Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

غزوات سچے مسلمان اور منافق کو بےنقاب کرنے کا ذریعہ بھی تھے یہاں جس مصیبت کا بیان ہو رہا ہے یہ احد کی مصیبت ہے جس میں ستر صحابہ شہید ہوئے تھے تو مسلمان کہنے لگے کہ یہ مصیبت کیسے آگئی؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ تمہاری اپنی طرف سے ہے ، حضرت عمر بن خطاب کا بیان ہے کہ بدر کے دن مسلمانوں نے فدیہ لے کر جن کفار کو چھوڑ دیا تھا اس کی سزا میں اگلے سال ان میں سے ستر مسلمان شہید کئے گئے اور صحابہ میں افراتفری پڑ گئی ، حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کے چار دانت ٹوٹ گئے آپ کے سر مبارک پر خود تھا وہ بھی ٹوٹا اور چہرہ مبارک لہولہان ہو گیا ، اس کا بیان اس آیت مبارکہ میں ہو رہا ہے ۔ ( ابن ابی حاتم ، مسند احمد بن حنبل ) حضرت علی سے مروی ہے کہ جبرائیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور فرمایا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی قوم کا کفار کو قیدی بنا کر پکڑ لینا اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آیا اب انہیں دو باتوں میں سے ایک کے اختیار کر لینے کا حکم دیجئے یا تو یہ کہ ان قیدیوں کو مار ڈالیں یا یہ کہ ان سے فدیہ وصول کر کے چھوڑ دیں مگر پھر ان مسلمانوں سے اتنی ہی تعداد شہید ہو گی حضور علیہ السلام نے لوگوں کو جمع کر کے دونوں باتیں پیش کیں تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ لوگ ہمارے قبائل کے ہیں ہمارے رشتے دار بھائی ہیں ہم کیوں نہ ان سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیں اور اس مال سے ہم طاقت قوت حاصل کر کے اپنے دوسرے دشمنوں سے جنگ کریں گے اور پھر جو ہم میں سے اتنے ہی آدمی شہید ہوں گے تو اس میں ہماری کیا برائی ہے ، چنانچہ جرمانہ وصول کر کے ستر قیدیوں کو چھوڑ دیا اور ٹھیک ستر ہی کی تعداد مسلمانوں کی اس کے بعد غزوہ احد میں شہید ہوئی ( ترمذی نسائی ) پس ایک مطلب تو یہ ہوا کہ خود تمہاری طرف سے یہ سب ہوا یعنی تم نے بدر کے قیدیوں کو زندہ چھوڑنا اور ان سے جرمانہ جنگ وصول کرنا اس شرط پر منظور کیا تھا کہ تمہارے بھی اتنے ہی آدمی شہید ہوں وہ شہید ہوئے ، دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی تھی اس باعث تمہیں یہ نقصان پہنچا تیر اندازوں کو رسول کرم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے حکم دیا تھا کہ وہ اپنی جگہ سے نہ ہٹیں لیکن وہ ہٹ گئے ، اللہ تعالیٰ ہر چیز قادر ہے جو چاہے کرے جو ارادہ ہو حکم دے کوئی نہیں جو اس کا حکم ٹال سکے ۔ دونوں جماعتوں کی مڈبھیڑ کے دن جو نقصان تمہیں پہنچا کہ تم دشمنوں کے مقابلے سے بھاگ کھڑے ہوئے تم میں سے بعض لوگ شہید بھی ہوئے اور زخمی بھی ہوئے یہ سب اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے تھا اس کی حکمت اس کی مقتضی تھی ، اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ ثابت قدم غیر متزلزل ایمان والے صابر بندے بھی معلوم ہو جائیں اور منافقین کا حال بھی کھل جائے جیسے عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے ساتھی جو راستے میں ہی لوٹ گئے ایک مسلمان نے انہیں سمجھایا بھی کہ آؤ ، اللہ کی راہ میں جہاد کرو یا کم از کم ان حملہ اوروں کو تو ہٹاؤ لیکن انہوں نے ٹال دیا کہ ہم تو فنون جنگ سے بےخبر ہیں اگر جانتے ہوتے تو ضرور تمہارا ساتھ ، یہ بھی مدافعت میں تھا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ تو رہتے جس سے مسلمانوں کی گنتی زیادہ معلوم ہوتی ، یا دعائیں کرتے رہتے یا تیاریاں ہی کرتے ، ان کے جواب کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ تم سچ مچ دشمنوں سے لڑو گے تو تو ہم بھی تمہارا ساتھ دیتے لیکن ہم جانتے ہیں کہ لڑائی ہونے کی ہی نہیں سیرۃ محمد بن اسحاق میں ہے کہ ایک ہزار آدمی لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدان احد کی جانب بڑھے آدھے راستے میں عبداللہ ابی بن سلول بگڑ بیٹھا اور کہنے لگا اوروں کی مان لی اور مدینہ سے نکل کھڑے ہوئے اور میری نہ مانی اللہ کی قسم ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کس فائدے کو نظر انداز رکھ کر اپنی جانیں دیں؟ لوگوں کیوں جانیں کھو رہے ہو جس قدر نفاق اور شک و شبہ والے لوگ تھے اس کی آواز پر لگ گئے اور تہائی لشکر لے کر یہ پلید واپس لوٹ گیا ، حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام بنو سلمہ کے بھائی ہر چند انہیں سمجھاتے رہے کہ اے میری قوم اپنے نبی کو اپنی قوم کو رسوا نہ کروا انہیں دشمنوں کے سامنے چھوڑ کر پیٹھ نہ پھیرو لیکن انہوں نے بہانہ بنا دیا کہ ہمیں معلوم ہے کہ لڑائی ہونے ہی کی نہیں جب یہ بیچارے عاجز آگئے تو فرمانے لگے جاؤ تمہیں اللہ غارت کرے اللہ کے دشمنو تمہاری کوئی حاجت نہیں اللہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مددگار ہے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی انہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گئے ۔ جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ وہ اس دن بہ نسبت ایمان کے کفر سے بہت ہی نزدیک تھے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے احوال مختلف ہیں کبھی وہ کفر سے قریب جاتا ہے اور کبھی ایمان کے نزدیک ہو جاتا ہے ، پھر فرمایا یہ اپنے منہ سے وہ باتیں بناتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ، جیسے ان کا یہی کہنا کہ اگر ہم جنگ جانتے تو ضرور تمہارا ساتھ دیتے ، حالانکہ انہیں یقینًا معلوم تھا کہ مشرکین دور دراز سے چڑھائی کر کے مسلمانوں کو نیست و نابود کر دینے کی ٹھان کر آئے ہیں وہ بڑے جلے کٹے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے سردار بدر والے دن میدان میں رہ گئے تھے اور ان کے اشراف قتل کر دئیے گئے تھے تو اب وہ ان ضعیف مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے ہیں اور یقینا جنگ عظیم برپا ہونے والی ہے ، پس جناب باری فرماتا ہے ان کے دلوں کی چھپی ہوئی باتوں کا مجھے بخوبی علم ہے ، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے بھائیوں کے بارے میں کہتے ہیں اگر یہ ہمارا مشورہ مانتے یہیں بیٹھے رہتے اور جنگ میں شرکت نہ کرتے تو ہرگز نہ مارے جاتے ، اس کے جواب میں جناب باری جل و علا کا ارشاد ہوتا ہے کہ اگر یہ ٹھیک ہے اور تم اپنی اس بات میں سچے ہو کہ بیٹھ رہنے اور میدان جنگ میں نہ نکلنے سے انسان قتل و موت سے بچ جاتا ہے تو چاہئے کہ تم مروہی نہیں اس لئے کہ تم تو گھروں میں بیٹھے ہو لیکن ظاہر ہے کہ ایک روز تم بھی چل بسو گے چاہے تم مضبوط برجوں میں پناہ گزین ہو جاؤ پس ہم تو تمہیں تب سچا مانیں کہ تم موت کو اپنی جانوں سے ٹال دو ، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں یہ آیت عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں اتری ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

165۔ 1 یعنی احد میں تمہارے ستّر آدمی شہید ہوئے تو بدر میں تم نے ستّر کافر قتل کئے تھے اور ستّر قیدی بنائے تھے۔ 165۔ 2 یعنی تمہاری اس غلطی کی وجہ سے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تاکیدی حکم کے باوجود پہاڑی مورچہ چھوڑ کر تم نے کی تھی۔ جیسا کہ تفصیل پہلے گزر چکی ہے کہ اس غلطی کی وجہ سے کافروں کے ایک دستے کو اس درے سے دوبارہ حملہ کرنے کا موقع مل گیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٦١] منافقین کی تو بات ہی الگ ہے۔ اکابر صحابہ کو چھوڑ کر مسلمان بھی یہ سمجھ رہے تھے کہ جب ہم حق کی خاطر لڑ رہے ہیں بلکہ اپنا دفاع کر رہے ہیں اور اللہ کا رسول بہ نفس نفیس ہم میں موجود ہے تو کافر ہم پر فتح پا ہی نہیں سکتے۔ پھر جب شکست سے دو چار ہونا پڑا تو انہیں سخت صدمہ بھی ہوا اور حیرانی بھی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ نے بدر کے میدان میں تمہیں فتح عظیم عطا فرمائی تھی۔ تم نے اپنے اس موجودہ نقصان سے کافروں کا دگنا نقصان کیا تھا اور اس وقت تم کمزور بھی تھے تو اللہ اگر اس حال میں تمہیں فتح عطا فرماسکتا ہے تو وہ تمہیں شکست بھی دلوا سکتا ہے۔ کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔- [١٦٢] رہی یہ بات کہ تمہیں شکست سے کیوں دوچار ہونا پڑا ؟ تو اس کے اسباب بھی تمہارے اپنے ہی پیدا کردہ ہیں۔ تم نے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا، بعض کام تقویٰ کے خلاف کئے۔ اللہ کے رسول کے حکم کی نافرمانی کی، مال کی طمع میں مبتلا ہوئے، آپس میں نزاع و اختلاف کیا، پھر اب یہ کیوں پوچھتے ہو کہ یہ مصیبت کہاں سے آگئی ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَوَلَمَّآ اَصَابَتْكُمْ : یعنی احد میں تمہارے ستر آدمی شہید ہوگئے تو بدر میں تم نے ان کے ستر آدمی قتل اور ستر قید کیے تھے اور قیدی بھی مقتول کے حکم میں ہوتا ہے کہ جب گرفتار کرنے والے کی مرضی ہو اسے قتل کر ڈالے۔ - 2 ھُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِكُمْ ۭ : یعنی تمہارے گناہوں کی وجہ سے، یا خود تمہارے پسند کرنے کی وجہ سے۔ (فتح القدیر) پہلی صورت سے مراد یہ ہے کہ تمہاری اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کی وجہ سے، جس کا ارتکاب تیر اندازوں نے اپنی جگہ چھوڑ کر کیا۔ (قرطبی) دوسری صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تمہارے فدیہ کو اختیار کرنے کی وجہ سے۔ قرآن نے یہاں ( ھو من عند انفسکم ) کے الفاظ سے اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ [ ابن کثیر۔ طبری۔ أحمد : ١؍٣٠، ٣١، ح : ٢٠٩ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

واقعہ احد میں مسلمانوں کو عارضی شکست اور زخم و قتل کے مصائب پیش آنے کے بعض اسباب اور حکمتیں :- آیتہ اولما اصابتکم آلایتہ، سابقہ آیات میں کئی جگہ اس مضمون کا ذکر آ چکا ہے، یہاں پھر اس کی تاکید مزید توضیح کے ساتھ بیان کی گئی ہے، کیونکہ مسلمانوں کو اس واقعہ سے سخت کلفت تھی یہاں تک کہ بعض حضرات کی زبان پر بھی آیا انی ھذا کہ یہ مصیبت ہم پر کہاں سے آ پڑی، جب کہ ہم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ شریک جہاد ہیں۔- آیت مذکورہ میں اول تو یہ بات یاد دلائی کہ جتنی مصیبت تم پر آج پڑی ہے تم اس سے دوگنی اپنے مخالف پر اس سے پہلے غزوہ بدر میں ڈال چکے ہو، کیونکہ غزوہ احد میں ستر مسلمان شہید ہوئے تھے اور غزوہ بدر میں مشرکین کے ستر سردار مارے گئے تھے اور ستر گرفتار ہو کر مسلمانوں کے قبضہ میں آئے تھے، اس بات کے یاد دلانے سے ایک تو یہ مقصد ہے کہ مسلمانوں کو اپنی موجودہ تکلیف و پریشانی کا احساس گھٹ جائے کہ جس شخص کی دوگنی جیت ہوچکی ہو اگر ایک دفعہ آدھی ہار و شکست بھی ہوجائے تو زیادہ غم اور تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ دوسرا اصل مقصد آیت کے آخری جملہ قل ھو من عند انفسکم میں بتلایا کہ یہ تکلیف مصیبت درحقیقت دشمن کی قوت و کثرت کے سبب سے نہیں، بلکہ تمہاری اپنی بعض کوتاہیوں کے سبب سے ہے کہ امر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعمیل میں سے کوتاہی ہوگئی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَوَلَمَّآ اَصَابَتْكُمْ مُّصِيْبَۃٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَيْھَا۝ ٠ۙ قُلْتُمْ اَنّٰى ہٰذَا۝ ٠ۭ قُلْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِكُمْ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝ ١٦٥- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- ( صاب) مُصِيبَةُ- والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. - مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ - أنى- أَنَّى للبحث عن الحال والمکان، ولذلک قيل : هو بمعنی كيف وأين ، لتضمنه معناهما، قال اللہ عزّ وجل : أَنَّى لَكِ هذا [ آل عمران 37] ، أي : من أين، وكيف .- ( انیٰ ) انی۔ یہ حالت اور جگہ دونوں کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اس لئے بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنیٰ این اور کیف ۔ کے آتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ أَنَّى لَكِ هَذَا ( سورة آل عمران 37) کے معنی یہ ہیں کہ کھانا تجھے کہاں سے ملتا ہے ۔- قَدِيرُ :- هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] .- القدیر - اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٦٥) اور اب پھر احد کے دن کی پریشانی کا اللہ تعالیٰ تذکرہ فرماتے ہیں تمہیں احد میں ایسی شکست ہوئی جس سے دو چند مکہ والوں کو بدر میں ہوئی تھی اور پھر حیرانی سے کہتے ہیں کہ ہم تو مسلمان ہیں، پھر اس قدر پریشانی کہاں سے ہوئی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ فرما دیجیے کہ مورچہ چھوڑ کر جو تم سے لغزش ہوئی اس بنا پر عارضی شکست ہوئی، اللہ تعالیٰ سزا وغیرہ سب پر قادر ہے۔- شان نزول : (آیت) ” اولما اصابتکم “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے حضرت عمر فاروق (رض) سے روایت نقل کی ہے انہوں نے فرمایا کہ بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر جو چھوڑدیا تھا اس کی گرفت احد میں ہوئی کہ ستر صحابہ کرام (رض) شہید ہوئے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کے دندان مبارک شہید ہوئے کہ آپ کے سرمبارک پر خود ٹوٹ گیا جس سے آپ کے چہرہ انور پر سے خون بہنے لگا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٦٥ (اَوَلَمَّآ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْہَالا قُلْتُمْ اَنّٰی ہٰذَا ط) - یعنی یہ کیوں ہوگیا ؟ اللہ نے پہلے مدد کی تھی ‘ اب کیوں نہیں کی ؟ - ( قُلْ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِکُمْ ط) ۔- غلطی تم نے کی تھی ‘ امیر کے حکم کی خلاف ورزی تم نے کی تھی ‘ جس کا خمیازہ تم کو بھگتنا پڑا۔- ( اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ) ۔- گویا اسی مضمون کو یہاں دہرا کر لایا گیا ہے جو پیچھے آیت ١٥٢ میں بیان ہوچکا ہے کہ اللہ تو وعدہ اپنا پورا کرچکا تھا اور تم دشمن پر غالب آ چکے تھے ‘ مگر تمہاری اپنی غلطی کی وجہ سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ اللہ چاہتا تو تمہیں کوئی سزا نہ دیتا ‘ بغیر سزادیے معاف کردیتا ‘ لیکن اللہ کی حکمت کا تقاضا یہ ہوا کہ تمہیں سزا دی جائے۔ اس لیے کہ ابھی تو بڑے بڑے مراحل آنے ہیں۔ اگر اسی طرح تم نظم کو توڑتے رہے اور احکام کی خلاف ورزی کرتے رہے تو پھر تمہاری حیثیت ایک جماعت کی تو نہیں ہوگی ‘ پھر تو ایک انبوہ ہوگا ‘ ہجومِ مؤمنینہو گا ‘ جبکہ اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے ایک منظم جماعت ‘ لشکر ‘ فوج ‘ حزب اللہ درکار ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :115 اکابر صحابہ تو خیر حقیقت شناس تھے اور کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو سکتے تھے ، مگر عام مسلمان یہ سمجھ رہے تھے کہ جب اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود ہے اور اللہ کی تائید و نصرت ہمارے ساتھ ہے تو کسی حال میں کفار ہم پر فتح پا ہی نہیں سکتے ۔ اس لیے جب احد میں ان کو شکست ہوئی تو ان کی توقعات کو سخت صدمہ پہنچا اور انہوں نے حیران ہو کر پوچھنا شروع کیا کہ یہ کیا ہوا ؟ ہم اللہ کے دین کی خاطر لڑنے گئے ، اس کا وعدہ نصرت ہمارے ساتھ تھا ، اس کا رسول خود میدان جنگ میں موجود تھا ، اور پھر بھی ہم شکست کھا گئے؟ اور شکست بھی ان سے جو اللہ کے دین کو مٹانے آئے تھے؟ یہ آیات اسی حیرانی کو دور کرنے کے لیے ارشاد ہوئی ہیں ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :116 جنگ احد میں مسلمانوں کے ۷۰ آدمی شہید ہوئے ۔ بخلاف اس کے جنگ بدر میں کفار کے ۷۰ آدمی مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے اور ۷۰ آدمی گرفتار ہو کر آئے تھے ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :117 یعنی یہ تمہاری اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کا نتیجہ ہے ۔ تم نے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑا ، بعض کام تقویٰ کے خلاف کیے ، حکم کی خلاف ورزی کی ، مال کی طمع میں مبتلا ہوئے ، آپس میں نزاع و اختلاف کیا ، پھر کیوں پوچھتے ہو کہ یہ مصیبت کہاں سے آئی؟ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :118 یعنی اللہ اگر تمہیں فتح دینے کی قدرت رکھتا ہے تو شکست دلوانے کی قدرت بھی رکھتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

56: اشارہ جنگ بدر کی طرف ہے جس میں کفار قریش کے ستر آدمی مارے گئے تھے اور ستر گرفتار ہوئے تھے، جبکہ جنگ احد میں شہید ہونے والے مسلمانوں کی تعداد ستر ضرور تھی مگر کوئی مسلمان گرفتار نہیں ہوا تھا۔ اس لحاظ سے بدر میں مسلمانوں نے کفار کو جو نقصان پہنچایا تھا وہ اس نقصان سے دگنا تھا جو کافروں نے احد میں مسلمانوں کو پہنچایا۔