179۔ 1 اس لئے اللہ تعالیٰ ابتلا کی بھٹی سے ضرور گزارتا ہے تاکہ اس کے دوست واضح اور دشمن ذلیل ہوجائیں۔ مومن صابر، منافق سے الگ ہوجائے، جس طرح احد میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو آزمایا جس سے ان کے ایمان، صبر و ثبات اور اطاعت کا اظہار ہوا اور منافقین نے اپنے اوپر جو نفاق کا پردہ ڈال رکھا تھا وہ بےنقاب ہوگیا۔ 179۔ 2 یعنی اللہ تعالیٰ اس طرح ابتلا کے ذریعہ سے لوگوں کے حالات اس طرح ابتلا کے ذریعہ سے ظاہر اور باطن نمایاں نہ کرے تو تمہارے پاس کوئی غیب کا علم تو ہے نہیں کہ جس سے تم پر یہ چیزیں منکشف ہوجائیں اور تم جان سکو کہ کون منافق ہے اور کون مومن خالص۔ 179۔ 3 ہاں البتہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے، غیب کا علم عطا فرماتا ہے جس سے بعض دفعہ ان پر منافقین کا اور ان کے حالات اور ان کی سازشوں کا راز فاش ہوجاتا ہے۔ یعنی یہ بھی کسی کسی وقت اور کسی کسی نبی پر ہی ظاہر کیا جاتا ہے۔ ورنہ عام طور پر نبی بھی (جب تک اللہ نہ چاہے) منافقین کے اندرونی نفاق اور ان کے مکرو فریب سے بیخبر ہی رہتا ہے (جس طرح کہ سورة توبہ کی آیت نمبر 101 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اعراب اور اہل مدینہ جو منافق ہیں، اے پیغمبر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو نہیں جانتے) اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ غیب کا علم ہم صرف اپنے رسولوں کو ہی عطا کرتے ہیں کیونکہ یہ ان کی منصبی ضرورت ہے۔ اس وحی الٰہی اور امور غیبیہ کے ذریعے سے ہی وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں اور اپنے کو اللہ کا رسول ثابت کرتے ہیں ؟ اس مضمون کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان کیا گیا ہے (عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰي غَيْبِهٖٓ اَحَدًا 26ۙ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ ) 072:026، 027 " عالم الغیب (اللہ تعالیٰ ہے) اور وہ اپنے غیب سے پنسدیدہ رسولوں کو ہی خبردار کرتا ہے " ظاہر بات ہے یہ امور غیبیہ وہی ہوتے ہیں جن کا تعلق منصب و فرائض رسالت کی ادائیگی سے ہوتا ہے نہ کہ ماکان ومایکون (جو کچھ ہوچکا اور آئندہ قیامت تک جو ہونے والا ہے) کا علم۔ جیسا کہ بعض اہل باطل اس طرح کا علم غیب انبیاء (علیہم السلام) کے لیے اور کچھ اپنے " آئمہ معصومین کے لیے باور کراتے ہیں۔
[١٧٦] یعنی اس حال میں پختہ ایمان والے مومن، کمزور ایمان والے اور منافقین سب ایک ہی اسلامی معاشرہ میں مل کر رہتے ہیں اور ایک ہی سطح کے سب مسلمان ہی سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے درجات ایمان میں امتیاز صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ اللہ ان سب کو کسی ابتلاء میں ڈال دے اور اس طرح اچھے اور برے میں از خود امتیاز ہوجائے جیسا کہ غزوہ احد کے دوران مسلمان جب شکست سے دوچار ہوئے، تو ہر ایک کے ایمان کی پختگی، کمزوری اور منافقت کا ہر ایک کو پتہ چل گیا۔- [١٧٧] ابتلاء کے علاوہ مسلمانوں کے ایمان کے مختلف درجات معلوم ہونے کا ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعہ اپنے نبی کو ان کے احوال پر مطلع کردے۔ مگر یہ بات اللہ کے دستور کے خلاف ہے۔ کیونکہ ایمان تو ہوتا ہی بالغیب ہے۔ اگر غیب نہ رہا تو پھر ایمان کیسا ؟ جس قدر غیب پر اطلاع کی انسان کو ضرورت تھی وہ تو اللہ نے پہلے انبیاء کے ذریعہ سب انسانوں کو مطلع کردیا ہے۔ مثلاً یہ کہ قیامت ضرور آنے والی ہے۔ اس دن ہر ایک کو اس کے اعمال کا اچھا یا برا بدلہ مل کے رہے گا۔ نیک لوگ جنت میں اور بدکردار دوزخ میں جائیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے منافقین کی علامات تو بتلا دی ہیں۔ لیکن کسی کا نام لے کر نہیں بتلایا کہ فلاں فلاں شخص منافق ہے۔ دور نبوی میں صرف ایک ایسا واقعہ ملتا ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو شدید ضرورت کے تحت چند منافقین کے نام بھی بتلادیئے تھے۔ غزوہ تبوک سے واپسی سفر کے دوران چودہ یا پندرہ منافقوں نے ایک سازش تیار کی تھی کہ رات کو سفر کے دوران گھاٹی پر سے گزرتے ہوئے رسول اللہ کو سواری سے گرا کر گھاٹی میں پھینک کر ہلاک کردیا جائے۔ اس وقت حضرت حذیفہ بن یمان آپ کی سواری کو پیچھے سے چلا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ کو منافقوں کی سازش سے مطلع کردیا اور ان منافقوں اور ان کے باپوں کے نام بھی بتلا دیئے، جو آپ نے حضرت حذیفہ کو بھی بتلا دیئے اور ساتھ ہی تاکید کردی کہ ان کے نام وغیرہ کسی کو نہ بتلانا۔ اسی لیے حضرت حذیفہ کو راز دان رسول کہا جاتا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے مسلم کتاب صفات المنافقین)- اللہ تعالیٰ پیغمبر کو غیب پر جب چاہے مطلع کرتا ہے، اور جتنا چاہے اتنی ہی بات سے مطلع کرتا ہے۔ اور اگر چاہے تو نہیں بھی کرتا۔ مثلاً حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو مصر سے قمیص لانے والے کی تو فوراً بذریعہ وحی خوشخبری دے دی۔ مگر جب یوسف کنعان ہی کے ایک کنوئیں میں ان کے پاس پڑے رہے اور یعقوب ان کے غم میں بیمار بھی رہے تو اس وقت اطلاع نہ دی۔ اسی طرح حضرت عمر (رض) اسلام لانے کے لیے آپ کی خدمت میں جارہے تھے تو آپ کو بذریعہ وحی اطلاع کردی گئی مگر جب آپ واقعہ افک کے بارے میں مہینہ بھر سخت بےچین اور پریشان رہے تو اس وقت پورے ایک ماہ بعد وحی کی۔
مَا كَان اللّٰهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ چناچہ جنگ احد میں کفر و نفاق اور ایمان و اخلاص الگ ہو کر سامنے آگئے۔ رازی لکھتے ہیں : ” اس آیت کا تعلق بھی قصۂ احد سے ہے۔ چناچہ اس حادثہ میں قتل و ہزیمت اور پھر اس کے بعد ابو سفیان کے چیلنج کے جواب میں مسلمانوں کا نکلنا وغیرہ، سب ایسے واقعات تھے جن سے کفر ونفاق اور ایمان و اخلاص الگ الگ ہو کر سامنے آگئے اور مومن اور منافق میں امتیاز ہوگیا۔ چونکہ منافقین کا مومنوں کے ساتھ ملا جلا رہنا حکمت الٰہی کے خلاف تھا، اس لیے یہ تمام واقعات پیش آئے۔ - 2ۭ وَمَا كَان اللّٰهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَي الْغَيْب : یعنی اگر اللہ تعالیٰ اس طرح آزمائش کے ذریعے سے مخلص مومنوں اور منافقین کے لیے حالات اور ان کے ظاہر و باطن کو نمایاں نہ کرے تو تمہارے پاس کوئی غیب کا علم تو ہے نہیں کہ جس سے تم پر یہ چیزیں ظاہر ہوجائیں اور تم جان سکو کہ کون مومن ہے اور کون منافق اور نہ تم میں سے ہر ایک کو غیب کی بات پر اطلاع دی جاسکتی ہے۔ نہ کسی کو بھی پورے غیب کی اطلاع دی جاسکتی ہے۔- 3 وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَجْتَبِىْ : ہاں، البتہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے غیب کی جتنی بات چاہتا ہے اس کی اطلاع دے دیتا ہے، جو نہیں چاہتا نہیں بتاتا۔ اب منافقین میں سے بعض کا بتادیا اور بعض کا نہیں بتایا۔ چناچہ فرمایا : ( وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ ړ وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِيْنَةِ ڀ مَرَدُوْا عَلَي النِّفَاقِ ۣ لَا تَعْلَمُھُمْ ) ” اور ان لوگوں میں سے جو تمہارے ارد گرد بدویوں میں سے ہیں، کچھ منافق ہیں اور کچھ اہل مدینہ میں سے بھی جو نفاق پر اڑ گئے ہیں، تو انھیں نہیں جانتا، ہم ہی انھیں جانتے ہیں۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے چنے ہوئے رسولوں کو غیب کی کچھ باتوں کی اطلاع دیتا ہے، جن کی انھیں نبوت کی دلیل کے طور پر ضرورت ہوتی ہے، مگر وہ اس سے عالم الغیب نہیں بنتے، عالم الغیب ایک اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ مزید دیکھیے سورة انعام (٥٩) سورة نمل (١٦٥) ۔ اور سورة جن (٢٦ تا ٢٨) - 4 ۠ فَاٰمِنُوْا باللّٰهِ وَرُسُلِھٖ ۚ : مسلمانوں کا یہ کام نہیں کہ رسول سے اپنی مرضی کی غیب کی باتیں بتانے کا مطالبہ کریں۔ ان کا کام اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا ہے اور اگر وہ ایمان لا کر تقویٰ اختیار کریں گے تو ان کے لیے اجر عظیم ہے۔
ربط آیات :- پچھلی آیت میں اس شبہ کا جواب تھا کہ جب کفار اللہ تعالیٰ کے نزدیم مبغوض اور مردود ہیں تو دنیا میں ان کو اموال و جائیدا اور عیش و عشرت کے سامان کیوں حاصل ہیں مذکورہ آیت میں اس کے بالمقابل اس شبہ کا ازالہ ہے کہ مومن مسلمان جو اللہ کے مقبول بندے ہیں ان پر تکالیف و مصائب کیوں آتے ہیں، مقبولیت کا تقاضا تو یہ تھا کہ راحتیں اور سامان راحت ان کو ملتا۔- خلاصہ تفسیر - اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس حالت پر رکھنا نہیں چاہتا جس پر تم ہو (کہ کفر و ایمان اور حق و باطل اور مومن و منافق میں اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے انعامات دینوی کے اعتبار سے کوئی امتیاز اور فرق نہیں، بلکہ مسلمانوں پر شدائد و مصائب کا نازل ہوتے رہنا اس وقت تک ضروی ہے) جب تک کہ ناپاک (یعنی منافق) کو پاک (یعنی مومن مخلص) سے ممتاز نہ کردیا جائے ( اور یہ تمیز و تبیین مصائب و مشکلات ہی کے پیش آنے پر پوری طرح ہو سکتی ہے اور اگر کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ مومن و کافر اور حق و باطل میں امتیاز پیدا کرنے کے لئے کیا ضروری ہے کہ حوادث و مصائب ڈال کر ہی یہ امتیاز حاصل کیا جائے، اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی اس کا اعلان فرما سکتے ہیں کہ فلاں مومن مخلص ہے اور فلاں منافق اور فلاں چیز حلال ہے فلاں حرام، تو اس کا جواب یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ (بمقتضائے حکمت) ایسے امور غیبیہ پر تم کو (لا واسطہ ابتلاء و امتحان کے) مطلع نہیں کرنا چاہتے، لیکن ہاں جس کو (اس طرح مطلع کرنا) خود چاہیں اور (ایسے حضرات) وہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہیں ان کو (بلاواسطہ حوادث بھی غیبی خبروں پر مطلع کرنے کے لئے اپنے بندوں میں سے) منتخب فرما لیتے ہیں، (اور تم پیغمبر ہو نہیں، اس لئے ایسے امور کی اطلاع نہیں دی جاسکتی، البتہ ایسے حالات پیدا فرماتے ہیں کہ ان سے مخلص و منافق کا فرق خود بخود واضح ہوجائے اور جب یہ ثابت ہوگیا کہ دنیا میں کافروں پر عذاب نازل نہ ہونا بلکہ عیش و عشرت ملنا اور مسلمانوں پر بعض مصائب و شدائد نازل ہونا عین تقاضائے حکمت ہے، یہ باتیں کسی کے مقبول یا مردود ہونے کی دلیل نہیں ہو سکتیں) پس اب تم (ایمان کے پسندیدہ اور کفر کے ناپسندیدہ ہونے میں کوئی شبہ نہ کرو، بلکہ) اللہ پر اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لے آؤ اور اگر تم ایمان لے آؤ اور (کفر و معاصی سے) پرہیز رکھو تو پھر تم کو اجر عظیم ملے۔- معارف و مسائل - مؤ من و منافق میں امتیاز وحی کے بجائے عملی طور پر کرنے کی حکمت :۔- اس آیت میں یہ ارشاد ہے کہ مومن مخلص اور منافق میں امتیاز کے لئے حق تعالیٰ ایسے حالات حوادث و مشکلات کے پیدا فرماتے ہیں جن سے عملی طور پر منافقین کا نفاق کھل جائے اور یہ امتیاز اگرچہ یوں بھی ہوسکتا تھا کہ بذریعہ وحی منافقین کے نام متعین کر کے بتلا دیا جائے، مگر بمقتضائے حکمت ایسا نہیں کیا گیا اللہ تعالیٰ کے افعال کی پوری حکمتیں تو اسی کو معلوم ہیں، یہاں ایک حکمت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اگر مسلمانوں کو بذریعہ وحی بتلا دیا جائے کہ فلاں منافق ہے تو مسلمانوں کو اس سے قطع تعلق اور معاملات میں احتیاط کے لئے کوئی ایسی واضح حجت نہ ہوتی جس کو منافق بھی تسلیم کرلیں، وہ کہتے کہ تم غلط کہتے ہو ہم تو پکے سچے مسلمان ہیں۔- بخلاف اس پر عملی امتیاز کے جو مصائب کے ابتلاء کے ذریعہ ہوا کہ منافق بھاگ کھڑے ہوئے عملی طور پر ان کا نفاق کھل گیا، اب ان کا یہ منہ نہیں رہا کہ مومن و مخلص ہونے کا دعویٰ کریں۔ اور اس طرح نفاق کھل جانے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ مسلمانوں کا ان کے ساتھ ظاہری اختلاط بھی قطع ہو ورنہ دل میں اختلاف کے باوجود ظاہری اختلاط رہتا تو وہ بھی مضر ہی ہوتا۔- امور غیب پر کسی کو مطلع کردیا جائے تو وہ علم غیب نہیں :۔- اس آیت سے معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ امور غیب پر بذریعہ وحی اطلاع اس سے یہ شبہ نہ کیا جائے کہ پھر تو انبیاء بھی علم غیب کے شریک اور عالم الغیب ہوگئے کیونکہ وہ علم غیب جو حق تعالیٰ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے کسی مخلوق کو اس میں شریک قرار دینا شرک ہے، وہ دو چیزوں کے ساتھ مشروط ہے، ایک یہ کہ وہ علم ذاتی ہو کسی دسرے کا دیا ہوا نہ ہو دوسرے تمام کائنات ماضی و مستقبل کا علم محیط ہو، جس سے کسی ذرے کا علم بھی مخفی نہ ہو، حق تعالیٰ خود بذریعہ وحی اپنے انبیاء کو جو امور غیبیہ بتلاتے ہیں وہ حقیقتاعلم غیب نہیں ہے بلکہ غیب کی خبریں ہیں جو انبیاء کو دی گئی ہیں جن کو خود قرآن کریم نے کئی جگہ انبیاء الغیب کے لفظ سے تعبیر : من انبآء الغیب نوحیھا الیک (١١: ٩٤)
مَا كَانَ اللہُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلٰي مَآ اَنْتُمْ عَلَيْہِ حَتّٰى يَمِيْزَ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ ٠ۭ وَمَا كَانَ اللہُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَي الْغَيْبِ وَلٰكِنَّ اللہَ يَجْتَبِىْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ٠۠ فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرُسُلِہٖ ٠ۚ وَاِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَلَكُمْ اَجْرٌ عَظِيْمٌ ١٧٩- وذر - [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی:- قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] - ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔- ميز - المَيْزُ والتَّمْيِيزُ : الفصل بين المتشابهات، يقال : مَازَهُ يَمِيزُهُ مَيْزاً ، ومَيَّزَهُ تَمْيِيزاً ، قال تعالی: لِيَمِيزَ اللَّهُ [ الأنفال 37] ، وقرئ : لِيَمِيزَ اللَّهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ والتَّمْيِيزُ يقال تارة للفصل، وتارة للقوّة التي في الدّماغ، وبها تستنبط المعاني، ومنه يقال : فلان لا تمييز له، ويقال : انْمَازَ وامْتَازَ ، قال : وَامْتازُوا الْيَوْمَ [يس 59] وتَمَيَّزَ كذا مطاوعُ مَازَ. أي : انْفَصَلَ وانْقَطَعَ ، قال تعالی: تَكادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ [ الملک 8] .- ( م ی ز ) المیر والتمیز کے معنی متشابہ اشیاء کو ایک دوسری سے الگ کرنے کے ہیں ۔ اور مازہ یمیزہ میزا ومیزاہ یمیزا دونوں ہم معنی ہیں چناچہ فرمایا ۔ لِيَمِيزَ اللَّهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ تاکہ خدا ناپاک کو پاک سے الگ کر دے اور ایک قراءت میں لیمیز اللہ الخبیث ہے ۔ التمیز کے معنی الگ کرنا بھی آتے ہیں اور اس ذہنی قوت پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے فلان لا تمیز لہ فلاں میں قوت تمیز نہیں ہے ۔ انما ز اور امتاز کے معنی الگ ہونے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے :۔ وَامْتازُوا الْيَوْمَ [يس 59] اور آج الگ ہوجاؤ اور تمیز کذا ( تفعل ) ماز کا مطاوع آتا ہے اور اس کے معنی الگ اور منقطع ہونے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ تَكادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ [ الملک 8] گو یا مارے جوش کے پھٹ پڑے گی ۔- خبث - الخُبْثُ والخَبِيثُ : ما يكره رداءة وخساسة، محسوسا کان أو معقولا، وأصله الرّديء الدّخلة الجاري مجری خَبَثِ الحدید، وذلک يتناول الباطل في الاعتقاد، والکذب في المقال، والقبیح في الفعال، قال عزّ وجلّ : وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف 157] ، أي : ما لا يوافق النّفس من المحظورات، وقوله تعالی: وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم 26] ، فإشارة إلى كلّ كلمة قبیحة من کفر وکذب ونمیمة وغیر ذلك، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «المؤمن أطيب من عمله، والکافر أخبث من عمله» «1» ويقال : خبیث مُخْبِث، أي : فاعل الخبث .- ( خ ب ث )- المخبث والخبیث ۔ ہر وہ چیز جو دری اور خسیں ہونے کی وجہ سے بری معلوم ہو خواہ وہ چیز محسوسات سے ہو یا معقولات ( یعنی عقائد و خیالات ) سے تعلق رکھتی ہو اصل میں خبیث روی اور ناکارہ چیز کو کہتے ہیں جو بمنزلہ لو ہے کی میل کے ہو ۔ اس اعتبار سے یہ اعتقاد باطل کذب اور فعل - قبیح سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف 157] اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں ۔ یعنی محظورات جو طبیعت کے ناموافق ہیں ۔ آیت :۔ وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم 26] اور ناپاک بات کی مثال ناپاک درخت کی سی ہے ۔ میں کفر ، جھوٹ ، چغلی ہر قسم کی قبیح باتیں داخل ہیں حدیث میں ہے :۔ المومن اطیب من عملہ والکافر اخبث من عملہ ۔ کہ مومن اپنے عمل سے پاک اور کافر اپنے عمل سے ناپاک ہے ۔ اور خبیث ومخبث خبث کے مرتکب کو بھی کہا جاتا ہے ۔- طيب - يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] - ( ط ی ب ) طاب ( ض )- الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔- طَلَعَ- طَلَعَ الشمسُ طُلُوعاً ومَطْلَعاً. قال تعالی: وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ [ طه 130] ، حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] ، والمَطْلِعُ : موضعُ الطُّلُوعِ ، حَتَّى إِذا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَطْلُعُ عَلى قَوْمٍ [ الكهف 90] ، وعنه استعیر : طَلَعَ علینا فلانٌ ، واطَّلَعَ. قال تعالی: هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ [ الصافات 54] ، فَاطَّلَعَ [ الصافات 55] ، قال : فَأَطَّلِعَ إِلى إِلهِ مُوسی[ غافر 37] ، وقال : أَطَّلَعَ الْغَيْبَ [ مریم 78] ، لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلى إِلهِ مُوسی[ القصص 38] ، واسْتَطْلَعْتُ رأيَهُ ، وأَطْلَعْتُكَ علی كذا، وطَلَعْتُ عنه : غبت، والطِّلاعُ : ما طَلَعَتْ عليه الشمسُ والإنسان، وطَلِيعَةُ الجیشِ : أوّل من يَطْلُعُ ، وامرأةٌ طُلَعَةٌ قُبَعَةٌ «1» : تُظْهِرُ رأسَها مرّةً وتستر أخری، وتشبيها بالطُّلُوعِ قيل : طَلْعُ النَّخْلِ. لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق 10] ، طَلْعُها كَأَنَّهُ رُؤُسُ الشَّياطِينِ [ الصافات 65] ، أي : ما طَلَعَ منها، وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء 148] ، وقد أَطْلَعَتِ النّخلُ ، وقوسٌ طِلَاعُ الكفِّ : ملءُ الكفِّ.- ( ط ل ع ) طلع - ( ن ) الشمس طلوعا ومطلعا کے معنی آفتاب طلوع ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ [ طه 130] اور سورج کے نکلنے سے پہلے ۔۔۔۔۔ تسبیح وتحمید کیا کرو ۔ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔ اور مطلع کے معنی ہیں طلوع ہونیکی جگہ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى إِذا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَطْلُعُ عَلى قَوْمٍ [ الكهف 90] یہاں تک کہ سورج کے طلوع ہونے کے مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایسے لوگوں پر طلوع کرتا ہے ۔۔۔۔۔ اسی سے استعارہ کے طور طلع علینا فلان واطلع کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ہیں کسی کے سامنے ظاہر ہونا اور اوپر پہنچ کر نیچے کی طرف جھانکنا قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ [ الصافات 54] بھلا تم اسے جھانک کر دیکھنا چاہتے ہو اتنے میں وہ خود جھانکے گا ۔ فَاطَّلَعَ [ الصافات 55] پھر اوپر جاکر موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کو دیکھ لوں ۔ أَطَّلَعَ الْغَيْبَ [ مریم 78] کیا اس نے غیب کی خبر پالی ۔ لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلى إِلهِ مُوسی[ القصص 38] تاکہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کی طرف چڑھ جاؤں ۔ استطعت ( میں نے اس کی رائے معلوم کی ۔ اطلعت علٰی کذا میں نے تمہیں فلان معاملہ سے آگاہ کردیا طلعت عنہ میں اس سے پنہاں ہوگیا ( اضداد الطلاع ہر وہ چیز جس پر سورج طلوع کرتا ہو یا ( 2 ) انسان اس پر اطلاع پائے طلعیۃ الجیش ہر اول دستہ امرء ۃ طلعۃ قبعۃ وہ عورت جو بار بار ظاہر اور پوشیدہ ہو اور طلوع آفتاب کی مناسبت سے طلع النخل کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی درخت خرما کے غلاف کے ہیں جس کے اندر اس کا خوشہ ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق 10] جن کا گا بھاتہ بتہ ہوتا ہے طَلْعُها كَأَنَّهُ رُؤُسُ الشَّياطِينِ [ الصافات 65] ان کے شگوفے ایسے ہوں گے جیسے شیطانوں کے سر ۔ وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء 148] اور کھجوریں جن کے شگوفے لطیف ونازک ہوتے ہیں ۔ الطلعت النخل کھجور کا شگوفے دار ہونا ۔ قو س طلاع الکھف کمان جس سے مٹھی بھر جائے ۔- غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے - اجتباء - : الجمع علی طریق الاصطفاء . قال عزّ وجل : فَاجْتَباهُ رَبُّهُ [ القلم 50] ، وقال تعالی: وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف 203] ، أي : يقولون : هلّا جمعتها، تعریضا منهم بأنک تخترع هذه الآیات ولیست من اللہ . واجتباء اللہ العبد : تخصیصه إياه بفیض إلهيّ يتحصل له منه أنواع من النعم بلا سعي من العبد، وذلک للأنبیاء وبعض من يقاربهم من الصدیقین والشهداء، كما قال تعالی: وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف 6] ، فَاجْتَباهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ [ القلم 50] ، وَاجْتَبَيْناهُمْ وَهَدَيْناهُمْ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الأنعام 87] ، وقوله تعالی: ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَهَدى [ طه 122] ، وقال عزّ وجل : يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ [ الشوری 13] ، وذلک نحو قوله تعالی: إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ [ ص 46] .- الاجتباء ( افتعال )- کے معنی انتخاب کے طور پر کسی چیز کو جمع کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف 203] اور جب تم ان کے پاس ( کچھ دنوں تک ) کوئی آیت نہیں لاتے تو کہتے ہیں کہ تم نے ( اپنی طرف سے ) کیوں نہیں بنائی ہیں کے معنی یہ ہوں گے کہ تم خد ہی ان کو تالیف کیوں نہیں کرلیتے دراصل کفار یہ جملہ طنزا کہتے تھے کہ یہ آیات اللہ کی طرف سے نہیں ہیں بلکہ تم کود ہی اپنے طور بنالیتے ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ کا کسی بندہ کو جن لینا کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اسے اپنے فیض کے لئے برگزیدہ کرلیتا ہے جسے گونا گون نعمتیں جدو جہد کے بغیر حاصل ہوجاتی ہیں یہ انبیاء کے ساتھ خاص ہے اور صدیقوں اور شہدوں کے لئے جوان کئ قریب درجہ حاصل کرلیتے ہیں ۔ جیسا کہ یوسف کے متعلق فرمایا : ۔ وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف 6] اور اسی طرح خدا تمہیں برگزیدہ ( ممتاز ) کرے گا ۔ فَاجْتَباهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ [ القلم 50] پھر پروردگار نے ان کو برگزیدہ کر کے نیکو کاروں میں کرلیا ۔ وَاجْتَبَيْناهُمْ وَهَدَيْناهُمْ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الأنعام 87] ان کو برگزیدہ بھی کیا تھا اور سیدھا رستہ بھی دکھا یا تھا ۔ ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَهَدى [ طه 122] پھر ان کے پروردگار نے ان کو نواز اتو ان پر مہر بانی سے توجہ فرمائی اور سیدھی راہ بتائی ۔ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ [ الشوری 13] جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ کا برگزیدہ کرلیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرے اسے اپنی طرف رستہ دکھا دیتا ہے اس احتیاء کو دوسرے مقام پر اخلاص سے تعبیر فرمایا ہے ۔ إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ [ ص 46] ہم نے ان کو ایک ( صفت ) خاص ( اخرت ) کے گھر کی یا سے ممتاز کیا تھا ۔- شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] - ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے - ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ - ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ - تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔
(١٧٩) مشرکین نے رسول اکرم (رض) سے کہا کہ آپ ہم سے یہ کہتے ہیں کہ تم میں کافر بھی ہیں اور مومن بھی تو بتایئے کہ ہم میں سے کون مومن ہے اور کون کافر، اللہ تعالیٰ جواب میں فرماتے ہیں اے گروہ منافقین اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس حالت عدم امتیاز پر جس پر تم سب ہو کر نہیں رکھنا چاہتا کہ مومن کافر اور کافر مومن معلوم ہو بلکہ مشیت الہی میں یہ ہے کہ شقی سعید (نیک بخت، بدبخت) سے اور کافر مومن سے اور منافق مخلص سے ممتاز اور نمایاں ہوجائے، کفار مکہ کو اللہ تعالیٰ حکمت کے تحت ایسے امور پر مطلع نہیں کرتا کہ کون ایمان لائے گا اور کون انکار کرے گا لیکن اس ذات الہی نے اپنی مشیت سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس چیز کے لیے منتخب فرمایا ہے کہ بذریعہ وحی آپ کو بعض امور سے اللہ تعالیٰ آگاہ فرما دیتے ہیں لہٰذا (اے مشرکین تم اپنی ضد اور شرک چھوڑ کر) تمام رسولوں اور تمام کتابوں پر ایمان لاؤ اور اگر تم تمام کتابوں اور تمام رسولوں پر ایمان لے آؤ گے اور اس کے ساتھ کفر وشرک سے بھی بچو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں جنت میں عظیم الشان ثواب عطا فرمائے گا۔
آیت ١٧٩ (مَا کَان اللّٰہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰی مَآ اَنْتُمْ عَلَیْہِ ) (حَتّٰی یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ ط) ۔- یہ آیت بھی فلسفۂ آزمائش کے ضمن میں بہت اہم ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک اور صالح بندوں کو تکالیف میں کیوں ڈالتا ہے ‘ حالانکہ وہ تو قادر مطلق ہے ‘ آن واحد میں جو چاہے کرسکتا ہے۔ فرمایا جا رہا ہے کہ یہ بات اللہ کی حکمت کے مطابق نہیں ہے کہ وہ تمہیں اسی حال میں چھوڑے رکھے جس پر تم ہو۔ ابھی تمہارے اندر کمزور اور پختہ ایمان والے گڈمڈ ہیں ‘ بلکہ ابھی تو منافق اور مؤمن بھی گڈمڈ ہیں۔ تو جب تک ان عناصر کو الگ الگ نہ کردیا جائے اور تمہاری اجتماعیت سے یہ تمام ناپاک عناصر نکال نہ دیے جائیں اس وقت تک تم آئندہ پیش آنے والے مشکل اور کٹھن حالات کے لیے تیار نہیں ہوسکتے۔ آگے تمہیں سلطنت روما سے ٹکرانا ہے ‘ تمہیں سلطنت کسریٰ سے ٹکر لینی ہے۔ ابھی تو یہ اندرون ملک عرب تمہاری جنگیں ہو رہی ہیں۔ ان آزمائشوں کا مقصد یہ ہے کہ تمہاری اجتماعیت کی تطہیر ‘ ( ) ‘ ہوتی رہے ‘ یہاں تک کہ منافقین اور صادق الایمان لوگ بالکل نکھر کر علیحدہ ہوجائیں۔ - (وَمَا کَان اللّٰہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ ) ( وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ یَّشَآءُص) ۔- وہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے غیب کے حالات بھی بتاتا ہے۔ رسولوں کو غیب از خود معلوم نہیں ہوتا ‘ اللہ کے بتانے سے معلوم ہوتا ہے۔ یعنی ان آزمائشوں میں کیا حکمتیں ہیں اور ان میں تمہارے لیے کیا خیر پنہاں ہے ‘ ہرچیز ہر ایک کو نہیں بتائی جائے گی ‘ البتہ یہ چیزیں ہم اپنے رسولوں کو بتا دیتے ہیں۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :125 یعنی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی جماعت کو اس حال میں دیکھنا پسند نہیں کرتا کہ ان کے درمیان سچے اہل ایمان اور منافق ، سب خلط ملط رہیں ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :126 یعنی مومن و منافق کی تمیز نمایاں کرنے کے لیے اللہ یہ طریقہ اختیار نہیں کرتا کہ غیب سے مسلمانوں کو دلوں کا حال بتا دے کہ فلاں مومن ہے اور فلاں منافق ، بلکہ اس کے حکم سے ایسے امتحان کے مواقع پیش آئیں گے جن میں تجربہ سے مومن اور منافق کا حال کھل جائے گا ۔
60: آیت 176 سے 178 تک اس شبہ کا جواب دیا گیا ہے کہ اگر کافر لوگ اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں تو انہیں دنیا میں عیش و عشرت کی زندگی کیوں حاصل ہے؟ جواب یہ دیا گیا ہے کہ ان لوگوں کو آخرت میں تو کوئی حصہ ملنا نہیں ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ انہیں دنیا میں ڈھیل دئیے ہوئے ہے جس کی وجہ سے یہ مزید گناہوں میں ملوث ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک وقت آنا ہے جب یہ اکٹھے عذاب میں دھر لیے جائیں گے۔ آیت 179 میں اس کے مقابل اس شبہ کا جواب ہے کہ مسلمان کو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں، اس کے باوجود ان پر مصیبتیں کیوں آ رہی ہیں؟ اس کا ایک جواب اس آیت میں یہ دیا گیا ہے کہ یہ آزمائشیں مسلمانوں پر اس لیے آ رہی ہیں تاکہ مسلمانوں پر واضح ہوجائے کہ ایمان کے دعوے میں کون کھرا ہے اور کون کھوٹا؟ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس وضاحت کے بغیر نہیں چھوڑ سکتا، اور مشکلات ہی کے وقت یہ پتہ چلتا ہے کہ کون ثابت قدم رہتا ہے اور کون پھسل جاتا ہے؟ اس پر یہ سوال ہوسکتا تھا کہ یہ بات اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مشکل میں ڈالے بغیر کیوں نہیں بتا دیتا؟ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ غیب کی باتیں ہر ایک شخص کو نہیں بتاتا، بلکہ جتنی باتیں چاہتا ہے اپنے پیغمبر کو بتا دیتا ہے۔ اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان منافقین کی بد عملی آنکھوں سے دیکھ کر ان کے بارے میں رائے قائم کریں، اس لیے یہ آزمائشیں پیش آ رہی ہیں۔ آزمائشوں کی مزید حکمت آگے آیات 185 اور 186 میں بھی بیان فرمائی گئی ہے۔