44۔ 1 آجکل کے اہل بدعت نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں غلو عقیدت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرح عالم الغیب اور ہر جگہ حاضر اور ناظر ہونے کا عقیدہ گھڑ رکھا ہے۔ اس آیت سے ان دونوں عقیدوں کی واضح تردید ہوتی ہے۔ اگر آپ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عالم الغیب ہوتے تو اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتا کہ ہم غیب کی خبریں آپ کو بیان کر رہے ہیں کیونکہ جس کو پہلے ہی علم ہو اس کو اس طرح نہیں کہا جاتا اور اس طرح اور ناظر کو یہ نہیں کہا جاتا کہ آپ اس وقت وہاں موجود نہیں تھے جب لوگ قرعہ اندازی کے لئے قلم ڈال رہے تھے۔ قرعہ اندازی کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ حضرت مریم (علیہا السلام) کی کفالت کے اور بھی کئی خواہش مند تھے۔ (ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهِ اِلَيْكَ ) 003:044 سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور آپ کی صداقت کا اثبات بھی ہے جس میں یہودی اور عیسائی شک کرتے تھے کیونکہ وحی شریعت پیغمبر پر ہی آتی ہے غیر پیغمبر پر نہیں۔
[٤٤۔ ا ] یعنی ایسے واقعات صدیوں پہلے گزر چکے ہیں۔ انہیں بالکل ٹھیک طور پر اپنے مخالفوں کو بتلا دینا آپ کا معجزہ اور آپ کی نبوت پر واضح دلیل ہے۔ کیونکہ آپ نے نہ تو تورات پڑھی تھی نہ انجیل اور نہ ہی کوئی تاریخی کتاب۔ عمر کا اکثر حصہ مکہ مکرمہ میں گزرا جہاں کوئی ذی علم تھا ہی نہیں کہ آپ اس سے سن کر دوسروں کو بتلاسکتے، نہ آپ کا کوئی استاد تھا، نہ کسی کے سامنے آپ نے زانوئے تلمذ تہ کئے تھے۔ پھر ایسے واقعات کو علمائے اہل کتاب کے سامنے صحیح صحیح بیان کردینا آپ کے منجانب اللہ سچا رسول ہونے پر بڑی قوی دلیل ہے۔ پھر بھی جو لوگ آپ کی رسالت کا انکار کرتے ہیں تو اس کی وجہ محض بغض وعناد اور دوسرے مفادات ہیں اور کچھ نہیں۔- [٤٥] حضرت مریم پر اللہ تعالیٰ کی جو عنایات ہو رہی تھیں ان سے ہیکل کے تمام خادم واقف تھے اور ان میں ہر شخص یہ چاہتا تھا کہ حضرت مریم کی سرپرستی کا اعزاز اسے حاصل ہو اور اس سلسلہ میں ایک دوسرے سے جھگڑتے اور اپنے استحقاق کے دلائل بھی دیتے ہیں۔ اسی سلسلہ میں حضرت زکریا نے دوسروں کو اپنا یہ استحقاق بتلایا کہ چونکہ وہ حضرت مریم کے حقیقی خالو بھی ہیں لہذا وہی حضرت مریم کے کفیل بننے کے سب سے زیادہ حقدار ہیں۔ لیکن دوسروں نے حضرت زکریا کے اس استحقاق کو چنداں اہمیت نہ دی، اور بالآخر طے یہ ہوا کہ ایسے سب حضرات اپنی اپنی قلمیں جن سے وہ تورات لکھا کرتے تھے کسی بہتی ندی میں پھینک دیں۔ اگر کسی شخص کا قلم ندی کے بہاؤ کی طرف بہنے سے رک جائے اور اپنی جگہ پر قائم رہے تو وہی شخص مریم کی سرپرستی کا حقدار ہوگا۔ اب ظاہر ہے یہ امتحان بھی ایک خرق عادت امر سے تھے اور کسی خرق عادت امر سے ہی اس قضیہ کا فیصلہ ہوسکتا تھا۔ چناچہ قلمیں پھینکی گئیں تو ماسوائے حضرت زکریا کے قلم کے، باقی سب قلمیں پانی کے بہاؤ کے رخ بہہ نکلیں لیکن حضرت زکریا کا قلم اپنی جگہ پر قائم رہا۔ ایک تو وہ پہلے ہی حضرت مریم کے حقیقی خالو ہوتے تھے۔ اس امتحان میں بھی قرعہ فال انہی کے نام نکلا تو اب اس میں کسی کو اختلاف اور جھگڑے کی گنجائش نہ رہی۔
ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهِ اِلَيْكَ ۭ۔۔ : اس آیت سے پانچ مسئلے واضح طور پر ثابت ہوئے، پہلا یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب نہیں جانتے تھے، ورنہ انھیں غیب کی یہ خبریں وحی کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ دوسرا یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر جگہ حاضر و ناظر نہیں ہیں، ورنہ اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتا کہ تو اس وقت ان کے پاس موجود نہ تھا۔ تیسرا یہ کہ اولیاء اور دوسرے انبیاء بھی غیب دان نہیں، ورنہ بیت المقدس کے خدام اور وقت کے پیغمبر زکریا (علیہ السلام) کو قرعہ ڈالنے کی ضرورت نہ تھی۔ چوتھا یہ کہ جب چیز ایک ہو اور اس کے حق دار کئی ہوں تو اس وقت قرعہ کے ذریعے سے فیصلہ شریعت کا فیصلہ ہے۔ امام بخاری (رض) نے ” کِتَاب الشَّہَادَاتِ “ میں باب باندھا ہے : ” بَابُ الْقُرْعَۃِ فِی الْمُشْکِلاَتِ “ ” مشکل معاملات میں قرعہ اندازی کا بیان “ اور اس میں کئی احادیث لائے ہیں۔ بعض لوگوں نے قرعہ کو جوا قرار دیا ہے، یہ ان کی غلطی ہے۔ ہاں، اگر اس مقصد کے لیے قرعہ ڈالا جائے کہ یہ کام کروں یا نہ کروں، تو یہ قرعہ نہیں بلکہ فال نکالنا ہے جو حرام ہے۔ دیکھیے سورة مائدہ : ٩٠) ۔- پانچواں یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو اس واقعہ کے وقت نہ موجود تھے، نہ اسے جانتے تھے، آپ کا وحی الٰہی سے اس واقعہ کو بیان کرنا آپ کے رسول برحق ہونے کی دلیل ہے۔ - اِذْ يُلْقُوْنَ اَقْلَامَھُمْ : اس قرعہ اندازی کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مریم [ یہودیوں کے بہت بڑے عالم عمران کی بیٹی تھیں، جب ان کی والدہ نے انھیں اپنی عبادت گاہ کی نذر کیا تو عبادت گاہ کے خدام میں جھگڑا ہوا کہ ان کی سرپرستی اور نگرانی کا شرف کون حاصل کرے، آخر کار انھوں نے قرعہ اندازی کی اور قرعہ زکریا (علیہ السلام) کے نام نکلا۔ ( ابن کثیر، قرطبی )
خلاصہ تفسیر - یہ قصے ( جو اوپر مذکور ہوئے جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعتبار سے بوجہ اس کے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کوئی ذریعہ ظاہری ان کے معلوم کرنے کا نہ تھا) منجملہ غیب کی خبروں کے ہیں جن کی وحی بھیجتے ہیں ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ( اس کے ذریعہ سے آپ یہ خبریں معلوم کر کے اوروں کو بتلاتے ہیں) اور (ظاہر ہے کہ جو لوگ حضرت مریم (علیہا السلام) کے رکھنے میں اختلاف کر رہے تھے جس کا فیصلہ اخیر میں قرعہ پر قرار پایا تھا) آپ ان لوگوں کے پاس نہ تو اس وقت موجود تھے جبکہ وہ ( قرعہ کے طور پر) اپنے اپنے قلموں کو ( پانی میں) ڈالتے تھے (اور صورت قرعہ نکلنے کی یہ قرار پائی تھی کہ جس کا قلم پانی کی حرکت کے خلاف الٹا بہہ جاوے وہ مستحق سمجھا جاوے سو قرعہ سے غرض اس امر کا طے کرنا تھا) کہ ان سب میں کون شخص حضرت مریم (علیہا السلام) کی کفالت (پرورش) کرے (پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ تو اس وقت موجود تھے) اور نہ آپ ان کے پاس اس وقت موجود تھے جبکہ وہ لوگ (قبل قرعہ اس مقدمہ میں) باہم اختلاف کر رہے تھے (جس کے رفع کی ضرورت کے لئے یہ قرعہ قرار پایا، اور ان خبروں کے دریافت ہونے کے لئے دوسرے وسائط کا نہ ہونا بھی یقینا معلوم ہے۔ پس ایسی حالت میں یہ غیبی خبریں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی دلیل ہیں) ۔- معارف و مسائل :- مسئلہ : شریعت محمدیہ میں حنفیہ کے مسلک پر قرعہ کا یہ حکم ہے کہ جن حقوق کے اسباب شروع میں معلوم و متعین ہیں ان میں قرعہ ناجائز و داخل قمار ہے، مثلا شے مشترک میں جس کا نام نکل آئے وہ سب لے لے، یا جس بچے کے نسب میں اختلاف ہو، اس میں جس کا نام نکل آوے وہی باپ سمجھا جاوے اور جن حقوق کے اسباب رائے کے سپرد ہوں ان میں قرعہ جائز ہے۔ مثلا مشترک مکان کی تقسیم میں قرعہ سے زید کو شرقی حصہ دیدینا اور عمرو کو غربی حصہ دیدینا، یہ اس لئے جائز ہے کہ بلا قرعہ بھی ایسا کرنا اتفاق شریکین سے یا قضائے قاضی سے جائز تھا۔ (بیان القرآن) یا یوں کہئے کہ جہاں سب شریکوں کے حقوق مساویانہ ہوں وہاں کوئی ایک جہت ایک شخص کے لئے متعین کرنے کے واسطے قرعہ اندازی جائز ہے۔
ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْہِ اِلَيْكَ ٠ ۭ وَمَا كُنْتَ لَدَيْہِمْ اِذْ يُلْقُوْنَ اَقْلَامَھُمْ اَيُّھُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ ٠ ۠ وَمَا كُنْتَ لَدَيْہِمْ اِذْ يَخْتَصِمُوْنَ ٤٤- نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے - غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے - وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - لدی - لَدَى يقارب لدن . قال تعالی: وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] .- ( ل د ی ) لدی یہ تقریبا لدن کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] اور دونوں کو دروازے کے پاس عورت کا خاوند مل گیا - لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - قلم - أصل القَلْمِ : القصّ من الشیء الصّلب، کا لظفر وکعب الرّمح والقصب، ويقال لِلْمَقْلُومِ : قِلْمٌ. كما يقال للمنقوض : نقض . وخصّ ذلک بما يكتب به، وبالقدح الذي يضرب به، وجمعه : أَقْلَامٌ. قال تعالی: ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم 1] . وقال : وَلَوْ أَنَّما فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلامٌ [ لقمان 27] ، وقوله : إِذْ يُلْقُونَ أَقْلامَهُمْ [ آل عمران 44] أي : أقداحهم، وقوله تعالی: عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق 4] تنبيه لنعمته علی الإنسان بما أفاده من الکتابة وما روي «أنه عليه الصلاة والسلام کان يأخذ الوحي عن جبریل وجبریل عن ميكائيل وميكائيل عن ؟ ؟ ؟ إسرافیل وإسرافیل عن اللّوح المحفوظ واللّوح عن القَلَمِ» فإشارة إلى معنی إلهيّ ، ولیس هذا موضع تحقیقه . والْإِقْلِيمُ : واحد الْأَقَالِيمِ السّبعة . وذلک أنّ الدّنيا مقسومة علی سبعة أسهم علی تقدیر أصحاب الهيئة .- ( ق ل م ) القلم ( مصدر ض ) اس کے اصل معنی کسی سخت چیز کو تراشنے کے ہیں ۔ اس لئے ناخن بانس کی گرہ اور سر کنڈ سے وغیرہ کے تراشنے پر قلم کا لفظ بو لاجاتا ہے اور تراشیدہ چیز کو ہے جیسے کہا جاتا ہے تو قلم مقلوم ہے جیسے نقض بمعنی منقوض اتا ہے ۔ اور ( عرف میں ) خاص کر لکھنے کے آلہ اور قرعہ اندازی کے تیر پر یہ لفظ بولاجاتا ہے ۔ اس کی جمع اقلام ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم 1] قلم کی اور جو ( اہل قلم ) لکھتے ہیں اس کی قسم ۔ وَلَوْ أَنَّما فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلامٌ [ لقمان 27] اور اگر یوں ہو کہ زمین میں جتنے درخت ہیں ( سب کے سب ) قلم ہوں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلامَهُمْ [ آل عمران 44] جب وہ لوگ اپنے قلم بطور قرعہ ڈال رہے تھے ۔ میں اقلام سے قرعہ اندازی کے تیر مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق 4] جس نے قلم کے ذر یعہ سے علم سکھایا ۔ میں تنبیہ پائی جاتی ہے کہ انسان کو کتابت کی تعلیم دینا اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے اور جو حدیث میں ایا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جبیریل (علیہ السلام) سے وحی اخذ کرتے تھے اور جبیریل مکائیل سے وہ اسرافیل سے اور اسرافیل لوح محفوظ سے اور لوح محفوظ قلم سے تو یہاں سر الہٰی کی طرف اشارہ ہے جس کی تحقیق کا یہاں موقع نہیں ہے ۔ الاقلیم ۔ ربع مسکون کا ساتواں حصہ ۔ علماء بیئت کی تحقیق کے مطابق زمین کے سات حصے ہیں ۔ اور ہر حصہ پر اقلیم کا لفظ بولتے ہیں اس کی جمع اقالیم ہے ۔- أيا - أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص 28]- ( ا ی ی ) ای ۔- جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔- كفل - الْكَفَالَةُ : الضّمان، تقول : تَكَفَّلَتْ بکذا، وكَفَّلْتُهُ فلانا، وقرئ : وَكَفَّلَها زَكَرِيَّا - [ آل عمران 37] «3» أي : كفّلها اللہ تعالی، ومن خفّف «4» جعل الفعل لزکريّا، المعنی: تضمّنها . قال تعالی: وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا[ النحل 91] ، والْكَفِيلُ : الحظّ الذي فيه الکفاية، كأنّه تَكَفَّلَ بأمره . نحو قوله تعالی: فَقالَ أَكْفِلْنِيها[ ص 23] أي : اجعلني کفلا لها، والکِفْلُ : الكفيل، قال : يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ [ الحدید 28] أي : كفيلين من نعمته في الدّنيا والآخرة، وهما المرغوب إلى اللہ تعالیٰ فيهما بقوله : رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً [ البقرة 201]- ( ک ف ل ) الکفالۃ - ضمانت کو کہتے ہیں اور تکفلت بکذا کے معنی کسی چیز کا ضامن بننے کے ہیں ۔ اور کفلتہ فلانا کے معنی ہیں میں نے اسے فلاں کی کفالت میں دے دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَّلَها زَكَرِيَّا[ آل عمران 37] اور زکریا کو اس کا متکفل بنایا ۔ بعض نے کفل تخفیف فاء کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں اس کا فاعل زکریا (علیہ السلام) ہوں گے یعنی حضرت زکریا (علیہ السلام) نے ان کو پانی کفالت میں لے لیا ۔ اکفلھا زیدا اسے زید کی کفالت میں دیدیا ) قرآن میں ہے : ۔ أَكْفِلْنِيها[ ص 23] یہ بھی میری کفالت مٰن دے دو میرے سپرد کر دو الکفیل اصل میں بقدر ضرورت حصہ کو کہتے ہیں ۔ گویا وہ انسان کی ضرورت کا ضامن ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا[ النحل 91] اور تم خدا کو اپنا کفیل بنا چکے ہو ۔ اور الکفل کے معنی بھی الکفیل یعنی حصہ کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ [ الحدید 28] وہ تمہیں اپنی رحمت سے اجر کے دو حصے عطا فرمائیگا ۔ یعنی دنیا اور عقبیی دونون جہانوں میں تمہیں اپنے انعامات سے نوزے گا ۔ اور یہی دوقسم کی نعمیتں ہیں جن کے لئے آیت رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً [ البقرة 201- خصم - الخَصْمُ مصدر خَصَمْتُهُ ، أي : نازعته خَصْماً ، يقال : خاصمته وخَصَمْتُهُ مُخَاصَمَةً وخِصَاماً ، قال تعالی: وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة 204] ، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] ، ثم سمّي المُخَاصِم خصما، واستعمل للواحد والجمع، وربّما ثنّي، وأصل المُخَاصَمَة : أن يتعلّق كلّ واحد بخصم الآخر، أي جانبه وأن يجذب کلّ واحد خصم الجوالق من جانب، وروي : ( نسیته في خصم فراشي) «1» والجمع خُصُوم وأخصام، وقوله : خَصْمانِ اخْتَصَمُوا - [ الحج 19] ، أي : فریقان، ولذلک قال : اخْتَصَمُوا وقال : لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق 28] ، وقال : وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء 96] ، والخَصِيمُ : الكثير المخاصمة، قال : هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل 4] ، والخَصِمُ : المختصّ بالخصومة، قال : بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف 58] .- ( خ ص م ) الخصم - ۔ یہ خصمتہ کا مصدر ہے جس کے معنی جھگڑنے کے ہیں کہاجاتا ہے خصمتہ وخاصمتہ مخاصمۃ وخصاما کسی سے جھگڑا کر نا قرآن میں ہے :۔ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة 204] اور وہ حالانکہ سخت جھگڑا لو ہے ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف 18] اور جھگڑنے کے وقت بات نہ کرسکے ۔ اور مخاصم کو خصم کہا جات ہے ، اور خصم کا لفظ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر کبھی تثنیہ بھی آجاتا ہے۔ اصل میں خصم کے معنی کنارہ کے ہیں ۔ اور مخاصمت کے معنی ایک دوسرے سے کو کنارہ سے پکڑنے کے ہیں ۔ اور بوری کو کونے سے پکڑکر کھینچنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے :۔ (114) نسی تھا فی خصم فراشی کہ میں اسے اپنے بسترہ کے کونے میں بھول آیا ہوں خصم کی جمع خصوم واخصام آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ اخْتَصَمُوا[ الحج 19] دوفریق جھگڑتے ہیں ۔ میں خصما ن سے دو فریق مراد ہیں اسی لئے اختصموا آیا ہے ۔ - الاختصام - ( افتعال ) ایک دوسرے سے جھگڑنا ۔ قرآن میں ہے :۔ لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق 28] ہمارے حضور رد کد نہ کرو ۔ وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء 96] ۔۔۔۔ وہ آپس میں جھگڑیں گے ۔- الخصیم - ۔ جھگڑا لو بہت زیادہ جھگڑا کرنے والا جیسے فرمایا :۔ هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل 4] مگر وہ ( اس بارے میں ) علانیہ جھگڑنے لگا ۔ الخصم سخٹ جھگڑالو جس کا شیوہ ہ جھگڑنا ہو ۔ قرآن میں ہے :َ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف 58] حقیقت یہ ہے ۔ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑا لو،- لو ۔
حلال کاموں میں قرعہ اندازی جائز ہے - قول باری ہے (وماکنت لدیھم اذیلقون اقلامھم ایھم یکفل مریم) تم اس وقت وہاں موجودنہ تھے جب ہیکل کے خادم یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ مریم کا سرپرست کون ہو، اپنے اپنے قلم پھینک رہے تھے) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحاق نے روایت بیان کی، انہیں حسن بن ابی الربیع جرجانی نے، انہیں عبدالرناق نے، انہیں معمرنے قتادہ سے قول باری (اذیلقون اقلامھم) کی تفسیر میں یہ بیان کیا کہ ہیکل کے مجادروں نے حضرت مریم کی کفالت کے سلسلے میں آپس میں قرعہ اندازی کی۔ حضرت زکریا کے نام قرعہ نکلا۔ ایک قول ہے کہ قلموں سے یہاں وہ تیرمراد ہیں جن کے ذریعے قرعہ اندازی کی جاتی تھی۔ مجاوروں نے اپنے اپنے قلم پانی کی ایک گذرگاہ میں ڈال دیئے تھے۔ تمام مجاوروں کے قلم پانی کے بہاؤ کے رخ نیچے کی طرف بہتے چلے گئے لین حضرت زکریا کا قلم پانی کے چڑھاؤ کے رخ بہتا رہا۔ یہ حضرت زکریا کا معجزہ تھا۔ اس طرح قرعہ آپ کے نام نکل آیا۔ ربیع بن انس سے اسی قسم کی روایت ہے، اس تاویل کی رو سے مجاوروں کے باہمی قرعہ اندازی کی وجہ یہ تھی کہ ہر ایک حضرت مریم کی کفالت کا خواہشمند تھا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ملک میں قحط اور خوراک کی سنگیں صورت حال کے تحت مجاوروں نے قرعہ اندازی کے ذریعے حضرت مریم کی کفالت کی ذمہ داری سے بچنا چاہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت زکریاعلیہ السلام کو بہترین کفالت کی ذمہ داری مل گئی۔ لیکن پہلی تاویل زیادہ صحیح ہے۔ اس لیئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ اطلاع دی کہ اس نے زکریا کو کفیل بنادیا اور یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت زکریاکوان کی کفالت کی بڑی آرزو تھی۔- بعض لوگ اس واقعہ سے درج ذیل مسئلے میں قرعہ اندازی کے جوازپراستدلال کرتے ہیں۔ مسئلے کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص اپنے مرض الموت میں اپنے غلام آزاد کردیتا ہے اور پھر مرجاتا ہے۔ ان غلاموں کے سواوہ اپنے پیچھے اور کوئی مال نہیں چھوڑتا۔ ایسی صورت میں غلاموں میں قرعہ اندازی جائز ہے اور جس غلام کے نام قرعہ نکلے گا اسے پھر سے غلام بنالیا جائے گا۔ کیونکہ مرنے والا صرف اپنے تہائی مال سے ان غلاموں کو آزادی دے سکتا تھا۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اس مسئلے یعنی غلاموں کی آزادی میں اس واقعہ سے استدلال کی کوء گنجائش نہیں ہے۔ اس لیئے کہ کفالت کے مسئلے میں اگر قرعہ اندازی کے بغیران مجاوروں میں سے کسی ایک کے کفیل بننے پر سب کا اتفاق ہوجاتا ہے تو اس کا کفیل بننا جائز اور درست ہوتالیکن غلاموں کے مسئلے میں انہیں آزادی ملنے کے بعد کسی ایک کی دوبارہ غلامی پر باہمی رضامندی اور اتفاق جائز نہیں ہے۔ مرنے والے نے اپنے تمام غلاموں کو آزادی دے دی تھی۔ اس لیئے قرعہ اندازی کے ذریعے اس عتق کو ایک دوسرے کی طرف منتقل کرنا جائز نہیں ہوگا۔ جس طرح کہ کسی ایک سے آزادی کی منتقلی پر باہمی رضامندی اور اتفاق جائز نہیں ہے۔ قلموں کو بہتے ہوئے پانی میں ڈال دینا تقسیم میں قرعہ اندازی اور حاکم کے سامنے مقدمہ پیش کرنے کے مشابہ ہے۔ اس کی نظیروہ روایت ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ سب سفرکا ارادہ فرماتے تو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ اندازی کرتے۔ اور یہ اس لیے کہ قرعہ جس کے نام نکلا، قرعہ اندازی کے بغیر بھی اس پر اتفاق اور باہمی رضامندی جائز تھی یہی صورت حضرت مریم کی کفالت کے مسئلے کی تھی۔ لیکن غلاموں کی آزادی کے مسئلے کا جہاں تک تعلق ہے اس میں اس بات پر باہمی رضامندی جائز نہیں ہے کہ جس غلام کو آزادی مل گئی ہے اس سے اس آزادی کو کسی اور کی طرف منتقل کردیاجائے۔
(٤٤) اور حضرت مریم (علیہ السلام) اور زکریا (علیہ السلام) کے جو واقعات بیان کیے ہیں، یہ غیب کی ان خبروں میں سے ہیں کہ جن کو اے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آپ پر بواسطہ جبرائیل امین وحی بھیجتے رہتے ہیں ورنہ آپ ان لوگوں کے پاس نہ اس وقت موجود تھے جب کہ وہ حضرت مریم (علیہ السلام) کی تریبت کے بارے میں قرعہ اندازی کے لیے پانی میں اپنے قلموں کو ڈال رہے تھے اور نہ آپ اس وقت ہی ان کے لوگوں کے پاس موجود تھے جب کہ وہ قرعہ اندازی سے پہلے وہ حضرت مریم (علیہ السلام) کی تربیت کے بارے میں جھگڑا کررہے تھے، (یعنی کہ یہ سینکڑوں برس پہلے واقعات کی یہ وہ غیب کی خبریں ہیں جو آپ کی صداقت نبوت کی واضح علامت ہیں) ۔
آیت ٤٤ (ذٰلِکَ مِنْ اَنْبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْہِ اِلَیْکَ ط) (وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلاَمَہُمْ اَیُّہُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمَ ) - جب حضرت مریم ( علیہ السلام) کو ان کی والدہ نے ہیکل کی خدمت کے لیے وقف کیا تو ہیکل کے کاہنوں میں سے ہر ایک یہ چاہتا تھا کہ یہ بچی میری تحویل میں ہو ‘ اس کی تربیت اور پرورش کی سعادت مجھے حاصل ہوجائے جسے اللہ کے نام پر وقف کردیا گیا ہے۔ چناچہ اس کے لیے وہ اپنے قلم پھینک کر کسی طرح قرعہ اندازی کر رہے تھے۔ اس میں اللہ نے حضرت زکریا ( علیہ السلام) کا نام نکال دیا۔ یہاں اثنائے کلام میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو اس وقت وہاں نہیں تھے جب وہ قرعہ اندازی سے یہ معاملہ طے کر رہے تھے۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :43 یعنی قرعہ اندازی کر رہے تھے ۔ اس قرعہ اندازی کی ضرورت اس لیے پیش آئی تھی کہ حضرت مریم علیہ السلام کی والدہ نے ان کو خدا کے کام کے لیے ہیکل کی نذر کر دیا تھا ۔ اور وہ چونکہ لڑکی تھیں اس لیے یہ ایک نازک مسئلہ بن گیا تھا کہ ہیکل کے مجاوروں میں سے کس کی سرپرستی میں وہ رہیں ۔
17: جیسا کے اوپر آیت نمبر : ٣٤ میں ذکر کیا گیا، حضرت مریم (رض) کے والد کی وفات کے بعد ان کی کفالت کے بارے میں اختلاف رائے پیدا ہوا تو اس کا فیصلہ قرعہ اندازی کے ذریعے کیا گیا، اس زمانے میں قرعہ قلموں کے ذریعے ڈالا جاتا تھا اس لئے یہاں قلم ڈالنے کا ذکر کیا گیا ہے۔