Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مظاہر کائنات دلیل رب ذوالجلال دعوت غرو فکر طبرانی میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ قریش یہودیوں کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تمہارے پاس کیا کیا معجزات لے کر آئے تھے انہوں نے کہا اژدھا بن جانے والی لکڑی اور چمکیلا ہاتھ ، پھر نصرانیوں کے پاس گئے ان سے کہا تمہارے پاس حضرت عیسیٰ ( علیہ اسلام ) کیا نشانیاں لائے تھے جواب ملا کہ مادر زاد اندھوں کو بینا کر دینا اور کوڑھی کو اچھا کر دینا اور مردوں کو زندہ کر دینا ۔ اب یہ قریش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے کہا اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ ہمارے لئے صفا پہاڑ کو سونے کا بنا دے آپ نے دعا کی جس پر یہ آیت ( اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ ) 2 ۔ البقرۃ:164 ) اتری یعنی نشان قدرت دیکھنے والوں کیلئے اسی میں بڑی نشانیاں ہیں یہ اسی میں غورو فکر کریں گے تو ان قدرتوں والے اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک جائیں گے لیکن اس روایت میں ایک اشکال ہے وہ یہ کہ یہ سوال مکہ شریف میں ہوا تھا اور یہ آیت مدینہ شریف میں نازل ہوئی واللہ اعلم ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ آسمان جیسی بلندر اور وسعت مخلوق اور زمین جیسی پست اور سخت اور لمبی چوڑی مخلوق پھر آسمان میں بڑی بڑی نشانیاں مثلاً چلنے پھرنے والے اور ایک جاٹھہرنے والے ستارے اور زمین کی بڑی بڑی پیدوارا مثلاً پہاڑ ، جنگل ، درخت ، گھس ، کھیتیاں ، پھل اور مختلف قسم کے جاندار ، کانیں ، الگ الگ ذائقے والے اور طرح طرح کی خوشبوؤں والے اور مختلف خواص والے میوے وغیرہ کیا یہ سب آیات قدرت ایک سوچ سمجھ والے انسان کی رہبری اللہ عزوجل کی طرف نہیں کر سکتیں ؟ جو اور نشانیاں دیکھنے کی ضرورت باقی رہے پھر دن رات کا آنا جانا اور ان کا کم زیادہ ہونا پھر برابر ہو جانا یہ سب اس عزیز وحلیم اللہ عزوجل کی قدرت کاملہ کی پوری پوری نشانیاں ہیں جو پاک نفس والے ہر چیز کی حقیقت پر نظریں ڈالنے کے عادی ہیں اور بیوقوفوں کی طرح آنکھ اندھے اور کان کے بہرے نہیں جن کی حالت اور جگہ بیان ہوئی ہے کہ وہ آسمان اور زمین کی بہت سی نشانیاں پیروں تلے روندتے ہوئے گزر جاتے ہیں اور غورو فکر نہیں کرتے ، ان میں سے اکثر باوجود اللہ تعالیٰ کو ماننے کے پھر بھی شرک سے نہیں بچ سکے ۔ اب ان عقلمندوں کی صفتیں بیان ہو رہی ہیں کہ وہ اٹھتے بیٹتھے لیٹتے اللہ کا نام لیا کرتے ہیں ، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عمران بن حصین سے فرمایا کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرو اگر طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اور یہ بھی نہ ہو سکے تو لیٹے لیٹے ہی سہی ، یعنی کسی حالت میں اللہ عزوجل کے ذکر سے غافل مت رہو دل میں اور پوشیدہ اور زبان سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہا کرو ، یہ لوگ آسمان اور زمین کی پیدائش میں نظریں دوڑاتے ہیں اور ان کی حکمتوں پر غور کرتے ہیں جو اس خالق یکتا کی عظمت وقدرت علم و حکمت اختیار رحمت پر دلالت کرتی ہیں ، حضرت شیخ سلیمان درانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں گھر سے نکل کر جسچیز پر میری نظر پڑتی ہے میں دیکھتا ہوں کہ اس میں اللہ کی ایک ساعت غورو فکر کرنا رات بھر کے قیام کرنے سے افضل ہے ، حضرت فضیل رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن کا قول ہے کہ غورو فکر ایک نور ہے جو تیرے دل پر اپنا پر تو ڈالے گا اور بسا اوقات یہ بیت پڑھتے ۔ اذا المراء کانت لہ فکرۃ ففی کل شئی لہ عبرۃ یعنی جس انسان کو باریک بینی اور سوچ سمجھ کی عادث پڑ گئی اسے ہر چیز میں ایک عبرت اور آیت نظر آتی ہے حضرت عیسیٰ فرماتے ہیں خوش نصیب ہے وہ شخص جس کا بولنا ذکر اللہ اور نصیحت ہو اور اس کا جب رہنا غور و فکر ہو اور اس کا دیکھنا عبرت اور تنبیہہ ہو ، لقمان حکیم کا نصیحت آموز مقولہ بھی یاد رہے کہ تنہائی کی گوشہ نشینی جس قدر زیادہ ہو اور اسی قدر غورو فکر اور دور اندیشی کی عادت زیادہ ہوتی ہے اور جس قدر یہ بڑھ جائے اسی قدر راستے انسان پر وہ کھل جاتے ہیں جو اسے جنت میں پہنچا دیں گے ، حضرت وہب بن منبہ فرماتے ہیں جس قدر مراقبہ زیادہ ہوگا اسی قدر سمجھ بوجھ تیز ہو گی اور جتنی سمجھ زیادہ ہو گی اتناعلم نصیب ہو گا اور جس قدر علم زیادہ ہو گا نیک اعمال بھی بڑھیں گے ، حضرت عمر بن عبدالعزیز کا ارشاد ہے کہ اللہ عزوجل کے ذکر میں زبان کا چلانا بہت اچھا ہے اور اللہ کی نعمتوں میں غور و فکر افضل عبادت ہے ، حضرت مغیث اسود مجلس میں بیٹھے ہوئے فرماتے کہ لوگو قبرستان ہر روز جایا کرو تا کہ تمہیں انجام کا خیال پیدا ہو پھر اپنے دل میں اس منظر کو حاضر کرو کہ تم اللہ کے سامنے کھڑے ہو پھر ایک جماعت کو جہنم میں لے جانے کا حکم ہوتا ہے اور ایک جماعت جنت میں جاتی ہے اپنے دلوں کو اس حال میں جذب کر دو اور اپنے بدن کو بھی وہیں حاضر جان لو جہنم کو اپنے سامنے دیکھو اس کے ہتھوڑوں کو اسکی آگ کے قید خانوں کو اپنے سامنے لاؤ اتنا فرماتے ہی دھاڑیں مارمار کر رونے لگتے ہیں یہاں تک کہ بیہوش ہو جاتے ہیں حضرت عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں ایک شخص نے ایک راہب سے ایک قبرستان اور کوڑا کرکٹ پاخانہ پیشاب ڈالنے کی جگہ پر ملاقات کی اور اس سے کہا اے بندہ حق اس وقت تیرے پاس دو خزانے ہیں ایک خزانہ لوگوں کا یعنی قبرستان اور دوسرا خزانہ مال کا یعنی کوڑا کرکٹ ۔ پیشاب پاخانہ ڈالنے کی جگہ ۔ حضرت عبداللہ بن عمر کھنڈرات پر جاتے اور کسی ٹوٹے پھوٹے دروازے پر کھڑے رہ کر نہایت حسرت و افسوس کے ساتھ بھرائی ہوئی آواز میں فرماتے اے اجڑے ہوئے گھرو تمہارے رہنے والے کہاں گئے؟ پھر خود فرماتے سب زیر زمین چلے گئے سب فنا کا جام پی چکے صرف اللہ تعالیٰ کی جات ہی ہمیشہ کی مالک بقاء ہے ، حضرت عبداللہ بن عباس کا ارشاد ہے دو رکعتیں جو دل بستگی کے ساتھ ادا کی جائیں اس تمام نماز سے افضل ہیں جس میں ساری رات گزار دی لیکن دلچسپی نہ تھی ، حسن بصری فرماتے ہیں ابن آدم اپنے پیٹ کے تیسرے حصے میں کھا تیسرے حصے میں پانی پی اور تیسرا حصہ ان سانسوں کیلئے چھوڑ جس میں تو آخرت کی باتوں پر اپنے انجام پر اور اپنے اعمال پر خور و فکر کر سکے ، بعض حکیموں کا قول ہے جو شخص دنیا کی چیزوں پر عبرت حاصل کئے بغیر نظر ڈالتا ہے اس غفلت کیوجہ سے اس کی دلی آنکھیں کمزور پڑ جاتی ہیں ، حضرت عامر بن قیس فرماتے ہیں کہ میں نے بہت سے صحابہ سے سنا ہے کہ ایمان کی روشنی اور تو غور فکر اور مراقبہ میں ہے ، مسیح ابن مریم سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا فرمان ہے کہ ابن آدم اے ضعیف انسان جہاں کہیں تو ہو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہ ، دنیا میں عاجزی اور مسکینی کے ساتھ رہ ، اپنا گھر مسجدوں کو بنا لے ، اپنی آنکھوں کو رونا سکھا ، اپنے جسم کو صبر کی عادت سکھا ، اپنے دل کو غور و فکر کرنے والا بنا ، کل کی روزی کی فکر آج نہ کر ، امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیز ایک مرتبہ مجلس میں بیٹھے ہوئے رو دیئے لوگوں نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا میں نے دنیا میں اور اس کی لذتوں میں اور اس کی خواہشوں میں غور فکر کیا اور عبرت حاصل کی جب نتیجہ پر پہنچا تو میری امنگیں ختم ہو گئیں حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص کیلئے اس میں عبرت و نصیحت ہے اور وعظ و پند ہے ، حسین بن عبدالرحمن نے بھی اپنے اشعار میں اس مضمون کو خوب نبھایا ہے ، پس اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں کی مدح و ثنا بیان کی جو مخلوقات اور کائنات سے عبرت حاصل کریں اور نصیحت لیں اور ان لوگوں کی مذمت بیان کی جو قدرت کی نشانیوں پر غور نہ کریں ۔ مومنوں کی مدح میں بیان ہو رہا ہے کہ یہ لوگ اٹھتے بیٹھتے لیٹتے اللہ سبحانہ کا ذکر کرتے ہیں زمین و آسمان کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے اللہ تو نے اپنی مخلوق کو عبث اور بیکار نہیں بنایا بلکہ حق کے ساتھ پیدا کیا ہے تاکہ بروں کو برائی کا بدلہ اور نیکوں کو نیکیوں کا بدلہ عطا فرمائے ، پھر اللہ کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں تو اس سے منزہ ہے کہ کسی چیز کو بیکار بنائے اے خالق کائنات اے عدل و انصاف سے کائنات کو سجانے والے اے نقصان اور عیبوں سے پاک ذات ہمیں اپنی قوت و طاقت سے ان اعمال کی توفیق اور ہمارا رفیق فرما جن سے ہم تیرے عذابوں سے نجات پالیں اور تیری نعمتوں سے مالا مال ہو کر جنت میں داخل ہو جائیں ، یہ یوں بھی کہتے ہیں کہ اے اللہ جسے تو جہنم میں لے گیا اسے تو نے برباد اور ذلیل و خوار کر دیا مجمع حشر کے سامنے اسے رسوا کیا ، ظالموں کا کوئی مددگار نہیں انہیں نہ کوئی چھڑا سکے نہ بچا سکے نہ تیرے ارادے کے درمیان آسکے ، اے رب ہم نے پکارنے والے کی پکار سن لی جو ایمان اور اسلام کی طرف بلاتا ہے ، مراد اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو فرماتے ہیں کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ ہم ایمان لاچکے اور تابعداری بجا لائے پس ہمارے ایمان اور فرماں برداری کی وجہ سے ہمارے گناہوں کو معاف فرما ان کی پردہ پوشی کر اور ہماری برائیوں کو ہم سے دور کر دے اور ہمیں صالح اور نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے تو نے ہم سے جو وعدے اپنے نبیوں کی زبانی کئے ہیں انہیں پورے کر اور یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ جو وعدہ تو نے ہم سے اپنے رسولوں پر ایمان لانے کا لیا تھا لیکن پہلا معنی واضح ہے ، مسند احمد کی حدیث میں ہے عسقلان دو عروس میں سے ایک ہے یہیں سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ستر ہزار شہیداء ٹھائیں گے جو وفد بن کر اللہ کے پاس جائیں گے یہیں شہیدوں کی صفیں ہوں گی جن کے ہاتھوں میں ان کے کٹے ہوئے سر ہوں گے ان کی گردن کی رگوں سے خون جاری ہوگا یہ کہتے ہوں گے اے اللہ ہم سے جو وعدے اپنے رسولوں کی معرفت تو نے کئے ہیں انہیں پورے کر ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کر تو وعدہ خلافی سے پاک ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے یہ بندے سچے ہیں اور انہیں نہر بیضہ میں غسل کروائیں گے جس غسل کے بعد پاک صاف گورے چٹے رنگ کے ہو کر نکلیں گے اور ساری جنت ان کے لئے مباح ہو گی جہاں چاہیں جائیں آئیں جو چاہیں کھائیں پئیں ۔ یہ حدیث غریب ہے اور بعض تو کہتے ہیں موضوع ہے واللہ اعلم ۔ ہمیں قیامت کے دن تمام لوگوں کے مجمع میں رسوا نہ کر تیرے وعدے سچے ہیں تو نے جو کچھ خبریں اپنے رسولوں کی زبانی پہنچائی ہیں سب اٹل ہیں قیامت کا روز ضرور آنا ہے پس تو ہمیں اس دن کی رسوائی سے نجات دے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بندے پر رسوائی ڈانٹ ڈپٹ مار اور شرمندگی اس قدر ڈالی جائے گی اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا کر کے اسے قائل معقول کیا جائے گا کہ وہ چاہے گا کہ کاش مجھے جہنم میں ہی ڈال دیا جاتا ( ابو یعلیٰ ) اس حدیث کی سند بھی غریب ہے ، احادیت سے یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تہجد کیلئے جب اٹھتے تب سورہ آل عمران کی ان دس آخری آیتوں کی تلاوت فرماتے چنانچہ بخاری شریف میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں میں نے اپنی خالہ حضرت میمونہ کے گھر رات گزاری یہ ام المومنین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی صاحبہ تھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب آئے تو تھوڑی دیر تک آپ حضرت میمونہ سے باتیں کرتے رہے پھر سو گئے جب آخری تہائی رات باقی رہ گئی تو آپ اٹھ بیٹھے اور آسمان کی طرف نگاہ کر کے آیت ( ان فی خلق السموات ) سے آخر سورت تک کی آیتیں تلاوت فرمائیں پھر کھڑے ہوئے مسواک کی وضو کیا اور گیارہ رکعت نماز ادا کی حضرت بلال کی صبح کی اذان سن کر پھر دو رکعتیں صبح کی سنتیں پڑھیں پھر مسجد میں تشریف لا کر لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی ۔ صحیح بخاری میں یہ روایت دوسری جگہ بھی ہے کہ بسترے کے عرض میں تو میں سویا اور لمبائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المومنین حضرت میمونہ لیٹیں آدھی رات کے قریب کچھ پہلے یا کچھ بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم جاگے اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھیں ملتے ہوئے ان دس آیتوں کی تلاوت کی پھر ایک لٹکی ہوئی مشک میں سے پانی لے کر بہت اچھی طرح کامل وضو کیا میں بھی آپ کی بائیں جانب آپ کی اقتدار میں نماز کیلئے کھڑا ہو گیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھ کر میرے کان کو پکڑ کر مجھے گھما کر اپنی دائیں جانب کر لیا اور دو دو رکعت کر کے چھ مرتبہ یعنی بارہ رکعت پڑھیں پھر وتر پڑھا اور لیٹ گئے یہاں تک کہ مؤذن نے آکر نماز کی اطلاع کی آپ نے کھڑے ہو کر دو ہلکی رکعتیں ادا کیں اور باہر آکر صبح کی نماز پڑھائی ، ابن مردویہ کی اس حدیث میں ہے حضرت عبداللہ فرماتے ہیں مجھے میرے والد حضرت عباس نے فرمایا کہ تم آج کی رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آل میں گزارو اور آپ کی رات کی نماز کی کیفیت دیکھو رات کو جب سب لوگ عشاء کی نماز پڑھ کر چلے گئے میں بیٹھا رہا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم جانے لگے تو مجھے دیکھ کر فرمایا کون عبداللہ؟ میں نے کہا جی ہاں فرمایا کیوں رکے ہوئے ہو میں نے کہا والد صاحب کا حکم ہے کہ رات آپ کے گھر گزاروں تو فرمایا بہت اچھا آؤ گھر جا کر فرمایا بستر بچھاؤ ٹاٹ کا تکیہ آیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سر رکھ کر سو گئے یہاں تک کہ مجھے آپ کے خراٹوں کی آواز آنے لگی پھر آپ جاگے اور سیدھی طرح بیٹھ کر آسمان کی طرف دیکھ کر تین مرتبہ دعا ( سبحان الملک القدوس ) پڑھا پھر سورہ آل عمران کے خاتمہ کی یہ آیتیں پڑھیں اور روایت میں ہے کہ آیتوں کی تلاوت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی ( اللھم اجعل فی قلبی نورا وفی سمعی نورا وفی بصری نورا وعن یمینی نورا وعن شمالی نورا ومن بین یدی نورا ومن خلفی نورا ومن فوقی نورا ومن تحتی نورا واعظم لی نورا یوم القیامتہ ) ( ابن مردویہ ) یہ دعا بعض صحیح طریق سے بھی مروی ہے اس آیت کی تفسیر کے شروع میں طبرانی کے حوالے سے جو حدیث گزری ہے اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مکی ہے لیکن مشہور اس کے خلاف ہے یعنی یہ کہ یہ آیت مدنی ہے اور اس کی دلیل میں یہ حدیث پیش ہو سکتی ہے جو ابن مردویہ میں ہے کہ حضرت عطاء ۔ حضرت ابن عمر حضرت عبید بن عمیر ۔ حضرت عائشہ صدیقہ کے پاس آئے آپ کے اور ان کے درمیان پردہ تھا حضرت صدیقہ نے پوچھا عبید تم کیوں نہیں آیا کرتے؟ حضرت عبید نے جواب دیا اماں جان صرف اس لئے کہ کسی شاعر کا قول ہے زرغباتزد دحبا یعنی کم کم آؤ تا کہ محبت بڑھے ، حضرت ابن عمر نے کہا اب ان باتوں کو چھوڑو ام المومنین ہم یہ پوچھنے کیلئے حاضر ہوئے ہیں کہ سب سے زیادہ عجیب بات جو آپ نے آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دیکھی ہو وہ ہمیں بتائیں ۔ حضرت عائشہ رو دیں اور فرمانے لگیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کام عجیب تر تھے ، اچھا ایک واقعہ سنو ایک رات میری باری میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور میرے ساتھ سوئے پھر مجھ سے فرمانے لگے عائشہ میں اپنے رب کی کچھ عبادت کرنا چاہتا ہوں مجھے جانے دے میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم میں آپ کا قرب چاہتی ہوں اور یہ بھی میری چاہت ہے کہ آپ اللہ عزوجل کی عبادت بھی کریں ، اب آپ کھڑے ہوئے اور ایک مشک میں سے پانی لے کر آپ نے ہلکا سا وضو کیا اور نماز کے لئے کھڑے ہو گئے پھر جو رونا شروع کیا تو اتنا روئے کہ داڑھی مبارک تر ہو گئی پھر سجدے میں گئے اور اس قدر روئے کہ زمین تر ہو گئی پھر کروٹ کے بل لیٹ گئے اور روتے ہی رہے یہاں تک کہ حضرت بلال نے آ کر نماز کیلئے بلایا اور آپ کے آنسو رواں دیکھ کر دریافت کیا کہ اے اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کیوں رو رہے ہیں اللہ تعالیٰ نے تو آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیئے ہیں ، آپ نے فرمایا بلال میں کیوں نہ روؤں؟ مجھ پر آج کی رات یہ آیت اتری ہے آیت ( اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ ) 2 ۔ البقرۃ:164 ) افسوس ہے اس شخص کیلئے جو اسے پڑھے اور پھر اس میں غورو تدبر نہ کرے ۔ عبد بن حمید کی تفسیر میں بھی یہ حدیث ہے اس میں یہ بھی ہے کہ جب ہم حضرت عائشہ کے پاس گئے ہم نے سلام کیا تو آپ نے پوچھا تم کون لوگ ہو؟ ہم نے اپنے نام بتائے اور آخر میں یہ بھی ہے کہ نماز کے بعد آپ اپنی داہنی کروٹ پر لیٹے رخسار تلے ہاتھ رکھا اور روتے رہے یہاں تک کہ آنسوؤں سے زمین تر ہو گئی اور حضرت بلال کے جواب میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ اور آیتوں کے نازل ہونے کے بارے میں عذاب النار تک آپ نے تلاوت کی ، ابن مردویہ کی ایک ضعیف سند والی حدیث میں حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ آل عمران کے آخر کی دس آیتیں ہر رات کو پڑھتے اس روایت میں مظاہر بن اسلم ضعیف ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

190۔ 1 یعنی جو لوگ زمین و آسمان کی تخلیق اور کائنات کے دیگر اسرار و رموز پر غور کرتے ہیں، انہیں کائنات کے خالق اور اس کے اصل فرمانروا کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اتنی طویل و عریض کائنات کا یہ لگا بندھا نظام، جس میں ذرہ برابر خلل واقع نہیں ہوتا، یقینا اس کے پیچھے ایک ذات ہے جو اسے چلا رہی ہے اور اس کی تدبیر کر رہی ہے اور وہ ہے اللہ کی ذات۔ آگے انہی اہل دانش کی صفات کا تذکرہ ہے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے اور کروٹوں پر لیٹے ہوئے اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ اِنَّ فِیْ خَلَقِ السَّماوَاتِ سے لے کر آخر سورت تک آیات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو جب تہجد کے لئے اٹھتے تو پڑھتے اور اس کے بعد وضو کرتے (صحیح بخاری، کتاب التفسیر۔ صحیح مسلم۔ کتاب صلوٰۃ المسا فرین) ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٨٩] یعنی عقلمند انسان جب زمین و آسمان کی پیدائش، سورج اور چاند کی گردش اور سیاروں کے احوال، دن رات کی آمدورفت کے مضبوط اور مربوط نظام میں غور کرتا ہے کہ کس طرح سب سیارے ایک معین رفتار اور معین قانون کے تحت فضاؤں میں گردش کر رہے ہیں اور ان کے اس انضباط میں کبھی لمحہ بھر کا بھی فرق نہیں پڑتا تو اسے یہ یقین کرنا پڑتا ہے کہ یہ تمام تر کارخانہ کائنات ایک ہی قادر مطلق اور مختار کل فرمانروا کے ہاتھ میں ہوسکتا ہے۔ جس نے اپنی عظیم قدرت و اختیار سے کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز کو اپنی اپنی حدود میں جکڑ رکھا ہے۔ کسی کی مجال نہیں کہ وہ حدود سے تجاوز کرسکے۔ اگر اس عظیم الشان کارگاہ کا ایک پرزہ یا کوئی کارندہ اس مالک الملک کی قدرت و تصرف سے باہر ہوتا تو کارخانہ عالم کا یہ مربوط اور مستحکم نظام ہرگز قائم نہ رہ سکتا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ) اس آیت سے آخر سورت تک آیات کی بڑی فضیلت ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو تہجد کے لیے اٹھتے تو ان آیات کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ [ بخاری، التفسیر، باب : ( ربنا إنک من تدخل النار ) : ٤٥٧٠، ٤٥٧١، عن ابن عباس (رض) ] - 2 لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ : ” الْاَلْبَابِ “ یہ ” لُبٌّ“ کی جمع ہے، جس کا معنی خالص عقل ہے، اس لیے ترجمہ ” عقلوں والوں “ کیا ہے۔ یعنی جو لوگ زمین و آسمان کی تخلیق اور کائنات کے دیگر اسرار و رموز پر غور کرتے ہیں، انھیں کائنات کے خالق اور اس کے اصل فرماں روا کی پہچان ہوجاتی ہے اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اتنی طویل و عریض کائنات کا یہ لگا بندھا نظام، جس میں ذرا خلل واقع نہیں ہوتا، یقیناً اس کے پیچھے ایک ذات ہے جو اسے چلا رہی ہے اور وہ ہے اللہ کی ذات۔ اس میں عقلوں والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اکیلے مالک ہونے کی، اللہ تعالیٰ کی حکمت اور کاریگری کی اور اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حاکمیت کی بہت سی نشانیاں ہیں۔ - نظام فلکی اور اس کی تفصیلات، چاند سورج، ستاروں کی تعداد، ان کے درمیانی فاصلے، ان کے باہمی تعلقات و تاثرات، ان کی گردشوں کی پیمائش، گرہن کے اسباب و اوقات، ان کے طلوع و غروب اور نور و حرارت وغیرہ کے قاعدے و ضابطے، غرض اس قسم کی تفصیلات سے علم ہیئت کی کتابوں کے دفتر کے دفتر بھرے پڑے ہیں۔ رہی زمین تو اس کی شکل و صورت، اس کی پیمائش، اس کے پہاڑ اور سمندر، اس کی معدنیات، اس کی کشش، اس کی ہواؤں اور موسموں کے تغیرات وغیرہ کے لیے تو کوئی ایک فن بھی پوری طرح کافی نہ ہوا، بلکہ جغرافیہ، جغرافیہ طبعی، جیالوجی، فنریالوجی، میٹرالوجی اور آرکیالوجی، اللہ جانے کتنے فنون پر فنون نکلتے چلے آ رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی کاریگری کے اندازے اور تخمینے ختم ہونے میں نہیں آ رہے۔ اب ” لِّاُولِي الْاَلْبَابِ “ کے بجائے غیر مسلم قومیں ان چیزوں پر غور میں مصروف ہیں اور چونکہ ان کا ہدف ہی دنیا ہے، اس لیے دنیا کے بیشمار فائدے حاصل کر رہے ہیں، بلکہ انہی فنون کے ذریعے سے انھوں نے مسلمانوں کو مغلوب کر رکھا ہے، ہدف کی غلطی کی وجہ سے انھیں ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کو سمجھنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ کاش مسلمان ان فنون میں پوری طرح حصہ لیتے تو یہ سارے علوم دین کی سربلندی اور توحید کی دعوت کا زبردست ذریعہ بنتے اور دنیا پر غلبے کے کام آتے، کیونکہ مسلمان تو ( رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِي الْاٰخِرَةِ حَسَـنَةً وَّقِنَا عَذَاب النَّارِ ) کا ہدف سامنے رکھتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات :- چونکہ اوپر اختصاص سے توحید مفہوم ہوئی، اگلی آیت میں توحید پر دلیل لاتے ہیں اور اس کے ساتھ توحید کے کامل اقتضاء پر عمل کرنے والوں کی فضیلت بیان فرماتے ہیں، جس میں اشارة دوسروں کو بھی ترغیب ہے اس اقتضاء پر عمل کرنے کی، اوپر جو کفار سے ایذائیں پہنچنے کا مضمون تھا، آیت آئندہ کو اس سے بھی مناسبت ہے، اس طرح کہ مشرکین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عناداً یہ درخواست کی کہ صفاء پہاڑ کو سونے کا بنادیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ حق کے دلائل تو بہت ہیں، ان میں کیوں نہیں فکر کرتے۔ - اور ان لوگوں کی یہ درخواست حقیقتا حق کے لئے نہ تھی، بلکہ عنادًا تھی جس سے درخواست پورا ہونے پر بھی ایمان نہ لاتے۔- خلاصہ تفسیر - بلاشبہ آسمانوں اور زمین کے بنانے میں اور یکے بعد دیگرے رات اور دن کے آنے جانے میں دلائل (توحید کے موجود) ہیں اہل عقل (سلیم کے) کے (استدلال کے) لئے جانے کی حالت یہ ہے (جو آگے آتی ہے اور یہی حالت ان کے عاقل ہونے کی علامت بھی ہے کیونکہ عقل کا اقتضاء دفع مضرت و تحصیل منفعت ہے اور اس پر اس حالت کا مجموعہ دال ہے۔ وہ حالت یہ ہے) کہ وہ لوگ (ہر حال میں دل سے بھی اور اس زبان سے بھی) للہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں، کھڑے بھی بیٹھے بھی لیٹے بھی اور آسمانوں اور زمین کے پیدا ہونے میں (اپنی قوت عقیلہ سے) غور کرتے ہیں (اور غور کا جو نتیجہ ہوتا ہے یعنی حدوث ایمان یا تجدید وتقویت ایمان اس کو اس طرح ظاہر کرتے ہیں کہ اسے ہمارے پروردگار آپ نے اس مخلوق کو لایعنی پیدا نہیں کیا (بلکہ اس میں حکمتیں رکھی ہیں جن میں ایک بڑی حکمت یہ ہے کہ اس مخلوق سے سمجھتے ہیں (اس لئے ہم نے استدلال کیا اور توحید کے قائل ہوئے) سو ہم کو (موحد و مومن ہونے کی وجہ سے) عذاب دوزخ سے بچا لیجئے (جیسا کہ شرعاً اس کا یہ مقتضی ہے گو کسی عارض سے یہ اقتضاء ضعیف ہوجاوے اور چندے عذاب ہونے لگے، ایک عرض تو ان لوگوں کی یہ تھی اور وہ اسی مضمون ایمان کے مناسب اور معروضات بھی کرتے ہیں جو آگے آتے ہیں) اے ہمارے پروردگار (ہم اس لئے عذاب دوزخ سے پناہ مانگتے ہیں کہ) بیشک آپ جس کو (بطور اصل جزاء کے) دوزخ میں داخل کریں اس کو واقعی رسوا ہی کردیا، (مراد اس سے کافر ہے) اور ایسے بےانصافوں ا (جن کی اصلی جزاء دوزخ تجویز کی جاوے) کوئی بھی ساتھ دینے والا نہیں اور آپ کا وعدہ ہے اہل ایمان کے لئے رسوا نہ کرنے کا بھی اور نصرت کرنے کا بھی، بس ایمان لا کر ہماری درخواست ہے کہ کفر کی اصلی جزاء سے بچایئے، ایمان کا اصل مقتضاء یعنی دوزخ سے نجات مرتب فرمایئے۔ )- اے ہمارے پروردگار ہم نے (جیسے مصنوعات کی دلالت سے عقلی استدلال کیا اسطرح ہم نے) ایک (حق کی طرف) پکارنے والے کو (مراد اس سے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں بواسطہ یا بلاواسطہ) سنا کر وہ ایمان لانے کے لئے اعلان کر رہے ہیں کہ (اے لوگو) تم اپنے پروردگار (کی ذات وصفات) پر ایمان لاؤ سو ہم ( اس دلیل نقلی سے استدلال کر کے بھی) ایمان لے آئے ( اس درخواست میں ایمان باللہ کے ساتھ ایمان بالرسول بھی ضمناً آ گیا، پس ایمان کے دونوں جزو یعنی اعتضاد توحید و اعتقاد رسالت کامل ہوگئے۔- اے ہمارے پروردگار پھر (اس کے بعد ہماری یہ درخواست ہے کہ) ہمارے (بڑے) گناہوں کو بھی معاف فرما دیجئے اور ہماری (چھوٹی) بدیوں کو ہم سے (معاف کر کے) زائل کر دیجئے اور (ہمارا انجام بھی جس پر مداوا ہے درست کیجئے اس طرح کہ) ہم کو نیک لوگوں کے ساتھ شامل رکھ کر) موت دیجئے (یعنی نیکی پر خاتمہ ہو) ۔- اے پروردگار اور (جس طرح ہم نے اپنی مضرتوں سے محفوظ رہنے کے لئے درخواست کی ہے جیسے دوزخ و رسوائی اور ذنوب وسیات، اسی طرح ہم اپنے منافع کی دعا کرتے ہیں کہ) ہم کو وہ چیز (یعنی ثواب و جنت) بھی دیجئے، جس کا ہم سے اپنے پیغمبروں کی معرفت آپ نے وعدہ فرمایا ہے (کہ مومنین و ابرار کو اجر عظیم ملے گا) اور (یہ ثواب و جنت ہم کو اس طرح دیجئے کہ ثواب ملنے سے پہلے بھی) ہم کو قیامت کے روز رسوا نہ کیجئے جیسا کہ بعض کو اول سزا ہوگی پھر جنت میں جاویں گے، مطلب یہ کہ اول ہی سے جنت میں داخل کر دیجئے اور) یقیناً آپ (تو) وعدہ خلافی نہیں کرتے (لیکن ہم کو یہ خوف ہے کہ جن کے لئے وعدہ ہے یعنی مؤمنین و ابرار کہیں ایسا نہ ہو کہ خدانخواستہ ہم ان صفات سے موصوف نہ رہیں جن پر وعدہ ہے، اس لئے ہم آپ سے یہ التجائیں کرتے ہیں کہ ہم کو اپنے وعدہ کی چیزیں دیجئے، یعنی ہم کو ایسا کر دیجئے اور ایسا ہی رکھئے جس سے ہم وعدہ کے مخاطب و محل ہوجاویں۔ )- معارف و مسائل - اس آیت کے شان نزول سے متعلق ابن حبان نے اپنی صحیح میں اور محدیث ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے کہ عطاء بن ابی رباح حضرت عائشہ کے پاس تشریف لے گئے اور کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات میں جو سب سے زیادہ عجیب چیز آپ نے دیکھی ہو وہ مجھے بتلایئے، اس پر حضرت عائشہ نے فرمایا : آپ کس کی شان پوچھتے ہو ؟ ان کی تو ہر شان عجیب ہی تھی، ہاں ایک واقعہ عجیب سناتی ہوں، وہ یہ ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رات میرے پاس تشریف لائے اور لحاف میں میرے ساتھ داخل ہوگئے پھر فرمایا کہ اجازت دو کہ میں اپنے پروردگار کی عبادت کروں، بستر سے اٹھے، وضو فرمایا، پھر نماز کے لئے کھڑے ہوگئے اور قیام میں اس قدر روئے کہ آپ کے آنسو سینہ مبارک پر بہہ گئے، پھر رکوع فرمایا اور اس میں بھی روئے پھر سجدہ کیا اور سجدہ میں بھی اسی قدر روئے پھر سر اٹھایا اور مسلسل روتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی، حضرت بلال آئے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز کی اطلاع دی، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ حضور اس قدر کیوں گریہ فرماتے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیئے ہیں، آپ نے فرمایا تو کیا میں شکر گذار بندہ نہ بنوں ؟ اور شکریہ میں گریہ وزاری کیوں نہ کروں جب کہ اللہ تعالیٰ نے آج کی شب مجھ پر یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی ہے : ان فی خلق السموات والارض الآیتہ اس کے بعد آپ نے فرمایا بڑی تباہی ہے اس شخص کے لئے جس نے ان آیتوں کو پڑھا اور ان میں غور نہیں کیا۔ لہٰذا آیت پر غور و فکر کے سلسلے میں مندرجہ ذیل مسائل پر غور کرنا ہے۔- خلق السموات والارض سے کیا مراد ہے :۔ - پہلا یہ کہ خلق السموت والارض سے کیا مراد ہے ؟ خلق مصدر ہے، جس کے معنی ایجاد و اختراع کے ہیں، معنی یہ ہوئے کہ آسمان اور زمین کے پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ کی بڑی نشانیاں ہیں، اس لئے اس میں تمام وہ مخلوقات اور مصنوعات باری تعالیٰ بھی داخل ہوجاتی ہیں جو آسمان اور زمین کے اندر ہیں، پھر ان مخلوقات میں قسم قسم کی مخلوقات ہیں جن میں ہر ایک کے خواص و کیفیات علیحدہ علیحدہ ہیں اور ہر مخلوق اپنے خالق کی پوری طرح نشان دہی کر رہی ہے، پھر اگر زیادہ غور کیا جائے تو سمجھ میں آتا ہے کہ السموات میں تمام رفعتیں داخل ہیں اور الارض میں تمام پستیاں داخل ہیں، سو جس طرح اللہ تعالیٰ رفعتوں کا خالق ہے اسی طرح پستیوں کا بھی خالق ہے۔- اختلاف لیل و نہار کی مختلف صورتیں :۔ - دوسرا یہ کہ اختلاف لیل و نہار سے کیا مراد ہے ؟ لفظ اختلاف اس جگہ عربی کے اس محاورہ سے ماخوذ ہے کہ اختلف فلان فلانا، یعنی وہ شخص فلاں شخص کے بعد آیا، پس اختلاف اللیل و النہار کے معنی یہ ہوئے کہ رات جاتی ہے اور دن آتا ہے اور دن جاتا ہے تو رات آتی ہے۔- اختلاف کے دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ اختلاف سے زیادتی و کمی مراد لی جائے سردیوں میں رات طویل ہوتی ہے اور دن چھوٹا ہوتا ہے اور گرمیوں میں اس کے برعکس ہوتا ہے، اسی طرح رات دن میں تفاوت ملکوں کے تفاوت سے بھی ہوتا ہے، مثلاً جو ممالک قطب شمالی سے قریب ہیں ان میں دن زیادہ طویل ہوتا ہے بہ نسبت ان شہروں کے جو قطب شمالی سے دور ہیں اور ان امور میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مسئلہ پر روشن دلیل ہے۔- لفظ آیات کی تحقیق :۔ - تیسرا امر یہ ہے کہ لفظ ” آیات “ کے کیا معنی ہیں ؟ آیات، آیتہ کی جمع ہے اور یہ لفظ چند معانی کے لئے بولا جاتا ہے، آیات، معجزات کو بھی کہا جاتا ہے اور قرآن مجید کی آیات پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے، اس کے تیسرے معنی دلیل اور نشانی کے بھی ہیں، یہاں پر یہی تیسرے معنی مراد ہیں، یعنی ان امور میں اللہ کی بڑی نشانیاں اور قدرت کے دلائل ہیں۔ - چوتھا امر اولوالالباب کے معنی سے متعلق ہے، الباب، لب کی جمع ہے، جس کے معنی مغز کے ہیں اور ہر چیز کا مغز اس کا خلاص ہی ہوتا ہے، اور اسی سے اس کی خاصیت و فوائد معلوم ہوتے ہیں، اسی لئے انسانی عقل کو لب کہا گیا ہے، کیونکہ عقل ہی انسان کا اصلی جوہر ہے، اولوالالباب کے معنی ہیں عقل والے۔- عقل والے صرف وہی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے اور ہر حال میں اس کا ذکر کرتے ہیں :۔ اب یہاں یہ مسئلہ غور طلب تھا کہ عقل والوں سے کون مراد ہیں، کیونک ساری دنیا عقلمند ہونے کی مدعی ہے، کوئی بیوقوف بھی اپنے آپ کو بےعقل تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں، اس لئے قرآن کریم نے عقل والوں کی چند ایسی علامات بتلائی ہیں جو درحقیت عقل کا صحیح معیار ہیں، پہلی علامت اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے، غور کیجئے تو محسوسات کا علم کان، آنکھ، ناک، زبان، وغیرہ سے حاصل ہوتا ہے ج بےعقل جانوروں میں بھی پایا جاتا ہے اور عقل کا کام یہ ہے کہ علامات و قرائن اور دلائل کے ذریعہ کسی ایسے نتیجہ تک پہنچ جائے جو محسوس نہیں ہے، اور جس کے ذریعہ سلسلہ اسباب کی آخری کڑی کو پایا جاسکے۔- اس اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے کائنات عالم پر غور کیجئے آسمان اور زمین اور ان میں سمائی ہوئی تمام مخلوقات اور ان کی چھوٹی بڑی چیزوں کا مستحکم اور حیرت انگیز نظام عقل کو کسی ایسی ہستی کا پتہ دیتا ہے، جو علم و حکمت اور قوت وقدرت کے اعتبار سے سب سے زیادہ بالاتر ہو اور جس نے ان تمام چیزوں کو خاص حکمت سے بنایا ہو اور جس کے ارادہ اور مشیت سے یہ سارا نظام چل رہا ہو اور وہ ہستی ظاہر ہے کہ اللہ جل شانہ، ہی کی ہو سکتی ہے، کسی عارف کا قول ہے۔- ہر گیا ہے کہ از زمین ردید - وحدہ، لاشریک لہ گوید - انسانی ارادوں اور تدبیروں کے فیل ہونے کا ہر جگہ اور ہر وقت مشاہدہ ہوتا رہتا ہے، اس کو اس نظام کا چلانے والا نہیں کہا جاسکتا، اس لئے آسمان اور زمین کی پیدائش اور ان میں پیدا ہونے والی مخلوقات کی پیدائش میں غور و فکر کرنے کا نتیجہ عقل کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی اطاعت و ذکر جو اس سے غافل ہے وہ عقلمند کہلانے کا مستحق نہیں، اس لئے قرآن کریم نے عقل والوں کی یہ علامت بتلائی :

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ۝ ١٩٠ ۚۙ- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - الاختلافُ والمخالفة- والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] - ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ - الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ - ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - نهار - والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62]- ( ن ھ ر ) النھر - النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔- لب - اللُّبُّ : العقل الخالص من الشّوائب، وسمّي بذلک لکونه خالص ما في الإنسان من معانيه، كَاللُّبَابِ واللُّبِّ من الشیء، وقیل : هو ما زكى من العقل، فكلّ لبّ عقل ولیس کلّ عقل لبّا .- ولهذا علّق اللہ تعالیٰ الأحكام التي لا يدركها إلّا العقول الزّكيّة بأولي الْأَلْبَابِ نحو قوله : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة 269]- ( ل ب ب ) اللب - کے معنی عقل خالص کے ہیں جو آمیزش ( یعنی ظن دوہم اور جذبات ) سے پاک ہو اور عقل کو لب اس لئے کہتے ہیں کہ وہ انسان کے معنوی قوی کا خلاصہ ہوتی ہے جیسا کہ کسی چیز کے خالص حصے کو اس کا لب اور لباب کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ لب کے معنی پاکیزہ اور ستھری عقل کے ہیں چناچہ ہر لب کو عقل کہہ سکتے ہیں لیکن ۔ ہر عقل لب ، ، نہیں ہوسکتی یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام احکام کو جن کا ادراک عقول زکیہ ہی کرسکتی ہیں اولو الباب کے ساتھ مختض کیا ہے جیسے فرمایا : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة 269] اور جس کو دانائی ملی بیشک اس کو بڑی نعمت ملی اور نصیحت تو وہی لو گ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت سی آیات ہیں ؛

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٩٠) کفار مکہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے تھے جس چیز کے تم دعویدار ہو اس کے ثبوت کے لیے کوئی واضح دلیل لے کر آؤ اللہ تعالیٰ ان کے جواب میں اپنے دلائل قدرت بیان فرماتے ہیں کہ جو کچھ آسمانوں میں فرشتے، چاند، سورج، ستارے اور بادل پیدا کیے گئے اور زمین کے پیدا کرنے اور اس میں جو کچھ پہاڑ، دریا، سمندر، درخت وجانور ہیں اور رات دن کے آنے میں عقل سلیم والوں کے لیے اس کی توحید کے بےپناہ دلائل موجود ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” ان فی خلق السموت والارض “۔ (الخ)- طبرانی (رح) اور ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ قریش یہود کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ موسیٰ (علیہ السلام) تمہارے پاس کیا معجزات لے کر آئے، انہوں نے کہا عصا اور یدبیضاء اور اس کے بعد نصاری کے پاس آئے، ان سے بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں سوال کیا، انہوں نے کہا کہ آپ مادر زاد اندھے کو اور برص کے بیمار کو اچھا کردیتے تھے اور مردوں کو زندہ کردیا کرتے تھے ،- پھر یہ لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اپنے پروردگار سے دعا کرو کہ وہ ہمارے لیے صفا پہاڑی کو سونے کا کردے، آپ نے دعا فرمائی، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

سورة آل عمران کا آخری رکوع قرآن مجید کے عظیم ترین مقامات میں سے ہے۔ اس کی پہلی چھ آیات کے بارے میں روایت آتی ہے کہ جس شب میں یہ نازل ہوئیں تو پوری رات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رقت طاری رہی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ‘ بیٹھے ‘ لیٹے ہوئے روتے رہے۔ نماز تہجد کے دوران بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رقت طاری رہی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت طویل سجدہ کیا ‘ اس میں بھی گریہ طاری رہا اور سجدہ گاہ آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ دیر لیٹے رہے لیکن وہ کیفیت برقرار رہی۔ یہاں تک کہ صبح صادق ہوگئی۔ حضرت بلال (رض) جب فجر کی نماز کی اطلاع دینے کے لیے حاضر ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کو اس کیفیت میں دیکھا تو وجہ دریافت کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے بلال ‘ میں کیوں نہ روؤں کہ آج کی شب میرے رب نے مجھ پر یہ آیات نازل فرمائی ہیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان آیات کی تلاوت فرمائی (اس روایت کو امام رازی نے تفسیر کبیر میں بیان کیا ہے) یعنی وہ گریہ اور رقت شکر کے جذبے کے تحت تھی۔- یہ بھی نوٹ کیجیے کہ یہ سورة آل عمران کا بیسواں رکوع شروع ہو رہا ہے اور سورة البقرۃ کے بیسویں رکوع کی پہلی آیت کے الفاظ یہ تھے : ( اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِیْہَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍص وَّتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ) اسی آیت الآیات کا خلاصہ یہاں آگیا ہے : آیت ١٩٠ (اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ ) (لَاٰیٰتٍ لّاُولِی الْاَلْبَابِ ) - سورۃ البقرۃ کی آیت ١٦٤ ان الفاظ پر ختم ہوئی تھی : ( لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ) ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ یہاں ان لوگوں کو اولوا الالبابکا نام دیا گیا۔ یہ ہدایت کا پہلا قدم ہے کہ کائنات کو دیکھو ‘ مظاہر فطرت کا مشاہدہ کرو ؂- کھول آنکھ ‘ زمین دیکھ ‘ فلک دیکھ ‘ فضا دیکھ - مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ - یہ سب آیات الٰہیہ ہیں ‘ ان کو دیکھو اور اللہ کو پہچانو۔ اگلا قدم یہ ہے کہ جب اللہ کو پہچان لیا تو اب اسے یاد رکھو۔ یعنی ؂ َ - فقر قرآں اختلاط ذکر و فکر - فکر را کامل نہ دیدم جز بہ ذکر

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :134 یہ خاتمہ کلام ہے ۔ اس کا ربط اوپر کی قریبی آیات میں نہیں بلکہ پوری سورة میں تلاش کرنا چاہیے ۔ اس کو سمجھنے کے لیے خصوصیت کے ساتھ سورة کی تمہید کو نظر میں رکھنا ضروری ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani