اللہ وحدہ لاشریک اپنی وحدت کا خود شاہد اللہ تعالیٰ خود شہادت دیتا ہے بس اس کی شہادت کافی ہے وہ سب سے زیادہ سچا گواہ ہے ، سب سے زیادہ سچی بات اسی کی ہے ، وہ فرماتا ہے کہ تمام مخلوق اس کی غلام ہے اور اسی کی پیدا کی ہوئی ہے ۔ اور اسی کی طرف محتاج ہے ، وہ سب سے بےنیاز ہے ، الوہیت میں اللہ ہونے میں وہ یکتا اور لاشریک ہے ، اس کے سوا کوئی پوجے جانے کے لائق نہیں ، جیسے فرمان ہے آیت ( لٰكِنِ اللّٰهُ يَشْهَدُ بِمَآ اَنْزَلَ اِلَيْكَ اَنْزَلَهٗ بِعِلْمِهٖ ) 4 ۔ النسآء:166 ) یعنی لیکن اللہ تعالیٰ بذریعہ اس کتاب کے جو وہ تیری طرف اپنے علم سے اتار رہا ہے ، گواہی دے رہا ہے اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی شہادت کافی ہے ، پھر اپنی شہادت کے ساتھ فرشتوں کی شہادت پر علماء کی گواہی کو ملا رہا ہے ۔ یہاں سے علماء کی بہت بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے بلکہ خصوصی قائما کا نصب حال ہونے کی وجہ سے ہے وہ اللہ ہر وقت اور حال میں ایسا ہی ہے ، پھر تاکیداً دوبارہ ارشاد ہوتا ہے کہ معبود حقیقی صرف وہی ہے ، وہ غالب ہے ، عظمت اور کبریائی والی اس کی بارگاہ ہے ، وہ اپنے اقوال افعال اور شریعت قدرت و تقدیر میں حکمتوں والا ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں اس آیت کی تلاوت کی اور الحکیم تک پڑھ کر فرمایا وانا علی ذالک من الشاھدین یا رب ، ابن ابی حاتم میں ہے آپ نے یوں فرمایا وانا اشھدای رب طبرانی میں ہے حضرت غالب قطان فرماتے ہیں میں کوفے میں تجارتی غرض سے گیا اور حضرت اعمش کے قریب ٹھہرا ، رات کو حضرت اعمش تہجد کیلئے کھڑے ہوئے پڑھتے پڑھتے جب اس آیت تک پہنچے اور آیت ( اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ ) 3 ۔ آل عمران:19 ) پڑھا تو فرمایا وانا اشھد بما شھد اللہ بہ واستودع اللہ ھذہ الشھادۃ وھی لی عند اللہ ودیعتہ یعنی میں بھی شہادت دیتا ہوں اس کی جس کی شہادت اللہ نے دی اور میں اس شہادت کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں ، یہ میری امانت اللہ کے پاس ہے ، پھر کئی دفعہ آیت ( اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ ) 3 ۔ آل عمران:19 ) پڑھا ، میں نے اپنے دِل میں خیال کیا کہ شاید اس بارے میں کوئی حدیث سنی ہوگی ، صبح ہی صبح میں حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا کہ ابو محمد کیا بات تھی جو آپ اس آیت کو بار بار پڑھتے رہے؟ کہا کیا اس کی فضیلت تمہیں معلوم نہیں؟ میں نے کہا حضرت میں تو مہینہ بھر سے آپ کی خدمت میں ہوں لیکن آپ نے حدیث بیان ہی نہیں کی ، کہنے لگے اللہ کی قسم میں تو سال بھر تک بیان نہ کروں گا ، اب میں اس حدیث کے سننے کی خاطر سال بھر تک ٹھہرا رہا اور ان کے دروازے پر پڑا رہا جب سال کامل گزر چکا تو میں نے کہا اے ابو محمد سال گزر چکا ہے ، سُن مجھ سے ابو وائل نے حدیث بیان کی ، اس نے عبداللہ سے سنا ، وہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے پڑھنے والے کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور اللہ عزوجل فرمائے گا میرے اس بندے نے میرا عہد لیا ہے اور میں عہد کو پورا کرنے میں سب سے افضل و اعلیٰ ہوں ، میرے اس بندے کو جنت میں لے جاؤ ۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے وہ صرف اسلام ہی کو قبول فرماتا ہے ، اسلام ہر زمانے کے پیغمبر کی وحی کی تابعداری کا نام ہے ، اور سب سے آخر اور سب رسولوں کو ختم کرنے والے ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، آپ کی نبوت کے بعد نبوت کے سب راستے بند ہوگئے اب جو شخص آپ کی شریعت کے سوا کسی چیز پر عمل کرے اللہ کے نزدیک وہ صاحب ایمان نہیں جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ) 3 ۔ آل عمران:85 ) جو شخص اسلام کے سوا اور دین کی تلاش کرے وہ اس سے قبول نہیں کیا جائے گا ، اسی طرح اس آیت میں دین کا انحصار اسلام میں کر دیا ہے ۔ حضرت ابن عباس کی قرأت میں ( آیت شھد اللہ انہ ) ہے اور ان الاسلام ہے ، تو معنی یہ ہوں گے ، خود اللہ کی گواہی ہے اور اس کے فرشتوں اور ذی علم انسانوں کے نزدیک مقبول ہونے والا دین صرف اسلام ہی ہے ، جمہور کی قرأت میں ان زیر کے ساتھ ہے اور معنی کے لحاظ سے دونوں ہی ٹھیک ہیں ، لیکن جمہور کا قول زیادہ ظاہر ہے واللہ اعلم ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ پہلی کتاب والوں نے اپنے پاک اللہ کے پیغمبروں کے آنے اور اللہ کی کتابیں نازل ہونے کے بعد بھی اختلاف کیا ، جس کی وجہ سے صرف ان کا آپس کا بغض و عناد تھا کہ میں اس کیخلاف ہی چلوں چاہے وہ حق پر ہی کیوں نہ ہو ، پھر ارشاد ہے کہ جب اللہ کی آیتیں اتر چکی ، اب جو ان کا انکار کرے انہیں نہ مانے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے اس کی تکذیب کا بہت جلد حساب لے گا اور کتاب اللہ کی مخالفت کی وجہ سے اسے سخت عذاب دے گا اور اسے اس کی اس شرارت کا لطف چکھائے گا ۔ پھر فرمایا اگر یہ لوگ تجھ سے توحید باری تعالیٰ کے بارے میں جھگڑیں تو کہہ دو کہ میں تو خالص اللہ ہی کی عبادت کروں گا جس کا نہ کوئی شریک ہے نہ اس جیسا کوئی ہے ، نہ اس کی اولاد ہے نہ بیوی اور جو میرے امتی ہیں میرے دین پر ہیں ۔ ان سب کا قول بھی یہی ہے ، جیسے اور جگہ فرمایا آیت ( قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ ۷ عَلٰي بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ ۭ وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ) 12 ۔ یوسف:108 ) یعنی میری راہ یہی ہے میں خوب سوچ سمجھ کر دیکھ بھال کر تمہیں اللہ کی طرف بلا رہا ہوں ، میں بھی اور میرے تابعدار بھی یہی دعوے دے رہے ہیں ، پھر حکم دیتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہود و نصاریٰ جن کے ہاتھوں میں اللہ کی کتاب ہے اور مشرکین سے جو اَن پڑھ ہیں کہہ دو کہ تم سب کی ہدایت اسلام میں ہی ہے اور اگر یہ نہ مانیں تو کوئی بات نہیں ، آپ اپنا فرض تبلیغ ادا کر چکے ، اللہ خود ان سے سمجھ لے گا ، ان سب کو لوٹ کر اسی کے پاس جانا ہے وہ جسے سیدھا راستہ دکھائے جسے چاہے گمراہ کر دے ، اپنی حکمت کو وہی خوب جانتا ہے اس کی حجت تو پوری ہو کر ہی رہتی ہے ، اس کی اپنے بندوں پر نظر ہے اسے خوب معلوم ہے کہ ہدایت کا مستحق کون ہے اور کون ضلالت کا مستحق ہے؟ اس سے کوئی باز پرس نہیں کرسکتا ۔ دوسری آیتوں میں بھی صاف صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوق کی طرف اللہ کے نبی بن کر آئے ہیں ، اور خود آپ کے دین کے احکام بھی اس پر دلالت کرتے ہیں اور کتاب و سنت میں بھی بہت سی آیتیں اور حدیثیں اسی مفہوم کی ہیں ، قرآن پاک میں ایک جگہ ہے آیت ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ) 7 ۔ الاعراف:158 ) لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ۔ اور آیت میں ہے آیت ( تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِهٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَۨا ) 25 ۔ الفرقان:1 ) بابرکت ہے وہ اللہ جس نے اپنے بندوں پر قرآن نازل فرمایا تاکہ وہ تمام دنیا والوں کیلئے تنبیہ کرنے والا بن جائے ۔ بخاری و مسلم وغیرہ میں کئی کئی واقعات سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب و عجم کے تمام بادشاہوں کو اور دوسرے اطراف کے لوگوں کو خطوط بھجوائے جن میں انہیں اللہ کی طرف آنے کی دعوت دی خواہ وہ عرب ہوں عجم ہوں اہل کتاب ہوں مذہب والے ہوں اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کے فرض کو تمام و کمال تک پہنچا دیا ۔ مسند عبدالرزاق میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اس امت میں سے جس کے کان میں میری نسبت کی آواز پہنچے اور وہ میری لائی ہوئی چیز پر ایمان نہ لائے خواہ یہودی ہو خواہ نصرانی ہو مگر مجھ پر ایمان لائے بغیر مر جائے گا تو قطعاً جہنمی ہوگا ، مسلم شریف میں بھی یہ حدیث مروی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ میں ہر ایک سرخ و سیاہ کی طرف اللہ کا نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ، ایک اور حدیث میں ہے ہر نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا رہا اور میں تمام انسانوں کیلئے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ، مسند احمد میں حضرت انس سے مروی ہے کہ ایک یہودی لڑکا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے وضو کا پانی رکھا کرتا تھا اور جوتیاں لا کر رکھ دیتا تھا ، بیمار پڑا گیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بیمار پرسی کیلئے تشریف لائے ، اس وقت اس کا باپ اس کے سرہانے بیٹھا ہوا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے فلاں لا الہ الا اللہ کہہ ، اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا اور باپ کو خاموش دیکھ کر خود بھی چپکا ہو گیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ یہی فرمایا اس نے پھر اپنے باپ کی طرف دیکھا باپ نے کہا ابو القاسم کی مان لے ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پس اس بچے نے کہا اشھد ان لا الہ الا اللہ وانک رسول اللہ وہاں سے یہ فرماتے ہوئے اٹھے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے میری وجہ سے اسے جہنم سے بچا لیا ، یہی حدیث صحیح بخاری میں حضرت امام بخاری بھی لائے ہیں ، ان کے سوا اور بھی بہت سی صحیح حدیثیں بھی اور قرآن کریم کی آیتیں ہیں ۔
18۔ 1 شہادت کے معنی بیان کرنے اور آگاہ کرنے کے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا اور بیان کیا اس کے ذریعے سے اس نے اپنی وحدانیت کی طرف ہماری رہنمائی فرمائی۔ (فتح القدیر) فرشتے اور اہل علم بھی اس کی توحید کی گواہی دیتے ہیں۔ اس میں اہل علم کی بڑی فضیلت اور عظمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کے ناموں کے ساتھ ان کا ذکر فرمایا ہے تاہم اس سے مراد صرف وہ اہل علم ہیں جو کتاب اور سنت کے علم سے بہرہ ور ہیں۔ (فتح القدیر)
[٢١] اللہ تعالیٰ کی گواہی تو اس لحاظ سے سب سے زیادہ معتبر ہے کہ وہ خود خالق کائنات ہے اور اسے ٹھیک ٹھیک علم ہے کہ اس کائنات کی تخلیق و تدبیر میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں۔ دوسرے نمبر پر فرشتوں کی گواہی اس لحاظ سے معتبر ہے کہ وہ مدبرات امر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق کائنات کی تدبیر و انتظام و انصرام انہیں کے سپرد ہے، اگر کائنات میں دوسرا الٰہ بھی ہوتا تو انہیں یقینا اس کا علم ہونا چاہئے تھا۔ تیسرے نمبر پر ان لوگوں کی گواہی معتبر ہے جو اہل علم ہوں۔ کائنات میں غور و فکر کرنے والے ہوں اور ایسے تمام لوگوں کی گواہی بھی یہی ہے کہ اس کائنات میں اللہ کے سوا کوئی دوسرا الٰہ یا اس کا شریک نہیں ہے اور اگر ایسا ہوتا تو کائنات کا نظام مدتوں پیشتر تباہ و برباد ہوچکا ہوتا یا سرے سے ایسا منظم و مربوط نظام وجود میں ہی نہ آسکتا، اور جو کچھ وہ کر رہا ہے عین عدل و انصاف کے مطابق کر رہا ہے۔
شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ ) : اللہ تعالیٰ کے ہاں معتبر دین اسلام ہے، جیسا کہ آئندہ آیت میں آ رہا ہے اور اسلام کی بنیاد توحید الٰہی پر ہے۔ اس حقیقت سے وفد نجران اور تمام دنیا کو آگاہ کیا جا رہا ہے۔ ” شَهِدَ “ کا معنی ” بَیَّنَ وَ اَعْلَمَ “ یعنی بیان کیا اور آگاہ کیا ہے۔ (فتح القدیر) شاہد وہ ہے جو اپنے یقینی علم کے ساتھ آگاہ کرے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق اور ساری کائنات میں موجود بیشمار دلائل اور نشانیوں کے ساتھ اور اپنے رسولوں کے ذریعے سے پیغام بھیج کر شہادت دی اور آگاہ کیا ہے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اس حال میں کہ وہ اپنی مخلوق کے تمام معاملات و احوال میں عدل پر قائم ہے اور اس سے بڑھ کر کس کی شہادت ہوسکتی ہے اور اس کے پاک فرشتوں اور اہل علم نے بھی یہ شہادت دی ہے۔ آیت کے آخر میں پھر وہی دعویٰ ” لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ“ دہرایا اور اس کی دو مزید دلیلیں پیش فرمائیں کہ وہ سب پر غالب اور کمال حکمت والا ہے، کوئی اس پر غالب نہیں اور کمال حکمت والا اس کے سوا کوئی نہیں۔ کوئی ہے تو لاؤ پیش کرو۔ - قَاۗىِٕمًۢا بالْقِسْطِ ۭ: یہ لفظ ” اللہ “ سے حال ہے۔
خلاصہ تفسیر - ربط آیات - سابقہ آیات میں توحید کا بیان ہوا ہے مذکورہ آیتوں میں سے پہلی آیت میں بھی توحید خداوندی کا مضمون ایک خاص انداز سے بیان فرمایا گیا ہے کہ اس پر تین شہادتوں کا ذکر ہے ایک خود اللہ جل شانہ کی شہادت دوسرے اس کے فرشتوں کی، تیسرے اہل علم اللہ جل شانہ کی شہادت تو بطور مجاز ہے مراد یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کی ذات وصفات اور اس کے تمام مظاہر و مصنوعات اللہ تعالیٰ کی توحید کی کھلی نشانیاں ہیں۔- ہر گیا ہے کہ از زمین روید - وحدہ لا شریک لہ گوید - اس کے علاوہ اس کی طرف سے بھیجے ہوئے رسول اور کتابیں بھی اس کی توحید پر شاہد ہیں، اور یہ سب چیزیں حق تعالیٰ کی طرف سے ہیں تو گویا خود اس کی شہادت اس بات پر ہے کہ اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں۔- دوسری شہادت فرشتوں کی ذکر کی گئی ہے، جو اللہ تعالیٰ کے مقرب اور اس کے تکوینی امور کے اہلکار ہیں، وہ سب کچھ جان کر اور دیکھ کر شہادت دیتے ہیں کہ لائق عبادت اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں۔ تیسری شہادت اہل علم کی ہے کہ اہل علم سے مراد انبیاء (علیہم السلام) اور عام علماء اسلام ہیں، اسی لئے امام غزالی (رح) اور ابن کثیر (رح) نے فرمایا کہ اس میں علماء کی بڑی فضیلت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل علم سے مطلق وہ لوگ مراد ہیں جو علمی اصول پر صحیح نظر کر کے یا کائنات عالم میں غور و فکر کر کے حق جل وعلا شانہ کی وحدانیت کا علم حاصل کرسکیں اگرچہ وہ ضابطہ کے عالم نہ ہوں اور دوسری آیت میں اللہ کے نزدیک صرف دین اسلام کا مقبول ہونا اس کے سوا کسی دین و مذہب کا مقبول نہ ہونا بیان کر کے مضمون توحید کی تکمیل فرمائی، اور اس سے اختلاف کرنے والوں کی تباہ حالی بیان فرمائی، مختصر تفسیر ان دونوں آیتوں کی یہ ہے : گواہی دی ہے اللہ نے ( کتب سماویہ میں) اس ( مضمون) کی کہ بجز اس ذات ( پاک) کے کوئی معبود ہونے کے لائق نہیں، اور فرشتوں نے بھی ( اپنے ذکر و تسبیح میں اس کی گواہی دی ہے، کیونکہ ان کے اذکار توحید سے بھرے ہوئے ہیں) اور ( دوسرے) اہل علم نے بھی ( اپنی تقریرات و تحریرات میں اس کی گواہی دی ہے، جیسا کہ ظاہر ہے) اور معبود بھی وہ اس شان کے ہیں کہ ( ہر چیز کا) اعتدال کے ساتھ انتظام رکھنے والے ہیں ( اور پھر کہا جاتا ہے کہ) ان کے سوال کوئی معبود ہونے کے لائق نہیں وہ زبردست ہیں، حکمت والے ہیں، بلا شبہ دین ( حق اور مقبول) اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے اور ( اس کے حق ہونے میں اہل اسلام کے ساتھ) اہل کتاب نے جو اختلاف کیا ( اس طرح سے کہ اسلام کو باطل کہا) تو ایسی حالت کے بعد کہ ان کو ( اسلام کے حق ہونے کی) دلیل پہنچ چکی تھی محض ایک دوسرے سے بڑھنے کی وجہ سے ( یعنی اسلام کے حق ہونے میں کوئی وجہ شبہ کی نہیں ہوئی، بلکہ ان میں مادہ دوسروں سے بڑا بننے کا ہے اور اسلام لانے میں یہ سرداری جو ان کو اب عوام پر حاصل ہے فوت ہوتی تھی، اس لئے اسلام کو قبول نہیں کیا، بلکہ الٹا اس کو باطل بتلانے لگے) اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے احکام کا انکار کرے گا ( جیسا ان لوگوں نے کیا) تو بلا شبہ اللہ تعالیٰ بہت جلد اس کا حساب لینے والے ہیں ( اور ظاہر ہے کہ ایسے شخص کے حساب کا انجام عذاب ہوگا) ۔- معارف و مسائل - آیت شہد اللہ الخ کے فضائل :- یہ آیت شہادت ایک خاص شان رکھتی ہے، امام تفسیر بغوی (رح) نے نقل کیا ہے کہ یہود کے دو بڑے عالم ملک شام سے مدینہ طیبہ میں وارد ہوئے، مدینہ کی بستی کو دیکھ کر آپس میں تذکرہ کرنے لگے کہ یہ بستی تو اس طرح کی ہے جس کے لئے توراۃ میں پیشنگوئی آئی ہے کہ اس میں نبی آخر الزمان قیام پذیر ہوں گے، اس کے بعد ان کو اطلاع ملی کہ یہاں کوئی بزرگ ہیں جن کو لوگ نبی کہتے ہیں، یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نظر پڑتے ہی وہ تمام صفات سامنے آگئیں جو توراۃ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے بتلائی گئی تھیں، حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں، پھر عرض کیا کہ آپ احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں، میں محمد ہوں اور احمد ہوں، پھر عرض کیا کہ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک سوال کرتے ہیں اگر آپ اس کا صحیح جواب دیں تو ہم ایمان لے آئیں گے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دریافت کرو، انہوں نے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سب سے بڑی شہادت کون سی ہے ؟ اس سوال کے جواب کے لئے یہ آیت شہادت نازل ہوئی، آپ نے ان کو پڑھ کر سنادی، یہ دونوں اسی وقت مسلمان ہوگئے۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ عرفات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی تو اس کے بعد فرمایا : (وانا علی ذلک من الشھدین یا رب ( ابن کثیر) " یعنی اے پروردگار میں بھی اس پر شاہد ہوں " ) اور امام اعمش (رح) کی ایک روایت سے معلوم ہوا کہ جو شخص اس آیت کی تلاوت کے بعد یہ کہے کہ انا علی ذلک من الشاھدین۔ تو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز فرشتوں سے فرمائیں گے کہ " میرے بندے نے ایک عہد کیا ہے اور میں عہد پورا کرنے والوں میں سب سے زیادہ ہوں، اس لئے میرے بندے کو جنت میں داخل کردو " (ابن کثیر) - اور حضرت ابو ایوب انصاری (رض) کی حدیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص ہر نماز فرض کے بعد سورة فاتحہ اور آیۃ الکرسی اور آیت شھد اللہ (٣ : ١٨) اور قل اللھم مالک الملک سے بغیر حساب (٣: ٢٦، ٢٧) تک پڑھا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے سب گناہ معاف فرمائیں گے اور جنت میں جگہ دیں گے اور اس کی ستر حاجتیں پوری فرمائیں گے، جن میں سے کم سے کم حاجت اس کی مغفرت ہے۔ (روح المعانی بحوالہ دیلمی)
شَہِدَ اللہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ٠ ۙ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَاۗىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ ٠ ۭ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ١٨ ۭ- شهد - وشَهِدْتُ يقال علی ضربین :- أحدهما - جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول :- أشهد . والثاني يجري مجری القسم،- فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، ويجري علمت مجراه في القسم، فيجاب بجواب القسم - ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ - شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے - مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔- ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے - چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے بعض نے کہاز ہے کہ اگر اشھد کے ساتھ باللہ نہ بھی ہو تب بھی یہ قسم کے معنی میں ہوگا اور کبھی علمیت بھی اس کے قائم مقام ہوکر قسم کے معنی دیتا ہے اور اس کا جواب بھی جواب قسم کی طرح ہوتا ہے ۔ شاھد اور شھید کے ایک ہی معنی ہیں شھید کی جمع شھداء آتی ہے قرآن میں ہے۔- إله - جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] - الٰہ - کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ - الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں - بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو - (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ - (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ - ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - قائِمٌ- وفي قوله : أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد 33] . وبناء قَيُّومٍ :- ( ق و م ) قيام - أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد 33] تو کیا جو خدا ہر نفس کے اعمال کا نگہبان ہے ۔ یہاں بھی قائم بمعنی حافظ ہے ۔- قسط - الْقِسْطُ : هو النّصيب بالعدل کالنّصف والنّصفة . قال تعالی: لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] والقِسْطُ : هو أن يأخذ قسط غيره، وذلک جور، والْإِقْسَاطُ : أن يعطي قسط غيره، وذلک إنصاف، ولذلک قيل : قَسَطَ الرّجل : إذا جار، وأَقْسَطَ : إذا عدل . قال : أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً- [ الجن 15] وقال : وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ- [ الحجرات 9] ، وتَقَسَّطْنَا بيننا، أي : اقتسمنا، والْقَسْطُ : اعوجاج في الرّجلین بخلاف الفحج، والقِسْطَاسُ : المیزان، ويعبّر به عن العدالة كما يعبّر عنها بالمیزان، قال : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] .- ( ق س ط ) القسط ( اسم )- ( ق س ط ) القسط ( اسم ) نصف ومصفۃ کی طرح قسط بھی مبنی بر عدل حصہ کو کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ بِالْقِسْطِ [يونس 4] تاکہ ایمان والوں اور نیک کام کرنے والوں کو انصاف کے ساتھ بدلہ دے ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] اور قسط کے معنی دوسرے کا حق مررنا بھیآتے ہیں اس لئے یہ ظلم اور جو رے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے القسط پاؤں میں ٹیڑھا پن یہ افجع کی ضد ہے جس کے نزدیک اور ایڑیوں کی جانب سے دور ہو نیکے ہیں ۔ الا قساط اس کے اصل معنی کسی کو اس کا حق دینے کے ہیں اسی چیز کا نام انصاف ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ قسط الرجل فھو قاسط ) کے معنی ظلم کرنے اوراقسط کے معنی انصاف کرنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ أَمَّا الْقاسِطُونَ فَكانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَباً [ الجن 15] اور گنہگار ہوئے وہ دوزخ کا ایندھن بنے وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ [ الحجرات 9] اور انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ فقسطنا بیننا ہم نے ( کسی چیز کو آپس میں برا بر تقسیم کرلیا چناچہ القسطاس تراز دکو کہتے ہیں اور لفظ میزان کی طرح اس سے بھی عدل ونصاف کے معنی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الإسراء 35] اور جب تول کر دو تو ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔- عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ )
(١٨) اب اللہ تعالیٰ اپنی توحید کو خود بیان فرماتے ہیں اگرچہ اس کی ذات کے علاوہ اور کوئی بھی اس کی توحید کے متعلق گواہی نہ دے تب بھی اس ذات الہی کو کوئی فرق نہیں پڑتا تاہم فرشتے اور انبیاء کرام اور مومنین بھی اس کی توحید کی قولی وعملی گواہی دیتے ہیں۔- اور معبود حقیقی ہر ایک چیز کا اعتدال کے ساتھ انتظام رکھنے والے ہیں اور جو اس پر ایمان نہ لائے اس سے انتقام لینے میں غالب اور حکمت والے ہیں اور اس نے بات کو حکم دیا کہ اس اللہ کے علاوہ اور کسی کی عبادت نہ کی جائے۔
آیت ١٨ (شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ الاَّ ہُوَلا) - سب سے بڑی گواہی تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہے ‘ جو کتب سماویہ سے بھی ظاہر ہے اور مظاہر فطرت سے بھی۔- (وَالْمَلآءِکَۃُ ) (وَاُولُوا الْعِلْمِ ) - اولوالعلم وہی لوگ ہیں جنہیں قرآن کہیں اولوالالباب قرار دیتا ہے اور کہیں ان کے لیے الَّذِیْنَ یَعْقِلُوْنَجیسے الفاظ آتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آیات آفاقی کے حوالے سے اللہ کو پہچان لیتے ہیں اور مان لیتے ہیں کہ وہی معبود برحق ہے۔ سورة البقرۃ کے بیسویں رکوع کی پہلی آیت ہم نے پڑھی تھی جسے میں آیت الآیاتقرار دیتا ہوں۔ اس میں بہت سے مظاہر فطرت بیان کر کے فرمایا گیا : (لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ) (ان میں) یقیناً نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ تو یہ جو قَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ہیں ‘ جو اولوالالباب ہیں ‘ اولوالعلم ہیں ‘ وہ بھی گواہ ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔- ( قَآءِمًام بالْقِسْطِ ط) ۔- یہ اس آیت مبارکہ کے اہم ترین الفاظ ہیں۔ قبل ازیں عرض کیا جا چکا ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ عدل قائم کرتا ہے اور عدل کرے گا ‘ البتہ اہل سنت کے نزدیک یہ کہنا سوء ادب ہے کہ اللہ پر عدل کرنا واجب ہے۔ اللہ پر کسی شے کا وجوب نہیں ہے۔ اللہ کو عدل پسند ہے اور وہ عدل کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔ (اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ) (الحجرات) اور اللہ خود بھی عدل فرمائے گا۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :14 یعنی اللہ جو کائنات کی تمام حقیقتوں کا براہ راست علم رکھتا ہے ، جو تمام موجودات کو بے حجاب دیکھ رہا ہے ، جس کی نگاہ سے زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ، یہ اس کی شہادت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس سے بڑھ کر معتبر عینی شہادت اور کس کی ہوگی ۔ ۔ ۔ ۔ کہ پورے عالم وجود میں اس کی اپنی ذات کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں ہے ، جو خدائی کی صفات سے متصف ہو ، خدائی کے اقتدار کی مالک ہو ، اور خدائی کے حقوق کی مستحق ہو ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :15 اللہ کے بعد سب سے زیادہ معتبر شہادت فرشتوں کی ہے ، کیونکہ وہ سلطنت کائنات کے انتظامی اہل کار ہیں اور وہ براہ راست اپنے ذاتی علم کی بنا پر شہادت دے رہے ہیں کہ اس سلطنت میں اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں چلتا اور اس کے سوا کوئی ہستی ایسی نہیں ہے ، جس کی طرف زمین وآسمان کے انتظامی معاملات میں وہ رجوع کرتے ہوں ۔ اس کے بعد مخلوقات میں سے جن لوگوں کو بھی حقائق کا تھوڑا یا بہت علم حاصل ہوا ہے ، ان سب کی ابتدا ئے آفرینش سے آج تک یہ متفقہ شہادت رہی ہے کہ ایک ہی خدا اس پوری کائنات کا مالک و مدبر ہے ۔