Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ترک موالات کی وضاحت یہاں اللہ تعالیٰ ترک موالات کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے مسلمانوں کو کفار سے دوستی اور محض محبت کرنا مناسب نہیں بلکہ انہیں آپس میں ایمان داروں سے میل ملاپ اور محبت رکھنی چاہیے ، پھر انہیں حکم سناتا ہے کہ جو ایسا کرے گا اس سے اللہ بالکل بیزار ہو جائے گا ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَاۗءَ تُلْقُوْنَ اِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَاۗءَكُمْ مِّنَ الْحَقِّ ۚ يُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِيَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ رَبِّكُمْ ) 60 ۔ الممتحنہ:1 ) یعنی مسلمانو میرے اور اپنے دشمنوں سے دوستی نہ کیا کرو اور جگہ فرمایا مومنو یہ یہود و نصاریٰ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں تم میں سے جو بھی ان سے دوستی کرے گا وہ انہی سے ہے ، دوسری جگہ پروردگار عالم نے مہاجر انصار اور دوسرے مومنوں کے بھائی چارے کا ذکر کر کے فرمایا کہ کافر آپس میں ایک دوسرے کے خیرخواہ اور دوست ہیں تم بھی آپس میں اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ پھیل جائے گا اور زبردست فساد برپا ہو گا ۔ البتہ ان لوگوں کو رخصت دے دی گئی جو کسی شہر میں کسی وقت ان کی بدی اور برائی سے ڈر کر دفع الوقتی کے لئے بظاہر کچھ میل ملاپ ظاہر کریں لیکن دل میں ان کی طرف رغبت اور ان سے حقیقی محبت نہ ہو ، جیسے صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ہم بعض قوموں سے کشادہ پیشانی سے ملتے ہیں لیکن ہمارے دل ان پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ صرف زبان سے اظہار کرے لیکن عمل میں ان کا ساتھ ایسے وقت میں بھی ہرگز نہ دے ، یہی بات اور مفسرین سے بھی مروی ہے اور اسی کی تائید اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی کرتا ہے ۔ آیت ( مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِهٖٓ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَقَلْبُهٗ مُطْمَـﭟ بِالْاِيْمَانِ وَلٰكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِ ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ ) 16 ۔ النحل:106 ) جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے سوائے ان مسلمانوں کے جن پر زبردستی کی جائے مگر ان کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو ، بخاری میں ہے حضرت حسن فرماتے ہیں یہ حکم قیامت تک کے لئے ہے ۔ پھر فرمایا اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے ۔ یعنی اپنے دبدبے اور اپنے عذاب سے اس شخص کو خبردار کئے دیتا ہے جو اس کے فرمان کی مخالفت کر کے اس کے دشمنوں سے دوستی رکھے اور اس کے دوستوں سے دشمنی کرے ۔ پھر فرمایا اللہ کی طرف لوٹنا ہے ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کا بدلہ وہیں ملے گا ۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھڑے ہو کر فرمایا اے بنی اود میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد ہو کر تمہاری طرف آیا ہوں جان لو کہ اللہ کی طرف پھر کر سب کو جانا ہے پھر یا تو جنت ٹھکانا ہو گا یا جہنم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 اولیاء ولی کی جمع ہے ولی ایسے دوست کو کہتے ہیں جس سے دلی محبت اور خصوصی تعلق ہو جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو اہل ایمان کا ولی قرار دیا ہے۔ (اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۙيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ) 002:257 یعنی اللہ اہل ایمان کا ولی ہے مطلب یہ ہوا کہ اہل ایمان کو ایک دوسرے سے محبت اور ایک دوسرے کیساتھ خصوصی تعلق ہے اور وہ آپس میں ایک دوسرے کے ولی (دوست) ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں اہل ایمان کو اس بات سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے کہ وہ کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں کیونکہ کافر اللہ کے بھی دشمن ہیں اور اہل ایمان کے بھی دشمن ہیں۔ تو پھر ان کو دوست بنانے کا جواز کس طرح ہوسکتا ہے ؟ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو قرآن کریم میں کئی جگہ وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ تاکہ اہل ایمان کافروں کی موالات (دوستی) اور ان سے خصوصی تعلق قائم کرنے سے گریز کریں۔ البتہ حسب ضرورت و مصلحت ان سے صلح و معاہدہ بھی ہوسکتا ہے اور تجارتی لین دین بھی۔ اسی طرح جو کافر مسلمانوں کے دشمن نہ ہوں ان سے حسن سلوک اور مدارات کا معاملہ بھی جائز ہے (جس کی تفصیل سورة ممتحنہ میں ہے) کیونکہ یہ سارے معاملات، موالات (دوستی و محبت) سے مختلف ہے۔ 28۔ 2 یہ اجازت ان مسلمانوں کے لئے ہے جو کسی کافر کی حکومت میں رہتے ہوں کہ ان کے لئے اگر کسی وقت اظہار دوستی کے بغیر ان کے شر سے بچنا ممکن نہ ہو تو وہ زبان سے ظاہری طور پر دوستی کا اظہار کرسکتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣١] اس آیت میں مومنوں کو انفرادی اور اجتماعی دونوں لحاظ سے خطاب ہے۔ یعنی کوئی مومن کسی کافر کو دوست نہ بنائے۔ مومنوں کی جماعت کافروں کی جماعت کو دوست نہ بنائے اور نہ ہی مومنوں کی حکومت کافروں کی حکومت کو اپنا دوست بنائے۔ وجہ یہ ہے کہ کافر کبھی مومن کا خیر خواہ نہیں ہوسکتا۔ جب بھی اسے موقع ملے گا وہ نقصان ہی پہنچائے گا۔ اس سے خیر کی توقع نہیں اور اس میں استثناء یہ ہے کہ اگر تمہیں محض بےتعلق رہنے کی وجہ سے کسی کافر سے کچھ خطرہ ہو تو ظاہرداری اور مدارات کے طور پر اس سے دوستی رکھنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اب اس میں بیشمار باتیں ایسی آجاتی ہیں جو محض مومن کی صوابدید پر چھوڑ دی گئی ہیں۔ مثلاً یہ خطرہ جان، مال اور آبرو کے ضائع ہونے کا ہے یا کسی اور بات کا ؟ اور آیا یہ خطرہ فی الواقعہ موجود ہے یا موہوم ہے ؟۔ نیز یہ کہ اس خطرہ کا اثر محض اس کی ذات تک محدود ہے یا یہ بات دوسرے مسلمانوں کے لیے بھی فتنہ کا سبب بن سکتی ہے ؟ یا اگر وہ کافروں سے دوستی رکھ کر اپنے آپ کو محفوظ کرلیتا ہے تو اس کا نقصان دوسرے مسلمانوں کو تو نہ پہنچے گا ؟ وغیرہ وغیرہ۔ اب دیکھئے کہ ان تمام سوالوں کے جوابات مختلف ہیں۔ مثلاً پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر فی الواقعہ جان، مال اور آبرو خطرہ میں ہے تو اس اجازت سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ موہوم خطرات کا اعتبار نہیں کرنا چاہئے اور اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر کافر سے ظاہرداری اور بچاؤ کی تدبیر نہ کی جائے اور اس کا نقصان مسلمانوں کو پہنچتا ہو تو ضرور بچاؤ اور تحفظ کی راہ نکالی جائے اور چوتھے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر اس کی دوستی سے وہ خود تو محفوظ ہو، مگر دوسرے مسلمانوں کو نقصان پہنچ رہا ہو تو ہرگز ایسا نہ کرنا چاہئے۔ ایسے موقعوں پر ان سوالوں کے علاوہ اور بھی کئی طرح کے سوال پیدا ہوسکتے ہیں۔ مثلاً جس خطرہ کو وہ حقیقی سمجھ رہا ہے وہ محض ایک فریب ہو۔ وغیرہ۔ - ان سوالوں کا جواب نہایت ایمانداری اور دینداری سے دل میں سوچ لینا چاہئے پھر اس کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس اجازت کے بعد فرما دیا (وَيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ ُ 28 ؀) 3 ۔ آل عمران :28) گویا ایسی باتوں کا جواب اس اللہ سے ڈر کر تمہیں سوچنا چاہئے جس کے ہاں تمہیں لوٹ کر جانا ہے اور وہ تمہارے دلوں کے حالات اور خیالات تک کو بھی خوب جانتا ہے اور اس بات پر بھی قادر ہے کہ اگر تم کافر سے ڈرو نہیں بلکہ اللہ کے ہی ڈر کو مقدم رکھو تو تمہیں انکے فتنہ و شر سے بچانے کی پوری قدرت رکھتا ہے اور کئی دوسری راہیں بھی پیدا کرسکتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ ۔۔ : جب اکیلا اللہ تعالیٰ ہی بادشاہی کا مالک، عزت و ذلت دینے والا اور ہر خیر والا ہے تو ایمان والوں پر بھی لازم ہے کہ وہ اس کے دوستوں سے دوستی اور اس کے دشمنوں سے دشمنی رکھیں، کسی فائدے کی امید پر اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں سے دوستی نہ رکھیں اور جو شخص ایسا کرے گا اس کے لیے اللہ کی دوستی میں سے ذرہ برابر حصہ بھی نہیں ہوگا۔ ہاں، ان کے شر سے کسی طرح بچنے کے لیے ظاہری طور پر دوستی کا اظہار جائز ہے، جب کہ دل میں ان کے کفر کی وجہ سے نفرت ہو۔ اسی طرح جو کافر مسلمانوں کے خلاف نہ لڑتے ہوں اور نہ کسی لڑنے والے کی مدد کرتے ہوں تو ان سے حسن سلوک اور مدارات جائز ہے۔ دیکھیے سورة ممتحنہ ( ٨، ٩) ۔- اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰىةً ۭ لفظ ” تُقٰىةً ۭ“ ” وَقٰی یَقِیْ “ سے مصدر ہے، تنوین کی وجہ سے ” کسی طرح بچنا “ ترجمہ کیا ہے۔ ” تقیہ “ بھی اس کا ہم معنی ہے۔ طبری اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس (رض) سے حسن سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مومنوں کو منع کیا ہے کہ وہ کافروں سے دلی دوستی رکھیں، الا یہ کہ کافر ان پر غالب ہوں تو ان کے لیے نرمی کا اظہار کریں، مگر دین میں ان کی مخالفت کریں۔ مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورة مائدہ (٥١، ٥٦) اور تقیہ کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة نحل (١٠٦) ۔ - ان آیات سے کسی مسلمان کے لیے مسلمانوں کے ملک کو چھوڑ کر کفار کے ملک میں رہنے کی کراہت بھی ثابت ہوتی ہے، کیونکہ وہاں مسلمان کے لیے کفار سے دوستی کے عملی ثبوت کے بغیر رہنا اور اپنے اور اہل و عیال کے دین کو بچانا مشکل ہے، اس لیے اگر کوئی مسلمان کہیں مغلوب ہے تو اسے جان بچانے کے لیے دوستی کا اظہار تو جائز ہے، مگر وہاں سے ہجرت کرکے مسلمانوں کے علاقے میں آنا لازم ہے۔ ہاں، بےبس ہو تو اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے۔ یہ اور اس مفہوم کی دوسری آیات مسلم حکومتوں کی خارجہ پالیسی کی وضاحت کرتی ہیں اور انفرادی معاملات میں مدارات کی بھی، جیسا کہ ابو درداء (رض) نے فرمایا : ” ہم بعض لوگوں کے سامنے مسکراتے ہیں، جب کہ ہمارے دل ان پر لعنت کر رہے ہوتے ہیں۔ “ [ بخاری، الأدب، باب المداراۃ مع الناس ۔۔ ، قبل ح : ٦١٣١ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- ربط آیات : مذکور الصدر آیات میں مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ کافروں کو دوست نہ بنائیں اور اس ہدایت کی مخالفت کرنے والوں کے لئے سخت وعید ہے کہ جو ان کو دوست بنائے گا، اس کا اللہ تعالیٰ سے دوستی و محبت کا علاقہ قطع ہوجائے گا، کافروں سے باطنی اور دلی دوستی تو مطلقا حرام ہے، اور ظاہری دوستی معاملات کے درجہ میں اگرچہ جائز ہے، مگر بلا ضرورت وہ بھی پسند نہیں۔- مختصر تفسیر ان آیات کی یہ ہے مسلمانوں کو چاہئے کہ (ظاہرا یا باطنا) کفار کو دوست نہ بنائیں مسلمانوں ( کی دوستی) سے تجاوز کر کے ( یہ تجاوز دو صورت سے ہوتا ہے، ایک یہ کہ مسلمانوں سے بالکل دوستی نہ رکھیں، دوسرے یہ کہ مسلمانوں کے ساتھ بھی دوستی ہو اور کفار کے ساتھ بھی، دونوں صورتیں ممانعت میں داخل ہیں) اور جو شخص ایسا ( کام) کرے گا سو وہ اللہ کے ساتھ دوستی رکھنے کے کسی شمار میں نہیں (کیونکہ جن دو شخصوں میں باہم عداوت ہو ایک سے دوستی کر کے دوسرے سے دوستی کا دعوی قابل اعتماد نہیں ہوسکتا) مگر ایسی صورت میں (ظاہری دوستی کی اجازت ہے) کہ تم اس سے کسی قسم کا (قوی) اندیشہ رکھتے ہو ( وہاں دفع ضرر کی ضرورت ہے) اور اللہ تعالیٰ تم کو اپنی ذات ( عظیم الشان سے) ڈراتا ہے ( کہ اس کی ذات سے ڈر کر احکام کی مخالفت مت کرو) اور خدا ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ( اس وقت کی سزا کا خوف کرنا ضرور ہے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان سے) فرمادیجیے کہ اگر تم ( دل ہی دل میں) پوشیدہ رکھو گے اپنا مافی الضمیر یا اس کو ( زبان وجوارح سے) ظاہر کردو گے اللہ تعالیٰ اس کو (ہرحال میں) جانتے ہیں اور ( اسی کی کیا تخصیص ہے) وہ تو سب کچھ جانتے ہیں، جو کچھ کہ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ کہ زمین میں ہے (کوئی چیز ان سے مخفی نہیں) اور (علم کے ساتھ) اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت بھی کامل رکھتے ہیں (سو اگر تم کسی امر قبیح کا ارتکاب کرو گے خواہ ظاہرا یا باطنا تو وہ تم کو سزا دے سکتے ہیں) جس روز ( ایسا ہوگا) کہ ہر شخص اپنے اچھے کئے ہوئے کاموں کو سامنے لایا ہوا پائے گا، اور اپنے برے کئے ہوئے کاموں کو (بھی پائے گا اس روز) اس بات کی تمنا کرے گا کہ کیا خوب ہوتا جو اس شخص کے اور اس روز کے درمیان دور دراز کی مسافت (حائل) ہوتی ( تاکہ اپنے اعمال بد کا معائنہ نہ کرنا پڑتا) اور (تم سے پھر مکرر کہا جاتا ہے کہ) خدا تعالیٰ تم کو اپنی ذات ( عظیم الشان) سے ڈراتے ہیں ( اور یہ ڈرانا اس وجہ سے ہے کہ) اللہ تعالیٰ نہایت مہربان ہیں (اپنے) بندوں (کے حال) پر (اس مہربانی سے یوں چاہتے ہیں کہ یہ سزائے آخرت سے بچے رہیں، اور بچنے کا طریقہ ہے اعمال بد کا ترک کرنا، اور ترک کرنا عادۃ بدون ڈرانے کے ہوتا نہیں، اس لئے ڈراتے ہیں، پس یہ ڈرانا عین شفقت و رحمت ہے) - معارف و مسائل - اس مضمون کی آیات قرآن کریم میں جابجا مختلف عنوانات کے ساتھ بکثرت آئی ہیں، سورة ممتحنہ میں ارشاد ہے : ( یا ایھا الذین امنوا لا تتخوا عدوی وعدوکم اولیاء تلقون الیھم بالمودۃ۔ " یعنی اے ایمان والو میرے دشمن اور اپنے دشمن یعنی کافر کو دوست نہ بناؤ کہ تم ان کو پیغام بھیجو دوستی کے "۔- پھر اس کے آخر میں فرمایا : (ومن یفعلہ منکم فقد ضل سواء السبیل۔ " جس شخص نے ان سے دوستی کی تو وہ سیدھے راستہ سے گمراہ ہوگیا "۔- اور دوسری جگہ ارشاد ہے : (یایھا الذین امنوا لا تتخذوا الیھود والنصری اولیاء بعضھم اولیاء بعض ومن یتولھم منکم فانہ منھم۔ " یعنی اے ایمان والو یہود و نصاری کو دوست نہ بناؤ کیونکہ وہ آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ( مسلمانوں سے ان کو کوئی دوستی اور ہمدردی نہیں) تو جو ان سے دوستی کرے گا وہ انہی میں شمار ہوگا "۔ اور سورة مجادلہ میں ہے : (لا تجد قوم یومنون باللہ والیوم الاخر یوادون من حاد اللہ و رسولہ ولو کانوا اباءھم او ابناءھم او اخوانھم او عشیرتھم۔ " یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ پائیں گے کسی قوم کو جو یقین رکھتے ہوں اللہ پر اور آخرت کے دن پر کہ دوستی کریں ایسے لوگوں سے جو مخالف ہیں اللہ کے اور اس کے رسول کے خواہ وہ اپنے باپ دادا ہی ہوں، یا اپنی اولاد یا اپنے بھائی، یا اپنے خاندان والے "۔ کفار کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات کیسے ہونے چاہئیں ؟ یہ مضمون بہت سی آیات قرآنیہ میں مجمل اور مفصل مذکور ہے جس میں مسلمانوں کو غیر مسلموں کے ساتھ موالات اور دوستی اور محبت سے شدت کے ساتھ روکا گیا ہے، ان تصریحات کو دیکھ کر حقیقت حال سے ناواقف غیر مسلموں کو تو یہ شبہ ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں کے مذہب میں غیر مسلموں سے کسی قسم کی رواداری اور تعلق کی بلکہ حسن اخلاق کی بھی کوئی گنجائش نہیں، اور دوسری طرف اس کے بالمقابل جب قرآن کی بہت سی آیات سے اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات اور عمل سے خلفائے راشدین (رض) اور دوسرے صحابہ کرام (رض) کے تعامل سے غیر مسلموں کے ساتھ احسان و سلوک اور ہمدردی و غمخواری کے احکام اور ایسے ایسے واقعات ثابت ہوتے ہیں جن کی مثالیں دنیا کی اقوام میں ملنا مشکل ہیں، تو ایک سطحی نظر رکھنے والے مسلمان کو بھی اس جگہ قرآن وسنت کے احکام و ارشادات میں باہم تعارض اور تصادم محسوس ہونے لگتا ہے، مگر یہ دونوں خیال قرآن کی حقیقی تعلیمات پر طائرانہ نظر اور ناقص تحقیق کا نتیجہ ہوتے ہیں، اگر مختلف مقامات سے قرآن کی آیات کو جو اس معاملہ سے متعلق ہیں جمع کر کے غور کیا جائے تو نہ غیر مسلموں کے لئے وجہ شکایت باقی رہتی ہے، نہ آیات و روایات میں کسی قسم کا تعارض باقی رہتا ہے، اس لئے اس مقام کی پوری تشریح کردی جاتی ہے جس سے موالات اور احسان و سلوک یا ہمدردی و غمخواری میں باہمی فرق اور ہر ایک کی حقیقت بھی معلوم ہوجائے گی، اور یہ بھی کہ ان میں کون سا درجہ جائز ہے کون سا ناجائز اور جو ناجائز ہے اس کی وجوہ کیا ہیں۔ بات یہ ہے کہ دو شخصوں یا دو جماعتوں میں تعلقات کے مختلف درجات ہوتے ہیں، ایک درجہ تعلق کا قلبی موالات یا دلی موددت و محبت ہے، یہ صرف مومنین کے ساتھ مخصوص ہے غیر مومن کے ساتھ مومن کا یہ تعلق کسی حال میں قطعا جائز نہیں۔ دوسرا درجہ مواسات کا ہے جس کے معنی ہیں ہمدردی و خیر خواہی اور نفع رسانی کے، یہ بجز کفار اہل حرب کے جو مسلمانوں سے برسر پیکار ہیں باقی سب غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے۔ سورة ممتحنہ کی آٹھویں آیت میں اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے جس میں ارشاد ہے۔- ( لا ینھکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم وتقسطوا الیھم۔ ٦٠: ٨) " یعنی اللہ تعالیٰ تم کو منع نہیں کرتا ان سے جو لڑتے نہیں تم سے دین پر اور نکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان کے ساتھ احسان اور انصاف کا سلوک کرو "۔ - تیسرا درجہ مدارات کا ہے جس کے معنی ہیں ظاہری خوش خلقی اور دوستانہ برتاؤ کے، یہ بھی تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے، جبکہ اس سے مقصود ان کو دینی نفع پہنچانا ہو یا وہ اپنے مہمان ہوں، یا ان کے شر اور ضرر رسانی سے اپنے آپ کو بچانا مقصود ہو، سورة آل عمران کی آیت مذکورہ میں ( الا ان تتقوا منھم تقتۃ) سے یہی درجہ مدارات کا مراد ہے، یعنی کافروں سے موالات جائز نہیں، مگر ایسی حالت میں جبکہ تم ان سے اپنا بچاؤ کرنا چاہو اور چونکہ مدارات میں بھی صورت موالات کی ہوتی ہے اس لئے اس کو موالات سے مستثنی قرار دے دیا گیا۔ ( بیان القرآن) - چوتھا درجہ معاملات کا ہے کہ ان سے تجارت یا اجرت و ملازمت اور اور صنعت و حرفت کے معاملات کئے جائیں، یہ بھی تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے، بجز ایسی حالت کے کہ ان معاملات سے عام مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہو، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفائے راشدین (رض) اور دوسرے صحابہ (رض) کا تعامل اس پر شاہد ہے، فقہاء نے اسی بناء پر کفار اہل حرب کے ہاتھ اسلحہ فروخت کرنے کو ممنوع قرار دیا ہے، باقی تجارت وغیرہ کی اجازت دی ہے، اور ان کو اپنا ملازم رکھنا یا خود ان کے کارخانوں اور اداروں میں ملازم ہونا یہ سب جائز ہے۔ اس تفصیل سے آپ کو یہ معلوم ہوگیا کہ قلبی اور دلی دوستی و محبت تو کسی کافر کے ساتھ کسی حال میں جائز نہیں، اور احسان و ہمدردی و نفع رسانی بجز اہل حرب کے اور سب کے ساتھ جائز ہے، اسی طرح ظاہری خوش خلقی اور دوستانہ برتاؤ بھی سب کے ساتھ جائز ہے، جبکہ اس کا مقصد مہمان کی خاطر داری یا غیر مسلموں کو اسلامی معلومات اور دینی نفع پہنچانا یا اپنے آپ کو ان کے کسی نقصان و ضرر سے بچانا ہو۔ - رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو رحمۃ للعالمین ہو کر اس دنیا میں تشریف لائے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غیر مسلموں کے ساتھ جو احسان و ہمدردی اور خوش خلقی کے معاملات کئے، اس کی نظیر دنیا میں ملنا مشکل ہے، مکہ میں قحط پڑا تو جن دشمنوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے وطن سے نکالا تھا، ان کی خود امداد فرمائی، پھر مکہ مکرمہ فتح ہو کر یہ سب دشمن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قابو میں آگئے تو سب کو یہ فرماکر آزاد کردیا کہ (لاتثریب علیکم الیوم) یعنی آج تمہیں صرف معافی نہیں دی جاتی بلکہ تمہارے پچھلے مظالم اور تکالیف پر ہم کوئی ملامت بھی نہیں کرتے، غیر مسلم جنگی قیدی ہاتھ آئے تو ان کے ساتھ وہ سلوک کیا جو اپنی اولاد کے ساتھ بھی ہر شخص نہیں کرتا، کفار نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو طرح طرح کی ایذائیں پہنچائیں، کبھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ انتقام کے لئے نہیں اٹھا، زبان مبارک سے بد دعا بھی نہیں فرمائی، بنوثقیف جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے ان کا ایک وفد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا، تو ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا گیا، جو مسلمانوں کے لئے سب سے زیادہ عزت کا مقام تھا۔ فاروق اعظم (رض) نے غیر مسلم محتاج ذمیوں کو مسلمانوں کی طرح بیت المال سے وظیفے دیئے۔ خلفائے راشدین اور صحابہ کرام (رض) اجمعین کے معاملات اس قسم کے واقعات سے بھرے ہوئے ہیں، یہ مواسات یا مدارات یا معاملات کی صورتیں تھیں، جس موالات سے منع کیا گیا وہ نہ تھی۔- اس تفصیل اور تشریح سے ایک طرف تو یہ معلوم ہوگیا کہ غیر مسلموں کے لئے اسلام میں کتنی رواداری اور حسن سلوک کی تعلیم ہے دوسری طرف جو ظاہری تعارض ترکب موالات کی آیات سے محسوس ہوتا تھا وہ بھی رفع ہوگیا۔- اب ایک بات یہ باقی رہ گئی کہ قرآن نے کفار کی موالات اور قلبی دوستی و محبت کو اتنی شدت کے ساتھ کیوں روکا کہ وہ کسی حال میں کسی کافر کے ساتھ جائز نہیں رکھی، اس میں کیا حکمت ہے ؟ اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ اسلام کی نظر میں اس دنیا کے اندر انسان کا وجود عام جانوروں یا جنگل کے درختوں اور گھاس پھوس کی طرح نہیں کہ پیدا ہوئے، پھولے پھلے پھر مر کر ختم ہوگئے، بلکہ انسان کی زندگی اس جہان میں ایک مقصدی زندگی ہے، اس کی زندگی کے تمام ادوار، اس کا کھانا پینا، اٹھنا، بیٹھنا، سونا جاگنا، یہاں تک کہ جینا اور مرنا سب ایک مقصد کے گرد گھومتے ہیں، جب تک وہ اس مقصد کے مطابق ہیں تو یہ سارے کام صحیح و درست ہیں، اس کے مخالف ہیں تو یہ سب غلط ہیں، دانائے روم نے خوب فرمایا :- زندگی از بہر ذکر و بندگی ست - بے عبادت زندگی شرمندگی ست - جو انسان اس مقصد سے ہٹ جائے وہ دانائے روم و اہل حقیقت کے نزدیک انسان نہیں۔- آنچہ می بینی خلاف آدم اند - نینند آدم غلاف آدم اند - قرآن حکیم نے اسی مقصد کا اقرار انسان سے ان الفاظ میں لیا ہے۔ (قل ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین۔ ٦: ١٦٢) " آپ کہیے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت سب اللہ رب العالمین کے لئے ہے "۔- اور جب انسان کی زندگی کا مقصد اللہ رب العالمین کی اطاعت و عبادت ٹھہرا تو دنیا کے کاروبار ریاست و سیاست اور عائلی تعلقات سب اس کے تابع ٹھہرے، تو جو انسان اس مقصد کے مخالف ہیں وہ انسان کے سب سے زیادہ دشمن ہیں، اور اس دشمنی میں چونکہ شیطان سب سے آگے ہے اس لئے قرآن حکیم نے فرمایا :- ( ان الشیطان لکم عدوا فاتخذوہ عددوا۔ ٣٥: ٦) " یعنی شیطان تمہارا دشمن ہے اس کی دشمن کو ہمیشہ یاد رکھو "۔- اسی طرح جو لوگ شیطان وساوس کے پیرو اور انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعہ آئے ہوئے احکام خداوندی کے مخالف ہیں ان کے ساتھ دلی ہمدردی اور قلبی دوستی اس شخص کی ہو ہی نہیں سکتی جس کی زندگی ایک مقصدی زندگی ہے، اور دوستی و دشمنی اور موافقت و مخالفت سب اس مقصد کے تابع ہیں۔- اسی مضمون کو صحیحین کی ایک حدیث میں اس طرح ارشاد فرمایا گیا ہے : (من احب للہ وابغض للہ فقد استکمل ایمانہ (بخاری، مسلم) " یعنی جس شخص نے اپنی دوستی اور دشمنی کو صرف اللہ کے لئے وقف کردیا اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا "۔ معلوم ہوا کہ ایمان کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جبکہ انسان اپنی محبت و دوستی اور دشمنی و نفرت کو اللہ تعالیٰ کے تابع بناوے، اس لئے مومن کی قلبی موالات اور مودت صرف اسی کے لئے ہوسکتی ہے جو اس مقصد کا ساتھی اور اللہ جل شانہ کا تابع فرمان ہے، اس لئے قرآن کریم کی مذکورہ آیتوں میں کافروں کے ساتھ دلی اور قلبی موالات اور دوستی کرنے والوں کے بارے میں کہا گیا کہ وہ انہی میں سے ہیں۔ آخر آیت میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تم کو اپنی ذات عظیم سے ڈراتا ہے، ایسا نہ ہو کہ چند روزہ اغراض و مقاصد کی خاطر موالات کفار میں مبتلا ہو کر اللہ جل شانہ کو ناراض کر بیٹھو، اور چونکہ موالات کا تعلق دل سے ہے، اور دل کا حال اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اس لئے یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص واقع میں تو کفار کی موالات و محبت میں مبتلا ہو مگر زبانی انکار کرے، اس لئے دوسری آیت میں فرمایا کہ تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اللہ تعالیٰ اس سے خوب واقف و خبردار ہیں، یہ انکار و حیلہ ان کے سامنے نہیں چل سکتا :- کار ہا با خلق آری جملہ راست - با خدا تزویر و حیلہ کے رواست

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ۝ ٠ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللہِ فِيْ شَيْءٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰىۃً۝ ٠ ۭ وَيُحَذِّرُكُمُ اللہُ نَفْسَہٗ۝ ٠ ۭ وَاِلَى اللہِ الْمَصِيْرُ۝ ٢٨- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - ولي - والوَلَايَةُ : تَوَلِّي الأمرِ ، وقیل : الوِلَايَةُ والوَلَايَةُ نحو : الدِّلَالة والدَّلَالة، وحقیقته : تَوَلِّي الأمرِ. والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] ، إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف 196] ، وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 68] ، ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد 11] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] ، وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج 78] ، قال عزّ وجلّ : قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة 6] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم 4] ، ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام 62]- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - الوالایتہ ( بکسر الواؤ ) کے معنی نصرت اور والایتہ ( بفتح الواؤ ) کے معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دلالتہ ودلالتہ کی طرح ہے یعنی اس میں دولغت ہیں ۔ اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ الوالی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف 196] میرا مددگار تو خدا ہی ہے ۔ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران 68] اور خدا مومنوں کا کار ساز ہے ۔ ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد 11] یہ اسلئے کہ جو مومن ہیں ان کا خدا کار ساز ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] خوب حمائتی اور خوب مددگار ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج 78] اور خدا کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو وہی تمہارا دوست ہے اور خوب دوست ہے ۔ اور ودسرے معنی یعنی اسم مفعول کے متعلق فرمایا : ۔ قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة 6] کہدو کہ اے یہود اگر تم کو یہ دعوٰی ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم 4] اور پیغمبر ( کی ایزا ) پر باہم اعانت کردگی تو خدا ان کے حامی اور ودست دار ہیں ۔ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام 62] پھر قیامت کے تمام لوگ اپنے مالک پر حق خدائے تعالیٰ کے پاس واپس بلائے جائیں گے ۔- دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔ - تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- حذر - الحَذَر : احتراز من مخیف، يقال : حَذِرَ حَذَراً ، وحذرته، قال عزّ وجل : يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر 9] ، وقرئ : وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَ 3» ، وقال تعالی: وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ- [ آل عمران 28] ، وقال عزّ وجل : خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء 71] ، أي : ما فيه الحذر من السلاح وغیره، وقوله تعالی: هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون 4] ، وقال تعالی:- إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن 14] ، وحَذَارِ ، أي : احذر، نحو :- مناع، أي : امنع .- ( ح ذ ر) الحذر ( س) خوف زدہ کرنے والی چیز سے دور رہنا کہا جاتا ہے حذر حذرا وحذرتہ میں اس سے دور رہا ۔ قرآن میں ہے :۔ يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر 9] آخرت سے ڈرتا ہو ۔ وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَاور ہم سب باسازو سامان ہیں ۔ ایک قرآت میں حذرون ہے هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون 4] یہ تمہاری دشمن میں ان سے محتاط رہنا ۔ إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن 14] تمہاری عورتوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ( بھی ) ہیں سو ان سے بچتے رہو۔ حذر ۔ کسی امر سے محتاط رہنے کے لئے کہنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 28] اور خدا تم کو اپنے ( غضب ) سے محتاط رہنے کی تلقین کرنا ہے الحذر بچاؤ ۔ اور آیت کریمہ :۔ خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء 71] جہاد کے لئے ) ہتھیار لے لیا کرو ۔ میں حذر سے مراد اسلحۃ جنگ وغیرہ ہیں جن کے ذریعہ دشمن سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے حذار ( اسم فعل بمعنی امر ) بچو جیسے مناع بمعنی امنع - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - صير - الصِّيرُ : الشِّقُّ ، وهو المصدرُ ، ومنه قرئ : فَصُرْهُنَّ وصَارَ إلى كذا : انتهى إليه، ومنه : صِيرُ البابِ لِمَصِيرِهِ الذي ينتهي إليه في تنقّله وتحرّكه، قال : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری 15] .- و «صَارَ» عبارةٌ عن التّنقل من حال إلى حال .- ( ص ی ر ) الصیر - کے معنی ایک جانب یا طرف کے ہیں دراصل یہ صار ( ض) کا مصدر ہے ۔ اور اسی سے آیت فصوھن ہیں ایک قرآت فصرھن ہے ۔ صار الی کذا کے معنی کسی خاص مقام تک پہنچ جانا کے ہیں اسی سے صیر الباب ہے جس کے معنی درداڑہ میں شگاف اور جھروکا کے ہیں اور اسے صیر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نقل و حرکت کا منتہی ہوتا ہے اور صار کا لفظ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ اسی سے المصیر اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز نقل نہ حرکت کے بعد پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری 15] یعنی اللہ تعالیٰ ہی لوٹنے کی جگہ ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (لایت خدا لمومنون الکافریناولیاء من دون المؤمنین، اہل ایمان مسلمانوں کو چھوڑکر کافروں کو اپنا اپناہمدرد نہ بنائیں) تاآکر آیت۔ اس میں کافروں کو دوست بنانے کی نہی ہے۔ اس لیئے کہ آیت میں داردفعل (لایتخذ) مجزوم ہے اس لیئے اس میں نہی کے معنی ہیں خبر کے معنی نہیں۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مسلمانوں کو کافروں سے نرمی برتنے سے روک دیا ہے۔ اس کی نظیر یہ قول باری ہے۔ (لاتخذوایطانتۃ من دونکم لایألوتکم خیالا اپنی جماعت کے لوگوں کے سوادوسروں کو اپنا رازدارنہ بناؤوہ وہ تمہاری خرابی کے کسی موقعہ سے فائدہ اٹھانے سے نہیں چوکتے) نیز قول باری ہے (لاتجد قوما یومنون یا اللہ والیوم الاخریوادون من حاد اللہ ورسولہ ولو کا تواباء ھم اوابناء ھم جو لوگ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں آپ انہیں نہ پائیں گے کہ وہ ایسوں سے دوستی رکھیں جو اللہ اور اس کے رسول کے مخالف ہیں۔ خواہ وہ لوگ ان کے باپ یا ان کے بیٹے ہی کیوں نہ ہوں) تاآخر آیت۔- نیزقول باری ہے (فلاتقعد بعد الذکری مع القوم الظالمین یاد آجانے کے بعد ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھو) نیزقول باری ہے (فلاتقعدوامعھم حتی یخوضوافی حدیث غیرہ انکم اذا مثلھم، ان کے ساتھ نہ بیٹھویہاں تک کہ دہ کسی اور گفتگو میں مصروف ہوجائیں ورنہ تم بھی ان کی طرح ہوجاؤ گے۔ نیز قول باری ہے (ولا ترگنوالی الذین ظلموافتمسکم النار، تم ظالموں کی طرف ہرگز نہ جھکو کہ پھر تمھیں جہنم کی آگ چھوجائے) نیز قول باری ہے (فاعرض عمن تولی عن ذکرنا ولم یردالاالحیوۃ الدنیا اس شخص سے منہ پھیرلوجس نے ہماری یاد سے روگردانی کی اور دنیا کی زندگی کے سوا اور کچھ نہیں چاہا) نیز قول باری ہے (واعرض عن الجاھلین، اور جاہلو سے منہ پھیرلیجیے) نیز قول باری ہے (یایھا النبی جاھدالکفاروالمنافقین واغلظ علیھم، اے نبی کافروں اور منافقوں کے خلاف جہاد کیجیے اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آیئے) نیزارشاد ہے۔ (یایھا الذین امنو الا تتخذوالیھو د والنصاری اولیاء بعضھم اولیاء بعض اسے ایمان والو یہودونصاری کو اپنا ہمدردوہمسازنہ بناؤان میں بعض بعض کے ہمدردوہمساز ہیں) نیز ارشاد ہے (ولاتمدن عینیک الی مامتعنا بہ ازواجامنھم زھرۃ الحیوۃ الدنیا لنفتتھم فیہ، اور ہرگز آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھیے ان چیزوں کی طرف جن سے ہم نے ان کے گروہوں کو متمتع کررکھا ہے۔ ان کی آزمائش کے لیے کہ وہ محض وینوی زندگی گمی کی رونق ہے) ان آیات میں یہودونصاری اور کفارو منافقین کی مجالست اور ان کی دنیوی مال ودولت اور احوال وکوائف ظاہر بنیی کی بناپران سے نرم برتاؤ اور میل ملاپ سے پے درپے روکاگیا ہے۔ روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گذربنی الصطلق کے اونٹوں کے پاس سے ہواجواتنے موٹے اور فربہ تھے کہ بہی کی بناپران کاپیشاب ان کی رانوں پر خشک ہوگیا تھا۔ آپ نے اپنے کپڑے کا پلو اپنے چہرے پر ڈال لیا اور وہاں سے گذرگئے ان پر نظر ڈالنا بھی گوار انہیں کیا اس لیے کہ ارشادباری ہے (ولاتمدن عینیک الی مامتعنا بہ ازواجا منھم) نیز قول باری ہے۔ (یایھا الذین امنوالاتتخذواعدوی وعدو کم اولیاء تلقون الیھم بالمدہ ۃ اے ایمان والو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست اور ہمدردنہ بناؤ کہ تم ان سے دوستی کا اظہار کرنے لگو)- مسلمان کا گھر مشرک سے دورہو - حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے آپ نے فرمایا (انابریء من کل مسلم مع مشرک ، میں ہر اس مسلمان سے کنارہ کشی ہوں جو کسی مشرک کے ساتھ رہتاہو) آپ سے وجہ پوچھ گئی تو آپ نے فرمایا (لاتراء ی ناراھما، ان دونوں کے گھروں میں جلنے والی آگ ایک دوسرے کو نظرنہ آئے) یعنی مسلمان کے لیے یہ لازم اور اس پر یہ واجب ہے کہ اس کا گھر مشرک کے گھر سے دورہو، نیز فرمایا (انابرئی من کل مسلم اقام بین اظھرالمشرکین، میں ہراس مسلمان سے کنارہ کش ہوں جس نے مشرکوں کے درمیان سکونت اختیار کرلی ہو) یہ آیتیں اور احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ ایک مسلمان کافروں کے ساتھ اس وقت تک سختی اور بے رخی کے ساتھ پیش آئے اور نرمی اور ملاطفت سے کام نہ لے جب تک اس کی حالت ایسی نہ ہو جس میں اسے اپنی یا اپنے کسی عضو کے تلف ہوجانے یا سخت نقصان کا اندیشہ نہ ہو۔ اگر ا سے اس قسم کا کوئی خطرہ درپیش ہوتوایسی صورت میں ان سے دوستی ادرنرمی کا اظہار جائز ہے۔ پیشرطی کہ وہ اسطرز عمل کی صحت کا یقین اپنے دل میں پیدانہ کرلے۔ ولا یعنی دوستی تعاون وغیرہ کی دوصورتیں ہوتی ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ جسی شخص کا فعل اور طرز عمل پسند یدہ ہو امداد تعاون اور نگرانی کے ذریعے اس کے امور کی پوری پوری سرپرستی کی جائے۔ ایسا شخص سعاون ومنصورکہلائے گا قول باری ہے۔ (اللہ ولی الذین وامنوا، اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا ولی اور دوست ہے) اہل ایماناس معنی میں اللہ کے دوست اور ولی ہیں کہ اللہ کی نصرت پوری طرح ان کے شامل حال رہتی ہے۔ چناچہ ارشاد باری ہے (الاان اولیاء اللہ لاخوف علیھم ولاھم حزنون، آگاہ رہو، اللہ کے اولیاء کونہ تو کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے) ۔- خطرے کی صورت میں جان بچانے کی رخصت ہے - قول باری ہے (الاان تتقوامنھم تقۃ، ہاں یہ تمہیں معاف ہے کہ ان کے ظلم سے بچنے کے لیئے تم بظاہرایساطر زعمل اختیارکرجاؤ) یعنی اگر تمھیں اپنی جان یا جسمانی اعضاء کے تلف ہوجانے کا خطرہ ہو اور پھر تم ان سے دوستی اور تعاون کے اظہار کے ذریعے اپنے آپ کو ان کی چیرہ دستیوں سے بچالو تو اس میں کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ تم اس طرزعمل کی صحت کا اعتقاداپنے دل میں پیدانہ کرو۔ آیت کے الفاظ کے ظاہر کا یہی تقاضا ہے اور جمہورکامسلک بھی یہی ہے۔ ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحاق مروزی نے روایت بیان کی، انہیں حسن بن ابی الربیع جرجانی نے ، انہیں عبدالرزاق نے انہیں معمرنے قتادہ سے قول باری (لایتخذالمؤمنون الکافرین اؤلیاء من دون المؤمنین) کی تفسیر میں یہ قول نقل کیا ہے کہ کسی مسلمان کے لیئے یہ حلال نہیں کہ وہ اپنے دینی معاملات میں کسی کافر کو اپنا دوست اور ولی یعنی سرپرست بنالے۔ قول باری (الاان تتقوامنھم تقۃ) کی تفسیر میں انہوں نے فرمایا کہ اس قاعدے سے ایک صورت مستثنیٰ ہے وہ یہ کہ مسلمان اور کافر کے درمیان قرابت ہو اور پھر مسلمان اس رشتہ داری کی بناپر اس کے ساتھ صلہ رحمی کرے اس طرح تقیہ کا مفہوم قرابت کی بناپر کافر کے ساتھ صلئہ رحمی قراردیا گیا۔ آیت میں بچاؤ کی خاطر اظہارکفر کے جواز کا اقتضاء موجود ہے، اس کی نظیریہ قول باری ہے (من کفر باللہ من بعد ایمانہ الامن اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان، جو شخص اللہ پر ایمان لانے کے بعد کافرہوجائے بجز اس صورت کے کہ اس پر زیردستی کی جائے۔ درآنحالیکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو (تو وہ مستثنیٰ ہے)- ایسے مواقع پر جان بچانے کی رخصت ہے واجب وافضل نہیں۔- ایسے مواقع پربچاؤ کی خاطر اظہارکفر وغیرہ کی اجازت دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے رخصت ہے۔ یہ واجب نہیں ہے بلکہ اس کا ترک افضل ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جس شخص پر کافرہوجانے کے لیے زبردستی کی جائے لیکن وہ ایمان پر ڈٹا رہے اور اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے تو اس کا درجہ اظہارکفر کرنے والے سے بڑھ کرہوگا۔ مشرکین نے حضرت خبیب بن عدی کو پکڑلیا تھا لیکن آپ نے تقیہ کا راستہ اختیار نہیں کیا تھا یہاں تک کہ شہید کردیئے گئے۔ مسلمانوں کے نزدیک آپ کا درجہ حضرت عماربن یاسر سے بڑھ کر تھا۔ جنہوں نے یہ راستہ اختیار کرتے ہوئے اظہارکفر کرلیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے اظہارکفر کی صورت میں ان کے دل کی کیفیت کے متعلق استفسار کیا تو انہوں نے عرض کیا کہ میرادل ایمان پر مطمئن تھا۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں فرمایا کہ، اگر یہ صورت دوبارہ پیش آجائے تو تم پھر یہی طرز عمل اختیار کرلینا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد دراصل رخصت عطا کرنے کی بناپر تھا۔- عزیمت رخصت سے افضل ہے - روایت ہے کہ مسیلمہ کذاب نے دوصحابیوں کو پکڑلیا۔ ایک سے پوچھا کہ محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کی رسالت کی گواہی دیتے ہو، انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ پھر پوچھا کہ تم میری رسالت کو گواہی دیتے ہو۔ انہوں نے پھر اثبات میں جواب دیا۔ مسیلمہ نے انہیں جانے دیا، دوسرے صاحب کو بلاکران سے بھی سوالات کیئے۔ تو انہوں نے مسیلمہ کی رسالت کی گواہی دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ، میں بہراہوںِمسیلمہ نے اپناسوال تین دفعہ دہرایا، انہوں نے تینوں دفعہ یہی جواب دیا، اس پر اس نے انہیں شہید کردیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا (ماھذالمقتول فمضی علی صدقہ ویقینہ واخذبفضیلۃ فھنیئا لہ واما الاخرفقبل رخصۃ اللہ قلاتبعۃ علیہ، یہ کشتہ راہ خدا اپنے صدق اور یقین پر ڈٹارہا اور فضیلت کا سزاوار ٹھہرا، یہ مرتبہ اسے مبارک ہو۔ دوسرے شخص نے اللہ تعالیٰ کردہ رخصت کو قبول کرلیا اس لیئے اس پر بھی گرفت نہیں) اس روایت میں یہ دلیل ہوجود ہے کہ تقیہ کا راستہ رخصت ہے اور تقیہ کا اظہارنہ کرنا افضل ہے۔ اسی طرح ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ ہرایساعمل جس میں دین کا اعزاز ہو اس کے لیئے اقدام کرتے ہوئے اپنی جان قربان کردینا اس سے ہٹ کر رخصت پر عمل کرنے سے بہتر اور افضل ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جو شخص دشمنوں کے خلاف اپنے آپ کو جہاد میں جھونک دے اور شہید ہوجائے اس کا درجہ میدان جنگ سے پیچھے ہٹ کر اپنی جان بچالینے والے سے بڑھ کرہوگا۔- اللہ تعالیٰ نے شہادت حاصل کرلینے کے بعد شہیدوں کے احوال وکوالف بیان فرمائے ہیں اور انہیں زندہ نیزرزق پانے والے قراردیا ہے۔ اسی طرح اللہ کے دین کے اظہار اورکفر کے عدم اظہا کے نتیجے میں جان دے دیناتقیہ کا راستہ اختیار کرنے سے افضل ہے۔ اس آیت اور اسی طرح کی دوسری آیتوں میں اس بات پر دلالت ہورہی ہے کہ مسلمان پر کافرکو کسی معاملے میں دلایت اور سرپرستی حاصل نہیں ہوتی اور یہ کہ اگر کافرکا کوئی نابالغ بچہ ہوجوماں کے مسلمان ہونے کی وجہ سے مسلمان ہو تو اس کافرکواس پر کوئی کسی قسم کی ولایت اور سرپرستی حاصل نہیں ہوگی۔ نہ مالی تصرف وغیرہ میں اور نہ ہی نکاح کرانے میں۔ یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ ذحی مسلمان کے فوجداری جرم کا اور مسلمان ذحی کے فوجداری کا جرمانہ نہیں بھرے گا اس لیئے کہ اس بات کا تعلق ولایت نصرت اور معونت سے ہے جوان دونوں کے درمیان مفقود ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٨) مسلمانوں کے لیے یہ چیز مناسب نہیں کہ وہ عبداللہ بن ابی یہودی اور اس کے ساتھیوں کو خالص ایمان والوں سے تجاوز کرکے دوست بنائیں، (کیونکہ حقیقی دوستی نظریات کی ہم آہنگی سے جنم لیتی ہے)- اور جو کفار سے ایسی دوستی رکھے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور دوستی کے کسی درجے میں شمار نہیں ہوگا مگر یہ کہ کوئی مومن صرف زبانی دوستی کرکے ان کے شر سے نجات حاصل کرنا چاہے اور اللہ تعالیٰ تمہیں ناحق قتل کرنے اور احرام کاری اور مال حرام اور شراب پینے اور جھوٹی گواہی دینے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے سے ڈراتا ہے اور تمہیں بالآخر مرنے کے بعد اسی کے طرف لوٹ کر جانا ہے۔- شان نزول : (آیت) ” لا یتخذ ال مومن ون “۔ (الخ)- ابن جریر (رح) نے سعید (رح) یا عکرمہ (رح) کے واسطہ سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ حجاج بن عمرو اور ابن الحقیق اور قیس بن زید نے انصار کی ایک جماعت سے دوستی کی تاکہ ان کے دین میں فتنہ ڈالیں تو رفاعہ بن منذر اور عبداللہ بن جبیر اور سعد بن حثمہ ان حضرات نے انصار سے کہا، یہودیوں کی اس جماعت سے بچو اور ان سے دوستی کرنے میں احتیاط کرو کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ تمہارے دین میں کوئی فتنہ پردازی کریں مگر ان انصاریوں نے ان کی بات ماننے سے انکار کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ کفار کو اپنا ہمراز اور دوست نہ بنائیں۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨ (لاَ یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ج) - اولیاء ایسے قلبی دوست ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے رازدار بھی بن جائیں اور ایک دوسرے کے پشت پناہ بھی ہوں۔ یہ تعلق کفار کے ساتھ اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ان کے ساتھ اچھا رویہ ‘ ظاہری مدارات اور تہذیب و شائستگی سے بات چیت تو اور بات ہے ‘ لیکن دلی محبت ‘ قلبی رشتہ ‘ جذباتی تعلق ‘ باہمی نصرت و تعاون اور ایک دوسرے کے پشت پناہ ہونے کا رشتہ قائم کرلینے کی اجازت نہیں ہے۔ کفار کے ساتھ اس طرح کے تعلقات اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں ہیں۔- (وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْءٍ ) - اگر اللہ کے دشمنوں کے ساتھ تمہاری دوستی ہے تو ظاہر ہے پھر تمہارا اللہ کے ساتھ کوئی رشتہ وتعلق نہیں رہا ہے ۔- (اِلاَّ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْہُمْ تُقٰٹۃً ط) ۔- بعض اوقات ایسے حالات ہوتے ہیں کہ کھلے مقابلے کا ابھی موقع نہیں ہوتا تو آپ دشمن کو طرح دیتے ہیں اور اس طرح گویا وقت حاصل کرتے ہیں ( ) تو اس دوران اگر ظاہری خاطر مدارات کا معاملہ بھی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ہے ‘ لیکن مستقل طور پر کفار سے قلبی محبت قائم کرلینا ہرگز جائز نہیں ہے۔ قرآن کے انہی الفاظ کو ہمارے ہاں اہل تشیع نے تقیہ کی بنیادبنا لیا ہے۔ لیکن انہوں نے اسے اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ جھوٹ بولنا اور اپنے عقائد کو چھپا لینا بھی روا سمجھتے ہیں اور اس کے لیے دلیل یہاں سے لاتے ہیں۔ لیکن یہ ایک بالکل دوسری شکل ہے اور یہ صرف ظاہری مدارات کی حد تک ہے۔ جیسے کہ ہم سورة البقرۃ میں پڑھ چکے ہیں کہ اگرچہ تمہارے خلاف یہود کے دلوں میں حسد کی آگ بھری ہوئی ہے لیکن (فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا) (آیت ١٠٩) ابھی ذرا درگزر کرتے رہو اور چشم پوشی سے کام لو۔ ابھی فوری طور پر ان کے ساتھ مقابلہ شروع کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس حد تک مصلحت بینی تو صحیح ہے ‘ لیکن یہ نہیں کہ جھوٹ بولا جائے ‘ معاذ اللہ - (وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ ط) ۔- اللہ سے ڈرو۔ یعنی کسی اور سے خواہ مخواہ ڈر کر صرف خاطر مدارات کرلینا بھی صحیح نہیں ہے۔ کسی وقت مصلحت کا تقاضا ہو تو ایسا کرلو ‘ لیکن تمہارے دل میں خوف صرف اللہ کا رہنا چاہیے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :25 یعنی اگر کو ئی مومن کسی دشمن اسلام جماعت کے چنگل میں پھنس گیا ہو اور اسے ان کے ظلم و ستم کا خوف ہو ، تو اس کو اجازت ہے کہ اپنے ایمان کو چھپائے رکھے اور کفار کے ساتھ بظاہر اس طرح رہے کہ گویا انہی میں سے ایک آدمی ہے ۔ یا اگر اس کا مسلمان ہونا ظاہر ہوگیا ہو تو اپنی جان بچانے کے لیے وہ کفار کے ساتھ دوستانہ رویہ کا اظہار کر سکتا ہے ، حتٰی کہ شدید خوف کی حالت میں جو شخص برداشت کی طاقت نہ رکھتا ہو اس کو کلمہ کفر تک کہہ جانے کی رخصت ہے ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :26 یعنی کہیں انسانوں کا خوف تم پر اتنا نہ چھا جائے کہ خدا کا خوف دل سے نکل جائے ۔ انسان حد سے حد تمہاری دنیا بگاڑ سکتے ہیں مگر خدا تمہیں ہمیشگی کا عذاب دے سکتا ہے ۔ لہٰذا اپنے بچاؤ کے لیے اگر بدرجہ مجبوری کبھی کفار کے ساتھ تقیہ کرنا پڑے ، تو وہ بس اس حد تک ہونا چاہیے کہ اسلام کے مشن اور اسلامی جماعت کے مفاد اور کسی مسلمان کی جان و مال کو نقصان پہنچائے بغیر تم اپنی جان و مال کا تحفظ کرلو ۔ لیکن خبردار ، کفر اور کفار کی کوئی ایس خدمت تمہارے ہاتھوں انجام نہ ہونے پائے جس سے اسلام کے مقابلے میں کفر کو فروغ حاصل ہو نے اور مسلمانوں پر کفار کے غالب آجانے کا امکان ہو ۔ خوب سمجھ لو کہ اگر اپنے آپ کو بچانے کے لیے تم نے اللہ کے دین کو یا اہل دین کی جماعت کو یا کسی ایک فرد مومن کو بھی نقصان پہنچایا ، یا خدا کے باغیوں کی کوئی حقیقی خدمت انجام دی ، تو اللہ کے محاسبے سے ہرگز نہ بچ سکو گے ۔ جانا تم کو بہرحال اسی کے پاس ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

9: یار و مددگار عربی لفظ ولی کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ ولی بنانے کو موالات بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد ایسی دوستی اور قلبی محبت کا تعلق ہے جس کے نتیجے میں دو آدمیوں کا مقصدِ زندگی اور ان کا نفع ونقصان ایک ہوجائے۔ اس قسم کا تعلق مسلمان کا صرف مسلمان ہی سے ہوسکتا ہے، اور کسی غیر مسلم سے ایسا تعلق رکھنا سخت گناہ ہے، اور اس آیت میں اسے سختی سے منع کیا گیا ہے، یہی حکم سورہ نسا (۴: ۹۳۱) سورہ مائدہ (۵: ۱۵) سورہ توبہ (۹: ۳۲) سورہ مجادلہ (۸۲: ۲۲) اور سورہ ممتحنہ (۸۲: ۱) میں بھی دیا گیا ہے، البتہ جوغیر مسلم جنگ کی حالت میں نہ ہوں ان کے ساتھ حسنِ سلوک، رواداری اور خیر خواہی کا معاملہ نہ صرف جائز بلکہ مطلوب ہے، جیسا کہ خود قرآنِ کریم نے سورہ ممتحنہ (۸۲: ۸) میں واضح فرمادیا ہے، اور آنحضرتﷺ کی سنت پوری حیاتِ طیبہ میں یہ رہی ہے کہ آپ نے ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ احسان کا معاملہ فرمایا۔ اسی طرح ان کے ساتھ سیاسی اوراقتصادی تعاون کے وہ معاہدے اور تجارتی معاملات بھی کئے جاسکتے ہیں جن کو آج کل کی سیاسی اصطلاح میں دوستی کے معاہدے کہا جاتا ہے، بشرطیکہ یہ معاہدے یا معاملات اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے خلاف نہ ہوں، اور ان میں کسی خلافِ شرع عمل کا ارتکاب لازم نہ آئے۔ چنانچہ خود آنحضرتﷺ نے اور آپ کے بعد صحابۂ کرام نے ایسے معاہدات اور معاملات کئے ہیں۔ غیر مسلموں کے ساتھ موالات کی ممانعت کرنے کے بعد قرآنِ کریم نے جو فرمایا ہے کہ : ’’اِلَّا یہ کہ تم ان (کے ظلم) سے بچنے کے لئے بچاو کا کوئی طریقہ احتیار کرو‘‘، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کفار کے ظلم وتشدد سے بچاو کے لئے کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا پڑے جس سے بظاہرموالات معلوم ہوتی ہو تو اس کی گنجائش ہے۔