مسیح ابن مریم علیہ السلام یہ خوشخبری حضرت مریم کو فرشتے سنا رہے ہیں کہ ان سے ایک لڑکا ہو گا جو بڑی شان والا اور صرف اللہ کے کلمہ کن کے کہنے سے ہوگا یہی تفسیر اللہ تعالیٰ کے فرمان آیت ( مُصَدِّقًۢـا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَسَيِّدًا وَّحَصُوْرًا وَّنَبِيًّا مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران:39 ) کی بھی ہے ، جیسے کہ جمہور نے ذکر کیا اور جس کا بیان اس سے پہلے گذر چکا ، اس کا نام مسیح ہو گا ، عیسیٰ بیٹا مریم علیہ السلام کا ، ہر مومن اسے اسی نام سے پہچانے گا ، مسیح نام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ زمین میں وہ بکثرت سیاحت کریں گے ، ماں کی طرف منسوب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کا باپ کوئی نہ تھا ۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ دونوں جہان میں برگزیدہ ہیں اور مقربان خاص میں سے ہیں ، ان پر اللہ عزوجل کی شریعت اور کتاب اترے گی اور بڑی بڑی مہربانیاں٠ ان پر دنیا میں نازل ہوں گی اور آخرت میں بھی اور اولوالعزم پیغمبروں کی طرح اللہ کے حکم سے جس کے لئے اللہ چاہے گا وہ شفاعت کریں گے جو قبول ہو جائیں گی صلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلیھم اجمعین وہ اپنے جھولے میں اور ادھیڑ عمر میں باتیں کریں گے یعنی اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کی لوگوں کو بچنے ہی میں دعوت دیں گے جو ان کا معجزہ ہو گا اور بڑی عمر میں بھی جب اللہ ان کی طرف وحی کرے گا ، وہ اپنے قول و فعل میں علم صحیح رکھنے والے اور عمل صالح کرنے والے ہوں گے ، ایک حدیث میں ہے کہ بچپن میں کلام صرف حضرت عیسیٰ اور جریج کے ساتھی نے کیا اور ان کے علاوہ حدیث میں ایک اور بچے کا کلام کرنا بھی مروی ہے تو یہ تین ہوئے حضرت مریم اس بشارت کو سن کر اپنی مناجات میں کہنے لگیں اللہ مجھے بچہ کیسے ہو گا ؟ میں نے تو نکاح نہیں کیا اور نہ میرا ارادہ نکاح کرنے کا ہے اور نہ میں ایسی بدکار عورت ہوں ماشاء اللہ ، اللہ عزوجل کی طرف سے فرشتے نے جواب میں کہا کہ اللہ کا امر بہت بڑا ہے اسے کوئی چیز عاجز نہیں کر سکتی وہ جو چاہے پیدا کر دے ، اس نکتے کو خیال میں رکھنا چاہئے کہ حضرت زکریا کے اس سوال کے جواب میں اس جگہ لفظ یفعل تھا یہاں لفظ یخلق ہے یعنی پیدا کرتا ہے ۔ اس لئے کہ کسی باطل پرست کو کسی شبہ کا موقع باقی نہ رہے اور صاف لفظوں میں حضرت عیسیٰ کا اللہ جل شانہ کی مخلوق ہونا معلوم ہو جائے ۔ پھر اس کی مزید تاکید کی اور فرمایا وہ جس کسی کام کو جب کبھی کرنا چاہتا ہے تو صرف اتنا فرما دیتا ہے کہ ہو جا ، بس وہ وہیں ہو جاتا ہے اس کے حکم کے بعد ڈھیل اور دیر نہیں لگتی ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍۢ بِالْبَصَرِ ) 54 ۔ القمر:50 ) یعنی ہمارے صرف ایک مرتبہ کے حکم سے ہی بلاتاخیر فی الفور آنکھ جھپکتے ہی وہ کام ہو جاتا ہے ہمیں دوبارہ اسے کہنا نہیں پڑتا ۔
45۔ 1 حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کلمہ یعنی کلمۃ اللہ اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ ان کی ولادت اعجازی شان کی مظہر اور عام انسانی اصول کے برعکس باپ کے بغیر ہوئی اور اللہ کی خاص قدرت اس کے کلمہ کن کی تخلیق ہے۔ 45۔ 2 مسیح مسح سے ہے یعنی کثرت سے زمین کی سیاحت کرنے والا یا اس کے معنی ہاتھ پھیرنے والا ہے کیونکہ آپ ہاتھ پھیر کر مریضوں کو باذن اللہ شفایاب فرماتے تھے ان دونوں معنوں کے اعتبار سے فعیلْ بمعنی فاعل ہے اور قیامت کے قریب ظاہر ہونے والے دجال کو جو مسیح کہا جاتا ہے یا تو بمعنی مفعول (یعنی اس کی ایک آنکھ کانی ہوگی) کے اعتبار سے ہے یا وہ بھی چونکہ کثرت سے دنیا میں پھرے گا اور مکہ اور مدینہ کے سوا ہر جگہ پہنچے گا (بخاری مسلم) اور بعض روایات میں بیت المقدس کا بھی ذکر ہے اس لیے اسے بھی المسیح الدجال کہا جاتا ہے۔ عام اہل تفسیر نے عموماً یہی بات درج کی ہے۔ کچھ اور محققین کہتے ہیں کہ مسیح یہود و نصاری کی اصطلاح میں بڑے مامور من اللہ پیغمبر کو کہتے ہیں یعنی ان کی یہ اصطلاح تقریبا اولوالعزم پیغمبر کے ہم معنی ہے دجال کو مسیح اس لیے کہا گیا ہے کہ یہود کو جس انقلاب آفریں مسیح کی بشارت دی گئی ہے اور جس کے وہ غلط طور پر اب بھی منتظر ہیں دجال اسی مسیح کے نام پر آئے گا یعنی اپنے آپ کو وہی مسیح قرار دے گا مگر وہ اپنے اس دعوی سمیت تمام دعو وں میں دجل و فریب کا اتنا بڑا پیکر ہوگا کہ اولین و آخرین میں اس کی کوئی مثال نہ ہوگی اس لیے وہ الدجال کہلائے گا۔ اور عیسیٰ عجمی زبان کا لفظ ہے۔ بعض کے نزدیک یہ عربی ہے اور عاس یعوس سے مشتق ہے جس کے معنی سیاست و قیادت کے ہیں۔ (قرطبی و فتح القدیر)
[٤٦] یہ فرشتوں کا حضرت مریم سے دوسرا مکالمہ ہے اور یہیں سے حضرت عیسیٰ کے بن باپ پیدا ہونے کے بیان کا آغاز ہوتا ہے۔ اس سے پیشتر جو حضرت یحییٰ کی خرق عادت پیدائش کا ذکر ہوا تو وہ بطور تمہید تھا۔ اس واقعہ میں اسباب موجود تھے اور وہ واقعہ خرق عادت صرف اس لحاظ سے تھا کہ ان اسباب کی قوت کار مفقود ہوچکی تھی اور اللہ تعالیٰ نے از سر نو قوت کار پیدا کردی۔ مگر حضرت عیسیٰ کی پیدائش اس سے بڑھ کر خرق عادت امر ہے۔ کیونکہ یہاں باپ کا وجود ہی نہیں۔ اس مکالمہ میں جب فرشتوں نے حضرت مریم کو ان کے بیٹے مسیح عیسیٰ ابن مریم کی پیدائش کی خوشخبری دی اور اس کے اوصاف بتلائے تو وہ یکدم چونک اٹھیں کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ جب کہ کسی مرد نے مجھے چھوا تک نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ چاہے اور جیسے چاہے پیدا کرسکتا ہے۔ اسے سبب کے بغیر بھی کوئی چیز پیدا کرنے پر پوری پوری قدرت حاصل ہے اور فرشتوں نے جو اوصاف حضرت مریم کو بتلائے وہ یہ تھے۔- (١) وہ لڑکا اللہ تعالیٰ کے کلمہ کن سے بن باپ پیدا ہوگا ( ، ٢) اس کا پورا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا۔ مسیح آپ کا لقب ہے اور اس کی دو توجیہات بیان کی گئیں۔ ایک یہ کہ ہیکل سلیمان میں یہ دستور تھا کہ جس شخص کو وہ بزرگ اور پاکباز سمجھتے تھے تو اسے کاہن زیتون کے تیل سے مسح کردیتے اور اس کے جسم پر مل دیتے تھے۔ اس لحاظ سے بھی آپ مسیح مشہور ہوئے اور دوسری وجہ یہ تھی کہ آپ نے عمر بھر سفر و سیاحت میں گزار کر رسالت کا فریضہ سرانجام دیا۔ اس لحاظ سے بھی آپ مسیح کہلائے اور عیسیٰ آپ کا اصل نام ہے اور ابن مریم آپ کی کنیت ہی نہیں بلکہ آپ کا یہی نسب ہے۔ چونکہ آپ بن باپ کے پیدا ہوئے تھے۔ لہذا آپ کو ماں کی طرف منسوب کیا گیا اور یہ آپ کے بن باپ پیدا ہونے پر سب سے بڑی دلیل ہے۔ کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس انداز سے کسی مرد یا عورت کا نسب بیان نہیں فرمایا جبکہ عیسیٰ کے ساتھ بیسیوں مقامات پر ابن مریم کا بھی ذکر آیا ہے، (٣) تیسری صفت یہ ہے کہ وہ دنیا و آخرت دونوں جگہ ( وجیہ) یا بارعب شخصیت ہوگی۔ وجیہہ وہ شخص ہوتا ہے جس کے رعب اور وقار کی وجہ سے کوئی شخص رو در رو اسے کوئی طعنہ نہ دے سکے۔ چناچہ یہود آپ کو آگے پیچھے معاذ اللہ ولدالحرام کہتے تھے۔ مگر منہ پر ایسا کہنے کی ہرگز جراءت یا جسارت نہیں کرتے تھے۔ (٤) چوتھی صفت یہ ہے کہ وہ دنیا میں بھی اللہ کے مقرب بندوں سے ہوگا اور آخرت میں بھی۔ اور پانچویں صفت شیر خوارگی کے ایام میں پختہ کلام کرنا اور چھٹی صفت اس کا صالح ہونا ہے جس کا ذکر اگلی آیت میں مذکور ہے۔ یہ تھیں وہ صفات جن کا ذکر حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے پیشتر ہی فرشتوں نے حضرت مریم سے کردیا تھا۔- اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ کی پیدائش کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا (كَذٰلِكَ اللّٰهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاۗءُ 40) 3 ۔ آل عمران :40) اور حضرت عیسیٰ کی پیدائش کا ذکر کرنے کے بعد (كَذٰلِكِ اللّٰهُ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ 47) 3 ۔ آل عمران :47) جو اس بات پر واضح دلیل ہے کہ عیسیٰ علیہ اسلام کی پیدائش بن باپ ہوئی تھی اور یہ معجزہ حضرت یحییٰ کی پیدائش کے معجزہ سے بہت بڑا تھا اور اس کا تفصیلی ذکر آگے سورة ئمریم میں آرہا ہے۔
اِذْ قَالَتِ الْمَلٰۗىِٕكَةُ يٰمَرْيَمُ : اس آیت میں عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک کلمہ قرار دیا گیا ہے، اس کی وضاحت آیت (٣٨) کے فوائد میں گزر چکی ہے۔ فرشتوں نے مریم [ سے بالمشافہہ یہ بات کی، جیسا کہ سورة مریم (١٧) میں ہے کہ جبریل (علیہ السلام) انسانی شکل میں ان سے ہم کلام ہوئے۔ - ” الْمَسِيْحُ “ لفظ ” مَسَحَ “ سے مشتق ہے، جس کے معنی ہاتھ پھیرنے یا زمین کی مساحت کے ہیں۔ لہٰذا عیسیٰ (علیہ السلام) کو مسیح یا تو اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ بیماروں اور کوڑھیوں پر ہاتھ پھیرتے تھے اور وہ تندرست ہوجاتے تھے، یا اس بنا پر کہ آپ ہر وقت زمین میں سفر کرتے رہتے تھے۔ ( ابن کثیر)- یہاں مسیح (علیہ السلام) کے چار اوصاف بیان ہوئے ہیں : 1 ” وَجِيْهًا “ یعنی بہت وجاہت والا ہوگا۔ چہرہ آدمی کی ذات کا آئینہ ہوتا ہے، اس لیے اونچے مرتبے کو وجاہت کہتے ہیں۔ 2 مقرب لوگوں میں سے ہوگا۔ 3 گہوارے اور ادھیڑ عمر میں یکساں حکیمانہ کلام کرے گا۔ گہوارے میں ان کا کلام سورة مریم (٣٠ تا ٣٣) میں نقل ہوا ہے اور ادھیڑ عمر میں کلام کرنے میں ان کے دوبارہ اترنے کی طر ف بھی اشارہ ہے۔ 4 صالحین سے ہوگا۔ صالح وہ ہے جس کے سارے کام درست ہوں، اس لیے سلیمان (علیہ السلام) جیسے جلیل القدر پیغمبر نے صالح بندوں میں داخل کیے جانے کی دعا کی۔ دیکھیے سورة یوسف (١٠١) اور سورة نمل (١٩)
خلاصہ تفسیر :- (اس وقت کو یاد کرو) جبکہ فرشتوں نے ( حضرت مریم (علیہا السلام) سے یہ بھی) کہا کہ اے مریم بیشک اللہ تعالیٰ تم کو بشارت دیتے ہیں ایک کلمہ کی جو منجانب اللہ ہوگا ( یعنی ایک بچہ پیدا ہونے کی جو بلا واسطہ باپ کے پیدا ہونے کے سبب کلمۃ اللہ کہلاوے گا) اس کا نام (و لقب) مسیح عیسیٰ بن مریم ہوگا (ان کے یہ حالات ہوں گے کہ) باآبرو ہوں گے ( اللہ تعالیٰ کے نزدیک) دنیا میں (بھی کہ ان کو نبوت عطا ہوگی) اور آخرت میں ( بھی کہ اپنی امت کے مومنین کے باب میں مقبول الشفاعت ہوں گے) اور (جیسے ان میں نبوت و شفاعت کی صفت ہوگی جس کا تعلق دوسروں سے بھی ہے، اسی طرح ذاتی کمال کے ساتھ بھی موصوف ہوں گے) منجملہ مقربین (عنداللہ) ہوں گے اور (صاحب معجزہ بھی ہوں گے) آدمیوں سے ( دونوں حالت میں یکساں) کلام کریں گے، گہوارہ میں (یعنی بالکل بچپن میں بھی) اور بڑی عمر میں (بھی دونوں کلاموں میں تفاوت نہ ہوگا) اور (اعلی درجہ کے) شائستہ لوگوں میں سے ہوں گے۔- معارف و مسائل :- نزول عیسیٰ (علیہ السلام) کی ایک دلیل بڑی عمر میں بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا کلام معجزہ ہی ہے : - اس آیت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ایک صفت یہ بھی بتلائی ہے کہ وہ بچپن کے گہوارے میں جب کوئی کلام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اس حالت میں بھی کلام کریں گے، جیسا دوسری آیت میں مذکور ہے کہ جب لوگوں نے ابتدا ولادت کے بعد حضرت مریم (علیہا السلام) پر تہمت کی بنا پر لعن طعن کیا تو یہ نو مولود بچے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بول اٹھے۔ (انی عبداللہ۔ ١٩: ٣) الخ۔ اور اور اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ جب وہ کہل یعنی ادھیڑ عمر کے ہوں گے، اس وقت بھی لوگوں سے کلام کریں گے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ بچپن کی حالت میں کلام کرنا تو ایک معجزہ اور نشانی تھی اس کا ذکر تو اس جگہ کرنا مناسب ہے مگر ادھیڑ عمر میں لوگوں سے کلام کرنا تو ایک ایسی چیز ہے جو ہر سنان مومن، کافر، عالم، جاہل کیا ہی کرتا ہے۔ یہاں اس کو بطور وصف خاص ذکر کرنے کے کیا معنی ہوسکتے ہیں ؟ - اس سوال کا ایک جواب تو وہ ہے جو بیان القرآن کے خلاصہ تفسیر سے سمجھ میں آیا، کہ مقصد اصل میں حالت بچپن ہی کے کلام کا بیان کرنا ہے، اس کے ساتھ بڑی عمر کے کلام کا ذکر اس غرض سے کیا گیا کہ ان کا بچپن کا کلام بھی ایسا نہیں ہوگا جیسے بچے ابتدا میں بولا کرتے ہیں بلکہ عاقلانہ، عالمانہ، فصیح وبلیغ کلام ہوگا۔ جیسے ادھیڑ عمر کے آدمی کیا کرتے ہیں، اور اگر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ اور اس کی پوری تاریخ پر غور کیا جائے تو اس جگہ ادھیڑ عمر میں کلام کرنے کا تذکرہ ایک مستقل عظیم فائدہ کے لئے ہوجاتا ہے، وہ یہ ہے کہ اسلامی اور قرآنی عقیدہ کے مطابق حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا ہے۔- روایات سے یہ ثابت ہے کہ ان کو اٹھانے کے وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عمر تقریبا تیس پینتیس (حاشیہ 1) سال کے درمیان تھی جو عین عنفوان شباب کا زمانہ تھا، ادھیڑ عمر جس کو عربی میں کہل کہتے ہیں وہ اس دنیا میں ان کی ہوئی ہی نہ تھی۔ اس لئے ادھیڑ عمر میں لوگوں سے کلام جب ہی ہوسکتا ہے جبکہ وہ پھر دنیا میں تشریف لائیں، اس لئے جس طرح ان کا بچپن کا کلام معجزہ تھا اسی طرح ادھیڑ عمر کا کلام بھی معجزہ ہی ہے۔- (حاشیہ 1) دیکھئے تفسیر قرطبی جلد ٢ صفحہ ٩١۔ لیکن محقق علماء کرام کی ایک تعداد کی رائے یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اٹھائے جانے کے وقت ان کی عمر اسی سال تھی۔ ملاحظہ فرمائیے۔ الجواب الفصیح از مولانا بدر عالم میرٹھی (رح)۔ محمد تقی عثمانی۔ ١٤ ٤ ١٤٢٦ ھ)
اِذْ قَالَتِ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ يٰمَرْيَمُ اِنَّ اللہَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَۃٍ مِّنْہُ ٠ ۤۖ اسْمُہُ الْمَسِيْحُ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيْہًا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ ٤٥ ۙ- اسْمُ- والِاسْمُ : ما يعرف به ذات الشیء، وأصله سِمْوٌ ، بدلالة قولهم : أسماء وسُمَيٌّ ، وأصله من السُّمُوِّ وهو الذي به رفع ذکر الْمُسَمَّى فيعرف به، قال اللہ : بِسْمِ اللَّهِ [ الفاتحة 1] ، وقال : ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] ، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] ، أي : لألفاظ والمعاني مفرداتها ومرکّباتها .- وبیان ذلک أنّ الاسم يستعمل علی ضربین :- أحدهما : بحسب الوضع الاصطلاحيّ ، وذلک هو في المخبر عنه نحو : رجل وفرس .- والثاني : بحسب الوضع الأوّليّ.- ويقال ذلک للأنواع الثلاثة المخبر عنه، والخبر عنه، والرّابط بينهما المسمّى بالحرف، وهذا هو المراد بالآية، لأنّ آدم عليه السلام کما علم الاسم علم الفعل، والحرف، ولا يعرف الإنسان الاسم فيكون عارفا لمسمّاه إذا عرض عليه المسمّى، إلا إذا عرف ذاته . ألا تری أنّا لو علمنا أَسَامِيَ أشياء بالهنديّة، أو بالرّوميّة، ولم نعرف صورة ما له تلک الأسماء لم نعرف الْمُسَمَّيَاتِ إذا شاهدناها بمعرفتنا الأسماء المجرّدة، بل کنّا عارفین بأصوات مجرّدة، فثبت أنّ معرفة الأسماء لا تحصل إلا بمعرفة المسمّى، و حصول صورته في الضّمير، فإذا المراد بقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] ، الأنواع الثلاثة من الکلام وصور المسمّيات في ذواتها، وقوله : ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] ، فمعناه أنّ الأسماء التي تذکرونها ليس لها مسمّيات، وإنما هي أسماء علی غير مسمّى إذ کان حقیقة ما يعتقدون في الأصنام بحسب تلک الأسماء غير موجود فيها، وقوله : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] ، فلیس المراد أن يذکروا أساميها نحو اللّات والعزّى، وإنما المعنی إظهار تحقیق ما تدعونه إلها، وأنه هل يوجد معاني تلک الأسماء فيها، ولهذا قال بعده : أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ، وقوله : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] ، أي : البرکة والنّعمة الفائضة في صفاته إذا اعتبرت، وذلک نحو : الكريم والعلیم والباري، والرّحمن الرّحيم، وقال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ، وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] ، وقوله : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا - [ مریم 7] ، لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى- [ النجم 27] ، أي : يقولون للملائكة بنات الله، وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا - [ مریم 65] أي : نظیرا له يستحقّ اسمه، وموصوفا يستحقّ صفته علی التّحقیق، ولیس المعنی هل تجد من يتسمّى باسمه إذ کان کثير من أسمائه قد يطلق علی غيره، لکن ليس معناه إذا استعمل فيه كما کان معناه إذا استعمل في غيره .- الاسم - کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے ۔ یہ اصل میں سمو ہے کیونکہ اس کی جمع اسماء اور تصغیر سمی آتی ہے ۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] اور ( نوح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ خدا کا نام لے کر ( کہ اس کے ہاتھ میں ) اس کا چلنا ( ہے ) سوار ہوجاؤ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے ) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ اور آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] اور اس آدم کو سب ( چیزوں کے ) نام سکھائے ۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں ۔ خواہ مفردہوں خواہ مرکب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔ کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ ایک اصطلاحی معنی میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے ۔ جیسے رجل وفرس دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے ( کلمہ کی ) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ ( اسم ) خبر اور رابطہ ( حرف ) تینوں پر اس معنی مراد ہیں ۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اسی طرح افعال وحروف کا علم بھی نہیں حاصل ہوگیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا ہے مثلا اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے ۔ بلکہ ہمار علم انہیں چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمی ٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ لہذا آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] میں اسماء سے کلام کی انواع ثلاثہ اور صورۃ مسمیات بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں ک جن اسماء کی تم پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں ۔ کیونکہ و اصنام ان اوصاف سے عاری تھے ۔ جن کا کہ وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے ۔ اور آیت : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ۔ ان سے کہو کہ ( ذرا ) انکے نام تولو ۔ میں سموھم سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات ، عزی وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنی پر ہیں کہ جن کو تم الاۃ ( معبود ) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو ( یعنی نہیں ) اسی لئے اس کے بعد فرمایا أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ( کہ ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں ( کہیں بھی ) معلوم نہیں کرتا یا ( محض ) ظاہری ( باطل اور جھوٹی ) بات کی ( تقلید کرتے ہو ۔ ) اور آیت : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] تمہارے پروردگار ۔۔ کا نام برا بابر کت ہے ۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنی یہ ہیں ک اس کی صفات ۔ الکریم ۔ العلیم ۔ الباری ۔ الرحمن الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیسا ک دوسری جگہ فرمایا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ۔ وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں ۔ اور آیت : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[ مریم 7] اسمہ یحیٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا َ (719) جس کا نام یحیٰ ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا ۔ میں سمیا کے معنی ہم نام ، ، کے ہیں اور آیت :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہوا اور حقیقتا اللہ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کیا تم کسی بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہوکیون کہ ایسے تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معافی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں ۔ اور آیت : لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى[ النجم 27] اور وہ فرشتوں کو ( خدا کی ) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنی یہ ہیں ۔ کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے ہیں ۔- عيسی - عِيسَى اسم علم، وإذا جعل عربيّا أمكن أن يكون من قولهم : بعیر أَعْيَسُ ، وناقة عَيْسَاءُ ، وجمعها عِيسٌ ، وهي إبل بيض يعتري بياضها ظلمة، أو من الْعَيْسِ وهو ماء الفحل يقال : عَاسَهَا يَعِيسُهَا - ( ع ی س ) یہ ایک پیغمبر کا نام اور اسم علم ہے اگر یہ لفظ عربی الاصل مان لیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ یہ اس عیس سے ماخوذ ہو جو کہ اعیس کی جمع ہے اور اس کی مؤنث عیساء ہے اور عیس کے معنی ہیں سفید اونٹ جن کی سفیدی میں قدرے سیاہی کی آمیزش ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے عیس سے مشتق ہو جس کے معنی سانڈ کے مادہ منو یہ کے ہیں اور بعیر اعیس وناقۃ عیساء جمع عیس اور عاسھا یعسھا کے معنی ہیں نر کا مادہ سے جفتی کھانا ۔- وَجِيهاً- وفلان وجِيهٌ: ذو جاه . قال تعالی: وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ [ آل عمران 45] وأحمق ما يتوجّه به : كناية عن الجهل بالتّفرّط، وأحمق ما يتوجّه بفتح الیاء وحذف به عنه، أي : لا يستقیم في أمر من الأمور لحمقه، والتّوجيه في الشّعر : الحرف الذي بين ألف التأسيس وحرف الرّويّ - فلان وجہ القوم کے معنی رئیس قوم کے ہیں جیسا کہ قوم کے رئیس اور سردارکو را وجیہ اوذوجاہ فلاں صاحب وجاہت ہے قرآن میں ہے ۔ وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ [ آل عمران 45] اور جو دینا اور آخرت میں با آبر و ہوگا ۔ ایک محاورہ ہے ۔ احمق مایتوجہ بہ یعنی وہ انتہائی درجہ کا احمق ہے اور کبھی بہ کو حذف کرکے بھی بولتے ہیں ۔ اور مطلب یہ ہے کہ حماقت کی وجہ سے وہ کوئی کام بھی صحیح طور پر نہیں کرسکتا ۔ التوجیہ علم عروض میں اس حرف کو کہتے ہیں جو ایف تاسیس اور حرف روی کے درمیان ہو ۔- دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] - دنا - ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی - قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] ، - ( ق ر ب ) القرب - القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔
قاصدمالک کی طرف سے بشارت دے سکتا ہے - قول باری ہے (واذقالت الملئکۃ یا مریم ان اللہ یبشرک بکلمۃ منہ اسمہ المسیح، اور جب فرشتوں نے کہا، اے مریم اللہ تجھے اپنے ایک فرمان کی بشارت دیتا ہے۔ اس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہوگا) بشارت ایک خاص وصف والی خبرکوکہتے ہیں۔ اصل کے لحاظ سے ہر خوش کن بات کو بشارت کہتے ہیں۔ اس لیے کہ بشارت کی وجہ سے چہرے پر سرور کے آثارپیدا ہوجاتے ہیں۔ اور بشرہ ادھوڑی یعنی چہرے کی ظاہری جلدکوکہتے ہیں۔ فرشتوں نے بشارت کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کردی اگرچہ فرشتے ان سے مخاطب تھے لیکن بشارت دینے والا اللہ تعالیٰ تھا اس لیے اس کی نسبت اللہ کی طرف کی گئی۔ اسی بناپر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں اگر فلاں کو فلاں کی آمد کی خوشخبری دوں تو میراغلام آزادی ہے۔ اس کے بعد وہ شخص آجائے اور یہ قسم کھانے والا اس فلاں کی طرف قاصد بھیج کر اس دوسرے کی آمد کی اطلاع دے قاصد اس سے جاکریہ کہے کہ فلاں شخص نے تجھے پیغام بھیجا ہے کہ اس فلاں کی آمدہوگئی ہے تو اس میں قسم کھانے والا حانث ہوجائے گا اور اسے غلام آزادکرناپڑے گا۔ اس لیئے اس صورت میں قاصدبھیجنے والاہی دراصل خوشخبری دینے والا ہے۔ قاصدخوشخبری دینے والا نہیں ہے۔ ہم نے بشارت کے معنی کی وضاحت میں یہ بیان کیا تھا کہ اس میں خوشی پیدا کرنے کا پہلوہوجودہوتا ہے۔ اس بناپر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ خوشخبری دینے والا وہ شخص ہوگاجوسب سے پہلے خبروے دوسرے نمبرپرخبردینے والا مبشر نہیں کہلاسکتا اس لیے کہ اس کی خبر سے خوشی اور مسرت کا ظہور نہیں ہوتا۔ بعض دفعہ لفظ بشارت کا اطلاق کرکے اس سے صرف خبرمراد لی جاتی ہے۔ جیسا کہ قول باری ہے (فبشرھم بعذاب الیم، انہیں دردناک عذاب کی بشارت دے دیجیئے)- عیسیٰ کلمۃ اللہ ہیں۔- قول باری ہے (بکلمۃ منہ) اس کی تین طرح سے تفسیر کی گئی ہے اول یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو بن باپ کے پیداکردیاجیسا کہ خودارشاد فرمایا (خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون ، اللہ نے اسے مٹی سے پیدا کیا۔ پھر فرمایا ہوجاپس وہ ہوگیا) جب حضرت عیسیٰ کی پیدا پیدائش باپ کے بغیر اس طریقے پر ہوئی تو ان پر مجازا لفظ کلمۃ کا اطلاق کردیا گیا، جیسا کہ فرمایا (وکلمتہ ٤٧ الی مریم، عیسیٰ اللہ کے کلمہ تھے جسے اس نے مریم کی طرف ڈال دیا) چودوم چونکہ حضرت عیسیٰ کے متعلق کتب قدیمہ میں بشارت موجود تھی اس لیے ان پر لفظ کلمہ کا اطلاق کیا گیا۔ سوم اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہا السلام کے ذریعے بندوں کی ہدایت کا اسی طرح سامان کیا تھا جس طرح اپنے کلمہ اور امر کے ذریعے ان کی ہدایت کی تھی۔
(٤٥) وہ وقت یاد کرو جب کہ فرشتوں نے مریم (علیہ السلام) سے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بشارت دیتے ہیں، ایک کلمہ کی جو منجانب اللہ ہوگا، اس کا نام مسیح عسی بن مریم (علیہ السلام) ہوگا کیونکہ وہ تمام شہروں میں سیاحت کریں گے یا یہ کہ بادشاہت والے ہوں گے اس واسطے ان کا مسیح لقب ہوگا اور دنیا میں بھی لوگوں میں ان کی قدرومنزلت ہوگی اور آخرت میں بھی وہ باآبرو ہوں گے اور جنت عدن میں وہ منجانب اللہ مقربین میں سے ہوں گے
آیت ٤٥ (اِذْ قَالَتِ الْمَلآءِکَۃُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُ ق) - تمہیں اللہ تعالیٰ ایک ایسی ہستی کی ولادت کی خوشخبری دے رہا ہے جو اس کی جانب سے ایک خاص کلمہ ہوگا۔
18: حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کلمۃ اللہ کہنے کی وجہ اوپر حاشیہ نمبر 13 میں گذر چکی ہے۔