Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

زکریا علیہ السلام کا تعارف اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ حضرت حفصہ کی نذر کو اللہ تعالیٰ نے بخوشی قبول فرما لیا اور اسے بہترین طور سے نشوونما بخشی ، ظاہری خوبی بھی عطا فرمائی اور باطنی خوبی سے بھرپور کر دیا اور اپنے نیک بندوں میں ان کی پرورش کرائی تاکہ علم اور خیر اور دین سیکھ لیں ، حضرت زکریا کو ان کا کفیل بنا دیا ابن اسحاق تو فرماتے ہیں یہ اس لئے کہ حضرت مریم علیہما السلام یتیم ہو گئی تھیں ، لیکن دوسرے بزرگ فرماتے ہیں کہ قحط سالی کی وجہ سے ان کی کفالت کا بوجھ حضرت زکریا نے اپنے ذمہ لے لیا تھا ، ہو سکتا ہے کہ دونوں وجوہات اتفاقاً آپس میں مل گئی ہوں واللہ اعلم ، حضرت ابن اسحاق وغیرہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام ان کے خالو تھے ، اور بعض لوگ کہتے ہیں ان کے بہنوئی تھے ، جیسے معراج والی صحیح حدیث میں ہے کہ آپ نے حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام سے ملاقات کی جو دونوں خالہ زاد بھائی ہیں ، ابن اسحاق کے قول پر یہ حدیث ٹھیک ہے کیونکہ اصلاح عرب میں ماں کی خالہ کے لڑکے کو بھی خالہ زاد بھائی کہہ دیتے ہیں پس ثابت ہوا کہ حضرت مریم اپنی خالہ کی پرورش میں تھیں ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یتیم صاحبزادی عمرہ کو ان کی خالہ حضرت جعفر بن ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی صاحبہ کے سپرد کیا تھا اور فرمایا تھا کہ خالہ قائم مقام ماں کے ہے ، اب اللہ تعالیٰ حضرت مریم کی بزرگی اور ان کی کرامت بیان فرماتا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام جب کبھی ان کے پاس ان کے حجرے میں جاتے تو بےموسمی میوے ان کے پاس پاتے مثلاً جاڑوں میں گرمیوں کے میوے اور گرمیوں میں جاڑے کے میوے ۔ حضرت مجاہد ، حضرت عکرمہ ، حضرت سعید بن جبیر ، حضرت ابو الشعشاء ، حضرت ابراہیم نخعی ، حضرت ضحاک ، حضرت قتادہ ، حضرت ربیع بن انس ، حضرت عطیہ عوفی ، حضرت سدی اس آیت کی تفسیر میں یہی فرماتے ہیں ، حضرت مجاہد سے یہ بھی مروی ہے کہ یہاں رزق سے مراد علم اور وہ صحیفے ہیں جن میں علمی باتیں ہوتی تھیں لیکن اول قول ہی زیادہ صحیح ہے ، اس آیت میں اولیاء اللہ کی کرامات کی دلیل ہے اور اس کے ثبوت میں بہت سی حدیثیں بھی آتی ہیں ۔ حضرت زکریا علیہ السلام ایک دن پوچھ بیٹھے کہ مریم تمہارے پاس یہ رزق کہاں سے آتا ہے؟ صدیقہ نے جواب دیا کہ اللہ کے پاس سے ، وہ جسے چاہے بےحساب روزی دیتا ہے ، مسند حافظ ابو یعلیٰ میں حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر کئی دن بغیر کچھ کھائے گذر گئے بھوک سے آپ کو تکلیف ہونے لگی اپنی سب بیویوں کے گھر ہو آئے لیکن کہیں بھی کچھ نہ پایا ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس آئے اور دریافت فرمایا کہ بچی تمہارے پاس کچھ ہے؟ کہ میں کھا لوں مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے ، وہاں سے بھی یہی جواب ملا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے باپ صدقے ہوں کچھ بھی نہیں ، اللہ کے نبی ( اللھم صلی وسلم علیہ ) وہاں سے نکلے ہی تھے کہ حضرت فاطمہ کی لونڈی نے دو روٹیاں اور ٹکڑا گوشت حضرت فاطمہ کے پاس بھیجا آپ نے اسے لے کر برتن میں رکھ لیا اور فرمانے لگیں گو مجھے ، میرے خاوند اور بچوں کو بھوک ہے لیکن ہم سب فاقے ہی سے گذار دیں گے اور اللہ کی قسم آج تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو دوں گی ، پھر حضرت حسن یا حسین کو آپ کی خدمت میں بھیجا کہ آپ کو بلا لائیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم راستے ہی میں ملے اور ساتھ ہو لئے ، آپ آئے تو کہنے لگیں میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں اللہ نے کچھ بھجوا دیا ہے جسے میں نے آپ کے لئے چھپا کر رکھ دیا ہے ، آپ نے فرمایا میری پیاری بچی لے آؤ ، اب جو طشت کھولا تو دیکھتی ہے کہ روٹی سالن سے ابل رہا ہے دیکھ کر حیران ہوگئیں لیکن فوراً سمجھ گئیں کہ اللہ کی طرف سے اس میں برکت نازل ہو گئی ہے ، اللہ کا شکر کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ پر درود پڑھا اور آپ کے پاس لا کر پیش کر دیا آپ نے بھی اسے دیکھ کر اللہ کی تعریف کی اور دریافت فرمایا کہ بیٹی یہ کہاں سے آیا ؟ جواب دیا کہ ابا جان اللہ کے پاس سے وہ جسے چاہے بےحساب روزی دے ، آپ نے فرمایا اللہ کا شکر ہے کہ اے پیاری بچی تجھے بھی اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی تمام عورتوں کی سردار جیسا کر دیا ، انہیں جب کبھی اللہ تعالیٰ کوئی چیز عطا فرماتا اور ان سے پوچھا جاتا تو یہی جواب دیا کرتی تھیں کہ اللہ کے پاس سے ہے اللہ جسے چاہے بےحساب رزق دیتا ہے ، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور آپ نے حضرت علی نے اور حضرت فاطمہ نے اور حضرت حسین نے اور آپ کی سب ازواج مطہرات اور اہل بیت نے خوب شکم سیر ہو کر کھایا پھر بھی اتنا ہی باقی رہا جتنا پہلے تھا جو آس پاس کے پڑوسیوں کے ہاں بھیجا گیا یہ خیر کثیر اور برکت اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 حضرت زکریا (علیہ السلام) حضرت مریم (علیہا السلام) کے خالو بھی تھے علاوہ ازیں اپنے وقت کے پیغمبر ہونے کے لحاظ سے بھی وہی سب سے بہتر کفیل بن سکتے تھے جو حضرت مریم (علیہا السلام) کی مادی ضروریات اور علمی و اخلاقی تربیت کے تقاضوں کا صحیح اہتمام کرسکتے تھے۔ 37۔ 2 محرابُ سے مراد حجرہ ہے جس میں حضرت مریم (علیہا السلام) رہائش پذیر تھیں رزق سے مراد پھل یہ پھل ایک تو غیر موسمی ہوتے گرمی کے پھل سردی کے موسم میں اور سردی کے گرمی کے موسم میں ان کے کمرے میں موجود ہوتے، دوسرے حضرت زکریا (علیہ السلام) یا اور کوئی شخص لا کردینے والا نہیں تھا اس لئے حضرت زکریا (علیہ السلام) نے ازراہ تعجب و حیرت سے پوچھا یہ کہاں سے آئے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ اللہ کی طرف سے۔ گویا یہ حضرت مریم (علیہا السلام) کی کرامت تھی۔ معجزہ اور کرامت خرق عادت امور کو کہا جاتا ہے یعنی جو ظاہر اسباب کے خلاف ہو۔ یہ کسی نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو اسے معجزہ اور کسی ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو اسے کرامت کہا جاتا ہے یہ دونوں برحق ہیں۔ تاہم ان کا صدور اللہ کے حکم اور اس کی مشیت سے ہوتا ہے نبی یا ولی کے اختیار میں یہ بات نہیں کہ وہ معجزہ اور کرامت جب چاہے صادر کر دے۔ اس لیے معجزہ اور کرامت اس بات کی تو دلیل ہوتی ہے کہ یہ حضرات اللہ کی بارگاہ میں خاص مقام رکھتے ہیں لیکن اس سے یہ امر ثابت نہیں ہوتا کہ ان مقبولین بارگاہ کے پاس کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار ہے جیسا کہ اہل بدعت اولیاء کی کرامتوں سے عوام کو یہی کچھ باور کرا کے انہیں شرکیہ عقیدوں میں مبتلا کردیتے ہیں اس کی مزید وضاحت بعض معجزات کے ضمن میں آئے گی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٠] حضرت مریم کی والدہ کی منت کو اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت بخشا اور حضرت مریم کی جسمانی اور روحانی تربیت خوب اچھی طرح فرمائی۔ جب وہ سن شعور کو پہنچ گئیں اور مسجد (عبادت خانہ) میں جانے کے قابل ہوگئیں تو سوال یہ پیدا ہوا کہ ان کا کفیل اور نگران کون ہو ؟ کیونکہ ہیکل سلیمانی میں بہت سے کاہن تھے جن میں ایک حضرت زکریا بھی تھے۔ بالآخر یہ سعادت حضرت زکریا (علیہ السلام) کے حصہ میں آئی۔ کیونکہ ان کی بیوی حضرت مریم کی حقیقی خالہ تھیں اور یہ قصہ تفصیل سے آگے بیان ہو رہا ہے۔- [٤١] محراب سے مراد وہ جگہ نہیں جو مساجد میں امام کے کھڑے ہونے کے لیے بنائی جاتی ہے، بلکہ محراب ان بالا خانوں کو کہا جاتا تھا جو مسجد کے خادم، مجاورین اور ایسے ہی اللہ کی عبادت کے لیے وقف شدہ لوگوں کے لیے مسجد کے متصل بنائے جاتے تھے۔ انہیں کمروں میں ایک کمرہ حضرت مریم کو دیا گیا تھا۔ جس میں وہ مصروف عبادت رہا کرتیں۔ اس کمرہ میں حضرت زکریا کے علاوہ سب کا داخلہ ممنوع تھا۔ حضرت مریم (علیہ السلام) کے لیے سامان خوردو نوش بھی حضرت زکریا ہی وہاں پہنچایا کرتے تھے۔ پھر بارہا ایسا بھی ہوا کہ حضرت زکریا خوراک دینے کے لیے اس کمرہ میں داخل ہوئے تو حضرت مریم کے پاس پہلے ہی سے سامان خوردو نوش پڑا دیکھا۔ وہ اس بات پر حیران تھے کہ جب میرے بغیر یہاں کوئی داخل نہیں ہوسکتا تو یہ کھانا اسے کون دے جاتا ہے ؟ حضرت مریم سے پوچھا تو انہوں نے بلاتکلف کہہ دیا۔ اللہ کے ہاں سے ہی مجھے یہ رزق مل جاتا ہے۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں جانتی۔ واضح رہے کہ یہ آیت خرق عادت امور پر واضح دلیل ہے۔ انبیاء کے ہاں معجزات اور اولیاء اللہ کے ہاں کرامات کا صدور ہوتا ہی رہتا ہے اور یہ سب کچھ اللہ ہی کی مشیت وقدرت سے ہوتا ہے۔ اور حضرت زکریا کے لیے حیرت واستعجاب کی باتیں دو تھیں۔ ایک یہ کہ آپ جو سامان خوردو نوش حضرت مریم کے پاس پڑا دیکھتے وہ عموماً بےموسم پھلوں پر مشتمل ہوتا تھا اور دوسرے یہ کہ جب میرے سوا اس کمرہ میں کوئی داخل ہو ہی نہیں سکتا تو یہ پھل اور دوسرا سامان خوردو نوش حضرت مریم کو دے کون جاتا ہے ؟ اب جو لوگ خرق عادت امور یا معجزات کے منکر ہیں، انہیں یہاں بھی مشکل پیش آگئی اور ہمارے زمانے کے ایک مفسر قرآن سرسید تو بڑی آسانی سے ایسی مشکل سے چھٹکارا حاصل کرلیتے ہیں اور اس طرح کے واقعات کو بلا تکلف خواب کا واقعہ کہہ دیتے ہیں۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) کے واقعہ میں بھی انہوں نے یہی کچھ کیا تھا اور یہاں بھی یہی کچھ کیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ خواب ہی واقعہ تھا تو حضرت زکریا کو حیرانی کس بات پر ہوئی تھی جو اس سوال کا موجب بنی کہ (يٰمَرْيَـمُ اَنّٰى لَكِ ھٰذَا 37؀) 3 ۔ آل عمران :37) مریم یہ تجھے کہاں سے یا کیسے مل گیا ؟ اور یہ بھی ملاحظہ فرماے ئے کہ ایسے مفسر، مفسر قرآن ہوتے ہیں یا محرف قرآن ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَّكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا ڝ عام قول کے مطابق زکریا (علیہ السلام) ان کے خالو تھے، مگر صحیح بات یہ ہے کہ وہ مریم (علیہ السلام) کے بہنوئی تھے۔ اس کی دلیل حدیث معراج ہے جس میں دوسرے آسمان پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یحییٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام) سے ملاقات کا ذکر ہے اور صراحت ہے کہ وہ دونوں خالہ زاد بھائی تھے۔ [ بخاری، الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ : ( ذکر رحمۃ ربک۔۔ ) ٣٤٣٠ ]- الْمِحْرَابَ ۙ : اس سے مراد معروف محراب نہیں ہے جو مسجدوں میں امام کے لیے بنایا جاتا ہے، بلکہ اس کا معنی اس کمرہ کے ہیں جو تنہائی کے لیے بنایا جاتا ہے۔ (دیکھیے سبا : ١٣) یہودو نصاریٰ عبادت خانے سے الگ کچھ بلندی پر یہ محراب بناتے تھے، جس میں مسجد کے عبادت گزار رہتے تھے۔ - وَجَدَ عِنْدَھَا رِزْقًا ۚ اسلوب کلام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ رزق بطور کرامت مریم [ کے پاس پہنچ رہا تھا۔ اکثر تابعین سے منقول ہے کہ زکریا (علیہ السلام) جب بھی مریم [ کے حجرے میں جاتے تو ان کے ہاں بےموسم کے تازہ پھل پاتے۔ (ابن جریر، ابن کثیر) تابعین کا یہ فرمان آیت کے الفاظ کی تشریح ہو جیسا کہ ظاہر ہے تو اس رزق کے بطور کرامت ملنے کی تائید ہے اور اگر اسرائیلی نقل ہو تو اسے سچایا جھوٹا کہنے کی اجازت نہیں مگر اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اسباب کے بغیر رزق عطا ہونا کچھ بعید نہیں اور امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اولیاء و شہداء کو یہ کرامت اور عزت افزائی ملنا صحیح سند سے ثابت ہے۔- صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) سے خبیب (رض) کی سولی کا واقعہ تفصیل سے مذکور ہے، مکہ کے جس گھر میں انھیں قید رکھا گیا، اس گھر والی بنت الحارث کا بیان ہے کہ اللہ کی قسم میں نے خبیب سے بہتر قیدی کبھی نہیں دیکھا، اللہ کی قسم میں نے ایک دن انھیں انگور کا گچھا کھاتے ہوئے دیکھا، جو ان کے ہاتھ میں تھا، جب کہ وہ لوہے کی زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے، حالانکہ مکہ میں کوئی پھل نہیں تھا۔ (بنت الحارث) کہتی تھیں کہ یقیناً وہ اللہ کی طرف سے رزق تھا جو اس نے خبیب کو دیا تھا۔ [ بخاری، الجہاد والسیر، باب ھل یستأسر الرجل ۔۔ : ٣٠٤٥ ] مگر کرامت ولی کے اختیار میں نہیں ہوتی کہ وہ جو چاہے کرے، ورنہ خبیب زنجیریں توڑ کر آزاد ہوجاتے، حتیٰ کہ نبی بھی اپنی مرضی سے کوئی معجزہ نہیں دکھا سکتے، فرمایا : (وَمَا كَانَ لَنَآ اَنْ نَّاْتِيَكُمْ بِسُلْطٰنٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ ) [ إِبراہیم : ١١ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - حاصل یہ کہ حضرت مریم (علیہا السلام) کی والدہ ان کو لے کر مسجد بیت المقدس میں پہنچیں اور وہاں کے مجاورین و عابدین سے جن میں حضرت زکریا (علیہ السلام) بھی تھے، جاکر کہا کہ اس لڑکی کو میں نے خاص خدا کے لئے مانا ہے، اس لئے میں اپنے پاس نہیں رکھ سکتی، سو اس کو لائی ہوں، آپ لوگ رکھئے۔- حضرت عمران (علیہ السلام) اس مسجد کے امام تھے، اور حالت حمل میں ان کی وفات ہوچکی تھی، ورنہ سب سے زیادہ مستحق ان کے لینے وہ تھے، لڑکی کے باپ بھی تھے اور مسجد بیت المقدس کے امام بھی، اس لئے بیت المقدس کے مجاورین و عابدین میں سے ہر شخص ان کو لینے اور پالنے کی خواہش رکھتا تھا، حضرت زکریا (علیہ السلام) نے اپنی ترجیح کی یہ وجہ بیان فرمائی کہ میرے گھر میں ان کی خالہ ہیں اور وہ بمنزلہ ماں کے ہوتی ہے، اس لئے بعد ماں کے وہی رکھنے کی مستحق ہے، مگر اور لوگ اس ترجیح پر راضی اور متفق نہیں ہوئے۔ آخر قرعہ اندازی پر اتفاق قرار پایا، اور صورت قرعہ کی بھی عجیب و غریب خلاف عادت ٹھہری، جس کا بیان آگے آئے گا، اس میں بھی حضرت زکریا (علیہ السلام) کامیاب ہوئے۔ چناچہ حضرت مریم (علیہا السلام) ان کو مل گئیں اور انہوں نے بعض روایات کے مطابق ایک انا کو نوکر رکھ کر دودھ پلوایا، اور بعض روایات میں ہے کہ دودھ پینے کی ان کو حاجت ہی نہیں ہوئی، غرض وہ خود اٹھنے بیٹھنے لگیں، ان کو مسجد کے متعلق ایک عمدہ مکان میں لاکر رکھا، جب کہیں جاتے اس کو قفل لگا کر جاتے، پھر آکر کھول لیتے، اسی قصہ کا ذکر مختصر آگے آتا ہے، یعنی پس ان (مریم علیہا السلام) کو ان کے رب نے بطریق احسن قبول فرمالیا اور عمدہ طور پر ان کو نشوونما دیا، اور (حضرت) زکریا ( علیہ السلام) کو ان کا سرپرست بنایا جب کبھی ( حضرت) زکریا ( علیہ السلام) ان کے پاس ( اسی) عمدہ مکان میں ( جس میں ان کو رکھا تھا) تشریف لاتے تو ان کے پاس کچھ کھانے پینے کی چیزیں پاتے (اور) یوں فرماتے کہ اے مریم یہ چیزیں تمہارے واسطے کہاں سے آئیں ( جبکہ مکان مقفل ہے باہر سے کسی کے آنے جانے کا امکان نہیں) وہ کہتیں کہ اللہ تعالیٰ کے پاس (جو خزانہ غیب ہے اس میں) سے آتیں، بیشک اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں بےاستحقاق رزق عطا فرماتے ہیں، (جیسا اس موقع پر محض فضل سے بےمشقت عطا فرمایا) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَتَقَبَّلَہَا رَبُّہَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ وَّاَنْۢبَتَہَا نَبَاتًا حَسَـنًا۝ ٠ ۙ وَّكَفَّلَہَا زَكَرِيَّا۝ ٠ ۚ ۭ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْہَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ۝ ٠ ۙ وَجَدَ عِنْدَھَا رِزْقًا۝ ٠ ۚ قَالَ يٰمَرْيَـمُ اَنّٰى لَكِ ھٰذَا۝ ٠ ۭ قَالَتْ ھُوَمِنْ عِنْدِ اللہِ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاۗءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ۝ ٣٧- قبل ( تقبل)- قَبُولُ الشیء علی وجه يقتضي ثوابا کا لهديّة ونحوها . قال تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف 16] ، وقوله : إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة 27] ، تنبيه أن ليس كل عبادة مُتَقَبَّلَةً ، بل إنّما يتقبّل إذا کان علی وجه مخصوص . قال تعالی:- إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران 35] . وقیل للکفالة : قُبَالَةٌ فإنّ الکفالة هي أوكد تَقَبُّلٍ ، وقوله : فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران 35] ، فباعتبار معنی الکفالة، وسمّي العهد المکتوب : قُبَالَةً ، وقوله : فَتَقَبَّلَها[ آل عمران 37] ، قيل : معناه قبلها، وقیل : معناه تكفّل بها، ويقول اللہ تعالی: كلّفتني أعظم کفالة في الحقیقة وإنما قيل :- فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران 37] ، ولم يقل بتقبّل للجمع بين الأمرین : التَّقَبُّلِ الذي هو التّرقّي في القَبُولِ ، والقَبُولِ الذي يقتضي - اور تقبل کے معنی کیس چیز کو اس طرح قبول کرنے کے میں کہ وہ عوض کی مقتضی ہو جیسے ہدیہ وغیرہ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف 16] یہی لوگ ہیں جن کے اعمال نیک ہم قبول کریں گے إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة 27] کہ خدا پرہیز گاروں کی نیاز قبول فرمایا کرتا ۔۔۔۔ ہے میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ ہر عیادت قبول نہیں ہوتی بلکہ وہی قبول کی جاتی ہے جو مخصوص طریق سے ادا کی جائے ۔ فرمایا : ۔ مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران 35] تو اسے میری طرف سے قبول فرما کفا لۃ کو قبالۃ کہا جاتا ہے کیونکہ کفا لۃ کے معنی مؤ کی طور پر کسی چیز کو قبول کرلینے کے ہیں تو آیت فتقبل منی میں کفالت کے معنی معتبر ہیں اور لکھے ہوئے عہد کو قبالۃ کہا جاتا ہے اور آیت کر یمہ : ۔ فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران 37] پروردگار - نے اسے پسند ید گی کے ساتھ قبول فرمایا : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تقبلھا کے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تکلفھا کے ہے یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے در حقیقت مجھے بہت بڑی کفالت کا ذمہ دار بنا دیا ہے - قبول - ، وقَبِلْتُ عذره وتوبته وغیره، وتَقَبَّلْتُهُ كذلك . قال :- وَلا يُقْبَلُ مِنْها عَدْلٌ [ البقرة 123] ، وَقابِلِ التَّوْبِ [ غافر 3] ، وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبادِهِ [ الشوری 25] . والتَّقَبُّلُ : قَبُولُ الشیء علی وجه يقتضي ثوابا کا لهديّة ونحوها . قال تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف 16] ، وقوله : إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة 27] ، تنبيه أن ليس كل عبادة مُتَقَبَّلَةً ، بل إنّما يتقبّل إذا کان علی وجه مخصوص . قال تعالی: اِنِّي نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران 35] . وقیل للکفالة : قُبَالَةٌ فإنّ الکفالة هي أوكد تَقَبُّلٍ ، وقوله : فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران 35] ، فباعتبار معنی الکفالة، وسمّي العهد المکتوب : قُبَالَةً ، وقوله : فَتَقَبَّلَها[ آل عمران 37] ، قيل : معناه قبلها، وقیل : معناه تكفّل بها، ويقول اللہ تعالی: كلّفتني أعظم کفالة في الحقیقة وإنما قيل : فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران 37] ، ولم يقل بتقبّل للجمع بين الأمرین : التَّقَبُّلِ الذي هو التّرقّي في القَبُولِ ، والقَبُولِ الذي يقتضي الرّضا والإثابة «1» . وقیل : القَبُولُ هو من قولهم : فلان عليه قبول : إذا أحبّه من رآه،- قبلت عذ رہ وتوبتہ وغیر ہ وتقبلۃ میں نے اس کا عذر اور توبہ وغیرہ قبول کرلی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُقْبَلُ مِنْها عَدْلٌ [ البقرة 123] اور نہ اس سے بدلہ قبول کیا جائے ۔ وَقابِلِ التَّوْبِ [ غافر 3] اور توبہ قبول کرنے والا ۔ وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبادِهِ [ الشوری 25] اور وہی تو ہے جو اپنے بندوں کی تو بہ قبول کرتا۔۔۔ ہے اور تقبل کے معنی کیس چیز کو اس طرح قبول کرنے کے میں کہ وہ عوض کی مقتضی ہو جیسے ہدیہ وغیرہ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف 16] یہی لوگ ہیں جن کے اعمال نیک ہم قبول کریں گے إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة 27] کہ خدا پرہیز گاروں کی نیاز قبول فرمایا کرتا ۔۔۔۔ ہے میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ ہر عیادت قبول نہیں ہوتی بلکہ وہی قبول کی جاتی ہے جو مخصوص طریق سے ادا کی جائے ۔ فرمایا : ۔ مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران 35] تو اسے میری طرف سے قبول فرما کفا لۃ کو قبالۃ کہا جاتا ہے کیونکہ کفا لۃ کے معنی مؤ کی طور پر کسی چیز کو قبول کرلینے کے ہیں تو آیت فتقبل منی میں کفالت کے معنی معتبر ہیں اور لکھے ہوئے عہد کو قبالۃ کہا جاتا ہے اور آیت کر یمہ : ۔ فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران 37] پروردگار نے اسے پسند ید گی کے ساتھ قبول فرمایا : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تقبلھا کے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تکلفھا کے ہے یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے در حقیقت مجھے بہت بڑی کفالت کا ذمہ دار بنا دیا ہے اور پھر آیت کریمہ میں یتقبل کی بجائے بقبول حسن فرمایا ہے تاکہ اس میں دونوں امر جمع ہوجائیں یعنی تقبل جو قبولیت کا اعلٰی در جہ ہے اور قبول کرنا جو کہ رضا اور ثواب کا مقتضی ہوتا ہے ۔ بعض ہے کہ قبول کا لفظ فلان علیہ قبول کے محاورہ سے ماخوذ ہے یعنی جو اسے دیکھتا ہے اس سے محبت کرتا ہے - حسن - الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب :- مستحسن من جهة العقل .- ومستحسن من جهة الهوى.- ومستحسن من جهة الحسّ.- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78]- ( ح س ن ) الحسن - ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ - نبت - النَّبْتُ والنَّبَاتُ : ما يخرج من الأرض من النَّامِيات، سواء کان له ساق کا لشجر، أو لم يكن له ساق کالنَّجْم، لکن اختَصَّ في التَّعارُف بما لا ساق له، بل قد اختصَّ عند العامَّة بما يأكله الحیوان، وعلی هذا قوله تعالی: لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ 15] ومتی اعتبرت الحقائق فإنّه يستعمل في كلّ نام، نباتا کان، أو حيوانا، أو إنسانا، والإِنْبَاتُ يستعمل في كلّ ذلك . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس 27- 31]- ( ن ب ت ) النبت والنبات - ۔ ہر وہ چیز جو زمین سے اگتی ہے ۔ اسے نبت یا نبات کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ تنہ دار ہو جیسے درخت ۔ یا بےتنہ جیسے جڑی بوٹیاں لیکن عرف میں خاص کر نبات اسے کہتے ہیں ہیں جس کے تنہ نہ ہو ۔ بلکہ عوام تو جانوروں کے چاراہ پر ہی نبات کا لفظ بولتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ 15] تاکہ اس سے اناج اور سبزہ پیدا کریں ۔ میں نبات سے مراد چارہ ہی ہے ۔ لیکن یہ اپانے حقیقی معنی کے اعتبار سے ہر پڑھنے والی چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور بناتات حیوانات اور انسان سب پر بولاجاتا ہے ۔ اور انبات ( افعال ) کا لفظ سب چیزوں کے متعلق اسستعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس 27- 31] پھر ہم ہی نے اس میں اناج اگایا ور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھے باغ ور میوے ور چارہ ۔ - كفل - الْكَفَالَةُ : الضّمان، تقول : تَكَفَّلَتْ بکذا، وكَفَّلْتُهُ فلانا، وقرئ : وَكَفَّلَها زَكَرِيَّا - [ آل عمران 37] «3» أي : كفّلها اللہ تعالی، ومن خفّف «4» جعل الفعل لزکريّا، المعنی: تضمّنها . قال تعالی: وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا[ النحل 91] ، والْكَفِيلُ : الحظّ الذي فيه الکفاية، كأنّه تَكَفَّلَ بأمره . نحو قوله تعالی: فَقالَ أَكْفِلْنِيها[ ص 23] أي : اجعلني کفلا لها، والکِفْلُ : الكفيل، قال : يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ [ الحدید 28] أي : كفيلين من نعمته في الدّنيا والآخرة، وهما المرغوب إلى اللہ تعالیٰ فيهما بقوله : رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً [ البقرة 201]- ( ک ف ل ) الکفالۃ - ضمانت کو کہتے ہیں اور تکفلت بکذا کے معنی کسی چیز کا ضامن بننے کے ہیں ۔ اور کفلتہ فلانا کے معنی ہیں میں نے اسے فلاں کی کفالت میں دے دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَّلَها زَكَرِيَّا[ آل عمران 37] اور زکریا کو اس کا متکفل بنایا ۔ بعض نے کفل تخفیف فاء کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں اس کا فاعل زکریا (علیہ السلام) ہوں گے یعنی حضرت زکریا (علیہ السلام) نے ان کو پانی کفالت میں لے لیا ۔ اکفلھا زیدا اسے زید کی کفالت میں دیدیا ) قرآن میں ہے : ۔ أَكْفِلْنِيها[ ص 23] یہ بھی میری کفالت مٰن دے دو میرے سپرد کر دو الکفیل اصل میں بقدر ضرورت حصہ کو کہتے ہیں ۔ گویا وہ انسان کی ضرورت کا ضامن ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا[ النحل 91] اور تم خدا کو اپنا کفیل بنا چکے ہو ۔ اور الکفل کے معنی بھی الکفیل یعنی حصہ کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ [ الحدید 28] وہ تمہیں اپنی رحمت سے اجر کے دو حصے عطا فرمائیگا ۔ یعنی دنیا اور عقبیی دونون جہانوں میں تمہیں اپنے انعامات سے نوزے گا ۔ اور یہی دوقسم کی نعمیتں ہیں جن کے لئے آیت رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً [ البقرة 201- دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - مِحرابُ المسجد - قيل : سمّي بذلک لأنه موضع محاربة الشیطان والهوى، وقیل : سمّي بذلک لکون حقّ الإنسان فيه أن يكون حریبا من أشغال الدنیا ومن توزّع الخواطر، وقیل : الأصل فيه أنّ محراب البیت صدر المجلس، ثم اتّخذت المساجد فسمّي صدره به، وقیل : بل المحراب أصله في المسجد، وهو اسم خصّ به صدر المجلس، فسمّي صدر البیت محرابا تشبيها بمحراب المسجد، وكأنّ هذا أصح، قال عزّ وجل : يَعْمَلُونَ لَهُ ما يَشاءُ مِنْ مَحارِيبَ وَتَماثِيلَ [ سبأ 13] .- والحِرْبَاء : دویبة تتلقی الشمس كأنها تحاربها، والحِرْبَاء : مسمار، تشبيها بالحرباء التي هي دویبة في الهيئة، کقولهم في مثلها : ضبّة وکلب، تشبيها بالضبّ والکلب .- مسجد کے محراب کو محراب یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ شیطان اور خواہشات نفسانی سے جنگ کرنے کی جگہ ہے اور یا اس لئے کہ اس جگہ میں کھڑے ہو کر عبادت کرنیوالے پر حق یہ ہے کہ دنیوی کاروبار ۔ اور پریشان خیالیوں سے یک سو ہوجانے ۔ بعض کہتے ہیں کہ اصل میں محراب البیت صدر مجلس کو کہتے ہیں اسی بنا پر جب مسجد میں امام کی گہ بنائی گئی تو اسے بھی محراب کہہ دیا گیا ۔ اور بعض نے اس کے برعکس محرابالمسجد کو اصل اور محراب البیت کو اس کی فرع نانا ہے اور یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْمَلُونَ لَهُ ما يَشاءُ مِنْ مَحارِيبَ وَتَماثِيلَ [ سبأ 13] وہ جو چاہتے یہ ان کے لئے بناتے یعنی محراب اور مجسمے ۔ الحرباء گرگٹ کیونکہ وہ سورج کے سامنے اس طرح بیٹھ جاتی ہے گویا اس سے جنگ کرنا چاہتی ہے نیز زرہ کے حلقہ یا میخ کو بھی صوری مشابہت کی بنا پر حرباء کہاجاتا ہے جیسا کہ ضب اور کلب کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے اس کی بعض حصوں کو ضبہ اور کلب کہہ دیتے ہیں ۔ - أنى- أَنَّى للبحث عن الحال والمکان، ولذلک قيل : هو بمعنی كيف وأين ، لتضمنه معناهما، قال اللہ عزّ وجل : أَنَّى لَكِ هذا [ آل عمران 37] ، أي : من أين، وكيف .- ( انیٰ ) انی۔ یہ حالت اور جگہ دونوں کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اس لئے بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنیٰ این اور کیف ۔ کے آتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ أَنَّى لَكِ هَذَا ( سورة آل عمران 37) کے معنی یہ ہیں کہ کھانا تجھے کہاں سے ملتا ہے ۔- بِغَيْرِ حِسابٍ- وقوله : يَرْزُقُ مَنْ يَشاءُ بِغَيْرِ حِسابٍ [ البقرة 212] . ففيه أوجه :- الأول : يعطيه أكثر ممّا يستحقه .- والثاني : يعطيه ولا يأخذه منه .- والثالث : يعطيه عطاء لا يمكن للبشر إحصاؤه، کقول الشاعر :- عطایاه يحصی قبل إحصائها القطر - والرابع : يعطيه بلا مضایقة، من قولهم :- حاسبته : إذا ضایقته .- والخامس : يعطيه أكثر مما يحسبه .- والسادس : أن يعطيه بحسب ما يعرفه من مصلحته لا علی حسب حسابهم، وذلک نحو ما نبّه عليه بقوله تعالی: وَلَوْلا أَنْ يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً لَجَعَلْنا لِمَنْ يَكْفُرُ بِالرَّحْمنِ ... الآية [ الزخرف 33] .- والسابع : يعطي المؤمن ولا يحاسبه عليه، ووجه ذلك أنّ المؤمن لا يأخذ من الدنیا إلا قدر ما يجب وکما يجب، وفي وقت ما يجب، ولا ينفق إلا کذلک، ويحاسب نفسه فلا يحاسبه اللہ حسابا يضرّ ، كما روي : «من حاسب نفسه في الدنیا لم يحاسبه اللہ يوم القیامة» - والثامن : يقابل اللہ المؤمنین في القیامة لا بقدر استحقاقهم، بل بأكثر منه كما قال عزّ وجل : مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً فَيُضاعِفَهُ لَهُ أَضْعافاً كَثِيرَةً [ البقرة 245] .- وعلی هذه الأوجه قوله تعالی: فَأُولئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيها بِغَيْرِ حِسابٍ [ غافر 40] ، وقوله تعالی: هذا عَطاؤُنا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ ص 39] ، وقد قيل :- تصرّف فيه تصرّف من لا يحاسب، أي : تناول کما يجب وفي وقت ما يجب وعلی ما يجب، وأنفقه كذلك .- اور آیت کریمہ : ۔ يَرْزُقُ مَنْ يَشاءُ بِغَيْرِ حِسابٍ [ البقرة 212] اور خدا جس کو چاہتا ہے بیشمار رزق دیتا ہے ۔ میں بغیر حساب کی متعدد تو جیہات ہوسکتی ہیں ۔ ( 2 ) جسے چاہے عطا فرماتا ہے اور پھر اس سے واپس نہیں لیتا ۔ ( 3 ) اس قدر عطا فرماتا ہے کہ انسان کے لئے اس کا احصاء ممکن نہیں جیسا کہ شاعر نے کہا ہے کہ باعش کے قطروں سے بھی اس کے عطایا زیادہ ہوجاتے ہیں ۔ ( 4 ) بغیر کسی تنگی کے دیتا ہے اور یہ حاسبتہ سے ہے جس معنی ضایقتہ یعنی تنگی کرنا آتے ہیں ( 5 ) لوگوں کے عام اندازہ سے کہیں زیادہ دیتا ہے ۔ ( 6 ) اپنی مصلحت کے مطابق عطا فرماتا ہے ز کہ لوگوں کے حساب کے مطابق جیسا کہ آیت : ۔ وَلَوْلا أَنْ يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً لَجَعَلْنا لِمَنْ يَكْفُرُ بِالرَّحْمنِ ... الآية [ الزخرف 33] اور اگر یہ خیال نہ ہوتا گہ سب لوگ ایک ہی ۔۔۔۔۔۔ جماعت ہوجائیں گے تو جو لوگ خدا سے انکار کرتے ہیں ۔ میں تنبیہ فرمائی ہے ۔ ( 7 ) مومن کو کچھ دیتا ہے اس پر محاسبہ نہیں کریگا اس کی وجہ یہ ہے کہ مومن دنیا میں بقدر کفایت حاصل کرتا ہے اور وہ بھی جائز طریقہ سے اور حسب ضرورت اور اسی طریق سے خرچ کرتا ہے اور ساتھ ہی اپنے آپ پر محاسبہ بھی کرتا رہتا ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ اس سے اس طرح حساب نہیں لے گا ۔ جس سے کہ اسے نقصان پہنچے جیسا کہ حدیث میں ہے ۔ کہ جو شخص دنیا میں اپنے نفس پر محاسبہ کرتا رہے گا ۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس سے حساب نہیں لے گا ( یعنی جس سے کہ اسے نقصان پہنچے ) ( 8 ) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مومنوں کو ان کے استحقاق سے زیادہ بدلہ عطا فرمائیگا ۔ جیسے فرمایا : مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً فَيُضاعِفَهُ لَهُ أَضْعافاً كَثِيرَةً [ البقرة 245] کوئی ہے کہ خدا کو قرض حسنہ دے کر وہ اس کے بدلے اس کو کئی حصے زیادہ دے گا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَأُولئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيها بِغَيْرِ حِسابٍ [ غافر 40] تو ایسے لوگ بہشت میں داخل ہوں کے وہاں ان کو ی سے شمار رزق ملے گا ۔ بھی ان مزکورہ وجوہ ( ثمانیہ ) پر محمول ہوسکتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ هذا عَطاؤُنا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ ص 39] یہ ہماری بخشش ہے ( چاہو ) تو احسان کردیا ( چاہو ) تو رکھ چھوڑو ( تم سے ) کچھ حساب نہیں ہے ۔ میں بغیر حساب کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اس میں اس شخص کی طرح تصرف کرو جسے محاسبہ کا خوف نہ ہو ۔ یعنی ( مومن کی طرح ) واجب طریق سے بوقت ضرورت اور بقدر کفایت لیا کرو اور پھر اسی طریق سے خرچ کرتے رہو

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (فتقبلھا ربھا بقبول حسن، اس لڑکی کو اس کے رب نے بہت عمدہ طریقے سے قبول کرلیا ) اس سے مراد۔ واللہ اعلم۔ یہ ہے کہ عمران کی بیوی نے اس بطی کو بیت المقدس میں عبادت ک لیے مختص کرنے کی اخلاص نیت کے ساتھ جو نذرمانی تھی اللہ تعالیٰ نے اس کی نذرقبول کرتے ہوئے اپنی عبادت کے لیے اسے پسند کرلیا۔ اس سے پہلے اللہ نے کسی مؤنث کو اس معنی میں قبول نہیں قبول باری ہے (وکفلھا زکریا، اور زکریاکواس کا سرپرست بنادیا) اگر لفظ (کفلھا) کی قرأت قول باری ہے (وکفلھا زکریا، اور زکریاکواس کا سرپرست بنادیا) اگر لفظ (کفلھا) کی قرات حرف فاء کی تشدید کے بغیر کی جائے تو اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے ان کی ساری ذمہ داری اپنے سرلے لی جیسا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے (اناوکافل الیتیم فی الجنۃ کھاتین، میں یتیم کفالت کرنے والاجنت میں قریب قریب ہوں گے) آپ نے یہ فرماکر اپنی ددانگلیوں سے اشارہ کیا آپ کی مراد یہ ہے کہ جو شخص یتیم کی ذمہ داری اپنے سرلے لے گا اسے یہ مرتبہ ملے گا۔ اگر اس لفظ کو حرف فاء کی تشدید کے ساتھ پڑھا جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا کو مریم کا کفیل بنادیا اور انہیں ان کی ذمہ داری سونپ کر ان کو دیکھ بھال اور نگرانی کا حکم دے دیا۔ دونوں قرأتیں درست ہیں اور مجموعی طورپرمعنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا کو حضرت مریم کی کفالت سپرد کردی اور آپ ان کے کفیل بن گئے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٧) غرض کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر احسان فرمایا اور لڑکے کی جگہ مریم (علیہ السلام) کو قبول فرما لیا اور عبادات کے سالوں، مہینوں، دنوں اور گھڑیوں میں عمدہ طور پر غذاؤں سے ان کی نشوونما فرمائی اور ان کو زکریا (علیہ السلام) کی تربیت کے لیے سپرد فرمایا۔- اور اس عمدہ مکان میں جب مریم (علیہ السلام) عبادت خداوندی میں مصروف تھیں تو حضرت زکریا تشریف لائے تو سردیوں کے میوے گرمیوں میں جیسا کہ گنا وغیرہ دیکھے اور گرمیوں کے میوے سردیوں میں جیسا کہ انگوروغیرہ ان کے پاس پاتے، وہ یہ دیکھ کر فرماتے کہ بغیر مشکل کے یہ چیزیں تمہارے پاس کہاں سے آتی ہیں وہ فرماتیں کہ اللہ کی جانب سے بواسطہ جبریل امین آئی ہیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں وقت بےوقت کے بغیر استحقاق اور اندازہ کے عطا فرماتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ (فَتَقَبَّلَہَا رَبُّہَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ ) شرف قبول عطا فرمایا بڑے ہی خوبصورت انداز میں۔- ( وَّاَنْبَتَہَا نَبَاتًا حَسَنًالا) ( وَّکَفَّلَہَا زَکَرِیَّا ط) - حضرت زکریا (علیہ السلام) ان کے سرپرست مقرر ہوئے اور انہوں نے حضرت مریم ( علیہ السلام) کی کفالت و تربیت کی ذمہ داری اٹھائی۔ وہ حضرت مریم ( علیہ السلام) کے خالو تھے۔ آپ ( علیہ السلام) وقت کے نبی تھے اور اسرائیلی اصطلاح میں ہیکل سلیمانی کے کاہن اعظم ( ) بھی تھے۔ - (کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْہَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَلا) (وَجَدَ عِنْدَہَا رِزْقًا ج) - محراب سے مراد وہ گوشہ یا حجرہُ ہے جو حضرت مریم ( علیہ السلام) کے لیے مخصوص کردیا گیا تھا۔ حضرت زکریا ( علیہ السلام) ان کی دیکھ بھال کے لیے اکثر ان کے حجرے میں جاتے تھے۔ آپ ( علیہ السلام) جب بھی حجرے میں جاتے تو دیکھتے کہ حضرت مریم ( علیہ السلام) کے پاس کھانے پینے کی چیزیں اور بغیر موسم کے پھل موجود ہوتے۔ بعض لوگوں کی رائے یہ بھی ہے کہ یہاں رزق سے مراد مادی کھانا نہیں ‘ بلکہ علم و حکمت ہے کہ جب حضرت زکریا ( علیہ السلام) ان سے بات کرتے تھے تو حیران رہ جاتے تھے کہ اس لڑکی کو اس قدر حکمت اور اتنی معرفت کہاں سے حاصل ہوگئی ہے ؟- (قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ ہٰذَا ط) - یہ انواع و اقسام کے کھانے اور بےموسمی پھل تمہارے پاس کہاں سے آجاتے ہیں ؟ یا یہ علم و حکمت اور معرفت کی باتیں تمہیں کہاں سے معلوم ہوتی ہیں ؟- (قَالَتْ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ط) ۔- یہ سب اس کا فضل اور اس کا کرم ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :35 اب اس وقت کا ذکر شروع ہوتا ہے جب حضرت مریم سن رشد کو پہنچ گئیں اور بیت المقدس کی عبادت گاہ ( ہیکل ) میں داخل کر دی گئیں اور ذکر الہٰی میں شب و روز مشغول رہنے لگیں ۔ حضرت زکریا جن کی تربیت میں وہ دی گئی تھیں ، غالباً رشتے میں ان کے خالو تھے اور ہیکل کے مجاوروں میں سے تھے ۔ یہ وہ زکریا نبی نہیں ہیں جن کے قتل کا ذکر بائیبل کے پرانے عہد نامے میں آیا ہے ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :36 لفظ محراب سے لوگوں کا ذہن بالعموم اس محراب کی طرف چلا جاتا ہے جو ہماری مسجدوں میں امام کے کھڑے ہونے کے لیے بنائی جاتی ہے ۔ لیکن یہاں سے محراب سے یہ چیز مراد نہیں ہے ۔ صوامع اور کنیسوں میں اصل عبادت گاہ کی عمارت سے متصل سطح زمین سے کافی بلندی پر جو کمرے بنائے جاتے ہیں ، جن میں عبادت گاہ کے مجاور ، خدام اور معتکف لوگ رہا کرتے ہیں ، انہیں محراب کہا جاتاہے ۔ اسی قسم کے کمروں میں سے ایک میں حضرت مریم معتکف رہتی تھیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

11: حضرت عمران بیت المقدس کے اِمام تھے ان کی اہلیہ کا نام حنّہ تھا۔ ان کے کوئی اولاد نہیں تھی، اس لئے انہوں نے نذر مانی تھی کہ اگر ان کے کوئی اولاد ہوگی تو وہ اسے بیت المقدس کی خدمت کے لئے وقف کردیں گی۔ جب حضرت مریم پیدا ہوئیں تو حضرت عمران کا انتقال ہوگیا، حضرت حنّہ کے بہنوئی زکریا علیہ السلام تھے جو حضرت مریم حضرت مریم کے خالو ہوئے۔ حضرت مریم کی سرپرستی کا مسئلہ پیدا ہوا تو قرعہ اندازی کے ذریعے اس کا فیصلہ کیا گیا اور قرعہ حضرت زکریا علیہ السلام کے نام نکلا جس کا ذکر آگے اسی سورت کی آیت نمبر 44 میں آرہا ہے۔