46۔ 1 حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے (گہوارے) میں گفتگو کرنے کا ذکر خود قرآن کریم کی سورة مریم میں موجود ہے اس کے علاوہ صحیح حدیث میں دو بچوں کا ذکر اور ہے ایک صاحب جریج اور ایک اسرائیلی عورت کا بچہ (صحیح بخاری) ادھیڑ عمر میں کلام کرنے کا مطلب بعض نے یہ بیان کیا ہے کہ جب وہ بڑے ہو کر وحی اور رسالت سے سرفراز کئے جائیں گے اور بعض نے کہا ہے کہ آپ کا قیامت کے قریب جب آسمان سے نزول جیسا کہ اہل سنت کا عقیدہ ہے جو صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے تو اس وقت جو وہ اسلام کی تبلیغ کریں گے وہ کلام مراد ہے۔ (تفسیر ابن کثیر و قرطبی)
[٤٧] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : گہوارہ میں تین بچوں کے سوا کسی بچہ نے بات نہیں کی۔ ان میں سے ایک عیسیٰ ابن مریم ہیں۔ دوسرے بنی اسرائیل سے جریج راہب جس پر حرامی بچہ کی نسبت تہمت لگائی تھی : اس نے بول کر اپنے اصلی باپ کا نام بتلا دیا۔ تیسرے وہ بچہ جس نے ماں کی چھاتی چھوڑ کر کہا تھا یا اللہ مجھے اس ظالم سوار کی طرح نہ کرنا۔ (بخاری، کتاب، الانبیائ، باب قول اللہ واذکر فی الکتاب مریم اذا نتبذت من اھلھا) - اور مہد (گود) میں کلام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بچہ ابھی گود میں ہو، شیر خوار ہو اور وہ کلام کرنے کی عمر کو نہ پہنچا ہو، نہ ہی ابھی اس نے کلام کرنا سیکھا ہو اور کھلا کا مطلب پختہ عمر ہے یعنی حضرت عیسیٰ نے مہد میں بھی ایسے ہی کلام کیا۔ جیسے پختہ عمر میں کیا یا دوسرے لوگ پختہ عمر میں کیا کرتے ہیں اور اس عمر میں ان کا کلام ایسا پر مغز اور معقول تھا جیسا کہ عام لوگ پختہ عمر میں کیا کرتے ہیں۔ اس وقت آپ نے کیا باتیں کیں۔ اس کی تفصیل سورة مریم میں آئے گی، سردست یہ بتلانا مقصود ہے کہ اس عمر میں آپ کے ایسے کلام سے لوگوں کو متنبہ کرنا مقصود تھا۔ وہ اللہ کی قدرت کاملہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں اور جو لوگ ان کی والدہ ماجدہ کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں وہ غلط کار ہیں۔ ان کی والدہ پاک دامن، صدیقہ اور راست باز ہیں۔ جو کچھ وہ کہتی ہیں وہ بالکل سچ اور حقیقت پر مبنی ہے۔- حضرت عیسیٰ کی اس خرق عادت پیدائش کے بارے میں تین مختلف الرائے گروہ پائے جاتے ہیں۔ پہلا فریق تو یہود ہیں جو حضرت عیسیٰ کی ایسی واضح نشانیاں دیکھنے کے باوجود انہیں معاذ اللہ ولدالحرام کہتے ہیں۔ حضرت مریم پر زنا کی تہمت لگائی اور ان کے ساتھ حضرت زکریا کو ملوث کیا۔ پھر آخر اپنی اسی بدظنی کی بنا پر انہیں قتل بھی کردیا۔- دوسرا گروہ نصاریٰ کا ہے جو کہتے ہیں کہ حضرت مریم کی منگنی ان کے چچا زاد بھائی یوسف نجار سے ہوئی تھی۔ مگر ابھی نکاح نہیں ہوا تھا کہ انہیں اللہ کی قدرت سے حضرت عیسیٰ کا حمل ٹھہر گیا جب یوسف کو اس صورت حال کا علم ہوا تو اس نے یہ منگنی توڑ دینا چاہی، مگر خواب میں اسے ایک فرشتہ ملا جس نے بتلایا کہ مریم پاک باز عورت اور ہر طرح کے الزامات سے بری ہے۔ اسے حمل اللہ کی قدرت سے ہوا ہے۔ لہذا تم ایسی پاک باز اور پاکی زہ سیرت عورت کو ہرگز نہ چھوڑنا چناچہ یوسف نے اپنی رائے بدل دی۔ پھر اس کے بعد اس نے یوسف سے شادی کی۔ اور اولاد بھی ہوئی۔ یہ فریق اپنے بیان کے مطابق مختلف اناجیل سے حوالے بھی پیش کرتا ہے۔- تیسرا گروہ منکرین معجزات کا ہے جو حضرت عیسیٰ کی بن باپ پیدائش کے قائل نہیں لیکن وہ تاویل ایسی پیش کرتے ہیں جس کا ثبوت نہ کتاب و سنت سے مل سکتا ہے نہ اناجیل سے اور نہ کسی دوسری کتاب سے، اور وہ تاویل یہ ہے کہ حضرت مریم کی یوسف نجار سے منگنی نہیں بلکہ نکاح ہوچکا تھا۔ مگر ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ یوسف مریم کے پاس یا مریم یوسف کے پاس گئی۔ اور ان کے باہمی ملاپ سے حمل ٹھہرا اور یہ ایسا بیان ہے جو حضرت مریم کی اس قرآنی صراحت ( وَلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ) کے صریحاً خلاف ہے۔ رہی یہ بات کہ اگر معاملہ یہی تھا تو یہود نے حضرت مریم کو لعن طعن کس بات پر کی تھی ؟ تو اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ یہود میں رخصتی سے پہلے میاں بیوی کی مباشرت شدید جرم سمجھا جاتا تھا، خواہ نکاح ہوچکا ہو، اور اسی جرم کی بنا پر یہود نے لعن طعن کی تھی۔ حالانکہ یہ بات بھی قرآنی تصریحات کے بالکل برعکس ہے۔ نیز ان کے نظریہ کو بھی کسی کتاب کے حوالہ سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو قرآن سے رہنمائی حاصل کرنے کے بجائے قرآن میں اپنے نظریات کو بہ تکلف داخل کرنا چاہتے ہیں خواہ اس سے قرآن کی کتنی ہی آیات کا انکار لازم آتا ہو۔
خلاصہ تفسیر - حضرت مریم (علیہا السلام) بولیں اے میرے پروردگار کس طرح ہوگا میرے بچہ حالانکہ مجھ کو کسی بشر نے (صحبت کے طور پر) ہاتھ نہیں لگایا ( اور کوئی بچہ جائز طریق سے عادۃ بدون مرد کے پیدا نہیں ہوتا، تو معلوم نہیں کہ ویسے ہی محض قدرت خداوندی سے بچہ ہوگا یا مجھ کو نکاح کا حکم کیا جائے گا) اللہ تعالیٰ نے (جواب میں فرشتے کے واسطے سے) فرمایا ایسے ہی (بلا مرد کے) ہوگا (کیونکہ) اللہ تعالیٰ جو چاہیں پیدا کردیتے ہیں ( یعنی کسی چیز کے پیدا ہونے کے لئے صرف ان کا چاہنا کافی ہے، کسی واسطہ یا سبب خاص کی ان کو حاجت نہیں، اور ان کے چاہنے کا طریقہ یہ ہے کہ) جب کسی چیز کو پورا کرنا چاہتے ہیں تو اس کو کہہ دیتے ہیں کہ (موجود) ہوجا، بس وہ چیز (موجود) ہوجاتی ہے ( پس جس چیز کو بلا اسباب و وسائط موجود ہونے کو کہہ دیا وہ اسی طرح ہوجاتی ہے ) ۔
وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَہْدِ وَكَہْلًا وَّمِنَ الصّٰلِحِيْنَ ٤٦- كلم - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها،- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔- مهد - المَهْدُ : ما يُهَيَّأُ للصَّبيِّ. قال تعالی: كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم 29] والمَهْد والمِهَاد : المکان المُمَهَّد الموطَّأ . قال تعالی: الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه 53] ، ومِهاداً [ النبأ 6] - م ھ د ) المھد - ۔ گہوارہ جو بچے کے لئے تیار کیا جائے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم 29] کہ ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے ۔ کیونکہ بات کریں ۔ اور ۔ اور المھد والمھاد ہموار اور درست کی ہوئی زمین کو بھی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه 53] وہ ( وہی تو ہے ) جس نے تم لوگوں کے لئے زمین کو فرش بنایا ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه 53] کہ ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا : - كهل - الْكَهْلُ : من وَخَطَهُ الشَّيْبُ ، قال : وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِينَ- [ آل عمران 46] واكْتَهَلَ النّباتُ : إذا شارف الیبوسة مشارفة الْكَهْلِ الشّيبَ ، قال :- مؤزّر بهشيم النّبت مُكْتَهِلٌ ( ک ہ ل ) الکھل ۔ اوھیڑ عمر آدمی جس کے بال سفید ہوگئے ہوں ۔ قرآن میں ہے : وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِينَ [ آل اور ماں کی گود میں اور بڑی عمر کا ہوکر لوگوں سے گفتگو کرے گا اور نیکو کاروں میں ہوگا ۔ اکتھل النبات پودے کا حد پیوست یعنی بڑھنے کی آخری حد کو پہنچ جانا ۔ جیسا کہ ادھیڑ عمر آدمی بڑھاپے کی حد کو پہنچ جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( بسیط) (386) موزر یھشم النبت مکتھل اس کی گھاس آخری حدتک بڑھی ہوئی ہے اور اس نے اپنے گردا گر د دوسرے پودوں کی چادر پہن رکھی ہے ۔- صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔
(٤٦) اور وہ گہوارہ (ماں کی گود) میں بھی جب کہ وہ چالیس دن کے ہوں گے تب بھی اور پھر نبوت ملنے کے بعد ایک ہی جیسا کلام کریں گے۔
آیت ٤٦ (وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْْمَہْدِ وَکَہْلاً ) - کہولت چالیس برس کے بعد آتی ہے اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کا رفع سماوی ٣٣ برس کی عمر میں ہوگیا تھا۔ گویا اس آیت کا تقاضا ابھی پورا نہیں ہوا ہے۔ اور اس سے اندازہ کر لیجیے کہ یہ بات کہنے کی ضرورت کیا تھی ؟ پوری عمر کو پہنچ کر تو سبھی بولتے ہیں ‘ یہاں اس کا اشارہ کیوں کیا گیا ؟ اس لیے تاکہ ہمیں معلوم ہوجائے کہ حضرت مسیح ( علیہ السلام) پر موت ابھی وارد نہیں ہوئی ‘ بلکہ وہ واپس آئیں گے ‘ دنیا میں دوبارہ اتریں گے ‘ پھر ان کی کہولت کی عمر بھی ہوگی۔ وہ شادی بھی کریں گے ‘ ان کی اولاد بھی ہوگی اور ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نظام خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کو پوری دنیا میں قائم کرے گا۔
19: اﷲ تعالیٰ نے حضرت مریم علیہا السلام کی پاک دامنی واضح کرنے کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو معجزے کے طور پر اس وقت بات کرنے کی قدرت عطا فرمائی تھی جب دُودھ پیتے بچے تھے۔ اس کا ذکر سورۂ مریم (آیت ۹۲ تا ۳۳) میں آیا ہے۔