Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

175۔ 1 یعنی تمہیں اس وسوسے اور وہم میں ڈالتا ہے کہ وہ بڑے مضبوط اور طاقتور ہیں۔ 175۔ 2 یعنی جب وہ تمہیں اس وہم میں مبتلا کرے تو تم صرف مجھ پر ہی بھروسہ رکھو اور میری ہی طرف رجوع کرو میں تمہیں کافی ہوجاؤں گا اور تمہارا ناصر ہوں گا، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (اَلَيْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ ۭ ) 039:036 کیا اللہ اپنے بندے کو کافی نہیں ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٧٣] پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ ابو سفیان نے خود ہی غزوہ احد سے اگلے سال بدر کے میدان میں مقابلہ کے لیے چیلنج کیا۔ مگر بعد میں خود ہی ہمت ہار بیٹھا اور الزام مسلمانوں کے سر تھوپنے اور انہیں ڈرانے اور دہشت زدہ کرنے کے لیے ایک شخص نعیم بن مسعود کو کچھ دے دلا کر اس بات پر آمادہ کیا کہ مدینہ جاکر مسلمانوں کو بتلائے کہ ابو سفیان نے اتنا لشکر جرار تیار کرنے کی ٹھانی ہے جو عرب بھر کے مقابلہ کو کافی ہوگا۔ اس طرح مسلمان خود خوف زدہ ہو کر بدر میں مقابلہ پر آنے کا ارادہ ترک کردیں گے۔ اس سارے ڈرامہ کو اللہ تعالیٰ نے شیطانی کھیل سے تعبیر فرمایا ہے۔ یہاں شیطان سے مراد ابو سفیان بھی ہوسکتا ہے اور نعیم بن مسعود بھی، اور مسلمانوں کو تاکید کی جارہی ہے کہ میرے سوا کسی طاغوتی طاقت سے مت ڈریں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وہ شخص جو یہ افواہیں پھیلا رہا تھا اسے شیطان فرمایا اور بتایا کہ یہ اپنے منافق دوستوں سے ڈرا رہا ہے، مسلمانوں کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا ڈر دل میں نہ لائیں۔ حقیقی شیطان بھی اپنے انسانی دوست شیطانوں کے دلوں میں مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کے نئے سے نئے طریقے ڈالتا رہتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة انعام (١١٢) ۔ آج کل اخبار، ریڈیو، ٹیوی اور انٹرنیٹ جھوٹ پھیلانے اور خوف زدہ کرنے کے لیے شیطان کے آلات ہیں۔ مومن کو ان کی خبروں سے ڈرنے کے بجائے اللہ پر بھروسا کرنا چاہیے اور ” اَلْحَرْبُ خُدْعَۃٌ“ کے تحت ان کا علاج بھی کرنا چاہیے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّيْطٰنُ يُخَوِّفُ اَوْلِيَاۗءَہٗ۝ ٠۠ فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝ ١٧٥- شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٧٥) بات یہ ہے کہ تم لوگوں کو نعیم بن مسعود اشجعی نے (اللہ تعالیٰ نے اس کو شیطان فرمایا) اپنے کافر دوستوں سے آکر ڈرانا چاہا، لہٰذا باہر نکلنے میں ان سے مت ڈرو اور گھروں میں بیٹھے رہنے میں مجھ سے ڈرو، اگر تم میری تصدیق کرنے والے ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٧٥ ( اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَآءَ ‘ ہٗص) - وہ تو چاہتا ہے کہ اپنے ساتھی کفار یعنی حزب الشیطان کا خوف تم پر طاری کر دے۔ اس کے ایک معنی یہ بھی لیے گئے ہیں کہ شیطان اپنے دوستوں کو ڈراتا ہے۔ یعنی شیطان کی اس تخویف کا اثر انہی پر ہوتا ہے جو اس کے ولی ہوتے ہیں ‘ لیکن جو اولیاء اللہ ہیں ان پر شیطان کی طرف سے اس قسم کی وسوسہ اندازی کا اثر نہیں ہوتا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :124 احد سے پلٹتے ہوئے ابو سفیان مسلمانوں کو چیلنج دے گیا تھا کہ آئندہ سال بدر میں ہمارا تمہارا پھر مقابلہ ہوگا ۔ مگر جب وعدے کا وقت قریب آیا تو اس کی ہمت نے جواب دے دیا کیونکہ اس سال مکہ میں قحط تھا ۔ لہٰذا اس نے پہلو بچانے کے لیے یہ تدبیر کی کہ خفیہ طور پر ایک شخص کو بھیجا جس نے مدینہ پہنچ کر مسلمانوں میں یہ خبریں مشہور کرنی شروع کیں کہ اب کے سال قریش نے بڑی زبردست تیاری کی ہے اور ایسا بھاری لشکر جمع کر رہے ہیں جس کا مقابلہ تمام عرب میں کوئی نہ کرسکے گا ۔ اس سے مقصد یہ تھا کہ مسلمان خوفزدہ ہو کر اپنی جگہ رہ جائیں اور مقابلہ پر نہ آنے کی ذمہ داری انہی پر رہے ۔ ابوسفیان کی اس چال کا یہ اثر ہوا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی طرف چلنے کے لیے مسلمانوں سے اپیل کی تو اس کا کوئی ہمت افزا جواب نہ ملا ۔ آخر کار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھرے مجمع میں اعلان کر دیا کہ اگر کوئی نہ جائے گا تو میں اکیلا جاؤں گا ۔ اس پر ١۵ سو فدا کار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلنے کے لیے کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہی کو لے کر بدر تشریف لے گئے ۔ ادھر سے ابوسفیان دو ہزار کی جمعیت لے کر چلا مگر دو روز کی مسافت تک جا کر اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس سال لڑنا مناسب نہیں معلوم ہوتا ، آئندہ سال آئیں گے چنانچہ وہ اور اس کے ساتھی واپس ہوگئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ روز تک بدر کے مقام پر اس کے انتظار میں مقیم رہے اور اس دوران میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے ایک تجارتی قافلہ سے کاروبار کر کے خوب مالی فائدہ اٹھایا ۔ پھر جب یہ خبر معلوم ہوگئی کہ کفار واپس چلے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لے آئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani