164۔ 1 نبی کے بشر اور انسانوں میں سے ہی ہونے کو اللہ تعالیٰ ایک احسان کے طور پر بیان کر رہا ہے اور فی الواقع یہ احسان عظیم ہے کہ اس طرح ایک تو وہ اپنی قوم کی زبان اور لہجے میں ہی اللہ کا پیغام پہنچائے گا جسے سمجھنا ہر شخص کے لئے آسان ہوگا دوسرے لوگ ہم جنس ہونے کی وجہ سے اس سے مانوس اور قریب ہونگے۔ تیسرے انسان کے لئے انسان یعنی بشر کی پیروی تو ممکن ہے لیکن فرشتوں کی پیروی اس کے بس کی بات نہیں اور نہ فرشتہ انسان کے وجدان و شعور کی گہرائیوں اور باریکیوں کا ادراک کرسکتا ہے۔ اس لئے اگر پیغمبر فرشتوں میں سے ہوتے تو وہ ان ساری خوبیوں سے محروم ہوتے جو تبلیغ و دعوت کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اس لئے جتنے بھی انبیاء آئے ہیں سب کے سب بشر ہی تھے۔ قرآن نے ان کی بشریت کو خوب کھول کر بیان کیا ہے۔ (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰى) 012:109 ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے وہ مرد تھے جن پر ہم وحی کرتے تھے۔ (وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّآ اِنَّهُمْ لَيَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَيَمْشُوْنَ فِي الْاَسْوَاقِ ) (025:020" ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے سب کھانا کھاتے اور بازاروں میں چلتے تھے "۔ اور خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے کہلوایا گیا (قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّمَآ اِلٰــهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ) (حٰم السجدۃ :6) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے میں بھی تو تمہاری طرح ٖصرف بشر ہی ہوں البتہ مجھ پر وحی کا نزول ہوتا ہے "۔ آج بہت سے افراد اس چیز کو نہیں سمجھتے اور انحراف کا شکار ہیں۔ 164۔ 2 اس آیت میں نبوت کے تین اہم مقاصد بیان کئے گئے ہیں 1۔ تلاوت 2۔ تزکیہ 3۔ تعلیم کتاب و حکمت تعلیم کتاب میں تلاوت از خود آجاتی ہے، تلاوت کی ساتھ ہی تعلیم ممکن ہے، تلاوت کے بغیر تعلیم کا تصور ہی نہیں، اس کے باوجود تلاوت کو الگ ایک مقصد کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ جس سے اس نقطے کی وضاحت مقصود ہے کہ تلاوت بجائے خود ایک مقدس اور اور نیک عمل ہے، چاہے پڑھنے والا اس کا مفہوم سمجھے نہ سمجھے۔ قرآن کے معنی و مطالب کو سمجھنے کی کوشش کرنا یقینا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے۔ لیکن جب تک یہ مقصد حاصل نہ ہو یا اتنی فہم استعداد بہم نہ پہنچ جائے، تلاوت قرآن سے اعراض یا غفلت جائز نہیں۔ تزکیے سے مراد عقائد اور اعمال و اخلاق کی اصلاح ہے۔ جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں شرک سے ہٹا کر توحید پر لگایا اسی طرح نہایت بد اخلاق اور بد اطوار قوم کو اخلاق اور کردار کی رفعتوں سے ہمکنار کردیا، حکمت سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک حدیث ہے۔ 164۔ 2 یہ ان مخففۃ من المثقلۃ ہے یعنی (انّ ) (تحقیق، یقینا بلاشبہ) کے معنی ہیں۔
[١٥٨۔ ا ] من کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے (١) احسان کرنا، (٢) احسان جتلانا، (٣) کاٹنا اور کٹنا اور جب یہ لفظ احسان کرنے کے معنی میں آئے تو اس سے مراد کوئی بہت بڑا احسان ہوتا ہے۔ اور وہ بہت بڑا احسان وحی الٰہی اور اس کی روشنی ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے اللہ تعالیٰ نے انسان کو آنکھیں اور بصارت عطا فرمائی ہے۔ لیکن جب تک کوئی خارجی روشنی نہ ہو۔ مثلاً سورج، چاند، ستاروں یا چراغ اور قمقموں کی روشنی نہ ہو، آنکھ کی بصارت کام نہیں دیتی۔ وہ اندھیرے میں بھی کام تو کرتی ہے مگر بہت کم اور انسان بھٹکتا اور ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔ بعینہ اللہ تعالیٰ نے سمجھنے سوچنے کے لیے انسان کو عقل عطا فرمائی ہے۔ لیکن کائنات اور انسان کی طبعی زندگی اور ما بعد الطبیعات کے بہت سے مسائل ایسے ہیں جہاں اکیلی عقل کام نہیں کرسکتی جب تک اسے کوئی خارجی روشنی نہ ملے۔ اگر اس خارجی روشنی کے بغیر عقل کچھ کام کرے گی بھی تو بھٹکتی اور ٹھوکریں کھاتی پھرے گی اور فلاسفر قسم کے لوگوں کا یہی حال ہوتا ہے اور عقل کے لیے خارجی روشنی وحی الٰہی ہے۔ وحی الٰہی کی روشنی میں عقل جو کام کرے گی وہ درست اور قابل اعتماد ہوسکتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کا لوگوں کو انبیاء اور وحی کے ذریعہ ہر چیز کی حقیقت اور ماہیت سے خبردار کردینا لوگوں پر بہت بڑا احسان ہے ورنہ محض عقل کے بل بوتے پر صراط مستقیم کو تلاش کرلینا عقل محدود کے دائرہ کار سے باہر ہے۔- اور بعض مفسرین نے اس آیت کو سابقہ آیت سے متعلق کرکے (اَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَان اللّٰهِ كَمَنْۢ بَاۗءَ بِسَخَطٍ مِّنَ اللّٰهِ وَمَاْوٰىهُ جَهَنَّمُ ۭوَبِئْسَ الْمَصِيْرُ ١٦٢۔ ) 3 ۔ آل عمران :162) سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات لی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نبی ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے تابع ہوتا ہے۔ جب کہ خیانت کرنے والا اللہ کی ناراضگی حاصل کرکے جہنم میں اپنا ٹھکانا بناتا ہے اور یہ دونوں کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے نقیض ہیں۔- [١٥٩] یعنی وہ رسول بنی نوع انسان سے ہے۔ عربی ہے اور قریشی ہے۔ قریش کے لہجہ میں عربی بولتا ہے۔ تاکہ عرب لوگ اس کی بات کو سمجھ سکیں۔ وہ نہ فرشتوں کی نوع سے ہے نہ جنوں کی نوع سے تاکہ کوئی شخص اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے سے بچنے کی خاطر یہ نہ کہہ سکے کہ آپ تو مافوق البشر تھے۔ ہم انسان بھلا ان کی اتباع کیسے کرسکتے ہیں۔- [١٦٠] یہ آیت قرآن میں الفاظ کی تقدیم و تاخیر کے ساتھ متعدد مقامات پر آئی ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی اور اسی طرح دوسرے انبیاء کی بعثت کے مندرجہ ذیل چار مقاصد ہیں۔- ١۔ اللہ کی کتاب جوں جوں نازل ہو وہ لوگوں کو پڑھ کر سنائے۔ تاکہ وہ بھی ان آیات کو سینوں میں اور مصاحف میں محفوظ کرسکیں۔- ٢۔ اپنے پیروکاروں کا تزکیہ ئنفس کرے۔ ان کے اعمال و افعال پر نظر رکھے۔ اور جہاں کہیں کوئی کمی، کو تاہی، یا غلطی نظر آئے، انہیں متنبہ کرے اور ان کی اصلاح کرتے ہوئے ان کی تربیت کرے۔- ٣۔ کتاب اللہ کی تعلیم دے یا سکھلائے جس کا مطلب یہ ہوا کہ کتاب اللہ کو پڑھ کر سنا دینا اور بات ہے اور اس کی تعلیم دینا اور بات ہے۔ تعلیم دینے سے مراد یہ ہے کہ اس کے معانی کی تشریح و تفسیر بھی بتلائے۔ صحابہ کرام (رض) کی زبان اگرچہ عربی ہی تھی۔ مگر بارہا ایسا ہوا کہ انہیں مفہوم سمجھنے میں غلطی ہوئی تو آپ نے انہیں صحیح مفہوم سے آگاہ کیا اور بعض دفعہ خود بھی پوچھ لیا کرتے تھے۔- ٤۔ کتاب کے ساتھ انہیں حکمت بھی سکھلائے، حکمت بھی دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک نظری دوسرے عملی، یعنی انہیں آیات اللہ کے اسرار و رموز سے بھی آگاہ کرے اور احکام الٰہی کو عمل میں لانے کا طریقہ یا طریقے بھی بتلائے اور خود کرکے دکھلائے۔ بالفاظ دیگر حکمت سے سنت بھی مراد لی جاسکتی ہے۔- گویا اس آیت میں اس فرقہ کا پورا پورا رد ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیثیت (معاذ اللہ) محض ایک چٹھی رساں کی تھی۔ جن پر کتاب نازل ہوئی۔ انہوں نے وہ کتاب امت تک پہنچا دی اور ان کا کام ختم ہوا۔ رہا اس کتاب پر عمل پیرا ہونا تو یہ کام ہر دور میں اس دور کے تقاضوں کے مطابق ہونا چاہئے۔ سنت یا حدیث کی حیثیت محض اس دور کی تاریخ کی ہے۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اپنے دور میں قرآنی احکام پر کیسے عمل کیا تھا۔ گویا ان کے نزدیک نہ حدیث حجت شرعیہ ہے اور نہ ہی اتباع یا اطاعت رسول دین کا لازمی حصہ ہے۔ ان کے خیال میں اطاعت رسول کا فریضہ صرف آپ کی زندگی تک ہی تھا۔ جبکہ اس آیت کی رو سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ محض رسول ہی نہیں بلکہ معلم، مفسر، مزکی اور کتاب اللہ کے ہر حکم کا طریق کار بتلانے والے بھی ہیں اور چونکہ آپ مسلمانوں کے لیے اسوہ حسنہ اور خاتم النبیین بھی ہیں۔ لہذا آپ کا ایک ایک قول اور فعل قیامت تک مسلمانوں کے لیے واجب الاتباع ہے۔ رہے زمانہ کے تقاضے تو دراصل یہی عقل کا میدان ہے کہ انسان کتاب و سنت کی روشنی میں پیش آمدہ مسائل کا حل اس انداز سے تلاش کرے اور ایسی تدابیر اختیار کرے جس سے کتاب وسنت کی نص یا اصل پر زد نہ پڑتی ہو اور عقل کی اسی کاوش کا نام قیاس اور اجتہاد ہے۔ جس کا دروازہ تاقیام قیامت کھلا ہوا ہے۔ دور حاضر کے تقاضوں کے بہانے یا جدید نظریات سے مرعوب ہو کر سنت سے یا قرآن کی دور از کار تاویلات کسی مسلمان کا کام نہیں ہوسکتا۔
لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بشر ہونے اور انسانوں ہی میں سے ہونے کو ایک احسان کے طور پر بیان کر رہا ہے اور فی الواقع یہ احسان عظیم ہے کہ اس طرح ایک تو وہ اپنی قوم کی زبان اور لہجے ہی میں اللہ کا پیغام پہنچائے گا، جسے سمجھنا ہر شخص کے لیے آسان ہوگا، دوسرے لوگ ہم جنس ہونے کی وجہ سے اس سے مانوس اور اس سے قریب ہوں گے اور تیسرے انسان کے لیے انسان، یعنی بشر کی پیروی تو ممکن ہے، لیکن فرشتوں کی پیروی اس کے بس کی بات نہیں، نہ فرشتوں میں وہ کمزوریاں اور ضرورتیں پائی جاتی ہیں جو انسان میں ہیں اور نہ فرشتہ انسان کے وجدان و شعور کی گہرائیوں اور باریکیوں کا ادراک کرسکتا ہے۔ اس لیے اگر پیغمبر فرشتوں میں سے ہوتے تو وہ ان ساری ضروریات سے محروم ہوتے جو تبلیغ و دعوت کے لیے لازمی ہیں، اس لیے جتنے انبیاء بھی آئے سب کے سب بشر ہی تھے۔ قرآن مجید نے ان کی بشریت کو خوب کھول کر بیان کیا ہے، مثلاً دیکھیے سورة یوسف (١٠٩) ، سورة فرقان (٢٠) سورة حم السجدہ (٦) اور سورة کہف کی آخری آیت۔ - 2 اوپر کی آیت میں جب یہ بیان فرما دیا کہ غلول اور خیانت ایک نبی کی شان سے بعید ہے اور نبوت و خیانت جمع نہیں ہوسکتے، تو اب اس آیت میں اسی کی مزید تاکید فرمائی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک پاکیزہ اور اعلیٰ نصب العین دے کر مبعوث کیا گیا ہے، جو یہ ہے کہ تم پر اس کی آیات پڑھے، تمہیں کتاب و حکمت (سنت) کی تعلیم دے اور رذائل سے پاک کرے، پھر ایسی پاکیزہ ہستی کی طرف، جو اتنے عظیم مقصد کے حصول کی خاطر مبعوث ہوئی ہو، کوئی عقل مند آدمی غلول کی نسبت کیسے کرسکتا ہے، یا کسی کے دل میں یہ خیال کیسے آسکتا ہے کہ آپ خیانت جیسے کبیرہ اور مذموم فعل کا ارتکاب کرسکتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت سی احادیث میں اس گناہ کو کبیرہ قرار دیا ہے، حتیٰ کہ ابن التبیہ والی حدیث میں حکام کے ہدیوں (تحائف) کو بھی غلول شمار کیا۔ [ بخاری، الحیل، باب احتیال العامل۔۔ : ٦٩٧٩ ] ” وَاِنْ كَانُوْا “ یہ اصل میں ” وَ اِنَّہُمْ کَانُوْا “ تھا۔ دلیل اس کی ” لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ “ پر لام تاکید کا آنا ہے۔
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وجود باجود پوری انسانیت پر سب سے بڑا احسان ہے :- آیت لقد من اللہ علی المومنین الآیتہ اسی مضمون کی ایک آیت 129 تقریباً انہی الفاظ کے ساتھ سورة بقرہ میں گذر چکی ہے جس کی تفسیر و تشریح تفصیل کے ساتھ معارف القرآن جلد اول صفحہ 329 میں آ چکی ہے، اس کو دیکھ لیا جائے یہاں آیت میں ایک لفظ زائد ہے، لقد من اللہ علی المومنین، یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دنیا میں مبعوث فرما کر حق تعالیٰ نے مومنین پر بڑا احسان فرمایا ہے۔ اس کے متعلق پہلی بات تو یہ قابل غور ہے کہ قرآن کریم کی تصریح کے مطابق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رحمتہ للعالمین ہیں اور پورے عالم کے لئے آپ کا وجود نعمت کبری اور احسان عظیم ہے، اس جگہ اس کو صرف مؤمنین کے لئے فرمانا ایسا ہی ہے جیسے قرآن کریم کو ھدی للمتقین فرمانا کہ قرآن کا سارے عالم کے لئے ہدایت ہونا دوسری آیات سے ثابت ہے مگر بعض جگہ اس کو متقین کے ساتھ مخصوص کر کے بیان فرمایا اس کی وجہ دونوں جگہ مشترک طور پر ایک ہی ہے کہ اگرچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وجود باوجود سارے عالم اور ہر مومن و کافر کے لئے نعمت کبریٰ اور احسان عظیم ہے اسی طرح قرآن کریم سارے عالم انسانیت کے لئے صحیفہ ہدایت ہے، مگر چونکہ اس نعمت و ہدایت کا نفع صرف مؤمنین اور متقین نے حاصل کیا اس لئے کسی جگہ اس کو ان کے ساتھ مخصوص کر کے بھی بیان کردیا گیا۔- دوسری بات رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مؤمنین کے لئے یا پورے عالم کے لئے نعمت کبری اور احسان عظیم ہونے کی تشریح و توضیح ہے۔- یہ بات ایسی ہے کہ اگر آج کل کا انسان روحانیت فراموش اور مادیت کا پرستار نہ ہوتا تو یہ مضمون کسی توضیح و تشریح کا محتاج نہیں تھا، عقل سے کام لینے والا ہر انسان اس احسان عظیم کی حقیقت سے خود واقف ہوتا، مگر ہو یہ رہا ہے کہ آج کا انسان دنیا کے جانوروں میں ہوشیا رترین جانور سے زیادہ کچھ نہیں رہا اس کو احسان و انعام صرف وہ چیز نظر آتی ہے جو اس کے پیٹ اور نفسانی خواہشات کا سامان مہیا کرے، اس کے وجود کی اصل حقیقت جو اس کی روح ہے اس کی خوبی اور خرابی سے وہ یکسر غافل ہوگیا ہے، اس لئے اس تشریح کی ضرورت ہوئی کہ انسان کو پہلے تو یہ بتلایا جائے کہ اس کی حقیت صرف چند ہڈیوں اور گوشت پوست کا مجموعہ نہیں، بلکہ حقیقت انسان وہ روح ہے جو اس کے بدن کے ساتھ متعلق ہے، جب تک یہ روح اس کے بدن میں ہے اس وقت تک انسان انسان ہے، اس کے حقوق انسانیت قائم ہیں، خواہ وہ کتنا ہی ضعیف و کمزور، لب دم کیوں نہ ہو، کسی کی مجال نہیں کہ اس کی جائیداد اور اموال پر قبضہ کرسکے، یا اس کے حقوق سلب کرسکے، لیکن جس وقت یہ روح اس کے بدن سے الگ ہوگئی، تو خواہ وہ کتنا ہی قوی اور پہلوان ہو اور اس کے اعضاء سب اپنی اصلی ہئیت میں ہوں وہ انسان نہیں رہا، اس کا کوئی حق خود اپنی جائیداد و اموال میں باقی نہیں رہا۔- انبیاء (علیہم السلام) دنیا میں آتے ہیں اس لئے کہ وہ انسانی روح کی صحیح تربیت کر کے انسان کو حقیقی انسان بنائیں، تاکہ اس کے بدن سے جو اعمال و افعال صادر ہوں وہ انسانیت کے لئے مفید ثابت ہوں، وہ درندے اور زہریلے جانوروں کی طرح دوسرے انسانوں کو ایذاء اور تکلیف دیتا نہ پھرے اور خود اپنے بھی انجام کو سمجھ کر آخرت کی دائمی زندگی کا سامان مہیا کرے، ہمارے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جیسے زمرہ انبیاء میں امامت و سیادت کا منصب حاصل ہے، انسان کو صحیح انسان بنانے میں بھی آپ کی شان تمام انبیاء (علیہم السلام) سے بہت ممتاز ہے، آپ نے اپنی مکی زندگی میں صرف یہی کام افراد سازی کا انجام دیا اور انسانوں کا ایسا معاشرہ تیار کردیا جس کا مقام فرشتوں کی صفوف سے آگے ہے اور زمین و آسمان نے اس سے پہلے ایسے انسان نہیں دیکھے، ان میں سے ایک ایک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زندہ معجزہ نظر آتا ہے، ان کے بعد کے لئے بھی آپ نے جو تعلیمات اور ان کے رواج دینے کے طریقے چھوڑے ہیں اس پر پورا عمل کرنے والے اسی مقام کو پاسکتے ہیں جو صحابہ کرام نے پایا ہے، یہ تعلیمات سارے عالم کے لئے ہیں، اس لئے آپ کا وجود باجود پورے عالم انسان کے لئے احسان عظیم ہے، گو اس سے پورا نفع مؤمنین ہی نے اٹھایا ہے۔
لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ ٠ ۚ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ١٦٤- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] - وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- منن - والمِنَّةُ : النّعمة الثّقيلة، ويقال ذلک علی وجهين : أحدهما : أن يكون ذلک بالفعل، فيقال : منَّ فلان علی فلان : إذا أثقله بالنّعمة، وعلی ذلک قوله : لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 164]- والثاني : أن يكون ذلک بالقول،- وذلک مستقبح فيما بين الناس إلّا عند کفران النّعمة، ولقبح ذلک قيل : المِنَّةُ تهدم الصّنيعة «4» ، ولحسن ذكرها عند الکفران قيل : إذا کفرت النّعمة حسنت المنّة . وقوله : يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات 17] فالمنّة منهم بالقول، ومنّة اللہ عليهم بالفعل، وهو هدایته إيّاهم كما ذكر، - ( م ن ن ) المن - المن کے معنی بھاری احسان کے ہیں اور یہ دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ایک منت بالفعل جیسے من فلان علیٰ فلان یعنی فلاں نے اس پر گرا انبار احسان کیا ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 164] خدا نے مومنوں پر بڑا احسان گیا ہے ۔- اور دوسرے معنی منۃ بالقول - یعنی احسان جتلانا گو انسانی معاشرہ میں معیوب سمجھا جاتا ہے مگر جب کفران نعمت ہو رہا ہو تو اس کے اظہار میں کچھ قباحت نہیں ہے اور چونکہ ( بلاوجہ اس کا اظہار معیوب ہے اس لئے مشہور ہے ، المنۃ تھدم الصنیعۃ منت یعنی احسان رکھنا احسان کو بر باد کردیتا ہے اور کفران نعمت کے وقت چونکہ اس کا تذکرہ مستحن ہوتا ہے اس لئے کسی نے کہا ہے : جب نعمت کی ناشکری ہو تو احسان رکھنا ہیں مستحن ہے اور آیت کریمہ : ۔ يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات 17] یہ لوگ تم احسان رکھتے ہیں ۔ کہ مسلمان ہوگئے ہیں ، کہدو کہ اپنے مسلمان ہونے کا مجھ پر احسان نہ رکھو ۔ بلکہ خدا تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا رستہ دکھایا ۔ میں ان کی طرف سے منت بالقوم یعنی احسان جتلانا مراد ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے منت بالفعل یعنی انہیں ایمان کی نعمت سے نواز نامراد ہے۔- بعث - أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، - فالبعث ضربان :- بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة .- وإلهي، وذلک ضربان :- أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد .- والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] ، يعني : يوم الحشر - ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا - پس بعث دو قمخ پر ہے - بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا ) - دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ - دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے - رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - تلاوة- تختص باتباع کتب اللہ المنزلة، تارة بالقراءة، وتارة بالارتسام لما فيها من أمر ونهي، وترغیب وترهيب . أو ما يتوهم فيه ذلك، وهو أخصّ من القراءة، فکل تلاوة قراءة، ولیس کل قراءة تلاوة، لا يقال : تلوت رقعتک، وإنما يقال في القرآن في شيء إذا قرأته وجب عليك اتباعه . هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت[يونس 30] ، وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال 31]- - التلاوۃ ۔ بالخصوص خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتابوں کے اتباع تلاوۃ کہا جاتا ہے کبھی یہ اتباع ان کی قراءت پڑھنے ) کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی ان کے ادا مرد نواحی ( احکام ) ترغیب وترہیب اور جو کچھ ان سے سمجھا جا سکتا ہے ان کی اتباع کی صورت ہیں ، مگر یہ لفظ قرآت ( پڑھنے ) سے خاص ہے یعنی تلاوۃ کے اندر قراۃ کا مفہوم تو پایا جاتا ہے مگر تلاوۃ کا مفہوم قراء ۃ کے اندر نہیں آتا چناچہ کسی کا خط پڑھنے کے لئے تلوت رقعتک نہیں بالتے بلکہ یہ صرف قرآن پاک سے کچھ پڑھنے پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے اس پر عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص اپنے ( اپنے ) اعمال کی ) جو اس نے آگے بھجیے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت تتلوا بھی ہے یعنی وہاں ہر شخص اپنے عمل نامے کو پڑھ کر اس کے پیچھے چلے گا ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال 31] اورا ن کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں - زكا ( تزكية)- وبِزَكَاءِ النّفس وطهارتها يصير الإنسان بحیث يستحقّ في الدّنيا الأوصاف المحمودة، وفي الآخرة الأجر والمثوبة . وهو أن يتحرّى الإنسان ما فيه تطهيره، وذلک ينسب تارة إلى العبد لکونه مکتسبا لذلک، نحو : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها[ الشمس 9] ، وتارة ينسب إلى اللہ تعالی، لکونه فاعلا لذلک في الحقیقة نحو : بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] ، وتارة إلى النّبيّ لکونه واسطة في وصول ذلک إليهم، نحو : تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] ، يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] ، وتارة إلى العبادة التي هي آلة في ذلك، نحو : وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] ، لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] ، أي :- مُزَكًّى بالخلقة، وذلک علی طریق ما ذکرنا من الاجتباء، وهو أن يجعل بعض عباده عالما وطاهر الخلق لا بالتّعلّم والممارسة بل بتوفیق إلهيّ ، كما يكون لجلّ الأنبیاء والرّسل . ويجوز أن يكون تسمیته بالمزکّى لما يكون عليه في الاستقبال لا في الحال، والمعنی: سَيَتَزَكَّى، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] ، أي : يفعلون ما يفعلون من العبادة ليزكّيهم الله، أو لِيُزَكُّوا أنفسهم، والمعنیان واحد . ولیس قوله :- «للزّكاة» مفعولا لقوله : «فاعلون» ، بل اللام فيه للعلة والقصد .- وتَزْكِيَةُ الإنسان نفسه ضربان :- أحدهما : بالفعل، وهو محمود وإليه قصد بقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] ، وقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی 14] .- والثاني : بالقول، كتزكية العدل غيره، وذلک مذموم أن يفعل الإنسان بنفسه، وقد نهى اللہ تعالیٰ عنه فقال : فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] ، ونهيه عن ذلک تأديب لقبح مدح الإنسان نفسه عقلا وشرعا، ولهذا قيل لحكيم : ما الذي لا يحسن وإن کان حقّا ؟ فقال : مدح الرّجل نفسه .- اور تزکیہ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا اور تزکیہ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارت نفس حاصل ہوتی ہے اور فعل تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] کہ جس نے اپنی روح کو پاک کیا ( وہ ضرور اپنی ) مراد کو پہنچا ۔ اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے ۔ اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] کہ اس سے تم ان کو ( ظاہر میں بھی ) پاک اور ( باطن میں بھی ) پاکیزہ کرتے ہو ۔ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں بذریعہ تعلیم ( اخلاق رذیلہ ) سے پاک کرتا ہے : ۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف ہوتی ہے کیونکہ عبادت تزکیہ کے حاصل کرنے میں بمنزلہ آلہ کے ہے چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی ۔ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا [ مریم 19] تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں یعنی وہ فطرتا پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔ بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں بلکہ محض توفیق الہی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے ۔ اور آیت کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا زکیا کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے قرآن میں ہے : ۔ - وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں والما ل واحد ۔ لہذا للزکوۃ میں لام تعلیل کے لیے ہے جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو ۔ انسان کے تزکیہ نفس کی دو صورتیں ہیں ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا یہ طریق محمود ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] اور آیت : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی 14] میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں ۔ دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونیکی شہادت دیتا ہے ۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلا ہی درست ہے اور نہ ہی شرعا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا مدح الانسان نفسہ کہ خود ستائی کرنا ۔- علم ( تعلیم)- اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] - تعلیم - کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔- ضَلل - وإذا کان الضَّلَالُ تركَ الطّريق المستقیم عمدا کان أو سهوا، قلیلا کان أو كثيرا، صحّ أن يستعمل لفظ الضَّلَالِ ممّن يكون منه خطأ ما، ولذلک نسب الضَّلَالُ إلى الأنبیاء، وإلى الكفّار، وإن کان بين الضَّلَالَيْنِ بون بعید، ألا تری أنه قال في النّبي صلّى اللہ عليه وسلم : وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدى[ الضحی 7] ، أي : غير مهتد لما سيق إليك من النّبوّة . وقال في يعقوب : إِنَّكَ لَفِي ضَلالِكَ الْقَدِيمِ [يوسف 95] ، وقال أولاده :إِنَّ أَبانا لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف 8] ، إشارة إلى شغفه بيوسف وشوقه إليه، وکذلك : قَدْ شَغَفَها حُبًّا إِنَّا لَنَراها فِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف 30] ، وقال عن موسیٰ عليه السلام : فَعَلْتُها إِذاً وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ [ الشعراء 20] ، تنبيه أنّ ذلک منه سهو، وقوله : أَنْ تَضِلَّ إِحْداهُما[ البقرة 282] ، أي : تنسی، وذلک من النّسيان الموضوع عن الإنسان .- جب کہ ضلال کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں خواہ وہ ہٹنا عمدا ہو یا سہوا تھوڑا ہو یا زیادہ تو جس سے بھی کسی قسم کی غلطی سرزد ہوگی اس کے متعلق ہم ضلالت کا لفظ استعمال کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انبیاء اور کفار دونوں کی طرف ضلالت کی نسبت کی گئی ہے گو ان دونوں قسم کی ضلالت میں بون بعید پایا جاتا ہے ۔ دیکھئے آنحضرت کو آیت کریمہ : وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدى[ الضحی 7] میں ضالا میں فرمایا ہے جس کے معنی یہ ہیں ک ہدایت نبوت کے عطا ہونے سے قبل تم اس راہ نمائی سے محروم تھے اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارے میں ان کی اولاد کا کہنا إِنَّكَ لَفِي ضَلالِكَ الْقَدِيمِ [يوسف 95] کہ آپ اسی پرانی غلطی میں مبتلا ) ہیں ۔ یا یہ کہنا :إِنَّ أَبانا لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف 8] کچھ شک نہیں کہ اباصریح غلطی پر ہیں ۔ تو ان آیات میں ضلال سے مراد یہ ہے کہ وہ یوسف ( (علیہ السلام) ) کی محبت اور ان کے اشتیاق میں سرگردان ہیں اسی طرح آیت کریمہ : قَدْ شَغَفَها حُبًّا إِنَّا لَنَراها فِي ضَلالٍ مُبِينٍ [يوسف 30] اس کی محبت اس کے دل میں گھر کرگئی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ صریح گمراہی میں ہیں ۔ میں بھی ضلال مبین سے والہانہ محبت مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :إِذاً وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ [ الشعراء 20] اور میں خطا کاروں میں تھا ۔ میں موسیٰ ٰ (علیہ السلام) نے اپنے ضال ہونے کا اعتراف کرکے اشارہ کیا ہے کہ قتل نفس کا ارتکاب مجھ سے سہوا ہوا تھا ۔ اور آیت : أَنْ تَضِلَّ إِحْداهُما[ البقرة 282] اور اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی ۔ میں تضل کے معنی بھول جانا کے ہیں اور یہی وہ نسیان ہے جسے عفو قرار دیا گیا ہے
آیت ١٦٤ (لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ ) ( اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِہِمْ ) - یعنی ان کی اپنی قوم میں سے۔- (یَتْلُوْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ ) (وَیُزَکِّیْہِمْ ) (وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ج) - یہ انقلاب نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اساسی منہاج کے چار عناصر ہیں ‘ جنہیں قرآن اسی ترتیب سے بیان کرتا ہے : تلاوت آیات ‘ تزکیہ اور تعلیم کتاب و حکمت۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کی دعا میں جو ترتیب تھی ‘ اللہ نے اس کو تبدیل کیا ہے۔ اس پر سورة البقرۃ آیت ١٥١ کے ذیل میں گفتگو ہوچکی ہے۔