Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ رَبِّ اَنّٰى يَكُوْنُ لِيْ ۔۔ : دعا کی فوری قبولیت اور بظاہر ناممکن کام کی بشارت پر انھیں تعجب ہوا۔ عجیب بات یہ ہے کہ خود ہی دعا کر رہے ہیں اور پھر خود ہی انھیں اتنا تعجب ہو رہا ہے کہ یہ کیسے ہوگا ؟ جو اب ملا کہ اللہ تعالیٰ جو چاہے کرتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (حضرت) زکریا ( علیہ السلام) نے ( جناب باری میں) عرض کیا کہ اے میرے پروردگار میرے لڑکا کس طرح ہوگا حالانکہ مجھ کو بڑھاپا آپہنچا اور میری بی بی بھی ( بڑھاپے کی وجہ سے) بچہ جننے کے قابل نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے ( جواب میں) فرمایا کہ ایسی حالت میں ہی لڑکا ہوجاوے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ جو کچھ ارادہ کریں کردیتے ہیں، انہوں نے عرض کیا کہ اے پروردگار (تو پھر) میرے واسطے کوئی نشانی مقرر فرما دیجیے ( جس سے مجھے معلوم ہوجائے کہ اب حمل ہوگیا) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہاری نشانی یہی ہے کہ تم لوگوں سے تین روز تک باتیں نہ کرسکو گے بجز (ہاتھ یا سر وغیرہ کے) اشارہ کے (جب یہ نشانی دیکھو تو سمجھ جانا کہ اب گھر میں امید ہے) اور (اس زمانہ میں جب آدمیوں سے گفتگو کرنے کی قدرت نہ رہے ذکر اللہ پر قادر ہوگے سو) اپنے رب کو (دل سے بھی) بکثرت یاد کیجیو اور ( زبان سے بھی) تسبیح ( تقدیس) کیجیو دن ڈھلے بھی اور صبح کو بھی (کیونکہ ذکر اللہ کی قدرت اس وقت بھی پوری رہے گی) ۔- معارف و مسائل :- حضرت زکریا (علیہ السلام) کی دعا اور اس کی حکمت :- (انی یکون لی غلام) حضرت زکریا (علیہ السلام) باوجودیکہ قدرت خداوندی کے معتقد بھی تھے اور نمونہ کا مکرر مشاہدہ بھی کرچکے تھے اور خود ہی درخواست کی تھی اور قبولیت کا علم بھی ہوگیا تھا، پھر اس کہنے کے کیا معنی کہ کس طرح لڑکا ہوگا ؟ بات درحقیقت یہ ہے کہ آپ کا یہ سوال کرنا اللہ کی قدرت میں شک کی وجہ سے نہیں تھا، بلکہ مقصود سوال سے کیفیت معلوم کرنا تھا کہ آیا ہم دونوں میاں بیوی کی جو حالت موجودہ ہے کہ دونوں خوب بوڑھے ہیں، یہی حالت رہے گی یا کچھ اس میں تبدیلی کی جاوے گی، اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا کہ نہیں تم بوڑھے ہی رہو گے، اور اسی حالت میں تمہارے اولاد ہوگی، اب اس میں کوئی اشکال نہ رہا۔ (بیان القرآن)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ رَبِّ اَنّٰى يَكُوْنُ لِيْ غُلٰمٌ وَّقَدْ بَلَغَنِىَ الْكِبَرُ وَامْرَاَتِيْ عَاقِرٌ۝ ٠ ۭ قَالَ كَذٰلِكَ اللہُ يَفْعَلُ مَا يَشَاۗءُ۝ ٤٠- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- أنى- أَنَّى للبحث عن الحال والمکان، ولذلک قيل : هو بمعنی كيف وأين ، لتضمنه معناهما، قال اللہ عزّ وجل : أَنَّى لَكِ هذا [ آل عمران 37] ، أي : من أين، وكيف .- ( انیٰ ) انی۔ یہ حالت اور جگہ دونوں کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اس لئے بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنیٰ این اور کیف ۔ کے آتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ أَنَّى لَكِ هَذَا ( سورة آل عمران 37) کے معنی یہ ہیں کہ کھانا تجھے کہاں سے ملتا ہے ۔- غلم - الْغُلَامُ الطّارّ «3» الشّارب . يقال : غُلَامٌ بيّن الغُلُومَةِ والغُلُومِيَّةِ. قال تعالی: أَنَّى يَكُونُ لِي غُلامٌ [ آل عمران 40] ، وَأَمَّا الْغُلامُ فَكانَ أَبَواهُ مُؤْمِنَيْنِ [ الكهف 80] ، وقال : وَأَمَّا الْجِدارُ فَكانَ لِغُلامَيْنِ [يوسف 19] ، وقال في قصة يوسف : هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، والجمع : غِلْمَةٌ وغِلْمَانٌ ، واغْتَلَمَ الْغُلَامُ :إذا بلغ حدّ الغلومة، ولمّا کان من بلغ هذا الحدّ كثيرا ما يغلب عليه الشّبق قيل للشّبق : غِلْمَةٌ ، واغْتَلَمَ الفحلُ.- ( غ ل م ) الغلام - اس لڑکے کو کہتے ہیں جس کی مسیں بھیگ چکی ہوں محاورہ ہے غلام بین الغلومۃ والغیو میۃ لڑکا جو بھر پور جوانی کی عمر میں ہو۔ کی عمر میں ہو قرآن پاک میں ہے : أَنَّى يَكُونُ لِي غُلامٌ [ آل عمران 40] میرے ہاں لڑکا کیونکہ ہوگا ۔ وَأَمَّا الْغُلامُ فَكانَ أَبَواهُ مُؤْمِنَيْنِ [ الكهف 80] اور وہ لڑکا تھا اس کے ماں باپ دونوں مومن تھے ۔ وَأَمَّا الْجِدارُ فَكانَ لِغُلامَيْنِ [يوسف 19] اور جو دیورار تھی سو وہ دو لڑکوں کی تھی ۔ اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قصہ میں فرمایا : هذا غُلامٌ [يوسف 19] یہ تو نہایت حسین ) لڑکا ہے ۔ غلام کی جمع غلمۃ وغلمان آتی ہے ۔ اور اغتلم الغلام کے معنی ہیں لڑکا بالغ ہوگیا ۔ عام طور پر چونکہ اس عمر میں جنسی خواہش کا غلبہ ہوجاتا ہے اس لئے غلمۃ کا لفظ جنسی خواہش کی شدت پر بولا جاتا ہے ۔ اور اغتلم الفحل کے معنی ہیں سانڈ جنسی خواہش سے مغلوب ہوگیا ۔- كبر ( بوڑها)- فلان كَبِيرٌ ، أي : مسنّ. نحو قوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما[ الإسراء 23] ، وقال : وَأَصابَهُ الْكِبَرُ [ البقرة 266] ، وَقَدْ بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ [ آل عمران 40] - ( ک ب ر ) کبیر - اور قرآن میں ہے : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما[ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک تمہارے سامنے پڑھاپے کو پہنچ جائیں ۔ وَأَصابَهُ الْكِبَرُ [ البقرة 266] اور اسے بڑھا آپکڑے ۔ وَقَدْ بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ [ آل عمران 40] کہ میں تو بڈھا ہوگیا ہوں ۔ اور - عقر - عُقْرُ الحوض والدّار وغیرهما : أصلها ويقال :- له : عَقْرٌ ، وقیل : ( ما غزي قوم في عقر دارهم قطّ إلّا ذلّوا) «4» ، وقیل للقصر : عُقْرَة . وعَقَرْتُهُ أصبت : عُقْرَهُ ، أي : أصله، نحو، رأسته، ومنه :- عَقَرْتُ النّخل : قطعته من أصله، وعَقَرْتُ البعیر : نحرته، وعقرت ظهر البعیر فانعقر، قال :- فَعَقَرُوها فَقالَ تَمَتَّعُوا فِي دارِكُمْ [هود 65] ، وقال تعالی: فَتَعاطی فَعَقَرَ [ القمر 29] ، ومنه استعیر : سرج مُعْقَر، وکلب عَقُور، ورجل عاقِرٌ ، وامرأة عاقر : لا تلد، كأنّها تعقر ماء الفحل . قال : وَكانَتِ امْرَأَتِي عاقِراً [ مریم 5] ، وَامْرَأَتِي عاقِرٌ [ آل عمران 40] ، وقد عَقِرَتْ ، والعُقْرُ : آخر الولد . وبیضة العقر کذلک، والعُقَار : الخمر لکونه کالعاقر للعقل، والمُعَاقَرَةُ : إدمان شربه، وقولهم للقطعة من الغنم : عُقْرٌ فتشبيه بالقصر، فقولهم : رفع فلان عقیرته، أي : صوته فذلک لما روي أنّ رجلا عُقِرَ رِجْلُهُ فرفع صوته «5» ، فصار ذلک مستعارا للصّوت، والعقاقیر : أخلاط الأدوية، الواحد : عَقَّار - . ( ع ق ر ) العقر - کے معنی حوض یا مکان کے اصل اور وسط کے ہیں اور اسے عقر بھی کہتے ہیں حدیث میں ہے (42) ماغزی قوم فی عقر دارھم قط الا ذلو ا کہ کسی قوم پر ان کے گھروں کے وسط میں حملہ نہیں کیا جاتا مگر وہ ذلیل ہوجاتی ہیں اور تصر یعنی محل کو عقرۃ کہاجاتا ہے ۔ عقرتہ اس کی عقر یعنی جڑپر مارا ۔ جیسا کہ راستہ کے معنی ہیں میں نے اس کے سر پر مارا اسی سے عقرت النخل ہے جس کے معنی ہیں میں نے کھجور کے درخت کو جڑ سے کاٹ دیا ۔ عقرت البعیر اونٹ کی کو نچیں کاٹ دیں اسے ہلاک کردیا عقرت ظھر البعیر اونٹ کی پشت کو رخمی کردیا انعقر ظھرہ اس کی پیٹھ زخمی ہوگئی قرآن میں ہے : فَعَقَرُوها فَقالَ تَمَتَّعُوا فِي دارِكُمْ [هود 65] مگر انہوں نے اس کی کو نچیں کاٹ ڈالیں تو صالح نے کہا کہ اپنے گھروں میں فائدہ اٹھالو ۔- ۔ فَتَعاطی فَعَقَرَ [ القمر 29] تو اس نے جسارت کرکے اونٹنی کو پکڑا اور اس کی کو نچیں کاٹ ڈالیں اور اسی سے بطور استعارہ کہاجاتا ہے ۔ سرج شعقر زخمی کردینے والی زین ۔ کلب عقور کاٹ کھانے والا کتا ، درندہ جانور رجل عاقر بانجھ مرد ۔ امرءۃ عاقر بانچھ عورت گو یا وہ مرد کے نطفہ کو قطع کردیتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانَتِ امْرَأَتِي عاقِراً [ مریم 5] اور میری بیوی بانجھ ہے ۔ اور میری بیوی بانجھ ہے ۔ قد عقرت وہ بانجھ ہوگئی ۔ العقر آخری بچہ بیضۃ العقر آخری انڈا عقار ( پرانی ) شراب کیونکہ وہ عقل کو قطع کردیتی ہے ۔ المعاقرۃ کے معنی ہیں شراب نوشی کا عادی ہونا اور قصر کے ساتھ تشبیہ دے کر بکریوں کی ٹکڑی کو بھی عقر کہاجاتا ہے ۔ رفع فلان عقیرتہ فلاں نے آواز بلند کی مروی ہے کہ ایک آدمی کی ٹانگ کٹ گئی وہ چلایا تو اس وقت سے بطور استعارہ عقر کا لفظ بلند آواز کے معنی میں ہونے لگا ہے ۔ عقاقیر جڑی بوٹیاں ۔ اس کا واحد عقار ہے ۔- شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] - ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے - ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ - ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٠) تب جوابا حضرت زکریا (علیہ السلام) نے بواسطہ جبرائیل (علیہ السلام) جناب باری تعالیٰ میں عرض کیا کہ میرے لڑکا کس طرح ہوگا حالانکہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور میری بیوی بھی بڑھاپے کی وجہ سے بچہ جننے کے قابل نہیں، تب اللہ کی طرف سے غائبانہ آواز آئی کہ اے زکریا (علیہ السلام) جیسا تم سے کہا گیا ہے اسی طرح ہوگا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٠ (قَالَ رَبِّ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ) (زکریا ( علیہ السلام) نے) - ابھی خود دعا کر رہے تھے ‘ لیکن اللہ کی طرف سے بیٹے کی بشارت ملنے پر غالباً اس کی توثیق اور - چاہ رہے ہیں کہ میرے ہاں کیسے بیٹا ہوجائے گا ؟- (وَّقَدْ بَلَغَنِیَ الْکِبَرُ ) ( وَامْرَاَتِیْ عَاقِرٌ ط) (قَالَ کَذٰلِکَ اللّٰہُ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُ ) - اسے اسباب کی احتیاج نہیں ہے۔ اسباب اس کے محتاج ہیں ‘ اللہ اسباب کا محتاج نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :40 یعنی تیرے بڑھاپے اور تیری بیوی کے بانجھ پن کے باوجود اللہ تجھے بیٹا دے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

15: دعا حضرت زکریا (علیہ السلام) نے خود مانگی تھی، اس لئے یہ سوال خدانخواستہ کسی بےیقینی کی وجہ سے نہیں تھا، بلکہ ایک غیر معمولی نعمت کی خبر سن کر تعجب کا اظہار تھا جودرحقیقت شکر کا ایک انداز ہے، نیز سوال کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کیا بچہ اسی بڑھاپے کی حالت میں پیدا ہوجائے گا یا ہماری جوانی لوٹادی جائے گی، اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا اسی طرح یعنی لڑکا اسی بڑھاپے کی حالت میں پیدا ہوگا۔