Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٩٤] یعنی وہ اپنے پروردگار سے یہ دعا مانگتے ہیں کہ ہمیں اپنے ان وعدوں کا مصداق بنا دے جو تو نے اپنے رسولوں کے ذریعہ ہم سے کئے ہیں اور ہم سے وہ وعدے پورے کر دے، کہیں ایسا نہ ہو دنیا میں تو ہم پیغمبروں پر ایمان لاکر کافروں کی تضحیک اور طعن و ملامت کا نشان بنے ہی ہوئے ہیں۔ آخرت میں بھی ان کے سامنے ہماری رسوائی ہو اور وہ ہم پر یہ پھبتی کسیں کہ ایمان لاکر بھی تمہیں کیا حاصل ہوا ؟ اور دوسرا معنی اس کا یہ بھی ہے کہ تو نے ہم سے جو اس دنیا میں کفار پر فتح و نصرت عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے اسے پورا فرما، اور کافروں اور منافقوں کی تضحیک اور لعن طعن سے ہمیں بچا لے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا : یعنی تو نے ہم سے اپنے رسولوں کے ذریعے سے ان کی تصدیق اور اتباع کرنے پر دنیا اور آخرت میں جس نصرت اور اجر و ثواب کا وعدہ فرمایا ہے، وہ ہمیں عطا فرما۔ - 2ۭاِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ : یعنی ہمیں یہ ڈر تو نہیں کہ تو وعدہ خلافی کرے گا، بلکہ ہمیں ڈر اپنے ہی اعمال سے ہے کہ یہ اچھے نہیں ہیں، کہیں ہماری رسوائی کا باعث نہ بنیں، اگر تو اپنی رحیمی و کریمی اور غفاری سے ہماری کوتاہیوں کو معاف فرما دے اور ہمیں رسوائی سے بچا لے تو ہماری عین سرفرازی اور تیری بندۂ نوازی ہے۔ پس کلمہ ( ۭاِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ ) سے مقصد عاجزی، خشوع اور بندگی کا اظہار ہے نہ کہ اس کا مطالبہ، کیونکہ اللہ تعالیٰ سے وعدہ خلافی تو محال ہے، پھر مومن کوئی تصور کیسے کرسکتے ہیں۔ (رازی) دعا اور اس کی قبولیت کا یہ وعدہ ایمان اور عمل صالح پر ہے، دعا میں اس کا وسیلہ بھی پیش کرسکتے ہیں، جیسا کہ غار، میں پھنس جانے والے تین آدمیوں نے کیا تھا، البتہ دعا کی قبولیت کے لیے کسی نیک ہستی کو وسیلہ بنانا کہ یا اللہ فلاں کے طفیل میری یہ مشکل حل فرما دے، قرآن و حدیث میں مذکور دعاؤں کے خلاف ہے۔ ہاں، کسی زندہ آدمی سے دعا کروائی جاسکتی ہے اور یہ سنت سے ثابت ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰي رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝ ٠ ۭ اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ۝ ١٩٤- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - خزن - الخَزْنُ : حفظ الشیء في الخِزَانَة، ثمّ يعبّر به عن کلّ حفظ کحفظ السّرّ ونحوه، وقوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر 21]- ( خ زن ) الخزن - کے معنی کسی چیز کو خزانے میں محفوظ کردینے کے ہیں ۔ پھر ہر چیز کی حفاظت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے جیسے بھیدہ وغیرہ کی حفاظت کرنا اور آیت :۔ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر 21] اور ہمارے ہاں ہر چیز کے خزانے ہیں ۔ - قِيامَةُ- : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة،- القیامت - سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے - خُلف ( عهد شكني)- والخُلْفُ : المخالفة في الوعد . يقال : وعدني فأخلفني، أي : خالف في المیعاد بما أَخْلَفُوا اللَّهَ ما وَعَدُوهُ [ التوبة 77] ، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يُخْلِفُ الْمِيعادَ [ الرعد 31] - ( خ ل ف ) خُلف - الخلف کے معنی وعدہ شکنی کے میں محاورہ ہے : اس نے مجھ سے وعدہ کیا مگر اسے پورا نہ کیا ۔ قرآن میں ہے ۔ بِما أَخْلَفُوا اللَّهَ ما وَعَدُوهُ [ التوبة 77] کہ انہوں نے خدا سے جو وعدہ کیا تھا اسکے خلاف کیا ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يُخْلِفُ الْمِيعادَ [ الرعد 31] بیشک خدا خلاف وعدہ نہیں کرتا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٩٤) اور وہ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے پروردگار آپ نے جس چیز کا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پر وعدہ فرمایا ہے اس سے ہمیں بہرہ ور فرمائیے اور کفار کی طرف ہمیں عذاب نہ دیجیے، یقیناً آپ بعث بعد الموت (موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے) اور مومنین سے وعدہ فرمانے میں ہرگز خلاف نہیں کریں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩٤ (رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ ) (وَلَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ط) (اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ ) - ہمیں شک ہے تو اس بات میں کہ آیا ہم تیرے ان وعدوں کے مصداق ثابت ہو سکیں گے یا نہیں۔ لہٰذا تو اپنی شان غفاری سے ہماری کوتاہیوں کی پردہ پوشی کرنا اور ہمیں وہ سب کچھ عطا کردینا جو تو نے اپنے رسولوں کے ذریعے سے وعدہ کیا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :138 یعنی انہیں اس امر میں تو شک نہیں ہے کہ اللہ اپنے وعدوں کو پورا کرے گا یا نہیں ۔ البتہ تردد اس امر میں ہے کہ آیا ان وعدوں کے مصداق ہم بھی قرار پاتے ہیں یا نہیں ۔ اس لیے وہ اللہ سے دعا مانگتے ہیں کہ ان وعدوں کا مصداق ہمیں بنا دے اور ہمارے ساتھ انہیں پورا کر ، کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا میں تو ہم پیغمبروں پر ایمان لا کر کفر کی تضحیک اور طعن و تشنیع کے ہدف بنے ہی ہیں ، قیامت میں بھی ان کافروں کے سامنے ہماری رسوائی ہو اور وہ ہم پر پھبتی کسیں کہ ایمان لا کر بھی ان کا بھلا نہ ہوا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani