پھانسی کون چڑھا ؟ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کو دیکھ لیا کہ اپنی گمراہی کج روی اور کفر و انکار سے یہ لوگ ہٹتے ہی نہیں ، تو فرمانے لگے کہ کوئی ایسا بھی ہے؟ جو اللہ تعالیٰ کی طرف پہنچنے کے لئے میری تابعداری کرے اس کا یہ مطلب بھی لیا گیا ہے کہ کوئی ہے جو اللہ جل شانہ کے ساتھ میرا مددگار بنے؟ لیکن پہلا قول زیادہ قریب ہے ، بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے فرمایا اللہ جل شانہ کی طرف پکارنے میں میرا ہاتھ بٹانے والا کون ہے؟ جیسے کہ نبی اللہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ شریف سے ہجرت کرنے کے پہلے موسم حج کے موقع پر فرمایا کرتے تھے کہ کوئی ہے جو مجھے اللہ جل شانہ کا کلام پہنچانے کے لئے جگہ دے؟ قریش تو کلام الٰہی کی تبلیغ سے مجھے روک رہے ہیں یہاں تک کہ مدینہ شریف کے باشندے انصار کرام اس خدمت کے لئے کمربستہ ہوئے آپ کو جگہ بھی دی آپ کی مدد بھی کی اور جب آپ ان کے ہاں تشریف لے گئے تو پوری خیرخواہی اور بےمثال ہمدردی کا مظاہرہ کیا ، ساری دنیا کے مقابلہ میں اپنا سینہ سپر کر دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت خیرخواہی اور آپ کے مقاصد کی کامیابی میں ہمہ تن مصروف ہوگئے رضی اللہ عنھم وارضاھم اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس آواز پر بھی چند بنی اسرائیلیوں نے لبیک کہی آپ پر ایمان لائے آپ کی تائید کی تصدیق کی اور پوری مدد پہنچائی اور اس نور کی اطاعت میں لگ گئے جو اللہ ذوالجلال نے ان پر اتارا تھا یعنی انجیل یہ لوگ دھوبی تھے اور حواری انہیں ان کے کپڑوں کی سفیدی کی وجہ سے کہا گیا ہے ، بعض کہتے ہیں یہ شکاری تھے ، صحیح یہ ہے کہ حواری کہتے ہیں مددگار کو ، جیسے کہ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ جنگ خندق کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کوئی جو سینہ سپر ہو جائے؟ اس آواز کو سنتے ہی حضرت زبیر تیار ہوگئے آپ نے دوبارہ یہی فرمایا پھر بھی حضرت زبیر نے ہی قدم اٹھایا پس حضور علیہ السلام نے فرمایا ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میرا حواری زبیر ہے رضی اللہ عنہ ۔ پھر یہ لوگ اپنی دعا میں کہتے ہیں ہمیں شاہدوں میں لکھ لے ، اس سے مراد حضرت ابن عباس کے نزدیک امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں لکھ لینا ہے ، اس تفسیر کی روایت سنداً بہت عمدہ ہے ، پھر بنی اسرائیل کے اس ناپاک گروہ کا ذکر ہو رہا ہے جو حضرت عیسیٰ کی طرف سے بھرے تھے کہ یہ شخص لوگوں کو بہکاتا پھرتا ہے ملک میں بغاوت پھیلا رہا ہے اور رعایا کو بگاڑ رہا ہے ، باپ بیٹوں میں فساد برپا کر رہا ہے ، بلکہ اپنی خباثت خیانت کذب و جھوٹ ( دروغ ) میں یہاں تک بڑھ گئے کہ آپ کو زانیہ کا بیٹا کہا اور آپ پر بڑے بڑے بہتان باندھے ، یہاں تک کہ بادشاہ بھی دشمن جان بن گیا اور اپنی فوج کو بھیجا تاکہ اسے گرفتار کر کے سخت سزا کے ساتھ پھانسی دے دو ، چنانچہ یہاں سے فوج جاتی ہے اور جس گھر میں آپ تھے اسے چاروں طرف سے گھیر لیتی ہے ناکہ بندی کر کے گھر میں گھستی ہے ، لیکن اللہ تعالیٰ آپ کو ان مکاروں کے ہاتھ سے صاف بچا لیتا ہے اس گھر کے روزن ( روشن دان ) سے آپ کو آسمان کی طرف اٹھا لیتا ہے اور آپ کی شباہت ایک اور شخص پر ڈال دی جاتی ہے جو اسی گھر میں تھا ، یہ لوگ رات کے اندھیرے میں اس کو عیسیٰ سمجھ لیتے ہیں گرفتار کر کے لے جاتے ہیں٠ سخت توہین کرتے ہیں اور سر پر کانٹوں کو تاج رکھ کر اسے صلیب پر چڑھا دیتے ہیں ، یہی ان کے ساتھ اللہ کا مکر تھا کہ وہ تو اپنے نزدیک یہ سمجھتے رہے کہ ہم نے اللہ کے نبی کو پھانسی پر لٹکا دیا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو تو نجات دے دی تھی ، اس بدبختی اور بدنیتی کا ثمرہ انہیں یہ ملا کہ ان کے دل ہمیشہ کے لئے سخت ہوگئے باطل پر اڑ گئے اور دنیا میں ذلیل و خوار ہوگئے اور آخر دنیا تک اس ذلت میں ہی ڈوبے رہے ۔ اس کا بیان اس آیت میں ہے کہ اگر انہیں خفیہ تدبیریں کرنی آتی ہیں تو کیا ہم خفیہ تدبیر کرنا نہیں جانتے بلکہ ہم تو ان سے بہتر خفیہ تدبیریں کرنے والے ہیں ۔
52۔ 1 یعنی ایسی گہری سازش اور مشکوک حرکتیں جو کفر یعنی حضرت مسیح کی رسالت کے انکار پر مبنی تھیں۔ 52۔ 2 بہت سے نبیوں نے اپنی قوم کے ہاتھوں تنگ آ کر ظاہری اسباب کے مطابق اپنی قوم کے با شعور لوگوں سے مدد طلب کی ہے۔ جس طرح خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ابتداء میں جب قریش آپ کی دعوت کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے تو آپ موسم حج میں لوگوں کو اپنا ساتھی اور مددگار بننے پر آمادہ کرتے تھے تاکہ آپ رب کا کلام لوگوں تک پہنچا سکیں جس پر انصار نے لبیک کہا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انہوں نے قبل ہجرت مدد کی۔ اس طرح یہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے مدد طلب فرمائی یہ وہ مدد نہیں ہے جو مافوق الاسباب طریقے سے طلب کی جاتی ہے کیونکہ وہ تو شرک ہے اور ہر نبی شرک کے سدباب ہی کے لئے آتا رہا ہے پھر وہ خود شرک کا ارتکاب کس طرح کرسکتے تھے۔ لیکن قبر پرستوں کی غلط روش قابل ماتم ہے کہ وہ فوت شدہ اشخاص سے مدد مانگنے کے جواز کے لیے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قول مَن انصاری الی اللہ سے استدلال کرتے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت نصیب فرمائے (آمین) 52۔ 3 حواریوں حواری کی جمع ہے بمعنی انصار (مددگار) جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ ہر نبی کا کوئی مددگار خاص ہوتا ہے اور میرا مددگار زبیر ہے۔
[٥١] حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو پوری طرح معلوم ہوچکا تھا کہ یہود اور ان کے علماء دلائل کے میدان میں مات کھا کر اب ان کی زندگی کے درپے ہوچکے ہیں اور اس کام کے لیے سازشیں تیار کر رہے ہیں۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ انبیاء کو ناحق قتل کرنا یہود کی عادت ثانیہ بن چکی ہے۔ وہ یہ بھی دیکھ چکے تھے۔ یہود کے ایک رئیس نے ایک رقاصہ کی فرمائش پر حضرت یحییٰ (علیہ السلام) جیسے برگزیدہ پیغمبر کا سر قلم کر ڈالا ہے تو انہیں اپنی موت کے آنے میں کچھ شبہ نہ رہا۔ اب انہیں فکر تھی تو یہ تھی کہ دین کی اشاعت و تبلیغ کا کام نہ رکنا چاہئے۔ چناچہ انہوں نے اپنے چند پیرو کاروں کو مخاطب کرکے پوچھا کہ کون ہے جو اس سلسلہ میں میری مدد کرے۔ تاکہ اللہ کے دین کو فروغ حاصل ہو۔ - [٥٢] حواری کون تھے ؟ اس بات میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ تاہم اس بات پر اتفاق ہے کہ حواری کا مفہوم وہی کچھ ہے جو لفظ انصار کا ہے۔ یعنی اللہ کے نبی اور دین کے مددگار۔ حواری کا مفہوم اس واقعہ سے بھی سمجھ میں آسکتا ہے کہ غزوہ خندق کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی یوں بھی مدد فرمائی کہ نہایت ٹھنڈی اور تیز ہوا بصورت سخت آندھی چلا دی۔ جس نے کفار کے لشکر کے خیمے تک اکھاڑ پھینکے۔ ان کی ہانڈیاں الٹ گئیں اور وہ بددل ہو کر ناکام واپس چلے جانے کی باتیں سوچنے لگے تو اس صورت حال کی صحیح رپورٹ لینے کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) کو مخاطب کرکے فرمایا کہ کون ہے جو کفار کے لشکر کی خبر لاتا ہے ؟ اس کڑاکے کی سردی میں اور آندھی میں نکل کھڑے ہونے کی کسی کو جرات نہ ہوئی۔ صرف حضرت زبیر بن عوام (رض) تھے، جنہوں نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں جاتا ہوں آپ نے پھر دوسری بار وہی سوال دہرایا تو پھر زبیر بن عوام (رض) ہی بولے کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں جاتا ہوں تیسری بار آپ نے پھر سوال دہرایا تو تیسری بار بھی حضرت زبیر بن عوام (رض) ہی جانے پر آمادہ ہوئے۔ اس وقت آپ نے فرمایا کہ ہر پیغمبر کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر (رض) ہے۔ (بخاری، کتاب المناقب، باب مناقب الزبیر بن العوام) چناچہ کچھ حواریوں نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ ہم اللہ کے دین کی خدمت کریں گے اور از سر نو عہد و پیمان کیا اور عیسیٰ سے کہا کہ آپ گواہ رہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے اور اس کے فرمانبردار بنتے ہیں :- بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حواری حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے صدق دل سے مرید اور خاص شاگرد تعداد میں بارہ تھے اور ان کے نام یہ ہیں : (١) شمعون، جسے پطرس بھی کہتے ہیں، (٢) شمعون یا پطرس کا بھائی اندریاس، (٣) یعقوب بن زیدی ( ، ٤) یوحنا، (٥) یوحنا کا بھائی فلیپوس، (٦) برتھولما، (٧) تھوما، (٨) متی، (٩) یعقوب بن حلفائی، (١٠) تہدی، (١١) شمعون کنعانی اور (١٢) یہودا اسکریوتی۔ یہ وہ بارہ حواری یا انصار تھے۔ جنہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت ہر قیمت پر آگے بڑھانے کا حضرت عیسیٰ سے عہد کیا تھا۔
فَلَمَّآ اَحَسَّ عِيْسٰى مِنْھُمُ الْكُفْرَ ۔۔ : یعنی صرف عقل سے نہیں سمجھا بلکہ حواس سے معلوم کرلیا، آنکھوں اور کانوں سے یہ حقیقت جان لی کہ یہود اور ان کے علماء اللہ کی دی ہوئی نشانیوں اور دلائل و معجزات کے سامنے بےبس ہوچکے ہیں، مگر ماننے کے لیے کسی صورت آمادہ نہیں، بلکہ ان کی زندگی کے درپے ہیں اور اس مقصد کے لیے سازشیں کر رہے ہیں تو انھیں اپنے دنیا سے رخصت ہونے میں کچھ شبہ نہ رہا۔ اب انھیں فکر تھی تو یہ کہ دین کی اشاعت و تبلیغ کا کام رکنا نہیں چاہیے، چناچہ انھوں نے اپنے پیروکاروں سے پوچھا کہ کون ہے جو اللہ کی طرف دعوت دینے اور اس کے راستے پر چلنے اور چلانے میں میرا مددگار ہو ؟ اللہ تعالیٰ نے چند لوگوں کو توفیق عطا فرمائی، وہ ایمان لائے اور پوری تن دہی کے ساتھ عیسیٰ (علیہ السلام) کی مدد کرتے رہے اور یہی لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواری کہلائے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے ساتھیوں سے مدد مانگ رہے ہیں، اگر وہ مختار کل ہوتے تو مدد مانگنے کی کیا ضرورت تھی۔ ہمارے دور کے قبرپرست بھی عجیب ہیں، اس آیت سے استدلال کرکے فوت شدہ بزرگوں سے وہ چیزیں مانگتے ہیں جو ان کے اختیار میں نہیں اور دلیل میں یہ آیت پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ اس میں بزرگوں نے چھوٹوں سے وہ مدد مانگی ہے جو ان کے اختیار میں تھی۔ - عیسیٰ (علیہ السلام) کا یہ قول ویسا ہی ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت سے پہلے زمانۂ حج میں مختلف قبائل عرب سے فرمایا کرتے تھے کہ کون ہے جو مجھے پناہ دے تاکہ میں لوگوں تک اپنے رب کا پیغام پہنچا سکوں، اس لیے کہ قریش نے مجھے یہ پیغام پہنچانے سے روک رکھا ہے ؟ تاآنکہ آپ کو انصار مل گئے، جنھوں نے آپ کو پناہ دی اور اپنی جان و مال سے آپ کی مدد کی۔ مگر آپ کے حواری (خاص جاں نثار و مددگار) صرف انصار ہی نہ تھے، مہاجر بھی تھے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ خندق کے دوران میں تین دفعہ پوچھا : ” کون ہے جو بنوقریظہ کی خبر لائے گا ؟ “ تینوں دفعہ زبیر (رض) نے اپنے آپ کو پیش کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں، میرا حواری زبیر ہے۔ “ [ مسلم، فضائل الصحابۃ، باب من فضائل طلحۃ ۔۔ : ٢٤١٥، عن جابر بن عبداللہ ]
خلاصہ تفسیر - (غرض بشارت مذکورہ کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اسی شان سے پیدا ہوئے، اور بنی اسرائیل سے مضمون مذکورہ کی گفتگو ہوئی، اور معجزات ظاہر فرمائے، مگر بنی اسرائیل آپ (علیہ السلام) کی نبوت کے منکر رہے) سو جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے انکار دیکھا ( اور انکار کے ساتاھ درپے ایذا بھی، اور اتفاقا کچھ لوگ ان کو ایسے ملے جو حواریین کہلاتے تھے) تو (ان حواریین سے) آپ نے فرمایا کوئی ایسے آدمی بھی ہیں جو (دین حق میں بمقابلہ مخالفین و منکرین کے) میرے مددگار ہوجاویں اللہ کے واسطے ( جس سے دعوت دین میں مجھے کوئی ایذاء نہ پہنچائے) حواریین بولے کہ ہم ہیں مددگار اللہ کے ( دین کے) ہم اللہ تعالیٰ پر ( حسب دعوت آپ کے) ایمان لائے اور آپ اس (بات) کے گواہ رہیے کہ ہم ( اللہ تعالیٰ کے اور آپ کے) فرمانبردار ہیں ( پھر زیادت اہتمام و توثیق کے لئے اللہ تعالیٰ سے مناجات کی کہ) اے ہمارے رب ہم ایمان لائے ان چیزوں (یعنی ان احکام) پر جو آپ نے نازل فرمائیں اور پیروی اختیار کی ہم نے ( ان) رسول کی سو ( ہمارا ایمان قبول فرماکر) ہم کو ان لوگوں کے ساتھ لکھ دیجیے جو (مضامین مذکورہ کی) تصدیق کرتے ہیں ( یعنی مومنین کاملین کے زمرہ میں ہمارا بھی شمار فرمایے) ۔- معارف و مسائل - (قال الحواریون) لفظ حواری، حور سے ماخوذ ہے جس کے معنی لغت میں سفیدی کے ہیں، اصطلاح میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مخلص ساتھیوں کو ان کے اخلاص اور صفائی قلب کی وجہ سے یا ان کی سفید پوشاک کی وجہ سے حواری کا لقب دیا گیا ہے۔ جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں کو صحابی کے لقب سے ملقب کیا گیا ہے۔ بعض مفسرین نے حواریین کی تعداد بارہ بتلائی ہے، اور کبھی لفظ حواری مطلقا مددگار کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے، اسی معنی سے ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ ہر نبی کا کوئی حواری یعنی مخلص ساتھی ہوتا ہے، میرے حواری زبیر ہیں ( تفسیر قرطبی) ۔- فائدہ مہمہ - اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو جب لوگوں کا کفر اور مخالفت محسوس ہوئی اس وقت مددگاروں کی تلاش ہوئی تو فرمایا ( من انصاری) ابتداء میں نبوت کا منصبی کام اور دعوت شروع کرتے وقت تنہا ہی تعمیل حکم کے لئے کھڑے ہوگئے تھے، پہلے سے کسی پارٹی یا جماعت بنانے کی فکر میں نہیں پرے، جب ضرورت پیش آئی تو جماعت سی بن گئ۔ غور کیا جائے تو ہر کام ایسے ہی عزت و ہمت کو چاہتا ہے۔
فَلَمَّآ اَحَسَّ عِيْسٰى مِنْھُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللہِ ٠ ۭ قَالَ الْحَـوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللہِ ٠ ۚ اٰمَنَّا بِاللہِ ٠ ۚ وَاشْہَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ ٥٢- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- حسس - فحقیقته : أدركته بحاستي، وأحست مثله، لکن حذفت إحدی السینین تخفیفا نحو : ظلت، وقوله تعالی: فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسى مِنْهُمُ الْكُفْرَ [ آل عمران 52]- ( ح س س )- احسستہ کے اصل معنی بھی کسی چیز کو محسوس کرنے کے ہیں اور احسنت بھی احسست ہی ہے مگر اس میں ایک سین کو تحقیقا حذف کردیا گیا ہے جیسا کہ ظلت ( میں ایک لام مخذوف ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسى مِنْهُمُ الْكُفْرَ [ آل عمران 52] جب عیسٰی ( (علیہ السلام) ) نے ان کی طرف سے نافرمانی ( اور نیت قتل ) دیکھی ۔- عيسی - عِيسَى اسم علم، وإذا جعل عربيّا أمكن أن يكون من قولهم : بعیر أَعْيَسُ ، وناقة عَيْسَاءُ ، وجمعها عِيسٌ ، وهي إبل بيض يعتري بياضها ظلمة، أو من الْعَيْسِ وهو ماء الفحل يقال : عَاسَهَا يَعِيسُهَا - ( ع ی س ) یہ ایک پیغمبر کا نام اور اسم علم ہے اگر یہ لفظ عربی الاصل مان لیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ یہ اس عیس سے ماخوذ ہو جو کہ اعیس کی جمع ہے اور اس کی مؤنث عیساء ہے اور عیس کے معنی ہیں سفید اونٹ جن کی سفیدی میں قدرے سیاہی کی آمیزش ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے عیس سے مشتق ہو جس کے معنی سانڈ کے مادہ منو یہ کے ہیں اور بعیر اعیس وناقۃ عیساء جمع عیس اور عاسھا یعسھا کے معنی ہیں نر کا مادہ سے جفتی کھانا ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- حوَّارَى- والحَوَارِيُّونَ أنصار عيسى صلّى اللہ عليه وسلم، قيل :- کانوا قصّارین «1» ، وقیل : کانوا صيّادین، وقال بعض العلماء : إنّما سمّوا حواريّين لأنهم کانوا يطهّرون نفوس النّاس بإفادتهم الدّين والعلم المشار إليه بقوله تعالی: إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب 33] ، قال : وإنّما قيل : کانوا قصّارین علی التّمثیل والتشبيه، وتصوّر منه من لم يتخصّص بمعرفته الحقائق المهنة المتداولة بين العامّة، قال : وإنّما کانوا صيّادین لاصطیادهم نفوس النّاس من الحیرة، وقودهم إلى الحقّ ، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «الزّبير ابن عمّتي وحواريّ» وقوله صلّى اللہ عليه وسلم : «لكلّ نبيّ حَوَارِيٌّ وحواريّ الزّبير» فتشبيه بهم في النّصرة حيث قال : مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ : نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف 14] .- عیسیٰ (علیہ السلام) کے انصار واصحاب کو حواریین کہاجاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ قصار یعنی دھوبی تھے ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ ان کو حواری اسلئے کہاجاتا ہے کہ وہ لوگوں کو علمی اور دینی فائدہ پہنچا کر گناہوں کی میل سے اپنے آپ کو پا کرتے تھے ۔ جس پاکیزگی کی طرف کہ آیت :۔ إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب 33] میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ اس بنا پر انہیں تمثیل اور تشبیہ کے طور پر قصار کہہ دیا گیا ہے ورنہ اصل میں وہ ہوبی پن کا کام نہیں کرتے تھے اور اس سے شخص مراد لیا جاتا ہے جو معرفت حقائق کی بنا پر عوام میں متداول پیشوں میں سے کوئی پیشہ اختیار نہ کرے اسی طرح ان کو صیاد اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو حیرت سے نکال کر حق کیطرف لاکر گویا ان کا شتکار کرتے تھے ۔ آنحضرت نے حضرت زبیر کے متعلق فرمایا (102) الزبیر ابن عمتی وحوادی ۔ کہ زبیر میرا پھوپھی زاد بھائی اور حواری ہے نیز فرمایا (103) لکل بنی حواری الزبیر ۔ کہ ہر نبی کا کوئی نہ کوئی حواری رہا ہے اور میرا حواری زبیر ہے ۔ اس روایت میں حضرت زبیر کا حواری کہنا محض نصرت اور مدد کے لحاظ سے ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تھا ۔ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ : نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف 14] بھلاکون ہیں جو خدا کی طرف ( بلانے میں ) میرے مددگار ہوں ۔ حواریوں نے کہا ہم خدا کے مددگا ہیں ۔- سلم - والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . - والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین :- أحدهما : دون الإيمان،- وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] .- والثاني : فوق الإيمان،- وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] ،- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ - شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں - کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔
(٥٢۔ ٥٣) سو جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان منکرین کی طرف سے اپنے قتل کی سازش محسوس کی یا یہ کہ ان کے انکار حق کو دیکھا تو بولے کچھ آدمی ایسے بھی ہیں جو دین حق اور کفر کے ابطال میں میرے رفیق و مددگار ہوں ؟ تب بار و مخلص آدمی بول اٹھے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کے دشمنوں کے مقابلے میں ہم آپ کے مددگار ہیں، اور آپ اے عیسیٰ (علیہ السلام) ہمارے اقرار عبادت اور توحید پر گواہ رہیے، اے ہمارے پروردگار ہم (دیگر تمام آسمانی کتابوں اور) خصوصا انجیل پر ایمان لائے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے سچے دین کی پیروی کی۔- سوہ میں ان سابقین اولین کے ساتھ لکھ دیجیے جنہوں نے ہم سے پہلے گواہی دی یا ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ تمہیں حق کی گواہی دینے میں سچے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے ساتھ شریک کردے۔
آیت ٥٢ (فَلَمَّآ اَحَسَّ عِیْسٰی مِنْہُمُ الْکُفْرَ ) (قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ ط) - یہاں پھر درمیانی عرصے کا ذکر چھوڑ دیا گیا ہے۔ بنی اسرائیل کو دعوت دیتے ہوئے حضرت مسیح ( علیہ السلام) کو کئی سال بیت چکے تھے۔ اس دعوت سے جب علماء یہود کی مسندوں کو خطرہ لاحق ہوگیا اور ان کی چودھراہٹیں خطرے میں پڑگئیں تو انہوں نے حضرت مسیح ( علیہ السلام) کی شدید مخالفت کی۔ اس وقت تک یہودیوں پر ان کے علماء کا اثر ورسوخ بہت زیادہ تھا۔ جب آپ ( علیہ السلام) نے ان کی طرف سے کفر کی شدت کو محسوس کیا کہ اب یہ ضد اور مخالفت پر تل گئے ہیں۔ تو آپ ( علیہ السلام) نے ایک پکار لگائی ‘ ایک ندا دی ‘ ایک دعوت عام دی کہ کون ہیں جو اللہ کی راہ میں میرے مددگار ہیں ؟ یعنی اب جو کشاکش ہونے والی ہے ‘ جو تصادم ہونے والا ہے اس میں ایک حزب اللہ بنے گی اور ایک حزب الشیطان ہوگی۔ اب کون ہے جو میرا مددگار ہو اللہ کی راہ میں اس جدوجہد اور کشاکش میں ؟ دین کا کام کرنے کے لیے یہی اصل اساس ہے۔ اسی بنیاد پر کوئی شخص اٹھے کہ میں دین کا کام کرنا چاہتا ہوں ‘ کون ہے کہ جو میرا ساتھ دے ؟ یہ جماعت سازی کا ایک بالکل طبعی طریقہ ہوتا ہے۔ ایک داعی اٹھتا ہے اور اس داعی پر اعتماد کرنے والے ‘ اس سے اتفاق کرنے والے لوگ اس کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ یہ لوگ ذاتی اعتبار سے اس کے ساتھی نہیں ہوتے ‘ اس کی حکومت اور سرداری قائم کرنے کے لیے نہیں ‘ بلکہ اللہ کی حکومت قائم کرنے کے لیے اور اللہ تعالیٰ کے دین کے غلبہ کے لیے اس کا ساتھ دیتے ہیں۔- (قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَار اللّٰہِ ج) - حواری کے اصل معنی دھوبی کے ہیں جو کپڑے کو دھو کر صاف کردیتا ہے۔ یہ لفظ پھر آگے بڑھ کر اپنے اخلاق اور کردار کو صاف کرنے والوں کے لیے استعمال ہونے لگا۔ حضرت مسیح ( علیہ السلام) کی تبلیغ زیادہ تر گلیلی جھیل کے کناروں پر ہوتی تھی ‘ جو سمندر کی طرح بہت بڑی جھیل ہے۔ آپ ( علیہ السلام) کبھی وہاں کپڑے دھونے والے دھوبیوں میں تبلیغ کرتے تھے اور کبھی مچھلیاں پکڑنے والے مچھیروں کو دعوت دیتے تھے۔ آپ ( علیہ السلام) ان سے فرمایا کرتے تھے کہ اے مچھلیوں کا شکار کرنے والو آؤ ‘ میں تمہیں انسانوں کا شکار کرنا سکھاؤں۔ آپ ( علیہ السلام) نے دھوبیوں میں تبلیغ کی تو ان میں سے کچھ لوگوں نے اپنے آپ کو پیش کردیا کہ ہم آپ کی جدوجہد میں اللہ کے مددگار بننے کو تیار ہیں۔ یہ آپ ( علیہ السلام) کے اوّلین ساتھی تھے جو حواری کہلاتے تھے۔ اس طرح حواری کا لفظ ساتھی کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :49 ” حواری“ کا لفظ قریب قریب وہی معنی رکھتا ہے جو ہمارے ہاں”انصار“ کا مفہوم ہے ۔ بائیبل میں بالعموم حواریوں کے بجائے ”شاگردوں“ کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ اور بعض مقامات پر انہیں رسول بھی کہا گیا ہے ۔ مگر رسول اس معنی میں کہ مسیح علیہ السلام ان کو تبلیغ کے لیے بھیجتے تھے ، نہ اس معنی میں کہ خدا نے ان کو رسول مقرر کیا تھا ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :50 دین اسلام کی اقامت میں حصہ لینے کو قرآن مجید میں اکثر مقامات پر”اللہ کی مدد کرنے“ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ یہ ایک تشریح طلب مضمون ہے ۔ زندگی کے جس دائرے میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی عطا کی ہے ، اس میں وہ انسان کو کفر یا ایمان ، بغاوت یا اطاعت میں سے کسی ایک راہ کے اختیار کرنے پر اپنی خدائی طاقت سے مجبور نہیں کرتا ۔ اس کے بجائے وہ دلیل اور نصیحت سے انسان کو اس بات کا قائل کرنا چاہتا ہے کہ انکار و نافرمانی اور بغاوت کی آزادی رکھنے کے باوجود اس کے لیے حق یہی ہے اور اس کی فلاح و نجات کا راستہ بھی یہی ہے کہ اپنے خالق کی بندگی و اطاعت اختیار کرے ۔ اس طرح فہمائش اور نصیحت سے بندوں کو راہ راست پر لانے کی تدبیر کرنا ، یہ دراصل اللہ کا کام ہے ۔ اور جو بندے اس کام میں اللہ کا ساتھ دیں ان کو اللہ اپنا رفیق و مددگار قرار دیتا ہے ۔ اور یہ وہ بلند سے بلند مقام ہے جس پر کسی بندے کی پہنچ ہو سکتی ہے ۔ نماز ، روزہ اور تمام اقسام کی عبادات میں تو انسان محض بندہ و غلام ہوتا ہے ۔ مگر تبلیغ دین اور اقامت دین کی جدوجہد میں بندے کو خدا کی رفاقت و مددگاری کا شرف حاصل ہوتا ہے جو اس دنیا میں روحانی ارتقا کا سب سے اونچا مرتبہ ہے ۔
22: حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے صحابہ کو حواری کہا جاتا ہے۔