Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بیئر معونہ کے شہداء اور جنت میں ان کی تمنا ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ گو شہید فی سبیل اللہ دنیا میں مار ڈالے جاتے ہیں لیکن آخرت میں ان کی روحیں زندہ رہتی ہیں اور رزق پاتی ہیں ، اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس یا ستر صحابیوں کو بیئر معونہ کی طرف بھیجا تھا یہ جماعت جب اس غار تک پہنچی جو اس کنویں کے اوپر تھی تو انہوں نے وہاں پڑاؤ کیا اور آپس میں کہنے لگے کون ہے؟ جو اپنی جان خطرہ میں ڈال کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ ان تک پہنچائے ایک صحابی اس کے لئے تیار ہوئے اور ان لوگوں کے گھروں کے پاس آکر با آواز بلند فرمایا اے بیئر معونہ والو سنو میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد ہوں میری گواہی ہے کہ معبود صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں یہ سنتے ہی ایک کافر اپنا تیر سنبھالے ہوئے اپنے گھر سے نکلا اور اس طرح تاک کر لگایا کہ ادھر کی پسلی سے ادھر کی پسلی میں آرپار نکل گیا ، اس صحابی کی زبان سے بیساختہ نکلا حدیث ( فزت ورب الکعبۃ ) کعبے کے اللہ کی قسم میں اپنی مراد کو پہنچ گیا اب کفار نشانات ٹٹولتے ہوئے اس غار پر جا پہنچے اور عامر بن طفیل نے جو ان کا سردار تھا ان سب مسلمانوں کو شہید کر دیا حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کے بارے میں قرآن اترا کہ ہماری جانب سے ہماری قوم کو یہ خبر پہنچا دو کہ ہم اپنے رب سے ملے وہ ہم سے راضی ہو گیا اور ہم اس سے راضی ہو گئے ہم ان آیتوں کو برابر پڑھتے رہے پھر ایک مدت کے بعد یہ منسوخ ہو کر اٹھا لی گئیں اور آیت ( ولا تحسبن ) الخ ، اتری ( محمد بن جریر ) صحیح مسلم شریف میں ہے حضرت مسروق فرماتے ہیں ہم نے حضرت عبداللہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو حضرت عبداللہ نے فرمایا ہم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کا مطلب دریافت کیا تھا تو آپ نے فرمایا ان کی روحیں سبز رنگ پرندوں کے قالب میں ہیں ۔ عرش کی قندلیں ان کے لئے ہیں ساری جنت میں جہاں کہیں چاہیں چریں چگیں اور ان قندیلیوں میں آرام کریں ان کی طرف ان کے رب نے ایک مرتبہ نظر کی اور دریافت فرمایا کچھ اور چاہتے ہو؟ کہنے لگے اے اللہ اور کیا مانگیں ساری جنت میں سے جہاں کہیں سے چاہیں کھائیں پئیں اختیار ہے پھر کیا طلب کریں اللہ تعالیٰ نے ان سے پھر یہی پوچھا تیسری مرتبہ یہی سوال کیا جب انہوں نے دیکھا کہ بغیر کچھ مانگے چارہ ہی نہیں تو کہنے لگے اے رب ہم چاہتے ہیں کہ تو ہماری روحوں کو جسموں کی طرف لوٹا دے ہم پھر دنیا میں جا کر تیری راہ میں جہاد کریں اور مارے جائیں اب معلوم ہو گیا کہ انہیں کسی اور چیز کی حاجت نہیں تو ان سے پوچھنا چھوڑ دیا کہ کیا چاہتے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو لوگ مر جائیں اور اللہ کے ہاں بہتری پائیں وہ ہرگز دنیا میں آنا پسند نہیں کرتے مگر شہید کہ وہ تمنا کرتا ہے کہ دنیا میں دوبارہ لوٹایا جائے اور دوبارہ راہ اللہ میں شہید ہو کیونکہ شہادت کے درجات کو وہ دیکھ رہا ہے ( مسند احمد ) صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے ، مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے فرمایا اے جابر تمہیں معلوم بھی ہے؟ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد کو زندہ کیا اور ان سے کہا اے میرے بندے مانگ کیا مانگتا ہے؟ تو کہا اے اللہ دنیا میں پھر بھیج تا کہ میں دوبارہ تیری راہ میں مارا جاؤں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تو میں فیصلہ کر چکا ہوں کہ کوئی یہاں دوبارہ لوٹایا نہیں جائے گا ، ان کا نام حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام انصاری تھا اللہ تعالیٰ ان سے رضامند ہو ، صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت جابر فرماتے ہیں میرے باپ کی شہادت کے بعد میں رونے لگا اور ابا کے منہ سے کپڑا ہٹا ہٹا کر بار بار ان کے چہرے کو دیکھ رہا تھا ۔ صحابہ مجھے منع کرتے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش تھے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جابر رو مت جب تک تیرے والد کو اٹھایا نہیں گیا فرشتے اپنے پروں سے اس پر سایہ کئے ہوئے ہیں ، مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہارے بھائی احد والے دن شہید کئے گئے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی روحیں سبز پرندوں کے قالب میں ڈال دیں جو جنتی درختوں کے پھل کھائیں اور جنتی نہروں کا پانی پئیں اور عرش کے سائے تلے وہاں لٹکتی ہوئی قندیلوں میں آرام و راحت حاصل کریں جب کھانے پینے رہنے سہنے کی یہ بہترین نعمتیں انہیں ملیں تو کہنے لگے کاش کہ ہمارے بھائیوں کو جو دنیا میں ہیں ہماری ان نعمتوں کی خبر مل جاتی تاکہ وہ جہاد سے منہ نہ پھیریں اور اللہ کی راہ کی لڑائیوں سے تھک کر نہ بیٹھ رہیں اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا تم بےفکر رہو میں یہ خبر ان تک پہنچا دیتا ہوں چنانچہ یہ آیتیں نازل فرمائیں ، حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کے ساتھیوں کے بارے میں آیتیں اتریں ( مستدرک حاکم ) یہ بھی مفسرین نے فرمایا ہے کہ احد کے شہیدوں کے بارے میں یہ آیتیں نازل ہوئیں ۔ ابو بکر بن مردویہ میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا اور فرمانے لگے جابر کیا بات ہے کہ تم مجھے غمگین نظر آتے ہو؟ میں نے کہا یا رسول اللہ میرے والد شہید ہو گئے جن پر بار قرض بہت ہے اور میرے چھوٹے چھوٹے بہن بھائی بہت ہیں آپ نے فرمایا سن میں تجھے بتاؤں جس کسی سے اللہ نے کلام کیا پردے کے پیچھے سے کلام کیا لیکن تیرے باپ سے آمنے سامنے بات چیت کی فرمایا مجھ سے مانگ جو مانگے گا دوں گا تیرے باپ نے کہا اللہ عزوجل میں تجھ سے یہ مانگتا ہوں کہ تو مجھے دنیا میں دوبارہ بھیجے اور میں تیری راہ میں دوسری مرتبہ شہید کیا جاؤں ، رب عزوجل نے فرمایا یہ بات تو میں پہلے ہی مقرر کر چکا ہوں کہ کوئی بھی لوٹ کر دوبارہ دنیا میں نہیں جائے گا ۔ کہنے لگے پھر اے اللہ میرے بعد والوں کو ان مراتب کی خبر پہنچا دی جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آیت ( ولا تحسبن ) الخ ، فرمائی ، بیہقی میں اتنا اور زیادہ ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں تو اے اللہ تیری عبادت کا حق بھی ادا نہیں کر سکا ، مسند احمد میں ہے شہید لوگ جنت کے دروازے پر نہر کے کنارے سے گنبد سبز میں ہیں ، صبح شام انہیں جنت کی نعمتیں پہنچ جاتی ہیں ، دونوں احادیث میں تطبیق یہ ہے کہ بعض شہداء وہ ہیں جن کی روحیں پرندوں کے قالب میں ہیں اور بعض وہ ہیں جن کا ٹھکانا یہ گنبد ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جنت میں سے پھرتے پھراتے یہاں جمع ہوتے ہوں اور پھر یہ کھانے یہیں کھلائے جاتے ہوں واللہ اعلم ، یہاں پر وہ حدیث بھی وارد کرنا بالکل برمحل ہو گا جس میں ہر مومن کے لئے یہی بشارت ہے چنانچہ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن کی روح ایک پرند میں ہے جو جنت کے درختوں کے پھل کھاتی پھرتی ہے یہاں تک کہ قیامت والے دن جبکہ اللہ تعالیٰ سب کو کھڑا کرے تو اسے بھی اس کے جسم کی طرف لوٹا دے گا ، اس حدیث کے راویوں میں تین جلیل القدر امام ہیں جو ان چار اماموں میں سے ہیں جن کے مذاہب مانے جا رہے ہیں ، ایک تو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ آپ اس حدیث کو روایت کرتے ہیں ، امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ سے ان کے استاد ہیں حضرت امام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ پس امام احمد امام شافعی امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ سے ان کے استاد ہیں ۔ حضرت امام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ پس امام احمد امام شافعی امام مالک تینوں زبردست پیشوا اس حدیث کے راوی ہیں ۔ پس اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ایمانداروں کی روح جنتی پرند کی شکل میں جنت میں رہتی ہے اور شہیدوں کی روحیں جیسے کے پہلے گذر چکا ہے سبز رنگ کے پرندوں کے قالب میں رہتی ہیں یہ روحیں مثل ستاروں کے ہیں جو عام مومنین کی روحوں کو یہ مرتبہ حاصل نہیں ، یہ اپنے طور پر آپ ہی اڑتی ہیں ، اللہ تعالیٰ سے جو بہت بڑا مہربان اور زبردست احسانوں والا ہے ہماری دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے فضل و کرم سے ایمان و اسلام پر موت دے آمین ۔ پھر فرمایا کہ یہ شہید جن جن نعمتوں اور آسائشوں میں ہیں ان سے بیحد مسرور اور بہت ہی خوش ہیں اور انہیں یہ بھی خوشی اور راحت ہے کہ ان کے بھائی بند جو ان کے بعد راہ اللہ میں شہید ہوں گے اور ان کے پاس آئیں گے انہیں آئندہ کا کچھ خوف نہ ہو گا اور اپنے پیچھے چھوڑی ہوئی چیزوں پر انہیں حسرت بھی نہ ہو گی ، اللہ ہمیں بھی جنت نصیب کرے ، حضرت محمد بن اسحاق فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ وہ خوش ہیں کہ ان کے کئی اور بھائی بند بھی جو جہاد میں لگے ہوئے ہیں وہ بھی شہید ہو کر ان کی نعمتوں میں ان کے شریک حال ہوں گے اور اللہ کے ثواب سے فائدہ اٹھائیں گے ، حضرت سدی فرماتے ہیں شہید کو ایک کتاب دی جاتی ہے کہ فلاں دن تیرے پاس فلاں آئے گا اور فلاں دن فلاں آئے گا پس جس طرح دنیا والے اپنی کسی غیر حاضر کے آنے کی خبر سن کر خوش ہوتے ہیں اسی طرح یہ شہداء ان شہیدوں کی آنے کی خبر سے مسرور ہوتے ہیں ، حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جب شہید جنت میں گئے اور وہاں اپنی منزلیں اور رحمتیں دیکھیں تو کہنے لگے کاش کہ اس کا علم ہمارے ان بھائیوں کو بھی ہوتا جو اب تک دنیا میں ہی ہیں تاکہ وہ جواں مردی سے جان توڑ کر جہاد کرتے اور ان جگہوں میں جا گھستے جہاں سے زندہ آنے کی امید نہ ہوتی تو وہ بھی ہماری ان نعمتوں میں حصہ دار بنتے پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ان کے اس حال کی خبر پہنچا دی اور اللہ تعالیٰ نے ان سے کہ دیا کہ میں نے تمہاری خبر تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی ہے اس سے وہ بہت ہی مسرور و محفوظ ہوئے ، بخاری مسلم میں بیر معونہ والوں کا قصہ بیان ہو چکا ہے جو ستر شخص انصاری صحابی تھے اور ایک ہی دن صبح کے وقت کو بےدردی سے کفار نے تہ تیغ کیا تھا جن قاتلوں کے حق میں ایک ماہ نماز کی قنوت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دعا کی تھی اور جن پر لعنت بھیجی تھی جن کے بارے میں قرآن کی یہ آیت اتری تھی کہ ہماری قوم کو ہماری خبر پہنچاؤ کہ ہم اپنے رب سے ملے وہ ہم سے راضی ہوا اور ہم اس سے راضی ہو گئے ، وہ اللہ کی نعمت و فضل کو دیکھ دیکھ کر مسرور ہیں ، حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں یہ آیت ( یستبشرون ) تمام ایمانداروں کے حق میں ہے خواہ شہید ہوں خواہ غیر ۔ بہت کم ایسے موقع ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کی فضیلت اور ان کے ثوابوں کا ذکر نہ ہو ۔ پھر ان سچے مومنین کا بیان تعریف کے ساتھ ہو رہا ہے ۔ جنہوں نے حمراء اسد والے دن حکم رسول پر باوجود زخموں سے چور ہونے کے جہاد پر کمر کس لی تھی ، مشرکین نے مسلمانوں کو مصیبتیں پہنچائیں اور اپنے گھروں کی طرف واپس چل دئیے ۔ لیکن پھر انہیں اس کا خیال آیا کہ موقع اچھا تھا مسلمان ہار چکے تھے زخمی ہو گئے تھے ان کے بہادر شہید ہو چکے تھے اگر ہم اور جم کر لڑتے تو فیصلہ ہی ہو جاتا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کا یہ ارادہ معلوم کر کے مسلمانوں کو تیار کرنے لگے کہ میرے ساتھ چلو ہم ان مشرکین کے پیچھے جائیں تاکہ ان پر رعب طاری ہو اور یہ جان لیں کہ مسلمان ابھی کمزور نہیں ہوئے احد میں جو لوگ موجود تھے صرف انہی کو ساتھ چلنے کا حکم ملا ہاں صرف حضرت جابر بن عبداللہ کو ان کے علاوہ بھی ساتھ لیا اس آواز پر بھی مسلمانوں نے لبیک کہی باوجود یہ کہ زخموں میں چور اور خون میں شرابور تھے لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے لئے کمر بستہ ہو گئے ، حضرت عکرمہ کا بیان ہے کہ جب مشرکین احد سے لوٹے تو راستے میں سوچنے لگے کہ نہ تو تم نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قتل کیا نہ مسلمانوں کی عورتوں کو پکڑا افسوس تم نے کچھ نہ کیا واپس لوٹو جب یہ خبر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے مسلمانوں کو تیاری کا حکم دیا یہ تیار ہو گئے اور مشرکین کے تعاقب میں چل پڑے یہاں تک کہ حمراء الاسد تک یا بیئر ابی عینیہ تک پہنچ گئے ۔ مشرکین کے دل رعب و خوف سے بھر گئے اور یہ کہہ کر مکہ کی طرف چل دئیے اگلے سال دیکھا جائے گا حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی واپس مدینہ تشریف لائے ، یہ بھی بالاستقلال ایک الگ لڑائی گنی جاتی ہے اسی کا ذکر اس آیت میں ہے احد کی لڑائی پندرہ شوال بروز ہفتہ ہوئی تھی سولہویں تاریخ بروز اتوار منادی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ندا دی کہ لوگو دشمن کے تعاقب میں چلو اور وہی لوگ چلیں جو کل میدان میں تھے ، اس آواز پر حضرت جابر حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کل کی لڑائی میں میں نہ تھا اس لئے کہ میرے والد حضرت عبداللہ نے مجھ سے کہا بیٹے تمہارے ساتھ یہ چھوٹی چھوٹی بہنیں ہیں اسے تو نہ میں پسند کروں اور نہ تو کہ انہیں یہاں تنہا چھوڑ کر دونوں ہی چل دیں ایک جائے گا اور ایک یہاں رہے گا ۔ مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب تم جاؤ اور میں بیٹھا رہوں اس لئے میری خواہش ہے کہ تم اپنی بہنوں کے پاس رہو اور میں جاتا ہوں اس وجہ سے میں تو وہاں رہا اور میرے والد آپ کے ساتھ آئے اب میری عین تمنا ہے کہ آج مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ کے ساتھ چلوں چنانچہ آپ نے اجازت دی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر اس غرض سے تھا کہ دشمن دہل جائے اور پیچھے آتا ہوا دیکھ کر سمجھ لے کہ ان میں بہت کچھ قوت ہے اور ہمارے مقابلہ سے یہ عاجز نہیں ، قبیلہ بنو عبدالاشہل کے ایک صحابی کا بیان ہے کہ غزوہ احد میں ہم دونوں بھائی شامل تھے اور سخت زخمی ہو کر ہم لوٹے تھے ، جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے دشمن کے پیچھے جانے کی ندا دی تو ہم دونوں بھائیوں نے آپس میں کہا کہ افسوس نہ ہمارے پاس سواری ہے کہ اس پر سوار ہو کر اللہ کے نبی کے ساتھ جائیں نہ زخموں کے مارے جسم میں اتنی طاقت ہے کہ پیدل ساتھ ہو لیں افسوس کہ یہ غزوہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا ہمارے بیشمار گہرے زخم ہمیں آج جانے سے روک دیں گے لیکن پھر ہم نے ہمت باندھی مجھے اپنے بھائی کی نسبت ذرا ہلکے زخم تھے جب میرے بھائی بالکل عاجز آجاتے قدم نہ اٹھتا تو میں انہیں جوں توں کر کے اٹھا لیتا جب تھک جاتا اتار دیتا یونہی جوں توں کر کے ہم لشکر گاہ تک پہنچ ہی گئے ۔ ( رضی اللہ عنہما ) ( سیرت ابن اسحاق ) صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے حضرت عروہ سے کہا اے بھانجے تیرے دونوں باپ انہی لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں آیت ( اَلَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰهِ وَالرَّسُوْلِ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَصَابَھُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا مِنْھُمْ وَاتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِيْمٌ ) 3 ۔ آل عمران:172 ) آیت اتری ہے یعنی حضرت زبیر اور حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہما جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو احد کی جنگ میں نقصان پہنچا اور مشرکین آگے چلے تو آپ کو خیال ہوا کہ کہیں یہ پھر واپس نہ لوٹیں لہذا آپ نے فرمایا کوئی ہے جو ان کے پیچھے جائے اس پر ستر شخص اس کام کے لئے مستعد ہو گئے جن میں ایک حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے ، دوسرے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ تھے ، یہ روایت اور بہت سی اسناد سے بہت سی کتابوں میں ہے ، ابن مردویہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ تیرے دونوں باپ ان لوگوں میں سے ہیں لیکن یہ مرفوع بیان کرنا محض خطا ہے اس لئے بھی کہ اس کی اسناد میں ثقہ راویوں کا اختلاف ہے جو حضرت عائشہ کے باپ دادا میں سے نہیں صحیح یہ ہے کہ یہ بات حضرت عائشہ نے اپنے بھانجے حضرت اسماء بنت ابی بکر کے لڑکے عروہ سے کہی ہے ، حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابو سفیان کے دل میں رعب ڈال دیا اور باوجودیکہ کہ وہ احد کی لڑائی میں قدرے کامیاب ہو گیا تھا لیکن تاہم مکہ کی طرف چل دیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابو سفیان تمہیں نقصان پہنچا کر لوٹ گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے دل کو مرعوب کر دیا ہے ، احد کی لڑائی شوال میں ہوئی تھی اور تاجر لوگ ذی قعدہ میں مدینہ آتے تھے اور بدر صغریٰ میں اپنے ڈیرے ہر سال اس ماہ میں ڈالا کرتے تھے اس دفعہ بھی اس واقعہ کے بعد لوگ آئے مسلمان اپنے زخموں میں چور تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی تکالیف بیان کرتے تھے اور سخت صدمہ میں تھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ آپ کے ساتھ چلیں اور فرمایا کہ یہ لوگ اب کوچ کر جائیں گے اور پھر حج کو آئیں گے اور پھر اگلے سال تک یہ طاقت انہیں حاصل نہیں ہو گی لیکن شیطان نے اپنے دوستوں کو دھمکانا اور بہکانا شروع کر دیا اور کہنے لگا کہ ان لوگوں نے تمہارے استیصال کے لئے لشکر تیار کر لئے ہیں جس بنا پر لوگ ڈھیلے پڑ گئے آپ نے فرمایا سنو خواہ تم میں سے ایک بھی نہ چلے میں تن تنہا جاؤں گا پھر آپ کے رغبت دلانے پر حضرت ابو بکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت زبیر ، حضرت سعد ، حضرت طلحہ ، حضرت عبدالرحمن بن عوف ، حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت حذیفہ بن یمان ، حضرت ابو عبیدہ بن جراح وغیرہ ستر صحابہ آپ کے زیر رکاب چلنے پر آمادہ ہوئے ۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ، یہ مبارک لشکر ابو سفیان کی جستجو میں بدر صغریٰ تک پہنچ گیا انہی کی اس فضیلت اور جاں بازی کا ذکر اس مبارک آیت میں ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سفر میں مدینہ سے آٹھ میل حمراء اسد تک پہنچ گئے ۔ مدینہ میں اپنا نائب آپ نے حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنایا تھا ۔ وہاں آپ نے پیر منگل بدھ تک قیام کیا پھر مدینہ لوٹ آئے ، اثناء قیام میں قبیلہ خزاعہ کا سردار معبد خزاعی یہاں سے نکلا تھا یہ خود مشرک تھا لیکن اس پورے قبیلے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صلح و صفائی تھی اس قبیلہ کے مشرک مومن سب آپ کے خیر خواہ تھے اس نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو جو تکلیف پہنچی اس پر ہمیں سخت رنج ہے اللہ تعالیٰ آپ کو کامیابی کی خوشی نصیب فرمائے ، حمراء اسد پر آپ پہنچے مگر اس سے پہلے ابو سفیان چل دیا تھا گو اس نے اور اس کے ساتھیوں نے واپس آنے کا ارادہ کیا تھا کہ جب ہم ان پر غالب آگئے انہیں قتل کیا مارا پیٹا زخمی کیا پھر ادھورا کام کیوں چھوڑیں واپس جا کر سب کو تہ تیغ کر دیں ، یہ مشورے ہو ہی رہے تھے کہ معبد خزاعی وہاں پہنچا ابو سفیان نے اس سے پوچھا کہو کیا خبریں ہیں اس نے کہا آنحضور مع صحابہ کے تم لوگوں کے تعاقب میں آرہے ہیں وہ لوگ سخت غصے میں ہیں جو پہلے لڑائی میں شریک نہ تھے وہ بھی شامل ہو گئے ہیں سب کے تیور بدلے ہوئے ہیں اور بھرپور طاقت کے ساتھ حملہ آور ہو رہے ہیں میں نے تو ایسا لشکر کبھی دیکھا نہیں ، یہ سن کر ابو سفیان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور کہنے لگا اچھا ہی ہوا جو تم سے ملاقات ہو گئی ورنہ ہم تو خود ان کی طرف جانے کے لئے تیار تھے ، معبد نے کہا ہرگز یہ ارادہ نہ کرو اور میری بات کا کیا ہے غالباً تم یہاں سے کوچ کرنے سے پہلے ہی لشکر اسلام کے گھوڑوں کو دیکھ لو گے میں ان کے لشکر ان کے غصے ان کی تیاری اور اوالوالعزمی کا حال بیان نہیں کر سکتا میں تو تم سے صاف کہتا ہوں کہ بھاگو اور اپنی جانیں بچاؤ میرے پاس ایسے الفاظ نہیں جن سے میں مسلمانوں کے غیظ و غضب اور تہورو شجاعت اور سختی اور پختگی کا بیان کر سکوں ، پس مختصر یہ ہے کہ جان کی خیر مناتے ہو تو فوراً یہاں سے کوچ کرو ، ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کے چھکے چھوٹ گئے اور انہوں نے یہاں سے مکہ کی راہ لی ، قبیلہ عبدالقیس کے آدمی جو کاروبار کی غرض سے مدینہ جا رہے تھے ان سے ابو سفیان نے کہا کہ تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچا دینا کہ ہم نے انہیں تہ تیغ کر دینے کے لئے لشکر جمع کر لئے ہیں اور ہم واپس لوٹنے کا ارادہ میں ہیں ، اگر تم نے یہ پیغام پہنچا دیا تو ہم تمہیں سوق عکاظ میں بہت ساری کشمش دیں گے چنانچہ ان لوگوں نے حمراء اسد میں آکر بطور ڈراوے کے نمک مرچ لگا کر یہ وحشت اثر خبر سنائی لیکن صحابہ نے نہایت استقلال اور پامردی سے جواب دیا کہ ہمیں اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے ، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے ان کے لئے ایک پتھر کا نشان مقرر کر رکھا ہے اگر یہ لوٹیں گے تو وہاں پہنچ کر اس طرح مٹ جائیں گے جیسے گزشتہ کل کا دن ، بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ آیت بدر کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن صحیح تر یہی ہے کہ حمراء اسد کے بارے میں نازل ہوئی ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں نے انہیں پژمردہ دل کرنے کے لئے دشمنوں کے سازو سامان اور ان کی کثرت و بہتات سے ڈرایا لیکن وہ صبر کے پہاڑ ثابت ہوئے ان کے غیر متزلزل یقین میں کچھ فرق نہ آیا بلکہ وہ توکل میں اور بڑھ گئی اور اللہ کی طرف نظریں کر کے اس سے امداد طلب کی ، صحیح بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ آیت ( حسبنا اللہ ) الخ ، حضرت ابراہیم نے آگ میں پڑتے وقت پڑھا تھا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جب کہ کافروں کے ٹڈی دل لشکر سے لوگوں نے آپ کو خوف زدہ کرنا چاہا اس وقت پڑھا ، تعجب کی بات ہے کہ امام حاکم نے اس روایت کو رد کر کے فرمایا ہے کہ یہ بخاری مسلم میں نہیں ۔ بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ احد کے موقع پر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کے لشکروں کی خبر دی گئی تو آپ نے یہی کلمہ فرمایا اور روایت میں ہے کہ حضرت علی کی سردار کے ماتحت جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹا سا لشکر روانہ کیا اور راہ میں خزاعہ کے ایک اعرابی نے یہ خبر سنائی تو آپ نے یہ فرمایا تھا ۔ ابن مردویہ کی حدیث میں ہے آپ فرماتے ہیں جب تم پر کوئی بہت بڑا کام آپڑے تو تم آیت ( حسبنا اللہ ) آخر تک پڑھو مسند احمد میں ہے کہ دو شخصوں کے درمیان حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا تو جس کے خلاف فیصلہ صادر ہوا تھا اس نے یہی کلمہ پڑھا آپ نے اسے واپس بلا کر فرمایا بزدلی اور سستی پر اللہ کی ملامت ہوتی ہے دانائی دور اندیشی اور عقلمندی کیا کرو پھر کسی امر میں پھنس جاؤ تو یہی پڑھ لیا کرو ، مسند کی اور حدیث میں ہے کس طرح بےفکر اور فارغ ہو کر آرام پاؤں حالانکہ صاحب صور نے صور منہ میں لے رکھا ہے اور پیشانی جھکائے حکم اللہ کا منتظر ہے کہ کب حکم ہوا اور وہ صور پھونک دے ، صحابہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم کیا پڑھیں آپ نے فرمایا آیت ( حسبنا اللہ ونعم الوکیل ) ( علی اللہ توکلنا ) پڑھو ام المومنین حضرت زینب اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت زینب نے فخر سے فرمایا میرا نکاح خود اللہ نے کر دیا ہے اور تمہارے نکاح ولی وارثوں نے کئے ہیں ، صدیقہ نے فرمایا میری برأت اور پاکیزگی کی آیت اللہ تعالیٰ نے آسمان سے اپنے پاک کلام میں نازل فرمائی ہیں حضرت زینب اسے مان گئیں اور پوچھا یہ بتاؤ تم نے حضرت صفوان بن معطل کی سواری پر سوار ہوتے وقت کیا پڑھا تھا ، صدیقہ نے فرمایا دعا ( حسبی اللہ ونعم الوکیل ) یہ سن کر ام المومنین حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا تم نے ایمان والوں کا کلمہ کہا تھا ، چنانچہ اس آیت میں بھی رب رحیم کا ارشاد ہے کہ ان توکل کرنے والوں کی کفایت اللہ تعالیٰ نے کی اور ان کے ساتھ جو لوگ برائی کا ارادہ رکھتے تھے انہیں ذلت اور بربادی کے ساتھ پسپا کیا ، یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اپنے شہروں کی طرف بغیر کسی نقصان اور برائی کے لوٹے دشمن اپنی مکاریوں میں ناکام رہا ، ان سے اللہ خوش ہو گیا کیونکہ انہوں نے اس کی خوشی کا کام انجام دیا تھا اللہ تعالیٰ بڑے فضل و کرم والا ہے ۔ ابن عباس کا فرمان ہے کہ نعمت تو یہ تھی کہ وہ سلامت رہے اور فضل یہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تاجروں کے ایک قافلہ سے مال خرید لیا جس میں بہت ہی نفع ہوا اور اس کل نفع کو آپ نے اپنے ساتھیوں میں تقسیم فرما دیا ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ابو سفیان نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اب وعدے کی جگہ بدر ہے آپ نے فرمایا ممکن ہے چنانچہ وہاں پہنچے تو یہ ڈرپوک آیا ہی نہیں وہاں بازار کا دن تھا مال خرید لیا جو نفع سے بکا اسی کا نام غزوہ بدر صغریٰ ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ شیطان تھا جو اپنے دوستوں کے ذریعہ تمہیں دھمکا رہا تھا اور گیدڑ بھبکیاں دے رہا تمہیں چاہئے کہ ان سے نہ ڈرو صرف میرا ہی خوف دل میں رکھو کیونکہ ایمان داری کی یہی شرط ہے کہ جب کوئی ڈرائے دھمکائے اور دینی امور سے تمہیں باز رکھنا چاہئے تو مسلمان اللہ پر بھروسہ کرے اس کی طرف سمٹ جائے اور یقین مانے کہ کافی اور ناصر وہی ہے جیسے اور جگہ ہے آیت ( اَلَيْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ ۭ وَيُخَوِّفُوْنَكَ بِالَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ ) 39 ۔ الزمر:36 ) کیا اللہ جل شانہ اپنے بندوں کو کافی نہیں یہ لوگ تجھے اس کے سوا اوروں سے ڈرا رہے ہیں ( یہاں تک کہ فرمایا ) تو کہہ کہ مجھے اللہ کافی ہے توکل کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے اور جگہ فرمایا اولیاء شیطان سے لڑو ۔ شیطان کا مکر بڑا بودا ہے ۔ اور جگہ ارشاد ہے یہ شیطانی لشکر ہے یاد رکھو شیطانی لشکر ہی گھاٹے اور خسارے میں ہے اور جگہ ارشاد ہے آیت ( كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ ) 58 ۔ المجادلہ:21 ) اللہ تعالیٰ لکھ چکا ہے کہ غلبہ یقینا مجھے اور میرے رسولوں کو ہی ہو گا اللہ قوی اور عزیز ہے ۔ اور جگہ ارشاد ہے آیت ( ۭوَلَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ ) 22 ۔ الحج:40 ) جو اللہ کی مدد کرے گا اس کی امداد فرمائے گا اور فرمان ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ ) 47 ۔ محمد:7 ) اے ایمان والو اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری بھی مدد کرے گا اور آیت میں ہے آیت ( اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ ) 40 ۔ غافر:51 ) بالیقین ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان داروں کی مدد دینا میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جس دن گواہ کھڑے ہوں گے جس دن ظالموں کو عذر معذرت نفع نہ دے گی ان کے لئے لعنت ہے اور ان کے لئے برا گھر ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

169۔ 1 شہداء کی زندگی حقیقی ہے یا مجازی، یقینا حقیقی ہے لیکن اس کا شعور اہل دنیا کو نہیں، جیسا کہ قرآن نے وضاحت کردی ہے۔ ملاحظہ ہو (سورۃ بقرہ آیت نمبر 154) پھر اس زندگی کا مطلب کیا ہے ؟ بعض کہتے ہیں کہ قبروں میں ان کی روحیں لوٹا دی جاتی ہیں اور وہاں اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ جنت کے پھلوں کی خوشبوئیں انہیں آتی ہیں جن سے ان کے مشام جان معطر رہتے ہیں۔ لیکن حدیث سے ایک تیسری شکل معلوم ہوتی ہے اس لئے وہی صحیح، وہ یہ کہ ان کی روحیں سبز پرندوں کے جوف یا سینوں میں داخل کردی جاتی ہیں اور وہ جنت میں کھاتی پھرتی اور اس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتی ہیں (فتح القدیر بحوالہ صحیح مسلم)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٦٩] روح اور جسم کے اتصال کا نام زندگی اور انفصال کا نام موت ہے۔ قرآن میں دو بار کی زندگی اور دو بار کی موت کا ذکر آیا ہے اور ان کی ترتیب یہ ہے (١) موت یعنی انسان کی پیدائش سے پہلے کا وقت جسے عالم ارواح کہتے ہیں۔ (٢) زندگی یعنی پیدائش سے موت تک کا وقت (٣) موت یعنی موت سے قیامت (حشر) تک کا وقت اور (٤) زندگی یعنی حشر سے لے کرتا ابد لامتناہی مدت کے لیے، (جنت میں یا جہنم میں)- دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ موت کے عرصہ میں بھی کلی موت واقع نہیں ہوتی بلکہ زندگی کے کچھ نہ کچھ اثرات اس میں موجود ہوتے ہیں جیسے عالم ارواح میں تمام پیدا ہونے والے انسانوں سے الست بربکم کا وعدہ لیا گیا تھا اور جیسے عالم برزخ میں بھی مردہ کو عذاب وثواب ہوتا ہے اور ان ادوار کو موت کا دور اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان میں زندگی کے اثرات خفیف اور موت کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔- تیسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان مراحل میں شارٹ کٹ تو ہوسکتا ہے۔ مگر ترتیب میں فرق نہیں آسکتا۔ جیسے ایک بچہ پیدا ہوتے ہی مرجائے تو فوراً زندگی کے دور سے عالم برزخ (موت کے دور) میں داخل ہوجاتا ہے یا جیسے شہید مرتے ہی عالم برزخ کو پھلانگ کر فوراً جنت میں (عالم عقبیٰ ) میں داخل ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا تین آیات میں مذکور ہے۔- اور چوتھی قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان مراحل میں رجعت ناممکن ہے۔ مثلاً کوئی شخص پیدا ہو کر واپس عالم ارواح میں نہیں جاسکتا۔ اسی طرح عالم برزخ میں پہنچ چکا ہے وہ دنیا میں نہیں آسکتا۔ شہید چونکہ فوراً عالم عقبیٰ (جنت میں) پہنچ جاتا ہے۔ لہذا اس کا واپس عالم برزخ یا عالم دنیا میں آنا ناممکن ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل دو احادیث سے یہ پورا مضمون واضح ہوجاتا ہے۔- ١۔ حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ملے اور پوچھا کیا بات ہے جابر ؟ میں تمہیں شکستہ خاطر دیکھ رہا ہوں ؟ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ میرے والد (جنگ احد میں) شہید ہوگئے اور قرض اور چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ گئے آپ نے فرمایا : کیا میں تمہیں یہ بشارت نہ دوں کہ اس کی اللہ سے کیسے ملاقات ہوئی ؟ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضرور بتلائیے آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کسی سے کلام نہیں کرتا، مگر پردے کے پیچھے سے اللہ نے تمہارے باپ کو زندہ کیا پھر اس سے رو در رو بات کی اور پوچھا : کچھ آرزو کرو جو میں تمہیں عطا کروں۔ تیرے باپ نے کہا : اے میرے پروردگار مجھے دوبارہ زندگی دے تاکہ میں دوسری مرتبہ تیری راہ میں شہید ہوجاؤں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ بات پہلے سے طے ہوچکی ہے کہ لوگ دوبارہ دنیا کی طرف نہ لوٹیں گے راوی کہتا ہے۔ یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر)- ٢۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ ہم نے اس آیت کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ شھداء کی روحیں سبز پرندوں کی صورت میں ہوں گی۔ ان کے لیے عرش الٰہی میں کچھ قندیلیں لٹکی ہیں۔ یہ روحیں جنت میں جہاں چاہیں سیر کرتی پھرتی ہیں۔ پھر، ان قندیلیوں میں واپس آجاتی ہیں۔ ان کے پروردگار نے ان کی طرف دیکھا اور پوچھا : کیا تمہیں کسی چیز کی خواہش ہے ؟ تو انہوں نے کہا : ہم کس چیز کی خواہش کریں۔ ہم جہاں چاہیں سیر کرتی پھرتی ہیں۔ پروردگار نے ان سے تین بار یہی سوال کیا : جب انہوں نے دیکھا کہ اب جواب دیئے بغیر چارہ نہیں تو کہا : اے ہمارے پروردگار ہم یہ چاہتے ہیں کہ تو ہماری روحیں واپس (دنیا میں) لوٹا دے تاکہ ہم تیری راہ میں پھر جہاد کریں اور پھر شہید ہوں۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب فی بیان ان ارواح الشھداء فی الجنہ وانھم احیاء عندربھم یرزقون)- سورة بقرہ کی آیت نمبر ١٥٤ میں فرمایا گیا کہ شہداء کو مردہ نہ سمجھو۔ قرآن کے شہداء کے متعلق یہ ارشادات محض اعزازی نہیں۔ بلکہ شہداء کی فضیلت ہی یہ ہے کہ وہ عالم دنیا سے رخصت ہوتے ہی فوراً جنت میں پہنچ جاتے ہیں۔ عالم برزخ یعنی موت والا تیسرا دور ان پر نہیں آتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اس آیت میں منافقین کے اس شبہ کی کہ ” جہاد میں شامل ہونا خواہ مخواہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے “ ایک دوسرے طریقے سے تردید کی ہے۔ فرمایا، نہیں بلکہ اس سے دائمی زندگی حاصل ہوتی ہے، شہداء کو اللہ کے ہاں بلند درجے ملتے ہیں، پروردگار کے ہاں انھیں ہر قسم کی نعمت اور لذت حاصل ہوتی ہے، یہ زندگی حقیقی زندگی ہے مگر دنیا والی زندگی نہیں، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، جو ہماری نگاہ سے اوجھل ہے، جسے ” برزخ “ کہتے ہیں اور جو ہماری سمجھ میں نہیں آسکتی، فرمایا : ( ٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ ) [ البقرۃ : ١٥٤ ] ” اور لیکن تم (اس زندگی کو) نہیں سمجھتے۔ “- عبد اللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت کریمہ ( وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ۭ ) سے متعلق پوچھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ان (شہداء) کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے قالب میں ہوتی ہیں اور ان کے لیے عرش الٰہی کے ساتھ قندیلیں معلق ہوتی ہیں، وہ جنت میں جہاں سے چاہتی ہیں کھاتی پیتی ہیں، پھر عرش کے نیچے لٹکی ہوئی انہی قندیلوں میں آکر رہتی ہیں۔ “ [ مسلم، الأمارۃ، باب بیان أن أرواح الشھداء فی الجنۃ۔۔ : ١٨٨٧ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اور ایک وجہ تسلی یہ بھی ہے کہ جو مسلمان اس معرکہ میں شہید ہوگئے ہیں ان کو حق تعالیٰ نے وہ انعامات دیئے ہیں کہ دوسروں کو ان پر رشک آنا چاہئے اس مناسبت سے اس کے بعد کی آیت ولاتحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتاً میں شہداء کے خاص فضائل بیان فرمائے گئے ہیں۔- اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کے خاص فضائل اور درجات :۔- اس آیت میں شہداء کے خاص فضائل کا بیان ہے اور احادیث صحیحہ میں اس کی بڑی تفصیل وارد ہوئی ہے، امام قرطبی نے فرمایا ہے کہ شہداء کے بھی درجات اور حالات مختلف ہوتے ہیں، اس لئے روایات حدیث میں جو مختلف صورتیں آئی ہیں، وہ مختلف حالات کے اعتبار سے ہیں۔- یہاں شہداء کی پہلی فضیلت تو یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مرے نہیں، بلکہ دائمی زندگی کے مالک ہوگئے ہیں، یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ بظاہر ان کا مرنا اور قبر میں دفن ہونا تو مشاہد اور محسوس ہے، پھر قرآن کی متعدد آیات میں ان کو مردہ نہ کہنے اور نہ سمجھنے کی جو ہدایت آئی ہے اس کا کیا مطلب ہے ؟ اگر کہا جائے کہ حیات برزخی مراد ہے، تو وہ ہر شخص مومن و کافر کو حاصل ہے کہ مرنے کے بعد اس کی روح زندہ رہتی ہے اور قبر کے سوال و جواب کے بعد مؤمنین حاصل ہے کہ مرنے کے بعد اس کی روح زندہ رہتی ہے اور قبر کے سوال و جواب کے بعد مؤمنین صالحین کے لئے سامان راحت اور کفار فجار کے لئے قبر کا عذاب قرآن و سنت سے ثابت ہے، تو یہ حیات برزخی جب سب کے لئے عام ہے تو شہداء کی کیا خصوصیت ہوتی ؟- جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کی اسی آیت نے یہ بتلایا ہے کہ شہداء کو اللہ کی طرف سے جنت کا رزق ملتا ہے اور رزق زندہ آدمی کو ملا کرتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اس دنیا سے منتقل ہوتے ہی شہید کے لئے رزق جنت جاری ہوجاتا ہے اور ایک خاص قسم کی زندگی اسی وقت سے اس کو مل جاتی ہے، جو عام مردوں سے ممتاز حیثیت کی ہے (قرطبی) اب رہا کہ وہ امتیاز کیا ہے ؟ اور وہ زندگی کیسی ہے ؟ اس کی حقیت سوائے خالق کائنات کے نہ کوئی جان سکتا ہے نہ جاننے کی ضرورت ہے، البتہ بسا اوقات ان کی حیات خاص کا اثر اس دنیا میں بھی ان کے ابدان پر ظاہر ہوتا ہے کہ زمین ان کو نہیں کھاتی وہ صحیح سالم باقی رہتے ہیں (قرطبی) جس کے بہت سے واقعات مشاہدہ کئے گئے ہیں۔ شہداء کی پہلی فضیلت اس آیت میں ان کی ممتاز دائمی حیات ہے، دوسری یہ کہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق ملتا ہے، تیسری فضیلت فرحین بما اتھم اللہ میں یہ بیان کی گئی کہ وہ ہمیشہ خوش و خرم رہیں گے، ان نعمتوں میں جو ان کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ اَمْوَاتًا۝ ٠ ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ۝ ١٦٩ ۙ- حسب ( گمان)- والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] - ( ح س ب ) الحساب - اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ - قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

شہداء زندہ میں اور اپنے رب سے رزق پا رہے ہیں - قول باری ہے (ولاتحسبن الذین قتلوافی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عندربھم یرزقون۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں انھیں مردہ نہ سمجھو، وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں)- بعض لوگوں کا قول ہے کہ اس سے مراد جنت میں ان کا زندہ ہونا ہے اس لیے کہ موت کے بعد ان کی روحوں کی واپسی اگر جائز ہوتی تو پھر، تناسخ اور، اواگون، کے نظریے کو درست ماننا ضروری ہوجاتا۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جمہور اس بات کے قائل ہیں کہ شہداء پر موت طاری ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ انھیں زندہ کردیتا اور ان کے استحقاق اپنی نعمتوں سے انھیں نواز تا ہے حتی کہ پورے عالم کے فنا ہونے کے وقت یہ بھی فنا ہوجائیں گے اور پھر آخرت میں دوبارہ زندہ ہوکر جنت میں جائیں گے۔ اس لیے کہ اللہ نے یہ خبردی ہے کہ وہ زندہ ہیں جو اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ فی الحال زندہ ہوں۔- اگر جنت میں ان کی زندگی کی تاویل قبول کرلی جائے تو پھر اس سے آیت میں مذکورہ خبرکا کوئی فائدہ باقی نہیں رہے گا، کیونکہ کسی بھی مسلمان کو اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ شہداء جنت میں دوسرے جنتیوں کی طرح زندہ ہوں گے۔ اس لیے کہ جنت میں کسی مردے کے ہونے کا سوال خارج ازبحث ہے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول فرحین بمااتاھم اللہ من فضلہ۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنے فضل سے جو کچھ دیا ہے اس پر وہ خوش ہیں) سے ان کی یہ صفت بیان کی ہے کہ وہ اپنی اس حالت پر خوش ہیں۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے (یستبشرون با (رح) لذین لم یلحقوابھم من خلفھم۔ اور مطمئن ہیں کہ جو اہل ایمان ان کے پیچھے دنیا میں رہ گئے ہیں اور ابھی وہاں نہیں پہنچے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ) یہ اہل ایمان آخرت میں ان سے جاملیں گے۔ حضرت ابن عباس حضرت ابن مسعو (رض) اور حضرت جابر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپنے فرمایا (لمااصیب اخوانکم باحدجعل اللہ ارواحھم فی حواصل طیورخضر تحت العرش تروانھارالجنۃ وتاکل من شہارھا وتاوی الی قناویل معلقۃ تحت العرش، جب تمہارے بھائی احد کے میدان میں شہیدہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی روحیں عرش کے نیچے بسنے والے سبز پرندوں کے پوٹوں میں ڈال دیں، اب وہ جنت میں بہنے والی ہزوں کا پانی پیتے، اس کے پھل کھاتے اور عرش کے نیچے معلق قندیلوں میں بسیرا کرتے ہیں) حسن ، عمروبن عبید، ابوحذیفہ اور واصل بن عطاء کا یہی مسلک ہے۔- اس میں تناسخ کے قائلین کے مسلک کی کوئی بات نہیں ہے۔ اس لیے کہ تناسخ کے مسئلے میں اصل قابل اعتراض جو بات ہے وہ روحوں کا دنیا میں باربار مختلف بھیسوں اور شکلوں میں آنا ہے اللہ تعالیٰ نے تو ایک قول کو مارکرانھیں زندہ کرنے کی بھی خبردی ہے چناچہ ارشاد ہے (الم ترالی الذین خسرجوامن دیارھم وھم الوف حذرالموت خقال لھم اللہ موتواثم احیاھم، تم نے ان لوگوں کے حال پر بھی غور کیا، جو موت کے ڈر سے اپنے گھریارچھوڑکرنکلے تھے اور ہزوروں کی تعداد میں تھے، اللہ نے ان سے فرمایا مرجاو۔ پھر اس نے ان کو دوبارہ زندگی بخشی) نیز یہ بھی خبردی کہ مردوں کو زندہ کرنا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ تھا۔ بس اسی طرح اللہ تعالیٰ شہیدوں کو بھی زندہ کردیتا ہے اور جہاں چہاہتا ہے ان کا ٹھکانہ بنادیتا ہے۔ قول باری ہے (عند ربھم یرزقون) اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اب ایسی جگر ہیں، جہاں ان کے رب کے سوا کوئی اور، نہ انھیں نفع پہنچاسکتا ہے اور نہ نقصان اس سے مرا قرب مسافت نہیں ہے۔ اسی لیے کہ اللہ کی ذات کی طرف مسافت کے ذریعے قرب اور بعد کی نسبت درست نہیں ہوتی، کیونکہ یہ باتیں جسم کے اوصاف میں بےشمارہوتی ہیں۔ ایک قول ہے کہ (عندربھم) سے مراد ان کا ایسی جگہ پر ہونا ہے جہاں ان کے احوال کا علم صرف خدا کو ہے کسی اور کو نہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٦٩) بدر اور احد میں جو حضرات شہید کردیئے گئے ان کو دیگر تمام مردوں کے طریقہ پر مت سمجھو، بلکہ وہ شہداء ایک ممتاز حیات کے ساتھ ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” قتلوا فی سبیل اللہ امواتا “۔ (الخ)- ابوداؤد (رح) اور حاکم (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جب غزوہ احد میں صحابہ کرام شہید ہوگئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرات کی روحوں کو سبز پرندوں کے پوٹوں میں کردیا ہے، وہ جنت کی نہروں سے پانی پیتے اور اس کے پھل کھاتے اور سونے کے قنادیل میں عرش الہی کے سایہ میں رہتے ہیں۔- جب وہاں جاکر ان حضرات نے اپنے کھانے پینے اور کلام کی پاکیزگی کو دیکھا تو کہنے لگے کاش ہمارے بھائی بھی ان انعامات کو جان لیتے جو اللہ تعالیٰ نے ہم پر نازل فرمائیے ہیں تاکہ وہ جہاد فی سبیل اللہ سے کبھی بھی دریخ نہ کرتے اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تمہارا پیغام ان کو پہنچا دیتا ہوں چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں۔- حدیث کا اخیر کا حصہ امام ترمذی (رح) نے حضرت جابر (رض) سے روایت کیا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٦٩ (وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا ط) ۔ - یہی مضمون قبل ازیں سورة البقرۃ میں آچکا ہے : (وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌط بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ )

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :120 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ حاشیہ نمبر ١۵۵ ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani