Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

39۔ 1 بےموسمی پھل دیکھ کر حضرت زکریا (علیہ السلام) کے دل میں بھی (بڑھاپے اور بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود) یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کاش اللہ تعالیٰ انہیں بھی اسی طرح اولاد سے نواز دے۔ چناچہ بےاختیار دعا کے لئے ہاتھ بارگاہ الٰہی میں اٹھ گئے جسے اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت سے نوازا۔ 39۔ 2 اللہ کے کلمے کی تصدیق سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق ہے گویا حضرت یحییٰ (علیہ السلام) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے بڑے ہوئے دونوں آپس میں خالہ زاد تھے دونوں نے ایک دوسرے کی تائید کی۔ حصوراً کے معنی ہیں گناہوں سے پاک یعنی گناہوں کے قریب نہیں پھٹکے بعض نے اس کے معنی نامرد کے کئے ہیں لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ یہ ایک عیب ہے جب کہ یہاں ان کا ذکر مدح اور فضیلت کے طور پر کیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَنَادَتْهُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ۔۔ : عبادت خانے میں نماز پڑھنے کے دوران ہی فرشتوں نے انھیں یحییٰ نامی بیٹے کی خوش خبری دی۔ معلوم ہوا پیدائش سے پہلے بھی اولاد کا نام رکھا جاسکتا ہے۔ - بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ : یہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا لقب ہے، اگرچہ ہر شخص ہی اللہ تعالیٰ کے کلمۂ کن سے پیدا ہوا ہے، مگر عیسیٰ (علیہ السلام) کے بغیر باپ کے پیدا ہونے پر انھیں بطور شرف یہ لقب دیا گیا، جیسے بیت اللہ، ناقۃ اللہ، اگرچہ ہر مسجد اور ہر اونٹنی اللہ ہی کی ہے۔ یحییٰ (علیہ السلام) عیسیٰ (علیہ السلام) سے بڑے تھے، تبھی انھوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق کی۔ - ” َّحَصُوْرًا “ سے مراد ایسا شخص ہے جسے اپنی جنسی خواہشوں پر پوری طرح قابو حاصل ہو۔ (فتح البیان) بعض لوگوں نے معنی کیا ہے جو عورت کے پاس نہ جاسکتا ہو، مگر یہ نہ کوئی خوبی ہے نہ یہاں مراد ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

پس پکار کر کہا اس سے فرشتوں نے جب کہ وہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے محراب میں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بشارت دیتے ہیں یحییٰ (نام بیٹا عطا ہونے) کی جن کے احوال یہ ہوں گے کہ وہ کلمۃ ( یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت) کی تصدیق کرنے والے ہوں گے اور (دوسرے) مقتدائے (دین ہوں گے اور ( تیسرے) اپنے نفس کو ( لذات سے) بہت روکنے والے ہوں گے اور ( چوتھے) نبی بھی ہوں گے اور ( پانچویں اعلی درجہ کے شائستہ ہوں گے۔- معارف و مسائل - (کلمۃ اللہ) حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو کلمۃ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ محض اللہ تعالیٰ کے حکم سے خلاف عادت بلا واسطہ باپ کے پیدا کئے گئے۔ (حصورا) حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی یہ تیسری صفت بیان کی گئی کہ وہ اپنے نفس کو لذات سے بہت روکنے والے تھے، اور لذات سے روکنے میں مباح خواہشوں سے بچنا بھی داخل ہے، مثلا اچھا کھانا، اچھا پہننا اور نکاح وغیرہ کرنا، اس صفت کو موقع مدح میں فرمانے سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ افضل طریقہ یہی ہے، حالانکہ احادیث سے نکاح فضیلت ثابت ہے، تحقیق اس کی یہ ہے کہ جس شخص کی حالت حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی سی ہو کہ اس پر آخرت کا خیال اس قدر غالب ہو کہ اس کے غلبہ کی وجہ سے نہ بیوی کی ضرورت محسوس کرے اور نہ بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنے کی فرصت ہو، ایسے شخص کے لئے یہی افضل ہے، اسی وجہ سے جن احادیث میں نکاح کی فضیلت آئی ہے ان میں یہ بھی قید مذکور ہے، (من استطاع منکم الباءۃ) یعنی جو آدمی نکاح کرنے کی قدرت رکھتا ہو، اور زوجیت کے حقوق ادا کرسکتا ہو تو اس کے لئے نکاح کرنا افضل ہے ورنہ نہیں۔ (بیان القرآن)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَنَادَتْہُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ وَھُوَقَاۗىِٕمٌ يُّصَلِّيْ فِي الْمِحْرَابِ۝ ٠ ۙ اَنَّ اللہَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيٰي مُصَدِّقًۢـا بِكَلِمَۃٍ مِّنَ اللہِ وَسَيِّدًا وَّحَصُوْرًا وَّنَبِيًّا مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ۝ ٣٩- ندا - النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ- [ آل عمران 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر - كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُور أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، - ( ن د ی ) الندآ ء - کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ - - ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔- قائِمٌ- وفي قوله : أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد 33] . وبناء قَيُّومٍ :- ( ق و م ) قيام - أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد 33] تو کیا جو خدا ہر نفس کے اعمال کا نگہبان ہے ۔ یہاں بھی قائم بمعنی حافظ ہے ۔- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- مِحرابُ المسجد - قيل : سمّي بذلک لأنه موضع محاربة الشیطان والهوى، وقیل : سمّي بذلک لکون حقّ الإنسان فيه أن يكون حریبا من أشغال الدنیا ومن توزّع الخواطر، وقیل : الأصل فيه أنّ محراب البیت صدر المجلس، ثم اتّخذت المساجد فسمّي صدره به، وقیل : بل المحراب أصله في المسجد، وهو اسم خصّ به صدر المجلس، فسمّي صدر البیت محرابا تشبيها بمحراب المسجد، وكأنّ هذا أصح، قال عزّ وجل : يَعْمَلُونَ لَهُ ما يَشاءُ مِنْ مَحارِيبَ وَتَماثِيلَ [ سبأ 13] .- والحِرْبَاء : دویبة تتلقی الشمس كأنها تحاربها، والحِرْبَاء : مسمار، تشبيها بالحرباء التي هي دویبة في الهيئة، کقولهم في مثلها : ضبّة وکلب، تشبيها بالضبّ والکلب .- مسجد کے محراب کو محراب یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ شیطان اور خواہشات نفسانی سے جنگ کرنے کی جگہ ہے اور یا اس لئے کہ اس جگہ میں کھڑے ہو کر عبادت کرنیوالے پر حق یہ ہے کہ دنیوی کاروبار ۔ اور پریشان خیالیوں سے یک سو ہوجانے ۔ بعض کہتے ہیں کہ اصل میں محراب البیت صدر مجلس کو کہتے ہیں اسی بنا پر جب مسجد میں امام کی گہ بنائی گئی تو اسے بھی محراب کہہ دیا گیا ۔ اور بعض نے اس کے برعکس محرابالمسجد کو اصل اور محراب البیت کو اس کی فرع نانا ہے اور یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْمَلُونَ لَهُ ما يَشاءُ مِنْ مَحارِيبَ وَتَماثِيلَ [ سبأ 13] وہ جو چاہتے یہ ان کے لئے بناتے یعنی محراب اور مجسمے ۔ الحرباء گرگٹ کیونکہ وہ سورج کے سامنے اس طرح بیٹھ جاتی ہے گویا اس سے جنگ کرنا چاہتی ہے نیز زرہ کے حلقہ یا میخ کو بھی صوری مشابہت کی بنا پر حرباء کہاجاتا ہے جیسا کہ ضب اور کلب کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے اس کی بعض حصوں کو ضبہ اور کلب کہہ دیتے ہیں ۔ - صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - كلم - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها،- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔- سَّيِّدُ :- المتولّي للسّواد، أي : الجماعة الكثيرة، وينسب إلى ذلک فيقال :- سيّد القوم، ولا يقال : سيّد الثّوب، وسيّد الفرس، ويقال : سَادَ القومَ يَسُودُهُمْ ، ولمّا کان من شرط المتولّي للجماعة أن يكون مهذّب النّفس قيل لكلّ من کان فاضلا في نفسه :- سَيِّدٌ. وعلی ذلک قوله : وَسَيِّداً وَحَصُوراً [ آل عمران 39] ، وقوله : وَأَلْفَيا سَيِّدَها [يوسف 25] ، فسمّي الزّوج سَيِّداً لسیاسة زوجته، وقوله : رَبَّنا إِنَّا أَطَعْنا سادَتَنا - [ الأحزاب 67] ، أي : ولاتنا وسَائِسِينَا .- اور سید کے معنی - بڑی جماعت کا سردار کے ہیں چناچہ اضافت کے وقت سیدالقوم تو کہا جاتا ہے ۔ مگر سید الثوب یا سیدالفرس نہیں بالو جاتا اور اسی سے سادا القوم یسودھم کا محاورہ ہے چونکہ قوم کے رئیس کا مہذب ہونا شرط ہے اس اعتبار ہر فاضل النفس آدمی سید کہا جاتا چناچہ آیت وَسَيِّداً وَحَصُوراً [ آل عمران 39] اور سردار ہوں گے اور عورت سے رغبت نہ رکھنے والے ۔ میں بھی سید کا لفظ اسی معنی پر محمول ہے ۔ اور آیت : وَأَلْفَيا سَيِّدَها [يوسف 25] اور دونوں کو عورت کا خاوند مل گیا ۔ میں خاوند کو سید کہا گیا ہے کیونکہ وہ بیوی کا نگران اور منتظم ہوتا ہے اور آیت : رَبَّنا إِنَّا أَطَعْنا سادَتَنا[ الأحزاب 67] اے ہمارے پروردگار ہم نے اپنے سرداروں اور بڑے لوگوں کا کہا مانا ۔ میں سادتنا سے دلاۃ اور حکام مراد ہیں ۔- حصور - وقوله عزّ وجلّ : وَسَيِّداً وَحَصُوراً [ آل عمران 39] ، فالحصور : الذي لا يأتي النساء، إمّا من العنّة، وإمّا من العفّة والاجتهاد في إزالة الشهوة . اور آیت کریمہ ؛ ۔ وَسَيِّداً وَحَصُوراً [ آل عمران 39] اور سردار ہوں گے عورتوں سے رغبت نہ رکھنے والے ۔ میں حصورا کے معنی عورتوں سے رغبت نہ رکھنے والا کے ہیں خواہ یہ نامروی کی وجہ سے ہو اور خواہ غفلت اور ازالہ شہوت میں مجاہدہ اور ریاضت کی بنا پر مگر یہاں دوسرے معنی زیادہ مناسب ہیں کیونکہ یہ لفظ ان ( یحییٰ (علیہ السلام) ) کے لئے بطور مدح کے استعمال ہوتا ہے ۔- صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

سیدوہ ہوتا ہے جس کی اطاعت کی جائے اور غیر اللہ کو بھی سیدکہہ سکتے ہیں - قول باری ہے (وسیداوحصورانبیا من الصالحین، اس میں سرداری و بزرگی کی شان ہوگی، کمال درجے کا ضابطہ ہوگا، نبوت سے سرفرازہوگا اور صالحین میں شمار کیا جائے گا آیت اس پر دلالت کررہی ہے کہ غیر اللہ کو سید کے نام سے موسم کرنا جائز ہے۔ اس لیئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ کو سید کے نام سے موسوم کیا اور سیدوہ ہوتاجس کی طاعت واجب ہوتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ جب حضرت سعدبن معاذ آپ کے اور بنی قریظہ کے درمیان حکم یعنی ثالث تسلیم کرلیے گئے تو آپ نے ان کی آمدپرانصارکوحکم دیا کہ (قوموا الی سیدکم، اپنے سردار کے استقبال کے لیے کھڑے ہوجاؤ) اسی طرح آپ نے حضرت حسن (رض) کے متعلق فرمایا (ان ابنی ھذاسید، میرایہ بیٹا سید یعنی سردار ہے) آپ نے بنی سلمہ سے پوچھا، اے بنی سلمہ تمھاراسردارکون ہے ؟ انہوں نے جو اباعرض کیا، الحربن قیس ہمارے سردار ہیں، البتہ ان میں بخل پایاجاتا ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا۔ بخل سے بڑھ کر کونسی بیماری ہوسکتی ہے۔ لیکن تم لوگوں کے سردارسفید گھنگھریایالے بالوں والے عمروبن الجموح ہیں۔- یہ تمام روایات اس پرولالت رتی ہیں کہ جس شخص کی طاعت واجب ہوا سے سیدکہنا جائز ہے۔ سیدوہ نہیں ہوتا جو صرف کسی چیز کا مالک ہو۔ اس لیے کہ اگر ایسا ہوتا تو یہ کہنا درست ہوتا کہ، فلاں شخص غلام کاسید ہے۔ روایت ہے کہ بنوعامرکا ایک وفدحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضرہوا۔ اور عرض کیا، آپ ہمارے سید اور ہم پر بخشش کرنے والے ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا، سیدتو اللہ تعالیٰ ہے، تم اپنی بات کرو شیطان تمہیں بہکاوے میں نہ ڈالے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگرچہ اولادآدم کے سرداروں میں سب سے افضل تھے۔ لیکن جب آپ نے انہیں دیکھاتو وہ یہ کہتے ہوئے تکلف سے کام لے رہے ہیں تو آپ نے اسے تاپسند کیا۔ جس طرح آپ کا ارشاد ہے (ان ابفضکم الی الثرثارون المتشدقون المتفیھقون، میرے لیے تم میں سب سے ناپسند دیدہ وہ لوگ ہیں جو بک بک کرنے والے باچھین پھیلاکربغیر کسی احتیاط کے بولنے والے اور منہ پھیلاکرباتیں کرنے والے ہیں) آپ نے تصنع اور بناوٹ کے طورپر ان کی تکلفانہ گفتگوکوناپسند فرمایا۔- منافق کو سیدنہ کہاجائے - آپ سے مروی ہے کہ (لاتقولوالمنافق سیدافانہ ان یک سیدا ھلکتم، منافق کو سیدمت کہو اس لیے کہ اگر وہ سیدہوگیا توپھرتمھاری تباہی آجائے گی) آپ نے منافق کو سیدکہنے سے منع فرمادیا اس لیے کہ اس کی اطاعت واجب نہیں ہوتی۔- اگر یہ کہا جائے کہ قول باری ہے (ربنا اطعنا سادتناوکبرآء نافاضلوناالسبیلا، اے ہمارے پروردگار ہم نے اپنے بڑوں اور سرداروں کی پیروی کی انہوں نے ہمیں سیدھے راستے سے ہٹاکرگمراہ کردیا) لوگوں نے اپنے سرداروں کو سادات کا نام دیاحالان کہ وہ گمراہ تھے، اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ لوگوں نے انہیں وہ مرتبہ دے دیاتھاجو اس شخص کا ہوتا ہے جس کی طاعت واجب ہوتی ہے اگرچہ وہ اس طاعت کا مستحق نہیں ہوتا۔ اس طرح یہ لوگ ان کے نزدیک اور ان کے اعتقاد میں ان کے سید اور سردار تھے جس طرح کہ قول باری ہے (فمااغنت عنھم الھتکم، ان کے معبودان باطل ان کے کچھ کام نہ آئے) حالانکہ حقیقت میں یہ ان کے معبود نہیں تھے۔ لیکن انہوں نے ان کو معبودوں کے نام سے موسوم کررکھا تھا اس لیئے کلام کو بھی ان کے زعم باطل اور اعتقاد فاسد کے مطابق جاری کیا گیا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٩ (فَنَادَتْہُ الْمَلآءِکَۃُ وَہُوَ قَآءِمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْْمِحْرَابِلا) (اَنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْیٰی) ( مُصَدِّقًا بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ ) - اس سے مراد حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) ہیں ‘ جن کے لیے آیت ٤٤ میں بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُکا لفظ آرہا ہے۔- (وَسَیِّدًا وَّحَصُوْرًا وَّنَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ ) - یہاں نوٹ کر لیجیے کہ آخری لفظ جو حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) کی مدح کے لیے آیا ہے وہ نبی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :38 بائیبل میں ان کا نام ”یوحنا بپتسمہ دینے والا“ ( ) لکھا ہے ۔ ان کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو متی باب ۳ و ١١و ١٤ ۔ مرقس باب ١ و ٦ ۔ لوقاباب ١ و ۳ ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :39 اللہ کے ”فرمان“ سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں ۔ چونکہ ان کی پیدائش اللہ تعالیٰ کے ایک غیر معمولی فرمان سے خرق عادت کے طور پر ہوئی تھی اس لیے ان کو قرآن مجید میں ”کَلِمَةٌ مِّنَ اللہ“ کہا گیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

13: ’’اللہ کے کلمے‘‘ سے مُراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ جیسا کہ اس سورت کے شروع میں اُوپر واضح کیا گیا ہے انہیں ’’کلمۃ اللہ‘‘ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ باپ کے بغیر اللہ کے کلمۂ ’’کن‘‘ سے پیدا ہوئے تھے۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام ان سے پہلے پیدا ہوئے اور انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کی تصدیق فرمائی۔ 14: حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ایک خاص صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنی نفسانی خواہشات پر قابو رکھنے والے ہوں گے۔ یہ صفت اگرچہ تمام انبیا علیہم السلام میں پائی جاتی ہے، لیکن ان کا خاص طور سے اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی عبادت میں اس درجہ مشغول رہتے تھے کہ ان کو نکاح کرنے کی طرف رغبت نہیں ہوئی۔ اگرچہ عام حالات میں نکاح سنت ہے اور اس کی ترغیب دی گئی ہے، لیکن اگر کوئی شخص اپنے نفس پر اتنا قابو یافتہ ہو جیسے حضرت یحییٰ علیہ السلام تھے تو اس کے لئے کنوارا رہنا بلا کراہت جائز ہے۔