Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

191۔ 1 ان دس آیات میں سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت و طاقت کی چند نشانیاں بیان فرمائی ہیں اور فرمایا کہ یہ نشانیاں ضرور ہیں لیکن کن کے لئے ؟ اہل عقل و دانش کے لئے، اس کا مظلب یہ ہوا کہ ان عجائبات تخلیق اور قدرت الٰہی کو دیکھ کر بھی جس شخص کو باری تعالیٰ کا عرفان حاصل نہ ہو وہ اہل دانش ہی نہیں۔ لیکن یہ المیہ بھی بڑا عجیب ہے کہ عالم اسلام میں دانشور سمجھا ہی اس کو جاتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں شک کا شکار ہو، دوسری آیت میں اہل دانش کے ذوق ذکر الٰہی اور ان کا آسمان اور زمین کی تخلیق میں غورو فکر کرنے کا بیان ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کھڑے ہو کر نماز پڑھو۔ اگر کھڑے ہو کر نہیں پڑھ سکتے تو بیٹھ کر پڑھو، بیٹھ کر بھی نہیں پڑھ سکتے تو کروٹ کے بل لیٹے لیٹے ہی نماز پڑھ لو۔ (صحیح بخاری کتاب الصلٰوۃ) اس کے بعد والی تین آیات میں بھی مغفرت اور قیامت کے دن کی رسوائی سے بچنے کی دعائیں ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٩٠] اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عقلمند صرف وہ لوگ ہیں جو اس کارخانہ قدرت میں غور کرنے کے بعد اللہ کی بےپناہ قدرت و تصرف کی حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں۔ پھر اس اعتراف حقیقت کے نتیجہ میں ان کے بدن کارواں رواں محبت الٰہی میں سرشار ہو کر اس کی حمد وثناء کرنے لگتا ہے اور ہر حال میں اللہ کا ذکر کرتے اور اس کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں۔ لیکن جو لوگ اس کارخانہ قدرت میں غورو فکر کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچیں کہ یہ عالم مادہ سے بنا ہے۔ پھر اتفاق سے یوں ہوگیا، پھر اتفاق سے یوں ہوگیا اور اس مضبوط و مربوط نظام کائنات کو محض اتفاقات کا نتیجہ کا قرار دیتے ہیں، وہ ہرگز اہل عقل نہیں ہیں۔ کیونکہ اتفاق سے کبھی کبھار تو خیر پیدا ہوسکتی ہے لیکن مسلسل خیر کبھی پیدا نہیں ہوسکتی۔ جیسا کہ اس کائنات کی ہر ایک چیز نہایت خوبی کے ساتھ اپنے اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے۔ گویا اس آیت اور اس جیسی دوسری آیات میں دہریت اور نیچریت کا رد موجود ہے۔- [١٩١] اس کائنات کے نظام میں غور و فکر کرنے سے اہل عقل پر یہ حقیقت بھی منکشف ہوجاتی ہے کہ اس کائنات میں ایک انسان ہی ایسی مخلوق ہے جسے عقل اور تمیز عطا کی گئی ہے۔ اسے اللہ نے تصرف کے کچھ اختیارات بھی دیئے ہیں اور اخلاقی حس بھی پیدا کی ہے۔ لہذا یہ بات سراسر عقل اور حکمت کے خلاف ہے کہ اس سے اس کی دنیا کی زندگی کے بارے میں باز پرس نہ ہو اور اسے نیکی پر جزا اور بدی پر سزا نہ دی جائے، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک انسان عمر بھر ظلم و ستم کئے جاتا ہے۔ لوگوں کو پریشان بھی کرتا ہے۔ ان کے حقوق بھی غصب کرتا ہے۔ لیکن اسے اس دنیا میں کوئی سزا نہیں ملتی۔ اسی طرح بعض دفعہ ایک نیک طبع اور دیندار انسان کی ساری عمر سختیاں اور مصائب برداشت کرتے اور تنگی و تنگ دستی کے عالم میں گزر جاتی ہے اور اسے کبھی راحت میسر نہیں آتی اور یہ بات اللہ تعالیٰ کے عدل کے خلاف ہے۔ اس سے ایک عقلمند انسان لازماً یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ اس دنیا کی زندگی کے بعد ایک اور زندگی ہونی چاہئے۔ جس میں ہر ایک کو اس کے کئے کا بدلہ دیا جاسکے۔ اس طرح انہیں اخروی زندگی کا یقین حاصل ہوجاتا ہے اور وہ اللہ کی گرفت سے پناہ مانگنے لگتے ہیں۔- [١٩٢] باطل کی ضد حق ہے اور جس طرح حق کا لفظ وسیع المعنی ہے۔ اسی طرح باطل کے بھی بہت سے معنی ہیں۔ مثلاً باطل بمعنی جھوٹ، جھوٹی بات، بہتان، عبث، بےکار، بےمقصد ہے۔ اس آیت میں بتلایا جارہا ہے کہ یہ کائنات بےمقصد پیدا نہیں کی گئی۔ جیسا کہ مادہ پرستوں، دہریوں اور نیچریوں کا خیال ہے کہ مادہ کے اجزا باہم ملتے گئے اور کائنات کی ایک ایک چیز وجود میں آتی گئی۔ ہائیڈروجن کے ذرات ملے تو سورج پیدا ہوگیا اور وہ خود بھی گھومنے لگا۔ پھر اس سے ایک حصہ کٹ کر علیحدہ ہوا تو وہ زمین بن گئی۔ زمین نے جب گھومنا شروع کیا تو اس کا ایک حصہ کٹ کر علیحدہ ہوا تو وہ چاند بن گیا اور اسی طرح دوسرے سیارے وجود میں آتے گئے اور انہی اتفاقات سے کائنات سے ایک ایک چیز بن گئی۔ پھر ایک وقت آئے گا کہ جس طرح کائنات کی ہر چیز جیسے اتفاق سے بنتی گئی۔ اسی طرح تباہ ہوجائے گی اور تباہی کے بعد پھر اجزا ملنے شروع ہوجائیں گے اور یہ سلسلہ یوں ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلتا رہے گا۔ (وقس علیٰ ھٰذا من الخرافات) گویا ان کے خیال میں یہ کائنات محض ایک تماشا گاہ اس کی مختلف صورتوں اور اتفاقات کا کھیل ہے۔- اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے یہ بتلایا کہ پوری کائنات تو درکنار، کائنات کی کوئی چیز بھی بےکار پیدا نہیں کی گئی۔ بلکہ با مقصد طور پر پیدا کی گئی ہے۔ قرآن کی تصریحات کے مطابق زمین اور اس کی جملہ اشیاء شمس و قمر اور ستارے سب انسان کی خدمت کے لیے بنائے گئے ہیں اور اس کی خدمت پر مامور ہیں۔ زمین سے انسان کی ہر طرح کی جسمانی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ سورج اور اس کی گردش سے رات دن پیدا ہوتے، موسم بنتے اور فصلیں پکتی ہیں۔ چاند سے رات کو روشنی اور ٹھنڈک ملتی ہے اور پھلوں میں رس پیدا ہوتا ہے۔ ستاروں سے ہم رات کے اوقات کی تعیین کرتے، روشنی حاصل کرتے اور رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور پھر یہ آسمان کی زینت بھی ہیں۔ یہی صورت ہواؤں اور بادلوں کی ہے۔ اب دیکھئے ان میں سے کوئی چیز بھی نہ ہو تو انسان کا جینا محال ہوجاتا ہے لیکن اگر کائنات میں انسان نہ ہو تو ان چیزوں کے استقلال میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اس بات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات کا مقصد انسان کی خدمت ہے اور غالباً یہی وہ باشعور و باختیار مخلوق ہے۔ جسے سب چیزوں کے بعد پیدا کیا ہے۔ لہذا یہ کائنات یونہی بےمقصد نہیں بلکہ ایک نہایت اہم مقصد کے ساتھ وجود میں لائی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کبھی کوئی چیز بےمقصد پیدا نہیں فرماتا، اس کی ذات اس سے پاک ہے۔- اب اس سے اگلا سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ تو انسان کے لیے ہے تو پھر انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ تو اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا۔ ( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ 56؀) 51 ۔ الذاریات :56) یعنی میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا ہی اس لیے کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ اور عبادت کا مفہوم اس قدروسیع اور جامع ہے کہ اس میں ہر طرح کے شرک کا رد، توحید کی اہمیت، قانون جزا و سزا، جنت و دوزخ بلکہ پوری کی پوری شریعت اس میں آجاتی ہے۔- کائنات، کائنات کا خالق اور اس کائنات میں انسان کا مقام، یہ تین چیزیں ایسی ہیں جن کی حقیقت معلوم کرنے اور ان کا صحیح تعین کرنے پر اہل عقل و خرد ابتدائے آدم سے لے کر غور و فکر کرتے رہے ہیں۔ پھر جس کسی سائنسدان یا فلاسفر نے بھی وحی الٰہی سے بےنیاز ہو کر سوچنا شروع کیا تو اکثر اس کی عقل نے ٹھوکر ہی کھائی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ : پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے ہر چیز کے خالق اور رب ہونے کا ذکر تھا، اب اس اکیلے کی عبادت کا ذکر ہے، یعنی وہ ” اولوالالباب “ دل، زبان اور دوسرے سب اعضاء سے کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ہوئے ہر حالت میں اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ روزی کماتے وقت اللہ کے حکم کا خیال رکھنا بھی اس کی یاد ہے، عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر اسے نہ بھولنا بھی یاد ہے، نظر کو بےلگام نہ ہونے دینا بھی اس کا ذکر ہے، اسلام کی سر بلندی کے لیے جہاد کی تیاری میں مصروف ہونا بھی اس کی یاد ہے۔ افسوس کہ مسلمانوں نے صرف نماز اور تسبیح و تحمید کو ذکر سمجھ لیا اور اللہ کی جس یاد اور ملاقات کے شوق سے صحابہ و تابعین کے سینے روشن تھے اور وہ موت کو موت کی جگہوں میں ڈھونڈتے پھرتے تھے، اس کو اپنے شب و روز سے نکال دیا، حالانکہ یہ ذکر اسلام کے بنیادی ارکان کے بعد تمام اذکار سے کہیں افضل ہے۔ فرمایا : ( اَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاۗجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ اٰمَنَ باللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰهَدَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰه ِ ) [ التوبۃ : ١٩ ] ” کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام کو آباد کرنا اس جیسا بنادیا جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا اور اس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا، یہ اللہ کے ہاں برابر نہیں ہیں۔ “ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَوْقِفُ سَاعَۃٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنْ قِیَامِ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ عِنْدَ الْحَجَرِ الْاَسْوَدِ ) ” ایک گھڑی اللہ کے راستے ( جہاد) میں رہنا حجر اسود کے پاس لیلۃ القدر کے قیام سے افضل ہے۔ “ [ ابن حبان : ٤٦٠٣ ]- وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ : یعنی زمین و آسمان کو پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ نے جو حکمت رکھی ہے وہ اس پر غور و فکر کرتے ہیں۔ علوم ہیئت فلکیات اور ریاضی کو اگر دینی نقطۂ نظر سے پڑھا جائے تو فی الجملہ عبادت میں داخل ہے۔- رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا ۚ : بےمقصد نہیں بنایا، بلکہ اس عالم کی انتہا دوسرے عالم میں ہو رہی ہے، جس میں حساب کتاب ہوگا۔ (موضح) اس میں مادہ پرستوں اور دہریوں کا رد ہے جو کائنات کو محض اتفاق کا نتیجہ سمجھتے ہیں، یعنی غور و فکر سے ان پر یہ حقیقت کھلتی ہے کہ کائنات کا یہ سارا نظام یونہی پیدا نہیں کیا، بلکہ اس کے پیچھے یہ مقصد کارفرما ہے کہ انسان دنیا میں اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق زندگی بسر کرے تو اجر و ثواب پائے اور نافرمانی کرے تو آخرت میں عذاب بھگتے، اس لیے وہ آگ سے محفوظ رہنے کی دعا کرتے رہتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

الذین یذکرون اللہ قیاماً و قعودا و علی جنوبھم یعنی عقل والے وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کو یاد کریں کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہوئے مراد یہ ہے کہ ہر حالت اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول ہوں۔- اس سے معلوم ہوا کہ آج کی دنیا نے جس چیز کو عقل اور عقلمندی کا معیار سمجھ لیا ہے وہ محض ایک دھوکا ہے، کسی نے مال و دولت سمیٹ لینے کو عقلمندی قرار دیدیا، کسی نے مشینوں کے کل پرزے بنانے یا برق اور بھاپ کو اصلی پاور سمجھ لینے کا نام عقلمندی رکھ دیا لیکن عقل سلیم کی بات وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے انبیاء و رسل لے کر آئے کہ علم و حکمت کے ذریعہ سلسلہ اسباب میں ادنی سے اعلی کی طرف ترقی کرتے ہوئے درمیانی مراحل کو نظر انداز کیا، خام مودا سے مشینوں تک اور مشینوں سے برق اور بھاپ کی قوت تک تمہیں سائنس نے پہونچایا عقل کا کام یہ ہے کہ ایک قدم اور آگے بڑھو تاکہ تمہیں یہ معلوم ہو کہ اصل کام نہ پانی مٹی یا لوہے، تانبے کا ہے، نہ مشین کا، نہ اس کے ذریعہ پیدا کی ہوئی اسٹیم کا، بلکہ کام اس کا ہے جس نے آگ اور پانی اور ہوا پیدا کی، جس کے ذریعہ یہ برق و بھاپ تمہارے ہاتھ آئی۔- کار زلف تست مشک افشانی اما عاشقاں - مصلحت راتہمتے برآ ہوئے چین بستہ اند - اس کو ایک عامیانہ محسوس مثال سے یوں سمجھئے کہ ایک جنگل کا رہنے والا جاھل انسان جب کسی ریلوے اسٹیشن پر پہنچنے اور یہ دیکھے کہ ریل جیسی عظیم الشان سواری ایک سرخ جھنڈی کے دکھانے سے رک جاتی ہے اور سبز کے دکھانے سے چلنے لگتی ہے تو اگر وہ یہ کہے کہ یہ سرخ اور سبز جھنڈی بڑے پاور اور طاقت کی مالک ہے کہ اتنی طاقت والے انجن کو روک دیتی اور چلا دیتی ہے، تو علم و عقل والے اس کو احمق کہیں گے اور بتلائیں گے کہ طاقت ان جھنڈیوں میں نہیں بلکہ اس شخص کے پاس ہے جو انجن میں بیٹھا ہوا ان جھنڈیوں کو دیکھ کر روکے یا چلانے کا کام کرتا ہے، لیکن جس کی عقلی کچھ اس سے زیادہ ہے وہ کہے گا کہ انجن درائیور کو پاور یا طاقت کا مالک سمجھنا بھی غلطی ہے، کیونکہ درحقیقت اس کی طاقت کو اس میں کوئی دخل نہیں، وہ ایک قدم اور بڑھ کر اس طاقت کو انجن کے کل پرزوں کی طرف منسوب کرے گا، لیکن ایک فلاسفر یا سائنس داں اس کو بھی یہ کہہ کر بیوقوف بتلائے گا کہ بےحس کل پرزوں میں کیا رکھا ہے، اصل طاقت اس بھاپ اور اسٹیم کی ہے، جو انجن کے اندر آگ اور پانی کے ذریعہ پیدا کی گی ہے، لیکن حکمت و فلسفہ یہاں آ کر تھک جاتا ہے، انبیاء (علیہم السلام) فرماتے ہیں کہ ظالم جس طرح جھنڈیوں کو یا ڈرائیور کو یا انجن کے کل پرزوں کو طاقت اور پاور کا مالک سمجھ بیٹھنا اس جاہل کی غلطی تھی، اسی طرح بھاپ اور اسٹیم کو طاقت کا مالک سمجھ لینا بھی تیری فلسفیانہ غلطی ہے، ایک قدم اور آگے بڑھ، تاکہ تجھے اس الجھی ہوئی ڈور کا سرا ہاتھ آئے اور سلسلہ اسباب کی آخری کڑی تک تیری رسائی ہوجائے کہ دراصل ان ساری طاقتوں اور پاوروں کا مالک وہ ہے جس نے آگ اور پانی پیدا کئے اور یہ اسٹیم تیار ہوئی۔- اس تفصیل سے آپ نے معلوم کرلیا کہ عقل والے کہلانے کے مستحق صرف وہی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پہچانیں اور ہر وقت ہر حالت میں اس کو یاد کریں، اسی لیے اولی الالباب کی صفت قرآن کریم نے یہ بتلائی الذین یذکرون اللہ قیاماً و قعودا وعلے جنوبھم - اس لئے حضرات فقہا کرام نے لکھا ہے کہ اگر کوئی انتقال سے قبل یہ وصیت کر جائے کہ میرا مال عقلاء کو دے دیا جائے، تو کس کو دیا جائے گا ؟ اس کے جواب میں حضرات فقہاء کرام نے تحریر فرمایا کہ ایسے عالم زاہد اس مال کے مستحق ہوں گے جو دنیا طلب اور غیر ضروری مادی وسائل سے دور ہیں، کیونکہ صحیح معنی میں وہی عقلاء ہیں (در مختار، کتاب الوصیتہ) - اس جگہ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ شریعت میں ذکر کے علاوہ کسی اور عبادت کی کثرت کا حکم نہیں دیا گیا، لیکن ذکر کے متعلق ارشاد ہے کہ اذکروا اللہ ذکراً کثیرا (٣٣: ١٤) وجہ اس کی یہ ہے کہ ذکر کے سوا سب عبادات کے لئے کچھ شرائط اور قواعد ہیں جن کے بغیر وہ عبادات ادا نہیں ہوتیں، بخلاف ذکر کے کہ اس کو انسان کھڑے، بیٹھے، لیٹے ہوئے، باوضو ہو یا بےوضو ہر حالت میں اور ہر وقت انجام دے سکتا ہے، اس آیت میں شاید اسی حکمت کی طرف اشارہ ہے۔- آیت مذکورہ میں عقل والوں کی دوسری علامت یہ بتلائی گی ہے کہ وہ آسمان و زمین کی تخلیق و پیدائش میں تفکر کرتے ہیں : یتفکرون فی خلق السموت والارض، الایتہ یہاں غور طلب یہ امر ہے کہ اس تفکر سے کیا مراد ہے اور اس کا کیا درجہ ہے ؟- فکر اور تفکر کے لفظی معنی غور کرنے اور کس چیز کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرنے کے ہیں، اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کا ذکر عبادت ہے اسی طرح فکر بھی ایک عبادت ہے، فرق یہ ہے کہ ذکر اللہ جل شانہ کی ذات وصفات کا مطلوب ہے اور فکر و تفکر اس کی مخلوقات میں مقصود ہے، کیونکہ ذات وصفات الہیہ کی حقیقت کا ادراک انسان کی عقل سے بالاتر ہے، اس میں غور و فکر اور تدبر و تفکر بجز حیرانی کے کوئی نتیجہ نہیں رکھتا، عارف رومی نے فرمایا۔- دور بینان بارگاہ الست - غیر ازیں پے نبردہ اندکہ ہست - بلکہ بعض اوقات حق جل شانہ کی ذات وصفات میں زیادہ غور و فکر انسان کی ناقص عقل کے لئے گمراہی کا سبب بن جاتا ہے، اس لئے اکابر اہل معرفت کی وصیت ہے کہ تفکروا فی آیت اللہ ولاتتفکروا فی اللہ،” یعنی اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی نشانیوں میں غور و فکر کرو مگر خود اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات میں غور و فکر نہ کرو، کہ وہ تمہاری رسائی سے بالاتر ہے، آفتاب کی روشنی میں ہر چیز کو دیکھا جاسکتا ہے، مگر خود آفتاب کو کوئی دیکھنا چاہے تو آنکھیں خیر ہوجاتی ہیں، ذات وصفات کے مسئلہ میں تو بڑے بڑے ماہر فلاسفہ اور جہانوں کی سیر کرنے والے ارباب معرفت نے آخرکار یہی نصیحت کی ہے کہ - نہر ہر جائے مرکب تواں تاختن - کہ جا ا سپر باید انداختن - البتہ غور و فکر اور عقل کی دوڑ دھوپ کا میدان مخلوقات الہیہ ہیں، جن میں صحیح غور و فکر کا لازمی نتیجہ ان کے خالق جل شانہ کی معرفت ہے، اتنا عظیم الشان وسیع و عریض آسمان اور اس میں آفتاب و مہتاب اور دوسرے ستارے جن میں کچھ ثوابت ہیں جو دیکھنے والوں کو اپنی جگہ ٹھہرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کوئی بہت آہستہ حرکت ہو تو اس کا علم پیدا کرنے والے ہی کو ہے اور انہی ستاروں میں کچھ سیارات ہیں جن کے دورے نظام شمسی و قمری وغیرہ کے انداز میں نہایت محکم و مضبوط قانون کے تحت مقرر اور متعین ہیں، نہ ایک سیکنڈ ادھر ہوتے ہیں نہ ان کی مشینری کا کوئی پرزہ گھستا ہے، نہ ٹوٹتا ہے، نہ کبھی ان کو کسی ورکشاپ میں بھیجنے کی ضرورت ہوتی ہے، نہ اس کی مشینری کبھی رنگ و روغن چاہتی ہے، ہزاروں سال سے ان کے مسلسل دورے اسی نظام محکم اور معین اوقات کے ساتھ چل رہے ہیں، اسی طرح زمین کا پورا کرہ، اس کے دریا اور پہاڑ، اور دونوں میں طرح طرح کی مخلوقات درخت اور جانور اور زمین کی تہہ میں چھپی ہوئی معدنیات، اور زمین آسمان کے درمیان چلنے والی ہوا اور اس میں پیدا ہونے اور برسنے والی برق و باراں اور سال کے مخصوص نظام یہ سب کے سب سوچنے، سمجھنے والے کے لئے کسی ایسی ہستی کا پتہ دیتے ہیں جو علم و حکمت اور قوت وقدرت میں سب سے بالاتر ہے اور اسی کا نام معرفت ہے، تو یہ غور و فکر معرفت الہیہ کا سبب ہونے کی وجہ سے بہت بڑی عبادت ہے، اس لئے حضرت حسن بصری نے فرمایا، تفکر ساعة خیرمن قیام لیلتة ”(ابن کثیر) ” یعنی ایک گھڑی آیات قدرت میں غور کرنا پوری رات کی عبادت سے بہتر اور زیادہ مفید ہے۔- اور حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس غور و فکر کو افضل عبادت فرمایا ہے (ابن کثیر) حسن بن عامر نے فرمایا کہ میں نے بہت سے صحابہ کرام سے سنا ہے، سب یہ فرماتے تھے کہ ایمان کا نور اور روشنی تفکر ہے۔- حضرت ابو سلیمان دارانی (رح) نے فرمایا کہ میں گھر سے نکلتا ہوں تو جس چیز پر میری نگاہ پڑتی ہے میں کھلی آنکھوں دیکھتا ہوں کہ اس میں میرے لئے اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے، اور اس کے وجود میں میرے لئے عبرت حاصل کرنے کا سامان موجود ہے (ابن کثیر) اسی کو بعض عارفین نے فرمایا کہ - ہر گیا ہے کہ از زمین روید - وحدہ لاشریک لہ گوید - حضرت سفیان بن عینیہ کا ارشاد ہے کہ غور و فکر ایک نور ہے جو تیرے دل میں داخل ہو رہا ہے۔- حضرت وہب بن منبہ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص کثرت سے غور و فکر کرے گا تو حقیقت سمجھ لے گا اور جو سمجھ لے گا اس کو علم صحیح حاصل ہوجائے گا اور جس کو علم صحیح حاصل ہوگیا وہ ضرور عمل بھی کرے گا (ابن کثیر)- حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ ایک بزرگ کا گذر ایک عابد زاہد کے پاس ہوا جو ایسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے ایک طرف قبرستان تھا اور دوسری طرف گھروں کا کوڑا کباڑ وغیرہ تھا، گذرنے والے بزرگ نے کہا کہ دنیا کے دو خزانے تمہارے سامنے ہیں ایک انسانوں کا خزانہ جس کو قبرستان کہتے ہیں، دوسرا مال و دولت کا خزانہ جو فضلات اور گندگی کی صورت میں ہے، یہ دونوں خزانے عبرت کے لئے کافی ہیں۔ (ابن کثیر)- حضرت عبداللہ بن عمر اپنے قلب کی اصلاح و نگرانی کے لئے شہر سے باہر کسی ویرانہ کی طرف نکل جاتے تھے اور وہاں پر پہنچ کر کہتے این این اھلک یعنی تیرے بسنے والے کہاں گئے ؟ پھر خود ہی جواب دیتے کل شی ھالک الاوجھہ (٨٢: ٨٨) یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے (ابن کثیر) اس طرح تفکر کے ذریعہ آخرت کی یاد اپنے قلب میں مستحضر کرتے تھے۔- حضرت بشر حافی نے فرمایا کہ اگر لوگ اللہ تعالیٰ کی عظمت میں تفکر کرتے تو اس کی معصیت و نافرمانی نہ کرسکتے۔- اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : اے ضعیف الخلقت آدمی تو جہاں بھی ہو خدا سے ڈر، اور دنیا میں ایک مہمان کی طرح بسر کر اور مساجد کو اپنا گھر بنا لے اور اپنی آنکھوں کو خوف خدا سے رونے کا اور جسم کو صبر کا اور قلب کو تفکر کا عادی بنا دے اور کل کے رزق کی فکر نہ کر۔- آیت مذکورہ میں اسی فکر و تفکر کو عقلمند انسان کا اعلی وصف کر کے بیان فرمایا ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں غور و فکر کر کے حق تعالیٰ کی معرفت اور دنیا کی ناپائیداری کا علم حضوری حاصل کرلینا افضل عبادت اور نور ایمان ہے، اسی طرح آیات الہیہ کو دیکھنے اور برتنے کے باوجود خود ان مخلوقات کی ظاہری ٹیپ ٹاپ میں الجھ کر رہ جاتا اور ان کے ذریعہ مالک حقیقی کی معرفت حاصل نہ کرنا سخت نادانی اور ناسمجھ بچوں کی سی حرکت ہے، مولانا جامی نے اسی کو فرمایا ہے۔- ہمہ اندرزمن ترا زین است - کہ تو طفلی و خانہ رنگین است - اور اسی بےبصیرتی کو حضرت مجذب نے اس طرح بیان فرمایا۔- کچھ بھی مجنوں جو بصیرت تجھے حاصل ہو جائے - تو نے لیلی جسے سمجھا ہے وہ محمل ہو جائے - بعض حکماء نے فرمایا ہے کہ جو شخص کائنات عالم کو عبرت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا تو بقدر اس کی غفلت کے اس کے قلب کی بصیرت مٹ جاتی ہے آج کی سائنٹفک اور حیرت انگیز ایجادات اور ان میں الجھ کر رہ جانے والے موجدین کی اللہ تعالیٰ اور اپنے انجام کار سے غفلت حکماء کے اس مقولہ کی کھلی شادت ہے کہ سائنس کی ترقیات جوں جوں اللہ تعالیٰ کی کمال صنعت کے رازوں کو کھولتی جاتی ہیں، اتنا ہی وہ خدا شناسی اور حقیقت آگاہی سے اندھے ہوتے جاتے ہیں، بقول اکبر مرحوم - بھول کر بیٹھا ہے یورپ آسمانی باپ کو - بس خدا سمجھا ہے اس نے برق کو اور بھاپ کو - قرآن کریم نے ایسی ہی بےبصیرت لکھے پڑھے جاہلوں کے متعلق ارشاد فرمایا ہے۔ وکاین من ایة فی السموت والارض یمرون علیھا وھم عنھا معرضون، یعنی آسمان اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن سے یہ لوگ منہ موڑ کر گذر جاتے ہیں ان کی حقیقت و صنعت اور ان کے صانع کی طرف توجہ نہیں دیتے - خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات و مصنوعات میں غور و فکر کر کے اس کی عظمت وقدرت کا استحضار ایک اعلی عبادت ہے، ان سے کوئی عبرت حاصل نہ کرنا سخت نادانی ہے، آیت مذکورہ کے آخری جملے نے آیات قدرت میں غور و فکر کا نتیجہ بتلایا ہے۔ ربنا ماخلقت ھذا باطلاً یعنی حق تعالیٰ کی عظیم اور غیر محصور مخلوقات میں غور و فکر کرنے والا اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے فضول و بیکار پیدا نہیں کیا ہے، بلکہ ان کی خلقت میں ہزاروں حکمتیں مضمر ہیں، ان سب کو انسان کا خادم اور انسان کو مخدوم کائنات بنا کر انسان کو اس غور و فکر کی دعوت دی ہے کہ ساری کائنات تو اس کے فائدہ کے لئے بنی ہے، اور انسان اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت کے لئے پیدا ہوا ہے، یہی اس کا مقصد زندگی ہے، اس کے بعد غور و فکر اور تفکر و تدبر کے نتیجہ میں وہ لوگ اس حقیقت پر پہنچے کہ کائنات عالم فضول و بیکار پیدا نہیں کی گئی، بلکہ یہ سب خالق کائنات کی عظیم قدرت و حکمت کے روشن دلائل ہیں۔- آگے ان لوگوں کی چند درخواستوں اور دعاؤں کا ذکر ہے جو انہوں نے اپنے رب کو پہچان کر اس کی بارگاہ میں پیش کیں۔- پہلی درخواست یہ ہے کہ ہمیں آخرت کی رسوائی سے بچایئے، کیونکہ جن کو آپ نے جہنم میں داخل کردیا اس کو سارے جہان کے سامنے رسوا کردیا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ میدان حشر کے اندر رسوائی ایک ایسا عذاب ہوگا کہ آدمی یہ خواہش کرے گا کہ کاش اسے جہنم میں ڈال دیا جائے اور اس کی بدکاریوں کا چرچا اہل محشر کے سامنے نہ ہو۔ - تیسری درخواست یہ ہے کہ ہم نے آپ کی طرف سے آنے والے منادی یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز کو سنا، اور اس پر ایمان لائے تو آپ ہمارے بڑے گناہوں کو معاف فرما دیں اور ہمارے عیوب اور برائیوں کا کفارہ فرما دیں اور ہمیں نیک لوگوں کے ساتھ موت دیں، یعنی ان کے زمرہ میں شامل فرما لیں۔- یہ تین درخواستیں تو عذاب اور تکلیف اور مضرت سے بچنے کے لئے تھیں، آگے چوتھی درخواست فوائد اور منافع حاصل کرنے کے متعلق ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعے جو وعدہ آپ نے جنت کی نعمتیں کا فرمایا ہے وہ ہمیں اس طرح عطا فرمایئے کہ قیامت میں رسوائی بھی نہ ہو، یعنی اول مواخذہ اور بدنامی، بعد میں معافی کی صورت کے بجائے اول ہی سے معافی فرما دیجئے، آپ تو وعدہ خلافی نہیں کیا کرتے، مگر اس عرض و معروض کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اس قابل بنا دیجئے کہ ہم یہ وعد حاصل کرنے کے مستحق ہوجائیں اور پھر اس پر قائم رہیں، یعنی خاتمہ ایمان اور عمل صالح پر ہو۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللہَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰي جُنُوْبِھِمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا۝ ٠ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۝ ١٩١- ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] ، وقوله :- هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] ، أي :- شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] ، أي : الکتب المتقدّمة .- وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه .- وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) .- ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ- [ الكهف 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] ، وقوله :- فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته،- ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔- قعد - القُعُودُ يقابل به القیام، والْقَعْدَةُ للمرّة، والقِعْدَةُ للحال التي يكون عليها الْقَاعِدُ ، والقُعُودُ قد يكون جمع قاعد . قال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء 103] ، الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران 191] ، والمَقْعَدُ :- مكان القعود، وجمعه : مَقَاعِدُ. قال تعالی: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] أي في مکان هدوّ ، وقوله : مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران 121] كناية عن المعرکة التي بها المستقرّ ، ويعبّر عن المتکاسل في الشیء بِالْقَاعدِ نحو قوله : لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء 95] ، ومنه : رجل قُعَدَةٌ وضجعة، وقوله : وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء 95] وعن التّرصّد للشیء بالقعود له .- نحو قوله : لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف 16] ، وقوله : إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ- [ المائدة 24] يعني متوقّفون . وقوله : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] أي :- ملك يترصّده ويكتب له وعليه، ويقال ذلک للواحد والجمع، والقَعِيدُ من الوحش : خلاف النّطيح . وقَعِيدَكَ الله، وقِعْدَكَ الله، أي : أسأل اللہ الذي يلزمک حفظک، والقاعِدَةُ : لمن قعدت عن الحیض والتّزوّج، والقَوَاعِدُ جمعها . قال : وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور 60] ، والْمُقْعَدُ : من قَعَدَ عن الدّيون، ولمن يعجز عن النّهوض لزمانة به، وبه شبّه الضّفدع فقیل له : مُقْعَدٌ «1» ، وجمعه : مُقْعَدَاتٌ ، وثدي مُقْعَدٌ للکاعب : ناتئ مصوّر بصورته، والْمُقْعَدُ كناية عن اللئيم الْمُتَقَاعِدِ عن المکارم، وقَوَاعدُ البِنَاءِ : أساسه .- قال تعالی: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة 127] ، وقَوَاعِدُ الهودج :- خشباته الجارية مجری قواعد البناء .- ( ق ع د ) القعود - یہ قیام ( کھڑا ہونا کی ضد ہے اس سے قعدۃ صیغہ مرۃ ہے یعنی ایک بار بیٹھنا اور قعدۃ ( بکسر ( قاف ) بیٹھنے کی حالت کو کہتے ہیں اور القعود قاعدۃ کی جمع بھی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء 103] تو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرو ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران 191] جو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ المقعد کے معنی جائے قیام کے ہیں اس کی جمع مقاعد ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55]( یعنی ) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ یعنی نہایت پر سکون مقام میں ہوں گے اور آیت کریمہ : ۔ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران 121] لڑائی کیلئے مور چوں پر میں لڑائی کے مورچے مراد ہیں جہاں سپاہی جم کر لڑتے ہیں اور کبھی کسی کام میں سستی کرنے والے کو بھی قاعدۃ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء 95] جو مسلمان ( گھروں میں ) بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے ۔ اسی سے عجل قدعۃ ضجعۃ کا محاورہ جس کے معنی بہت کاہل اور بیٹھنے رہنے والے آدمی کے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء 95] خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے ۔ اور کبھی قعدۃ لہ کے معیم کیس چیز کے لئے گھات لگا کر بیٹھنے اور انتظار کرنے کے بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف 16] میں بھی سیدھے رستے پر بیٹھوں گا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة 24] ہم یہیں بیٹھے رہینگے یعنی یہاں بیٹھ کر انتظار کرتے رہینگے اور آیت کر یمہ : ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں ۔ میں قعید سے مراد وہ فرشتہ ہے جو ( ہر وقت اعمال کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور انسان کے اچھے برے اعمال میں درج کرتا رہتا ہے یہ واحد وجمع دونوں پر بولا جاتا ہے اسے بھی قعید کہا جاتا ہے اور یہ نطیح کی جد ہے ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے تیری حفاظت کا سوال کرتا ہوں ۔ القاعدۃ وہ عورت جو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے نکاح اور حیض کے وابل نہ رہی ہو اس کی جمع قواعد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور 60] اور بڑی عمر کی عورتیں ۔ اور مقعدۃ اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جو ملازمت سے سبکدوش ہوچکا ہو اور اپاہج آدمی جو چل پھر نہ سکے اسے بھی مقعد کہہ دیتے ہیں اسی وجہ سے مجازا مینڈک کو بھی مقعد کہا جاتا ہے اس کی جمع مقعدات ہے اور ابھری ہوئی چھاتی پر بھی ثدی مقعد کا لفظ بولا جاتا ہے اور کنایہ کے طور پر کمینے اور خمیس اطوار آدمی پر بھی مقعدۃ کا طلاق ہوتا ہے قواعد لبنآء عمارت کی بنیادیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة 127] اور جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادی اونچی کر رہے تھے قواعد الھودج ( چو کھٹا ) ہودے کی لکڑیاں جو اس کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہوتی ہیں ۔- جنب - أصل الجَنْب : الجارحة، وجمعه : جُنُوب، قال اللہ عزّ وجل : فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة 35] ، وقال تعالی: تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة 16] ، وقال عزّ وجلّ : قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] . ثم يستعار من الناحية التي تليها کعادتهم في استعارة سائر الجوارح لذلک، نحو : الیمین والشمال،- ( ج ن ب ) الجنب - اصل میں اس کے معنی پہلو کے ہیں اس کی جمع جنوب ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے ۔ فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة 35] پھر اس سے ان ( بخیلوں ) کی پیشانیاں اور پہلو داغے جائیں گے ۔ تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة 16] ان کے پہلو بچھو نوں سے الگ رہنے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ پہلو کی سمت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسا کہ یمین ، شمال اور دیگر اعضا میں عرب لوگ استعارات سے کام لیتے ہیں ۔ - فكر - الْفِكْرَةُ : قوّة مطرقة للعلم إلى المعلوم، والتَّفَكُّرُ : جولان تلک القوّة بحسب نظر العقل، وذلک للإنسان دون الحیوان، قال تعالی: أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم 8] ، أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِهِمْ مِنْ جِنَّةٍ [ الأعراف 184] ، إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ [ الرعد 3]- ( ف ک ر ) الفکرۃ - اس قوت کو کہتے ہیں جو علم کو معلوم کی طرف لے جاتی ہے اور تفکر کے معنی نظر عقل کے مطابق اس قوت کی جو لانی دینے کے ہیں ۔ اور غور فکر کی استعداد صرف انسان کو دی گئی ہے دوسرے حیوانات اس سے محروم ہیں اور تفکرفیہ کا لفظ صرف اسی چیز کے متعلق بولا جاتا ہے جس کا تصور دل ( ذہن میں حاصل ہوسکتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم 8] کیا انہوں نے اپنے دل میں غو ر نہیں کیا کہ خدا نے آسمانوں کو پیدا کیا ہے ۔ - بطل - البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62]- ( ب ط ل ) الباطل - یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔ - سبحان - و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر - «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة .- ( س ب ح ) السبح - ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔- وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] - ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٩١۔ ١٩٢) جن کی حالت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو جب کھڑے ہونے کی طاقت رکھتے ہیں کھڑے ہو کر اور جب اس کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اور اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو لیٹ کریاد کرتے یعنی کسی حالت میں اس کی یاد سے غافل نہیں ہوتے اور نمازیں پڑھتے ہیں۔- اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ان چیزوں کو تو نے بےکار نہیں پیدا کیا، ہم اس کے ہر طرح کے شرک سے تجھ کو پاک ومنزہ سمجھتے ہیں، اے ہمارے رب ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ اور خدا پر ایمان رکھنے والے ان مومنین کے بالمقابل ان مشرکوں کا دنیا وآخرت میں کوئی بھی مددگار نہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩١ (الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ ) (وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج) - اس غور و فکر سے وہ ایک دوسرے نتیجے پر پہنچتے ہیں اور پکار اٹھتے ہیں :- (رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا ج) - اور پھر ان کا ذہن اپنی طرف منتقل ہوتا ہے کہ میری زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ میں کس لیے پیدا کیا گیا ہوں ؟ کیا میری زندگی بس یہی ہے کہ کھاؤ پیو ‘ اولاد پیدا کرو اور دنیا سے رخصت ہوجاؤ ؟ معلوم ہوا کہ نہیں ‘ کوئی خلا ہے۔ انسانی اعمال کے نتیجے نکلنے چاہئیں ‘ انسان کو اس کی نیکی اور بدی کا بدلہ ملنا چاہیے ‘ جو اس دنیا میں اکثر و بیشتر نہیں ملتا۔ دنیا میں اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ نیکوکار فاقوں سے رہتے ہیں اور بدکار عیش کرتے ہیں۔ چناچہ کوئی اور زندگی ہونی چاہیے ‘ کوئی اور دنیا ہونی چاہیے جس میں اچھے برے اعمال کا بھرپور بدلہ مل جائے ‘ مکافات عمل ہو۔ لہٰذا وہ کہہ اٹھتے ہیں :- (سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَاب النَّارِ ) - تو نے یقیناً ایک دوسری دنیا تیار کر رکھی ہے ‘ جس میں جزا وسزا کے لیے جنت بھی ہے اور جہنم بھی

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :135 یعنی ان نشانیوں سے ہر شخص بآسانی حقیقت تک پہنچ سکتا ہے بشرطیکہ وہ خدا سے غافل نہ ہو ، اور آثار کائنات کو جانوروں کی طرح نہ دیکھے بلکہ غور و فکر کے ساتھ مشاہدہ کرے ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :136 جب وہ نظام کائنات کا بغور مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت ان پر کھل جاتی ہے کہ یہ سراسر ایک حکیمانہ نظام ہے ۔ اور یہ بات سراسر حکمت کے خلاف ہے کہ جس مخلوق میں اللہ نے اخلاقی حس پیدا کی ہو ، جسے تصرف کے اختیارات دیے ہوں ، جسے عقل و تمیز عطا کی ہو ، اس سے اس کی حیات دنیا کے اعمال پر باز پرس نہ ہو ، اور اسے نیکی پر جزا اور بدی پر سزا نہ دی جائے ۔ اس طرح نظام کائنات پر غور و فکر کرنے سے انہیں آخرت کا یقین حاصل ہو جاتا ہے اور وہ خدا کی سزا سے پناہ مانگنے لگتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani