Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 اسلام وہی دین ہے جس کی دعوت وتعلیم ہر پیغمبر اپنے اپنے دور میں دیتے رہے ہیں اور اس کی کامل ترین شکل وہ ہے جسے نبی آخرزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دنیا کے سامنے پیش کیا جس میں توحید و رسالت اور آخرت پر اس طرح یقین و ایمان رکھنا ہے جس طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتلایا ہے محض یہ عقیدہ رکھ لینا کہ اللہ ایک ہے یا کچھ اچھے عمل کرلینا یہ اسلام نہیں نہ اس سے نجات آخرت ملے گی۔ ایمان و اسلام اور دین عند اللہ قبول نہیں ہوگا۔ (الفرقان) برکتوں والی ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا تاکہ وہ جہانوں کا ڈرانے والا ہو اور حدیث میں ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو یہودی یا نصرانی مجھ پر ایمان لائے بغیر فوت ہوگیا وہ جہنمی ہے۔ (صحیح مسلم) اسی لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے وقت کے تمام سلاطین اور بادشاہوں کو خطوط تحریر فرمائے جن میں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی (بحوالہ ابن کثیر) 19۔ 2 ْ ان کے اس باہمی اختلاف سے مراد وہ اختلاف ہے جو ایک ہی دین کے ماننے والوں نے آپس میں برپا کر رکھا تھا مثلاً یہودیوں کے باہمی اختلافات اور فرقہ بندیاں اسی طرح عیسائیوں کے باہمی اختلا فات اور فرقہ بندیاں پھر وہ اختلافات بھی مراد ہے جو اہل کتاب کے درمیان آپس میں تھا جس کی بنا پر یہودی نصرانیوں کو اور نصرانی یہودیوں کو کہا کرتے تھے تم کسی چیز پر نہیں ہو نبوت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور نبوت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اختلاف بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ سارے اختلافات دلائل کی بنیاد پر نہیں تھے محض حسد اور بغض وعناد کی وجہ سے تھے یعنی وہ لوگ حق کو جاننے اور پہچاننے کے باوجود محض اپنے خیالی دنیاوی مفاد کے چکر میں غلط بات پر جمے رہتے۔ افسوس آج مسلمان علماء کی ایک بڑی تعداد ٹھیک ان ہی کے غلط مقاصد کے لئے غلط ڈگر پر چل رہی ہے۔ 19۔ 3 یہاں آیتوں سے مراد وہ آیات ہیں جو اسلام کے دین الہی ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٢] دین سے مراد ایسا نظام زندگی یا ضابطہ حیات ہے جسے انسان اس دنیا کے لیے یا دنیا و آخرت دونوں کے لیے بہتر سمجھ کر اختیار کرتا ہے۔ اس لحاظ سے یہودیت، نصرانیت، دہریت، بدھ مت، سکھ، اسلام، کمیونزم، سوشلزم، جمہوریت وغیرہ سب کے سب دین ہیں۔ لیکن اللہ کے ہاں ان میں سے قابل قبول دین صرف اور صرف اسلام ہے۔ اسلام کا معنی ہے اللہ کے احکام و ارشادات کے سامنے سرتسلیم خم کردینا اور برضا ورغبت اللہ کا مطیع و منقاد بن جانا ہے اور صرف اسلام ہی ایسا دین ہے جو دنیوی فلاح اور اخروی نجات کا ضامن ہے۔ دنیا میں جتنے بھی انبیاء و رسل مبعوث ہوئے وہ سب دین اسلام ہی کی دعوت دیتے رہے وہ یہی کہتے رہے کہ اللہ کے مطیع و فرمانبردار بندے بن جاؤ۔ اس لحاظ سے ان تمام انبیاء کے پیرو کار مسلم یا مسلمان ہی تھے۔ جنہوں نے بعد میں اپنے لیے الگ الگ نام تجویز کئے، جیسا کہ آج کل مسلمانوں کے بہت سے فرقوں نے بھی اپنے لیے الگ الگ نام تجویز کرلیے ہیں یا بعض مخصوص عقائد و نظریات کی بنا پر دوسروں نے ان کے نام رکھ دیئے ہیں۔- [٢٣] اختلاف سے مراد اہل کتاب کا باہمی اختلاف بھی ہوسکتا ہے اور دوسروں سے بھی۔ مثلاً یہود کے فرقوں کا باہمی اختلاف، عیسائیوں کے فرقوں کا باہمی اختلاف اور مسلمانوں کے فرقوں کا باہمی اختلاف اور دوسرے یہ کہ یہود کا عیسائیوں اور مسلمانوں سے، عیسائیوں کا یہود اور مسلمانوں سے اختلاف۔- [٢٤] اس جملہ میں اللہ تعالیٰ نے اختلاف کی اصل وجہ بیان فرما دی اور یہی وجہ قرآن کریم میں اور بھی تین مقامات پر بیان کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ اختلاف کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ حق انہیں نظر نہیں آتا بلکہ اس کی اصل وجہ اپنی اپنی سرداریاں اور چودھراہٹیں قائم کرنا اور اپنا جھنڈا سربلند رکھنے کی فکر، اسباب مال و جاہ کا حصول ہوتا ہے اور اس معاملہ میں آپ جتنا بھی غور کریں گے فرقہ بندیوں کی بنیاد میں آپ کو ذاتی اغراض و مفادات ہی نظر آئیں گے۔- مثلاً تورات اور انجیل دونوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبعوث ہونے کا ذکر موجود ہے اور ان کی نشانیاں بھی بیان کردی گئی ہیں اور اہل کتاب کو یہ بھی پوری طرح یقین ہوچکا ہے کہ کتاب میں مذکورہ نشانیوں کے مطابق وہی نبی آخرالزمان اور نبی برحق ہے۔ اب اس نبی کے انکار کی وجہ محض ان کی اپنی سرداریاں ختم ہونا یا بعض دوسرے دنیوی مفادات کا ضائع ہونا تھا۔ ان باتوں کے علاوہ انکار کی کوئی دوسری وجہ نہ تھی۔ لہذا اللہ ایسے لوگوں کا جلد ہی حساب چکا دیتا ہے اور اس آیت کا اطلاق مسلمانوں پر بھی بالکل اسی طرح ہوتا ہے جیسے اہل کتاب پر ہوا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے، یعنی اپنے آپ کو اللہ کے احکام کے تابع کردینا، جو اس کے رسول مختلف اوقات میں لے کر آتے رہے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ان سب کے آخر میں خاتم الانبیاء کو مبعوث فرمایا اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے راستے کے سوا اپنے تک پہنچنے والے تمام راستوں کو بند کردیا۔ اب اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کے سوا کوئی اور دین لے کر اللہ کے پاس جائے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، فرمایا : (وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ ) [ آل عمران : ٨٥ ] ” اور جو اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔ “- اب جو شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا قائل نہیں اور نہ آپ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اپنا عمل اور عقیدہ ہی درست کرتا ہے تو اس کا دین اللہ کے ہاں معتبر نہیں، خواہ وہ توحید کا قائل اور دوسرے ایمانیات کا اقرار کرتا ہو۔ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ نے جتنے انبیاء بھیجے ان سب کا دین یہی اسلام تھا۔ اہل کتاب نے یہ حقیقت جان لینے کے بعد کہ دین حق اسلام ہی ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے رسول اور آخری نبی ہیں، محض باہمی بغض و عناد کی بنا پر اسلام سے انحراف کیا ہے۔ آج بھی ان کے لیے صحیح روش یہی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئیں اور دین اسلام کو اختیار کریں۔ - سَرِيْعُ الْحِسَابِ : یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جلد محاسبہ ہونے والا ہے اور آیات الٰہی سے کفر کی سزا مل کر رہے گی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دین اور اسلام کے الفاظ کی تشریح :- عربی زبان میں لفظ دین کے چند معنی ہیں، جس میں ایک معنی ہیں طریقہ اور روش، قرآن کریم کی اصطلاح میں لفظ دین ان اصول و احکام کے لئے بولا جاتا ہے جو حضرت آدم (علیہ السلام) سے خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک سب انبیاء میں مشترک ہیں، اور لفظ " شریعت " یا " منہاج " یا بعد کی اصطلاحات میں لفظ " مذہب " فروعی احکام کے لئے بولے جاتے ہیں، جو مختلف زمانوں اور مختلف امتوں میں مختلف ہوتے چلے آئے ہیں، قرآن کریم کا ارشاد ہے :- ( شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحا۔ ٤٢: ١٣) " یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے وہی دین جاری فرمایا جس کی وصیت تم سے پہلے نوح (علیہ السلام) کو اور دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کو کی گئی تھی "- اس سے معلوم ہوا کہ دین سب انبیاء (علیہم السلام) کا ایک ہی تھا، یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کے جامع کمالات اور تمام نقائص سے پاک ہونے اور اس کے سوا کسی کا لائق عبادت نہ ہونے پر دل سے ایمان اور زبان سے اقرار، روز قیامت اور اس میں حساب کتاب اور جزا و سزا اور جنت و دوزخ پر دل سے ایمان لانا اور زبان سے اقرار کرنا، اس کے بھیجے ہوئے ہر نبی و رسول اور ان کے لائے ہوئے احکام پر اسی طرح ایمان لانا۔ اور لفظ " اسلام " کے اصلی معنی ہیں اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردینا، اور اس کے تابع فرمان ہونا، اس کے معنی کے اعتبار سے ہر نبی و رسول کے زمانہ میں جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کے لائے ہوئے احکام میں ان کی فرمانبرداری کی وہ سب مسلمان اور مسلم کہلانے کے مستحق تھے، اور ان کا دین دین اسلام تھا، اسی معنی کے لحاظ سے حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا : ( وامرت ان اکون من المسلمین ( سورة یونس : ٧٢) اور اسی لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے آپ کو اور اپنی امت کو امت مسلمہ فرمایا ( ربنا واجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنا امۃ مسلمۃ لک۔ (٢: ١٢٨) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریین نے اسی معنی کے اعتبار سے کہا تھا ( واشھد بانا مسلمون۔ (آل عمران : ٥٢) - اور بعض اوقات یہ لفظ خصوصیت سے اس دین و شریعت کے لئے بولا جاتا ہے جو سب سے آخرت میں خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر آئے، اور جس نے پچھلی تمام شرائع کو منسوخ کردیا اور جو قیامت تک باقی رہے گا، اس معنی کے اعتبار سے یہ لفظ صرف دین محمدی اور امت محمدیہ کے لئے مخصوص ہوجاتا ہے۔ جبرئیل (علیہ السلام) کی ایک حدیث جو تمام کتب حدیث میں مشہور ہے اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسلام کی یہی خاص تفسیر بیان فرمائی ہے، آیت مذکورہ کے لفظ " الاسلام " میں بھی دونوں معنی کا احتمال ہے۔ پہلے معنی لئے جائیں تو مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول دین صرف دین اسلام ہے، یعنی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے تابع فرمان بنانا اور ہر زمانہ میں جو رسول آئے اور وہ جو کچھ احکام لائے اس پر ایمان لانا اور اس کی تعمیل کرنا اس میں دین محمدی کی اگرچہ تخصیص نہیں، لیکن عام قاعدہ کے ماتحت حضرت سید الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تشریف لانے کے بعد ان پر اور ان کے لائے ہوئے تمام احکام پر ایمان و عمل بھی اس میں داخل ہوجاتا ہے، جس کا حاصل یہ ہوگا کہ نوح (علیہ السلام) کے زمانہ دین مقبول وہ تھا جو نوح (علیہ السلام) لائے، اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں وہ جو ابراہیم (علیہ السلام) لے کر آئے، اسی طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ کا اسلام وہ تھا جو الواح توراۃ اور موسوی تعلیمات کی صورت میں آیا۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ کا اسلام وہ جو انجیل اور عیسوی ارشادات کے رنگ میں نازل ہوا اور آخرت میں خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کا اسلام وہ ہوگا جو قرآن وسنت کے بتلائے ہوئے نقشہ پر مرتب ہوا۔ خلاصہ یہ ہوا کہ ہر نبی کے زمانہ میں ان کا لایا ہوا دین ہی دین اسلام اور عنداللہ مقبول تھا، جو بعد میں یکے بعد دیگرے منسوخ ہوتا چلا آیا، آخر میں خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دین دین اسلام کہلایا، جو قیامت تک باقی رہے گا، اور اگر اسلام کے دوسرے معنی لیے جائیں یعنی وہ شریعت جو حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر تشریف لائے، تو آیت کا مفہوم یہ ہوجاتا ہے کہ اس زمانہ میں صرف وہی اسلام مقبول ہے جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات کے مطابق ہے، پچھلے ادیان کو بھی اگرچہ ان کے اوقات میں اسلام کہا جاتا تھا، مگر اب وہ منسوخ ہوچکے ہیں، اور دونوں صورتوں میں نتیجہ کلام ایک ہی ہے، کہ ہر پیغمبر کے زمانہ میں اللہ کے نزدیک مقبول دین وہ اسلام ہے جو اس پیغمبر کی وحی اور تعلیمات کے مطابق ہو اس کے سوا دوسرا کوئی دین مقبول نہیں، خواہ وہ پچھلی منسوخ شدہ شریعت ہی ہو، اگلے زمانہ کے لئے وہ اسلام کہلانے کی مستحق نہیں، شریعت ابراہیم (علیہ السلام) ان کے زمانہ میں اسلام تھی، موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں اس شریعت کے جو احکام منسوخ ہوگئے وہ اب اسلام نہیں رہے، اسی طرح عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں شریعت موسویہ کا اگر کوئی حکم منسوخ ہوا ہے تو وہ اب اسلام نہیں، ٹھیک اسی طرح خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں شرائع سابقہ کے جو احکام منسوخ ہوگئے وہ اب اسلام نہیں رہے، اس لئے جو امت قرآن کی مخاطب ہے اس کے لئے اسلام کے معنی عام لئے جائیں یا خاص، دونوں کا حاصل یہی ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد صرف دین اسلام کہلانے کا مستحق وہ ہے جو قرآن اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات کے مطابق ہو اور وہی اللہ کے نزدیک مقبول ہے، اس کے سوا کوئی دین مقبول اور ذریعہ نجات نہیں، یہ مضمون قرآن مجید کی بیشمار آیات میں مختلف عنوانات سے آیا ہے ایک آیت کے الفاظ میں اس طرح وارد ہے ( ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ۔ ٣: ٨٥) " یعنی جو شخص اسلام کے سوال کوئی دین اختیار کرے گا تو وہ اس سے قبول نہ کیا جائے گا اس کے تابع جو عمل کیا جائے گا وہ ضائع ہوگا "۔ اس زمانہ میں نجات اسلام میں منحصر ہے غیر مسلم کے اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ بھی مقبول نہیں۔- ان آیات نے پوری وضاحت کے ساتھ اس ملحدانہ نظریہ کا خاتمہ کردیا جس میں اسلام کی رواداری کے نام پر کفر و اسلام کو ایک کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اور یہ قرار دیا گیا ہے کہ دنیا کا ہر مذہب خواہ یہودیت و نصرانیت ہو یا بت پرستی ہر ایک ذریعہ نجات بن سکتا ہے، بشرطیکہ اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ کا پابند ہو، اور یہ درحقیقت اسلام کے اصول کو منہدم کرنا ہے، جس کا حاصل یہ ہوجاتا ہے کہ اسلام کی کوئی حقیقت ہی نہیں، محض ایک خیالی چیز ہے جو کفر کے ہر جامہ میں بھی کھپ سکتا ہے، قرآن کریم کی ان آیات اور انہی جیسی بیشمار آیات نے کھول کر بتلادیا ہے کہ جس طرح اجالا اور اندھیرا ایک نہیں ہوسکتے اسی طرح یہ بات نہایت نامعقول اور ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی نافرمانی اور بغاوت بھی ایسے ہی پسند ہو جیسے اطاعت و فرمانبرداری، جو شخص اسلام میں سے کسی ایک چیز کا منکر ہے وہ بلا شبہ خدا تعالیٰ کا باغی اور اس کے رسولوں (علیہم السلام) کا دشمن ہے، خواہ فروعی اعمال اور رسمی اخلاق میں وہ کتنا ہی اچھا نظر آئے، نجات آخرت کا مدار سب سے پہلے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری پر ہے جو اس سے محروم رہا اس کے کسی عمل کا اعتبار نہیں، قرآن مجید میں ایسے ہی لوگوں کے اعمال کے متعلق ارشاد ہے : (فلا نقیم لھم یوم القیامۃ وزنا۔ ١٨: ١٠٥) " یعنی ہم قیامت کے دن ان کے کسی عمل کا وزن قائم نہ کریں گے "۔- اس آخری آیت میں اور اس سے پچھلی آیات میں چونکہ روئے سخن اہل کتاب کی طرف ہے اس لئے آخری آیت میں ان کی بیوقوفی اور غلط کاری کو اس طرح بیان فرمایا ہے : (وما اختلف الذین اوتوا الکتب الا من بعد ماجاء ھم العلم بغیا بینھم) " یعنی اہل کتاب نے جو خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور اسلام میں خلاف اور جھگڑا ڈالا تو وہ اس وجہ سے نہیں کہ ان کو کوئی اس معاملہ میں اشتباہ رہ گیا بلکہ ان کو اپنی کتاب تورات و انجیل سے اور دوسرے ذرائع سے پوری طرح اسلام اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حقانیت کا علم ہوچکا تھا، لیکن مسلمانوں سے حسد اور حب جاہ و مال نے ان کو اس اختلاف میں مبتلا کیا ہے۔ آخر میں فرمایا ہے ( ومن یکفر بایت اللہ فان اللہ سریع الحساب۔ ) " یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ جلد اس سے حساب لینے والے ہیں "۔ اول تو مرنے کے بعد اس عالم کا امتحان داخلہ قبر کے اس عالم میں ہوگا جس کو برزخ کہا جاتا ہے اور پھر تفصیلی حساب قیامت میں اس حساب و کتاب کے وقت سب جھگڑوں کی حقیقت کھل جائے گی، باطل پرستوں کو اپنی حقیقت واضح ہوجائے گی اور پھر اس کی سزا سامنے آجائے گی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۝ ٠ ۣ وَمَا اخْتَلَـفَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْعِلْمُ بَغْيًۢا بَيْنَھُمْ۝ ٠ ۭ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِاٰيٰتِ اللہِ فَاِنَّ اللہَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ۝ ١٩- دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- سلم - والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . - والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین :- أحدهما : دون الإيمان،- وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] .- والثاني : فوق الإيمان،- وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] ،- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ - شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں - کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔ - الاختلافُ والمخالفة- والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] - ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ - الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- بغي - البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى،- والبَغْيُ علی ضربین :- أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع .- والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری 42] - ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ - بغی دو قسم پر ہے ۔- ( ١) محمود - یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔- ( 2 ) مذموم - ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شہاے ت میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- سرع - السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو :- أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] - ( س ر ع ) السرعۃ - اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔ - حسب - الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] ، وقیل : لا يعلم حسبانه إلا الله، - ( ح س ب ) الحساب - کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٩) بیشک اللہ کا پسندیدہ دین اسلام ہے اور یہ معنی بھی بیان کیے گئے ہیں کہ اس مقام پر تقدیم وتاخیر ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ دین اسلام ہے اور اس حقیقت کی اللہ تعالیٰ اور تمام فرشتوں اور انبیاء کرام اور مومنین نے گواہی دی ہے یہ آیت شام کے دو آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا تھا کہ کون سی گواہی کتاب اللہ میں سب سے بڑی ہے چناچہ آپ نے یہ آیت بیان کی اور وہ مشرف بااسلام ہوگئے، یہود ونصاری نے اسلام اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں باوجود اس کے کہ ان کی کتابوں میں اس چیز کے متعلق دلیل پہنچ چکی تھی جو اختلاف کیا ہے اس کا مقصد محض حسد ہے اور جو شخص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کریم کا انکار کرے تو اللہ تعالیٰ اسے بدبختوں کو سخت عذاب دینے والے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ (اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلاَمُ قف) - اللہ کا پسندیدہ اور اللہ کے ہاں منظور شدہ دین ایک ہی ہے اور وہ اسلام ہے۔ سورة البقرۃ اور سورة آل عمران کی نسبت زوجیت کے حوالے سے یہ بات سمجھ لیجیے کہ سورة البقرۃ میں ایمان پر زیادہ زور ہے اور سورة آل عمران میں اسلام پر۔ سورة البقرۃ کے آغاز میں بھی ایمانیات کا تذکرہ ہے ‘ درمیان میں آیت البر میں بھی ایمانیات کا بیان ہے اور آخری آیات میں بھی ایمانیات کا ذکر ہے : (اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ط) جبکہ اس سورة مبارکہ میں اسلام کو کیا گیا ہے۔ یہاں فرمایا : (اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلاَمُ قف) آگے جا کر آیت آئے گی : (وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ج) اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کو قبول کرے گا وہ اس کی جانب سے اللہ کے ہاں منظور نہیں کیا جائے گا۔- (وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ الاَّ مِنْم بَعْدِ مَا جَآءَ ‘ ہُمُ الْعِلْمُ بَغْیًام بَیْنَہُمْ ط) ۔- یہ گویا سورة البقرۃ کی آیت ٢١٣ (آیت الاختلاف) کا خلاصہ ہے۔ دین اسلام تو حضرت آدم (علیہ السلام) سے چلا آ رہا ہے۔ جن لوگوں نے اس میں اختلاف کیا ‘ پگڈنڈیاں نکالیں اور غلط راستوں پر مڑ گئے ‘ اس کے بعد کہ ان کے پاس علم آچکا تھا ‘ ان کا اصلی روگ وہی ضدم ضدا کی روش اور غالب آنے کی امنگ ( ) تھی۔ - (وَمَنْ یَّکْفُرْ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَاِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ) - اللہ تعالیٰ کو حساب لیتے دیر نہیں لگے گی ‘ وہ بڑی تیزی کے ساتھ حساب لے لے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :16 یعنی اللہ کے نزدیک انسان کے لیے صرف ایک ہی نظام زندگی اور ایک ہی طریقہ حیات صحیح و درست ہے ، اور وہ یہ ہے کہ انسان اللہ کو اپنا مالک و معبود تسلیم کرے اور اس کی بندگی و غلامی میں اپنے آپ کو بالکل سپرد کردے اور اس کی بندگی بجا لانے کا طریقہ خود نہ ایجاد کرے ، بلکہ اس نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ سے جو ہدایت بھیجی ہے ، ہر کمی و بیشی کے بغیر صرف اسی کی پیروی کرے ۔ اسی طرز فکر و عمل کا نام”اسلام“ ہے اور یہ بات سراسر بجا ہے کہ کائنات کا خالق و مالک اپنی مخلوق اور رعیت کے لیے اس اسلام کے سوا کسی دوسرے طرز عمل کو جائز تسلیم نہ کرے ۔ آدمی اپنی حماقت سے اپنے آپ کو دہریت سے لے کر شرک و بت پرستی تک ہر نظریے اور ہر مسلک کی پیروی کا جائز حق دار سمجھ سکتا ہے ، مگر فرماں روائے کائنات کی نگاہ میں تو یہ نری بغاوت ہے ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :17 مطلب یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے جو پیغمبر بھی دنیا کے کسی گوشے اور کسی زمانہ میں آیا ہے ، اس کا دین اسلام ہی تھا اور جو کتاب بھی دنیا کی کسی زبان اور کسی قوم میں نازل ہوئی ہے ، اس نے اسلام ہی کی تعلیم دی ہے ۔ اس اصل دین کو مسخ کر کے اور اس میں کمی بیشی کر کے جو بہت سے مذاہب نوع انسانی میں رائج کیے گئے ، ان کی پیدائش کا سبب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ لوگوں نے اپنی جائز حد سے بڑھ کر حقوق ، فائدے اور امتیازات حاصل کرنے چاہے اور اپنی خواہشات کے مطابق اصل دین کے عقائد ، اصول اور احکام میں رد و بدل کر ڈالا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani