تین افضل ترین عورتیں یہاں بیان ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مریم علیہما السلام کو فرشتوں نے خبر پہنچائی کہ اللہ نے انہیں ان کی کثرت عبادت ان کی دنیا کی بےرغبتی کی شرافت اور شیطانی وسو اس سے دوری کی وجہ سے اپنے قرب خاص عنایت فرمادیا ہے ، اور تمام جہان کی عورتوں پر انہیں خاص فضیلت دے رکھی ہے ، صحیح مسلم شریف وغیرہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنتی عورتیں اونٹ پر سوار ہونے والیاں ہیں ان میں سے بہتر عورتیں قریش کی ہیں جو اپنے چھوٹے بچوں پر بہت ہی شفقت اور پیار کرنے والی اور اپنے خاوند کی چیزوں کی پوری حفاظت کرنے والی ہیں ، حضرت مریم بنت عمران اونٹ پر کبھی سوار نہیں ہوئی ، بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے عورتوں میں سے بہتر عورت حضرت مریم بنت عمران ہیں اور عورتوں میں سے بہتر عورت حضرت خدیجہ بنت خویلد ہیں ( رضی اللہ تعالیٰ عنہما ) ترمذی کی صحیح حدیث میں ہے ساری دنیا کی عورتوں میں سے تجھے مریم بنت عمران ، خدیجہ بنت خویلد ، فاطمہ بنت محمد ، آسیہ فرعون کی بیوی ہیں ( رضی اللہ تعالیٰ عنہما ) اور حدیث میں ہے یہ چاروں عورتیں تمام عالم کی عورتوں سے افضل اور بہتر ہیں اور حدیث میں ہے مردوں میں سے کامل مرد بہت سے ہیں لیکن عورتوں میں کمال والی عورتیں صرف تین ہیں ، مریم بنت عمران ، آسیہ فرعون کی بیوی اور خدیجہ بنت خویلد اور عائشہ کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید یعنی گوشت کے شوربے میں بھگوئی ہوئی روٹی کی تمام کھانوں پر یہ حدیث ابو داؤد کے علاوہ اور سب کتابوں میں ہے ، صحیح بخاری شریف کی اس حدیث میں حضرت خدیجہ کا ذکر نہیں ، میں نے اس حدیث کی تمام سندیں اور ہر سند کے الفاظ اپنی کتاب البدایہ والنہایہ میں حضرت عیسیٰ کے ذکر میں جمع کر دئیے ہیں وللہ الحمد والمنۃ پھر فرشتے فرماتے ہیں کہ اے مریم تو خشوع و خضوع رکوع و سجود میں رہا کر اللہ تبارک وتعالیٰ تجھے اپنی قدرت کا ایک عظیم الشان نشان بنانے والا ہے اس لئے تجھے رب کی طرف پوری رغبت رکھنی چاہئے ، قنوت کے معنی اطاعت کے ہیں جو عاجزی اور دل کی حاضری کے ساتھ ہو ، جیسے ارشاد آیت ( وَلَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ ) 30 ۔ الروم:26 ) یعنی اس کی ماتحتی اور ملکیت میں زمین و آسمان کی ہر چیز ہے سب کے سب اس کے محکوم اور تابع فرمان ہیں ، ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ قرآن میں جہاں کہیں قنوت کا لفظ ہے اس سے مراد اطاعت گذاری ہے ، یہی حدیث ابن جریر میں بھی ہے لیکن سند میں نکارت ہے ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت مریم علیہما السلام نماز میں اتنا لمبا قیام کرتی تھیں کہ دونوں ٹخنوں پر ورم آجاتا تھا ، قنوت سے مراد نماز میں لمبے لمبے رکوع کرنا ہے ، حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اس سے یہ مراد ہے کہ اپنے رب کی عبادت میں مشغول رہ اور رکوع سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جا ، حضرت اوزاعی فرماتے ہیں کہ مریم صدیقہ اپنے عبادت خانے میں اس قدر بکثرت باخشوع اور لمبی نمازیں پڑھا کرتی تھیں کہ دونوں پیروں میں زرد پانی اتر آیا ، رضی اللہ عنہما و رضاہا ۔ یہ اہم خبریں بیان کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان باتوں کا علم تمہیں صرف میری وحی سے ہوا ورنہ تمہیں کیا خبر؟ تم کچھ اس وقت ان کے پاس تھوڑے ہی موجود تھے جو ان واقعات کی خبر لوگوں کو پہنچاتے؟ لیکن اپنی وحی سے ہم نے ان واقعات کو اس طرح آپ پر کھول دیا گویا آپ اس وقت خود موجود تھے جبکہ حضرت مریم کی پرورش کے بارے میں ہر ایک دوسرے پر سبقت کرتا تھا سب کی چاہت تھی کہ اس دولت سے مالا مال ہو جاؤں اور یہ اجر مجھے مل جائے ، جب آپ کی والدہ صاحبہ آپ کو لے کر بیت المقدس کی مسجد سلیمانی میں تشریف لائیں اور وہاں کے خادموں سے جو حضرت موسیٰ کے بھائی اور حضرت ہارون کی نسل میں سے تھے کہا کہ میں انہیں اپنی نذر کے مطابق نام اللہ پر آزاد کر چکی ہوں تم اسے سنبھالو ، یہ ظاہر ہے کہ لڑکی ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ حیض کی حالت میں عورتیں مسجد میں نہیں آسکتیں اب تم جانو تمہارا کام ، میں تو اسے گھر واپس نہیں لے جا سکتی کیونکہ نام اللہ اسے نذر کر چکی ہوں ، حضرت عمران یہاں کے امام نماز تھے اور قربانیوں کے مہتمم تھے اور یہ ان کی صاحبزادی تھیں تو ہر ایک نے بڑی چاہت سے ان کے لئے ہاتھ پھیلا دئیے ادھر سے حضرت زکریا نے اپنا ایک حق اور جتایا کہ میں رشتہ میں بھی ان کا خالو ہوتا ہوں تو یہ لڑکی مجھ ہی کو ملنی چاہیے اور لوگ راضی نہ ہوئے آخر قرعہ ڈالا گیا اور قرعہ میں ان سب نے اپنی وہ قلمیں ڈالیں جن سے توراۃ لکھتے تھے ، تو قرعہ حضرت زکریا کے نام نکلا اور یہی اس سعادت سے مشرف ہوئے دوسری مفصل روایتوں میں یہ بھی ہے کہ نہر اردن پر جا کر یہ قلمیں ڈالی گئیں کہ پانی کے بہاؤ کے ساتھ جو قلم نکل جائے وہ نہیں اور جس کا قلم ٹھہر جائے وہ حضرت مریم کا کفیل بنے ، چنانچہ سب کی قلمیں تو پانی بہا کر لے گیا صرف حضرت زکریا کا قلم ٹھہر گیا بلکہ الٹا اوپر کو چڑھنے لگا تو ایک تو قرعے میں ان کا نام نکلا دوسرے قریب کے رشتہ داری تھے پھر یہ خود ان تمام کے سردار امام مالک نبی تھے صلوات اللہ وسلامہ علیہ پس انہی کو حضرت مریم سونپ دی گئیں ۔
42۔ 1 حضرت مریم (علیہا السلام) کا یہ شرف و فضل اپنے زمانے کے اعتبار سے ہے کیونکہ صحیح حدیث میں حضرت مریم (علیہا السلام) کے ساتھ حضرت خدیجہ کو بھی سب عورتوں میں بہتر کہا گیا ہے اور بعض احادیث میں چار عورتوں کو کامل قرار دیا گیا ہے حضرت مریم، حضرت آسیہ (فر عون کی بیوی) حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ (رض) کی بابت کہا گیا ہے کہ ان کی فضیلت دیگر عورتوں پر ایسے ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر فوقیت حاصل ہے۔ (ابن کثیر) اور ترمذی کی روایت میں حضرت فاطمہ (رض) بنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی فضیلت والی عورتوں میں شامل کیا گیا ہے۔ (ابن کثیر) اس کا یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ مذکورہ خواتین ان چند عورتوں میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے دیگر عورتوں پر فضیلت اور بزرگی عطا فرمائی یا یہ کہ اپنے اپنے زمانے میں فضیلت رکھتی ہیں۔ واللہ اعلم۔
اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ ۔۔ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے مریم [ کو چننے کا ذکر دو مرتبہ آیا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ محض تاکید کے لیے ہو، یا پہلے چننے سے مراد بچپن میں مریم [ کو شرف قبولیت بخشنا ہو، جو آیت : (فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ ) میں مذکور ہے اور دوسرے چننے سے مراد اللہ تعالیٰ کا انھیں عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے لیے منتخب فرمانا اور خصوصی فضیلت عطا کرنا ہو۔ - عَلٰي نِسَاۗءِ الْعٰلَمِيْنَ : سب جہانوں کی عورتوں سے مراد صرف اس زمانے کی عورتیں ہیں، کیونکہ احادیث میں مریم [ کی طرح خدیجہ، فاطمہ اور عائشہ کی فضیلت میں بھی اسی قسم کے الفاظ مذکور ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مردوں میں سے بہت سے لوگ کامل ہوئے ہیں لیکن عورتوں میں سے آسیہ زوجۂ فرعون اور مریم بنت عمران ہی کامل ہوئی ہیں اور عورتوں پر عائشہ (رض) کو اس طرح فضیلت حاصل ہے جس طرح ثرید کو باقی کھانوں پر فضیلت حاصل ہے۔ “ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء،- باب قول اللہ تعالیٰ : ( و ضرب اللہ مثلاً ۔۔ ) : ٣٤١١، عن أبی موسیٰ الأشعری (رض) ]- انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تمام جہانوں کی عورتوں میں تمہارے لیے مریم بنت عمران، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد اور آسیہ زوجۂ فرعون کافی ہیں۔ “ [ ترمذی، المناقب، باب فضل خدیجۃ : ٣٨٧٨ ]
خلاصہ تفسیر - (اور وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے) جبکہ فرشتوں نے ( حضرت مریم (علیہا السلام) سے) کہا اے مریم بلاشک اللہ تعالیٰ نے تم کو منتخب (یعنی مقبول) فرمایا ہے اور (تمام ناپسند یدہ افعال و اخلاق سے) پاک بنایا ہے اور (مقبول فرمانا کچھ ایک دو عورتوں کے اعتبار سے نہیں، بلکہ اس زمانہ کی) تمام جہان بھر کی بیبیوں کے مقابلہ میں منتخب فرمایا ہے (اور فرشتوں نے یہ بھی کہا کہ) اے مریم اطاعت کرتی رہو اپنے پروردگار کی اور سجدہ (یعنی نماز ادا) کیا کرو اور (نماز میں) رکوع (بھی) کیا کرو ان لوگوں کے ساتھ جو رکوع کرنے والے ہیں۔- معارف و مسائل - (واصطفک علی نساء العالمین) سے مراد اس زمانے میں تمام جہان کی عورتیں ہیں اس لئے حدیث میں سیدۃ نساء اھل الجنۃ فاطمۃ کا ارشاد اس کے منافی نہیں۔
وَاِذْ قَالَتِ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ يٰمَرْيَمُ اِنَّ اللہَ اصْطَفٰىكِ وَطَہَّرَكِ وَاصْطَفٰىكِ عَلٰي نِسَاۗءِ الْعٰلَمِيْنَ ٤٢- ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔- مریم - مریم : اسم أعجميّ ، اسم أمّ عيسى عليه السلام» .- اصْطِفَاءُ- : تناولُ صَفْوِ الشیءِ ، كما أنّ الاختیار : تناول خيره، والاجتباء : تناول جبایته .- واصْطِفَاءُ اللهِ بعضَ عباده قد يكون بإيجاده تعالیٰ إيّاه صَافِياً عن الشّوب الموجود في غيره، وقد يكون باختیاره وبحکمه وإن لم يتعرّ ذلک من الأوّل، قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ [ الحج 75] - الاصطفا ء - کے معنی صاف اور خالص چیز لے لینا کے ہیں جیسا کہ اختیار کے معنی بہتر چیز لے لینا آتے ہیں اور الا جتباء کے معنی جبایتہ یعنی عمدہ چیا منتخب کرلینا آتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا کسی بندہ کو چن لینا کبھی بطور ایجاد کے ہوتا ہے یعنی اسے ان اندرونی کثافتوں سے پاک وصاف پیدا کرتا ہے جو دوسروں میں پائی جاتی ہیں اور کبھی بطریق اختیار اور حکم کے ہوتا ہے گو یہ قسم پہلے معنی کے بغیر نہیں پائی جاتی ۔ قرآن میں ہے : اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ [ الحج 75] خدا فرشتوں اور انسانوں میں رسول منتخب کرلیتا ہے ۔ - طهر - والطَّهَارَةُ ضربان :- طَهَارَةُ جسمٍ ، وطَهَارَةُ نفسٍ ، وحمل عليهما عامّة الآیات . يقال : طَهَّرْتُهُ فَطَهُرَ ، وتَطَهَّرَ ، وَاطَّهَّرَ فهو طَاهِرٌ ومُتَطَهِّرٌ. قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] ، أي : استعملوا الماء، أو ما يقوم مقامه، قال : وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] ،- ( ط ھ ر ) طھرت - طہارت دو قسم پر ہے - ۔ طہارت جسمانی اور طہارت قلبی اور قرآن پاک میں جہاں کہیں طہارت کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں بالعموم دونوں قسم کی طہارت مراد ہے کہا جاتا ہے : ۔ طھرتہ فطھروتطھر واطھر فھو طاھر ومتطھر - میں نے اسے پاک کیا چناچہ وہ پاک ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو نہاکر پاک ہوجایا کرو ۔ یعنی یا جو چیز اس کے قائم مقام ہو اس کے ذریعہ طہارت کرلیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو ۔ - نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، - العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں
طہارت مومن یہ کہ نجاست کفر سے محفوظ ہے - قول باری ہے (واذقالت الملئکۃ یا مریم ان اللہ اصطفاک وطھرک واصطفاک علی نساء العالمین، اور جب فرشتوں نے کہا : اے مریم اللہ نے تجھے برگزیدہ کیا اور پاکیزگی عطاکی اور تمام دنیا کی عورتوں پر تجھ کو ترجیح دے کر اپنی خدمت کے لیے چن لیا) قول باری (واصطفاک) کے معنی یوں بیان کیئے گئے کہ اے مریم تجھے اللہ نے دنیا والوں کی تمام عورتوں پر فضیلت دے کر برگزیدہ بنادیا۔ حسن اور ابن جریج سے یہی تفسیر مروی ہے۔ ان دونوں کے علاوہ دوسرے مفسرین کا قول ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ مریم اللہ تعالیٰ نے دلادتمسیح کی جلیل القدرخصوصیت دے کر دنیا کی تمام عورتوں میں برگزیدہ بنادیا۔ حسن اور مجاہدکاقول ہے کہ ارشاد باری (وطھرک) کے معنی یہ ہیں کہ اللہ نے تجھے ایمان کی دولت دے کر کفر کی نجاست سے پاکیزگی عطاکی۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اس تفسیر کی گنجائش موجود ہے جس طرح کہ کافرپر اس کے کفر کی وجہ سے نجاست کے اسم کا اطلاق جائز ہے۔ قول باری ہے (انما المشرکون نجس، بیشک مشرکین نجس ہیں) یہاں کفر کی نجاست مراد ہے۔ اسی طرح قول باری (وطھرک) میں ایمان کی طہارت اور پاکیزگی مراد لی جاسکتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے۔ آپ نے فرمایا (المومن لیس نجبس مومن نجس نہیں ہوتا) اس سے آپکی مراد کفر کی نجاست ہے۔ اور یہ ارشاد اس قول باری کی طرح ہے (انمایرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا، اے اہل بیت نبی اللہ تعالیٰ تم سے آلودگی کو دور رکھنا اور تمھیں پوری طرح پاکیز گی عطاکرنا چاہتا ہے۔ ) یہاں ایمان اور طاعت کی پاکیز گی مراد ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ قول باری (وطھرک) سے مراد حیض اور نفاس وغیرہ کی آلود گیوں سے پاکیزگی ہے۔- فرشتوں نے حضرت مریم کی کس طرح تطہیر کی جبکہ وہ نبی نہیں تھیں اس لیے کہ ارشادباری ہے۔ (وماارسلنامن قبلک الارجالانوحی الیھم، اور آپ سے پہلے ہم صرف مردوں کو رسول بناکربھیجتے رہے جن کی طرف ہم وحی کرتے رہے) درج بالاسوال کے مختلف جوابات دیئے گئے ہیں۔ کسی کا قول یہ ہے کہ دراصل یہ حضرت زکریاعلیہ السلام کا معجزہ تھا۔ کچھ دوسروں کا یہ قول ہے کہ یہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی نبوت کی بنیادرکھنے کے طوپرہوا۔ جس طرح کہ ہمارے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ آپ کی بعثت سے پہلے بدلی کا سایہ فگن ہونا اور اس قسم کے دوسرے واقعات پیش آتے رہے۔
(٤٢) جس وقت جبریل امین (علیہ السلام) (اور فرشتوں نے) فرمایا، اے مریم اللہ تعالیٰ نے تمہیں اسلام اور عبادت کے لیے منتخب فرما لیا اور کفر وشرک اور تمام بری باتوں سے اور قتل وغیرہ سے پاک صاف فرما لیا اور تمام جہان بھر کی عورتوں کے مقابلہ میں تمہیں منتخب کرلیا۔
حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) کا قصہ بیان ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا ( علیہ السلام) کو شدید ضعیفی کی عمر میں ایک بانجھ اور بوڑھی عورت سے حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) جیسا بیٹا دے دیا۔ تو کیا یہ عام قانون کے مطابق ہے ؟ ظاہر ہے یہ بھی تو معجزہ تھا۔ اسی طرح اس سے ذرا بڑھ کر ایک معجزہ حضرت مسیح ( علیہ السلام) کی پیدائش ہے کہ انہیں بغیر باپ کے پیدا فرمادیا۔ اب اس کا ذکر آ رہا ہے۔