Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مریم بنت عمران حضرت عمران کی بیوی صاحبہ کا نام حسنہ بنت فاقوذ تھا حضرت مریم علیہما السلام کی والدہ تھیں حضرت محمد اسحاق فرماتے ہیں انہیں اولاد نہیں ہوتی تھی ایک دن ایک چڑیا کو دیکھا کہ وہ اپنے بچوں کو چوغہ دے رہی ہے تو انہیں ولولہ اٹھا اور اللہ تعالیٰ سے اسی وقت دعا کی اور خلوص کے ساتھ اللہ کو پکارا ، اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی دعا قبول فرما لی اور اسی رات انہیں حمل ٹھہر گیا جب حمل کا یقین ہو گیا تو نذر مانی کہ اللہ تعالیٰ مجھے جو اولاد دے گا اسے بیت المقدس کی خدمت کے لئے اللہ کے نام پر آزاد کر دوں گی ، پھر اللہ سے دعا کی کہ پروردگار تو میری اس مخلصانہ نذر کو قبول فرما تو میری دعا کو سن رہا ہے اور تو میری نیت کو بھی خوب جان رہا ہے ، اب یہ معلوم نہ تھا لڑکا ہو گا یا لڑکی جب پیدا ہوا تو دیکھا کہ وہ لڑکی ہے اور لڑکی تو اس قابل نہیں کہ وہ مسجد مقدس کی خدمت انجام دے سکے اس کے لئے تو لڑکا ہونا چاہئے تو عاجزی کے طور پر اپنی مجبوری جناب باری میں ظاہر کی کہ اے اللہ میں تو اسے تیرے نام پر وقف کر چکی تھی لیکن مجھے تو لڑکی ہوئی ہے ، واللہ اعلم بما وضعت بھی پڑھا گیا یعنی یہ قول بھی حضرت حسنہ کا تھا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ میرے ہاں لڑکی ہوئی اور تا کے جزم کے ساتھ بھی آیا ہے ، یعنی اللہ کا یہ فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بخوبی معلوم ہے کہ کیا اولاد ہوئی ہے ، اور فرماتی ہے کہ مرد عورت برابر نہیں ، میں اس کا نام مریم رکھتی ہوں ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس دن بچہ ہوا اسی دن نام رکھنا بھی جائز ہے ، کیونکہ ہم سے پہلے لوگوں کی شریعت ہماری شریعت ہے اور یہاں یہ بیان کیا گیا اور تردید نہیں کی گئی بلکہ اسے ثابت اور مقرر رکھا گیا ، اسی طرح حدیث شریف میں بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج رات میرے ہاں لڑکا ہوا اور میں نے اس کا نام اپنے باپ حضرت ابراہیم کے نام پر ابراہیم رکھا ملاحظہ ہو بخاری مسلم ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے بھائی کو جبکہ وہ تولد ہوئے لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے انہیں اپنے ہاتھ سے گھٹی دی اور ان کا نام عبداللہ رکھا ، یہ حدیث بھی بخاری و مسلم میں موجود ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے آکر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں رات کو بچہ ہوا ہے کیا نام رکھوں؟ فرمایا عبدالرحمن نام رکھو ( بخاری ) ایک اور صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت ابو سید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں بچہ ہوا جسے لے کر آپ حاضر خدمت نبوی ہوئے تاکہ آپ اپنے دست مبارک سے اس بچے کو گھٹی دیں آپ اور طرف متوجہ ہوگئے بچہ کا خیال نہ رہا ۔ حضرت ابو اسید نے بچے کو واپس گھر بھیج دیا جب آپ فارغ ہوئے بچے کی طرف نظر ڈالی تو اسے نہ پایا گھبرا کر پوچھا اور معلوم کر کے کہا اس کا نام منذر رکھو ( یعنی ڈرا دینے والا ) مسند احمد اور سنن میں ایک اور حدیث مروی ہے جسے امام ترمذی صحیح کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر بچہ اپنے عقیقہ میں گروی ہے ساتویں دن عقیقہ کرے یعنی جانور ذبح کرے اور نام رکھے ، اور بچہ کا سر منڈوائے ، ایک روایت میں ہے اور خون بہایا جائے اور یہ زیادہ ثبوت والی اور زیادہ حفظ والی روایت ہے واللہ اعلم ، لیکن زبیر بن بکار کی روایت جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا عقیقہ کیا اور نام ابراہیم رکھا یہ حدیث سنداً ثابت نہیں اور صحیح حدیث اس کے خلاف موجود ہے اور یہ تطبیق بھی ہو سکتی ہے کہ اس نام کی شہرت اس دن ہوئی واللہ اعلم ۔ حضرت مریم علیہما السلام کی اس دعا کو قبول فرمایا ، چنانچہ مسند عبدالرزاق میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر بچے کو شیطان اس کی پیدائش کے وقت ٹہوکا دیتا ہے اسی سے وہ چیخ کر رونے لگتا ہے لیکن حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ اس سے بچے رہے ، اس حدیث کو بیان فرما کر حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں اگر تم چاہو تو اس آیت کو پڑھ لو آیت ( وَاِنِّىْٓ اُعِيْذُھَابِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ ) 3 ۔ آل عمران:36 ) یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی موجود ہے ، یہ حدیث اور بھی بہت سی کتابوں میں مختلف الفاظ سے مروی ہے کسی میں ہے ایک یا دو دھچکے مارتا ہے ، ایک حدیث میں صرف عیسیٰ کا ہی ذکر ہے کہ شیطان نے انہیں بھی دھچکا مارنا چاہا لیکن انہیں دیا ہوا ٹہوکا پردے میں لگ کر رہ گیا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

35۔ 1 مُحَرّرَا (تیرے نام آزاد) کا مطلب تیری عبادت گاہ کی خدمت کے لئے وقف۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

تفاسیر میں عمران کی بیوی کا نام ” حَنَّہ “ مذکور ہے اور یہ کہ دمشق کے بیرونی حصے میں ان کی قبر ہے، مگر ان دونوں باتوں کی کوئی پختہ دلیل نہیں۔ اس زمانے میں دستور تھا کہ بعض لڑکوں کو ماں باپ اپنے حق سے آزاد کرکے اللہ تعالیٰ کی نذر کردیتے اور عبادت خانے کے سپرد کردیتے۔ عمران کی بیوی حاملہ تھیں، انھوں نے بھی یہی نذر مانی۔ ” مُحَرَّرًا “ کے معنی ہیں کہ وہ صرف مسجد کی خدمت ہی کے لیے وقف رہے گا۔ (قرطبی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - ( وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے) جبکہ عمران ( پدر مریم) کی بی بی نے (حالت حمل میں حق تعالیٰ سے) عرض کیا کہ اے میرے پروردگار میں نے نذر ( یعنی منت) مانی ہے آپ ( کی عبادت) کے لئے اس بچے کی جو میرے شکم میں ہے کہ وہ ( خانہ خدا کی خدمت کے واسطے) آزاد (فارغ) رکھا جائے گا ( اور میں اس کو اپنے کام میں نہ لگاؤں گی) سو آپ ( اس کو) مجھ سے قبول کر لیجیے، بیشک آپ خوب سننے والے خوب جاننے والے ہیں ( کہ میری عرض کو سن رہے ہیں اور میری نیت کو جان رہے ہیں) پھر جب (ان بی بی نے) لڑکی جنی ( تو ان کو رنج ہوا کہ یہ تو خدمت بیت المقدس کے لائق نہیں، یہ کام تو مردوں کا ہے، اس لئے حسرت سے) کہنے لگیں کہ اے میرے پروردگار میں نے تو حمل لڑکی جنی (حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ اپنے خیال سے حسرت کر رہی تھیں) حالانکہ اللہ تعالیٰ زیادہ جانتے ہیں ( اس لڑکی کی شان) کو جو انہوں نے جنی اور ( کسی طرح بھی) وہ لڑکا ( جو انہوں نے چاہا تھا) اس لڑکی کے برابر نہیں ( ہوسکتا تھا، بلکہ یہ لڑکی ہی افضل ہے کہ اس کے کمالات و برکات عجیب و غریب ہوں گے، یہ ارشاد خداوندی بطور جملہ معترضہ کے تھا، پھر بی بی کا قول ہے) اور میں نے اس لڑکی کا نام مریم رکھا اور میں اس کو اور اس کی اولاد کو ( اگر کبھی اولاد ہو) آپ کی پناہ ( اور حفاظت) میں دیتی ہوں شیطان مردود سے۔- معارف و مسائل - انبیاء سابقین (علیہم السلام) کی شریعت میں ایک طریقہ عبادت کا یہ بھی تھا کہ اپنی اولاد میں سے کسی بچے کو اللہ کے لئے مخصوص کردیں کہ اس سے دنیا کی کوئی خدمت نہ لیں، حضرت مریم (علیہا السلام) کی والدہ نے اسی قاعدہ کے مطابق اپنے حمل کے متعلق یہ منت مان لی کہ اس کو خاص بیت المقدس کی خدمت کے لئے رکھوں گی، دنیا کے کام میں نہ لگاؤں گی، مگر جب حمل سے لڑکی پیدا ہوئی تو یہ خیال کر کے افسوس کیا کہ لڑکی تو یہ کام نہیں کرسکتی، مگر حق تعالیٰ نے ان کے اخلاص کی برکت سے اس لڑکی ہی کو قبول فرمالیا، اور اس کی شان ساری دنیا کی لڑکیوں سے ممتاز کردی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ماں کو اپنے بچے کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک گونہ ولایت حاصل ہے، کیونکہ اگر ماں کو بچے پر ولایت حاصل نہ ہوتی تو حضرت مریم (علیہا السلام) کی والدہ نذر نہ مانتیں، اسی طرح یہ بھی ثابت ہوا کہ ماں کو بھی حق ہے کہ اپنے بچے کا نام خود تجویز کرلے۔ (جصاص)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّىْ نَذَرْتُ لَكَ مَا فِيْ بَطْنِىْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّىْ۝ ٠ ۚ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝ ٣٥- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- نذر ( منت)- النّذر : أن تُوجِب علی نفسک ما ليس بواجب لحدوثِ أمر، يقال : نَذَرْتُ لله أمراً ، قال تعالی:إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمنِ صَوْماً [ مریم 26] ، وقال : وَما أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ- [ البقرة 270]- ( ن ذ ر ) النذر - : کے معنی کسیحادثہ کی وجہ سے غیر واجب چیز کو اپنے اوپر واجب کرلینے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ نذرت للہ نذر ا : میں نے اللہ کے لئے نذر مانی قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمنِ صَوْماً [ مریم 26] میں نے خدا کے لئے روزے کی نذر مانی ہے ۔ وَما أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ [ البقرة 270] اور تم خدا کی راہ میں جس میں طرح کا خرچ کردیا کر دیا کوئی نذر مانو ۔- بطن - أصل البَطْن الجارحة، وجمعه بُطُون، قال تعالی: وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهاتِكُمْ [ النجم 32] ، وقد بَطَنْتُهُ : أصبت بطنه، والبَطْن : خلاف الظّهر في كلّ شيء، ويقال للجهة السفلی: بَطْنٌ ، وللجهة العلیا : ظهر، وبه شبّه بطن الأمر وبطن الوادي، والبطن من العرب اعتبارا بأنّهم کشخص واحد، وأنّ كلّ قبیلة منهم کعضو بطن وفخذ وكاهل، وعلی هذا الاعتبار قال الشاعر : النّاس جسم وإمام الهدى ... رأس وأنت العین في الرأس ويقال لكلّ غامض : بطن، ولكلّ ظاهر : ظهر، ومنه : بُطْنَان القدر وظهرانها، ويقال لما تدرکه الحاسة : ظاهر، ولما يخفی عنها : باطن . قال عزّ وجلّ : وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام 120] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام 151] ، والبَطِين : العظیم البطن، والبَطِنُ : الكثير الأكل، والمِبْطَان : الذي يكثر الأكل حتی يعظم بطنه، والبِطْنَة : كثرة الأكل، وقیل : ( البطنة تذهب الفطنة) وقد بَطِنَ الرجل بَطَناً : إذا أشر من الشبع ومن کثرة الأكل، وقد بَطِنَ الرجل : عظم بطنه، ومُبَطَّن : خمیص البطن، وبَطَنَ الإنسان : أصيب بطنه، ومنه : رجل مَبْطُون : علیل البطن، والبِطانَة : خلاف الظهارة، وبَطَّنْتُ ثوبي بآخر : جعلته تحته .- ( ب ط ن )- البطن اصل میں بطن کے معنی پیٹ کے ہیں اس کی جمع بطون آتی ہے قرآں میں ہے ؛ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ ( سورة النجم 32) اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے ۔ بطنتۃ میں نے اس کے پیٹ پر مارا ۔ البطن ہر چیز میں یہ ظھر کی ضد ہے اور ہر چیز کی نیچے کی جہت کو بطن اور اویر کی جہت کو ظہر کہا جاتا ہے اسی سے تشبیہ کہا جاتا ہے ؛۔ بطن الامر ( کسی معاملہ کا اندرون ) بطن الوادی ( وادی کا نشیبی حصہ ) اور بطن بمعنی قبیلہ بھی آتا ہے اس اعتبار سے کہ تمام عرب کو بمنزلہ ایک شخص کے فرض کیا جائے ہیں اور ہر قبیلہ بمنزلہ بطن مخذ اور کاہل ( کندھا) وغیرہ اعضاء کے تصور کیا جائے ۔ اسی بناء پر شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) (57) الناس جسم اومامھم الھدیٰ راس وانت العین فی الراس ( کہ لوگ بمنزلہ جسم ہیں اور امام ہدی بمنزلہ سر ہے مگر تم سر میں آنکھ ہو ۔ اور ہر پیچیدہ معاملہ کو بطن اور جلی اور یہاں کو ظہر کہا جاتا ہے ۔ اسی سے بطنان القدر وظھرانھا کا محاورہ ہے ۔ یعنی دیگ کی اندرونی اور بیرونی جانب ۔ ہر اس چیز کو جس کا حاسہ بصر سے ادراک ہو سکے اسے ظاہر اور جس کا حاسہ بصر سے ادراک نہ ہوسکے اسے باطن کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام 120] اور ظاہری اور پوشیدہ ( ہر طرح کا ) گناہ ترک کردو ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام 151] ظاہری ہوں یا پوشیدہ ۔ البطین کلاں شکم ۔ البطن بسیار خور المبطان جس کا بسیار خوری سے پیٹ بڑھ گیا ہو ۔ البطنۃ بسیارخوری ۔ مثل مشہور ہے ۔ البطنۃ نذھب الفطنۃ بسیار خوری ذہانت ختم کردیتی ہے ۔ بطن الرجل بطنا شکم پری اور بسیار خوری سے اتراجانا ۔ بطن ( ک ) الرجل بڑے پیٹ والا ہونا ۔ مبطن پچکے ہوئے پیٹ والا ۔ بطن الرجل مرض شکم میں مبتلا ہونا اس سے صیغہ صفت مفعولی مبطون مریض شکم آتا ہے ۔ البطانۃ کے معنی کپڑے کا استریا اس کے اندورنی حصہ کے ہیں اور اس کے ضد ظہارۃ ہے ۔ جس کے معنی کپڑے کا اوپر کا حصہ یا ابرہ کے ہیں اور بطنت ثوبی باٰ خر کے معنی ہیں میں نے ایک کپڑے کو دوسرے کے نیچے لگایا ۔- تحریرُ- : جعل الإنسان حرّا، فمن الأول : فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء 92] ، ومن الثاني : نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً [ آل عمران 35] ، قيل : هو أنه جعل ولده بحیث لا ينتفع به الانتفاع الدنیوي المذکور في قوله عزّ وجل : بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] ، بل جعله مخلصا للعبادة، ولهذا قال الشعبي : معناه مخلصا، وقال مجاهد : خادما للبیعة وقال جعفر : معتقا من أمر الدنیا، وكلّ ذلك إشارة إلى معنی واحد، وحَرَّرْتُ القوم : أطلقتهم وأعتقتهم عن أسر الحبس، وحُرُّ الوجه : ما لم تسترقّه الحاجة، وحُرُّ الدّار : وسطها، وأحرار البقل معروف، وقول الشاعر : جادت عليه كلّ بکر حرّةوباتت المرأة بلیلة حرّة كلّ ذلک استعارة، والحَريرُ من الثیاب : ما رقّ ، قال اللہ تعالی: وَلِباسُهُمْ فِيها حَرِيرٌ [ فاطر 33] .- التحریرُ کے معنی کسی انسان کو آزاد کرنا کے ہیں چناچہ کریت کے معنی کے پیش نظر فرمایا : فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء 92] تو ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہئے اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً [ آل عمران 35] جو بچہ ) میرے پیٹ میں ہے میں اس کو تیری نزر کرتی ہوں ۔ چناچہ بعض نے اس کے معنی کئے میں کہ وہ اپنے اس لڑکے سے کسی قسم کا دنیوی فائدہ حاصل نہیں کریں گی جس کی طرف آیت : بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] اس میں اشارہ پایاجاتا ہے بلکہ یہ خالص عبادت الٰی کے لئے وقف رہے گا ۔ اسی بناء پر شعبی نے محررا کے معنی خادم معبار کئے ہیں امام جعفر نے کہا ہے کہ امور دنیوی سے آزاد ہوگا لیکن مآں کے لحا ظ سے سب کا ماحصل ایک ہی ہے ۔ حررت القوم میں نے انہیں قید خانہ سے رہا کردیا ۔ جرالوجہ وہ شخص جو احتیاج کے پنجہ میں گرفتار نہ ہوا ہو ۔ حرالدار البقل وہ ترکاریاں جو کچی کھائی جاتی ہیں ۔ اور شاعر کا قول ع ( کامل ) (103) جارت علیہ کل بکر حرۃ موسم بہار کی پہلی موسلا دھا ر بارش نے اس پر سخاوت کی ہے ۔ باتت المرءۃ بنیلۃ حرۃ ( سب زفاف کہ شوہر درآں بکارت نتواں لوائل کرو ) یہ سب استعارات ہیں ۔ الحریری ( ریشمی کپڑا ) ہر ایک بار کپڑے کو حریر کیا جاتا ہے فرمایا :۔ وَلِباسُهُمْ فِيها حَرِيرٌ [ فاطر 33] وہاں ان کا لباس ریشمی ہوگا ۔- قبل ( تقبل)- قَبُولُ الشیء علی وجه يقتضي ثوابا کا لهديّة ونحوها . قال تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف 16] ، وقوله : إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة 27] ، تنبيه أن ليس كل عبادة مُتَقَبَّلَةً ، بل إنّما يتقبّل إذا کان علی وجه مخصوص . قال تعالی:- إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران 35] . وقیل للکفالة : قُبَالَةٌ فإنّ الکفالة هي أوكد تَقَبُّلٍ ، وقوله : فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران 35] ، فباعتبار معنی الکفالة، وسمّي العهد المکتوب : قُبَالَةً ، وقوله : فَتَقَبَّلَها[ آل عمران 37] ، قيل : معناه قبلها، وقیل : معناه تكفّل بها، ويقول اللہ تعالی: كلّفتني أعظم کفالة في الحقیقة وإنما قيل :- فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران 37] ، ولم يقل بتقبّل للجمع بين الأمرین : التَّقَبُّلِ الذي هو التّرقّي في القَبُولِ ، والقَبُولِ الذي يقتضي - اور تقبل کے معنی کیس چیز کو اس طرح قبول کرنے کے میں کہ وہ عوض کی مقتضی ہو جیسے ہدیہ وغیرہ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف 16] یہی لوگ ہیں جن کے اعمال نیک ہم قبول کریں گے إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة 27] کہ خدا پرہیز گاروں کی نیاز قبول فرمایا کرتا ۔۔۔۔ ہے میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ ہر عیادت قبول نہیں ہوتی بلکہ وہی قبول کی جاتی ہے جو مخصوص طریق سے ادا کی جائے ۔ فرمایا : ۔ مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران 35] تو اسے میری طرف سے قبول فرما کفا لۃ کو قبالۃ کہا جاتا ہے کیونکہ کفا لۃ کے معنی مؤ کی طور پر کسی چیز کو قبول کرلینے کے ہیں تو آیت فتقبل منی میں کفالت کے معنی معتبر ہیں اور لکھے ہوئے عہد کو قبالۃ کہا جاتا ہے اور آیت کر یمہ : ۔ فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران 37] پروردگار - نے اسے پسند ید گی کے ساتھ قبول فرمایا : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تقبلھا کے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تکلفھا کے ہے یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے در حقیقت مجھے بہت بڑی کفالت کا ذمہ دار بنا دیا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٥۔ ٣٦) اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ وقت بھی یاد کیجئے کہ جب حضرت مریم (علیہ السلام) کی والدہ نے کہا کہ جو میرے پیٹ میں ہے میں نے اس کو بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کردیا ہے، اور اے رب آپ دعاؤں کو سننے والے اور اس کی قبولیت اور جو کچھ میرے پیٹ میں ہے اس کو بخوبی جاننے والے ہیں چناچہ جب انہوں نے لڑکی جنی تو حضرت مریم (علیہ السلام) کی والدہ حسرت سے عرض کرنے لگیں پروردگار میں نے تو لڑکی جنی ہے، حالانکہ جو انہوں نے لڑکی جنی تو حضرت مریم (علیہ السلام) کی والدہ حسرت سے عرض کرنے لگیں پروردگار میں نے تو لڑکی جنی ہے، حالانکہ جو انہوں نے جنا اللہ تعالیٰ اسے زیادہ جانتے تھے اور لڑکا خدمت وغیرہ میں کسی طرح اس لڑکی کے برابر نہیں ہوسکتا اور میں اس لڑکی کو اور اگر اس کی اولاد ہو تو شیطان مردود سے آپ کی پناہ اور حفاظت میں دیتی ہوں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٥ (اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا) - عمران کی بیوی یعنی حضرت مریم ( علیہ السلام) کی والدہ بہت ہی نیک ‘ متقی اور زاہدہ تھیں۔ جب ان کو حمل ہوا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ عرض کیا کہ پروردگار جو بچہ میرے پیٹ میں ہے ‘ جسے تو پیدا فرما رہا ہے ‘ اسے میں تیری ہی نذر کرتی ہوں۔ ہم اس پر دنیوی ذمہ داریوں کا کوئی بوجھ نہیں ڈالیں گے اور اس کو خالصتاً ہیکل کی خدمت کے لیے ‘ دین کی خدمت کے لیے ‘ تورات کی خدمت کے لیے وقف کردیں گے۔ ہم اپنا بھی کوئی بوجھ اس پر نہیں ڈالیں گے۔ انہیں یہ توقع تھی کہ اللہ تعالیٰ بیٹا عطا فرمائے گا۔ مُحَرَّرًا کے معنی ہیں اسے آزاد کرتے ہوئے۔ یعنی ہماری طرف سے اس پر کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی اور اسے ہم تیرے لیے خالص کردیں گے۔- (فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ ج) - اے اللہ تو میری اس نذر کو شرف قبول عطا فرما۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :32 اگر عمران کی عورت سے مراد”عمران کی بیوی“ لی جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ یہ وہ عمران نہیں ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا ہے ، بلکہ یہ حضرت مریم کے والد تھے ، جن کا نام شاید عمران ہوگا ۔ ( مسیحی روایات میں حضرت مریم کے والد کا نام یوآخیم لکھا ہے ) اور اگر عمران کی عورت سے مراد آل عمران لی جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ حضرت مریم کی والدہ اس قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں ۔ لیکن ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ معلومات نہیں ہے جس سے ہم قطعی طور پر ان دونوں معنوں میں سے کسی ایک کو ترجیح دے سکیں ، کیونکہ تاریخ میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ حضرت مریم کے والد کون تھے اور ان کی والدہ کس قبیلے کی تھیں ۔ البتہ اگر یہ روایت صحیح مانی جائے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی والدہ اور حضرت مریم کی والدہ آپس میں رشتہ کی بہنیں تھیں تو پھر ”عمران کی عورت“ کے معنی قبیلہ عمران کی عورت ہی درست ہوں گے ، کیونکہ انجیل لوقا میں ہم کو یہ تصریح ملتی ہے کہ حضرت یحییٰ کی والدہ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد سے تھیں ( لوقا۵:١ ) ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :33 یعنی تو اپنے بندوں کی دعائیں سنتا ہے اور ان کی نیتوں کے حال سے واقف ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani