Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اختیارات کی وضاحت اور نجرانی وفد کی روداد حضرت باری جل اسمہ وعلا قدرہ اپنی قدرت کاملہ کا بیان فرما رہا ہے کہ حضرت عیسیٰ کا تو صرف باپ نہ تھا اور میں نے انہیں پیدا کر دیا تو کیا کون سی حیرانی بات ہے؟ میں نے حضرت آدم کو تو ان سے پہلے پیدا کیا تھا ان کا بھی باپ نہ تھا بلکہ ماں بھی نہ تھی ، مٹی سے پتلا بنایا اور کہدیا آدم ہو جا اسی وقت ہو گیا ، پھر میرے لئے صرف ماں سے پیدا کرنا کون سا مشکل ہو سکتا جبکہ بغیر ماں اور باپ کے بھی میں نے پیدا کر دیا ، پس اگر صرف باپ نہ ہونے کی وجہ سے حضرت عیسیٰ کو تو سب سے پہلے اس مرتبہ سے ہٹا دینا چاہئے ، کیونکہ ان کے دعوے کا جھوٹا ہونا اور خرابی اس سے بھی زیادہ یہاں ظاہر ہے یہاں ماں تو ہے وہاں تو نہ ماں تھی نہ باپ ، یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ جل جلالہ کی قدرت کاملہ کا ظہور ہے کہ آدم کو بغیر مرد و عورت کے پیدا کیا اور حوا کو صرف مرد سے بغیر عورت کے پیدا کیا ، اور عیسیٰ کو صرف عورت سے بغیر مرد کے پیدا کر دیا اور باقی مخلوق کو مرد و عورت سے پیدا کیا اسی لئے سورۃ مریم میں فرمایا ( وَلِنَجْعَلَهٗٓ اٰيَةً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا ۚ وَكَانَ اَمْرًا مَّقْضِيًّا ) 19 ۔ مریم:21 ) ہم نے عیسیٰ کو لوگوں کے لئے اپنی قدرت کا نشان بنایا اور یہاں فرمایا ہے ۔ عیسیٰ کے بارے میں اللہ کا سچا فیصلہ یہی ہے اس کے سوا اور کچھ کسی کمی یا زیادتی کی گنجائش ہی نہیں ہے کیونکہ حق کے بعد گمراہی ہی ہوتی ہے پس تجھے اے نبی ہرگز ان شکی لوگوں میں نہ ہونا چاہئے ، اللہ رب العالمین اس کے بعد اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ اگر اس قدر واضح اور کامل بیان کے بعد بھی کوئی شخص تجھ سے امر عیسیٰ کے بارے میں جھگڑے تو تو انہیں مباہلہ کی دعوت دے کہ ہم فریقین مع اپنے بیٹوں اور بیویوں کے مباہلہ کے لئے نکلیں اور اللہ جل شانہ سے عاجزی کے ساتھ کہیں کہ اے اللہ ہم دونوں میں جو بھی جھوٹا ہو اس پر تو اپنی لعنت نازل فرما ، اس مباہلہ کے نازل ہونے اور سورت کی ابتداء سے یہاں تک کی ان تمام آیتوں کے نازل ہونے کا سبب نجران کے نصاریٰ کا وفد تھا یہ لوگ یہاں آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے ، ان کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ حکمرانی کے حصہ دار اور اللہ جل شانہ کے بیٹے ہیں پس ان کی تردید اور ان کے جواب میں یہ سب آیتیں نازل ہوئیں ، ابن اسحاق اپنی مشہور عام سیرت میں لکھتے ہیں ان کے علاوہ دوسرے مؤرخین نے بھی اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ نجران کے نصرانیوں نے بطور وفد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے ساٹھ آدمی بھیجے تھے جن میں چودہ شخص ان کے سردار تھے جن کے نام یہ ہیں ، عاقب جس کا نام عبدالمسیح تھا ، سید جس کا نام ایہم تھا ، ابو حارثہ بن علقمہ جو بکر بن وائل کا بھائی تھا ، اور اوث بن حارث ، زید ، قیس ، یزید اور اس کے دونوں لڑکے ، اور خویلد اور عمرو ، خالد ، عبداللہ اور محسن یہ سب چودہ سردار تھے لیکن پھر ان میں بڑے سردار تین شخص تھے عاقب جو امیر قوم تھا اور عقلمند سمجھا جاتا تھا اور صاحب مشورہ تھا اور اسی کی رائے پر یہ لوگ مطمئن ہو جاتے تھے اور سید جو ان کا لاٹ پادری تھا اور مدرس اعلیٰ تھا یہ بنوبکر بن وائل کے عرب قبیلے میں سے تھا لیکن نصرانی بن گیا تھا اور رومیوں کے ہاں اس کی بڑی آؤ بھگت تھی اس کے لئے انہوں نے بڑے بڑے گرجے بنا دئیے تھے اور اس کے دین کی مضبوطی دیکھ کر اس کی بہت کچھ خاطر و مدارات اور خدمت و عزت کرتے رہتے تھے یہ شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت و شان سے واقف تھا اور اگلی کتابوں میں آپ کی صفتیں پڑھ چکا تھا دل سے آپ کی نبوت کا قائل تھا لیکن نصرانیوں میں جو اس کی تکریم و تعظیم تھی اور وہاں جو جاہ و منصب اسے حاصل تھا اس کے چھن جانے کے خوف سے راہ حق کی طرف نہیں آتا تھا ، غرض یہ وفد مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مسجد نبوی میں حاضر ہوا آپ اس وقت عصر کی نماز سے فارغ ہو کر بیٹھے ہی تھے یہ لوگ نفیس پوشاکیں پہنے ہوئے اور خوبصورت نرم چادریں اوڑھے ہوئے تھے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے بنو حارث بن کعب کے خاندان کے لوگ ہوں صحابہ کہتے ہیں ان کے بعد ان جیسا باشوکت وفد کوئی نہیں آیا ، ان کی نماز کا وقت آگیا تو آپ کی اجازت سے انہوں نے مشرق کی طرف منہ کر کے مسجد نبوی میں ہی اپنے طریق پر نماز ادا کر لی ۔ بعد نماز کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی گفتگو ہوئی ادھر سے بولنے والے یہ تین شخص تھے حارثہ بن علقمہ عاقب یعنی عبدالمسیح اور سید یعنی ایہم یہ گو شاہی مذہب پر تھے لیکن کچھ امور میں اختلاف رکھتے تھے ۔ حضرت مسیح کی نسبت ان کے تینوں خیال تھے یعنی وہ خود اللہ جل شانہ ہے اور اللہ کا لڑکا ہے اور تین میں کا تیسرا ہے اللہ ان کے اس ناپاک قول سے مبرا ہے اور بہت ہی بلند و بالا ، تقریباً تمام نصاریٰ کا یہی عقیدہ ہے ، مسیح کے اللہ ہونے کی دلیل تو ان کے پاس یہ تھی کہ وہ مردوں کو زندہ کر دیتا تھا اور اندھوں اور کوڑھیوں اور بیماروں کو شفا دیتا تھا ، غیب کی خبریں دیتا تھا اور مٹی کی چڑیا بنا کر پھونک مار کر اڑا دیا کرتا تھا اور جواب اس کا یہ ہے کہ یہ ساری باتیں اس سے اللہ کے حکم سے سرزد ہوتی تھیں اس لئے کہ اللہ کی نشانیاں اللہ کی باتوں کے سچ ہونے پر اور حضرت عیسیٰ کی نبوت پر مثبت دلیل ہو جائیں ، اللہ کا لڑکا ماننے والوں کی حجت یہ تھی کہ ان کا بہ ظاہر کوئی باپ نہ تھا اور گہوارے میں ہی بولنے لگے تھے ، یہ باتیں بھی ایسی ہیں کہ ان سے پہلے دیکھنے میں ہی نہیں آئی تھیں ( اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بھی اللہ کی قدرت کی نشانیاں تھیں تاکہ لوگ اللہ کو اسباب کا محکوم اور عادت کا محتاج نہ سمجھیں وغیرہ ۔ مترجم ) اور تین میں تیسرا اس لئے کہتے تھے کہ اس نے اپنے کلام میں فرمایا ہے ہم نے کیا ہمارا امر ہماری مخلوق ہم نے فیصلہ کیا وغیرہ پس اگر اللہ اکیلا ایک ہی ہوتا تو یوں نہ فرماتا بلکہ فرماتا میں نے کیا میرا امر میری مخلوق میں نے فیصلہ کیا وغیرہ پس ثابت ہوا کہ اللہ تین ہیں خود اللہ رب کعبہ اور عیسیٰ اور مریم ( جس کا جواب یہ ہے کہ ہم کا لفظ صرف بڑائی کے لئے اور عظمت کے لئے ہے ۔ مترجم ) اللہ تعالیٰ ان ظالموں منکروں کعے قول سے پاک و بلند ہے ، ان کے تمام عقائد کی تردید قرآن کریم میں نازل ہوئی ، جب یہ دونوں پادری حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بات چیت کر چکے تو آپ نے فرمایا تم مسلمان ہو جاؤ انہوں نے کہا ہم تو ماننے والے ہیں ہی ، آپ نے فرمایا نہیں نہیں تمہیں چاہئے کہ اسلام قبول کر لو وہ کہنے لگے ہم تو آپ سے پہلے کے مسلمان ہیں فرمایا نہیں تمہارا یہاسلامق بول نہیں اس لئے کہ تم اللہ کی اولاد مانتے ہو صلیب کی پوجا کرتے ہو خنزیر کھاتے ہو ۔ انہوں نے کہا اچھا پھر یہ تو فرمائے کہ حضرت عیسیٰ کا باپ کون تھا ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو اس پر خاموش رہے اور سورۃ آل عمرانھ کی شروع سے لے کر اوپر تک کی آیتیں ان کے جواب میں نازل ہوئیں ، ابن اسحاق ان سب کی مختصر سی تفسیر بیان کر کے پھر لکھتے ہیں آپ نے یہ سب تلاوت کر کے انہیں سمجھا دیں ۔ اس مباہلہ کی آیت کو پڑھ کر آپ نے فرمایا اگر نہیں مانتے تو آؤ مباہلہ کا نکلو یہ سن کر وہ کہنے لگے اے ابو القاسم ہمیں مہلت دیجئے کہ ہم آپس میں مشورہ کرلیں پھر تمہیں اس کا جواب دیں گے اب تنہائی میں بیٹھ کر انہوں نے عاقب سے مشورہ لیا جو بڑا دانا اور عقلمند سمجھا جاتا تھا اس نے اپنا حتمی فیصلہ ان الفاظ میں سنایا کہ اے جماعت نصاریٰ تم نے یقین کے ساتھ اتنا تو معلوم کر لیا ہے کہ حضرت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے سچے رسول ہیں اور یہ بھی تم جانتے ہو کہ حضرت عیسیٰ کی حقیت وہی ہے جو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زبانی تم سن چکے ہو اور تمہیں بخوبی علم ہے کہ جو قوم نبی کے ساتھ ملاعنہ کرتی ہے نہ ان کے بڑے باقی رہتے ہیں نہ چھوٹے بڑے ہوتے ہیں بلکہ سب کے سب جڑ بنیاد سے اکھیڑ کر پھینک دئیے جاتے ہیں یاد رکھو کہ اگر تم نے مباہلہ کے لئے قدم بڑھایا تو تمہارا ستیاناس ہو جائے گا ، پس یا تو تم اسی دین کو قبول کر لو اور اگر کسی طرح نہیں ماننا چاہتے ہو اور اپنے دین پر اور حضرت عیسیٰ کے متعلق اپنے ہی خیالات پر قائم رہنا چاہتے ہو تو آپ سے صلح کر لو اور اپنے وطن کو لوٹ جاؤ ، چنانچہ یہ لوگ صلاح مشورہ کر کے پھر دربار نبوی میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے اے ابو القاسم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم آپ سے ملاعنہ کرنے کے لئے تیار نہیں آپ اپنے دین پر رہئے اور ہم اپنے خیالات پر ہیں لیکن آپ ہمارے ساتھ اپنے صحابیوں میں سے کیسی ایسے شخص کو بھیج دیجئے جن سے آپ خوش ہوں کہ وہ ہمارے مالی جھگڑوں کا ہم میں فیصلہ کر دیں آپ لوگ ہماری نظروں میں بہت ہی پسندیدہ ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا تم دوپہر کو پھر آنا میں تمہارے ساتھ کسی مضبوط امانت دار کو کر دوں گا ، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے کسی دن بھی سردار بننے کی خواہش نہیں کی لیکن اس دن صرف اس خیال ہے سے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تعریف کی ہے اس کا تصدیق کرنے والا اللہ کے نزدیک میں بن جاؤں ، اسی لئے میں اس روز سویرے سویرے ظہر کی نماز کے لئے چل پڑا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے نماز ظہر پڑھائی پھر دائیں بائیں نظریں دوڑانے لگے میں بار بار اپنی جگہ اونچا ہوتا تھا تاکہ آپ کی نگاہیں مجھ پر پڑھیں ، آپ برابر بغور دیکھتے ہی رہے یہاں تک کہ نگاہیں حضرت ابو عبید بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر پڑیں انہیں طلب فرمایا اور کہا کہ ان کے ساتھ جاؤ اور ان کے اختلافات کا فیصلہ حق سے کر دو چنانچہ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے ساتھ تشریف لے گئے ابن مردویہ میں بھی یہ واقعہ اسی طرح منقول ہے لیکن وہاں سرداروں کی گنتی بارہ کی ہے اور اس واقعہ میں بھی قدرے طوالت ہے اور کچھ زائد باتیں بھی ہیں ، صحیح بخاری شریف میں بروایت حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی ہے نجرانی سردار عاقب اور سید مباحلہ کے ارادے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے لیکن ایک نے دوسرے سے کہا یہ نہ کر اللہ کی قسم اگر یہ نبی ہیں اور ہم نے ان سے مباہلہ کیا تو ہم اپنی اولادوں سمیت تباہ ہو جائیں گے چنانچہ پھر دونوں نے متفق ہو کر کہا حضرت آپ ہم سے جو طلب فرماتے ہیں ہم وہ سب ادا کر دیں گے ( یعنی جزیہ دینا قبول کر لیا ) آپ کسی امین شخص کو ہمارے ساتھ کر دیجئے اور امین کو ہی بھیجنا ، آپ نے فرمایا بہتر میں تمہارے ساتھ کامل امین کو ہی کروں گا اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک دوسرے کو تکنے لگے یہ دیکھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کس کا انتخاب کرتے ہیں آپ نے فرمایا اے ابو عبیدہ بن جراح تم کھڑے ہو جاؤ جب یہ کھڑے ہوئے تو آپ نے فرمایا یہ ہیں اس امت کے امین ، صحیح بخاری شریف کی اور حدیث میں ہے ہر امت کا امین ہوتا ہے اور اس امت کا امین ابو عبیدہ بن جراح ہے ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) مسند احمد میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ابو جہل ملعون نے کہا ۔ اگر میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو کعبہ میں نماز پڑھتے دیکھ لوں گا تو اس کی گردن کچل دوں گا فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اگر وہ ایسا کرتا تو سب کے سب دیکھتے کہ فرشتے اسے دبوچ لیتے ، اور یہودیوں سے جب قرآن نے کہا تھا کہ آؤ جھوٹوں کے لئے موت مانگو اگر وہ مانگتے تو یقینا سب کے سب مر جاتے اور اپنی جگہیں جہنم کی آگ میں دیکھ لیتے اور جن نصرانیوں کو مباہلہ کی دعوت دی گئی تھی اگر وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں مباہلے کے لئے نکلتے تو لوٹ کر اپنے مالوں کو اور اپنے بال بچوں کو نہ پاتے ، صحیح بخاری ترمذی اور نسائی میں بھی یہ حدیث ہے ، امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں ، امام بیہقی نے اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں بھی وفد بحران کے قصے کو طویل تر بیان کیا ہے ، ہم اسے یہاں نقل کرتے ہیں کیونکہ اس میں بہت سے فوائد ہیں گو اس میں غرابت بھی ہے اور اس مقام سے وہ نہایت مناسبت رکھتا ہے ، سلمہ بن عبدیسوع اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں جو پہلے نصرانی تھے پھر مسلمان ہوگئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ طس قرآن میں نازل ہونے سے پیشتر اہل نجران کو نامہ مبارک لکھا جس کی عبارت یہ تھی بسم الہ ابراہیم واسحاق ویعقوب من محمد النبی رسول اللہ الی اسقف نجران واھل نجران اسلم انتم فانی احمد الیکم الہ ابراہیم واسحاق ویعقوب ۔ امام بعد فانی ادعوکم الی عبادۃ اللہ من عبادۃ العباد وادعوکم الی ولایتہ اللہ من ولایتہ العباد فان اییتم فالجزیتہ فان ابیتم فقد اذنتکم بحرب والسلام یعنی اس خط کو میں شروع کرتا ہوں حضرت ابراہیم حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب کے اللہ تعالیٰ کے نام سے ، یہ خط ہے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف سے جو اللہ رب العزت کے نبی اور رسول نجران کے سردار کی طرف ہیں اللہ تعالیٰ کی تمہارے سامنے حمدو ثناء بیان کرتا ہوں جو حضرت ابراہیم ، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب کا معبود ہے ، پھر میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ بندوں کی عبادت کو چھوڑ کر اللہ کی عبادت کی طرف آؤ اور بندوں کے والی اپنے کو چھوڑ کر اللہ کی ولایت کی طرف آجاؤ ، اگر تم اسے نہ مانو تو جزیہ دو اور ماتحتی اختیار کرو اگر اس سے بھی انکار ہو تو تمہیں لڑائی کا اعلان ہے والسلام ، جب یہ خط اسقف کو پہنچا اور اس نے اسے پڑھایا تو بڑا سٹ پٹایا گھبرا گیا اور تھرانے لگا ، جھٹ سے شرحیل بن وداعہ کو بلوایا جو ہمدان قبیلہ کا تھا سب سے بڑا مشیر سلطنت یہی تھا جب کبھی کوئی اہم کام آپڑتا تو سب سے پہلے یعنی ایہم اور سید اور عاقب سے بھی پیشر اس سے مشورہ ہوتا جب یہ آگیا تو اسقف نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خط اسے دیا جب اس نے پڑھ لیا تو اسقف نے پوچھا بتاؤ کیا خیال ہے؟ شرحیل نے کہا بادشاہ کو خوب علم ہے کہ حضرت اسماعیل کو اولاد میں سے اللہ کے ایک نبی کے آنے کا وعدہ اللہ کی کتاب میں ہے کیا عجب کہ وہ نبی یہی ہو ، امر نبوت میں کیا رائے دے سکتا ہوں ہاں اگر امور سلطنت کی کوئی بات ہوتی تو بیشک میں اپنے دماغ پر زور ڈال کر کوئی بات نکال لیتا ، اسقف نے انہیں تو الگ بٹھا دیا اور عبداللہ بن شرحیل کو بلایا یہ بھی مشیر سلطنت تھا اور حمیر کے قبیلے میں سے تھا اسے خط دیا پڑھایا رائے پوچھی تو اس نے بھی ٹھیک وہی بات کہی جو پہلا مشیر کہہ چکا تھا اسے بھی بادشاہ نے دور بٹھا دیا پھر جبار بن فیض کو بلایا جو بنو حارث میں سے تھا اس نے بھی یہی کہا جو ان دونوں نے کہا تھا ، بادشاہ نے جب دیکھا کہ ان تینوں کی رائے متفق ہے تو حکم دیا گیا کہ ناقوس بجائے جائیں آگ جلا دی جائے اور گرجوں میں جھنڈے بلند کر دئیے جائیں وہاں کا یہ دستور تھا کہ جب سلطنت کا کوئی اہم کام ہوتا تو رات کو جمع کرنا مقصود ہوتا تو یہی کرتے اور اگر دن کا وقت ہوتا تو گرجوں میں آگ جلا دی جاتی اور ناقوس زور زور سے بجائے جاتے ، اس حکم کے ہوتے ہی چاروں طرف آگ جلا دی گئی اور ناقوس کی آواز نے ہر ایک کو ہوشیار کر دیا اور جھنڈے اونچے دیکھ دیکھ کر آس پاس کے وادی کے تمام لوگ جمع ہوگئے اس وادی کا طول اتنا تھا کہ تیز سوار صبح سے شام تک دوسرے کنارے پہنچتا تھا اس میں تہتر گاؤں آباد تھے اور ایک لاکھ بیس ہزار تلوار چلانے والے یہاں آباد تھے جب یہ سب لوگ آگئے تو اسقف نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک پڑھ کر سنایا اور پوچھا بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ تو تمام عقلمندوں نے کہا کہ شرحیل بن وداعہ ہمدانی عبداللہ بن شرحیل اصبحی اور جبار بن فیض حارثی کو بطور وفد کے بھیجا جائے ، یہ وہاں سے پختہ خبر لائیں ، اب یہاں سے یہ وفد ان تینوں کی سرداری کے ماتحت روانہ ہوا مدینہ پہنچ کر انہوں نے سفری لباس اتار ڈالا اور نقش بنے ہوئے ریشمی لمبے لمبے حلے پہن لئے اور سونے کی انگوٹھیاں انگلیوں میں ڈال لیں اور اپنی چادروں کے پلے تھامے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، سلام کیا لیکن آپ نے جواب نہ دیا بہت دیر تک انتظار کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کچھ بات کریں لیکن ان ریشمی حلوں اور سونے کی انگوٹھیوں کی وجہ سے آپ نے ان سے کلام بھی نہ کیا اب یہ لوگ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تلاش میں نکلے اور ان دونوں بزرگوں سے ان کی پہلی ملاقات تھی مہاجرین اور انصار کے ایک مجمع میں ان دونوں حضرات کو پا لیا ان سے واقعہ بیان کیا تمہارے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہمیں خط لکھا ہم اس کا جواب دینے کے لئے خود حاضر ہوئے آپ کے پاس گئے سلام کیا لیکن جواب نہ دیا پھر بہت دیر تک انتظار میں بیٹھے رہے کہ آپ سے کچھ باتیں ہو جاتیں لیکن آپ نے ہم سے کوئی بات نہ کی آخر ہم لوگ تھک کر چلے آئے اب آپ حضرات فرمائے کہ کیا ہم یونہی واپس چلے جائیں ، ان دونوں نے حضرت علی بن ابو طالب سے کہا کہ آپ ہی انہیں جواب دیجئے حضرت علی نے فرمایا میرا خیال ہے کہ یہ لوگ اپنے حلے اور اپنی انگوٹھیاں اتار دیں اور وہی سفری معمولی لباس پہن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دوبارہ جائیں چنانچہ انہوں نے یہی کیا اور اسی معمولی لباس میں گئے سلام کیا آپ نے جواب دیا پھر فرمایا اس اللہ کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے یہ جب میرے پاس پہلی مرتبہ آئے تھے تو ان کے ساتھ ابلیس تھا ، اب سوال جواب بات چیت شروع ہوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی پوچھتے تھے اور وہ جواب دیتے تھے اسی طرح وہ بھی سوال کرتے اور جواب پاتے ، آخر میں انہوں نے پوچھا آپ حضرت عیسیٰ کی بابت کیا فرماتے ہیں؟ تاکہ ہم اپنی قوم کے پاس جا کر وہ کہیں ہمیں اس کی خوشی ہے کہ اگر آپ نبی ہیں تو آپ کی زبانیں سنیں کہ آپ کا ان کی بابت کیا خیال ہے؟ تو آپ نے فرمایا میرے پاس اس کا جواب آج تو نہیں تم ٹھہرو تو میرا رب مجھ سے اس کی بابت جو فرمائے گا وہ میں تمہیں سنا دوں گا ، دوسرے دن وہ پھر آئے تو آپ نے اسی وقت کی اتری ہوئی اس آیت ( اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ ۭخَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ 59؀ اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِيْنَ 60؀ فَمَنْ حَاۗجَّكَ فِيْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَاۗءَنَا وَاَبْنَاۗءَكُمْ وَنِسَاۗءَنَا وَنِسَاۗءَكُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَكُمْ ۣ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَي الْكٰذِبِيْنَ 61؀ ) 3 ۔ آل عمران:59-60-61 ) تلاوت کر سنائی انہوں نے اس بات کا اقرار کرنے سے انکار کر دیا ، دوسرے دن صبح ہی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملاعنہ کے لئے حضرت حسن کو اور حضرت حسین کو اپنی چادر میں لئے ہوئے تشریف لائے پیچھے پیچھے حضرت فاطمہآرہی تھیں اس وقت آپ کی کئی ایک بیویاں تھیں ، شرحیل یہ دیکھتے ہی اپنے دونوں ساتھیوں سے کہنے لگا تم جانتے ہو کہ نجران کی ساری وادی میری بات کو مانتی ہے اور میری رائے پر کاربند ہوتی ہے ، سنو اللہ کی قسم یہ معاملہ بڑا بھاری ہے اگر یہ شخص ( صلی اللہ علیہ وسلم ) مبعوث کیا گیا ہے تو سب سے پہلے اس کی نگاہوں میں ہم ہی مطعون ہوں گے اور سب سے پہلے اس کی تردید کرنے والے ہم ہی ٹھہریں گے یہ بات اس کے اور اس کے ساتھیوں کے دلوں میں نہیں جائے گی اور ہم پر کوئی نہ کوئی مصیبت و آفت آئے گی عرب بھر میں سب سے زیادہ قریب ان سے میں ہی ہوں اور سنو اگر یہ شخص بنی مرسل ہے تو مباہلہ کرتے ہی روئے زمین پر ایک بال یا ایک ناخن بھی ہمارا نہ رہے گا ، اس کے دونوں ساتھیوں نے کہا پھر اے ابو ویہم آپ کی کیا رائے ہے؟ اس نے کہا میری رائے یہ ہے کہ اسی کو ہم حاکم بنا دیں جو کچھ یہ حکم دے ہم اسے منظور کرلیں یہ کبھی بھی خلاف عدل حکم نہ دے گا ، ان دونوں نے اس بات کو تسلیم کر لیا ، اب شرجیل نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں اس ملاعنہ سے بہتر چیز جناب کے سامنے پیش کرتا ہوں آپ نے دریافت فرمایا وہ کیا ؟ کہا آج کا دن آنے والی رات اور کل کی صبح تک آپ ہمارے بارے میں جو حکم کریں ہمیں منظور ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید اور لوگ تمہارے اس فیصلے کو نہ مانیں ، شرحیل نے کہا اس کی بابت میرے ان دونوں ساتھیوں سے دریافت فرما لیجئے آپ نے ان دونوں سے پوچھا انہوں نے جواب دیا کہ سارے وادی کے لوگ انہی کی رائے پر چلتے ہیں وہاں ایک بھی ایسا نہیں جو ان کے فیصلے کو ٹال سکے ، پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ درخواست قبول فرمائی ۔ مباہلہ نہ کیا اور واپس لوٹ گئے دوسرے دن صبح ہی وہ حاضر خدمت ہوئے تو آپ نے ایک تحریر انہیں لکھ دی کہ جس میں بسم اللہ کے بعد یہ مضمون تھا کہ تحریر اللہ کے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نجرانیوں کے لئے ہے ان پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم جاری تھا ہر پھل ، ہر سیاہ و سفید اور ہر غلام پر لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب انہی کو دیتے ہیں یہ ہر سال صرف دو ہزار حلے دے دیا کریں ایک ہزار رجب میں اور ایک ہزار صفر میں وغیرہ وغیرہ ، پورا عہد نامہ انہیں عطا فرمایا ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ وفد سن٩ ہجری میں آیا تھا اس لئے کہ حضرت زہری فرماتے ہیں سب سے پہلے جزیہ انہی اہل نجران نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کیا ، اور جزیہ کی آیت فتح مکہ کے بعد اتری ہے جو یہ ہے ( قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ ) 9 ۔ التوبہ:29 ) اس آیت میں اہل کتاب سے جزیہ لینے کا حکم ہوا ہے ، ابن مردویہ میں ہے کہ عاقب اور طیب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آپ نے انہیں ملاعنہ کے لئے کہا اور صبح کو حضرت علی اور حضرت فاطمہ اور حضرت حسن اور حضرت حسین کو لئے ہوئے آپ تشریف لائے اور انہیں کہلا بھیجا انہوں نے قبول نہ کیا اور خراج دینا منظور کر لیا ، آپ نے فرمایا اس کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے اگر یہ دونوں نہیں کہتے تو ان پر یہی وادی آگ برساتی ، حضرت جابر فرماتے ہیں ندع ابنائنا الخ ، والی آیت انہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے انفسنا سے مراد خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی ابنائنا سے مراد حسن اور حسین نسائنا سے مراد حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہ مستدرک حاکم وغیرہ میں بھی اس معنی کی حدیث مروی ہے ۔ پھر جناب باری کا ارشاد ہے یہ جو ہم نے عیسیٰ کی شان فرمائی ہے حق اور سچ ہے اس میں بال برابر کمی بیشی نہیں ، اللہ قابل عبادت ہے کوئی اور نہیں اور وہی غلبہ والا اور حکمت والا ہے ، اب بھی اگر یہ منہ پھیر لیں اور دوسری باتوں میں پڑیں تو اللہ بھی ایسے باطل پسندوں کو اور مفسدوں کو بخوبی جانتا ہے انہیں بدترین سزا دے گا اس میں پوری قدرت ہے کوئی اس سے نہ بھاگ سکے نہ اس کا مقابلہ کر سکے ، وہ پاک ہے اور تعریفوں والا ہے ہم اس کے عذاب سے اسی کی پناہ چاہتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٥] اس آیت سے عیسائیوں کے عقیدہ الوہیت مسیح کی تردید کا آغاز ہو رہا ہے۔ ٨ ھ کے آواخر میں مکہ فتح ہوگیا تو ٩ ھ میں وفود عرب کی مدینہ میں آمد شروع ہوگئی۔ ان میں کچھ لوگ تو اسلام قبول کرنے آتے تھے اور کچھ اسلام کی باتیں سیکھنے کے لیے۔ چناچہ اسی زمانہ میں نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد بھی مدینہ میں آیا۔ نجران حجاز اور یمن کے درمیان ایک علاقہ ہے۔ جہاں عیسائیوں کی جمہوری حکومت تھی۔ اس وقت اس علاقہ میں ٧٣ بستیاں شامل تھیں اور ایک لاکھ سے زائد جنگی مرد یہاں موجود تھے۔ یہ حکومت تین سرداروں کے زیر حکم تھی۔ ایک عاقب کہلاتا تھا۔ جس کی حیثیت امیر قوم کی تھی۔ دوسرا سید کہلاتا تھا جو ان کے سیاسی اور تمدنی امور کی نگرانی کرتا تھا اور تیسرا سقف (بشپ یا لاٹ پادری) کہلاتا تھا جو ان کا مذہبی پیشوا ہوتا تھا۔ اس وفد میں یہ تینوں سردار شامل تھے۔ اس وقت کے عاقب کا نام عبدالمسیح، سید کا نام ایہم اور لاٹ پادری ابو الحارث بن علقمہ تھا۔ تینوں سردار ساٹھ آدمی اپنے ہمراہ لے کر مدینہ پہنچے۔ یہ لوگ جنگ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ کیونکہ اب مسلمانوں کی ایک مضبوط حکومت قائم ہوچکی تھی۔ تاہم وہ اسلام بھی قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ ان کا مذہبی پیشوا ابو الحارث بن علقمہ ایک عربی النسل آدمی تھا۔ حقیقت کو سمجھتا بھی تھا۔ مگر محض دنیوی مفادات کی خاطر وہ لاٹ پادری بن گیا تھا۔ آدمی ذہین اور معاملہ فہم تھا۔ لہذا عیسائیوں نے اس کی خاطرخواہ آؤ بھگت کی اور مال و جاہ سے نوازا تھا۔ ان کی آمد کا مقصد صرف یہ تھا کہ بحث و مناظرہ میں مسلمانوں کو لاجواب کیا جائے۔ چناچہ آتے ہی انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے الوہیت مسیح کے موضوع پر بحث شروع کردی۔ ان کا طرز استدلال یہ تھا کہ تم لوگ جب یہ تسلیم کرتے ہو کہ عیسیٰ (علیہ السلام) معجزانہ طور پر بن باپ پیدا ہوئے تھے۔ پھر تم یہ بھی تسلیم کرتے ہو کہ یہودی انہیں مارنے پر قادر نہ ہوسکے اور انہیں آسمانوں پر اٹھا لیا گیا تھا تو یہ صفات کسی بندے کی نہیں ہوسکتیں۔ نیز تم انہیں کلمۃ اللہ اور روح اللہ بھی تسلیم کرتے ہو تو پھر اس سے بڑھ کر ان کی الوہیت کی کیا دلیل ہوسکتی ہے ؟۔- آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب کوئی ایسی صورت حال پیش آتی تو فوراً جواب دینے کی بجائے وحی کا انتظار فرماتے چناچہ آپ نے انہیں صاف کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آنے پر تمہیں ان باتوں کا جواب دوں گا۔ اسی موقعہ پر اس سورة کی تقریباً تیس آیات نازل ہوئیں جن میں حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ کی پیدائش کا تفصیلی ذکر ہے، اور ان میں عقیدہ الوہیت مسیح کا پورا پورا رد موجود ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ کی پیدائش معجزانہ طور پر ہوئی تو اسے اللہ کی قدرت کا کرشمہ تو کہا جاسکتا ہے۔ ان میں ان کا اپنا کیا کمال ہے کہ انہیں الٰہ تسلیم کیا جائے اور اگر حضرت عیسیٰ مردوں کو زندہ کرتے تھے تو وہ صاف کہہ دیتے تھے کہ میں یہ اللہ کے اذن سے سر انجام دے رہا ہوں یہی صورت حال ان کے رفع کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی نے انہیں یہود سے بچایا اور اپنی طرف اٹھا لیا۔ عیسیٰ تو اپنی مدد کے بھی محتاج تھے وہ الٰہ کیسے بن گئے ؟- دوسرے دن آپ نے ان کو یہ آیات سنائیں تو انہوں نے ابنیت مسیح کے متعلق ایک دوسرا سوال کردیا اور کہا کہ بتلاؤ کہ اگر عیسیٰ ابن اللہ نہیں تو ان کا باپ کون تھا ؟ مذکورہ آیت ان کے اسی سوال کے جواب میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر باپ کا نہ ہونا اللہ کی ابنیت یا الوہیت کی دلیل بن سکتا ہے تو پھر حضرت آدم اس الوہیت کے عیسیٰ سے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ ان کا باپ کے علاوہ ماں بھی نہ تھی۔ لیکن تم انہیں تو الٰہ نہیں مانتے پھر عیسیٰ کو کیوں مانتے ہو ؟ لیکن یہ لوگ چونکہ ہدایت حاصل کرنے یا اسلام لانے کے لیے آئے ہی نہ تھے اور محض کج بحثی اور بحث و مناظرہ سے اپنے مذہب کی حقانیت ثابت کرنا چاہتے تھے۔ لہذا اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان سے متعلق دو ٹوک فیصلہ سنادیا کہ اگر یہ لوگ کج بحثی ترک نہیں کرتے اور انہیں اپنے مذہب کی حقانیت پر اتنا ہی وثوق ہے تو پھر مباہلہ کرلیں تاکہ یہ تنازعہ ختم ہوجائے۔- علامہ عنایت اللہ صاحب اثری جو سرسید سے سخت متاثر ہیں اس لئے معجزات کے بھی منکر ہیں۔ اپنی تصنیف عیون زمزم پر بڑی طویل بحث کے بعد فرماتے ہیں کہ آدم اور عیسیٰ میں وجہ مثلیت خاکی ہونے میں تھی کہ کوئی خاکی الٰہ نہیں ہوسکتا کوئی پوچھے کہ اگر وجہ مثلیت یہی ہے، تو خاکی ہونے میں تو آدم کی سب اولاد برابر ہے۔ پھر آدم اور عیسیٰ کی کیا تخصیص رہی ۔ نیز کیا اللہ تعالیٰ کا نجران کے عیسائیوں کو یہی وجہ مثلیت بتلانا مقصود تھا۔ جن کا دعویٰ ہی یہ تھا کہ عیسیٰ بشر نہیں تھے۔ بلکہ الٰہ تھے۔ ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى ۔۔ : یہ سورت شروع سے لے کر یہاں تک (یعنی پہلی آیت سے ٥٩ تک) وفد نجران کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس وفد نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بحث کے دوران عیسیٰ (علیہ السلام) کی ” بُنُوَّۃ “ (اللہ کا بیٹا ہونے) پر اس سے استدلال کیا کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تردید فرمائی کہ اگر بغیر باپ کے پیدا ہونا اللہ کا بیٹا ہونے کی دلیل ہوسکتا ہے تو آدم (علیہ السلام) جو ماں باپ دونوں کے بغیر پیدا ہوئے وہ بالاولیٰ اللہ کا بیٹا کہلانے کے حق دار ہیں، مگر یہ عقیدہ بالکل باطل ہے۔ اصل میں اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی طرح مسیح (علیہ السلام) کو بھی ” كُن “ سے پیدا کرکے اپنی قدرت کاملہ کو ظاہر فرمایا ہے۔ (ابن کثیر)- ” مِنْ تُرَابٍ “ میں تنوین تقلیل یا تحقیر کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کیا ہے ” تھوڑی سی مٹی۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- بیشک حالت عجیبہ ( حضرت) عیسیٰ ( علیہ السلام) کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک (یعنی ان کی تجویز ازلی میں) مشابہ حالت عجیبہ (حضرت) آدم ( علیہ السلام) کے ہے کہ ان ( آدم (علیہ السلام) کو) یعنی ان کے قالب کو) مٹی سے بنایا پھر ان ( کے قالب) کو حکم دیا کہ ( جاندار) ہوجا، پس وہ (جاندار) ہوگئے، یہ امر واقعی (جو اوپر مذکور ہوا) آپ کے پروردگار کی طرف سے ( بتلایا گیا) ہے سو آپ شبہ کرنے والوں میں سے نہ ہوجائیے، پس جو آپ سے عیسیٰ (علیہ السلام) کے باب میں (اب بھی) حجت کرے آپ کے پاس علم (واقعی) آئے پیچھے، تو آپ (جواب میں یوں) فرما دیجیے کہ (اچھا اگر دلیل سے نہیں مانتے تو پھر) آجاؤ ہم (اور تم) بلا (کر جمع کر) لیں اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور خود اپنے تنوں کو اور تمہارے تنوں کو پھر ہم (سب ملکر) خوب دل سے دعا کریں اس طور پر کہ اللہ کی لعنت بھیجیں ان پر جو (اس بحث میں) ناحق پر ہوں، بیشک یہ ( جو کچھ) مذکور (ہوا) وہی ہے سچی بات، اور کوئی معبود ہونے کے لائق نہیں، بجز اللہ تعالیٰ کے ( یہ توحید ذاتی ہوئی) اور بلا شک اللہ تعالیٰ ہی غلبہ والے حکمت والے ہیں ( یہ توحید صفاتی ہوئی) پھر (ان سب حجتوں کے بعد بھی) اگر ( حق قبول کرنے سے سرتابی کریں) تو (آپ ان کا معاملہ حوالہ بخدا کیجیے، کیونکہ) بیشک اللہ تعالیٰ خوب جاننے والے ہیں فساد کرنے والوں کو۔ - معارف و مسائل :- قیاس کی حجیت :- (ان مثل عیسیٰ عنداللہ کمثل ادم) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قیاس بھی حجت شرعیہ سے ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش ایسی ہے جیسے آدم (علیہ السلام) کی، یعنی جس طرح آدم (علیہ السلام) کو بغیر باپ (اور ماں) کے پیدا کیا اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی بغیر باپ کے پیدا کیا، تو یہاں اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کو حضرت آدم (علیہ السلام) کی پیدائش پر قیاس کرنے کی طرف اشارہ فرمادیا۔ (مظہری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللہِ كَمَثَلِ اٰدَمَ۝ ٠ ۭ خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ كُنْ فَيَكُوْنُ۝ ٥٩- مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - آدم - آدم أبو البشر، قيل : سمّي بذلک لکون جسده من أديم الأرض، وقیل : لسمرةٍ في لونه . يقال : رجل آدم نحو أسمر، وقیل : سمّي بذلک لکونه من عناصر مختلفة وقوی متفرقة، كما قال تعالی: مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ نَبْتَلِيهِ [ الإنسان 2] . ويقال : جعلت فلاناً أَدَمَة أهلي، أي : خلطته بهم وقیل : سمّي بذلک لما طيّب به من الروح المنفوخ فيه المذکور في قوله تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] ، وجعل له العقل والفهم والرّوية التي فضّل بها علی غيره، كما قال تعالی: وَفَضَّلْناهُمْ عَلى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنا تَفْضِيلًا [ الإسراء 70] ، وذلک من قولهم : الإدام، وهو ما يطيّب به الطعام وفي الحدیث : «لو نظرت إليها فإنّه أحری أن يؤدم بينكما» أي : يؤلّف ويطيب .- ( ادم ) ادم - ۔ ابوالبشیر آدم (علیہ السلام) بعض نے کہا ہے ۔ کہ یہ ادیم لارض سے مشتق ہے اور ان کا نام آدم اس لئے رکھا گیا ہے کہ ان کے جسم کو بھی ادیم ارض یعنی روئے زمین کی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ادمۃ سے مشتق ہے جس کے معنی گندمی رنگ کے ہیں ۔ چونکہ آدم (علیہ السلام) بھی گندمی رنگ کے تھے اس لئے انہیں اس نام سے مسوسوم کیا گیا ہے چناچہ رجل آدم کے معنی گندمی رنگ مرد کے ہیں ۔ اور بعض آدم کی وجہ تسمیہ بیان ہے کہ وہ مختلف عناصر اور متفرق قویٰ کے امتزاج سے پیدا کئے گئے تھے ۔ جیسا کہ آیت أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ ( سورة الإِنْسان 2) مخلوط عناصر سے ۔۔۔۔ کہ اسے آزماتے ہیں ۔ سے معلوم ہوتا ہے۔ چناچہ محاورہ ہے جعلت فلانا ادمہ اھلی میں فلاں کو اپنے اہل و عیال میں ملالیا مخلوط کرلیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ آدم ادام سے مشتق ہے اور ادام ( سالن وغیرہ ہر چیز کو کہتے ہیں جس سے طعام لو لذیز اور خوشگوار محسوس ہو اور آدم میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی روح ڈال کر اسے پاکیزہ بنا دیا تھا جیسے کہ آیت و نفخت فیہ من روحی (38 ۔ 72) اور اس میں اپنی روح پھونک دوں ۔ میں مذکور ہے اور پھر اسے عقل و فہم اور فکر عطا کرکے دوسری مخلوق پر فضیلت بھی دی ہے جیسے فرمایا : وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا ( سورة الإسراء 70) اور ہم نے انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ اس بناء پر ان کا نام آدم رکھا گیا ہے اور حدیث میں ہے (8) لو نظرت الیھا فانہ احری ان یودم بینکما اگر تو اسے اپنی منگیرکو ایک نظر دیکھ لے تو اس سے تمہارے درمیان الفت اور خوشگواری پیدا ہوجانے کا زیادہ امکان ہے ۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - ترب - التُّرَاب معروف، قال تعالی: أَإِذا كُنَّا تُراباً [ الرعد 5] ، وقال تعالی: خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر 11] ، الَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ 40] . وتَرِبَ : افتقر، كأنه لصق بالتراب، قال تعالی: أَوْ مِسْكِيناً ذا مَتْرَبَةٍ [ البلد 16] ، أي : ذا لصوق بالتراب لفقره . وأَتْرَبَ : استغنی، كأنه صار له المال بقدر التراب، والتَّرْبَاء : الأرض نفسها، والتَّيْرَب واحد التَّيَارب، والتَّوْرَب والتَّوْرَاب : التراب، وریح تَرِبَة : تأتي بالتراب، ومنه قوله عليه السلام :- «عليك بذات الدّين تَرِبَتْ يداك» تنبيها علی أنه لا يفوتنّك ذات الدین، فلا يحصل لک ما ترومه فتفتقر من حيث لا تشعر . وبارح تَرِبٌ: ريح فيها تراب، والترائب : ضلوع الصدر، الواحدة : تَرِيبَة . قال تعالی: يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرائِبِ [ الطارق 7] ، وقوله : أَبْکاراً عُرُباً أَتْراباً [ الواقعة 36- 37] ، وَكَواعِبَ أَتْراباً [ النبأ 33] ، وَعِنْدَهُمْ قاصِراتُ الطَّرْفِ أَتْرابٌ [ ص 52] ، أي : لدات، تنشأن معا تشبيها في التساوي والتماثل بالترائب التي هي ضلوع الصدر، أو لوقوعهنّ معا علی الأرض، وقیل :- لأنهنّ في حال الصبا يلعبن بالتراب معا .- ( ت ر ب ) التراب کے معنی می کے ہیں ۔ قرآن میں ہے خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر 11] کہ اس نے تمہیں میب سے پیدا کیا ۔ الَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ 40] کہ اے کاش کے میں مٹی ہوتا ۔ ترب کے معنی فقیر ہونے کے ہیں کیونکہ فقر بھی انسان کو خاک آلودہ کردیتا ہے ۔ فرمایا :۔ أَوْ مِسْكِيناً ذا مَتْرَبَةٍ [ البلد 16] یا فقیر خاکسار کو ۔ یعنی جو بوجہ فقر و فاقہ کے خاک آلودہ رہتا ہے ۔ اترب ( افعال ) کے معنی مال دار ہونے کے ہیں ۔ گویا اس کے پاس مٹی کی طرح مال ہے نیز تراب کے معنی زمین کے بھی آتے ہیں اور اس میں التیراب ( ج) تیارب اور التوراب والتورب والتوراب وغیرہ دس لغات ہیں ۔ ریح تربۃ خاک اڑانے والی ہو ۔ اسی سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے (50) علیک بذاب الدین تربت یداک کہ شادی کے لئے دیندار عورت تلاش کرو ۔ تیرے ہاتھ خاک آلودہ ہوں ۔ اس میں تنبیہ ہے کہ دیندار عورت تیرے ہاتھ سے نہ جانے پائے ورنہ تمہارا مقصد حاصل نہیں ہوگا اور تم غیر شعوری طورپر فقیر ہوجاو گے ۔ بارح ترب خاک اڑانے والی ہو ۔ ترائب سینہ کی پسلیاں ( مفرد ت ربیۃ ) قرآن میں ہے ۔ يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرائِبِ [ الطارق 7] جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَبْکاراً عُرُباً أَتْراباً [ الواقعة 36- 37] کنواریاں اور شوہروں کی پیاریاں اور ہم عمر ۔ اور ہم نوجوان عورتیں ۔ اور ان کے پاس نیچی نگاہ رکھنے والی ( اور ) ہم عمر ( عورتیں ) ہوں گی ۔ میں اتراب کے معنی ہیں ہم عمر جنہوں اکٹھی تربیت پائی ہوگی گو یا وہ عورتیں اپنے خاوندوں کے اس طرح مساوی اور مماثل یعنی ہم مزاج ہوں گی جیسے سینوں کی ہڈیوں میں یکسانیت پائی جاتی ہے اور ریا اس لئے کہ گو یا زمین پر بیک وقت واقع ہوئی ہیں اور بعض نے یہ وجہ بھی بیان کی ہے کہ وہ اکٹھی مٹی میں ایک ساتھ کھیلتی رہی ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٩۔ ٦٠) اب اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بغیر باپ کے پیدائش کو بیان فرماتے ہیں کیوں کہ وفد بنی نجران نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا کہ تم جو یہ کہتے ہو کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے نہیں ہیں، اس پر کچھ ثبوت قرآنی لے کر آؤ تو اللہ تعالیٰ ان کے جواب میں فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی منفرد حالت حالت اللہ تعالیٰ کی تجویز ازلی میں حضرت آدم (علیہ السلام) کی حالت عجیبہ کے طریقہ پر ہے کہ ان کو بغیر ماں باپ کے پیدا کیا اور پھر ان کے قالب کو کہا کہ پیدا ہوجا، سو وہ ہوگئے، اسی طرح کا معاملہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ہے کہ ان کو بغیر باپ کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پیدا ہوجا سو وہ پیدا ہوگئے یہ کہنا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) العیاذ باللہ خدا تھے بالکل غلط ہے اور وہ عیسیٰ (علیہ السلام) نہ اس اللہ کے بیٹے اور نہ اس کے شریک تھے، یہ بیان حقیقت آپ کے پروردگار کی طرف سے ہے، سو آپ عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش میں شبہ کرنے والوں میں سے نہ ہوجائیے، (یہ کہنا امت کی تعلیم کے لیے ہے وگرنہ پیغمبر، صاحب یقین ہوتا ہے، وہاں شک کی گنجائش کہاں۔ مترجم )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٩ (اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ط) (خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ ) - قرآن مجید کی یہ آیت ان لوگوں کے حق میں دلیل ہے جو حضرت آدم ( علیہ السلام) کی خصوصی تخلیق ( ) کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک حضرت آدم ( علیہ السلام) کا چناؤ ارتقاء ( ) کے نتیجے میں کسی نوع ( ) کے وجود میں آنے کے بعد اس کے ایک فرد کی حیثیت سے نہیں ہوا بلکہ براہ راست مٹی سے تخلیق کیے گئے۔ تخلیق آدم ( علیہ السلام) کے ضمن میں یہ دونوں نظریے ملتے ہیں اور دونوں کے بارے میں دلائل بھی موجود ہیں۔ ابھی یہ کوئی طے شدہ حقائق نہیں ہیں۔ ہم غور و فکر کرسکتے ہیں کہ قرآن مجید کے کس مقام پر کس نظریے کے لیے کوئی تائید یا توثیق ملتی ہے۔ یہاں فرمایا کہ اللہ کے نزدیک تو عیسیٰ ( علیہ السلام) کی مثال ایسے ہی ہے جیسے آدم ( علیہ السلام) کی۔ اسے مٹی سے بنایا اور کہا ہوجا تو وہ ہوگیا۔ تو اب اگر آدم ( علیہ السلام) کا معاملہ خصوصی تخلیق کا ہے کہ بغیر باپ کے اور بغیر ماں کے پیدا ہوگئے تو کیا وہ الٰہبن گئے ؟ ان کا خالق تو اللہ ہے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے تو خدا کیسے بن گئے ؟ ان کی والدہ کو حمل ہوا ہے ‘ نو مہینے ماں کے پیٹ میں رہے ہیں ‘ پھر ان کی پیدائش ہوئی ہے۔ تو تخلیق میں ان کا معاملہ اعجاز کے اعتبار سے حضرت آدم ( علیہ السلام) سے تو کم ہی رہا ہے۔ اور اس سے کم تر معاملہ حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) کا ہے کہ انتہائی بڑھاپے کو پہنچے ہوئے حضرت زکریا ( علیہ السلام) اور ان کی اہلیہ جو ساری عمر بانجھ رہیں ‘ اللہ نے ان کو اولاد دے دی۔ تو یہ سارے معجزات ہیں ‘ اللہ کو اختیار ہے جو چاہے کرے۔ اس میں کسی کی الوہیت کی دلیل نہیں نکلتی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani