[٢٠] اس آیت میں ایسے متقی لوگوں کی پانچ صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہلی صفت صبر ہے۔ صبر ایک جامع اصطلاح ہے جس کا اطلاق عموماً دو طرح سے ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ کسی مصیبت کے پیش آنے پر جزع و فزع سے پرہیز کیا جائے اور اسے اللہ کی رضا کی خاطر خوشدلی سے برداشت کیا جائے اور کوئی ایسی بات منہ سے نہ نکالی جائے یا ایسی حرکت نہ کی جائے جو اللہ کی رضا کے خلاف ہو۔ اور دوسرے یہ کہ دین کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات و مصائب کو خوشدلی سے برداشت کرتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے جسے دوسرے لفظوں میں استقامت بھی کہتے ہیں اور یہ بھی صبر ہی کی قسم ہے۔ دوسری صفت صادق ہونا ہے۔ صادق کے لفظ کا اطلاق صرف اس شخص پر ہی نہیں ہوتا جو سچ بولنے کا عادی ہو بلکہ اس پر بھی ہوتا ہے جو اپنے تمام معاملات میں راست باز ہو۔ بدعہدیوں اور فریب کاریوں سے بچنے والا ہو۔ تیسری صفت شریعت کے اوامرو نواہی کے آگے سر تسلیم خم کرنا۔ چوتھی صفت اللہ کے عطا کردہ مال و دولت میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور پانچویں صفت مذکورہ اعمال کو بجا لانے پر پھول جانے کی بجائے اللہ سے استغفار کرنا ہے جس کا بہترین وقت رات کا آخری حصہ ہوتا ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ میں وارد ہے کہ اللہ تعالیٰ رات کے آخری حصہ میں آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماتا ہے اور فرماتا ہے : کون مجھ سے دعا کرتا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں ؟ کون مجھ سے مانگتا ہے کہ میں اسے عطا کروں ؟ کون مجھ سے گناہوں کی معافی چاہتا ہے کہ میں اس کے گناہ بخش دوں ؟ (بخاری، کتاب الدعوات، باب الدعاء نصف اللیل)
اَلصّٰبِرِيْنَ ” نیکی کرنے پر، گناہ سے بچنے پر، مصیبتیں آنے پر صبر کرنے والے۔ صبر کی یہ تین قسمیں ہیں۔ ” وَالصّٰدِقِيْنَ “ نیت، قول اور فعل میں سچے، حکم ماننے والے، اپنا مال و جان، اپنی اولاد اور اللہ کی دی ہوئی ہر نعمت خرچ کرنے والے اور یہ سب کچھ کرنے کے باوجود سحریوں (رات کی آخری گھڑیوں) میں اپنی عبادت پر مغرور ہونے کی بجائے اپنی کوتاہیوں کے لیے استغفار کرنے والے۔ - اس آیت سے خاص طور پر سحر (پچھلی رات) کے وقت استغفار کی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ (دیکھیے ذاریات : ١٥ تا ١٨) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات آسمان دنیا پر اترتا ہے، جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے، فرماتا ہے : ” کون ہے جو مجھ سے دعا کرے تو میں اس کی دعا قبول کروں ؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے تو میں اسے دوں ؟ کون ہے جو مجھ سے بخشش مانگے تو میں اسے بخشوں ؟ “ [ بخاری، التہجد، باب الدعاء ۔۔ : ١١٤٥، عن أبی ہریرۃ (رض) ]
اَلصّٰبِرِيْنَ وَالصّٰدِقِيْنَ وَالْقٰنِـتِيْنَ وَالْمُنْفِقِيْنَ وَالْمُسْـتَغْفِرِيْنَ بِالْاَسْحَارِ ١٧- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - قنت - القُنُوتُ : لزوم الطّاعة مع الخضوع، وفسّر بكلّ واحد منهما في قوله تعالی: وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ- [ البقرة 238] ، وقوله تعالی: كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم 26] قيل : خاضعون، وقیل :- طائعون، وقیل : ساکتون ولم يعن به كلّ السّكوت، وإنما عني به ما قال عليه الصلاة والسلام : «إنّ هذه الصّلاة لا يصحّ فيها شيء من کلام الآدميّين، إنّما هي قرآن وتسبیح» «1» ، وعلی هذا قيل : أيّ الصلاة أفضل ؟ فقال : «طول القُنُوتِ» «2» أي : الاشتغال بالعبادة ورفض کلّ ما سواه - ( ق ن ت ) القنوت - ( ن ) کے معنی خضوع کے ساتھ اطاعت کا التزام کرنے کے ہیں اس بناء پر آیت کریمہ : وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ [ البقرة 238] اور خدا کے آگے ادب کھڑے رہا کرو ۔ میں برض نے قانیتین کے معنی طائعین کئے ہیں یعنی اطاعت کی ھالت میں اور بعض نے خاضعین یعنی خشوع و خضوع کے ساتھ اسی طرح آیت کریمہ كُلٌّ لَهُ قانِتُونَ [ الروم 26] سب اس کے فرمانبردار ہیں ۔ میں بعض نے قنتون کے معنی خاضعون کئے ہیں اور بعض نے طائعون ( فرمانبرادار اور بعض نے ساکتون یعنی خاموش اور چپ چاپ اور اس سے بالکل خاموش ہوکر کھڑے رہنا مراد نہیں ہے بلکہ عبادت گذاری میں خاموشی سے ان کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( 87 ) کہ نماز ( تلاوت قرآن اور اللہ کی تسبیح وتحمید کا نام ہے اور اس میں کسی طرح کی انسانی گفتگو جائز نہیں ہے ۔ اسی بناء پر جب آپ سے پوچھا گیا کہ کونسی نماز افضل تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( 88 ) طول القنوت یعنی عبادت میں ہمہ تن مصروف ہوجانا اور اس کے ماسوا ست توجہ پھیرلینا قرآن میں ہے ۔- استغفار - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] - ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ - سحرصبح - والسَّحَرُ والسَّحَرَةُ : اختلاط ظلام آخر اللیل بضیاء النهار، وجعل اسما لذلک الوقت، ويقال : لقیته بأعلی السّحرین، والْمُسْحِرُ : الخارج سحرا، والسَّحُورُ : اسم للطعام المأكول سحرا، والتَّسَحُّرُ : أكله .- السحرۃ والسحرۃ اصل میں تو اس کے معنی آخر شب کی تاریکی کے ہیں جو دن کی ابتدائی روشنی میں مخلوط ہو ۔ پھر اس وقت کا نام ہی سحر رکھ دیا گیا ہے ۔ محاورہ ہے لقیتہ باعلی السحرین یعنی میں اسے صبح کاذب کے وقت ملا ۔ اور مسحر اس آدمی کو کہتے ہیں جو سحری کے وقت گھر سے نکلا ہو اور السحور اس طعام کو کہتے ہیں جو بوقت سحر تناول کیا جائے اور تسحر کے معنی سحور کرنے کے ہیں ۔
آیت ١٧ (اَلصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰدِقِیْنَ ) - راست بازی میں راست گوئی بھی شامل ہے اور راست کرداری بھی۔ یعنی آپ کا عمل بھی صحیح اور درست ہو اور قول بھی صحیح اور درست ہو۔- (وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْمُنْفِقِیْنَ ) (وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بالْاَسْحَارِ )- وہ جو سحر کا وقت ہے ( ) اس وقت اللہ کے حضور استغفار کرنے والے۔ ایک تو پنج وقتہ نمازیں ہیں ‘ اور ایک خاص وقت ہے جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ہر رات جب رات کا آخری ایک تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ سمائے دنیا تک نزول فرماتا ہے اور کہتا ہے : (ھَلْ مِنْ سَاءِلٍ یُعْطٰی ؟ ھَلْ مِنْ دَاعٍ یُسْتَجَابُ لَہٗ ؟ ھَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ یُغْفَرُلَہٗ ؟ ) (١) ہے کوئی مانگنے والا کہ اسے عطا کیا جائے ؟ ہے کوئی دعا کرنے والا کہ اس کی دعا قبول کی جائے ؟ ہے کوئی استغفار کرنے والا کہ اسے معاف کردیا جائے ؟ گویا : - ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں - راہ دکھلائیں کسے راہ رو منزل ہی نہیں
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :13 یعنی راہ حق پر پوری استقامت دکھانے والے ہیں ۔ کسی نقصان یا مصیبت سے ہمت نہیں ہارتے ، کسی ناکامی سے دل شکستہ نہیں ہوتے ، کسی لالچ سے پھسل نہیں جاتے اور ایسی حالت میں بھی حق کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھامے رہتے ہیں ، جبکہ بظاہر اس کی کامیابی کا کوئی امکان نظر نہ آتا ہو ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ بقرہ ، حاشیہ نمبر ٦۰ ) ۔