مالک الملک کی حمد و ثناء اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کی تعظیم کرنے اور اس کا شکریہ بجا لانے اور اسے اپنے تمام کام سونپنے اور اس کی ذات پاک پر پورے بھروسہ کا اظہار کرنے کے لئے ان الفاظ میں اس کی اعلیٰ صفات بیان کیجئے جو اوپر بیان ہوئی ہیں ۔ یعنی اے اللہ تو مالک الملک ہے ، تیری ملکیت میں تمام ملک ہے ، جسے تو چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے اپنا دیا ہوا واپس لے لے ، تو ہی دینے اور لینے والا ہے تو جو چاہتا ہے ہو جاتا ہے اور جو نہ چاہے ہو ہی نہیں سکتا ، اس آیت میں اس بات کی بھی تنبیہہ اور اس نعمت کے شکر کا بھی حکم ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کو مرحمت فرمائی گئی کہ بنی اسرائیل سے ہٹا کر نبوت نبی عربی قریشی امی مکی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی گئی اور آپ کو مطلقاً نبیوں کے ختم کرنے والے اور تمام انس و جن کی طرف رسول بن کر آنے والے بنا کر بھیجا ، تمام سابقہ انبیاء کی خوبیاں آپ میں جمع کر دیں بلکہ ایسی فضیلتیں آپ کو دی گئیں جن سے اور تمام انبیاء بھی محروم رہے خواہ وہ اللہ کے علم کی بابت ہوں یا اس رب کی شریعت کے معاملہ میں ہوں یا گذشتہ اور آنے والی خبروں کے متعلق ہوں ، آپ پر اللہ تعالیٰ نے آخرت کے کل حقائق کھول دئیے ، آپ کی امت کو مشرق مغرب تک پھیلا دیا آپ نے دن اور آپ کی شریعت کو تمام دینوں اور کل مذہبوں پر غالب کر دیا ، اللہ تعالیٰ کا درود و سلام آپ پر نازل ہو اب سے لے کر قیامت تک جب تک رات دن کی گردش بھی رہے اللہ آپ پر اپنی رحمتیں دوام کے ساتھ نازل فرماتا رہے ۔ آمین ، پس فرمایا کہو اے اللہ تو ہی اپنی خلق میں ہیر پھیر کرتا رہتا ہے جو چاہے کر گزرتا ہے ، جو لوگ کہتے تھے کہ ان دو بستیوں میں سے کسی بہت بڑے شخص پر اللہ نے اپنا کلام کیوں نازل نہ کیا اس کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت ( اَهُمْ يَــقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ) 43 ۔ الزخرف:32 ) کیا تیرے رب کی رحمت کو بانٹنے والے یہ لوگ ہیں ، جب ان کے رزق تک کے مالک ہم ہیں جسے چاہیں کم دیں جسے چاہیں زیادہ دیں تو پھر ہم پر حکومت کرنے والے یہ کون؟ کہ فلاں کو نبی کیوں نہ بنایا ؟ نبوت بھی ہماری ملکیت کی چیز ہے ہم ہی جانتے ہیں کہ اس کے دئیے جانے کے قابل کون ہے؟ جیسے اور جگہ ہے آیت ( اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ ) 6 ۔ الانعام:124 ) جہاں کہیں اللہ تعالیٰ اپنی رسالت نازل فرماتا ہے اسے وہی سب سے بہتر جانتا ہے ، اور جگہ فرمایا ( آیت انظر کیف فضلنا بعضھم علی بعض ) دیکھ لے کہ ہم نے کسی طرح ان میں آپس میں ایک کو دوسرے پر برتری دے رکھی ہے ، پھر فرماتا ہے کہ تو ہی رات کی زیادتی کو دن کے نقصان میں بڑھا کر دن رات کو برابر کر دیتا ہے ، زمین و آسمان پر سورج چاند پر پورا پورا قبضہ اور تمام تر تصرف تیرا ہی ہے ، اسی طرح جاڑے کی گرمی اور گرمی کو جاڑے سے بدلنا بھی تیری قدرت میں ہے ، بہارو خزاں پر قادر تو ہی ہے ۔ تو ہی ہے کہ زندہ سے مردہ کو اور مردہ سے زندہ کو نکالے کھیتی سے دانے اگاتا ہے اور دانہ سے کھیتوں کو لہلہاتا ہے ، کھجور گٹھلی سے اور گٹھلی کھجور سے تو ہی پیدا کرتا ہے مومن کو کافر کے ہاں اور کافر کو مومن کے ہاں تو ہی پیدا کرتا ہے ، مرغی انڈے سے اور انڈا مرغی سے اور اسی طرح کی تمام تر چیزیں تیرے ہی قبضہ میں ہیں ، تو جسے چاہے اتنا مال دے دے جو نہ گنا جائے نہ احاطہ کیا جائے اور جسے چاہے بھوک کے برابر روٹی بھی نہ دے ، ہم مانتے ہیں کہ یہ کام حکمت سے پر ہیں اور تیرے ارادے اور تیری چاہت سے ہی ہوتے ہیں ، طبرانی کی حدیث میں ہے اللہ کا اسم اعظم اس ( آیت قل اللھم الخ ، ) میں ہے کہ جب اس نام سے اس سے دعا کی جائے تو وہ قبول فرما لیتا ہے ۔
26۔ 1 اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی بےپناہ قوت وطاقت کا اظہار ہے شاہ کو گدا بنا دے، گدا کو شاہ بنا دے، تمام اختیارات کا مالک ہے یعنی تمام بھلائیاں صرف تیرے ہی ہاتھ میں ہیں تیرے سوا کوئی بھلائی دینے والا نہیں شرکاء خالق بھی اگرچہ اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ لیکن ذکر صرف خیر کا کیا گیا ہے شر کا نہیں اس لئے کہ خیر اللہ کا فضل محض ہے بخلاف شر کے یہ انسان کے اپنے عمل کا بدلہ ہے جو اسے پہنچتا ہے یا اسلئے کہ شر بھی اس کے قضا وقدر کا حصہ ہے جو خیر کو متضمن ہے اس اعتبار سے اس کے تمام افعال خیر ہیں (فتح القدیر)
[٣٠] اس آیت میں اگرچہ خطاب عام ہے، جس میں اہل کتاب، مشرکین عرب اور مسلمان سب شامل ہیں۔ تاہم ربط موضوع کے لحاظ سے بالخصوص یہ خطاب یہود اور کفار سے ہے جو جنگ خندق کے موقعہ پر یوں کہہ رہے تھے کہ ان مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ اپنے بچاؤ کی خاطر خندق کھود رہے ہیں، نہ کچھ کھانے کو پاس موجود ہے اور نہ ہی کوئی اسلحہ جنگ ہے لیکن قیصر و کسریٰ کو فتح کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں، یہ دیوانگی نہیں تو اور کیا ہے ؟ یہود اور کفار کی اسی پھبتی کا جواب اس جامع قسم کی دعا میں دیا گیا ہے کہ عزت و ذلت اور اقتدار وغیرہ سب کچھ اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ آج جو حاکم ہیں کل محکوم بن جائیں اور جو شہنشاہ ہیں وہ گدا بن جائیں جو کمزور ہیں وہ طاقتور بن جائیں۔ بھلا جو ہستی مردہ کو زندہ سے اور زندہ کو مردہ سے نکال سکتی ہے وہ مقتدر سے محتاج اور محتاج سے مقتدر کیوں نہیں بنا سکتی ؟
قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْك : سیبویہ اور خلیل نے کہا ” اللّٰهُمَّ “ اصل میں ” یَااللّٰہُ “ تھا، شروع سے ” یا “ کو حذف کیا تو آخر میں میم مشدد لگا دی۔ ” مٰلِكَ الْمُلْكِ “ سے پہلے بھی ” یا “ پوشیدہ ہے، اس لیے لفظ ” مٰلِكَ “ منصوب ہے۔ ( شوکانی) گویا اس دعا میں اللہ کے ذاتی اور صفاتی دونوں ناموں سے دعا کرنا سکھایا گیا ہے۔ - یہودی غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ حکم و نبوت کا یہ سلسلہ ہمیشہ ان میں رہے گا، دوسری قوم اس کا حق نہیں رکھتی، مگر جب نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک امی قوم بنی اسماعیل سے مبعوث ہوگئے تو ان کے غیظ و غضب اور حسد کی انتہا نہ رہی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی غلط فہمی دور کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنی مرضی والا اور ساری بادشاہی کا مالک ہے۔ وہ جس قوم کو چاہتا ہے دنیا میں عزت و سلطنت سے نواز دیتا ہے۔ لہٰذا نبوت جو بہت بڑی عزت ہے، اس کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے جسے چاہا پسند فرما لیا۔ اللہ تعالیٰ پر کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے۔ یہاں دعا کے انداز میں مسلمانوں کو بشارت بھی دے دی کہ تمہیں اس دنیا میں غلبہ و اقتدار حاصل ہوگا اور خاتم النّبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے، لہٰذا تمہیں چاہیے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاؤ۔ - ” الْخَيْرُ “ میں الف لام استغراق کا ہے اور ”ۭبِيَدِكَ “ خبر پہلے آنے سے تخصیص پیدا ہوگئی ہے، اس لیے ترجمہ ” تیرے ہی ہاتھ میں ہر بھلائی ہے “ کیا گیا ہے۔
خلاصہ تفسیر - ان آیات میں امت محمدیہ کو ایک دعا و مناجات کی تلقین اس انداز سے کی گئی ہے کہ اس کے ضمن میں امت محمدیہ کے کفار پر غلبہ پانے کی طرف اشارہ بھی ہے، جیسا اس کے شان نزول سے ثابت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روم وفارس فتح ہوجانے کا وعدہ فرمایا تو منافقین و یہود نے استہزاء کیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کما فی روح المعانی عن الواحدی عن ابن عباس و انس (رض) ۔- مختصر تفسیر ان آیات کی یہ ہے : - ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ( اللہ تعالیٰ سے) یوں کہیے کہ اے اللہ مالک تمام ملک کے آپ ملک ( کا جتنا حصہ چاہیں) جس کو چاہیں دیدیتے ہیں اور جس ( کے قبضہ) سے چاہیں ملک ( کا حصہ) لے لیتے ہیں اور جس کو آپ چاہیں غالب کردیتے ہیں اور جس کو آپ چاہیں پست کردیتے ہیں آپ ہی کے اختیار میں ہے سب بھلائی بلا شبہ آپ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والے ہیں، آپ (بعض موسموں میں) رات ( کے اجزاء) کو دن میں داخل کردیتے ہیں (جس سے دن بڑا ہونے لگتا ہے) اور ( بعض موسموں میں) ان ( کے اجزاء) کو رات میں داخل کردیتے ہیں ( جس سے رات بڑھنے لگتی ہے) اور آپ جان دار چیز کو بےجان سے نکال لیتے ہیں ( جیسے بیضہ سے بچہ) اور بےجان چیز کو جان دار سے نکال لیتے ہیں ( جیسے پرندے سے بیضہ) اور آپ جس کو چاہتے ہیں بیشمار رزق عطا فرماتے ہیں۔- معارف و مسائل - اس آیت کا شان نزول اور غزوہ خندق کا واقعہ :- بدر و احد میں مشرکین مکہ کی مسلسل شکست اور مسلمانوں کے خلاف ہر جدو جہد میں ناکامی کے ساتھ مسلمانوں کی مسلسل ترقی اور اسلام کی روز افزوں اشاعت نے قریش مکہ اور تمام غیر مسلموں میں ایک بوکھلاہٹ پیدا کردی تھی، جس سے وہ اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہورہے تھے، جس کا نتیجہ ایک عام سازش کی صورت میں یہ ظاہر ہوا کہ مشرکین عرب اور یہود و نصاری سب کا ایک متحدہ محاذ مسلمانوں کے خلاف بن گیا، اور سب نے ملکر کر مدینہ پر یکبارگی حملہ اور فیصلہ کن جنگ کی ٹھان لی، اور ان کا بےپناہ لشکر اسلام اور مسلمانوں کو دنیا سے مٹا ڈالنے کا عزم لے کر مدینہ پر چڑھ آیا، جس کا نام قرآن میں غزوہ احزاب اور تاریخ میں غزوہ خندق ہے، کیونکہ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) کے ساتھ مشورہ سے یہ طے فرمایا تھا کہ غنیم کے راستہ میں مدینہ سے باہر خندق کھودی جائے۔ بیہقی اور ابو نعیم اور ابن خزیمہ کی روایت میں ہے کہ خندق کھودنے کا کام مجاہدین اسلام صحابہ کرام (رض) کے سپرد ہوا تو چالیس چالیس ہاتھ لمبی خندق دس دس آدمیوں کے سپرد تھی، یہ خندق کئی میل لمبی اور خاصی گہری اور چوڑی تھی جس کو غنیم عبور نہ کرسکے، اور کھدائی کے لئے تکمیل جلد سے جلد کرنا تھی، اس لئے جاں نثار صحابہ کرام (رض) بڑی محنت سے اس میں مشغول تھے کہ قضائے حاجت اور کھانے وغیرہ کی ضروریات کے لئے یہاں سے ہٹنا مشکل ہورہا تھا، مسلسل بھوکے رہ کر یہ کام انجام دیا جارہا تھا، اور یقینا کام ایسا تھا کہ آج کل کی جدید آلات والی پلٹن بھی ہوتی تو اس تھوڑے وقت میں اس کام کا پورا کرنا آسان نہ ہوتا، مگر یہاں ایمانی طاقت کام کر رہی تھی جس نے بآسانی تکمیل کرادی۔ سید الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ایک فرد کی حیثیت سے اس کھدائی کے کام میں شریک تھے، اتفاقا خندق کے ایک حصہ میں پتھر کی بڑی چٹان نکل آئی، جن حضرات کے حصہ میں خندق کا یہ ٹکڑا تھا وہ اپنی پوری قوت صرف کر کے عاجز ہوگئے، تو حضرت سلمان فارسی (رض) کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجا کہ اب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کیا حکم ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی وقت موقع پر تشریف لائے اور کدال آہنی خود دست مبارک میں لے کر ایک ضرب لگائی تو اس چٹان کے ٹکڑے ہوگئے، اور ایک آگ کا شعلہ بر آمد ہوا جس سے دور تک اس کی روشنی پھیل گئی، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے اس روشنی میں بحیرہ ملک فارس کے محلات و عمارات دکھلائی گئیں۔ پھر دوسری ضرب لگائی اور پھر ایک شعلہ برآمد ہوا تو فرمایا کہ اس کی روشنی میں مجھے رومیوں کے سرخ سرخ محلات و عمارات دکھلائی گئیں، پھر تیسری ضرب لگائی اور روشنی پھیلی تو فرمایا کہ اس میں مجھے صنعاء یمن کے عظیم محلات دکھلائے گئے، اور فرمایا کہ میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ مجھے جبرئیل امین نے خبر دی ہے کہ میری امت ان تمام ممالک پر غالب آئے گی۔ منافقین مدینہ نے یہ سنا تو ان کو استہزاء و تمسخر کا موقع ہاتھ آیا، مسلمانوں کا مذاق اڑایا، کہ دیکھو ان لوگوں کو جو حریف مقابل کے خوف سے خندق کھودنے میں اس طرح مشغول ہیں کہ ان کو اپنی ضروریات کا بھی ہوش نہیں، اپنی جانوں کی حفاطٹ ان کو مشکل ہورہی ہے، ملک فارس و روم اور یمن کی فتوحات کے خواب دیکھ رہے ہیں، حق تعالیٰ نے ان بیخبر ظالموں کے جواب میں یہ آیت نازل فرمائی۔ (قل اللھم مالک الملک توتی الملک من تشاء وتنزع الملک ممن تشاء وتعز من تشاء وتذل من تشاء بیدک الخیر انک علی کل شیء قدیر) - جس میں مناجات و دعا کے پیرایہ میں قوموں کے عروج و زال اور ملکوں کے انقلاب میں حق جل شانہ کی قدرت کاملہ کا بیان ایک نہایت بلیغ انداز سے کیا گیا ہے، اور فارس و روم کی فتوحات کے بارے میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیشنگوئی کے پورا ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا، اس میں دنیا کے انقلابات سے بیخبر قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ سے ناواقف، قوم نوح اور عاد وثمود کے واقعات سے غافل اور جاہل، دشمنان اسلام کو تنبیہ کی گئی ہے کہ تم ظاہری شان و شوکت کے پرستار یہ نہیں جانتے کہ دنیا کی ساری طاقتیں اور حکومتیں سب ایک ذات پاک کے قبضہ قدرت میں ہیں، عزت و ذلت اسی کے ہاتھ ہے، وہ بلا شبہ اس پر قادر ہے کہ غریبوں اور فقیروں کو تخت و تاج کا مالک بنادے، اور بڑے بڑے بادشاہوں سے حکومت و دولت چھین لے، اس کے لئے کچھ مشکل نہیں کہ آج کے خندق کھودنے والے فقیروں کو کل شام و عراق اور یمن کی حکومت عطا فرمادے۔ - ذرہ ذرہ ہر کا پابستہ تقدیر ہے - زندگی کے خواب کی جامی یہی تعبیر ہے - جو چیزیں عادۃ بری سمجھی جاتی ہیں انجام کے اعتبار سے وہ بھی بری نہیں : - آیت کے اخیر میں فرمایا (بیدک الخیر) " یعنی آپ کے ہاتھ میں ہے ہر بھلائی " شروع آیت میں چونکہ حکومت دینے اور واپس لینے کا نیز عزت اور ذلت دونوں کا ذکر تھا، اس لئے بظاہر مقتضائے مقام یہ تھا کہ اس جگہ بھی (بیدک الخیر والشر) کہا جاتا، یعنی ہر بھلائی اور برائی آپ کے ہاتھ میں ہے، لیکن اس آیت میں اس جگہ صرف لفظ " خیر " لاکر ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جس چیز کو کوئی شخص یا کوئی قوم برائی یا مصیبت سمجھتی ہے اور وہ اس خاص قوم کے لئے گو تکلیف و مصیبت ہوتی ہے لیکن اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو مجموعہ عالم کے اعتبار سے وہ برائی نہیں ہوتی، قوموں کے عروج ونزول اور اس میں مصائب کے بعد فوائد کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو عربی کے مشہور شاعر متنبی کا یہ مصرعہ ایک زندہ حقیقت بن کر سامنے آجاتا ہے کہ :- مصائب قوم عند قوم فوائد " یعنی ایک قوم کے مصائب دوسری قوم کے فوائد ہوتے ہیں "- مجموعہ عالم کے مصالح و فوائد پر نظر کرنے والا کسی نہ کسی درجہ میں اس حقیقت کو پاسکتا ہے کہ اس میں جتنی چیزیں خراب اور بری سمجھی جاتی ہیں، وہ اپنی ذات میں چاہے بری سمجھی جائیں، مگر پورے عالم کو اگر ایک جسم فرض کرلیا جائے تو وہ اس کے چہرہ کے خال اور بال ہیں، خال اور بال اگر بدن سے الگ کر کے دیکھے جائیں تو ان سے زیادہ خراب کوئی چیز نہیں، لیکن ایک حسین چہرہ کا جزء ہونے کی حالت میں یہی چیزیں رونق حسن ہوتی ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ جن چیزوں کو ہم برا کہتے ہیں اور برا سمجھتے ہیں ان کی برائی جزوی ہے اور خالق کائنات اور رب العالمین کی نسبت اور مجموعہ عالم کی مصلحت کے اعتبار سے کوئی چیز شر یا خراب نہیں، کسی نے خوب کہا ہے :- نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں - کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں - اس لئے اس آیت کے ختم میں صرف لفظ " خیر " پر اکتفا کر کے فرمایا گیا (بیدک الخیر) کیونکہ خالق کائنات کی حکمت اور حکومت اور مجموعہ عالم کی مصلحت کے لحاظ سے ہر چیز خیر ہی خیر ہے، یہاں تک پہلی آیت کا مضمون ختم ہوا، جس میں تمام عالم عناصر کی طاقتوں اور دنیا کی سب حکومتوں کا حق تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہونا بیان فرمایا ہے
قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ ٠ ۡوَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ٠ ۭ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ٠ ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ٢٦- «اللهم»- قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ملك ( مالک)- فالمُلْك ضبط الشیء المتصرّف فيه بالحکم، والمِلْكُ کالجنس للمُلْكِ ، فكلّ مُلْك مِلْك، ولیس کلّ مِلْك مُلْكا . قال : قُلِ اللَّهُمَّ مالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشاءُ [ آل عمران 26] ، وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان 3] ، وقال :- أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف 188] وفي غيرها من الآیات - ملک کے معنی زیر تصرف چیز پر بذیعہ حکم کنٹرول کرنے کے ہیں اور ملک بمنزلہ جنس کے ہیں لہذا ہر ملک کو ملک تو کہہ سکتے ہیں لیکن ہر ملک ملک نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے : ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان 3] اور نہ نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اٹھ کھڑے ہونا ۔ اور فرمایا : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] یا تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف 188] کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا علی بذلقیاس بہت سی آیات ہیں - إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] - ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے - ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ - ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ - نزع - نَزَعَ الشیء : جَذَبَهُ من مقرِّه كنَزْعِ القَوْس عن کبده، ويُستعمَل ذلک في الأعراض، ومنه : نَزْعُ العَداوة والمَحبّة من القلب . قال تعالی:- وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف 43] . وَانْتَزَعْتُ آيةً من القرآن في كذا، ونَزَعَ فلان کذا، أي : سَلَبَ. قال تعالی: تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ [ آل عمران 26] ، وقوله : وَالنَّازِعاتِ غَرْقاً [ النازعات 1] قيل : هي الملائكة التي تَنْزِعُ الأرواح عن الأَشْباح، وقوله :إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر 19] وقوله : تَنْزِعُ النَّاسَ [ القمر 20] قيل : تقلع الناس من مقرّهم لشدَّة هبوبها . وقیل : تنزع أرواحهم من أبدانهم، والتَّنَازُعُ والمُنَازَعَةُ : المُجَاذَبَة، ويُعَبَّرُ بهما عن المخاصَمة والمُجادَلة، قال : فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ [ النساء 59] ، فَتَنازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ [ طه 62] ، والنَّزْعُ عن الشیء : الكَفُّ عنه . والنُّزُوعُ : الاشتیاق الشّديد، وذلک هو المُعَبَّر عنه بإِمحَال النَّفْس مع الحبیب، ونَازَعَتْنِي نفسي إلى كذا، وأَنْزَعَ القومُ : نَزَعَتْ إِبِلُهم إلى مَوَاطِنِهِمْ. أي : حَنَّتْ ، ورجل أَنْزَعُ : زَالَ عنه شَعَرُ رَأْسِهِ كأنه نُزِعَ عنه ففارَقَ ، والنَّزْعَة : المَوْضِعُ من رأسِ الأَنْزَعِ ، ويقال : امرَأَةٌ زَعْرَاء، ولا يقال نَزْعَاء، وبئر نَزُوعٌ: قریبةُ القَعْرِ يُنْزَعُ منها بالید، وشرابٌ طَيِّبُ المَنْزَعَةِ. أي : المقطَع إذا شُرِبَ كما قال تعالی: خِتامُهُ مِسْكٌ [ المطففین 26] .- ( ن زع ) نزع - ( ن زع ) نزع اشئی کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں ۔ جیسا کہ کمانکو در میان سے کھینچا جاتا ہے اور کبھی یہ لفظ اعراض کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور محبت یا عداوت کے دل سے کھینچ لینے کو بھی نزع کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف 43] اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ۔ ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ آیت کو کسی واقعہ میں بطور مثال کے پیش کرنا ۔ نزع فلان کذا کے معنی کسی چیز کو چھین لینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ [ آل عمران 26] اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور آیت کریمہ : ۔ وَالنَّازِعاتِ غَرْقاً [ النازعات 1] ان فرشتوں کی قسم جو ڈوب کر کھینچ لیتے ہیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نازعات سے مراد فرشتے ہیں جو روحوں کو جسموں سے کھینچتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر 19] ہم نے ان پر سخت منحوس دن میں آندھی چلائی وہ لوگوں کو اس طرح اکھیڑ ڈالتی تھی ۔ میں تنزع الناس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہو اپنی تیز کی وجہ سے لوگوں کو ان کے ٹھکانوں سے نکال باہر پھینک دیتی تھی بعض نے کہا ہے کہ لوگوں کی روحوں کو ان کے بد نوں سے کھینچ لینا مراد ہے ۔ التنازع والمنازعۃ : باہم ایک دوسرے کو کھینچا اس سے مخاصمت اور مجا دلہ یعنی باہم جھگڑا کرنا مراد ہوتا ہے ۔ چناچہ ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ [ النساء 59] اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو رجوع کرو ۔ فَتَنازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ [ طه 62] تو وہ باہم اپنے معاملہ میں جھگڑنے لگے ۔ النزع عن الشئی کے معنی کسی چیز سے رک جانے کے ہیں اور النزوع سخت اشتیاق کو کہتے ہیں ۔ وناز عتنی نفسی الیٰ کذا : نفس کا کسی طرف کھینچ کرلے جانا کس کا اشتیاق غالب آجانا ۔ انزع القوم اونٹوں کا پانے وطن کا مشتاق ہونا رجل انزع کے معنی سر کے بال بھڑ جانا کے ہیں ۔ اور نزعۃ سر کے اس حصہ کو کہتے ہیں جہاں سے بال جھڑ جائیں ۔ اور تانیث کے لئے نزعاء کی بجائے زعراء کا لفظ استعمال ہوتا ہے بئر نزدع کم گہرا کنواں جس سے ہاتھ کے - عز - العِزَّةُ : حالةٌ مانعة للإنسان من أن يغلب . من قولهم : أرضٌ عَزَازٌ. أي : صُلْبةٌ. قال تعالی: أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء 139] - ( ع ز ز ) العزۃ - اس حالت کو کہتے ہیں جو انسان کو مغلوب ہونے سے محفوظ رکھے یہ ارض عزاز سے ماخوذ ہے جس کے معنی سخت زمین کے ہیں۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء 139] کیا یہ ان کے ہاں عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ عزت تو سب خدا ہی کی ہے ۔- ذلت - يقال : الذُّلُّ والقُلُّ ، والذِّلَّةُ والقِلَّةُ ، قال تعالی: تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [ المعارج 44] ، وقال : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] ، وقال : سَيَنالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ [ الأعراف 152] ، وذَلَّتِ الدّابة بعد شماس، ذِلًّا، وهي ذَلُولٌ ، أي : ليست بصعبة، قال تعالی: لا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ [ البقرة 71] - بغیر تاء کے ذل اور تار کے ساتھ ذلتہ کہا جاتا ہے جیسا کہ قل اور قلتہ ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [ المعارج 44] اور ان کے مونہوں پر ذلت چھا جائے گی ۔ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] اور ( آخری کار ) زلت ( اور رسوائی ) اور محتاجی ( اور بےتوانائی ) ان سے چنٹادی گئی ۔ سَيَنالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ [ الأعراف 152] پروردگار کا غضب واقع ہوگا اور ذلت ( نصیب ہوگی ) منہ زوزی کے بعد سواری کا مطیع ہوجانا اور اس قسم کی مطیع اور مئقاد سواری کا ذلول ( صفت فاعلی ) کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ [ البقرة 71] کہ وہ بیل کام میں لگا ہوا نہ ۔ نہ تو زمین جوتتا ہو ۔- يد - الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] ،- ( ی د ی ) الید - کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- قَدِيرُ :- هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] .- القدیر - اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔
صرف اللہ ہی مالک الملک ہے - قول باری ہے (قل اللھم مالک الملک توتی الملک من تشاء وتنزع الملک ممن تشاء، آپ کہیئے خدایا ملک کے مالک توج سے چاہتا ہے حکومت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے حکومت چھین لیتا ہے) قول باری (مالک الملک) کے متعلق ایک قول ہے کہ یہ ایسی صفت ہے جس کا اللہ کے سوا اور کسی کو استحقاق نہیں اس لیئے کہ وہی ہر ملک کا یعنی سارے جہان کا مالک ہے۔ ایک قول ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت دونوں کے امورکامالک ہے۔ ایک قول ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کا مالک ہے اور بندوں کے ہاتھ میں کچھ ہے اس کا بھی وہی مالک ہے۔ مجاہد کا قول ہے کہ یہاں ملک سے مراد نبوت ہے۔ قول باری (تؤتی الملک من تشاء) کی تفسیر میں دواحتمال ہیں اول یہ کہ اللہ تعالیٰ مال ودولت خدم وحشم اور ان جبسی چیزوں کی ملکیت مسلمانوں اور کافروں سب کو عطا کرتا ہے۔ دوم امت مسلمہ کے امور کی تدبیر اور ان کے متعلق حکمت عملی یہ چیز صرف عادل مسلمانوں کے لیئے مخصوص ہے۔ کافر اورفاسق اس محروم ہیں۔ امت کے امور کی تدبیر اور ان کے متعلق حکمت عملی کا تعلق کے ادامر اور نواہی سے ہے جن کے سلسلے میں کسی کافر اورفاسق پر اعتماد نہیں کای جاسکتا۔ اسی طرح کفر اورفسق کے حامل افراد کو اہل کو ہل ایمان متعلق حکمت عملی اختیار کرنے کا کام سپرد کرنا کسی طرح جائزہی نہیں ہے۔ اس لیے کہ قول باری ہے (ولا ینال عھدی الظالمین، اور میراعہد ظالموں کو نہیں پہنچ سکتا)- اگریہ کہاجائے کہ قول باری ہے (الم ترالی الذی حاج ابراھیم فی ربہ ان اتاہ اللہ، الملک ، کیا تم اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم کے ساتھ اس کے رب کے بارے میں جھگڑا کیا تھا اس بناپر کہ اللہ نے اسے حکومت عطاکی تھی) اس آیت میں یہ خبردی گئی ہے کہ اللہ کافروں کو بھی حکومت و سلطنت کی نعمت سے نوازتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس میں یہ احتمال ہے۔ کہ اگر کافرکوملک دینے کی بات ہے تو اس سے مراد مال ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ملک یعنی نبوت عطاکرنا ہے۔ ازوئے حکمت امر اورنہی کے معاملے کی سپرداری جائز ہے۔- کافروں سے دوستی ممنوع ہے۔
(٢٦) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اللہ تعالیٰ سے اس طرح عرض کیجیے، اے اللہ ہمیں نیکی کے راستے پر چلا، اے تمام ملک کے مالک آپ ملک کا جتنا حصہ جس کو چاہیں دے دیتے ہیں یعنی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کو اور جس سے چاہیں مثلا فارس وملک روم لے لیتے ہیں اور جسے چاہیں یعنی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عزت دیتے ہیں اور عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے ساتھیوں اور اہل فارس اور روم کو رسوا کرتے ہیں۔ عزت، بادشاہت اور مال غنیمت، نصرت و دولت یہ آپ کے قبضہ قدرت میں ہے اور آپ ہر شے پر قدرت رکھتے ہیں۔- یہ آیت عبداللہ بن ابی بن سلول منافق کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جس وقت مکہ مکرمہ فتح ہوا تھا تو اس نے کہا کہ فارس وروم کی بادشاہت ان کو کیسے حاصل ہوسکتی ہے اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ آیت قریش کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیوں وہ کہتے تھے کہ کسری بادشاہ دیباج کے بستروں پر سوتا ہے، اگر آپ نبی ہیں تو پھر آپ کی بادشاہت کہاں گئی (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )- شان نزول : (آیت) ” قل اللہم ملک الملک (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے قتادہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے پروردگار دعا فرمائی کہ روم اور فارس کی بادشاہت آپ کی امت کو دے دی جائے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
آیت ٢٦ (قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ ) کل ملک تیرے اختیار میں ہے۔ - (تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآءُ ) (وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآءُز) (وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ ) (وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ ط) (بِیَدِکَ الْخَیْرُ ط) - اس کے دونوں معنی ہیں۔ ایک یہ کہ کل خیر و خوبی تیرے ہاتھ میں ہے اور دوسرے یہ کہ تیرے ہاتھ میں خیر ہی خیر ہے۔ بسا اوقات انسان جسے اپنے لیے شر سمجھ بیٹھتا ہے وہ بھی اس کے لیے خیر ہوتا ہے۔ سورة البقرۃ (آیت ٢١٦) میں ہم پڑھ چکے ہیں : (وَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْءًا وَّہُوَخَیْرٌ لَّکُمْج وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْءًا وَّہُوَ شَرٌّ لَّکُمْ ط) ۔
6: جب غزوۂ احزاب کے موقع پر آنحضرتﷺ نے پیشینگوئی فرمائی تھی کہ روم اور ایران کی سلطنتیں مسلمانوں کے قبضے میں آجائیں گی توکفار نے بڑا مذاق اڑایا کہ ان لوگوں کو اپنے دفاع کے لئے خندق کھودنی پڑرہی ہے اور ان پر فاقے گزررہے ہیں مگر دعوے یہ ہیں کہ یہ روم اور ایران فتح کرلیں گے، اس موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں، جن میں مسلمانوں کو یہ دعا تلقین فرماکر ایک لطیف پیرائے میں ان کا جواب دے دیا گیا۔