Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

180۔ 1 اس میں اس بخیل کا بیان کیا گیا ہے جو اللہ کے دیئے ہوئے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتا حتی کہ اس میں سے فرض زکوٰۃ بھی نہیں نکالتا، صحیح بخاری کی حدیث میں آتا ہے کہ قیامت والے دن اس کے مالک کو ایک زہریلا اور نہایت خوف ناک سانپ بنا کر طوق کی طرح اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا، وہ سانپ اس کی باچھیں پکڑے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٧٨] آیت نمبر ١٧٧ میں یہ بیان ہوا تھا کہ دنیا میں نعمتوں کی فراوانی اس بات کی دلیل نہیں ہوتی کہ اللہ ان پر خوش ہے۔ مال و دولت اسی صورت میں اللہ کی نعمت کہلا سکتا ہے جب کہ اس سے مال کے حقوق ادا کردیئے جائیں اور اگر بخل سے کام لیا جائے تو یہی مال و دولت عذاب کا باعث بن جاتا ہے چناچہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ مال عطا فرمائے، پھر وہ اس سے زکوٰۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن اس کا مال ایک گنجے سانپ کی شکل میں ہوگا جس کی آنکھوں پر دو کالے نقطے ہوں گے وہ سانپ اس کے گلے کا طوق بن جائے گا اور اس کی دونوں باچھیں پکڑ کر کہے گا، میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، نیز کتاب الزکوٰۃ، باب اثم مانع الزکوٰۃ وقول اللہ (وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ 34؀ۙ ) 9 ۔ التوبہ :34)- [١٧٩] یعنی جو مال تم چھوڑ کر مرجاؤ گے وہ تمہارے وارثوں کا ہوگا اور بالآخر اللہ کی ہی میراث میں چلا جائے گا چناچہ حدیث میں آیا ہے کہ آپ نے فرمایا : انسان کہتا رہتا ہے کہ یہ میرا مال ہے۔ یہ میرا مال ہے۔ حالانکہ اس کا مال وہی ہے۔ جو اس نے کھالیا یا پہن لیا یا اللہ کی راہ میں دے دیا۔ باقی مال تو اس کے وارثوں کا ہوگا ہے نیز آپ سے کسی نے سوال کیا کہ افضل صدقہ کون سا ہے۔ آپ نے فرمایا : جو تو تندرستی کی حالت میں مال کی خواہش مالدار ہونے کی امید اور محتاجی کا ڈر رکھتے ہوئے کرے اور اتنی دیر مت لگا کہ حلق میں دم آجائے تو اس وقت یوں کہنے لگے کہ اتنا مال فلاں کو دے دینا اور اتنا فلاں کو۔ حالانکہ اب وہ تو فلاں کا ہو ہی چکا (بخاری، کتاب الوصایا، باب الصدقہ عندالموت)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ : اوپر ترغیب جہاد کے سلسلے میں جانی قربانی پر زور دیا ہے اور جو جان بچانے کی خاطر اس سے فرار اختیار کرتے ہیں ان کے حق میں وعید سنائی ہے۔ اب یہاں جہاد میں مالی قربانی پر زور دیا جا رہا ہے اور بخل کرنے والوں کی مذمت کی جا رہی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جس طرح ان منافقین کو اپنی جان پیاری ہے اسی طرح ان کو اپنا مال بھی پیارا ہے اور جو لوگ مال کے حقوق ادا کرنے سے پہلوتہی کرتے ہیں، قیامت کے دن یہی مال ان کے لیے وبال جان بن جائے گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے کچھ مال دیا ہے اور وہ اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا، قیامت کے دن اس کے مال کو ایک گنجے سانپ کی شکل دے دی جائے گی اور وہ طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ وہ اسے اپنے دونوں جبڑوں سے پکڑے گا اور اس سے کہے گا : ” میں ہوں تمہارا مال، میں ہوں تمہارا خزانہ۔ “ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ [ بخاری، التفسیر، باب (وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ ۔۔ ) : ٤٥٦٥، عن أبی ہریرہ (رض) ] - 2 بخل ان حقوق کو ادا نہ کرنے کا نام ہے جو انسان پر واجب ہوں، مثلاً گھر والوں کا نان و نفقہ، مہمان نوازی، جہاد کی تیاری، زکوٰۃ و عشر وغیرہ۔ ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : ( وَ اَیُّ دَاءٍ اَدْوَأُ مِنَ الْبُخْلِ ) ” بخل سے بڑی بیماری کیا ہوسکتی ہے ؟ “ [ بخاری، المغازی، باب قصۃ عمان والبحرین : ٤٣٨٣ ]- 3 وَلِلّٰهِ مِيْرَاث الخ : یعنی جب زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی میراث اور ملکیت ہے تو جس مال کے بظاہر تم وارث بنائے گئے ہو، اس میں بخل کیوں کرتے ہو ؟ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” اللہ وارث ہے، آخر تم مرجاؤ گے اور مال اسی کا ہو رہے گا، تم اپنے ہاتھ سے دو تو ثواب پاؤ۔ “ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات :- سورة آل عمران کے شروع میں یہودیوں کی بری خصلتوں اور شرارتوں کا ذکر تھا یہاں سے پھر اسی کی طرف عود کیا گیا، آیات مذکورہ سب اسی طرح کے مضامین پر مشتمل ہیں، درمیان میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی اور مسلمانوں کے لئے نصائح کا ذکر ہے :- خلاصہ تفسیر - اور ہرگز نہ خیال کریں ایسے لوگ جو (ضروری مواقع میں) ایسی چیز (کے خرچ کرنے) میں بخل کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل سے دی ہے کہ یہ بات ان کے لئے کچھ اچھی ہوگی، (ہرگز نہیں) بلکہ یہ بات ان کے لئے بہت ہی بری ہے (کیونکہ انجام اس کا یہ ہوگا کہ) وہ لوگ قیامت کے روز طوق پہنائے جائیں گے اس (مال) کا (سانپ بنا کر) جس میں انہوں نے بخل کیا تھا اور (بخل کرنا یوں بھی حماقت ہے کہ) اخیر میں (جب سب مر جایں گے) سب آسمان و زمین (ور جو کائنات ان کے اندر ہیں سب) اللہ ہی کا رہ جاوے گا (لیکن اس وقت یہ مال اللہ کے لئے ہوجانے سے تمہیں کوئی ثواب نہیں ملے گا، کیونکہ تم نے اپنے اختیار سے نہیں دیئے اور جب انجام کار سب اللہ ہی کا ہونا ہے تو عقل کی بات یہ ہے کہ ابھی اپنے اختیار سے دے دو تاکہ ثواب کے مستحق بنو) اور اللہ تمہارے سب اعمال کی پوری خبر رکھتے ہیں (اس لئے جو کچھ خرچ کرو اخلاص کے ساتھ اللہ کے لئے کرو۔ )- بیشک اللہ نے سن لیا ہے ان (گستاخ) لوگوں کا قول جنہوں نے (استہزاء) یوں کہا کہ (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ مفلس ہے اور ہم مالدار ہیں، (اور صرف اس سننے پر اکتفاء نہیں کیا جاوے گا بلکہ ہم ان کے کہے ہوئے کو (ان کے نامہ اعمال میں) لکھ کر رہیں گے اور (اسی طرح) ان کا انبیاء (علیہم السلام) کو ناحق قتل کرنا بھی (ان کے نامہ اعمال میں لکھا جاوے گا) اور ہم (ان پر سزا جاری کرنے کے وقت جتلانے کے لئے) کہیں گے کہ (لو) چکھو آگ کا عذاب، (اور ان کو روحانی رنج دینے کے لئے اس وقت یہ بھی کہا جاوے گا کہ) یہ (عذاب) ان اعمال (کفریہ) کی وجہ سے ہے جو تم نے اپنے ہاتھوں سمیٹے ہیں اور یہ امر ثابت ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم کرنیوالے نہیں، وہ (یہود) ایسے لوگ ہیں کہ (بالکل جھوٹ تراش کر) کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو (بواسطہ انبیاء سابقین) حکم فرمایا تھا کہ ہم کسی پیغمبری کے مدعی) پر اعتقاد (ان کے پیغمبر ہونے کا) نہ لاویں جب تک ہمارے سامنے معجزہ (خاص) نذر و نیاز خداوندی کا ظاہر نہ کرے، کہ اس کو (آسمانی) آگ کھا جاوے (پہلے انبیاء (علیہم السلام) کا یہ معجزہ ہوا ہے کہ کوئی چیز جاندار یا بےجان اللہ کے نام کی نکال کر کسی میدان یا پہاڑ پر رکھ دی، غیب سے ایک آگ نمودار ہوئی اور اس چیز کو جلا دیا یہ علامت قبول صدقات کی ہوتی تھی، مطلب یہ ہے کہ آپ نے یہ خاص معجزہ ظاہر نہیں فرمایا، اس لئے ہم آپ پر ایمان نہیں لاتے، حق تعالیٰ اس کا جواب تعلیم فرماتے ہیں کہ) آپ فرما دیجئے کہ بالیقین بہت سے پیغمبر مجھ سے پہلے بہت سے دلائل (معجزات وغیرہ) لے کر آئے اور خود یہ معجزہ بھی جس کو تم کہہ رہے ہو، سو تم نے ان کو کیوں قتل کیا تھا اگر تم (اس امر میں) سچے ہو سو اگر یہ (کفار) لوگ آپ کی تکذیب کریں تو (غم نہ کیجئے کیونکہ) بہت سے پیغمبروں کی جو آپ سے پہلے گذرے ہیں، تکذیب کی جا چکی ہے، جو معجزات لے کر آئے تھے اور (چھوٹے چھوٹے) صحیفے لے کر اور روشن کتاب لے کر (جب کفار کی یہ عادت ہی ہے کہ انبیاء کی تکذیب کیا کرتے ہیں تو پھر آپ کو کیا غم ہے۔ )- (تم میں) ہر جان (دار) کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور (مرنے کے بعد) تم کو پوری پاداش تمہاری (بھلائی برائی کی) قیامت ہی کے روز ملے گی (اگر دنیا میں کافروں پر کسی سزا کا ظہور نہ ہو تو اس سے تکذیب کرنے الوں کو خوشی کا اور تصدیق کرنے والوں کو غم کا کوئی موقع نہیں، آگے اس پاداش کی تفصیل ہے) تو جو شخص دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا سو پورا کامیاب وہ ہوا، (اسی طرح جو جنت سے جدا رہا اور دوزخ میں بھیجا گیا پورا ناکام وہ ہوا) اور دنیوی زندگی تو کچھ بھی نہیں صرف (ایسی چیز ہے جیسے) دھوکہ کا سودا (ہوتا) ہے (جس کی ظاہری آب و تاب کو دیکھ کر خریدار پھنس جاتا ہے، بعد میں اس کی قلعی کھل جاتی ہے تو افسوس کرتا ہے اسی طرح دنیا کی ظاہری چمک دمک سے دھوکہ کھا کر آخرت سے غافل نہ ہونا چاہئے۔- (ابھی کیا ہے) البتہ آگے (آگے) اور آزمائے جاؤ گے اپنے مالوں (کے نقصان) میں اپنی جانوں (کے نقصان) میں اور البتہ آگے کو اور سنو گے بہت سی باتیں دل آزاری کی ان لوگوں سے (بھی) جو تم سے پہلے (آسمانی کتاب دیئے گئے ہیں (یعنی اہل کتاب سے) اور ان ان لوگوں سے (بھی) جو کہ مشرک ہیں اور اگر (ان مواقع پر) صبر کرو گے اور خلاف شروع امور ہے۔ ) پرہیز رکھو گے تو (تمہارے لئے اچھا ہوگا، کیونکہ) یہ (صبر وتقویٰ ) تاکیدی احکام میں سے ہے۔- معارف و مسائل - مذکورہ سات آیتوں میں سے پہلی آیت میں بخل کی مذمت اور اس پر وعید مذکور ہے۔ بخل کے معنی شرعی یہ ہیں کہ جو چیز اللہ کی راہ میں خرچ کرنا کسی پر واجب ہو۔ - بخل کی تعریف اور اس پر سزا کی تفصیل :۔- اس کو خرچ نہ کرے، اسی لئے بخل حرام ہے اور اس پر جہنم کی وعید شدید ہے۔ اور جن مواقع میں خرچ کرنا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے، وہ اس بخل حرام میں داخل نہیں، البتہ معنی عام کے اعتبار سے اس کو بھی بخل کہہ دیا جاتا ہے، اس قسم کا بخل حرام نہیں، مگر خلاف اولیٰ ہے۔ بخل ہی کے معنی میں ایک دوسرا لفظ بھی احادیث میں آیا ہے، یعنی شح، اس کی تعریف یہ ہی کہ اپنے ذمہ جو خرچ کرنا واجب تھا وہ ادا نہ کرے، اس پر مزید یہ کہ مال بڑھانے کی حرص میں مبتلا رہے، تو وہ بخل سے بھی زیادہ شدید جرم ہے، اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- ” یعنی شح و ایمان کسی مسلمان کے قلب میں جمع نہیں ہو سکتے۔ “ (قرطبی)- بخل کی جو سزا اس آیت میں ذکر کی گئی ہے کہ قیامت کے روز جس چیز کے دینے میں بخل کیا اس کا طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈالا جائے گا۔ اس کی تفسیر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمائی ہے :- حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ :” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص کو اللہ نے کوئی مال عطا فرمایا پھر اس نے اس کی زکوة اد نہیں کی تو قیامت کے روز یہ مال ایک سخت زہریلا سانپ بن کر اس کے گلے کا طوق بنادیا جائے گا وہ اس شخص کی باچھیں پکڑے گا اور کہے گا میں تیرا مال ہوں تیرا سرمایہ ہوں، پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی۔ (نسائی از تفسیر قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ ھُوَخَيْرًا لَّھُمْ۝ ٠ۭ بَلْ ھُوَشَرٌّ لَّھُمْ۝ ٠ۭ سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝ ٠ۭ وَلِلہِ مِيْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ۝ ١٨٠ۧ- حسب ( گمان)- والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] - ( ح س ب ) الحساب - اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ - بخل - البُخْلُ : إمساک المقتنیات عمّا لا يحق حبسها عنه، ويقابله الجود، يقال : بَخِلَ فهو بَاخِلٌ ، وأمّا البَخِيل فالذي يكثر منه البخل، کالرحیم من الراحم .- والبُخْلُ ضربان : بخل بقنیات نفسه، وبخل بقنیات غيره، وهو أكثرها ذمّا، دلیلنا علی ذلک قوله تعالی: الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ [ النساء 37] .- ( ب خ ل ) البخل ( دس ) اپنے جمع کردہ ذخائر کو ان جگہوں سے روک لینا جہاں پر خرچ کرنے سے اسے روکنا نہیں چاہیئے ۔ اس کے بالمقابل الجواد ہے بخل اس نے بخیل کیا باخل ۔ بخل کرنے والا ۔ البخیل ( صیغہ مبالغہ ) جو بہت زیادہ بخل سے کام لیتا ہو جیسا کہ الراحم ( مہربان ) سے الرحیم مبالغہ کے لئے آتا جاتا ہے ۔ البخیل ۔ دو قسم پر ہے ایک یہ ہے کہ انسان اپنی چیزوں کو خرچ کرنے سے روک لے اور دوم یہ کہ دوسروں کو بھی خرچ کرنے سے منع کرے یہ پہلی قسم سے بدتر ہے جیسے فرمایا : الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ ( سورة النساء 37) یعنی جو خود بھی بخل کریں اور لوگوں کو بھی بخل کی تعلیم دیں ۔- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- شر - الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] ، وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال 22] الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] - ( ش ر ر ) الشر وہ چیز ہے جس سے ہر ایک کراہت کرتا ہو جیسا کہ خیر اسے کہتے ہیں ۔ جو ہر ایک کو مرغوب ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] کہ مکان کس کا برا ہے ۔ - طوق - أصل الطَّوْقِ : ما يجعل في العنق، خلقة كَطَوْقِ الحمامِ ، أو صنعة كطَوْقِ الذّهب والفضّة، ويتوسّع فيه فيقال : طَوَّقْتُهُ كذا، کقولک : قلّدته . قال تعالی: سَيُطَوَّقُونَ ما بَخِلُوا بِهِ [ آل عمران 180] ، وذلک علی التشبيه، كما روي في الخبر «يأتي أحدکم يوم القیامة شجاع أقرع له زبیبتان فَيَتَطَوَّقُ به فيقول أنا الزّكاة التي منعتني»- ( ط و ق ) الطوق اس حلقہ کو کہتے ہیں جو پیدائشی طور پر گردن کے گرد بنا ہوتا ہے جیسے کبوتر ی کی گردن میں یا مصنوعی ہو جیسے سونے چاندی کا حلقہ جو گلے میں ڈالا جاتا ہے پھر بطور توسیع کے قلدتہ کی طرح طوقتہ کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے اور قرآن میں جو مال کے متعلق ؛ سَيُطَوَّقُونَ ما بَخِلُوا بِهِ [ آل عمران 180] وہ جس مال میں بخل کرتے ہیں ( قیامت کے دن ) اس کا طوق بنا کر ان کی گردنوں میں ڈالا جائیگا ۔ فرمایا ہے تو یہ بطور تشبیہ کے ہے ۔ جیسا کہ حدیث میں ہے ۔ ( 24 ) یاتی احدکم یوم القیامتہ شجاع اقرع لہ زبیتان فیتطوق بہ فیقول اماالذکوۃ التی منعتنی کہ قیامت کے دن تم میں سے کسی ایک کے پاس گنجا سانپ آئے گا ۔ اور اس کے گلے میں طوق بن کر پڑجائے گا اور کہے گا میں تمہارا خزانہ ہو جس کی تم نے زکٰوۃ ادا نہیں کی تھی۔- قِيامَةُ- : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة،- القیامت - سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے - ورث - الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» أي : أصله وبقيّته - ( ور ث ) الوارثۃ - والا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے جو کے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ۔«اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - خبر - الخُبْرُ : العلم بالأشياء المعلومة من جهة الخَبَر، وخَبَرْتُهُ خُبْراً وخِبْرَة، وأَخْبَرْتُ : أعلمت بما حصل لي من الخبر، وقیل الخِبْرَة المعرفة ببواطن الأمر، والخَبَار والخَبْرَاء : الأرض اللّيِّنة « وقد يقال ذلک لما فيها من الشّجر، والمخابرة : مزارعة الخبار بشیء معلوم، والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم، وقیل أي : عالم ببواطن أمورکم، وقیل : خبیر بمعنی مخبر، کقوله : فَيُنَبِّئُكُمْ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ [ المائدة 105] ، وقال تعالی: وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد 31] ، قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبارِكُمْ [ التوبة 94] ، أي : من أحوالکم التي نخبر عنها .- ( خ ب ر ) الخبر - ۔ جو باتیں بذریعہ خبر کے معلوم ہوسکیں ان کے جاننے کا نام ، ، خبر ، ، ہے کہا جاتا ہے ۔ خبرتہ خبرۃ واخبرت ۔ جو خبر مجھے حاصل ہوئی تھی اس کی میں نے اطلاع دی ۔ بعض نے کہا ہے کہ خبرۃ کا لفظ کسی معاملہ کی باطنی حقیقت کو جاننے پر بولا جاتا ہے ۔ الخبارو الخبرآء نرم زمین ۔ اور کبھی درختوں والی زمین پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ المخابرۃ ۔ بٹائی پر کاشت کرنا ۔ اسی سے کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے :۔ اور بعض نے کہا ہے کہ وہ تمہارے باطن امور سے واقف ہے ۔ اور بعض نے خبیر بمعنی مخیر کہا ہے ۔ جیسا کہ آیت ۔ فَيُنَبِّئُكُمْ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ [ المائدة 105] پھر جو کچھ تم کرتے رہے ہو وہ سب تمہیں بتائیگا سے مفہوم ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد 31] اور تمہارے حالات جانچ لیں ۔ قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبارِكُمْ [ التوبة 94] خدا نے ہم کو تمہارے سب حالات بتادئے ہیں ۔ یعنی تمہارے احوال سے ہمیں آگاہ کردیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

نجیل آدمی خوداپنا دشمن ہوتا ہے - قول باری ہے (ولایحسبن الذین یبخلون بما اتاھم اللہ من فضلہ ھوخیرالھم بل ھوشرالھم، سیطوقون مابخلوابہ یوم القیامۃ، جن لوگوں کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا ہے اور پھر وہ بخل سے کام لیتے ہیں وہ اس خیال میں نہ رہیں کہ یہ نجیلی ان کے لیے اچھی ہے۔ نہیں، یہ ان کے حق میں بہت بری ہے جو کچھ وہ اپنی کنجوسی سے جمع کررہے ہیں وہی قیامت کے روزان کے گلے کا طوق بن جائے گا) سدی کا قول ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور زکوۃ ادا کرنے میں نجل کریں ان کے لیے یہ حکم ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ یہ اہل کتاب کے متعلق ہے، انھوں نے اپنی کتاب میں درج شدہ احکام الٰہی کو لوگوں سے بیان کرنے میں بخل کیا تھا۔ لیکن اس سے زکوۃ کے معنی لینے اولی ہیں جس طرح کہ قول باری ہے (والذین یکنزون الذھب والفضۃ ولاینفقونھافی سبیل اللہ فبشرھم بعذاب الیم۔ یوم یحی علیھا فی نارجھنم فتکوی بھاجباھھم وجنوبھم وظھورھم۔ جو لوگ سونا چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تم انھیں ایک درد ناک عذاب کی خبرسنادو۔ یہ عذاب اس روز واقع ہوگا جب کہ اس سونے چاندی کو دوزخ کی آگ میں تپایاجائے گا، پھر اس سے ان کی پیشانیوں کو اور ان کے پہلوؤں کو اور ان کی پشتوں کو داغاجائے گا۔- قول باری (سیطوقون مابخلوابہ) بھی اس پر دلالت کرتا ہے۔ سہل بن صالح نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا (مامن صاحب کنزلایوری زکوۃ کنزہ الاجیئی بہ یوم القیا مۃ وبکنزہ فیحمی بھا جبینہ وجبھتہ حتی یحکم اللہ بین عبادہ۔ جو شخص کسی خزانے کا مالک ہو اور وہ اس کی زکوۃ ادانہ کرتا ہو تو قیامت کے دن اسے اس کے خزانے کے ساتھ حاضر کیا جائے گا اور پھر اس خزانے کو پگھلاکر اس کی پیشانی اور چہرے کو داغاجائے گا۔ یہ عمل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ بندوں کا حساب وکتاب مکمل ہونے کے بعد ان کے بارے میں اللہ کا فیصلہ سنادیاجائے گا) مسروق کا قول ہے کہ اللہ کا جو حق یعنی زکوۃ وہ ادا کرنے سے بازرہا ہوگا اسے ایک سانپ کی شکل دے دی جائے گی جو اس کی گردن سے آکرلپٹ جائے گا۔ وہ شخص کہے گا کہ تیرے ساتھ میرا کیا تعلق ہے۔ جواب میں سانپ کہے گا کہ میں تیرامال ہوں۔ حضرت عبداللہ کا قول ہے کہ اس کے گلے سے ایک اژدہالپٹ جائے گا جس کے دانت ہوں گے اور پھر وہ اس سے کہے گا کہ میں تیرامال ہوں جسے اللہ کی راہ میں خرچ میں توبخل کرتا تھا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٨٠) کفار ومنافقین کو اللہ تعالیٰ نے جو مال و دولت عطا فرمایا تھا اس میں وہ بخل کرتے تھے اللہ تعالیٰ اس کی مذمت فرماتے ہیں کہ یہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ عطا خداوندی پر یہ بخل ان کے لیے اچھا ہوگا ہرگز نہیں، بلکہ اللہ کی جانب سے ان کے اس بخل کے سبب یہ خالص سزا ہوگی کہ جہنم میں ان کی گردنوں میں قیامت کے دن ان کے سونے اور چاندی کے طوق ڈالے جائیں گے۔- آسمانوں اور زمینوں کے تمام خزانے اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں یا یہ کہ اس دن تمام آسمان و زمین والے فنا ہوجائیں گے اور صرف واحد قہار کی بادشاہت باقی رہ جائے گی وہ ان کے بخل اور سخاوت کو بخوبی جانتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٨٠ (وَلاَ یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰٹہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ہُوَ خَیْرًا لَّہُم ْ ط) ۔- ظاہر بات ہے کہ جب جنگ احد کے لیے تیاری ہو رہی ہوگی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو انفاق مال کی دعوت دی ہوگی تاکہ اسباب جنگ فراہم کیے جائیں۔ لیکن جن لوگوں نے دولت مند ہونے کے باوجود بخل کیا ان کی طرف اشارہ ہو رہا ہے کہ انہوں نے بخل کر کے جو اپنا مال بچالیا وہ یہ نہ سمجھیں کہ انہوں نے کوئی اچھا کام کیا ہے۔ یہ مال اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کیا تھا ‘ اس میں بخل سے کام لے کر انہوں نے اچھا نہیں کیا۔ - (بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَّہُمْ ط) (سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ط) (وَلِلّٰہِ مِیْرَاث السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط) - دنیا کا مال و اسباب آج تمہارے پاس ہے تو کل کسی اور کے پاس چلا جائے گا اور بالآخر سب کچھ اللہ کے لیے رہ جائے گا۔ آسمانوں اور زمین کی میراث کا حقیقی وارث اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ - (وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ )- یہاں وہ چھ رکوع مکمل ہوگئے ہیں جو غزوۂ احد کے حالات و واقعات اور ان پر تبصرے پر مشتمل تھے۔ اس سورة مبارکہ کے آخری دو رکوع کی نوعیت حاصل کلام کی ہے۔ یہ گویا رکوع ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :127 یعنی زمین و آسمان کی جو چیز بھی کوئی مخلوق استعمال کر رہی ہے وہ دراصل اللہ کی ملک ہے اور اس پر مخلوق کا قبضہ و تصرف عارضی ہے ۔ ہر ایک اپنے مقبوضات سے بہرحال بے دخل ہونا ہے اور آخر کار سب کچھ اللہ ہی کے پاس رہ جانے والا ہے ۔ لہٰذا عقل مند ہے وہ جو اس عارضی قبضہ کے دوران میں اللہ کے مال کو اللہ کی راہ میں دل کھول کر صرف کرتا ہے ۔ اور سخت بیوقوف ہے وہ جو اسے بچا بچا کر رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

61: وہ بخل جسے حرام قرار دیا گیا ہے یہ ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ خرچ کرنے کا حکم دیں، انسان وہاں خرچ نہ کرے، مثلاً زکوٰۃ نہ دے، ایسی صورت میں جو مال انسان بچا کر رکھے گا، قیامت کے دن وہ اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈالا جائے گا۔ حدیث میں اس کی تشریح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمائی ہے کہ ایسا مال ایک زہریلے سانپ کی شکل میں منتقل کر کے اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا جو اس کی باچھیں پکڑ کر کہے گا کہ : ’’ میں ہوں تیرا مال میں ہوں تیرا جمع کیا ہوا خزانہ ‘‘۔