ذٰلِكَ نَتْلُوْہُ عَلَيْكَ مِنَ الْاٰيٰتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِيْمِ ٥٨- تلو - تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] - ( ت ل و ) تلاہ ( ن )- کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔
(٥٨) ہم یہ اوامرو نواہی اور آیات قرآنیہ، بواسطہ جبریل امین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کرتے ہیں، اور یہ محکم (واضح) حلال و حرام جو کہ توریت وانجیل یہ یہ کہ لوح محفوظ کے موافق ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سناتے ہیں۔- شان نزول : (آیت) ” ذالک نتلوہ علیک “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے حضرت حسن (رض) سے روایت کیا ہے کہ نجران کے دو (عیسائی) راہب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے ایک میں سے بولا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے والد کون ہیں ؟ اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جواب دینے میں جلدی نہیں فرماتے تھے تاوقتیکہ وحی الہی نہ آجاتی، چناچہ اللہ نے (آیت) ” ذلک نتلوہ “۔ ممترین “۔ تک یہ آیات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائیں اور عوفی کے واسطہ سے ابن عباس (رض) سے اس طرح روایت نقل کی گئی ہے کہ نجران سے ایک جماعت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس میں ان کے سردار اور پیرو بھی تھے اور بولے کہ آپ ہمارے صاحب کا کیا تذکرہ کرتے ہیں، آپ نے فرمایا کون ہیں، وہ بولے عیسیٰ (علیہ السلام) آپ کا خیال ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جی ہاں وہ بولے کیا عیسیٰ (علیہ السلام) کو تم نے کوئی دیکھا ہے یا ان کے متعلق تمہیں کوئی اطلاع دی گئی ہے پھر اس کے بعد وہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے چلے گئے، اس کے بعد جبرئیل امین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ جب وہ تمہارے پاس آئیں تو ان سے کہہ دو کہ بیشک اللہ تعالیٰ کے نزدیک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی منفرد معجزاتی حالت کوئی نئی نہیں بلکہ ان کا معاملہ اس سے پہلے حضرت آدم (علیہ السلام) سے ملتا جلتا ہے کہ وہ ماں اور باپ دونوں کے بغیر پیدا ہوئے تھے ،- اور بیہقی (رح) نے دلائل میں بواسطہ سلمہ (رح) ، عبد یشوع (رح) اور ان کے والد سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت نازل ہونے سے قبل آپ نے اہل نجران کے پاس یہ لکھ کر روانہ کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) اسحاق، (علیہ السلام) یعقوب (علیہ السلام) کے اللہ کے نام سے یہ شروع کرتا ہوں اور نبی کریم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے ہے الخ، اور آپ نے ان کی طرف شرجیل بن دواعہ ہمدانی اور عبداللہ بن شرجیل جبار حرثی کو بھی روانہ کیا چناچہ ان حضرات نے ان سے جاکر بولے کہ آپ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے باے میں کیا فرماتے ہیں، آپ نے فرمایا ابھی تک میرے اوپر کوئی سورت وحی نازل نہیں ہوئی، اور میں بلا ہدایت ربانی کچھ کہتا نہیں، جس کی یہ لوگ اقتدا کریں لہٰذا یہ لوگ قیام کریں تاکہ میں ان کو وحی الہی سے آگاہ کردو، چناچہ اگلے دن صبح ہوگئی تب اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” ان مثل عیسیٰ “۔ سے کذبین “۔ تک یہ آیات نازل فرمائیں۔- اور ابن سعد نے طبقات میں ارزق بن قیس سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس نجران کا ایک راہب اور اس کے پیروآئے، آپ نے ان پر اسلام کو پیش کیا وہ بولے ہم تو آپ سے پہلے ہی سے مسلمان ہیں۔ آپ نے فرمایا جھوٹ بولتے ہو تمہیں اسلام قبول کرنے سے تین چیزوں نے روک رکھا ہے، تمہارا یہ کہنا کہ العیاذ باللہ اللہ تعالیٰ نے لڑکا بنا لیا ہے، تمہارا سور کا گوشت کھانا تیسرے بتوں کو سجدہ کرنا، وہ لاجواب ہوگئے اور آپ کو زچ کرنے کے لیے وہ بولے کہ پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے والد کون ہیں، آپ نے فی الحال بغیر وحی الہی کے ان کو کوئی جواب دینا مناسب نہ سمجھا تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ آیت نازل فرمائی اس کے بعد آپ نے ان کے لیے بلایا تو انہوں نے آنے سے انکار کردیا تو آپ نے اس طرح ان پر جزیہ لاگو کردیا اور وہ واپس ہوگئے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
یہاں بھی گویا پس منظر میں حضرت جبرائیل ( علیہ السلام) ہیں جو اللہ کی آیات اور ذکر حکیم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پڑھ کر سنا رہے ہیں۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :53 یعنی اگر محض اعجازی پیدائش ہی کسی کو خدا یا خدا کا بیٹا بنانے کے لیے کافی دلیل ہو تب تو پھر تمہیں آدم کے متعلق بدرجہ اولیٰ ایسا عقیدہ تجویز کرنا چاہیے تھا ، کیونکہ مسیح تو صرف بے باپ ہی کے پیدا ہوئے تھے ، مگر آدم ماں اور باپ دونوں کے بغیر پیدا ہوئے ۔