Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

دنیا کا سامان تعیش دلیل نجات نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کافروں کی بدمستی کے سامان تعیش ان کی راحت و آرام ان کی خوش حالی اور فارغ البالی کی طرف اے نبی آپ نظریں نہ ڈالیں یہ سب عنقریب زائل ہو جائے گا اور صرف ان کی بداعمالیاں عذاب کی صورت میں ان کیلئے باقی رہ جائیں گی ان کی یہ تمام نعمتیں آخرت کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہیں اسی مضمون کی بہت سی آیتیں قرآن کریم میں ہیں مثلاً آیت ( مَا يُجَادِلُ فِيْٓ اٰيٰتِ اللّٰهِ اِلَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَلَا يَغْرُرْكَ تَــقَلُّبُهُمْ فِي الْبِلَادِ ) 40 ۔ غافرب:4 ) اللہ کی آیتوں میں کافر ہی جھگڑتے ہیں ان کا شہروں میں گھومنا پھرنا تجھے دھوکے میں نہ ڈالے ، دوسری جگہ ارشاد ہے آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ ) 16 ۔ النحل:16 ) جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پاتے دنیا میں چاہے تھوڑا سا فائدہ اٹھا لیں لیکن آخر تو انہیں ہماری طرف ہی لوٹنا ہے پھر ہم انہیں ان کے کفر کی پاداش میں سخت تر سزائیں دیں گے ارشاد ہے انہیں ہم تھوڑا سا فائدہ پہنچا کر پھر گہرے عذابوں کی طرف بےبس کر دیں گے اور جگہ ہے کافروں کو کچھ مہلت دے دے اور جگہ ہے کیا وہ شخص جو ہمارے بہترین وعدوں کو پالے گا اور وہ جو دنیا میں آرام سے گزار رہا ہے لیکن قیامت کے دن عذابوں کیلئے حاضری دینے والا ہے برابر ہو سکتے ہیں ؟ چونکہ کافروں کا دنیوی اور اخروی حال بیان ہوا اس لئے ساتھ ہی مومنوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ یہ متقی گروہ قیامت کے دن نہروں والی ، بہشتوں میں ہوگا ، ابن مردویہ میں ہے رسول کریم افضل الصلوۃ واتسلیم فرماتے ہیں انہیں ابرار اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ ماں باپ کے ساتھ اور اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرتے تھے جس طرح تیرے ماں باپ کا تجھ پر حق ہے اسی طرح تیری اولاد کا تجھ پر حق ہے یہی روایت حضرت ابن عمرو سے موقوفاً بھی مروی ہے اور موقوف ہونا ہی زیادہ ٹھیک نظر آتا ہے واللہ اعلم ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں ابرار وہ ہیں جو کسی کو ایذاء نہ دیں ، حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں ہر شخص کیلئے خواہ نیک ہو خواہ بد موت اچھی چیز ہے اگر نیک ہے تو جو کچھ اس کیلئے اللہ کے پاس ہے وہ بہت ہی بہتر ہے اور اگر بد ہے تو اللہ کے عذاب اور اس کے گناہ جو اس کی زندگی میں بڑھ رہے تھے اب ان کا بڑھنا ختم ہوا پہلے کی دلیل آیت ( وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ خَيْرٌ لِّلْاَبْرَارِ ) 3 ۔ آل عمران:198 ) ہے اور دوسری کی دلیل آیت ( وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّمَا نُمْلِيْ لَھُمْ خَيْرٌ لِّاَنْفُسِھِمْ ۭ اِنَّمَا نُمْلِيْ لَھُمْ لِيَزْدَادُوْٓا اِثْمًا ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ ) 3 ۔ آل عمران:178 ) ہے یعنی کافر ہماری ڈھیل دینے کو اپنے حق میں بہتر نہ خیال کریں یہ ڈھیل ان کے گناہوں میں اضافہ کر رہی ہے اور ان کے لئے رسوا کن عذاب ہیں حضرت ابو الدرداء سے بھی یہی مروی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

196۔ 1 خطاب اگرچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے لیکن مخاطب پوری امت ہے، شہروں میں چلنے پھرنے سے مراد تجارت اور کاروبار کے لئے ایک شہر سے دوسرے شہر، ایک ملک سے دوسرے ملک جانا ہے، یہ تجارتی سفر وسائل دنیا کی فراوانی اور کاروبار کے وسعت و فروغ کی دلیل ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، یہ سب کچھ عارضی اور چند روزہ فائدہ ہے، اس سے اہل ایمان کو دھوکا میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ اصل انجام پر نظر رکھنی چاہئے، جو ایمان میں محرومی کی صورت میں جہنم کا دائمی عذاب ہے جس میں دولت دنیا سے مالا مال یہ کافر مبتلا ہونگے۔ یہ مضمون بھی متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ مثلا (مَا يُجَادِلُ فِيْٓ اٰيٰتِ اللّٰهِ اِلَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَلَا يَغْرُرْكَ تَــقَلُّبُهُمْ فِي الْبِلَادِ ) 040:004 اللہ کی آیتوں میں وہی لوگ جھگڑتے ہیں جو کافر ہیں، پس ان کا شہروں میں چلنا پھرنا آپ کو دھوکے میں نہ ڈالے۔ " (قُلْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ 69؀ مَتَاعٌ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ اِلَيْنَا مَرْجِعُھُمْ ثُمَّ نُذِيْقُھُمُ الْعَذَاب الشَّدِيْدَ بِمَا كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ 70؀ ) 010:069، 070 (نُمَـتِّعُهُمْ قَلِيْلًا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ اِلٰى عَذَابٍ غَلِيْظٍ 24؀) 031:024

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٩٧] یعنی اللہ کے دین کی مخالفت کے باوجود کفار کے تجارتی قافلے یمن سے شام تک جاتے اور معقول منافع کماتے اور پھر عیش و عشرت سے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں تو اس چند روزہ عیش و آرام سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اللہ ان پر مہربان ہے۔ کیونکہ آخرت میں ان کے لیے دائمی عذاب ہے۔ لہذا کسی کو اس فریب میں نہ پڑنا چاہئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِي الْبِلَادِ ۔۔ : اوپر کی آیات میں مومنوں کے گناہ بخشنے اور ثواب عظیم کا وعدہ فرمایا، حالانکہ وہ فقر و فاقہ کی حالت میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ ان کے بالمقابل کفار نہایت عیش و نعمت میں تھے، انھیں دیکھ کر بعض اوقات مسلمان غلط فہمیوں کا شکار ہوجاتے اور مختلف خیالات کی دنیا میں چلے جاتے، لہٰذا ان آیات میں مسلمانوں کا ذہن صاف کرنے کے لیے کفار کا انجام بیان فرمایا اور مسلمانوں کو تسلی دی ہے۔ انس بن مالک (رض) بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نیکی کے معاملہ میں مومن کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتا، اسے اس نیکی کا بدلہ دنیا میں بھی دیتا ہے اور آخرت میں بھی اور کافر جو نیکیاں اللہ کے لیے کرتا ہے اس کا بدلہ اسے دنیا ہی میں پورا دے دیا جاتا ہے، پھر جب وہ آخرت میں پہنچے گا تو اس کی کوئی نیکی باقی نہیں ہوگی کہ اس کا بدلہ اسے دیا جائے۔ “ [ مسلم، صفات المنافقین، باب جزاء المؤمنین۔۔ : ٢٨٠٨ ] مقصد یہ ہے کہ شہروں میں کفار کے تجارتی کاروبار، ان کی خوش حالی اور مال و دولت کی فراوانی کو دیکھ کر مسلمانوں کے دلوں میں کسی قسم کا حزن و غم نہیں آنا چاہیے، نہ ان کو نا امیدی کا شکار ہونا چاہیے، نہ منافقین کا سا طرز عمل اختیار کرنچا چاہیے۔ جو سختی اور خوف کے وقت پکار اٹھتے ہیں : ( مَّا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اِلَّا غُرُوْرًا ) [ الأحزاب : ١٢ ] ” پیغمبر نے تو ہم سے محض فریب اور دھوکے کا وعدہ کیا ہے۔ “ کفار کی دنیوی خوشحالی سے کفر کے حق ہونے پر استدلال کرنا چاہیے، یہ چند روزہ زندگی کا قلیل سا سامان اور عارضی بہار ہے، مرنے کے بعد ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ نہایت برا ٹھکانا ہے۔ اس کے مخاطب بظاہر تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں مگر مراد امت ہے۔ اس کے بعد اگلی آیت میں مومنین کی جزا کا ذکر فرمایا، تاکہ مزید تشفی حاصل ہو اور یہ چونکہ کفار کے مقابلے میں بیان کی جا رہی ہے، اس لیے ” لکن “ کا لفظ بطور استدارک ذکر فرمایا۔ (المنار)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِي الْبِلَادِ۝ ١٩٦ ۭ- غرر - يقال : غَررْتُ فلانا : أصبت غِرَّتَهُ ونلت منه ما أريده، والغِرَّةُ : غفلة في الیقظة، والْغِرَارُ : غفلة مع غفوة، وأصل ذلک من الْغُرِّ ، وهو الأثر الظاهر من الشیء، ومنه : غُرَّةُ الفرس . وغِرَارُ السّيف أي : حدّه، وغَرُّ الثّوب : أثر کسره، وقیل : اطوه علی غَرِّهِ وغَرَّهُ كذا غُرُوراً كأنما طواه علی غَرِّهِ. قال تعالی: ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار 6] ، لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران 196] ، وقال : وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً- [ النساء 120] ، وقال : بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر 40] ، وقال : يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام 112] ، وقال : وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران 185] ، وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام 70] ، ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب 12] ، وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان 33] ، فَالْغَرُورُ : كلّ ما يَغُرُّ الإنسان من مال وجاه وشهوة وشیطان، وقد فسّر بالشیطان إذ هو أخبث الْغَارِّينَ ، وبالدّنيا لما قيل : الدّنيا تَغُرُّ وتضرّ وتمرّ والْغَرَرُ : الخطر، وهو من الْغَرِّ ، «ونهي عن بيع الْغَرَرِ». والْغَرِيرُ : الخلق الحسن اعتبارا بأنّه يَغُرُّ ، وقیل : فلان أدبر غَرِيرُهُ وأقبل هريرة فباعتبار غُرَّةِ الفرس وشهرته بها قيل : فلان أَغَرُّ إذا کان مشهورا کريما، وقیل : الْغُرَرُ لثلاث ليال من أوّل الشّهر لکون ذلک منه كالْغُرَّةِ من الفرس، وغِرَارُ السّيفِ : حدّه، والْغِرَارُ : لَبَنٌ قلیل، وغَارَتِ النّاقةُ : قلّ لبنها بعد أن ظنّ أن لا يقلّ ، فكأنّها غَرَّتْ صاحبها .- ( غ ر ر )- غررت ( ن ) فلانا ( فریب دینا ) کسی کو غافل پاکر اس سے اپنا مقصد حاصل کرنا غرۃ بیداری کی حالت میں غفلت غرار اونکھ کے ساتھ غفلت اصل میں یہ غر سے ہے جس کے معنی کسی شے پر ظاہری نشان کے ہیں ۔ اسی سے غرۃ الفرس ( کگوڑے کی پیشانی کی سفیدی ہے اور غر ار السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں غر الثواب کپڑے کی تہ اسی سے محاورہ ہے : ۔ اطوہ علی غرہ کپڑے کو اس کی تہ پر لپیٹ دو یعنی اس معاملہ کو جوں توں رہنے دو غرہ کذا غرورا سے فریب دیا گویا اسے اس کی نہ پر لپیٹ دیا ۔ قرآن میں ہے ؛ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار 6] ای انسان تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دہو کا دیا ۔ لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران 196]( اے پیغمبر ) کافروں کا شہروں میں چلنا پھر تمہیں دھوکا نہ دے ۔ وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء 120] اور شیطان جو وعدہ ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے ۔ بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر 40] بلکہ ظالم جو ایک دوسرے کو وعدہ دیتے ہیں محض فریب ہے ۔ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام 112] وہ دھوکا دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالنتے رہتے ہیں ۔ وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران 185] اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے ۔ وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام 70] اور دنیا کی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب 12] کہ خدا اور اس کے رسول نے ہم سے دھوکے کا وعدہ کیا تھا ۔ وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان 33] اور نہ فریب دینے والا شیطان ) تمہیں خدا کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے ۔ پس غرور سے مال وجاہ خواہش نفسانی ، شیطان اور ہر وہ چیز مراد ہے جو انسان کو فریب میں مبتلا کرے بعض نے غرور سے مراد صرف شیطان لیا ہے کیونکہ چو چیزیں انسان کو فریب میں مبتلا کرتی ہیں شیطان ان سب سے زیادہ خبیث اور بعض نے اس کی تفسیر دنیا کی ہے کیونکہ دنیا بھی انسان سے فریب کھیلتی ہے دھوکا دیتی ہے نقصان پہنچاتی ہے اور گزر جاتی ہے ۔ الغرور دھوکا ۔ یہ غر سے ہے اور ( حدیث میں ) بیع الغرر سے منع کیا گیا ہے (57) الغریر اچھا خلق ۔ کیونکہ وہ بھی دھوکے میں ڈال دیتا ہے ۔ چناچہ ( بوڑھے شخص کے متعلق محاورہ ہے ۔ فلان ادبر غریرہ واقبل ہریرہ ( اس سے حسن خلق جاتارہا اور چڑ چڑاپن آگیا ۔ اور غرہ الفرس سے تشبیہ کے طور پر مشہور معروف آدمی کو اغر کہاجاتا ہے اور مہینے کی ابتدائی تین راتوں کو غرر کہتے ہیں کیونکہ مہینہ میں ان کی حیثیت غرۃ الفرس کی وہوتی ہے غرار السیف تلوار کی دھار اور غرار کے معنی تھوڑا سا دودھ کے بھی آتے ہیں اور غارت الناقۃ کے معنی ہیں اونٹنی کا دودھ کم ہوگیا حالانکہ اس کے متعلق یہ گہان نہ تھا کہ اسکا دودھ کم ہوجائیگا گویا کہ اس اونٹنی نے مالک کو دھوکا دیا ۔- بلد - البَلَد : المکان المحیط المحدود المتأثر باجتماع قطّانه وإقامتهم فيه، وجمعه : بِلَاد وبُلْدَان، قال عزّ وجلّ : لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد 1] ، قيل : يعني به مكة «1» . قال تعالی:- بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ 15] ، فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف 11] ، وقال عزّ وجلّ :- فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف 57] ، رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة 126] ، يعني : مكة و تخصیص ذلک في أحد الموضعین وتنکيره في الموضع الآخر له موضع غير هذا الکتاب «2» . وسمیت المفازة بلدا لکونها موطن الوحشیات، والمقبرة بلدا لکونها موطنا للأموات، والبَلْدَة منزل من منازل القمر، والبُلْدَة : البلجة ما بين الحاجبین تشبيها بالبلد لتمدّدها، وسمیت الکركرة بلدة لذلک، وربما استعیر ذلک لصدر الإنسان «1» ، ولاعتبار الأثر قيل : بجلده بَلَدٌ ، أي : أثر، وجمعه : أَبْلَاد، قال الشاعر :- وفي النّحور کلوم ذات أبلاد وأَبْلَدَ الرجل : صار ذا بلد، نحو : أنجد وأتهم «3» . وبَلِدَ : لزم البلد . ولمّا کان اللازم لموطنه كثيرا ما يتحيّر إذا حصل في غير موطنه قيل للمتحيّر : بَلُدَ في أمره وأَبْلَدَ وتَبَلَّدَ ، قال الشاعر : لا بدّ للمحزون أن يتبلّدا ولکثرة وجود البلادة فيمن کان جلف البدن قيل : رجل أبلد، عبارة عن عظیم الخلق، وقوله تعالی: وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف 58] ، کنایتان عن النفوس الطاهرة والنجسة فيما قيل «5» .- ( ب ل د ) البلد شہر ) وہ مقام جس کی حد بندی کی گئی ہو اور وہاں لوگ آباد ۔ اس کی جمع بلاد اور بلدان آتی ہے اور آیت : ۔ لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد 1] سے مکہ مکرمہ مراد ہے دوسری جگہ فرمایا رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة 126] کہ میرے پروردگار اس شہر کو ( لوگوں کے لئے ) امن کی جگہ بنادے ۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ 15] پاکیزہ شہر ہے ۔ فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف 11] پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا ۔ فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف 57] پھر ہم ان کو ایک بےجان شہر کی طرف چلاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة 126] پروردگار اس جگہ کو امن کا شہر بنا میں بھی مکہ مکرمہ مراد ہے لیکن ایک مقام پر اسے معرفہ اور دوسرے مقام پر نکرہ لانے میں جو لطافت اور نکتہ ملحوظ ہے اسے ہم دوسری کتاب میں بیان کرینگے اور بلد کے معنی بیابان اور قبرستان بھی آتے ہیں کیونکہ پہلاوحشی جانوروں دوسرا مردوں کا مسکن ہوتا ہی ۔ البلدۃ منازل قمر سے ایک منزل کا نام ہے اور تشبیہ کے طور پر ابرو کے درمیان کی جگہ اور اونٹ کے کے سینہ کو بھی بلدۃ کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ یہ بھی شہر کی طرح محدود ہوتے ہیں اور بطور استعارہ انسان کے سینہ پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے اور اثر یعنی نشان کے معنی کے اعتبار سے بجلدہ بلد کا محاورہ استعمال ہوتا ہے یعنی اس کی کھال پر نشان ہے اس کی جمع ابلاد آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے اور ان کے سینوں پر زخموں کے نشانات ہیں ۔ ابلد الرجل شہر میں چلاجانا جیسا کہ انجد اتھم کے معنی نجد اور تہمامہ میں چلے جانے کے ہیں ۔ بلد الرجل کے معنی شہر میں مقیم ہونے کے ہیں اور کسی مقام پر ہمیشہ رہنے والا اکثر اوقات دوسری جگہ میں جاکر متحیر ہوجاتا ہے اس لئے متجیر آدمی کے متعلق وغیرہ ہا کے محاورات استعمال ہوتے ہیں شاعر نے کہا ہے ( ع ) کہ اند وہ گیں لازما متحیر رہے گا ) ۔ اجد لوگ دام طور پر بلید یعنی کند ذہن ہوتے ہیں اس لئے ہر لئے جیم آدمی کو ابلد کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف 58]( جو زمین پاکیزہ دے ) اس میں سے سبزہ بھی پروردگار کے حکم سے ( نفیس ہی ) نکلتا ہے اور جو خراب ہے ۔ اس میں سے جو کچھ نکلتا ہے ناقص ہوتا ہے ) میں بلد کے طیب اور خبیث ہونے سے کنایہ نفوس کا طیب اور خبیث ہونا مراد ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٩٦۔ ١٩٧) اور دنیا فانی ہے اس سے اعراض کرنا چاہیے (دل نہیں لگانا چاہیے) اور آخرت کی طلب و جستجو میں کوشاں رہنا چاہیے اور اے مخاطب ان مشرکین اور یہود کے تجارتی سفر تجھ مغالطہ میں نہ ڈال دیں یہ دنیا کے چکاچوند اور چہل پہل یہ چند روزہ بہار ہے، اس کے بعدان کا ان کا بدترین ٹھکانا جہنم ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

اب فرمایا :- آیت ١٩٦ (لاَ یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِی الْْبِلاَدِ ) - یہ کافر جو ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر بھاگ دوڑ کر رہے ہیں ‘ اور اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے سازشیں کر رہے ہیں ‘ جمعیتیں فراہم کر رہے ہیں ‘ اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی دھوکے میں نہ آئیں ‘ کسی مغالطے کا شکار نہ ہوں ‘ ان کی طاقت کے بارے میں کہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مرعوب نہ ہوجائیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani