Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حاصل دعا یحییٰ علیہ السلام حضرت زکریا علیہ السلام نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ حضرت مریم علیہما السلام کو بےموسم میوہ دیتا ہے جاڑوں میں گرمیوں کے پھل اور گرمی میں جاڑوں کے میوے ان کے پاس رکھے رہتے ہیں تو باوجود اپنے پورے بڑھاپے کے اور باوجود اپنی بیوی کے بانجھ ہونے کے علم کے آپ بھی بےموسم میوہ یعنی نیک اولاد طلب کرنے لگے ، اور چونکہ یہ طلب بظاہر ایک ناممکن چیز کی طلب تھی اس لئے نہایت پوشیدگی سے یہ دعا مانگی جیسے اور جگہ ہے نداء خفیا یہ اپنے عبادت خانے میں ہی تھے جو فرشتوں نے انہیں آواز دی اور انہیں سنا کر کہا کہ آپ کے ہاں ایک لڑکا ہو گا جس کا نام یحییٰ رکھنا ، ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ یہ بشارت ہماری طرف سے نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے ہے ۔ یحییٰ نام کی وجہ سے یہ ہے کہ ان کی حیاۃ ایمان کے ساتھ ہو گی ، وہ اللہ کے کلمہ کے یعنی حضرت عیسیٰ بن مریم کی تصدیق کریں گے ، حضرت ربیع بن انس فرماتے ہیں سب سے پہلے حضرت عیسیٰ کی نبوت کو تسلیم کرنے والے بھی حضرت یحییٰ علیہ السلام ہیں ، جو حضرت عیسیٰ کی روش اور آپ کے طریق پر تھے ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ دونوں خالہ زاد بھائی تھے ۔ حضرت یحییٰ کی والدہ حضرت مریم سے اکثر ذکر کیا کرتی تھیں کہ میں اپنے پیٹ کی چیز کو تیرے پیٹ کی چیز کو سجدہ کرتی ہوئی پاتی ہوں ، یہ تھی حضرت یحییٰ کی تصدیق دنیا میں آنے سے پیشتر سب سے پہلے حضرت عیسیٰ کی سچائی کو انہوں نے ہی پہچانا یہ حضرت عیسیٰ سے عمر میں بڑے تھے ، سید کے معنی حلیم ، بردبار ، علم و عبادت میں بڑھا ہوا ، متقی ، پرہیزگار ، فقیہ ، عالم ، خلق و دین میں سب سے افضل جسے غصہ اور غضب مغلوب نہ کر سکے ، شریف اور کریم کے ہیں ، حضور کے معنی ہیں جو عورتوں کے پاس نہ آسکے جس کے ہاں نہ اولاد ہو نہ جس میں شہوت کا پانی ہو ، اس معنی کی ایک مرفوع حدیث بھی ابن ابی حاتم میں ہے ، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لفظ تلاوت کر کے زمین سے کچھ اٹھا کر فرمایا اس کا عضو اس جیسا تھا ، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ساری مخلوق میں صرف حضرت یحییٰ ہی اللہ سے بےگناہ ملیں گے پھر آپ نے یہ الفاظ پڑھے اور زمین سے کچھ اٹھایا اور فرمایا حضور اسے کہتے ہیں جس کا عضو اس جیسا ہو ، اور حضرت یحییٰ بن سعید قطان نے اپنی کلمہ کی انگلی سے اشارہ کیا ، یہ روایت جو مرفوع بیان ہوئی ہے اس کی حوالے سے اس موقوف کی سند زیادہ صحیح ہے ، اور مرفوع روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کپڑے کے پھندے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ایسا تھا ، اور روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ نے زمین سے ایک مرجھایا ہوا تنکا اٹھا کر اس کی طرف اشارہ کر کے یہی فرمایا ، اس کے بعد حضرت زکریا کو دوسری بشارت دی جاتی ہے کہ تمہارا لڑکا نبی ہو گا یہ بشارت پہلی خوشخبری سے بھی بڑھ گئی ، جب بشارت آچکی تب حضرت زکریا کو خیال پیدا ہوا کہ بظاہر اسباب سے تو اس کا ہونا محال ہے تو کہنے لگے اللہ میری ہاں بچہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں بوڑھا ہوں میری بیوی بالکل بانجھ ، فرشتے نے اسی وقت جواب دیا کہ اللہ کا امر سب سے بڑا ہے اس کے پاس کوئی چیز ان ہونی نہیں ، نہ اسے کوئی کام کرنا مشکل نہ وہ کسی کام سے عاجز ، اس کا ارادہ ہو چکا وہ اسی طرح کرے گا ، اب حضرت زکریا اللہ سے اس کی علامت طلب کرنے لگے تو ذات باری سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے اشارہ کیا گیا کہ نشان یہ ہے کہ تو تین دن تک لوگوں سے بات نہ کر سکے گا ، رہے گا تندرست صحیح سالم لیکن زبان سے لوگوں سے بات چیت نہ کی جائے گی صرف اشاروں سے کام لینا پڑے گا ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( ثَلٰثَ لَيَالٍ سَوِيًّا ) 19 ۔ مریم:10 ) یعنی تین راتیں تندرستی کی حالت پھر حکم دیا کہ اس حال میں تمہیں چاہئے کہ ذکر اور تکبیر اور تسبیح میں زیادہ مشغول رہو ، صبح شام اسی میں لگے رہو ، اس کا دوسرا حصہ اور پورا بیان تفصیل کے ساتھ سورۃ مریم کے شروع میں آئے گا ، انشاء اللہ تعالیٰ ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٢] حضرت زکریا بےاولاد تھے، خود بوڑھے ضعیف اور بیوی بانجھ تھی۔ اولاد کی کوئی توقع نہ تھی۔ کیونکہ ظاہری اسباب منقطع تھے۔ مگر اولاد کی خواہش ضرور تھی۔ حضرت مریم کا یہ جواب سن کر فوراً خیال آیا کہ اللہ تو خرق عادت امور پر بھی قادر ہے کیوں نہ اپنے لیے دعا کر دیکھوں۔ ممکن ہے شرف قبولیت حاصل ہوجائے۔ چناچہ اس خیال کے آتے ہی اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے نیک سیرت اولاد کی دعا فرمائی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ھُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهٗ ۚ۔۔ : زکریا (علیہ السلام) بوڑھے ہوچکے تھے اور ابھی تک بےاولاد تھے، بیوی بانجھ تھی، بظاہر انھیں اولاد کی کوئی امید نہ تھی، لیکن یہ دیکھ کر کہ کس طرح مریم [ کو خرق عادت کے طور پر بےموسم کا رزق پہنچ رہا ہے، ان کے دل میں بھی خواہش پیدا ہوئی کہ بےموسم کا رزق پہنچانے والا مایوسی کے عالم میں اولاد بھی عطا فرما سکتا ہے، چناچہ اسی جگہ اور اسی وقت اللہ تعالیٰ کے حضور نیک اولاد کی دعا کی۔ بعض علماء نے مریم [ کو خرق عادت میوے پہنچنے کا انکار کیا اور کہا ہے کہ یہ محاورہ ہے کہ خدا رسیدہ لوگ ہر نعمت کو (من عند اللہ) اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیتے ہیں، مگر زکریا (علیہ السلام) کا اس حالت کو دیکھ کر اظہار تعجب اور دعا کرنا بتارہا ہے کہ رزق خرق عادت (بطور کرامت) ہی مل رہا تھا۔ پچھلی آیت کے حاشیہ میں خبیب (رض) کا واقعہ ملاحظہ فرمائیں اور زکریا (علیہ السلام) کا واقعہ سورة مریم کے شروع میں ملاحظہ کریں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (حضرت زکریا (علیہ السلام) نے حضرت مریم (علیہا السلام) کی تربیت میں غیر معمولی نشانات قدرت دیکھ کر اپنے لئے بھی دعا فرمائی، جن کا بیان یہ ہے) - اس موقع پر دعا کی ( حضرت) زکریا ( علیہ السلام) نے اپنے رب سے عرض کیا کہ اے میرے رب عنایت کیجیے مجھ کو خاص اپنے سے کوئی اچھی اولاد بیشک آپ بہت سننے والے ہیں دعا کے۔- معارف و مسائل - (ھنالک دعا زکریا) حضرت زکریا (علیہ السلام) کے اس وقت تک اولاد نہ تھی، اور زمانہ بڑھاپے کا آگیا تھا، جس میں عادۃ اولاد نہیں ہوسکتی، اگرچہ خرق عادت کے طور پر قدرت خداوندی کا ان کو پورا اعتقاد تھا کہ وہ ذات اس بڑھاپے کے موقع میں بھی اولاد دے سکتی ہے، لیکن چونکہ اللہ کی ایسی عادت آپ نے مشاہدہ نہیں کی تھی کہ وہ بےموقع اور بےموسم چیزیں عطا کرتا ہے اس لئے آپ کو اولاد کے لئے دعا کرنے کی جرأت نہ ہوتی تھی، لیکن اس وقت جب آپ نے دیکھ لیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم (علیہا السلام) کو بےموسم میوے عطا فرمائے ہیں تو اب آپ کو بھی سوال کرنے کی جرأت ہوئی، کہ جو قادر مطلق بےموقع پھل عطا کرسکتا ہے وہ بےموقع اولاد بھی عطا کرے گا۔- (قال رب ھب لی من لدنک ذریۃ طیبۃ) اس آیت سے معلوم ہوا کہ اولاد کے لئے دعا کرنا انبیاء (علیہم السلام) اور صالحین کی سنت ہے۔- ایک دوسری آیت میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے ( ولقد ارسلنا رسلا من قبلک وجعلنا لھم ازواجا و ذریۃ۔ ١٣۔ ٣٨) " یعنی جس طرح حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیویاں اور اولاد عطا کی گئیں اسی طرح یہ نعمت انبیاء سابقین (علیہم السلام) کو بھی دی گئی تھی "۔ اب اگر کوئی شخص کسی ذریعہ سے اولاد کو پیدا ہونے سے روکنے کی کوشش کرے تو وہ نہ صرف فطرت کے خلاف علم بغاوت بلند کرے گا بلکہ انبیاء (علیہم السلام) کی ایک مشترک اور متفق علیہ سنت سے بھی محروم ہوگا۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نکاح اور اولاد کے مسئلہ کو اتنی اہمیت دی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کو اپنی جماعت میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی جو بیاہ شادی اور اولاد سے باجود قدرت کے اعراض کرتا ہو۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں : (1: النکاح من سنتی۔ " نکاح میری سنت ہے "۔ 2 فمن رغب عن سنتی فلیس منی۔ " جو میری سنت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں ہوگا "۔ 3 تزوجوا الودود الولود فانی مکاثر بکم الامم۔ " تم خاوند سے دوستی رکھنے والی اور بہت جننے والی سے نکاح کرو کیونکہ تمہاری کثرت کی وجہ سے میں دوسری امتوں پر فخر کروں گا "۔ ) - ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی تعریف کی ہے جو اولاد اور بیوی کے حصول اور ان کے نیک صالح ہونے کے لئے اپنے اللہ سے دعائیں کرتے ہیں۔ چناچہ اور شاد باری ہے : (والذین یقولون ربنا ھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرۃ اعین۔ ٢٥: ٧٤) " یعنی اللہ کے فرمانبردار لوگ ایسے ہیں جو یہ دعا کرتے ہیں کہ ہمیں بیوی بچے ایسے عنایت فرما جنہیں دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی اور قلب مسرور ہو "۔ حضرت حسن بصری (رح) نے فرمایا کہ یہاں آنکھوں کی ٹھنڈک سے مراد یہ ہے کہ اپنے بیوی بچوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مشغول دیکھے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ام سلیم (رض) نے درخواست کی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے خادم " انس " کے لئے کوئی دعا فرمائیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لئے یہ دعا کی : (اللھم اکثر مالہ و ولدہ وبارک لہ فیما اعطیتہ۔ " یعنی اے اللہ اس (انس) کے مال اور اولاد کو زیادہ کر اور اس چیز میں برکت عطا کر جو کہ آپ نے اس کو عطا کی ہے "۔ اسی دعا کا اثر تھا کہ حضرت انس (رض) کی اولاد سو (١٠٠) کے قریب ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے مالی وسعت بھی عطا فرمائی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ھُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّہٗ۝ ٠ ۚ قَالَ رَبِّ ھَبْ لِيْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّيَّۃً طَيِّبَۃً۝ ٠ۚ اِنَّكَ سَمِيْعُ الدُّعَاۗءِ۝ ٣٨- هنالک - هُنَا يقع إشارة إلى الزمان، والمکان القریب، والمکان أملک به، يقال : هُنَا، وهُنَاكَ ، وهُنَالِكَ ، کقولک : ذا، وذاک، وذلک . قال اللہ تعالی: جُنْدٌ ما هُنالِكَ [ ص 11] ، إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ- [ المائدة 24] ، هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ [يونس 30] ، هُنالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ [ الأحزاب 11] ، هُنالِكَ الْوَلايَةُ لِلَّهِ الْحَقِّ [ الكهف 44] ، فَغُلِبُوا هُنالِكَ [ الأعراف 119]- ( ھنا ) ھنا یہاں یہ زمانہ اور جگہ قریب کی طرف اشارہ کرنے کے آتا ہے لیکن عموما جگہ کیطرف اشارہ کیلئے استعمال ہوتا ہے اور ذا ذالک کی طرح ھنا ھنا لک وھنا لک تینوں طرح بولا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ جُنْدٌ ما هُنالِكَ [ ص 11] یہاں شکست کھائے ہوئے گروہوں میں سے یہ بھی ایک لشکر ہے ۔ إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة 24] یہیں بیٹھے رہیں گے ۔ هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ [يونس 30] وہاں ہر شخص ( پانے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہونگے آزمائش کرلے گا ۔ هُنالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ [ الأحزاب 11] وہاں مؤمن آز مائش کرلے گا ۔ وہاں مومن آز مائے گئے ۔ هُنالِكَ الْوَلايَةُ لِلَّهِ الْحَقِّ [ الكهف 44] یہاں سے ثابت ہوا کہ حکومت خدائے برحق کی ہے ۔ فَغُلِبُوا هُنالِكَ [ الأعراف 119] اور وہ مغلوب ہوگئے ۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- وهب - الهِبَةُ : أن تجعل ملكك لغیرک بغیر عوض . يقال : وَهَبْتُهُ هِبَةً ومَوْهِبَةً ومَوْهِباً. قال تعالی:- وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام 84] ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ- [إبراهيم 39] ، إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] - ( و ہ ب ) وھبتہ - ( ف ) ھبۃ وموھبۃ ومو ھبا بلا عوض کوئی چیز دے دینا یا کچھ دینا قرآن میں ہے : ۔ وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام 84] اور ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب ) بخشے ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم 39] خدا کا شکر ہے جس نے مجھے بڑی عمر اسماعیل اور اسحاق بخشے ۔ إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا یعنی فر شتہ ہوں اور اسلئے آیا ہوں کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں ۔ - طيب - يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] - ( ط ی ب ) طاب ( ض )- الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (قال رب ھب لی من لدنک ذریۃ طیبۃ، زکریا نے کہا پروردگار اپنی قدرت سے مجھے نیک اولادعطاکر) کسی چیز کو اس کی قیمت لیے بغیر کسی کی ملکیت میں دے دیناہبہ کہلاتا ہے۔ عرب کہتے ہیں، قدتواھبوا ؒلامربینھم، (لوگوں نے اس معاملے کو آپس میں ایک دوسرے کو ہبہ کردیا ہے) اللہ تعالیٰ نے اسے بطورمجازہبہ کا نام دیا ہے۔ اس لیے کہ اس میں ہبہ کا حقیقی معنی نہیں ہے کیونکہ اس میں کسی چیز کی تملیک موجود نہیں ہے۔ پیدا ہونے والا بچہ آزاد ہوتا ہے۔ اس پر کسی کی ملکیت نہیں ہوتی۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا کو خاص طوپرایسا بیٹادینے کا ارادہ فرمایا جوان کی تمنا اور خواہش کے مطابق ہو۔ یعنی وہ اللہ کی عبادت کرے ۔ ان کی نبوت کا وارث ہو۔ اور ان کے علم کا جانشین ہو تو اس پر لفظ ہبہ کا اطلاق کیا جائے گا جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی خاطر جہاد میں اپنی جان لڑادینے کا نام شراء یعنی خرید رکھا ہے چناچہ ارشاد باری ہے (ان اللہ اشتری من المؤمنین انفسھم واموالھم بان لھم الجنۃ، بیشک اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے اس بات کے بدلے ان کی جان ومال کی خریداری کرلی ہے کہ انہیں جنت ملے گی) حالانہ اللہ تعالیٰ ان کے جہاد پر جانے سے پہلے اور اس کے بعد بھی ان سب کی جان ومال کا مالک تھا۔ اس نے جہاد کرنے والوں کو اجرجزیل دینے کا جو وعدہ کررکھا ہے اس بناپر اس عمل کا نام شرارکھا ہے۔ بعض دفعہ ایک کہنے والا کہتا ہے، ھب لی جنایۃ فلان، (فلاں پر عائدہونے والاجرمانہ مجھے ہبہ کردو) کہنے والے کی اس سے مادتملیک نہیں ہوتی بلکہ جرمانے کے حکم کا اسقاطہ مراد ہوتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٨۔ ٣٩) اسی موقع پر حضرت زکریا (علیہ السلام) نے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ انہیں خاص اپنے پاس سے کوئی نیک اولاد عطا فرمائے، بیشک آپ (اللہ ہی) دعا کے قبول فرمانے والے ہیں، سو ان (حضرت زکریاعلیہ السلام) سے پکار کر جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا اور جبکہ وہ بحالت نماز مسجد میں تھے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ایسے لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہوگا جن کی شان یہ ہوگی کہ وہ کلمۃ اللہ (اللہ کی نشانی ہوں گے اور) یعنی عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی جو کہ بغیر باپ کے پیدا کیے گئے ہیں تصدیق کرنے والے ہوں گے، دوسرے بردبار ہوں گے، تیسرے اپنے آپ کو دنیاوی لذات سے روکنے والے ہوں گے اور چوتھے اعلی درجہ کے نبی ہوں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٨ (ہُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ ج) (قَالَ رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ج) - حضرت زکریا (علیہ السلام) بہت بوڑھے ہوچکے تھے ‘ ان کی اہلیہ بھی بہت بوڑھی ہوچکی تھیں اور ساری عمر بانجھ رہی تھیں اور ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی۔ یہ مضامین سورة مریم میں زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ مکی دور میں جبکہ مسلمان ہجرت حبشہ کے لیے گئے تھے ‘ تو وہاں جا کر نجاشی کے دربار میں حضرت جعفر (رض) بن ابی طالب نے سورة مریم کی آیات پڑھ کر سنائی تھیں۔ اس مناسبت سے یہ مضامین سورة مریم میں بھی ملتے ہیں۔ حضرت زکریا ( علیہ السلام) ساری عمر بےاولاد رہے تھے ‘ لیکن حضرت مریم ( علیہ السلام) کے پاس اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مشاہدہ کرنے کے بعد اولاد کی جو خواہش ان کے اندر دبی ہوئی تھی وہ چنگاری دفعۃً بھڑک اٹھی۔ انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ تو اس بچی کو یہ سب کچھ دے سکتا ہے تو اپنی قدرت سے مجھے بھی پاکیزہ اولاد عطا فرما دے

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :37 حضرت زکریا اس وقت تک بے اولاد تھے ۔ اس نوجوان صالحہ لڑکی کو دیکھ کر فطرةً ان کے دل میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ کاش ، اللہ انہیں بھی ایسی ہی نیک اولاد عطا کرے ، اور یہ دیکھ کر کہ اللہ کس طرح اپنی قدرت سے اس گوشہ نشین لڑکی کو رزق پہنچا رہا ہے ، انہیں یہ امید ہوئی کہ اللہ چاہے ، تو اس بڑھاپے میں بھی ان کو اولاد دے سکتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

12: حضرت مریم کے پاس بے موسم کے پھل آیا کرتے تھے، حضرت زکریا (علیہ السلام) نے یہ دیکھا تو انہیں توجہ ہوئی کہ خدا ان کو بے موسم پھل دیتا ہے وہ مجھے اس بڑھاپے میں اولاد بھی دے سکتا ہے چنانچہ انہوں نے یہ دعا مانگی۔