سب سے پہلے نبی یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان بزرگ ہستیوں کو تمام جہان پر فضیلت عنایت فرمائی ، حضرت آدم کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ۔ اپنی روح ان میں پھونکی ہر چیز کے نام انہیں بتلائے ، جنت میں انہیں بسایا پھر اپنی حکمت کے اظہار کے لئے زمین پر اتارا ، جب زمین پر بت پرستی قائم ہو گئی تو حضرت نوح علیہ السلام کو سب سے پہلا رسول بنا کر بھیجا پھر جب ان کی قوم نے سرکشی کی پیغمبر کی ہدایت پر عمل نہ کیا ، حضرت نوح نے دن رات پوشیدہ اور ظاہر اللہ کی طرف دعوت دی لیکن قوم نے ایک نہ سنی تو نوح علیہ السلام کے فرماں برداروں کے سوا باقی سب کو پانی کے عذاب یعنی مشہور طوفان نوح بھیج کر ڈبو دیا ۔ خاندان خلیل اللہ علیہ صلوات اللہ کو اللہ تعالیٰ نے برگزیدگی عنایت فرمائی اسی خاندان میں سے سیدالبشر خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، عمران کے خاندان کو بھی اس نے منتخب کر لیا ، عمران نام ہے حضرت مریم کے والد صاحب کا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ہیں ، ان کا نسب نامہ بقول محمد بن اسحاق یہ ہے ، عمران بن ہاشم بن میثا بن خرقیا بن اسیث بن ایازبن رخیعم بن سلیمان بن داؤد علیہما السلام ، پس عیسیٰ علیہ السلام بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہیں اس کا مفصل بیان سورۃ انعام کی تفسیر میں آئے گا ۔ انشاء اللہ الرحمن
33۔ 1 انبیاء (علیہ السلام) کے خاندانوں میں دو عمران ہوئے ہیں ایک حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کے والد اور دوسرے حضرت مریم (علیہ السلام) کے والد۔ اس آیت میں اکثر مفسرین کے نزدیک یہی دوسرے عمران مراد ہیں اور اس خاندان کو بلند درجہ حضرت مریم (علیہ السلام) اور ان کے بیٹے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی وجہ سے حاصل ہوا اور حضرت مریم (علیہ السلام) کی والدہ کا نام مفسرین نے حنّہ بنت فاقوذ لکھا ہے (تفسیر قرظبی و ابن کثیر) اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آل عمران کے علاوہ مزید تین خاندانوں کا تذکرہ فرمایا جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے وقت میں جہانوں پر فضیلت عطا فرمائی ان میں پہلے حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں جنہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی۔ دوسرے حضرت نوح (علیہ السلام) ہیں انہیں اس وقت کا رسول بنا کر بھیجا گیا جب لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو معبود بنا لیا انہیں عمر طویل عطا کی گئی انہوں نے اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی لیکن چند افراد کے سوا کوئی آپ پر ایمان نہیں لایا۔ بالآخر آپ کی بددعا سے اہل ایمان کے سوا دوسرے تمام لوگوں کو غرق کردیا گیا آل ابراہیم کو یہ فضیلت عطا کی گئی کہ ان میں انبیاء و سلاطین کا سلسلہ قائم کیا اور بیشتر پیغمبر آپ ہی کی نسل سے ہوئے حتیٰ کہ کائنات میں سب سے افضل حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے اسماعیل (علیہ السلام) کی نسل سے ہوئے۔
[٣٥] اس آیت سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی امت نصاریٰ کا ذکر ہو رہا ہے۔ اس آیت میں یہ بتلایا جارہا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) انسان ہی تھے اور آدم ہی کی اولاد سے تھے۔ کوئی مافوق البشر ہستی نہیں تھے۔ پھر بعد میں یہ بتلایا گیا ہے کہ ان کی پیدائش کن حالات میں ہوئی اور کیسے ہوئی۔ بعدہ ان کی زندگی کے مختصر سے حالات اور پھر عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا اپنے ہاں اٹھا لینے کا ذکر ہے اور ساتھ ہی عیسائیوں کے عقائد باطلہ کی تردید بھی پیش کی جارہی ہے، جس وقت اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا تو اس وقت کی موجودہ کائنات (آسمان و زمین، شمس و قمر، ستارے، جن اور فرشتے وغیرہ) میں فرشتے ہی تمام مخلوق سے افضل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے حضرت آدم کو سجدہ کروایا اور حضرت آدم کو تمام جہان والوں پر فضیلت بخشی، پھر انہیں نبوت سے سرفراز فرمایا۔ پھر ان ہی کی اولاد میں نبی پیدا ہوتے رہے۔ پھر حضرت نوح کے بعد سلسلہ نبوت حضرت نوح کی اولاد سے مختص ہوگیا جو حضرت ابراہیم تک چلتا رہا۔ پھر یہ سلسلہ نبوت حضرت ابراہیم کی اولاد سے مختص ہوگیا۔ حتیٰ کہ نبی آخرالزمان بھی انہی کی اولاد سے تھے اور آل عمران کا ذکر بالخصوص اس لیے کیا کہ نسب تو مرد کی طرف سے چلتا ہے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بن باپ پیدا ہوئے تھے۔ البتہ ان کی والدہ حضرت مریم عمران ہی کے خاندان سے تھیں اور اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو منسوب بھی ان کی والدہ مریم ہی کی طرف کیا ہے۔ یہ عمران حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کے والد کا نام ہے۔ انہی کی اولاد سے حضرت مریم تھیں اور اس سورت کا نام آل عمران بھی اسی نسبت سے ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت مریم کے والد کا نام بھی عمران ہو، جیسا کہ آیت کے الفاظ (قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ 35) 3 ۔ آل عمران :35) سے ہوتا ہے۔
اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰٓي۔۔ : اوپر کی آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع و اطاعت کا حکم دیا ہے، اب اس آیت میں آپ کی رسالت کے اثبات کے سلسلہ میں فرمایا جا رہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تعلق بھی اس خاندان نبوت سے ہے جسے اللہ تعالیٰ نے چن لیا ہے (کیونکہ آپ آل ابراہیم سے ہیں) ۔ (شوکانی) عمران نام کی دو شخصیتیں گزری ہیں، ایک موسیٰ و ہارون (علیہ السلام) کے والد اور دوسرے مریم [ کے والد۔ اکثر مفسرین نے یہاں دوسرے عمران مراد لیے ہیں، کیونکہ انھی کی آل (مریم و عیسیٰ (علیہ السلام ) کا قصہ بیان کیا جا رہا ہے۔ (ابن کثیر، رازی) غالباً اس سورت کا نام بھی اسی قصہ کی بنا پر رکھا گیا ہے۔
انبیاء سابقین کا تذکرہ برائے تسلی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) :- جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت سے اس لئے گریز کرتے تھے کہ ان کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت ہی میں شبہ تھا، ان کی ہدایت کے لئے ان آیات میں کچھ نظائر انبیاء سابقین (علیہم السلام) کے بیان فرماتے ہیں، جن سے یہ شبہات رفع ہوجائیں، ان انبیاء سابقین (علیہم السلام) کے تذکرہ میں حضرت آدم، نوح، آل ابراہیم، آل عمران (علیہم السلام) کا ذکر تو اجمال و اختصار کے ساتھ کردیا گیا ہے، اس کے بعد دراصل ذکر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا کرنا ہے، اس سے پہلے ان کی نانی اور والدہ کا بھی تفصیلی تذکرہ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نہایت مفصل ذکر کیا گیا ہے جس کی حکمت و مصلحت کا بیان مسئلہ حیات عیسیٰ (علیہ السلام) کے تحت آئے گا، خلاصہ یہ ہے کہ امت محمدیہ کو آخر زمانہ میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ساتھ کام کرنا ہے اس لئے ان کی پہچان اور علامات کے بیان کرنے کا اہتمام قرآن میں سب انبیاء سے زیادہ کیا گیا ہے۔- خلاصہ تفسیر - بیشک اللہ تعالیٰ نے ( نبوت کے لئے) منتخب فرمایا ہے ( حضرت) آدم (علیہ السلام) اور (حضرت) نوح ( علیہ السلام) کو اور ( حضرت) ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد ( میں سے بعضوں) کو ( جیسے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ، حضرت اسحاق (علیہ السلام) ، حضرت یعقوب (علیہ السلام) ، اور تمام انبیاء بنی اسرائیل کہ اولاد یعقوب (علیہ السلام) کی ہیں، اور ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اولاد اسماعیل (علیہ السلام) سے ہیں) اور عمران کی اولاد ( میں سے بعضوں) کو (اگر یہ عمران حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے والد ہیں تو اولاد سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) ہیں، اور اگر یہ عمران حضرت مریم (علیہا السلام) کے والد ہیں تو اولاد سے مراد حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) ہیں، غرض ان حضرات کو نبوت کے لئے) تمام جہان ( کی مخلوقات) پر ( منتخب فرمایا ہے) بعضے ان میں بعضوں کی اولاد ہیں ( جیسے حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد سب ہیں، اسی طرح نوح (علیہ السلام) کی اولاد سب ہیں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں اولاد عمران بھی ہے) اور اللہ تعالیٰ خوب سننے والے ہیں خوب جاننے ولے ہیں ( کہ سب کے قول سنتے ہیں سب کے احوال کو جانتے ہیں بس جس کے اقوال و احوال مناسب شان نبوت کے دیکھے ان کو نبی بنادیا) ۔
اِنَّ اللہَ اصْطَفٰٓي اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰہِيْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ ٣٣ ۙ- اصْطِفَاءُ- : تناولُ صَفْوِ الشیءِ ، كما أنّ الاختیار : تناول خيره، والاجتباء : تناول جبایته .- واصْطِفَاءُ اللهِ بعضَ عباده قد يكون بإيجاده تعالیٰ إيّاه صَافِياً عن الشّوب الموجود في غيره، وقد يكون باختیاره وبحکمه وإن لم يتعرّ ذلک من الأوّل، قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ [ الحج 75] - الاصطفا ء - کے معنی صاف اور خالص چیز لے لینا کے ہیں جیسا کہ اختیار کے معنی بہتر چیز لے لینا آتے ہیں اور الا جتباء کے معنی جبایتہ یعنی عمدہ چیا منتخب کرلینا آتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا کسی بندہ کو چن لینا کبھی بطور ایجاد کے ہوتا ہے یعنی اسے ان اندرونی کثافتوں سے پاک وصاف پیدا کرتا ہے جو دوسروں میں پائی جاتی ہیں اور کبھی بطریق اختیار اور حکم کے ہوتا ہے گو یہ قسم پہلے معنی کے بغیر نہیں پائی جاتی ۔ قرآن میں ہے : اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ [ الحج 75] خدا فرشتوں اور انسانوں میں رسول منتخب کرلیتا ہے ۔ - آدم - آدم أبو البشر، قيل : سمّي بذلک لکون جسده من أديم الأرض، وقیل : لسمرةٍ في لونه . يقال : رجل آدم نحو أسمر، وقیل : سمّي بذلک لکونه من عناصر مختلفة وقوی متفرقة، كما قال تعالی: مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ نَبْتَلِيهِ [ الإنسان 2] . ويقال : جعلت فلاناً أَدَمَة أهلي، أي : خلطته بهم وقیل : سمّي بذلک لما طيّب به من الروح المنفوخ فيه المذکور في قوله تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] ، وجعل له العقل والفهم والرّوية التي فضّل بها علی غيره، كما قال تعالی: وَفَضَّلْناهُمْ عَلى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنا تَفْضِيلًا [ الإسراء 70] ، وذلک من قولهم : الإدام، وهو ما يطيّب به الطعام وفي الحدیث : «لو نظرت إليها فإنّه أحری أن يؤدم بينكما» أي : يؤلّف ويطيب .- ( ادم ) ادم - ۔ ابوالبشیر آدم (علیہ السلام) بعض نے کہا ہے ۔ کہ یہ ادیم لارض سے مشتق ہے اور ان کا نام آدم اس لئے رکھا گیا ہے کہ ان کے جسم کو بھی ادیم ارض یعنی روئے زمین کی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ادمۃ سے مشتق ہے جس کے معنی گندمی رنگ کے ہیں ۔ چونکہ آدم (علیہ السلام) بھی گندمی رنگ کے تھے اس لئے انہیں اس نام سے مسوسوم کیا گیا ہے چناچہ رجل آدم کے معنی گندمی رنگ مرد کے ہیں ۔ اور بعض آدم کی وجہ تسمیہ بیان ہے کہ وہ مختلف عناصر اور متفرق قویٰ کے امتزاج سے پیدا کئے گئے تھے ۔ جیسا کہ آیت أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ ( سورة الإِنْسان 2) مخلوط عناصر سے ۔۔۔۔ کہ اسے آزماتے ہیں ۔ سے معلوم ہوتا ہے۔ چناچہ محاورہ ہے جعلت فلانا ادمہ اھلی میں فلاں کو اپنے اہل و عیال میں ملالیا مخلوط کرلیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ آدم ادام سے مشتق ہے اور ادام ( سالن وغیرہ ہر چیز کو کہتے ہیں جس سے طعام لو لذیز اور خوشگوار محسوس ہو اور آدم میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی روح ڈال کر اسے پاکیزہ بنا دیا تھا جیسے کہ آیت و نفخت فیہ من روحی (38 ۔ 72) اور اس میں اپنی روح پھونک دوں ۔ میں مذکور ہے اور پھر اسے عقل و فہم اور فکر عطا کرکے دوسری مخلوق پر فضیلت بھی دی ہے جیسے فرمایا : وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا ( سورة الإسراء 70) اور ہم نے انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ اس بناء پر ان کا نام آدم رکھا گیا ہے اور حدیث میں ہے (8) لو نظرت الیھا فانہ احری ان یودم بینکما اگر تو اسے اپنی منگیرکو ایک نظر دیکھ لے تو اس سے تمہارے درمیان الفت اور خوشگواری پیدا ہوجانے کا زیادہ امکان ہے ۔- نوح - نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس .- ( ن و ح ) نوح - ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔- عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، - العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں
ال اور اہل ایک ہی چیز ہیں - قول باری ہے (وال ابراھیم وآل عمران آل ابراہیم اور آل عمران کو) حضرت ابن عباس اور حسن بصری سے مروی ہے کہ آل ابراہیم وہ اہل ایمان ہیں جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر قائم ہیں۔ حسن کا قول ہے کہ آل عمران سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں اس لیئے کہ وہ حضرت مریم کے بیٹے ہیں۔ جو عمران کی بیٹی تھیں۔ ایک قول ہے کہ آل عمران سے مراد آل ابراہیم ہی ہیں جس طرح کہ قول باری ہے (ذریۃ بعضھا من بعض، یہ ایک سلسلے کے لوگ تھے جو ایک نسل سے پیدا ہوئے تھے۔ ) ان سے مراد حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ہیں جو عمران کے بیٹے تھے۔ ہمارے اصحاب کے نزدیک لفظ آل اور لفظ اہل بیت دونوں کا مفہوم ایک ہے اس لیے اگر کوئی شخص فلاں کی ال کے لیئے وصیت کرتا ہے تو اس کی حیثیت وہی ہوگی جو فلاں کے اہل بیت کے لیے وصیت کی ہے۔ اس لیے یہ وصیت ان سب کے لیے ہوگی جو اس فلاں کے ساتھ دادا میں شریک ہوجاتے ہیں جس کی طرف یہ سب کے سب اپنے آباء کے واسطے منسوب ہوتے ہیں۔- اس لیے مثلا آل النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل بیت النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں ایک ہی مفہوم ادا کرتے ہیں۔ البتہ سے یہ صورت خارج ہے کہ کوئی شخص ایسا ہو جس کی طرف آل منسوب ہو تو اس صورت میں اس سے مراد گھرانہ یا خاندان ہوگا جوا س کی طرف منسوب ہوگا۔ مثلا ہم کہتے ہیں آل عباس آل علی وغیرہ تو اس سے مراد عباس اور علی کی اولاد ہے جو اپنے آباء کی وساطت سے ان دونوں کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔ یہ معنی اس اصول پر مبنی ہے جو لوگوں میں متعارف ومعتاد ہے۔
سورة آل عمران کے نصف اوّل کا دوسرا حصہ ٣١ آیات پر مشتمل ہے۔ اس حصے میں خطاب براہ راست نصاریٰ سے ہے اور انہیں بتایا گیا ہے کہ یہ جو تم نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو معبود بنا لیا ہے اور تثلیث ( ) کا عقیدہ گھڑ لیا ہے یہ سب باطل ہے۔ عیسائیوں کے ہاں دو طرح کی تثلیث رائج رہی ہے ۔۔ ( خدا ‘ مریم اور عیسیٰ ( علیہ السلام) ۔۔ اور ( خدا ‘ روح القدس اور عیسیٰ ( علیہ السلام) ۔ یہاں پر واضح کردیا گیا کہ یہ جو تثلیثیں تم نے ایجاد کرلی ہیں ان کی کوئی بنیاد نہیں ہے ‘ یہ تمہاری کج روی ہے۔ تم نے غلط شکل اختیار کی ہے۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) بہت برگزیدہ پیغمبر تھے۔ ہاں ان کی ولادت معجزانہ طریقے پر ہوئی ہے۔ لیکن ان سے متصلاً قبل حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) کی ولادت بھی تو معجزانہ ہوئی تھی۔ وہ بھی کوئی کم معجزہ نہیں ہے۔ اور پھر حضرت آدم (علیہ السلام) کی ولادت بھی تو بہت بڑا معجزہ ہے۔ اللہ نے آدم ( علیہ السلام) کو پیدا کیا اور ان سے نسل انسانی کا آغاز ہوا۔ چناچہ اگر کسی کی معجزانہ ولادت الوہیت کی دلیل ہے تو کیا حضرت آدم ( علیہ السلام) اور حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) بھی الٰہ ہیں ؟ تو یہ ساری بحث اسی موضوع پر ہو رہی ہے۔- آیت ٣٣ (اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفآی اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰہِیْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ) ۔- اِصطفاء کے معنی منتخب کرنے یا چن لینے ( ) کے ہیں۔ زیر مطالعہ آیت سے متبادر ہوتا ہے کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) کا بھی اصطفاء ہوا ہے۔ اس میں ان لوگوں کے لیے ایک دلیل موجود ہے جو تخلیق آدم کے ضمن میں یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ پہلے ایک نوع ( ) وجود میں آئی تھی اور اللہ نے اس نوع کے ایک فرد کو چن کر اس میں اپنی روح پھونکی تو وہ آدم ( علیہ السلام) بن گئے۔ چناچہ وہ بھی چنیدہ ( ) تھے۔ اِصطفاء کے ایک عام معنی بھی ہوتے ہیں ‘ یعنی پسند کرلینا۔ ان معنوں میں آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم ( علیہ السلام) کو اور نوح ( علیہ السلام) کو اور ابراہیم (علیہ السلام) کے خاندان کو اور عمران کے خاندان کو تمام جہان والوں پر ترجیح دے کر پسند کرلیا۔ تاریخ بنی اسرائیل میں عمران دو عظیم شخصیتوں کے نام ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے والد کا نام بھی عمران تھا اور حضرت مریم کے والد یعنی حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے نانا کا نام بھی عمران تھا۔ یہاں پر غالباً حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے والد مراد ہیں۔ لیکن آگے چونکہ حضرت مریم ( علیہ السلام) اور عیسیٰ ( علیہ السلام) کا تذکرہ آرہا ہے ‘ لہٰذا عین ممکن ہے کہ یہاں پر حضرت مریم ( علیہ السلام) کے والد کی طرف اشارہ ہو۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :29 یہاں سے دوسرا خطبہ شروع ہوتا ہے ۔ اس کے نزول کا زمانہ سن ۹ ہجری ہے ، جب کہ نجران کی عیسائی جمہوریت کا وفد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا ۔ نجران کا علاقہ حجاز اور یمن کے درمیان ہے ۔ اس وقت اس علاقے میں ۷۳ بستیاں شامل تھیں اور کہا جاتا ہے کہ ایک لاکھ ۲۰ ہزار قابل جنگ مرد اس میں سے نکل سکتے تھے ۔ آبادی تمام تر عیسائی تھی اور تین سرداروں کے زیر حکم تھی ۔ ایک عاقب کہلاتا تھا ، جس کی حیثیت امیر قوم کی تھی ۔ دوسرا سید کہلاتا تھا ، جو ان کے تمدنی و سیاسی امور کی نگرانی کرتا تھا اور تیسرا ُسقف ( بشپ ) تھا جس سے مذہبی پیشوائی متعلق تھی ۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا اور تمام اہل عرب کو یقین ہو گیا کہ ملک کا مستقبل اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہے ، تو عرب کے مختلف گوشوں سے آپ کے پاس وفد آنے شروع ہو گئے ۔ اسی سلسلے میں نجران کے تینوں سردار بھی ٦۰ آدمیوں کا ایک وفد لے کر مدینے پہنچے ۔ جنگ کے لیے بہرحال وہ تیار نہ تھے ۔ اب سوال صرف یہ تھا کہ آیا وہ اسلام قبول کرتے ہیں یا ذمی بن کر رہنا چاہتے ہیں ۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ خطبہ نازل کیا تاکہ اس کے ذریعے سے وفد نجران کو اسلام کی طرف دعوت دی جائے ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :30 عمران حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کے والد کا نام تھا ، جسے بائیبل میں ”عمرام“ لکھا ہے ۔