاملہ کرنا، تیسرے یہ کہ ان کی خطاؤں اور لغزشوں کی وجہ سے ان کی خیر خواہی نہ چھوڑنا، ان کے لئے دعا، و استغفار بھی کرتے رہنا اور ظاہری معاملات میں ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ چھوڑا، مذکورہ آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صحابہ کرام سے مشورہ لینے کا حکم اور پھر مشورہ کے بعد طریق عمل کی ہدایت کی گئی ہے، مشورہ کے بارے میں قرآن کریم نے دو جگہ صریح حکم دیا ہے، ایک یہی آیت مذکورہ دوسرے سورة شوری کی آیت جس میں سچے مسلمانوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ایک صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ وامرھم شوری بینھم ص (٢٤: ٨٣) ” یعنی اور ان کا ہر کام آپس کے مشورہ سے ہوتا ہے۔ “ اور بعض جگہ ضمنی طور پر مشورہ کی ہدایت فرمائی ہے جیسے رضاعت کے احکام میں ارشاد فرمایا : عن تراض منھما وتشاور (٢: ٣٣٢) یعنی بچے کا دودھ چھڑانا ماں اور باپ دونوں کی رضامندی اور مشورہ سے ہونا چاہئے، مشورہ سے متعلق چند اہم مسائل قابل غور ہیں۔- پہلا مسئلہ، لفظ امر اور مشورہ کے معنی، دوسرا مسئلہ، مشورہ کی شرعی حیثیت، تیسرا مسئلہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صحابہ کرام سے مشورہ لینے کا درجہ، چوتھا مسئلہ، حکومت اسلامی میں مشورہ کا درجہ، پانچواں مسئلہ، مشورہ میں اختلاف رائے ہو تو فیصلہ کی صورت، چھٹا مسئلہ، ہر کام میں مکمل تدبیر کرنے کے بعد اللہ تعال یر توکل۔- پہلا مسئلہ لفظ امر اور شوری کی تحقیق :۔- لفظ امر کا اطلاق عربی زبان میں کئی معنی کے لئے ہوتا ہے، ایک عام معنی میں آتا ہے، جو ہر مہتمم بالشان قول و فعل کو شامل ہے، دوسرا اطلاق بمعنی حکم اور حکومت ہے، جس پر قرآن کریم میں لفظ اولی الامر محمول ہے، تیسرا اطلاق حق تعالیٰ کی ایک مخصوص صفت کے لئے ہے، جس کا ذکر قرآن مجید کی بہت سی آیات میں ہے مثلاً الا لہ الخلق والامر (٧: ٤٥) الیہ یرجع الامرکلة (١١: ٣٢١) ان الامرکلہ للہ (٣: ٤٥١) امرہ الی اللہ (٢: ٥٧٢) اور محققین کے نزدیک قل الروح میں امر ربی (٧١: ٥٨) میں بھی یہی امر مراد ہے، اب قرآن کے ارشاد وشاورھم فی الامر (٣: ٩٥١) اور وامرھم شوری بینھم (٢٤: ٨٣) میں دونوں معنی کا احتمال ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ پہلے ہی معنی مراد ہیں اور دوسرے معنی بھی اس میں شامل ہیں تو یہ بھی کچھ بعید نہیں، کیونکہ حکم اور حکومت کے معاملات سبھی خاص اہمیت رکھتے ہیں، اس لئے امر کے معنے ان آیات میں ہر اس کام کے ہیں جو خاص اہمیت رکھتا ہو، خواہ حکومت سے متعلق ہو خواہ معاملات سے، اور لفظ شوریٰ ، مشورہ، مشاورت کے معنی ہیں کسی قابل غور معاملہ میں لوگوں کی رائے حاصل کرنا، اس لئے وشاورھم فی الامر کے معنی یہ ہوئے کہ : آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا کہ آپ قابل غور معاملات میں جن میں حکومت کے متعلقہ معاملات بھی شامل ہیں، صحابہ کرام سے مشورہ لیا کریں، یعنی ان حضرات کی رائے معلوم کیا کریں۔- اسی طرح سورة شوری کی آیت ٨٣ وامرھم شوری بینھم کے معنی یہ ہوئے کہ ہر قابل غور معاملہ میں جس میں کوئی اہیمت ہو، خواہ حکم و حکومت سے متعلق ہو یا دوسرے معاملات سے، ان میں سچے مسلمانوں کی عادت مستمرہ یہ ہے کہ باہم مشوہ سے کام کیا کرتے ہیں۔- دوسرا مسئلہ مشورہ کی شرعی حیثیت :۔- اس بارے میں قرآن کریم کے ارشادات مذکورہ اور احادیث نبویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایسے معاملہ میں جس میں رائیں مختلف ہو سکتی ہیں خواہ وہ حکم و حکومت سے متعلق ہو یا کسی دوسرے معاملہ سے باہمی مشورہ لینا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کی سنت اور دنیا و آخرت میں باعث برکات ہے، قرآن و حدیث میں اس کی تائید آتی ہے اور جن معاملات کا تعلق عوام سے ہے جیسے معاملات حکومت ان میں مشورہ لینا واجب ہے (ابن کثیر)- بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت عبداللہ عمر سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص کسی کام کا ارداہ کرے اور باہم مشورہ کرنے کے بعد اس کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو صحیح اور مفید صورت کی طرف ہدایت مل جاتی ہے۔- اور ایک حدیث میں ہے کہ جب تمہارے حکام تم میں سے بہترین آدمی ہوں اور تمہارے مالدار سخی ہوں اور تمہارے معاملات آپس میں مشورہ سے طے ہوا کریں تو زمین کے اوپر رہنا تمہارے لئے بہتر ہے اور جب تمہارے حکام بدترین افراد ہوں اور تمہارے مالدار بخیل ہوں، اور تمہارے معاملات عورتوں کے سپرد ہوں تو زمین کے اندر دفن ہوجانا تمہارے زندہ رہنے سے بہتر ہوگا۔- مطلب یہ ہے کہ جب تم پر خواہش پرستی غالب آجائے کہ بھلے برے اور نافع و مضر سے قطع نظر کر کے محض عورت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنے معاملات اس کے سپرد کردو تو اس وقت کی زندگی سے تمہارے لئے موت بہتر ہے، ورنہ مشورہ میں کسی عورت کی بھی رائے لینا کوئی ممنوع نہیں، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے تعامل سے ثابت ہے اور قرآن کریم میں سورة بقرہ کی آیت ٣٣٢ جو ابھی بیان کی گئی ہے اس میں ارشاد ہے عن تراض منھما وتشاور یعنی بچہ کا دودھ چھڑانا باپ اور ماں کے باہمی مشورہ سے ہونا چاہئے، اس میں چونکہ معاملہ عورت سے متعلق ہے، اس لئے خاص طور سے عورت کے مشورہ کا پابند کیا گیا ہے۔- ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ :” یعنی جس شخص سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امین ہے اس پر لازم ہے کہ اس معاملہ میں جو کام وہ خود اپنے لئے تجویز کرتا ہے وہی رائے دوسرے کو دے اس کے خلاف کرنا خیانت ہے۔ “ یہ حدیث طبرانی نے معجم اوسط میں بسند حسن حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے (مظہری) البتہ یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ مشورہ صرف انہی چیزوں میں مسنون ہے جن کے بارے میں قرآن و حدیث کا کوئی واضح قطعی حکم موجود نہ ہو، ورنہ جہاں کوئی قطعی اور واضح حکم شرعی موجود ہو اس میں کسی سے مشورہ کی ضرورت نہیں بلکہ جائز بھی نہیں، مثلاً کوئی شخص اس میں مشورہ کرے کہ نما پڑھے یا نہیں، زکوة دے یا نہیں حج کرے یا نہیں، یہ مشورہ کی چیزیں نہیں، شرعی طور پر فرض قطعی ہیں، البتہ اس میں مشورہ کیا جاسکتا ہے کہ حج کو اس سال جائے یا آئندہ اور پانی کے جہاز سے جائے یا ہوائی جہاز سے اور خشکی کے راستہ سے جائے یا دوسرے طریق سے۔- اسی طرح زکوة کے معاملہ میں یہ مشورہ لیا جاسکتا ہے کہ اس کو کہاں اور کن لوگوں پر خرچ کیا جائے کیونکہ یہ سب امور شرعاً اختیاری ہیں۔- ایک حدیث میں خود اس کی تشریح رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ آپ کے بعد اگر ہمیں کوئی ایسا معاملہ پیش آجائے جس کا حکم صراحتا قرآن میں نازل نہیں ہوا اور آپ سے بھی اس کے متعلق کوئی ارشاد ہم نے نہ سنا ہو تو ہم کیا کریں ؟ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ایسے کام کے لئے اپنے لوگوں میں سے عبادت گذار فقہاء کو جمع کرو اور ان کے مشورہ سے اس کا فیصلہ کرو، کسی کی تنہا رائے سے فیصلہ نہ کرو۔ - اس حدیث شریف سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ مشورہ صرف دنیوی معاملات میں نہیں بلکہ جن احکام شرعیہ میں قرآن و حدیث کی صریح نصوص نہ ہوں ان احکام میں بھی باہمی مشورہ مسنون ہے اور دوسرے یہ بھی معلوم ہوا کہ مشورہ ایسے لوگوں سے لینا چاہئے جو موجودہ لوگوں میں تفقہ اور عبادت گذاری میں معروف ہوں (اخرجہ الخطیب کذا فی الروح)- نیز خطیب بغدادی نے حضرت ابوہریرہ کی ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بھی نقل کیا ہے۔- ” یعنی عقلمند آدمی سے مشورہ لو اور اس کے خلاف نہ کرو ورنہ ندامت اٹھانی ہوگی۔ “ ان دنوں حدیثوں کو ملانے سے معلوم ہوا کہ مجلس شوریٰ کے ارکان میں دو وصف ضروری ہیں ایک صاحب عقل و رائے ہونا، دوسرے عبادت گذار ہونا، جس کا حاصل ہے ذی رائے اور متقی ہونا اور اگر مسئلہ شرعی ہے تو فقیہ ہونا بھی لازم ہے۔- تیسرا مسئلہ : رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صحابہ کرام سے مشورہ لینے کا درجہ :۔ - آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا حکم دیا گیا ہے کہ صحابہ کرام سے مشورہ لیں، اس میں یہ اشکال ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول اور صاحب وحی ہیں، آپ کو کسی سے مشورہ کی کیا حاجت ہے آپ کو ہر چیز حق تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی معلوم ہو سکتی ہے اس نے بعض علماء نے اس حکم مشورہ کو اس پر محمول کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہ مشورہ کی ضرورت تھی نہ اس مشورہ پر آپ کے کسی کام کا مدار تھا، صرف صحابہ کرام کے اعزاز اور دل جوئی کے لئے مشورہ کا حکم آپ کو دیا گیا ہے لیکن امام ابوبکر حصاص نے فرمایا کہ یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر یہ معلوم ہو کہ ہمارے مشورہ پر کوئی عمل نہیں ہوگا اور نہ مشورہ کا کسی کام پر کوئی اثر ہے تو پھر اس مشورہ پر کوئی دل جوئی اور اعزاز بھی نہیں رہتا، بلکہ حقیقت امر یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عام امور میں تو براہ راست حق تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی ایک طریق کار متعین کردیا جاتا ہے، مگر بمقضائے حکمت و رحمت بعض امور کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رائے اور صوابدید پر چھوڑدیا جاتا ہے، ایسے ہی امور میں مشورہ کی ضرورت ہوتی ہے اور اسی قسم کے امور میں مشورہ لینے کا آپ کو حکم دیا گیا، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجالس مشاورت کی تاریخ بھی یہی بتلاتی ہے۔- آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ بدر کے لئے صحابہ کرام سے مشورہ لیا تو صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اگر آپ ہمیں دریا میں کود پڑنے کا حکم دیں تو ہم اس میں کود پڑیں گے اور اگر آپ ہمیں برک الغماد جیسے دور دراز مقام کی طرف چلنے کا ارشاد فرمائیں گے تو ہم آپ کے ساتھ ہوں گے، ہم موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں کی طرح یہ نہ کہیں گے کہ آپ اور آپ کا رب کفار سے مقابلہ کریں، بلکہ ہم یہ عرض کریں گے کہ آپ تشریف لے چلیں ہم آپ کے ساتھ آپ سے آگے اور پیچھے اور دائیں بائیں دشمن کا مقابلہ کریں گے۔- اسی طرح غزوہ احد میں اس بارے میں مشورہ کیا کہ کیا مدینہ شہر کے اندر رہ کر مدافعت کریں یا شہر سے باہر نکل کر، عام طور سے صحابہ کرام کی رائے باہر نکلنے کی ہوئی، تو آپ نے اسی کو قبول فرمایا، غزوہ خندق میں ایک خاص معاہدہ پر صلح کرنے کا معاملہ پیش آیا، تو سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ نے اس معاہدہ کو مناسب نہ سمجھ کر اختلاف کیا، آپ نے انہی دونوں کی رائے قبول فرمائیں، حدیبیہ کے ایک معاملہ میں مشورہ لیا تو صدیق اکبر کی رائے پر فیصلہ فرما دیا۔ قصہ افک میں صحابہ کرام سے مشورہ لیا، یہ سب معاملات وہ تھے جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بذریعہ وحی کوئی خاص جانب متعین نہیں کی گئی تھی۔- خلاصہ یہ ہے کہ نبوت و رسالت اور صاحب وحی ہونا کچھ مشورہ کے منافی نہیں اور یہ بھی نہیں کہ یہ مشوہ محض نمائشی دل جوئی کے لئے ہو، اس کا اثر معاملات پر نہ ہو بلکہ بہت مرتبہ مشورہ دینے والوں کی رائے کو آپ نے اپنی رائے کے خلاف بھی قبول فرما لیا، بلکہ بعض امور میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے بذریعہ وحی کوئی خاص صورت متعین نہ فرمانے اور مشورہ لے کر کام کرنے میں حکمت و مصلحت یہ بھی ہے کہ آئندہ امت کے لئے ایک سنت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عمل سے جاری ہوجائے کہ جب آپ کو بھی مشورہ سے استثناء نہیں تو پھر ایسا کون ہے جو استغناء کا دعویٰ کرسکے، اسی لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام میں ایسے مسائل میں مشاورت کا طریق ہمیشہ جاری رہا، جن میں کوئی نص شرعی نہ تھی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد صحابہ کرام کا بھی یہی معمول رہا، بلکہ بعد میں تو ایسے احکام شرعیہ کی دریافت کے لئے بھی مشورہ کا معمول رہا جن میں قرآن و حدیث کا کوئی صریح فیصلہ نہ تھا، کیونکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سوال کو جواب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی طریق کار بتلایا تھا۔- چوتھا مسئلہ :۔ حکومت اسلامی میں مشورہ کا درجہ کیا ہے :- جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ قرآن کریم نے دو جگہ مشورے کا صریح حکم دیا ہے، ایک یہی آیت مذکورہ اور دوسرے سورة شوری کی آیت جس میں سچے مسلمانوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ایک صفت یہ بیان فرمائی گئی ہے وامرھم شوری بینھم (٢٤: ٨٣) یعنی اور ان کا کام آپس کے مشورہ سے ہوتا ہے ان دونوں جگہ پر مشورہ کے ساتھ لفظ امر مذکور ہے، اور لفظ امر کی مفصل تحقیق اوپر بیان ہوچکی ہے کہ ہر مہتمم بالشان قول و فعل کو بھی کہا جاتا ہے اور حکم اور حکومت کے لئے بھی بولا جاتا ہے، امر کے خواہ معنی اول مراد لیں یا دوسرے معنی، حکمت کے معاملات میں مشورہ لینا بہرصورت ان آیات سے ضروری معلوم ہوتا ہے حکم یا حکومت مراد لینے کی صورت میں تو ظاہر ہی ہے اور اگر معنی عام لئے جائیں جب بھی حکم اور حکومت کے معاملات مہتمم بالشان ہونے کی حیثیت سے قابل مشورہ ٹھہریں گے، اس لئے امیر اسلام کے فرائض میں سے ہے کہ حکومت کے اہم معاملات میں اہل حل و عقد سے مشورہ لیا کرے، قرآن کی آیات مذکورہ اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفائے راشدین کا مسلسل تعامل اس کی روشن سند ہے۔- ان دونوں آیتوں میں جس طرح معاملات حکومت میں مشورہ کی ضرورت واضح ہوئی اسی طرح ان سے اسلام کے طرز حکومت اور آئین کے کچھ بنیادی اصول بھی سامنے آگئے کہ اسلامی حکومت ایک شورائی حکومت ہے، جس میں امیر کا انتخاب مشورہ سے ہوتا ہے، خاندانی وراثت سے نہیں، آج تو اسلامی تعلیمات کی برکت سے پوری دنیا میں اس اصول کا لوہا مانا جا چکا ہے۔ شخصی بادشاہتیں بھی طوعاً و کرباً اسی طرف آ رہی ہیں، لیکن اب سے چودہ سو برس پہلے زمانہ کی طرف مڑ کر دیکھئے جبکہ پوری دنیا پر آج کے تین بڑوں کی جگہ دو بڑوں کی حکومت تھی، ایک کسری دوسرا قیصر اور ان دونوں کے آئین حکومت شخصی اور وراثتی بادشاہت ہونے میں مشترک تھے، جس میں ایک شخص واحد لاکھوں کروڑوں انسانوں پر اپنی قابلیت و صلاحیت سے نہیں، بلکہ وراثت کے ظالمانہ اصولوں کی بناء پر حکومت کرتا تھا اور انسانوں کو پالتو جانوروں کا درجہ دینا بھی بادشاہی انعام سمجھا جاتا تھا، یہی نظریہ حکومت دنیا کے بیشتر حصہ پر مسلط تھا، صرف یونان میں جمہوریت کے چند دھندلے اور ناتمام نقوش پائے جاتے تھے، لیکن وہ بھی اتنے ناقص اور مدھم تھے کہ ان پر کسی مملکت کی بنیاد رکھنا مشکل تھا، اسی وجہ سے جمہوریت کے ان یونانی اصولوں پر کبھی کوئی مستحکم حکومت نہیں بن سکی، بلکہ وہ اصول ارسطو کے فلسفہ کی ایک شاخ بن کر رہ گئے۔ اس کے برخلاف اسلام نے حکومت میں وراثت کا غیر فطری اصول باطل کر کے امیر مملکت کا عزل و نصب جمہور کے اختیار میں دیدیا، جس کو وہ اپنے نمائندوں اہل حل و عقد کے ذریعہ استعمال کرسکیں، بادشاہ پرستی کی دلدل میں پھنسی ہوئی دنیا اسلامی تعلیمات ہی کے ذریعہ اس عادلانہ اور فطری نظام سے آشنا ہوئی اور یہی روح ہے اسی طرز حکومت کی جس کو آج جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے۔ لیکن موجودہ طرز کی جمہوریتیں چونکہ بادشاہی ظلم و ستم کے ردعمل کے طور پر وجود میں آئیں تو وہ بھی اس بداعتدالی کے ساتھ آئیں کہ عوام کو مطلقا العنان بنا کر پورے آئین حکومت اور قانون مملکت کا ایسا آزاد مالک بنایا کہ ان کے قلب و دماغ زمین و آسمان اور تمام انسانوں کے پیدا کرنے والے خدا اور اس کی اصل ملکیت و حکومت کے تصور سے بھی بیگانہ ہوگئے، اب ان کی جمہوریت اللہ تعالیٰ ہی کے بخشے ہوئے عوامی اختیار پر اللہ تعالیٰ کی عائد کردہ پابندیوں کو بھی بار خاطر خلاف انصاف تصور کرنے لگیں۔- اسلامی آئین نے جس طرح خلق خدا کو کسری و قیصر اور دوسری شخصی بادشاہتوں کے جبر و استبداد کے پنجہ سے نجات دلائی، اسی طرح ناخدا آشنا مغربی جمہوریتوں کو بھی خدا شناسی، اور خدا پرستی کا راستہ دکھلایا اور بتلایا کہ ملک کے حکام ہوں یا عوام اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے قانون کے سب پابند ہیں، ان کے عوام اور عوامی اسمبلی کے اختیارات، قانون سازی، عزل و نصب اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حدود کے اندر ہیں، ان پر لازم ہے کہ امیر کے انتخاب میں اور پھر عہدوں اور منصوبوں کی تقسیم میں ایک طرف قابلیت اور صلاحیت کی پوری رعایت کریں تو دوسری طرف ان کی دیانت و امانت کو پرکھیں، اپنا امیر ایسے شخص کو منتخب کریں جو علم، تقوی، دیانت، امانت، صلاحیت اور سیاسی تجربہ میں سب سے بہتر ہو، پھر یہ امیر منتخب بھی آزاد اور مطلق العنان نہیں، بلکہ اہل الرائے سے مشورہ لینے کا پابند رہے، قرآن کریم کی آیت مذکورہ اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفائے راشدین کا تعامل اس پر شاہد عدل ہیں، حضرت عمر کا ارشاد ہے۔- ” یعنی شورائیت کے بغیر خلافت نہیں ہے۔ “- (کنزالعمال بحوالہ ابن ابی شیبة)- شورائیت اور مشورہ کو اسلامی حکومت کے لئے اساسی اور بنیادی حیثیت حاصل ہے حتیٰ کہ اگر امیر مملکت مشورہ سے آزاد ہوجائے یا ایسے لوگوں سے مشورہ لے جو شرعی نقطہ نظر سے مشورہ کے اہل نہ ہوں تو اس کا عزل کرنا ضروری ہے۔- ” ابن عطیہ نے فرمایا کہ شورائیت شریعت کے قواعد اور بنیادی اصولوں میں سے ہے جو امیر اہل علم اور اہل دین سے مشورہ نہ لے، اس کا عزل کرنا واجب ہے اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں کسی کا اختلاف نہیں۔ “- مشورہ کے ضروری ہونے سے اسلامی حکومت اور اس کے باشندوں پر جو ثمرات اور برکات حاصل ہوں گے، اس کا اندازہ اس سے لگایئے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشورہ کو رحمت سے تعبیر فرمایا، ابن عدی اور بیہقی نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول کو اس مشورہ کی حاجت نہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو امیری امت کے لئے ایک رحمت بنایا ہے (بیان القرآن)- مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اپنے رسول کو ہر کام بذریعہ وحی بتلا دیتا، کسی کام میں بھی مشورہ کی ضرورت نہ چھوڑتا، لیکن امت کی مصلحت اس میں تھی کہ آپ کے ذریعے مشورہ کی سنت جاری کرائی جائے، اس لئے بہت سے امور ایسے چھوڑ دیئے جن میں صراحتا کوئی وحی نازل نہیں ہوئی، ان میں آپ کو مشورہ لینے کی ہدایت فرمائی گئی۔- پانچواں مسئلہ : مشورہ میں اختلاف رائے ہوجائے، تو فیصلہ کی کیا صورت ہوگی ؟:۔- مشورہ میں اگر اختلاف رائے ہوجائے تو کیا آج کل کے پارلیمانی اصول پر اکثریت کا فیصلہ نافذ کرنے پر امیر مجبور ہوگا، یا اس کو اختیار ہوگا کہ اکثریت ہو یا اقلیت جس طرف دلائل کی قوت اور مملکت کی مصلحت زیادہ نظر آئے اس کو اختیار کرے ؟ قرآن و حدیث اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کے تعامل سے یہ امر ثابت نہیں ہوتا کہ اختلاف رائے کی صورت میں امیر اکثریت رائے کے فیصلہ کا پابند و مجبور ہے، بلکہ قرآن کریم کے بعض اشارات اور حدیث اور تعامل صحابہ کی تصریحات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اختلاف رائے کی صورت میں امیر اپنی صوابدید کے مطابق کسی ایک صورت کو اختیار کرسکتا ہے، خواہ اکثریت کے مطابق ہو یا اقلیت کے، البتہ امیر اپنا اطمینان حاصل کرنے کے لئے جس طرح دوسرے دلائل پر نظر کرے گا اسی طرح اکثریت کا ایک چیز پر متفق ہونا بھی بعض اوقات اس کے لئے سبب اطمینان بن سکتا ہے۔- آیت مذکورہ میں غور فرمایئے، اس میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشورہ کا حکم دینے کے بعد فرمایا گیا ہے فاذا عزمت فتوکل علے اللہ، یعنی مشورہ کے بعد آپ جب کسی جانب کو طے کر کے عزم کرلیں تو پھر اللہ پر بھروسہ کیجئے، اس میں عزمت کے لفظ میں عزم یعنی نفاذ حکم کا پختہ ارادہ صرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منسوب کیا گیا۔ عزمتم نہیں فرمایا جس سے عزم و تنفیذ میں صحابہ کی شرکت معلوم ہوتی، اس کے اشارہ سے ثابت ہوتا ہے کہ مشورہ لینے کے بعد نفاذ اور عزم صرف امیر کا معتبرہ ے، حضرت عمر بن الخطاب بعض وقت دلائل کے لحاظ سے اگر عبداللہ بن عباس کی رائے زیادہ مضبوط ہوتی تھی تو ان کی رائے پر فیصلہ نافذ فرماتے تھے، حالانکہ مجلس میں اکثر ایسے صحابہ موجود ہوتے تھے، جو ابن عباس سے عمر اور علم اور تعداد میں زیادہ ہوتے تھے، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت مرتبہ حضرات شیخین صدق اکبر اور فاروق اعظم کی رائے کو جمہور صحابہ کے مقابلہ میں ترجیح دی ہے، حتی کہ یہ سمجھا جانے لگا کہ آیت مذکورہ صرف ان دونوں حضرات سے مشورہ لینے کے لئے نازل ہوئی۔ حاکم نے مستدرک میں اپنی سند کے ساتھ ابن عباس سے روایت کیا ہے :- ” ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس آیت میں شاورھم کی ضمیر سے مراد حضرات شیخین ہیں۔ “” ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ آیت حضرت ابوبکر و عمر سے مشورہ لینے کے بارے میں نازل ہوئی ہے، یہ دونوں حضرات جناب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاص صحابی اور وزیر تھے، اور مسلمانوں کے مربی تھے۔ “- رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ حضرات شیخین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا۔- ” جب تم دونوں کسی رائے پر متفق ہوجاؤ تو میں تم دونوں کے خلاف نہیں کرتا۔- ایک اشکال اور اس کا جواب :۔- یہاں یہ اشکال کیا جاسکتا ہے کہ یہ تو جمہوریت کے منافی ہے، اور شخصی حکومت کا طرز ہے اور اس سے جمہور کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔- جواب یہ ہے کہ اسلامی آئین نے اس کی رعایت پہلے کرلی ہے، کیونکہ عوام کو یہ اختیار ہی نہیں دیا کہ جس کو چاہیں امیر بنادیں بلکہ ان پر لازمی قرار دیا ہے کہ علم و عمل اور صلاحیت کار اور خدا ترسی اور دیانت کی رو سے جس شخص کو سب سے بہتر سمجھیں صرف اس کو امیر منتخب کریں تو جس شخص کو ان اعلی اوصاف اور اعلی صفات کے تحت منتخب کیا گیا ہو، اس پر ایسی پابندیاں عائد کرنا جو بد دیانت اور فساق، فجار پر عائد کی جاتی ہیں، عقول انصاف کا خون کرنا اور کام کرنے والوں کی ہمت شکنی اور ملک و ملت کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہوگا۔- چھٹا مسئلہ :۔ ہر کام میں مکمل تدبیر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا :- اس جگہ یہ بات بہت ہی قابل غور ہے کہ نظام حکومت اور دوسرے اہم امور میں تدبیر اور مشورہ کے احکام کے بعد یہ ہدایت دی گئی ہے کہ سب تدبیریں کرنے کے بعد بھی جب کام کرنے کا عزم کرو تو اپنی عقل و رائے اور تدبیروں پر بھروسہ نہ کرو بلکہ بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ پر کرو، کیونکہ یہ سب تدبیر مدبر الامور کے قبضہ قدرت میں ہیں، انسان کیا اور اس کی رائے و تدبیر کیا، ہر انسان اپنی عمر کو ہزاروں واقعات میں ان چیزوں کی رسوائی کا مشاہدہ کرتا رہتا ہے۔ مولانا رومی نے خوب فرمایا ہے۔- خویش رادیدیم و رسوائی خویش - امتحان مامکن اے شاہ بیش - اس جملہ فاذا عزمت فتوکل علی اللہ سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ توکل ترک اسباب اور ترک تدبیر کا نام نہیں بلکہ اسباب قریبہ کو چھوڑ کر توکل کرنا سنت انبیاء اور تعلیم قرآن کے خلاف ہے، ہاں اسباب بعیدہ اور دور دراز کار فکروں میں پڑے رہنا یا صرف اسباب اور تدابیر ہی کو مؤ ثر سمجھ کر مسبب الاسباب اور مدبر الامور سے غافل ہوجانا بیشک خلاف توکل ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ۝ ٠ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ۝ ٠۠ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ۝ ٠ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ۝ ١٥٩- لين - اللِّينُ : ضدّ الخشونة، ويستعمل ذلک في الأجسام، ثمّ يستعار للخلق وغیره من المعاني، فيقال : فلان لَيِّنٌ ، وفلان خشن، وكلّ واحد منهما يمدح به طورا، ويذمّ به طورا بحسب اختلاف المواقع . قال تعالی: فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ [ آل عمران 159] ، وقوله : ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر 23] فإشارة إلى إذعانهم للحقّ وقبولهم له بعد تأبّيهم منه، وإنكارهم إيّاه، وقوله : ما قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ [ الحشر 5] أي : من نخلة ناعمة، ومخرجه مخرج فعلة نحو : حنطة، ولا يختصّ بنوع منه دون نوع .- ( ل ی ن ) اللین - کے معنی نر می کے ہیں اور یہ خشونت کی ضد ہے اصل میں تو یہ اجسام کے لئے استعمال ہوتے ہیں مگر استعارہ اخلاق وغیرہ یعنیمعافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ چناچہ فلان لین یا خشن کے معنی ہیں فلاں نرم یا د رشت مزاج ہے اور یہ دونوں لفظ حسب موقع ومحل کبھی مدح کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔ اور کبھی مذمت کے لئے آتے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ [ آل عمران 159]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) خدا کی مہر بانی سے تمہاری افتاد ومزاج ان لوگوں کے لئے نرم واقع ہوئی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر 23] پھر ان کی کھالیں اور ان کے دل نرم ہو کر خدا کی یاد کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں ۔ میں اس معنی کی طرف اشارہ ہے کہ اباء اور انکار کے بعد وہ حق کے سامنے سر نگوں ہوجاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ما قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ [ الحشر 5] مومنوں کجھور کے جو در خت تم نے کاٹ ڈالے میں لینۃ کے معنی نرم ونازک کھجور کا درخت ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جیسے حنطۃ تاہم یہ مخلتف انواع میں سے ایک نوع کے لئے مخصو ص نہیں ہے ۔- فظ - الفَظُّ : الكريه الخلق، مستعار من الفَظِّ ، أي : ماء الکرش، وذلک مکروه شربه لا يتناول إلّا في أشدّ ضرورة . قال تعالی: وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ [ آل عمران 159] .- ( ف ظ ظ ) الفظ کے معنی بد مزاج کے ہیں اور یہ اس فظ سے مستعار ہے جس کے معنی اونٹ کے اوجھر میں جمع رہنے والا پانی کے ہیں جو سخت ضرورت کے وقت بادل نخواستہ پا یا جاتا ہے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ [ آل عمران 159] اور اگر تم بد خو اور سخت دل ہوتے ۔ غلظ - الغِلْظَةُ ضدّ الرّقّة، ويقال : غِلْظَةٌ وغُلْظَةٌ ، وأصله أن يستعمل في الأجسام لکن قد يستعار للمعاني كالكبير والکثير . قال تعالی:- وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً [ التوبة 123] ، أي : خشونة . وقال : ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلى عَذابٍ غَلِيظٍ [ لقمان 24] ، مِنْ عَذابٍ غَلِيظٍ [هود 58] ، وجاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ [ التوبة 73] ، واسْتَغْلَظَ : تهيّأ لذلک، وقد يقال إذا غَلُظَ. قال : فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح 29] .- ( ع ل ظ ) الغلظۃ - ( غین کے کسرہ اور ضمہ کے ساتھ ) کے معنی موٹاپا یا گاڑھازپن کے ہیں یہ رقتہ کی ضد ہے اصل میں یہ اجسام کی صفت ہے ۔ لیکن کبیر کثیر کی طرح بطور استعارہ معانی کے لئے بھی استعمال ہوتاز ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً [ التوبة 123] چاہئے کہ وہ تم میں سختی محسوس کریں میں غلظتہ کے معنی سخت مزاجی کے ہیں ۔ نیز فرمایا۔ ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلى عَذابٍ غَلِيظٍ [ لقمان 24] پھر عذاب شدید کی طرف مجبور کر کے لیجائیں گے ۔ مِنْ عَذابٍ غَلِيظٍ [هود 58] عذاب شدید سے ۔ وجاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ [ التوبة 73] کافروں اور منافقوں سے لڑو اور ان پر سختی کرو ۔ استغلظ کے معنی موٹا اور سخت ہونے کو تیار ہوجانا ہیں اور کبھی موٹا اور سخت ہوجانے پر بھی بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح 29] پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - فض - الفَضُّ : کسر الشیء والتّفریق بين بعضه وبعضه، كفَضِّ ختم الکتاب، وعنه استعیر : انْفَضَّ القومُ. قال اللہ تعالی: وَإِذا رَأَوْا تِجارَةً أَوْ لَهْواً انْفَضُّوا إِلَيْها - [ الجمعة 11] ، لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ [ آل عمران 159] ، والفِضَّةُ- اختصّت بأدون المتعامل بها من الجواهر، ودرع فَضْفَاضَةٌ ، وفَضْفَاضٌ: واسعة .- ( ف ض ض ) الفض کے معنی کسی چیز کو توڑنے اور ریزہ ریزہ کرنے کے ہیں جیسے فض ختم الکتاب : خط کی مہر کو توڑ نا اسی سے انقض القوم کا محاورہ مستعار ہے جس کے معنی متفرق اور منتشر ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں : ۔ وَإِذا رَأَوْا تِجارَةً أَوْ لَهْواً انْفَضُّوا إِلَيْها[ الجمعة 11] اور جب یہ لوگ سودابکتا یا تماشا ہوتا دیکھتے ہیں تو ادھر بھاگ جاتے ہیں ۔ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ [ آل عمران 159] تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھٹرے ہوتے ۔ والفِضَّةُچاندی یعنی وہ ادنی جو ہر جس کے ذریعہ لین دین کیا جاتا ہے ۔ درع فضفا ضۃ وفضفا ض فراخ زرہ ۔ - عفو - فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237]- ( ع ف و ) عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ - استغفار - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] - ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ - مَشُورَةُ :- والتَّشَاوُرُ والْمُشَاوَرَةُ والْمَشُورَةُ : استخراج الرّأي بمراجعة البعض إلى البعض، من قولهم : شِرْتُ العسل : إذا اتّخذته من موضعه، واستخرجته منه . قال اللہ تعالی: وَشاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ [ آل عمران 159] ، والشُّورَى: الأمر الذي يُتَشَاوَرُ فيه . قال : وَأَمْرُهُمْ شُوری بَيْنَهُمْ [ الشوری 38] .- اور التشاور والمشاورہ والمشورۃ کے معنی ہیں ایک دوسرے کی طرف بات لوٹا کر رائے معلوم کرنا ۔ یہ بھی شرت العسل سے مشتق ہے جس کے معنی چھتہ سے شہد نکالنا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَشاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ [ آل عمران 159] اور اپنے کا موں میں ان سے مشورہ لیا کرو۔ الشوری ہر وہ امر جس میں مشورہ کیا جائے قرآن میں ہے : ۔ وَأَمْرُهُمْ شُوری بَيْنَهُمْ [ الشوری 38] اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں ۔- عزم - العَزْمُ والعَزِيمَةُ : عقد القلب علی إمضاء الأمر، يقال : عَزَمْتُ الأمرَ ، وعَزَمْتُ عليه، واعْتَزَمْتُ. قال : فَإِذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ [ آل عمران 159] ، وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكاحِ [ البقرة 235] ، وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلاقَ [ البقرة 227] ، إِنَّ ذلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ [ الشوری 43] ، وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ، أي : محافظة علی ما أمر به وعَزِيمَةً علی القیام - ( ع ز م ) العزم - والعزیمۃ کسی کام کو قطعی اور حتمی طور پر کرنے کا ارادہ کرنا عزمت الامر وعزمت علیہ واعتزمت میں نے اس کام کو قطعی طور پر کرنے کا ارادہ کرلیا قرآن میں ہے : ۔ فَإِذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ [ آل عمران 159] جب کسی کام کا عزم مصمم کرلو تو خدا پر بھروسہ رکھو ۔ وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكاحِ [ البقرة 235] اور نکاح کا پختہ ارادہ نہ کرنا ۔ وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلاقَ [ البقرة 227] اور اگر طلاق کا ارادہ کرلیں إِنَّ ذلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ [ الشوری 43] بیشک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں ۔ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ پایا ۔ یعنی جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا اسکی حفاظت کرنے اور اسے بجا لانے میں ثابت قدم نہ پایا - وكل - والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال :- تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] - ( و ک ل) التوکل ( تفعل )- اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ - حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم۔ اے پیغمبر یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو) یہاں یہ کہا گیا ہے کہ حرف، ما، صلہ کے معنی دے رہا ہے یعنی فبرحمۃ من اللہ قتادہ سے اس قول کی روایت کی گئی ہے جیسا کہ یہ ارشاد باری ہے (عما قلیل لیصبحن ناد مین جلد ہی یہ لوگ نادم ہوجائیں گے) نیز قول باری ہے (فبما نقضھم میثاقھم، ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ سے کیے گئے میثاق کو توڑدینے کی بناپر) اس پر اہل لغت کا اتفاق ہے ان کا قول ہے کہ یہ حرف تاکید کے معنی دیتا ہے اور اس سے الفاظ کی نشست میں حسن پیدا ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ اعشیٰ کا شع رہے۔- ؎ اذھبی ماالیک ادرکنی الحلم عدانی عن ھیجم اشفاقی - اپنے کام سے کام رکھو، میرے اندرتحمل اور بردباری کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے اور تمھارے بھڑک اٹھنے کے بارے میں میراخوف مجھ سے آگے چلا گیا ہے۔ یعنی ختم ہوچکا ہے۔- یہاں حرف ما، زائد ہے۔- جولوگ قرآن میں مجاز کی نفی کے قائل ہیں ان کے قول کی یہاں تردید ہورہی ہے اس لیے کہ یہاں حرف، ما، کا ذکرمجانراکہوا ہے اور کلام سے اسے ساقط کردینے کی وجہ سے معنی میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی ۔- داعی الی اللہ کو نرم دل اور خوش اخلاق ہونا چاہے - قول باری ہے (ولوکنت فظاغلیظ القلب لانفضوامن جولک، ورنہ اگر کہیں تم تندخو اورسنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردوپیش سے چھٹ جاتے) یہ آیت دعوالی اللہ کے سلسلے میں نرمی اور نرم خوئی اختیار کرنے اور تندخوئی اور سنگ دلی ترک کرنے کے وجوب پر دلالت کررہی ہے، جیسا کہ ایک مقام پر ارشاد ہوا ہے (ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلھم بالتیھی احسن۔ آپ اپنے پروردگار کی راہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعے بلائیے اور ان کے ساتھ پسند یدہ طریقے سے بحث کیجئے) اسی طرح حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا (فقولالہ قولا لینا لعلہ یتذکراؤیخشیٰ تم دونوں فرعون سے نرم انداز میں بات کروشایدا سے نصیحت ہوجائے یاڈرپیدا ہوجائے)- مجلس شوری کے فوائد - قول باری ہے (وشاورھم فی الامر اوردین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو) یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل ہوئی تھی۔ اس بناپر آپ کو اس چیز کی مطلقا ضرورت نہیں تھی کہ کسی مسئلے میں درست رائے معلوم کرنے کے لیے صحابہ کرام سے رجوع کریں یا ان کے مشوروں پرچلیں۔ پھر آپ کہ اس آیت میں ان سے مشورہ کرنے کا کیوں حکم دیا گیا ؟ اس سوال کے مختلف جوابات دیے گئے ہیں۔ قتادہ، ربیع بن انس اور محمد بن اسحاق کا قول ہے، کہ یہ حکم صرف صحابہ کرام کے دلوں کو خوش کرنے اور ان کی حیثیت بلند کرنے کی خاطردیا گیا تھا، اس لیے کہ ان کی رائے پر اعتماد کیا جاسکتا تھا اور مشورے کے لیے ان کی طرف رجوع بھی کیا جاسکتا تھا۔ سفیان بن عیینہ کا قول ہے کہ اس حکم کا مقصدیہ ہے کہ اس معاملے میں امت آپ کی پیروی کرے اور اس میں اپنی کسرشان نہ سمجھے جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی اس پہلو سے تعریف فرمائی ہے کہ ان کے امور باہمی مشوروں ہے طے ہوتے ہیں۔ حسن اور ضحاک کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس حکم کے ذریعے تمام صحابہ کرام کو مشاورت میں اس لیے شامل کردیا کہ ان کی جلالت قدرظاہرہوجائے اور امت اس مسئلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نقش قدم پرچلے۔- بعض اہل علم کا قول ہے کہ آپ کو صرف ان ہی مقامات میں مشورہ لینے کا حکم دیا گیا ہے، جو منصوص نہیں ہیں۔ اس قول کی مزید وضاحت میں ایک گروہ نے کہا ہے کہ صرف دنیاوی امور میں مشاورت کا حکم دیاگیا ہے۔ اس گروہ کے خیال میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دین کے کسی معاملے میں اپنے اجتہاد سے کوئی بات نہیں کہہ سکتے۔ البتہ دنیاوی امور میں یہ صورت پیدا ہوسکتی ہے۔ اس لیے یہ جائز ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان امور میں ان کی آراء سے مددلے لیں اور آپ کو تدبیر کی حد میں ایسی وجوہ کا علم ہوجائے کہ اگر صحابہ کرام کا مشورہ اور ان کی رائے نہ ہوتی تو آپ کو ان کا علم نہیں ہوسکتا تھا۔ معرکہ بدر کے ون حباب بن المنزرنے آپ کو پانی یعنی چشمے پر پڑاؤ ڈالنے کا مشورہ دیا تھا جسے آپ نے قبول کرلیا۔ اسی طرح حضرت سعدبن عبادہ (رض) اور سعدبن معا (رض) ذنے خندق کی جنگ میں بنوغطفان کو قریش سے توڑنے کے لیے مدینہ کے پھلوں کے ایک حصے پر مصالحت نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا، اپ نے ان کا یہ مشورہ قبول کرلیا تھا اور تحریرپھاڑدی تھی۔ اسی طرح کی بہت سی اشیاء ہیں کا تعلق دنیاوی امور سے ہے۔ بعض دوسروں کا یہ قول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اموردین، نیز ایسے نئے واقعات جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ہدایت نہ آئی ہو، اور ایسے دنیاوی امورجن میں اپنی رائے اور گمان غالب سے کام چلایاجاتا ہے صحابہ کرام سے مشورہ کرنے پر مامور اور اس کے پابند تھے۔ آپ نے غزدہ بدر کے موقعہ پر جنگی قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا تھا۔ جبکہ اس معاملے کا تعلق دینی امور سے تھا۔- آپ کا طریق کاریہ تھا کہ جب آپ صحابہ کرام سے کسی معاملے میں مشورہ کرتے تو سب سے پہلے حضرات صحابہ کرام اپنی اپنی رائے کا اظہار کرتے، آپ بھی رائے کے اظہار میں ان کے ساتھ شریک رہتے، اور پھر آپ کا اجتہادجس نتیجے پر پہنچتا اس پر آپ عمل کرلیتے۔- اس طریق کا ر میں بہت سے فوائد پوشدہ تھے۔ اول یہ کہ لوگوں کو یہ بتادیاجائے کہ جو امورمنصوص نہیں ہیں ان کے احکام معلوم کرنے کا ذریعہ اجتہاد اور ظن غالب ہے۔ دوم لوگوں کو صحابہ کرام کے مرتبے سے آگاہ کرکے یہ بتایاجائے کہ یہ حضرات اجتہاد کے اہل ہیں، اور ان کی آراء کی پیروی جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کا درجہ اتنابلند کردیا ہے کہ اس کے نبی ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) ان سے مشورے کرتے، ان کی اجتہادی آراء کو پسند کرتے اور منصوص احکام الٰہی کی موافقت کے لیے ان کی کوششوں کو سراہتے ہیں سوم۔ اس کے ذریعے یہ بتادیا گیا کہ صحابہ کرام کا باطن اللہ تعالیٰ کے ہاں پسند یدہ ہے، اس لیے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان سے مشورہ کرنے کا حکم نہ دیاجاتا۔ یہ چیز حضرات صحابہ کرام کے ایمان یقین کی صحت اور معاملات کی سوجھ بوجھ میں ان کی اونچی حیثیت، نیز نئے پیش آمدہ غیرمنصوص امور کے احکام میں اجتہاد کی گنجائش اور جواز پر دلالت کرتی ہے تاکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد امت اس معاملے میں آپ کے نقش قدم پرچلتی رہے۔- آیت سے یہ مراد لینا درست نہیں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو محض صحابہ کرام کے دلوں کو خوش کرنے اور ان کی حیثیت بڑھا نے کی خاطرمش اور ت کا حکم دیا گیا تھا تاکہ بعد میں صحابہ کرام کے تعلق امت کا بھی یہی رویہ رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر صحابہ کرام کو یہ معلوم ہوتا کہ جن امور میں ان سے مشورہ لیاجارہا ہے ان کے احکام معلوم کرنے میں، نیز جن باتوں کے متعلق ان سے استفسارکیاجاریا ہے ان کے بارے میں صحیح رائے تک پہنچنے میں اپنی تمام کا دشیں صرف کرنے کے بعد بھی نہ وہ قابل قبول ہوں گی اور نہ ہی ان پر عمل کیا جائے ، تو اس کے بعد آخران کے دلوں کو خوش کرنے والی اور ان کے درجے کو بلند کرنے والی کون سی بات باقی رہ جاتی ہے۔ بلکہ اس کی وجہ سے ان کے دلوں میں اپنے آراء کے متعلق ایک خش پیدا ہوجاتی اور انھیں یہ احساس ہوجاتا کہ ان کی یہ آراء ناقابل قبول اور ناقابل عمل ہیں۔- اس بناپردرج بالا تاویل ساقط اور بے معنی ہے۔ اس وضاحت کے بعد اس شخص کی تاویل کی کہاں سے گنجائش نکل سکتی ہے، جس کا قول ہے کہ مشاورت کا حکم محض اس واسطے دیا گیا ہے کہ امت بھی اس رویے کو اپنالے جبکہ اس قائل کے نزدیک امت کو اس بات کا علم ہے کہ صحابہ کرام کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مشاورت کانہ کوئی نتیجہ نکلا اور نہ ہی ان حضرات کے دیے ہوئے کسی مشورے پر عمل ہوا۔ اب اگر امت کو بھی اس کی اقتداء کرنی چاہیے تو پھر یہ واجب ہوگا کہ مسلمانوں کا آپس میں مشورہ اسی ڈھنگ اور اسی نہج کا ہو۔ اور مشورہ کے نتیجے میں نہ تو کسی درست رائے کا پتہ چل سکے اور نہ ہی کسی رائے پر عمل ہوسکے۔ اس لیے کہ تاویل بالا کے قائلین کے ہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے درمیان مشاورت کی یہی نوعیت تھی۔ اب اگر امت اپنے باہمی مشورے سے کسی صحیح رائے پرنہچ جاتی ہے یا کسی رائے پر عمل کرلیتی ہے تو اس کا یہ طرزعمل صحابہ کرام کے اس طرزعمل اور نقش قدم پر نہیں ہوگا جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے مشاورت کے سلسلے میں اپنایا تھا۔ جب اس وضاحت کی روشنی میں اس قول کا بطلان ثابت ہوگیا تو اب اس کے سوا اور کوئی وجہ باقی نہیں رہی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صحابہ کرام سے مشورہ کسی درست رائے تک پہنچنے اور اسے نتیجہ خیزنبانے کی خاطر ہوتا تھا جس کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اپنی رائے سے کام لینے اور ان کی رائے قبول کرنے کی گنجائش ہوتی تھی۔ پھر اس صورت میں یہ جائز ہوتا کہ حضرات صحابہ کرام کی رائے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رائے کے موافق ہوجائے یا ان میں بعض کی رائے آپ کی رائے کے موافق ہوجانے اور یہ بھی جائز ہوتا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب کی رائے کے خلاف رائے دیننے اور اپنی رائے پر عمل کرلیتے ۔- مشاورکایہ پوراڈھا نچہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ صحابہ کرام اپنی رائے کا اظہارکرکے تنقیدو ملامت کا بدف نہ بنتے، بلکہ اللہ کی طرف سے دیے ہوئے حکم پر عمل پیرا ہونے کی بناپراجر کے مستحق ٹھہرتے۔ پھر جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رائے پر عمل پیرا ہوجاتے تو اس صورت میں اپنی اپنی رائے ترک کرکے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رائے کی اتباع واجب ہوجاتی۔- اس بحث کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحابہ کرام سے مشاورت امور میں ہوتی جو منصوص نہ ہوتے۔ اس لیے کہ منصوص امور میں مشاورت کی سرے سے گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ آپ کے لیے یہ ہرگز درست نہ ہوتا کہ آپ صحابہ کرام سے مثلا نماز ظہریاعصہ یا نظام زکوۃ یاصیام رمضان کے متعلق ان کی رائے معلوم کرتے۔ اب چونکہ اللہ تعالیٰ نے اموردین کو امو دنیا سے علیحدہ نہیں کیا بل کہ نظام شریعت میں دونوں کو شامل رکھا ہے اور پھر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشاورت کا حکم دیا تو اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ مشاورت کا حکم اموردین اور دنیا دونوں سے متعلق ہو۔ نیز امور دنیا میں آپ کی مشاورت کا تعلق بھی اموردین سے ہوتا تھا۔ وہ اس طرح کہ یہ سب کو معلوم ہے کہ جب آپ امور دنیا کے متعلق صحابہ کرام سے مشورہ کرتے تو یہ مشورہ کفار کے خلاف جنگی کارروائیوں اور دشمنوں کی سازشوں اور جنگی چالوں کو ناکام بنانے کے متعلق ہوتا۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ کفاف کی زنا گی گزارتے تھے جس میں بس قوت لایموت بی کی گنجائش ہوتی تھی اس لیے آپ کو اپنی معاش اور امر دنیا کی تدبیروانتظام کے سلسلے میں سرے سے کسی مشورے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی تھی جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ صحابہ کرام سے امور دنیا کے متعلق آپ کا مشورہ دراصل اموردین سے بی تعلق رکھتا تھا۔ ایسے معاملات میں اجتہاد رانے سے کام لینے اور غیہ منصوص امور کے احکام معلوم کرنے کے لیے اجتہاد رائے کو استعمال کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے، اس طریق کا ر میں ان حضرات کے قول کی صحت کی دلیل موجود ہے جو نئے پیداشدہ امور کے احکام کے لیے اجتہادرائے سے کام لینے کے قائل ہیں، نیز اس پر بھی دلالت ہورہی ہے، کہ اجتہادرائے سے کام لینے والے ہر مجہدکاعمل مبنی برصواب ہے، نیز یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی غیر منصوص امور میں اجتہاد رائے سے کام لیتے تھے۔- قول باری (فاذاعزمت فتوکل علی اللہ) کا مشاورت کے ذکر کی ترتیب میں آنا اس بات کی دلیل ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیر منصوص امور میں صحابہ کرام کے ساتھ مل کر اجتہاد رانے سے کام لیتے اور اپنی غالب رائے پر عمل کرتے تھے۔ اس لیے کہ اگر آپ کسی منصوص ام میں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی راہنمائی ہوجاتی۔ صحابہ کرام سے مشورہ کرتے تو یقینا آپ کی عزیمت مشاورت پر مقدم ہوتی۔ اس لیے کہ نص ک اورود، مشاورت سے پہلے ہی عزیمت کی صحت کا موجب ہوجاتا۔ اب جبکہ ترتیب آیت میں عزیمت کا ذکرمش اور ت کے بعد آیا ہے تو یہ اس پر دلالت کردیا ہے کہ عزیمت مشاورت کے نتیجے میں پیداہوئی ہے اور یہ کہ اس سے پہلے اس معاملے میں کوئی نص دارد نہیں ہوئی تھی۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٥٩) اللہ ہی کی رحمت کی بنا پر آپ ان پر نرم دل رہے اور اگر آپ تند خویا سخت مزاج ہوتے تو یہ سب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے منتشر ہوجاتے۔ لہذا آپ کے اصحاب سے حسن نیت کے باوجود ظاہر اجو لغزش ہوگئی آپ اس سے درگزر فرمائیے اور ان کے لیے استغفار کیجیے اور لڑائی میں ان سے مشورہ لیجیے جب آپ ایک جانب اپنی رائے پختہ کرلیں تو دولت ونصرت میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجیے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٩ (فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ ج) ۔- اس سورة مبارکہ کی یہ آیت بھی بڑی اہم ہے۔ جماعتی زندگی میں جو بھی امیر ہو ‘ صاحب امر ہو ‘ جس کے پاس ذمہ داریاں ہوں ‘ جس کے گرد اس کے ساتھی جمع ہوں ‘ اسے یہ خیال رہنا چاہیے کہ آخر وہ بھی انسان ہیں ‘ ان کے بھی کوئی جذبات اور احساسات ہیں ‘ ان کی عزت نفس بھی ہے ‘ لہٰذا ان کے ساتھ نرمی کی جانی چاہیے ‘ سختی نہیں۔ وہ کوئی ملازم نہیں ہیں ‘ بلکہ رضاکار ( ) ہیں۔ آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جو لوگ تھے وہ کوئی تنخواہ یافتہ سپاہی تو نہیں تھے۔ یہ لوگ ایمان کی بنیاد پر جمع ہوئے تھے۔ اب بھی کوئی دینی جماعت وجود میں آتی ہے تو جو لوگ اس میں کام کر رہے ہیں وہ دینی جذبے کے تحت جڑے ہوئے ہیں ‘ لہٰذا ان کے امراء کو ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ یہ اللہ کی رحمت کا مظہر ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے حق میں بہت نرم ہیں۔- (وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ) ؂ - کوئی کارواں سے ٹوٹا ‘ کوئی بدگماں حرم سے - کہ امیر کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی - (فَاعْفُ عَنْہُمْ ) - چونکہ بعض صحابہ (رض) سے اتنی بڑی غلطی ہوئی تھی کہ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کو بہت بڑا چرکا لگ گیا تھا ‘ لہٰذا آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا جا رہا ہے کہ اپنے ان ساتھیوں کے لیے اپنے دل میں میل مت آنے دیجیے۔ ان کی غلطی اور کوتاہی کو اللہ نے معاف کردیا ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ بھی انہیں معاف کردیں۔ عام حالات میں بھی آپ انہیں معاف کرتے رہا کریں۔- (وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ ) - ان سے جو بھی خطا ہوجائے اس پر ان کے لیے استغفار کیا کریں۔ - (وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ ج) - ایسا طرز عمل اختیار نہ کریں کہ آئندہ ان کی کوئی بات نہیں سننی ‘ بلکہ ان کو بھی مشورے میں شامل رکھیے۔ اس سے بھی باہمی اعتماد پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا امیر ہم سے مشورہ کرتا ہے ‘ ہماری بات کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ یہ بھی درحقیقت اجتماعی زندگی کے لیے بہت ہی ضروری بات ہے۔ - (فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط) ۔- مشورے کے بعد جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کا دل کسی رائے پر مطمئن ہوجائے اور آپ ایک فیصلہ کرلیں تو اب کسی شخص کی بات کی پرواہ نہ کریں ‘ اب سارا توکل اللہ کی ذات پر ہو۔ غزوۂ احد سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشورہ کیا تھا ‘ اس وقت کچھ لوگوں کی رائے وہی تھی جو آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رائے تھی ‘ یعنی مدینہ میں محصور ہو کر جنگ کی جائے۔ لیکن کچھ حضرات نے کہا ہم تو کھلے میدان میں جنگ کرنا چاہتے ہیں ‘ ہمیں تو شہادت کی موت چاہیے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی رعایت کی اور باہر نکلنے کا فیصلہ فرما دیا۔ اس کے فوراً بعد جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عائشہ (رض) کے حجرے سے برآمد ہوئے تو خلاف معمول آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زرہ پہنی ہوئی تھی اور ہتھیار لگائے ہوئے تھے۔ اس سے - لوگوں کو اندازہ ہوگیا کہ کچھ سخت معاملہ پیش آنے والا ہے۔ چناچہ ان لوگوں نے کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم اپنی رائے واپس لیتے ہیں ‘ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رائے ہے آپ اس کے مطابق فیصلہ کیجیے۔ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نہیں ‘ یہ فیصلہ برقرار رہے گا۔ نبی کو یہ زیبا نہیں ہے کہ ہتھیار باندھنے کے بعد جنگ کیے بغیر انہیں اتار دے۔ یہ آیت گویا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طرز عمل کی توثیق میں نازل ہوئی ہے کہ جب آپ ایک فیصلہ کرلیں تو اللہ پر توکل کیجیے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani