27۔ 1 رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرنے کا مطلب موسمی تغیرات ہیں رات لمبی ہوتی ہے تو دن چھوٹا ہوجاتا ہے اور دوسرے موسم میں اس کے برعکس دن لمبا اور رات چھوٹی ہوجاتی ہے یعنی کبھی رات کا حصہ دن میں اور کبھی دن کا حصہ رات میں داخل کردیتا ہے جس سے رات اور دن چھوٹے بڑے ہوجاتے ہیں۔ 27۔ 2 جیسے نطفہ (مردہ) پہلے زندہ انسان سے نکلتا ہے۔ پھر اس مردہ (نطفہ) سے انسان اسی طرح مردہ انڈے سے پہلے مرغی پھر زندہ مرغی سے انڈہ (مردہ) یا کافر سے مومن اور مومن سے سے کافر پیدا فرماتا ہے بعض روایات میں ہے کہ معاذ (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے اوپر قرض کی شکایت کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم آیت (قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ ۡ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۭبِيَدِكَ الْخَيْرُ ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ) 003:026 پڑھا کرو یہ دعا کرو (رَحْمَان الدُنْیَا وَلْاآخِرَۃِو رحیمھما تعطی من تشاء منھما رتمنع من تشاء ارحمنی رحمۃ تغنینی بھا عن رحمۃ من سواک اللھم اغننی من الفقر واقض عنی الدین) ۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ یہ ایسی دعا ہے کہ تم پر احد پہاڑ جتنا قرض بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی ادائیگی کا تمہارے لئے انتظام فرما دے گا۔ (مجمع الزوائد)
تُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ ۡ: اس سے موسموں کے اعتبار سے رات اور دن کے بڑھنے اور گھٹنے کی طرف اشارہ ہے، ایک ہی وقت کبھی رات کا حصہ بن جاتا ہے اور کبھی دن کا۔ اس طرح رات دن میں داخل ہوجاتی ہے اور دن رات میں۔- وَتُخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ ۔۔ : مردہ سے زندہ، یعنی کافر سے مسلمان، جیسے آزر سے ابراہیم (علیہ السلام) ، نطفہ سے حیوان، انڈے سے پرندہ اور زندہ سے مردہ جیسے نوح (علیہ السلام) سے کنعان اور حیوان اور پرندے سے نطفہ اور انڈا۔- طبرانی کی ایک روایت میں اس آیت کے اندر اسم اعظم ہونے کا ذکر ہے۔ ” ہدایۃ المستنیر “ میں اس روایت کو ایک راوی محمد بن زکریا غلابی کی وجہ سے موضوع کہا گیا ہے اور ” الضعیفہ (٢٧٧٢) “ سے ” ضَعِیْفٌ جِدًّا “ کا حکم نقل کیا گیا ہے۔
دوسری آیت میں آسمانی طاقتوں اور فلکیات پر حق جل وعلا شانہ کی قدرت کاملہ کا احاطہ اس طرح بیان فرمایا ہے (تولج اللیل فی النھار وتولج النھار فی اللیل) " یعنی آپ جب چاہتے ہیں رات کے اجزاء دن میں داخل فرما کر دن کو بڑا کردیتے ہیں، اور جب چاہتے ہیں دن کے اجزاء رات میں داخل کر کے رات بڑی کردیتے ہیں "۔- اور یہ ظاہر ہے کہ رات اور دن کے بڑے چھوٹے ہونے کا مدار آفتاب کے طلوع و غروب اور اس کی حرکات پر ہے، اس لئے اس کا حاصل یہ ہوا کہ آسمان اور اس کے متعلق سب سے بڑا سیارہ شمس اور سب سے معروف سیارہ قمر سب آپ کے احاطہ قدرت میں ہیں، پھر عالم عناصر اور دنیا کی باقی طاقتوں میں کسی شک و شبہ کی کیا گنجائش ہوسکتی ہے۔- اس کے بعد عالم روحانیت پر جل وعلاشانہ کا احاطہ قدرت اس طرح بیان فرمایا (تخرج الحی من المیت وتخرج المیت من الحی) " یعنی آپ زندہ کو مردہ سے نکال لیتے ہیں، جیسے بیضہ سے بچہ یا نطفہ سے انسان یا دانہ سے درخت کو نکال لیتے ہیں اور مردہ کو زندہ سے نکال لیتے ہیں، جیسے جانور سے بیضہ اور انسان سے نفطہ یا درخت سے پھل اور دانہ خشک "۔- اور اگر زندہ اور مردہ کا مفہوم عام لیا جائے تو عالم اور جاہل اور کامل و ناقص اور مومن و کافر سب کو شامل ہوجاتا ہے جس سے حق جل وعلاشانہ کی قدرت کاملہ اور اس کے تصرفات تمام عالم ارواح اور روحانیات پر واضح ہوجاتے ہیں کہ وہ جب چاہیں تو کافر سے مومن یا جاہل سے عالم پیدا کردیں اور جب چاہیں مومن سے کافر یا عالم سے جاہل پیدا کردیں، آذر کے گھر میں خلیل اللہ پیدا ہوجائے اور نوح (علیہ السلام) کے گھر میں ان کا بیٹا کافر رہ جائے، عالم کی اولاد جاہل رہ جائے اور جاہل کی اولاد عالم ہوجائے۔- اس تفصیل سے آپ نے معلوم کیا ہوگا کہ کیسی بلیغ ترتیب کے ساتھ حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا تمام کائنات عالم پر محیط ہونا ترتیب وار بیان فرمایا گیا ہے کہ پہلے عالم عناصر اور اس کی قوتوں اور حکومتوں کا ذکر آیا ہے، پھر عالم افلاک اور اس کی قوتوں کا اور ان سب کے بعد روح اور روحانیت کا ذکر آیا ہے جو درحقیقت سارے عالم کی ساری قوتوں میں سب سے بالا تر قوت ہے، آخر آیت میں ارشاد فرمایا : (وترزق من تشاء بغیر حساب) " یعنی آپ جس کو چاہیں بیشمار رزق عطا فرمادیں " جس کو کوئی مخلوق نہ معلوم کرسکے، اگرچہ خالق کے علم میں ذرہ ذرہ لکھا ہوا ہے۔- آیت مذکورہ کی مخصوص فضیلت :- امام بغوی (رح) نے اپنی سند کے ساتھ اس جگہ ایک حدیث نقل فرمائی ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جو شخص ہر فرض نماز کے بعد سورة فاتحہ اور آیۃ الکرسی اور آل عمران کی تین آیتیں ایک آیت نمبر ١٨ (شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو آخر تک۔ اور دوسری و تیسری (٢٦، ٢٧) آیت (قل اللھم مالک الملک سے بغیر حساب تک پڑھا کرے تو میں اس کا ٹھکانا جنت میں بنادوں گا، اور اس کو اپنے حظیرۃ القدس میں جگہ دوں گا، اور ہر روز اس کی طرف ستر مرتبہ نظر رحمت کروں گا، اور اس کی ستر حاجتیں پوری کروں گا اور ہر حاسد اور دشمن سے پناہ دوں گا، اور ان پر اس کو غالب رکھوں گا۔
تُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّہَارِ وَتُوْلِجُ النَّہَارَ فِي الَّيْلِ ٠ ۡوَتُخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ ٠ ۡوَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاۗءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ ٢٧- ولج - الوُلُوجُ : الدّخول في مضیق . قال تعالی: حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ- [ الأعراف 40] ، وقوله : يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهارِ وَيُولِجُ النَّهارَ فِي اللَّيْلِ- [ الحج 61] فتنبيه علی ما ركّب اللہ عزّ وجلّ عليه العالم من زيادة اللیل في النهار، وزیادة النهار في اللیل، وذلک بحسب مطالع الشمس ومغاربها .- ( و ل ج ) الولوج ( ض ) کے معنی کسی تنک جگہ میں داخل ہونے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِياطِ [ الأعراف 40] یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نکل جائے ۔ اور آیت : ۔ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهارِ وَيُولِجُ النَّهارَ فِي اللَّيْلِ [ الحج 61]( کہ خدا ) رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے ۔ میں اس نظام کائنات پت متنبہ کیا گیا ہو جو اس عالم میں رات کے دن اور دن کے رات میں داخل ہونے کی صورت میں قائم ہے اور مطالع شمسی کے حساب سے رونما ہوتا رہتا ہے ۔- ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - نهار - والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62]- ( ن ھ ر ) النھر - النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مین مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - بِغَيْرِ حِسابٍ- وقوله : يَرْزُقُ مَنْ يَشاءُ بِغَيْرِ حِسابٍ [ البقرة 212] . ففيه أوجه :- الأول : يعطيه أكثر ممّا يستحقه .- والثاني : يعطيه ولا يأخذه منه .- والثالث : يعطيه عطاء لا يمكن للبشر إحصاؤه، کقول الشاعر :- عطایاه يحصی قبل إحصائها القطر - والرابع : يعطيه بلا مضایقة، من قولهم :- حاسبته : إذا ضایقته .- والخامس : يعطيه أكثر مما يحسبه .- والسادس : أن يعطيه بحسب ما يعرفه من مصلحته لا علی حسب حسابهم، وذلک نحو ما نبّه عليه بقوله تعالی: وَلَوْلا أَنْ يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً لَجَعَلْنا لِمَنْ يَكْفُرُ بِالرَّحْمنِ ... الآية [ الزخرف 33] .- والسابع : يعطي المؤمن ولا يحاسبه عليه، ووجه ذلك أنّ المؤمن لا يأخذ من الدنیا إلا قدر ما يجب وکما يجب، وفي وقت ما يجب، ولا ينفق إلا کذلک، ويحاسب نفسه فلا يحاسبه اللہ حسابا يضرّ ، كما روي : «من حاسب نفسه في الدنیا لم يحاسبه اللہ يوم القیامة» - والثامن : يقابل اللہ المؤمنین في القیامة لا بقدر استحقاقهم، بل بأكثر منه كما قال عزّ وجل : مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً فَيُضاعِفَهُ لَهُ أَضْعافاً كَثِيرَةً [ البقرة 245] .- وعلی هذه الأوجه قوله تعالی: فَأُولئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيها بِغَيْرِ حِسابٍ [ غافر 40] ، وقوله تعالی: هذا عَطاؤُنا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ ص 39] ، وقد قيل :- تصرّف فيه تصرّف من لا يحاسب، أي : تناول کما يجب وفي وقت ما يجب وعلی ما يجب، وأنفقه كذلك .- اور آیت کریمہ : ۔ يَرْزُقُ مَنْ يَشاءُ بِغَيْرِ حِسابٍ [ البقرة 212] اور خدا جس کو چاہتا ہے بیشمار رزق دیتا ہے ۔ میں بغیر حساب کی متعدد تو جیہات ہوسکتی ہیں ۔ ( 2 ) جسے چاہے عطا فرماتا ہے اور پھر اس سے واپس نہیں لیتا ۔ ( 3 ) اس قدر عطا فرماتا ہے کہ انسان کے لئے اس کا احصاء ممکن نہیں جیسا کہ شاعر نے کہا ہے کہ باعش کے قطروں سے بھی اس کے عطایا زیادہ ہوجاتے ہیں ۔ ( 4 ) بغیر کسی تنگی کے دیتا ہے اور یہ حاسبتہ سے ہے جس معنی ضایقتہ یعنی تنگی کرنا آتے ہیں ( 5 ) لوگوں کے عام اندازہ سے کہیں زیادہ دیتا ہے ۔ ( 6 ) اپنی مصلحت کے مطابق عطا فرماتا ہے ز کہ لوگوں کے حساب کے مطابق جیسا کہ آیت : ۔ وَلَوْلا أَنْ يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً لَجَعَلْنا لِمَنْ يَكْفُرُ بِالرَّحْمنِ ... الآية [ الزخرف 33] اور اگر یہ خیال نہ ہوتا گہ سب لوگ ایک ہی ۔۔۔۔۔۔ جماعت ہوجائیں گے تو جو لوگ خدا سے انکار کرتے ہیں ۔ میں تنبیہ فرمائی ہے ۔ ( 7 ) مومن کو کچھ دیتا ہے اس پر محاسبہ نہیں کریگا اس کی وجہ یہ ہے کہ مومن دنیا میں بقدر کفایت حاصل کرتا ہے اور وہ بھی جائز طریقہ سے اور حسب ضرورت اور اسی طریق سے خرچ کرتا ہے اور ساتھ ہی اپنے آپ پر محاسبہ بھی کرتا رہتا ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ اس سے اس طرح حساب نہیں لے گا ۔ جس سے کہ اسے نقصان پہنچے جیسا کہ حدیث میں ہے ۔ کہ جو شخص دنیا میں اپنے نفس پر محاسبہ کرتا رہے گا ۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس سے حساب نہیں لے گا ( یعنی جس سے کہ اسے نقصان پہنچے ) ( 8 ) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مومنوں کو ان کے استحقاق سے زیادہ بدلہ عطا فرمائیگا ۔ جیسے فرمایا : مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً فَيُضاعِفَهُ لَهُ أَضْعافاً كَثِيرَةً [ البقرة 245] کوئی ہے کہ خدا کو قرض حسنہ دے کر وہ اس کے بدلے اس کو کئی حصے زیادہ دے گا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَأُولئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيها بِغَيْرِ حِسابٍ [ غافر 40] تو ایسے لوگ بہشت میں داخل ہوں کے وہاں ان کو ی سے شمار رزق ملے گا ۔ بھی ان مزکورہ وجوہ ( ثمانیہ ) پر محمول ہوسکتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ هذا عَطاؤُنا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ ص 39] یہ ہماری بخشش ہے ( چاہو ) تو احسان کردیا ( چاہو ) تو رکھ چھوڑو ( تم سے ) کچھ حساب نہیں ہے ۔ میں بغیر حساب کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اس میں اس شخص کی طرح تصرف کرو جسے محاسبہ کا خوف نہ ہو ۔ یعنی ( مومن کی طرح ) واجب طریق سے بوقت ضرورت اور بقدر کفایت لیا کرو اور پھر اسی طریق سے خرچ کرتے رہو
(٢٧) اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا نظارہ کراتے ہیں کہ وہ کبھی دن کو رات سے زیادہ بڑا اور کبھی رات کو دن سے بڑا کردیتے ہیں اور اس طرح اس رب علیم کا ایک کمال یہ ہے یہ وہ ذات نطفہ سے بچہ کو پیدا کردیتی ہے اور نطفہ کو انسان سے نکالتی ہے اور یہ معنی بھی بیان کیے گئے ہیں کہ وہ ذات انڈے سے مرغی کو اور مرغی سے انڈے کو نکال دیتی ہے (یاد رہے کہ مرغی سے مراد محض مرغی نہیں بلکہ تمام انڈہ دینے والے جانور اس میں شامل ہیں) اور گیہوں کے دانے سے بالی کو اور بالی سے دانوں کو نکال دیتی ہے اور جس کو چاہتا ہے، بغیر محنت ومشقت کے (بطور وراثت وغیرہ) رزق دیتا ہے یا یہ کہ جس پر چاہتا ہے بغیر کسی تنگی اور سختی کے مال کی فراوانی کردیتا ہے ،
آیت ٢٧ (تُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّہَارِ ) (وَتُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیْلِز) (وَتُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ ) (وَتُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّز) - اس کی بہترین مثال مرغی اور انڈا ہے۔ انڈے میں جان نہیں ہے لیکن اسی میں سے زندہ چوزہ برآمد ہوتا ہے اور مرغی سے انڈا برآمد ہوتا ہے۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :24 جب انسان ایک طرف کافروں اور نافرمانوں کے کرتوت دیکھتا ہے اور پھر یہ دیکھتا ہے کہ وہ دنیا میں کس طرح پھل پھول رہے ہیں ، دوسری طرف اہل ایمان کی اطاعت شعاریاں دیکھتا ہے اور پھر ان کو اس فقر و فاقہ اور ان مصائب و آلام کا شکار دیکھتا ہے ، جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام سن ۳ ہجری اور اس کے لگ بھگ زمانے میں مبتلا تھے ، تو قدرتی طور پر اس کے دل میں ایک عجیب حسرت آمیز استفہام گردش کرنے لگتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں اس استفہام کا جواب دیا ہے اور ایسے لطیف پیرائے میں دیا ہے کہ اس سے زیادہ لطافت کا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔
7: سردیوں میں دن چھوٹا ہوتا ہے تو گرمیوں کے دن کا کچھ حصہ رات بن جاتا ہے، اور گرمیوں میں دن بڑا ہوتا ہے تو سردیوں کی رات کا کچھ حصہ دن میں داخل ہوجاتا ہے۔ 8: مثلاً بے جان انڈے سے جاندار چوزہ نکل آتا ہے اور جاندار پرندے سے بے جان انڈا۔