34۔ 1 یا دوسرے معنی ہیں دین میں ایک دوسرے کے معاون اور مددگار۔
[٣٦] گویا سب انبیاء آدم، پھر نوح، پھر ابراہیم کی اولاد میں تھے اور چونکہ حضرت عیسیٰ بھی حضرت ابراہیم اور پھر آل عمران سے تھے۔ لہذا وہ بھی انسان تھے۔ اللہ یا اللہ کے بیٹے نہیں تھے۔ اور سب انبیاء کو مذکورہ بالا تین انبیا کی اولاد سے مبعوث فرمانا ہی اللہ کی حکمت کا مقتضیٰ تھا اس کے باوجود جو لوگ حضرت عیسیٰ کو اللہ یا اس کا بیٹا قرار دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی باتوں کو خوب سن رہا ہے۔ ان دو آیات میں مسیحی عقائد کے رد کی تمہید بیان ہوئی ہے آگے تفصیلی ذکر آرہا ہے۔
ذُرِّيَّةًۢ بَعْضُهَا مِنْۢ بَعْضٍ ۭ: گویا سب انبیا آدم (علیہ السلام) ، پھر نوح (علیہ السلام) ، پھر ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے اور چونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) بھی ابراہیم (علیہ السلام) اور پھر آل عمران سے تھے، لہٰذا وہ بھی انسان تھے، اللہ یا اللہ کے بیٹے نہیں تھے۔ یہاں سے اہل نجران اور دوسرے نصرانیوں کے عقیدے کے ابطال کے لیے عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کا قصہ شروع ہوتا ہے۔
ذُرِّيَّۃًۢ بَعْضُہَا مِنْۢ بَعْضٍ ٠ ۭ وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ ٣٤ ۚ- ذر - الذّرّيّة، قال تعالی: وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124]- ( ذ ر ر) الذریۃ ۔- نسل اولاد ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124] اور میری اولاد میں سے بھی - بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔
قول باری ہے (ذریۃ بعضھا من بعض) حسن اور قتادہ سے مروی ہے کہ دین میں ایک دوسرے کی ہمنوائی اور مدد کے لحاظ سے یہ ایک سلسلے کے لوگ تھے۔ جس طرح کہ قول باری ہے (المنافقون والمنافقات بعضھم من بعض) ، منافق مرد اور مفافق عورتیں یہ سب ایک سلسلے کے لوگ ہیں) یعنی گمراہی اور ضلال پر اکھٹے ہونے کے لحاظ سے پھر ارشا ہوا (والمومنون المومنات بعضھم اولیاء بعض، اہل ایمان مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے دینی رفیق ہیں) یعنی ہدایت پر اکھٹے ہوجانے میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں بعض کا قو ل ہے کہ (ذریۃ بعضھا من بعض) ایک ہی نسل سے پیدا ہونے کے لحاظ سے اس لیئے کہ یہ سب حضرت آدم پھر حضرت نوح اور پھر حضرت ابراہیم السلام کی نسل سے تھے۔
آیت ٣٤ ( ذُرِّیَّۃً م بَعْضُہَا مِنْم بَعْضٍ ط) - حضرت نوح (علیہ السلام) حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد سے ہیں ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حضرت نوح ( علیہ السلام) کی اولاد سے ہیں ‘ اور پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا پورا خاندان بنی اسماعیل ‘ بنی اسرائیل اور آل عمران ان کی اولاد میں سے ہیں۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :31 مسیحیوں کی گمراہی کا تمام تر سبب یہ ہے کہ وہ مسیح کو بندہ اور رسول ماننے کے بجائے اللہ کا بیٹا اور الوہیت میں اس کا شریک قرار دیتے ہیں ۔ اگر ان کی یہ بنیادی غلطی رفع ہو جائے ، تو اسلام صحیح و خالص کی طرف ان کا پلٹنا بہت آسان ہو جائے ۔ اسی لیے اس خطبے کی تمہید یوں اٹھائی گئی ہے کہ آدم علیہ السلام اور نوح علیہ السلام اور آل ابراہیم علیہ السلام اور آل عمران کے سب پیغمبر انسان تھے ، ایک کی نسل سے دوسرا پیدا ہوتا چلا آیا ، ان میں سے کوئی بھی خدا نہ تھا ، ان کی خصوصیت بس یہ تھی کہ خدا نے اپنے دین کی تبلیغ اور دنیا کی اصلاح کے لیے ان کو منتخب فرمایا تھا ۔
10: آیت کا یہ ترجمہ حضرت قتادہ کی تفسیر پر مبنی ہے (دیکھئے روح المعانی 176:3) واضح رہے کہ عمران حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے والد کا بھی نام ہے، اور حضرت مریم علیہا السلام کے والد کا بھی، یہاں دونوں مراد ہوسکتے ہیں، لیکن چونکہ آگے حضرت مریم علیہا السلام کی واقعہ آرہا ہے۔ اس لیے ظاہر یہ ہے کہ یہاں حضرت مریم علیہا السلام ہی کے والد مراد ہیں۔