دعا کیجئے قبول ہوگی بشرطیکہ؟ یہاں استجاب کے معنی میں اجاب کے ہیں اور یہ عربی میں برابر مروج ہے حضرت ام سلمہ نے ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا بات ہے عورتوں کی ہجرت کا کہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ذکر نہیں کرتا اس پر یہ آیت اتری ، انصاری کا بیان ہے کہ عورتوں میں سب سے پہلی مہاجرہ عورت جو ہودج میں آئیں حضرت ام سلمہ ہی تھیں ام المومنین سے یہ بھی مروی ہے کہ صاحب عقل اور صاحب ایمان لوگوں نے جب اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں جن کا ذکر پہلے کی آیتوں میں تھا تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بھی ان کی منہ مانگی مراد انہیں عطا فرمائی ، اسی لئے اس آیت کو ف سے شروع کیا ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ ۭ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙفَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْابِيْ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:186 ) یعنی میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں تو کہدے کہ میں تو ان کے بہت ہی نزدیک ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے میں اس کی پکار کو قبول فرما لیتا ہوں پس انہیں بھی چاہئے کہ میری مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں ممکن ہے کہ وہ رشد و ہدایت پالیں پھر قبولیت دعا کی تفسیر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ میں کسی عامل کے عمل کو رائیگاں نہیں کرتا بلکہ ہر ایک کو پورا پورا بدلہ عطا فرماتا ہوں خواہ مرد ہو خواہ عورت ، ہر ایک میرے پاس ثواب میں اور اعمال کے بدلے میں یکساں ہے ، پس جو لوگ شرک کی جگہ کو چھوڑیں اور ایمان کی جگہ آجائیں دارالکفر سے ہجرت کریں بھائیوں دوستوں پڑوسیوں اور اپنوں کو اللہ کے نام پر ترک کر دیں مشرکوں کی ایذائیں ہہ ہہ کر تھک کر بھی عاجز آ کر بھی ایمان کو نہ چھوڑیں بلکہ اپنے پیارے وطن سے منہ موڑ لیں جبکہ لوگوں کا انہوں نے کوئی نقصان نہیں کیا تھا جس کے بدلے میں انہیں ستایا جاتا بلکہ ان کا صرف یہ قصور تھا کہ میری راہ پہ چلنے والے تھے صرف میری توحید کو مان کر دنیا کی دشمنی مول لے لی تھی ، میری راہ پر چلنے کے باعث طرح طرح سے ستائے جاتے تھے جیسے اور جگہ ہے آیت ( یخرجون الرسول وایاکم ان تومنوا باللہ ربکم ) یہ لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور تمہیں صرف اس بنا وطن سے نکال دیتے ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو جو تمہارا رب ہے ، اور ارشاد ہے آیت ( وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّآ اَنْ يُّؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ ) 86 ۔ البروج:8 ) ان سے دشمنی اسی وجہ سے ہے کہ اللہ عزیز و حمید پر ایمان لائے ہیں پھر فرماتا ہے انہوں نے جہاد بھی کئے اور یہ شہید بھی ہوئے یہ سب سے اعلیٰ اور بلند مرتبہ ہے ایسا شخص اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے اس کی سواری کٹ جاتی ہے منہ خاک و خون میں مل جاتا ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر میں صبر کے ساتھ نیک نیتی سے دلیری سے پیچھے نہ ہٹ کر اللہ کی راہ میں جہاد کروں اور پھر شہید کر دیا جاؤں تو کیا اللہ تعالیٰ میری خطائیں معاف فرما دے گا ؟ آپ نے فرمایا ہاں پھر دوبارہ آپ نے اس سے سوال کیا کہ ذرا پھر کہنا تم نے کیا کہا تھا ؟ اس نے دوبارہ اپنا سوال دھرا دیا آپ نے فرمایا ہاں مگر قرض معاف نہ ہوگا یہ بات جبرائیل ابھی مجھ سے کہہ گئے ۔ پس یہاں فرمایا ہے کہ میں ان کی خطا کاریاں معاف فرما دوں گا اور انہیں ان جنتوں میں لے جاؤں گا جن میں چاروں طرف نہریں بہہ رہی ہیں جن میں کسی میں دودھ ہے کسی میں شہد کسی میں شراب کسی میں صاف پانی اور وہ نعمتیں ہوں گی جو نہ کسی کان نے سنیں نہ کسی آنکھ نے دیکھیں نہ کسی انسانی دل میں کبھی خیال گزرا ۔ یہ ہے بدلہ اللہ کی طرف سے ظاہر ہے کہ جو ثواب اس شہنشاہ عالی کی طرف سے ہو وہ کس قدر زبردست اور بے انتہا ہوگا ؟ جیسے کسی شاعر کا قول ہے کہ اگر وہ عذاب کرے تو وہ بھی مہلک اور برباد کر دینے والا اور اگر انعام دے تو وہ بھی بےحساب قیاس سے بڑھ کر کیونکہ اس کی ذات بےپرواہ ہے ، نیک اعمال لوگوں کو بہترین بدلہ اللہ ہی کے پاس ہے ، حضرت شداد بن اوس فرماتے ہیں لوگوں اللہ تعالیٰ کی قضا پر غمگین اور بےصبرے نہ ہو جایا کرو سنو مومن پر ظلم وجور نہیں ہوتا اگر تمہیں خوشی اور راحت پہنچے تو اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا شکر کرو اور اگر برائی پہنچے تو صبر و ضبط کرو اور نیکی اور ثواب کی تمنا رکھو اللہ تعالیٰ کے پاس بہترین بدلے اور پاکیزہ ثواب ہیں ۔
195۔ 1 فَا سْتَجَاب یہاں اَجَابَ قبول فرما لی کے معنی میں ہے (فتح القدیر) 195۔ 2 مرد ہو یا عورت کی وضاحت اس لئے کردی کہ اسلام نے بعض معاملات میں مرد اور عورت کے درمیان ان کے ایک دوسرے سے مختلف فطری اوصاف کی بنا پر جو فرق کیا ہے۔ مثلا قومیت اور حاکمیت میں، کسب معاش کی ذمہ داری میں، جہاد میں حصہ لینے میں اور وراثت میں نصف حصہ ملنے میں۔ اس سے یہ نہ سمجھا جائے، کہ نیک اعمال کی جزا میں بھی شاید مرد عورت کے درمیان کچھ فرق کیا جائے گا، نہیں ایسا نہیں ہوگا، نیکی کا جو اجر مرد کو ملے گا وہی عورت کو بھی ملے گا۔ 195۔ 3 یہ جملہ معترضہ ہے اس کا مقصد پچھلے نکتے ہی کی وضاحت ہے یعنی اجر و اطاعت میں تم مرد اور عورت ایک جیسے ہی ہو۔ بعض روایت میں ہے کہ حضرت ام سلمہ (رض) نے ایک مرتبہ عرض کیا یارسول اللہ اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے سلسلے میں عورتوں کا نام نہیں لیا۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی (تفسیر طبری، ابن کثیر و فتح القدیر)
[١٩٥] یعنی مرد اور عورت چونکہ دونوں ایک ہی نوع سے ہیں۔ لہذا نیک اعمال کا جس قدر بدلہ مردوں کو ملے گا۔ اتنا ہی عورتوں کو ملے گا۔ جزائے اعمال کے لحاظ سے دونوں میں کوئی فرق نہیں اور اس دنیا میں جو مرد کو بیوی پر تفوق حاصل ہے۔ اس کی وجوہ دو ہیں۔ ایک عائلی نظام کا استقلال ہے جو ایک ہی سربراہ کی صورت میں برقرار رہ سکتا ہے اور مرد چونکہ قویٰ کے لحاظ سے عورت سے مضبوط ہے۔ لہذا گھر کا سربراہ وہی ہونا چاہئے، اور دوسرے یہ کہ مرد چونکہ بیوی کے نان و نفقہ اور اولاد کی تربیت اور جملہ اخراجات کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ لہذا عقلی طور پر بھی جس کا خرچ ہو رہا ہو اسی کی رائے کو فوقیت دی جانی چاہئے اور یہ معاملہ صرف گھریلو نظام تک محدود ہے۔ رہی جزائے اعمال کی بات تو اس کا انحصار نوع پر نہیں بلکہ ہر عمل کرنے والے کی نیت پر ہے۔ جس قدر نیت پاکیزہ ہوگی اتنا ہی بہتر اجر ملے گا۔- [١٩٦] یعنی جن لوگوں نے میری راہ میں اور اسلام کو سربلند کرنے اور رکھنے کی خاطر جان و مال اور وطن کی قربانیاں دی ہیں اور طرح طرح کے دکھ اٹھائے ہیں، خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں ہوں اللہ سب سے یکساں سلوک کرتے ہوئے ان کی لغزشیں معاف فرما دے گا اور ان قربانیوں کا بہترین صلہ عطا فرماتے ہوئے انہیں پربہار باغات میں داخل کرے گا۔ روایات میں آیا ہے کہ ایک دفعہ حضرت ام سلمہ نے آپ سے عرض کیا : یارسول اللہ قرآن میں جہاں کہیں ہجرت یا اعمال حسنہ کا ذکر آتا ہے تو مردوں کا ہی آتا ہے عورتوں کا کیوں نہیں آتا ؟ تو اس بات کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے۔
فَاسْتَجَابَ لَھُمْ رَبُّھُمْ ۔۔ : یعنی انھوں نے اس طرح دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرما لی۔ پھر ان کی دعا کی قبولیت کی صورت اور کیفیت کا بھی ذکر فرما دیا کہ باری تعالیٰ کسی عامل کے عمل کو ضائع نہیں کرتا۔ اس میں مرد و عورت کا بھی کوئی فرق نہیں، کیونکہ ان کا بعض بعض سے ہے، وہ کوئی الگ الگ مخلوق نہیں ہیں۔ اخروی نجات اور اللہ کے ہاں درجات حاصل کرنے میں مرد و عورت دونوں برابر ہیں، ہاں، مرد و عورت کی جداگانہ ذمہ داریوں کے اعتبار سے فطرتاً ان کی صلاحیتوں میں فرق ہے۔ [ دیکھیے النساء : ٣٢، ٣٤ ]- 2 فَالَّذِيْنَ ھَاجَرُوْا ۔۔ : یعنی جنھوں نے دین کی خاطر اپنی خوشی سے ہجرت کی، اپنے وطن اور مال و منال کو خیر باد کہہ کر مرکز اسلامی میں پہنچ گئے اور وہ لوگ جن پر کفار نے ظلم و ستم ڈھائے، انھیں سخت اذیتیں دے کر گھر بار چھوڑنے پر مجبور کردیا، انھیں کسی طرح چین سے نہ بیٹھنے دیا اور انھیں محض اس لیے تکالیف کا نشانہ بنایا کہ انھوں نے دین اسلام کی راہ اختیار کی، جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : ( يُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِيَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا باللّٰهِ رَبِّكُمْ ) [ الممتحنۃ : ١ ] ” یہ کافر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور تمہیں گھروں سے محض اس جرم کی پاداش میں نکالتے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو۔ “ نیز فرمایا : ( وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّآ اَنْ يُّؤْمِنُوْا باللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْد) [ البروج : ٨ ] ” اور انھوں نے ان سے اس کے سوا کسی چیز کا بدلہ نہیں لیا وہ اس اللہ پر ایمان رکھتے ہیں جو سب پر غالب ہے ہر تعریف کے لائق ہے۔ “
ربط آیات :- سابقہ آیات میں مومنین صالحین کی چند دعاؤں کا ذکر تھا، مذکورہ پہلی آیت میں ان دعاؤں کی قبولیت اور ان کے اعمال صالحہ کے اجر عظیم کا بیان ہے، دوسری تیسری آیتوں میں یہ ہدایت ہے کہ کفار کے ظاہر عیش و عشرت مال و دولت اور دنیا میں چلنے پھرنے سے مسلمانوں کو دھوکہ نہ ہونا چاہئے کہ وہ چند روزہ ہے اور پھر عذاب دائمی۔- چوتھی آیت میں پھر تقوی شعار مسلمانوں کے لئے جنت کی لازوال نعمتوں کا وعدہ ہے، پانچویں میں خصوصیت سے ان مسلمانوں کے اجر عظیم کا ذکر ہے جو پہلے اہل کتاب میں سے تھے پھر مسلمان ہوگئے۔- خلاصہ تفسیر - سو قبول کرلیا ان کی دعاؤں کو ان کے رب نے اس وجہ سے (کہ میری عادت مستمرہ ہے کہ) میں کسی شخص کے (نیک) کام کو جو تم میں سے کام کرنے والا ہو اکارت نہیں کرتا (کہ اس کا بدلہ نہ دیا جائے) خواہ وہ (کام کرنے والا) مرد ہو یا عورت (دونوں کے لئے ایک ہی قانون ہے کیونکہ) تم (دونوں) آپس میں ایک دوسرے کے جزو ہو (اس لئے حکم بھی دونوں کا ایک سا ہی ہے، پس جب انہوں نے ایمان قبول کر کے ایک بڑا نیک عمل کیا، اور اس پر مرتب ہونے والے اثرات کی درخواست کی تو میں نے ان کی دعاء و درخواست کو اپنی عادت مستمرہ کے مطابق منظور کرلیا اور جب ہم ایمان پر ایسے ثمرات عطا فرماتے ہیں) تو جن لوگوں نے (ایمان کے ساتھ اور اعمال شاقہ بھی کئے جیسے ہجرت یعنی) ترک وطن کیا اور (وہ بھی ہنسی خوشی، سیرو سیاحت کے لئے نہیں، بلکہ اس طرح کہ) اپنے گھروں س (تنگ کر کے) نکالے گئے اور (اس کے سوا طرح طرح کی) تکلیفیں (بھی) دیئے گئے (اور یہ باتیں یعنی ہجرت اور وطن سے نکالنا اور مختلف قسم کی ایذائی سب) میری راہ میں (یعنی میرے دین کے سبب ان کو پیش آئیں اور ان سب کو انہوں نے برداشت کیا) اور (اس سے بڑھ کر انہوں نے یہ کام کیا کہ) جہاد (بھی) کیا اور (بہت سے ان میں سے) شہید (بھی) ہوگئے (اور آخر تک جہاد سے نہ ہٹے، تو ایسے محنت کے اعمال پر ثمرات اور نعمتیں کیوں نہ ملیں گی) ضرور ان لوگوں کی تمام خطائیں (جو میرے حقوق کے متعلق ہوگئی ہوں) معاف کر دوں گا اور ضرور ان کو (بہشت کے) ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے (محلات کے) نیچے نہریں جاری ہوں گی (ان کو یہ بدلہ ملے گا اللہ کے پاس سے اور اللہ ہی کے پاس (یعنی اس کے قبضہ قدرت میں) اچھا عوض ہے، (مذکورہ آیات میں مسلمانوں کی کلفتوں کا بیان اور اس کا انجام نیک مذکور تھا، آگے کافروں کے عیش و آرام اور اس کے انجام بد کا ذکر ہے، تاکہ مسلمانوں کی تسلی ہو اور بدعمل لوگوں کو اصلاح اور توبہ کی توفیق ہو۔ )- لایغرنک (اے طالب حق) تجھ کو ان کافروں کا (کسب معاش یا تفریحات کے لئے) چلنا پھرنا مغالطہ میں نہ ڈال دے (کہ اس حالت کی کچھ وقعت کرنے لگے) یہ چند روزہ بہار ہی (کیونکہ مرتے ہی اس کا نام و نشان بھی نہ رہے گا، اور) پھر (انجام یہ ہوگا کہ) ان کا ٹھکانہ (ہمیشہ کے لئے) دوزخ ہوگا اور وہ بری ہی آرام گاہ ہے، لیکن (ان میں سے بھی) جو لوگ خدا سے ڈریں (اور مسلمان و فرمانبردار ہوجائیں) ان کے لئے بہشتی باغات ہیں جن کے (محلات کے) نیچے نہریں جاری ہوگی، وہ ان (باغوں) میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، یہ (ان کی) مہمانی ہوگی اللہ کی طرف سے اور جو چیزیں خدا کے پاس ہیں (جن کا ابھی ذکر ہوا یعنی بہشتی باغ اور نہریں وغیرہ) یہ نیک بندوں کے لئے بدر جہا بہتر ہیں (کفار کی چند روزہ عیش و مسرت سے) ۔- (مذکورہ آیات دعاء سے پہلے اہل کتاب کی بری خصلتوں اور ان کے عذاب و انجام بد کا مسلسل ذکر آیا ہے آ گے ان لوگوں کا ذکر ہے جو اہل کتاب میں سے مسلمان صالح ہوگئے، اس لئے قرآن کی عام عادت کے مطابق بدکرداروں کے قبائح کے بعد نیکو کاروں کی مدائح کا ذکر ہے)- وان من اھل الکتب اور بالقین بعضے لوگ اہل کتاب میں سے ایسے بھی ضرور ہیں جو اللہ پر اعتقاد رکھتے ہیں اور اس کتاب کے ساتھ بھی (اعتقاد رکھتے ہیں) جو تمہارے پاس بھیجی گئی (یعنی قرآن) اور اس کتاب کے ساتھ بھی (اعتقاد رکھتے ہیں) جو ان کے پاس بھیجی گئی (یعنی توراة اور انجیل اور خدا کے ساتھ جو اعتقاد رکھتے ہیں تو) اس طور پر کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے (بھی) ہیں ( اس لئے اس اعتقاد میں حدود سے تجاوز نہیں کرتے کہ اللہ پر اولاد کی تہمت لگائیں یا احکام میں افتراء کریں اور تورات و انجیل کے ساتھ جو اعتقاد رکھتے ہیں تو اس طور پر کہ) اللہ تعالیٰ کی آیات کے مقابلہ میں دنیا کا) کم حقیقت معاوضہ نہیں لیتے، ایسے لوگوں کو ان کا نیک عوض ملے گا ان کے پروردگار کے پاس (اور اس میں کچھ دیر بھی نہ لگے گی، کیونکہ) بلاشبہ اللہ تعالیٰ جلد ہی حساب (کتاب) کردیں گے (اور حساب کتاب کرتے ہی سب کا دینا لینا بےباق کردیں گے۔ )- معارف و مسائل - ہجرت اور شہادت سے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں، مگر قرض وغیرہ حقوق العباد کی معافی کا وعدہ نہیں :۔- لاکفرن عنھم سیاتھم کے تحت خلاصہ تفسیر میں قید لگائی گی ہے کہ اللہ کے حقوق میں جو کو تاہیاں اور گناہ ہوئے وہ معاف ہوں گے اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیث میں قرض اور دین کا مستثنی ہونا بیان فرمایا ہے، اس کی معافی کا ضابطہ یہی ہے کہ خود یا اس کے وارث ان حقوق کو ادا کردیں یا معاف کرا دیں اور کسی شخص پر حق تعالیٰ خاص فضل فرما دیں اور اصحاب حق کو اس سے راضی کر کے معاف کرا دیں یہ اور بات ہے اور بعض کے ساتھ ایسا بھی ہوگا۔
فَاسْتَجَابَ لَھُمْ رَبُّھُمْ اَنِّىْ لَآ اُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى ٠ۚ بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ ٠ۚ فَالَّذِيْنَ ھَاجَرُوْا وَاُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِھِمْ وَاُوْذُوْا فِيْ سَبِيْلِيْ وَقٰتَلُوْا وَقُتِلُوْا لَاُكَفِّرَنَّ عَنْھُمْ سَيِّاٰتِھِمْ وَلَاُدْخِلَنَّھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ٠ۚ ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللہِ ٠ۭ وَاللہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الثَّوَابِ ١٩٥- استجاب - والاستجابة قيل : هي الإجابة، وحقیقتها هي التحري للجواب والتهيؤ له، لکن عبّر به عن الإجابة لقلة انفکاکها منها، قال تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال 24]- ( ج و ب ) الجوب - الاستاأبتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابتہ ( افعال ) کے ہے اصل میں اس کے معنی جواب کے لئے تحری کرنے اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابتہ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے ۔ قرآن میں ہے : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال 24] کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔ - ضيع - ضَاعَ الشیءُ يَضِيعُ ضَيَاعاً ، وأَضَعْتُهُ وضَيَّعْتُهُ. قال تعالی: لا أُضِيعُ عَمَلَ عامِلٍ مِنْكُمْ [ آل عمران 195] - ( ض ی ع ) ضاع - ( ض ) الشیئ ضیاعا کے معنی ہیں کسی چیز کا ہلاک اور تلف کرنا ۔ قرآن میں ہے : لا أُضِيعُ عَمَلَ عامِلٍ مِنْكُمْ [ آل عمران 195] اور ( فرمایا ) کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کرتا ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - ذَّكَرُ ( مذکر)- والذَّكَرُ : ضدّ الأنثی، قال تعالی: وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثى [ آل عمران 36] ، وقال : آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] ، وجمعه : ذُكُور وذُكْرَان، قال تعالی: ذُكْراناً وَإِناثاً [ الشوری 50] ، وجعل الذَّكَر كناية عن العضو المخصوص . والمُذْكِرُ : المرأة التي ولدت ذکرا، والمِذْكَار : التي عادتها أن تذكر، وناقة مُذَكَّرَة : تشبه الذّكر في عظم خلقها، وسیف ذو ذُكْرٍ ، ومُذَكَّر : صارم، تشبيها بالذّكر، وذُكُورُ البقل : ما غلظ منه - الذکر ۔ تو یہ انثی ( مادہ ) کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثى [ آل عمران 36] اور ( نذر کے لئے ) لڑکا ( موزون تھا کہ وہ ) لڑکی کی طرح ( ناتواں ) نہیں ہوتا آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] کہ ( خدا نے ) دونوں ( کے ) نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں ( کی ) مادینوں کو ۔ ذکر کی جمع ذکور و ذکران آتی ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ ذُكْراناً وَإِناثاً [ الشوری 50] بیٹے اور بیٹیاں ۔ اور ذکر کا لفظ بطور کنایہ عضو تناسل پر بھی بولاجاتا ہے ۔ اور عورت نرینہ بچہ دے اسے مذکر کہاجاتا ہے مگر المذکار وہ ہے ۔ جس کی عادت نرینہ اولاد کی جنم دینا ہو ۔ ناقۃ مذکرۃ ۔ وہ اونٹنی جو عظمت جثہ میں اونٹ کے مشابہ ہو ۔ سیف ذوذکر ومذکر ۔ آبدار اور تیر تلوار ، صارم ذکور البقل ۔ وہ ترکاریاں جو لمبی اور سخت دلدار ہوں ۔- أنث - الأنثی: خلاف الذکر، ويقالان في الأصل اعتبارا بالفرجین، قال عزّ وجلّ : وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثى [ النساء 124] - ( ان ث) الانثی ( مادہ ) بہ ذکر یعنی نر کی ضد ہے اصل میں انثیٰ و ذکر عورت اور مرد کی شرمگاہوں کے نام ہیں پھر اس معنی کے لحاظ سے ( مجازا) یہ دونوں نر اور مادہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى ( سورة النساء 124) ۔ جو نیک کام کریگا مرد یا عورت (4 ۔ 124) - - بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - هجر - والمُهاجرَةُ في الأصل :- مصارمة الغیر ومتارکته، من قوله عزّ وجلّ : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] ، وقوله : لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] ، وقوله :- وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] ، فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] فالظاهر منه الخروج من دار الکفر إلى دار الإيمان کمن هاجر من مكّة إلى المدینة، وقیل : مقتضی ذلك هجران الشّهوات والأخلاق الذّميمة والخطایا وترکها ورفضها، وقوله : إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] أي : تارک لقومي وذاهب إليه . - ( ھ ج ر ) الھجر - المھاجر ۃ کے اصل معی) تو ایک دوسرے سے کٹ جانے اور چھوڑ دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور ۃ کفار سے ) جنگ کرتے رہے ۔ اور آیات قرآنیہ : ۔ لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] فے کے مال میں محتاج مہاجرین کا ( بھی ) حق ہے ۔ جو کافروں کے ظلم سے اپنے گھر اور مال سے بید خل کردیئے گئے ۔ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے ۔ فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] تو جب تک یہ لوگ خدا کی راہ میں ( یعنی خدا کے لئے ) ہجرت نہ کر آئیں ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنانا ۔ میں مہاجرت کے ظاہر معنی تو دار الکفر سے نکل کر وادلاسلام کی طرف چلے آنے کے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن بعض نے کہا ہے کہ ہجرت کا حقیقی اقتضاء یہ ہے کہ انسان شہوات نفسانی اخلاق ذمیمہ اور دیگر گناہوں کو کلیۃ تر ک کردے اور آیت : ۔ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] اور ابراہیم نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگاع کی طرف ( جہاں کہیں اس کو منظور ہوگا نکل جاؤ نگا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی قوم کو خیر باد کہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جاؤں گا ۔ - دار - الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : الجنة، - ( د و ر ) الدار ۔- منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ - أذي - الأذى: ما يصل إلى الحیوان من الضرر إمّا في نفسه أو جسمه أو تبعاته دنیویاً کان أو أخرویاً ، قال تعالی: لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذى [ البقرة 264] - ( ا ذ ی ) الاذیٰ ۔- ہرا س ضرر کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو پہنچتا ہے وہ ضرر جسمانی ہو یا نفسانی یا اس کے متعلقات سے ہو اور پھر وہ ضرر دینوی ہو یا اخروی چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى ( سورة البقرة 264) اپنے صدقات ( و خیرات ) کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر برباد نہ کرو ۔ - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- ثوب - أصل الثَّوْب : رجوع الشیء إلى حالته الأولی التي کان عليها، أو إلى الحالة المقدّرة المقصودة بالفکرة، وهي الحالة المشار إليها بقولهم : أوّل الفکرة آخر العمل . فمن الرجوع إلى الحالة الأولی قولهم : ثَابَ فلان إلى داره، وثَابَتْ إِلَيَّ نفسي، وسمّي مکان المستسقي علی فم البئر مَثَابَة، ومن الرجوع إلى الحالة المقدرة المقصود بالفکرة الثوب، سمّي بذلک لرجوع الغزل إلى الحالة التي قدّرت له، وکذا ثواب العمل، وجمع الثوب أَثْوَاب وثِيَاب، وقوله تعالی: وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر 4]- ( ث و ب ) ثوب - کا اصل معنی کسی چیز کے اپنی اصلی جو حالت مقدمہ اور مقصود ہوتی ہے اس تک پہنچ جانا کے ہیں ۔ چناچہ حکماء کے اس قول اول الفکرۃ اٰخرالعمل میں اسی حالت کی طرف اشارہ ہے یعنی آغاز فکر ہی انجام عمل بنتا ہے ۔ چناچہ اول معنی کے لحاظ سے کہا جاتا ہے ۔ شاب فلان الی درہ ۔ فلاں اپنے گھر کو لوٹ آیا ثابت الی نفسی میری سانس میری طرف ہوئی ۔ اور کنوئیں کے منہ پر جو پانی پلانے کی جگہ بنائی جاتی ہے اسے مثابۃ کہا جاتا ہے اور غور و فکر سے حالت مقدرہ مقصود تک پہنچ جانے کے اعتبار سے کپڑے کو ثوب کہاجاتا ہے کیونکہ سوت کاتنے سے عرض کپڑا بننا ہوتا ہے لہذا کپڑا بن جانے پر گویا سوت اپنی حالت مقصود ہ کی طرف لوٹ آتا ہے یہی معنی ثواب العمل کا ہے ۔ اور ثوب کی جمع اثواب وثیاب آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر 4] اپنے کپڑوں کو پاک رکھو ۔- حسن - الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب :- مستحسن من جهة العقل .- ومستحسن من جهة الهوى.- ومستحسن من جهة الحسّ.- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78]- ( ح س ن ) الحسن - ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔
(١٩٥) ان کی درخواست کو منظور کیا کیوں کہ عادت مستمرہ میری یہی ہے کہ میں کسی کے نیک کام کے ثواب کو ضائع نہیں کرتا، جب کہ ایک دوسرے کے دین کی مدد ونصرت میں حامی ہوں، اب مہاجرین کے اعلی درجات کو اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں کہ جن حضرات نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اور آپ کے بعد مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کی اور کفار مکہ نے ان کو ان کے مکانات سے نکال دیا اور جہاد فی سبیل اللہ میں دشمنوں کو قتل کیا اور خود بھی شہید ہوئے تو میں ان کی تمام خطاؤں کو معاف کردوں گا اور ایسے باغات میں داخل کروں گا جہاں محلات اور درختوں کے نیچے سے شہد دودھ، پانی اور شراب طہور کی نہریں بہتی ہوں گی اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے لیے بہترین انعام اور بدلہ ہے۔ ؛- شان نزول : (آیت) ” فاستجاب لہم “۔ (الخ)- عبدالرزاق (رح) ، سعید بن منصور (رح) ، ترمذی (رح) ، حاکم (رح) اور ابن ابی حاتم (رح) نے ام سلمہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے بیان میں عورتوں کا کوئی ذکر نہیں فرمایا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی درخواست کو منظور کرلیا خواہ وہ مرد ہوں یا عورت۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ١٩٥ (فَاسْتَجَابَ لَہُمْ رَبُّہُمْ ) - یہ ہے دعا کی قبولیت کی انتہا کہ اس دعا کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبولیت کا اعلان ہورہا ہے۔- ( اَنِّیْ لَا اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی ج) (بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ ج) - ایک ہی باپ کے نطفے سے بیٹا بھی ہے اور بیٹی بھی ‘ اور ایک ہی ماں کے رحم میں بیٹا بھی پلا ہے اور بیٹی ‘ بھی۔ - (فَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا وَاُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ ) - (وَاُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ ) (وَقٰتَلُوْا وَقُتِلُوْا) (لَاُکَفِّرَنَّ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ ) - ان کے نامۂ اعمال میں اگر کوئی دھبے ہوں گے تو انہیں دھو دوں گا۔- (وَلَاُدْخِلَنَّہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ ج) ۔ ( ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ ط) ۔- یعنی اللہ تعالیٰ کے خاص خزانۂ ‘ فضل سے۔- (وَاللّٰہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الثَّوَابِ ) - اب آخری پانچ آیات جو آرہی ہیں ان کی حیثیت اس سورة مبارکہ کے تمام مباحث پر خاتمۂ ‘ کلام کی ہے۔ یاد رہے کہ اس سورت میں اہل کتاب کا عمومی ذکر بھی ہوا ہے اور یہود و نصاریٰ کا الگ الگ بھی۔ پھر اس میں اہل ایمان کا ذکر بھی ہے اور مشرکین کا بھی۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :139 یعنی تم سب انسان ہو اور میری نگاہ میں یکساں ہو ۔ میرے ہاں یہ دستور نہیں ہے کہ عورت اور مرد ، آقا اور غلام ، کالے اور گورے ، اونچ اور نیچ کے لیے انصاف کے اصول اور فیصلے کے معیار الگ الگ ہوں ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :140 روایت ہے کہ بعض غیر مسلم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ موسیٰ علیہ السلام عصا اور ید بیضا لائے تھے ۔ عیسیٰ علیہ السلام اندھوں کو بینا اور کوڑھیوں کو اچھا کرتے تھے ۔ دوسرے پیغمبر بھی کچھ نہ کچھ معجزے لائے تھے ۔ آپ فرمائیں کہ آپ کیا لائے ہیں ؟ اس پر آپ نے اس رکوع کے آغاز سے یہاں تک کی آیات تلاوت فرمائیں اور ان سے کہا میں تو یہ لایا ہوں ۔