Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

32۔ 1 اس آیت میں اللہ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھر تاکید کر کے واضح کردیا کہ اب نجات اگر ہے تو صرف اطاعت محمدی میں ہے اور اس سے انحراف کفر ہے اور ایسے کافروں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا چاہے وہ اللہ کی محبت اور قرب کے کتنے ہی دعوے دار ہوں۔ اس آیت میں پیروی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گریز کرنے والوں کے لئے سخت وعید ہے کیونکہ دونوں ہی اپنے اپنے انداز سے ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں جسے یہاں کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٤] اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اللہ کی محبت کا دم بھرتے ہیں مگر اس کے رسول کی اطاعت نہیں کرتے وہ سب کافر ہیں۔ اس آیت کے مخاطب اہل کتاب اور کفار و مشرکین ہی نہیں بلکہ مسلمان بھی ہیں کیونکہ مسلمانوں میں بھی ایک فرقہ ایسا پیدا ہوچکا ہے جو صرف قرآن ہی کو ہدایت کے لیے کافی سمجھتا ہے۔ رہا قرآن پر عمل کرکے دکھانے کا وہ طریقہ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کو دکھلایا تھا۔ یہ لوگ اس سے مستغنی ہیں۔ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ قرآن پر ہر دور کے تقاضوں کے مطابق عمل کیا جانا چاہئے اور کیا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ بھی اس آیت کی رو سے کافر ہیں۔ خواہ وہ خود کو مسلمان کہلوانے پر کتنے ہی مصر ہوں۔ اسی طرح جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کے ساتھ کسی نئے نبی کی اطاعت بھی ضروری سمجھتے ہیں وہ بھی کافر ہیں خواہ وہ خود کو مسلمان کہلوانے پر کتنے ہی مصر ہوں، کیونکہ آپ خاتم النبیین ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ ۚ: پچھلی آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتباع کا حکم تھا جس کا معنی آپ کے نقش قدم پر چلنا، آپ کی پیروی کرنا ہے، اگرچہ اتباع میں حکم ماننا بھی آجاتا ہے مگر اس آیت میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کا خاص طور پر الگ ذکر فرمایا، جس کا معنی حکم ماننا ہے۔ آگے فرمایا کہ اگر وہ منہ پھیر لیں تو اللہ ایسے کافروں سے محبت نہیں رکھتا۔ یہاں بات صاف سمجھ میں آرہی ہے کہ بات مختصر کردی گئی ہے، جو اس طرح تھی کہ اگر وہ منہ پھیر لیں تو وہ کافر ہیں اور اللہ ایسے کافروں سے محبت نہیں کرتا۔ ” ُ الْكٰفِرِيْنَ “ میں الف لام عہد کا ہونے کی وجہ سے ترجمہ ” ایسے کافروں “ کیا گیا ہے۔ - اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ ” َالرَّسُوْلَ “ یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کا مستقل حیثیت سے حکم دیا گیا ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد ” َالرَّسُوْلَ “ کی اطاعت سنت کی پیروی ہی سے ہوسکتی ہے۔ بعض لوگ غلط فہمی کی بنا پر کہہ دیتے ہیں کہ حدیث وہی حجت ہوگی جو قرآن کے مطابق ہو، حالانکہ قرآن نے متعدد مواقع پر حدیث کو مستقل دلیل اور شریعت کے ماخذ کی حیثیت دی ہے، لہٰذا قانون کا ماخذ قرآن و حدیث دونوں قرار پائیں گے۔ حدیث میں قرآن سے زائد حکم تو ہوسکتے ہیں مگر کوئی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہے، اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے تو یہ اس کی عقل و فہم کا قصور ہے، یا اس کی نیت کا فتور۔ مزید دیکھیے سورة نجم (٤) ۔ - رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میں تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ اپنے تکیے پر ٹیک لگائے ہوئے ہو اور اس کے پاس میرے حکم میں سے کوئی حکم آئے، ان چیزوں میں سے جن کا میں نے حکم دیا ہے، یا میں نے منع کیا تو وہ کہے، ہم نہیں جانتے، ہم اللہ کی کتاب میں جو پائیں گے اسی کی پیروی کریں گے۔ “ [ أبو داوٗد، السنۃ، باب فی لزوم السنۃ : ٤٦٠٥، عن أبی الدرداء ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ اَطِيْعُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ۝ ٠ ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَ۝ ٣٢- طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ - قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے - رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٢۔ ٣٣۔ ٣٤) تو اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت نازل فرمائی کہ تم فرائض و واجبات میں اطاعت کرو اور اگر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت سے روگردانی کرتے ہو تو یاد رکھو اللہ تعالیٰ یہودیوں اور کافروں سے محبت نہیں فرماتے، جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو یہودی بولے کہ ہم تو آدم (علیہ السلام) کے دین پر ہیں اور مسلمان ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) اور اولاد ابراہیم موسیٰ (علیہ السلام) و ہارون (علیہ السلام) کو اسلام کی وجہ سے تمام جہان والوں پر فضیلت عطا کی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عمران سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے والد مراد نہیں۔- یہ ایک دوسرے کے دین پر ہیں اور بعض ان میں سے بعض کی اولاد ہیں اور اللہ تعالیٰ یہود کے اس دعوے کو خوب سننے والے اور ان کے انجام کو اور جو ان کے دین پر ہو، اس کے انجام وسزا کو اچھی طرح جاننے والے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢ (قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ ج) (فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ ) - یہ دو آیتیں اس اعتبار سے بہت اہم ہیں کہ ان میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے دو الفاظ آئے ہیں اطاعت اور اتباع۔ اطاعت اگر نہیں ہے تو یہ کفر ہے۔ چناچہ اطاعت تو لازم ہے اور وہ بھی دلی آمادگی سے ‘ مارے باندھے کی اطاعت نہیں۔ لیکن اطاعت کس چیز میں ہوتی ہے ؟ جو حکم دیا گیا ہے کہ یہ کرو وہ آپ کو کرنا ہے۔ اتباع اس سے بلند تر شے ہے۔ انسان خود تلاش کرے کہ آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعمال کیا تھے اور ان پر عمل پیرا ہوجائے ‘ خواہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا حکم نہ دیا ہو۔ گویا اتباع کا دائرہ اطاعت سے وسیع تر ہے۔ انسان کو جس کسی سے محبت ہوتی ہے وہ اس سے ہر طرح سے ایک مناسبت پیدا کرنا چاہتا ہے۔ چناچہ وہ اس کے لباس جیسا لباس پہننا پسند کرتا ہے ‘ جو چیزیں اس کو کھانے میں پسند ہیں وہی چیزیں خود بھی کھانا پسند کرتا ہے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کا حکم نہیں دیا گیا لیکن ان کا التزام پسندیدہ ہے۔ ایک صحابی (رض) ‘ کا واقعہ آتا ہے کہ وہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کرتے کے بٹن نہیں لگے ہوئے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گریبان کھلا تھا۔ اس کے بعد ان صحابی (رض) نے پھر ساری عمر اپنے ُ کرتے کے بٹن نہیں لگائے۔ حالانکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو انہیں اس کا حکم نہیں دیا تھا۔ یہ صحابی (رض) کہیں دور دراز سے آئے ہوں گے اور ایک ہی مرتبہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ہوں گے ‘ لیکن انہوں نے اس وقت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جس شان میں دیکھا اس کو پھر اپنے اوپر لازم کرلیا۔- اتباع کے ضمن میں یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ اگرچہ دین کے کچھ تقاضے ایسے ہیں کہ انہیں جس درجے میں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پورا فرمایا اس درجے میں پورا کرنا کسی انسان کے بس میں نہیں ہے ‘ پھر بھی اس کی کوشش کرتے رہنا اتباع کا تقاضا ہے۔ مثلاً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی مکان نہیں بنایا ‘ کوئی جائیداد نہیں بنائی ‘ جیسے ہی وحی کا آغاز ہوا ‘ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی دنیوی کام نہیں کیا ‘ کوئی تجارت نہیں کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے وقت کا ایک ایک لمحہ اور اپنی توانائی کی ایک ایک رمق اللہ کے دین کی دعوت اور اس کی اقامت میں لگا دی۔ سب کے لیے تو اس مقام تک پہنچنا یقینامشکل ہے ‘ لیکن بہرحال بندۂ مؤمن کا آئیڈیل یہ رہے اور وہ اسی کی طرف چلنے کی کوشش کرتا رہے ‘ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اور زیادہ سے زیادہ وسائل فارغ کرے اور اس کام کے اندر لگائے تو اتباعکا کم سے کم تقاضا پورا ہوگا۔ البتہ جہاں تک اطاعتکا تعلق ہے اس میں کوتاہی قابل قبول نہیں۔ جہاں حکم دے دیا گیا کہ یہ حلال ہے ‘ یہ حرام ہے ‘ یہ فر ض ‘ ہے یہ واجب ہے ‘ وہاں حکم عدولی کی گنجائش نہیں۔ اگر اطاعت ہی سے انکار ہے تو اسے قرآن کفر قرار دے رہا ہے۔ - اتباع کا معاملہ یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع کرنے والا اللہ کا محبوب بن جاتا ہے۔ یہاں ارشاد فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل ایمان سے کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرا اتباع کرو ‘ میری پیروی کرو۔ دیکھو ‘ میرے شب و روز کیا ہیں ؟ میری توانائیاں کن کاموں پر لگ رہی ہیں ؟ دنیا کے اندر میری دلچسپیاں کیا ہیں ؟ ان معاملات میں تم میری پیروی کرو۔ اس کے نتیجے میں تم اللہ تعالیٰ کے محب سے بڑھ کر محبوببن جاؤ گے اور اللہ تمہارے گناہ بخش دے گا۔ وہ یقیناً غفور اور رحیم ہے۔ باقی اطاعت تو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کی بہرصورت کرنی ہے۔ اگر یہ اس اطاعت سے بھی منہ موڑیں تو اللہ تعالیٰ کو ایسے کافر پسند نہیں ہیں۔ کیونکہ اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار تو کفر ہوگیا۔ یہاں سورة آل عمران کے نصفِ اوّل کا ثلث اوّل مکمل ہوگیا۔ میں نے عرض کیا تھا کہ اس سورة مبارکہ کی پہلی ٣٢ آیات تمہیدی اور عمومی نوعیت کی ہیں۔ ان میں دین کے بڑے گہرے اصول بیان ہوئے ہیں ‘ نہایت جامع دعائیں تلقین کی گئی ہیں اور محکمات اور متشابہات کا فرق واضح کیا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :28 یہاں پہلی تقریر ختم ہوتی ہے ۔ اس کے مضمون ، خصوصاً جنگ بدر کی طرف جو اشارہ اس میں کیا گیا ہے ، اس کے انداز پر غور کرنے سے غالب قیاس یہی ہوتا ہے کہ اس تقریر کے نزول کا زمانہ جنگ بدر کے بعد اور جنگ احد سے پہلے کا ہے ، یعنی سن ۳ ہجری ۔ محمد بن اسحاق کی روایت سے عموماً لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ اس سورت کی ابتدائی ۸۰ آیتیں وفد نجران کی آمد کے موقع پر سن ۹ ہجری میں نازل ہوئی تھیں ۔ لیکن اول تو اس تمہیدی تقریر کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ یہ اس سے بہت پہلے نازل ہوئی ہو گی ، دوسرے مقاتل بن سلیمان کی روایت میں تصریح ہے کہ وفد نجران کی آمد پر صرف وہ آیات نازل ہوئی ہیں جو حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کے بیان پر مشتمل ہیں اور جن کی تعداد ۳۰ یا اس سے کچھ زائد ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani