61۔ 1 یہ آیت مباہلہ کہلاتی ہے۔ مباہلہ کے معنی ہیں دو فریق کا ایک دوسرے پر لعنت یعنی بدعا کرنا مطلب یہ ہے کہ جب دو فریقین میں کسی معاملے کے حق یا باطل ہونے میں اختلاف ہو اور دلائل سے وہ ختم ہوتا نظر نہ آتا ہو تو دونوں بارگاہ الہٰی میں یہ دعا کریں کہ یا اللہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے اس پر لعنت فرما اس کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ 9 ہجری میں نجران سے عیسائیوں کا ایک وفد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں جو وہ غلو آمیز عقائد رکھتے تھے اس پر مناظرہ کرنے لگا۔ بالآخر یہ آیت نازل ہوئی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں مباہلہ کی دعوت دی حضرت علی (رض)، حضرت فاطمہ (رض) اور حضرت حسن، حسین (رض) کو بھی ساتھ لیا اور عیسائیوں سے کہا کہ تم بھی اپنے اہل و عیال کو بلا لو اور پھر مل کر جھو ٹے پر لعنت کی بددعا کریں۔ عیسائیوں نے باہم مشورے کے بعد مباہلہ کرنے سے گریز کیا اور پیش کش کی کہ آپ ہم سے جو چاہتے ہیں ہم دینے کے لئے تیار ہیں۔ چناچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر جزیہ مقرر فرمایا جس کی وصولی کے لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح (رض) کو جنہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امین امت کا خطاب عنایت فرمایا تھا ان کے ساتھ بھیجا (تفسیر ابن کثیر و فتح القدیر وغیرہ) اس سے اگلی آیت میں اہل کتاب کو دعوت توحید دی جا رہی ہے۔
[٥٦] اس آیت میں مباہلہ کا طریق کار بیان کیا گیا ہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی اور آپ نے انہیں سنائی تو وہ کہنے لگے کہ ہمیں کچھ سوچنے اور مشورہ کرنے کی مہلت دی جائے۔ پھر جب ان کی مجلس مشاورت قائم ہوئی تو ایک ہوشمند بوڑھے نے کہا : اے گروہ نصاریٰ تمہیں معلوم ہے کہ اللہ نے بنی اسماعیل میں سے ایک نبی بھیجنے کا وعدہ کیا ہے۔ ممکن ہے یہ وہی نبی ہو۔ جو باتیں اس نے کہی ہیں وہ صاف اور فیصلہ کن ہیں۔ اگر یہ فی الواقع وہ نبی ہوا اور تم لوگوں نے مباہلہ کیا تو تمہاری کیا تمہاری نسلوں کی بھی خیر نہ ہوگی۔ بہتر یہی کہ ہم ان سے صلح کرلیں۔ اپنے وطن کو لوٹ جائیں۔ چناچہ دوسرے دن جاکر انہوں نے آپ کو اپنے فیصلہ سے مطلع کردیا اور صلح کی درخواست کی اور جزیہ ادا کرنا قبول کرلیا۔ اس واقعہ کو امام بخاری نے مختصراً ان الفاظ میں روایت کیا ہے۔ حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ نجران سے عاقب اور سید آپ کے پاس آئے۔ یہ لوگ آپ سے مباہلہ کرنا چاہتے تھے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا۔ اگر یہ نبی ہوا اور ہم نے مباہلہ کیا تو پھر نہ ہماری خیر ہوگی نہ ہماری اولاد کی پھر انہوں نے آپ سے کہا : جو جزیہ آپ مانگتے ہیں۔ وہ ہم دے دیں گے۔ آپ ایک امین آدمی ہمارے ہمراہ کردیجئے جو فی الواقع امین ہو یہ سن کر آپ کے صحابہ (رض) انتظار کرنے لگے (کہ آپ کس کا نام لیتے ہیں) چناچہ آپ نے فرمایا : عبیدہ بن جراح اٹھو جب وہ کھڑے ہوئے تو آپ نے فرمایا : اس امت کا امین یہ شخص ہے (بخاری، کتاب المغازی، باب قصہ اہل نجران)
فَمَنْ حَاۗجَّكَ فِيْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ : سورت کے شروع سے لے کر یہاں تک اللہ تعالیٰ کی توحید، مسیح (علیہ السلام) کی ولادت کا بیان اور ان کا اللہ یا اللہ کا بیٹا نہ ہونا زبردست علمی دلائل کے ساتھ بیان ہوا۔ اب حکم ہوا کہ جو شخص اتنے واضح دلائل کے بعد بھی نہ مانے تو وہ عناد پر آمادہ ہے، اس سے بحث کا کوئی فائدہ نہیں، پھر انھیں مباہلہ کی دعوت دو ۔ - مباہلہ کی صورت یہ بیان فرمائی کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں اور تمہارے بیٹوں کو بلا لیں اور اپنی عورتوں اور تمہاری عورتوں کو بھی اور اپنے آپ کو اور تمہیں بھی، پھر گڑ گڑا کر دعا کریں، پس جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔ - ” بَھَلَ یَبْھَلُ (ف) “ کا معنی لعنت کرنا ہے اور ” بَاھَلَ مُبَاھَلَۃً “ اور ” اِبْتَھَلَ یَبْتَھِلُ “ کا معنی ایک دوسرے پر لعنت کی دعا کرنا ہے، چونکہ یہ دعا نہایت خلوص اور عاجزی سے ہوتی ہے، اس لیے ” اِبْتَھَلَ “ کا لفظ عاجزی سے دعا کرنے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ - سعد بن ابی وقاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی : ( فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَاۗءَنَا وَاَبْنَاۗءَكُمْ ۔۔ ) تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی، فاطمہ اور حسن و حسین (رض) کو بلایا، پھر فرمایا : ( اَللّٰھُمَّ ھٰؤُلاَءِ اَھْلِیْ )” اے اللہ یہ میرے اہل ہیں۔ “ [ مسلم،- فضائل الصحابۃ، باب من فضائل علی بن أبی طالب (رض) : ٣٢؍٢٤٠٤ ] - مگر اہل نجران مباہلہ سے ڈر گئے اور انھوں نے جزیہ دینا منظور کرلیا، جیسا کہ حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ عاقب اور السید نجران والے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے، وہ آپ سے مباہلہ کا ارادہ رکھتے تھے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا : ” ایسا مت کرو، کیونکہ اللہ کی قسم اگر یہ نبی ہوئے اور ہم نے مباہلہ کرلیا تو نہ ہم کبھی فلاح پائیں گے اور نہ ہمارے بعد ہماری نسل۔ “ تو دونوں نے کہا : ” آپ نے ہم سے جو مطالبہ کیا ہے ہم آپ کو دیں گے اور آپ ہمارے ساتھ کوئی امین آدمی بھیج دیں اور کسی اور کو نہیں صرف امانت دار کو بھیجیں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یقیناً میں تمہارے ساتھ ایک سچے پکے امانت دار کو بھیجوں گا۔ “ تو اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لیے گردنیں اٹھائیں (کہ کس پر آپ کی نظر پڑتی ہے) تو آپ نے فرمایا : ” اے ابوعبیدہ بن جراح اٹھو۔ “ جب وہ کھڑے ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ اس امت کا امین ہے۔ “ [ بخاری، المغازی،- باب قصۃ أہل نجران : ٤٣٨٠ ] ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : ” اگر وہ لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مباہلہ کرتے تو اس حال میں واپس جاتے کہ نہ اپنے اہل کو پاتے اور نہ مال کو۔ “ ( طبری بسند حسن)- اس آیت سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ ضد میں آ کر حق سے انکار کرنے والے سے مباہلہ ہوسکتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو لعان بھی مباہلہ کی ایک صورت ہے۔ - وَنِسَاۗءَنَا وَنِسَاۗءَكُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَكُمْ ۣ : آیت مباہلہ میں اپنے بیٹوں اور اپنی عورتوں کو بلانے کا ذکر ہے۔ ” نِسَاۗءَ “ (عورتوں) کا لفظ بیویوں پر استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ سورة احزاب میں بار بار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں کو ” يٰنِسَاۗءَ النَّبِيِّ “ کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے اور انھیں اہل بیت کہہ کر خطاب کیا ہے۔ ( دیکھیے احزاب : ٣٠ تا ٣٤ ) اولاد پر بیٹیوں کا لفظ آتا ہے نہ کہ عورتوں کا، ہاں، دوسری عورتوں کے ساتھ مل کر ان پر بھی یہ لفظ آسکتا ہے۔ یہاں بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ نے فاطمہ، علی اور حسن و حسین (رض) کو بلایا، آپ کے اہل بیت یہی تھے، بیویوں کو نہیں بلایا۔ حالانکہ کسی حدیث میں بیویوں کو نہ بلانے کا ذکر نہیں ہے اور یہ طے شدہ قاعدہ ہے کہ کسی چیز کا ذکر نہ ہونے سے اس کی نفی نہیں ہوتی، بلکہ احادیث میں تو دوسرے صحابہ کو بلانے کا یا ان کے آنے کا بھی ذکر نہیں، تو کیا وہاں اور کوئی بھی موجود نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر والے تو آپ کی بیویاں ہی تھیں، بیٹا کوئی زندہ نہ تھا، اس لیے آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کرکے آل علی کو اپنے اہل میں شامل کروایا، دلیل اس کی لفظ ” اَللَّھُمَّ “ ہے اور یہ تو معروف ہے کہ بیٹی کی اولاد کی نسبت اس کے خاوند اور خاوند کے آباء و اجداد کی طرف ہوتی ہے، نہ کہ نانا کی طرف۔ ہاں، یہ علی، فاطمہ اور حسن و حسین (رض) کی خصوصیت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا سے وہ بھی اہل بیت ہیں، مگر بیویوں کو جو اصل گھر والی ہیں، انھیں گھر والوں ہی سے نکال دینا محض تعصب ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ انھیں گھر والیاں فرما رہا ہے، فرمایا : (لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ ) [ الأحزاب : ٣٣ ] ” اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کر دے اے اہل بیت “ اور جبریل (علیہ السلام) ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی سارہ[ کو (رَحْمَتُ اللّٰهِ وَبَرَكٰتُهٗ عَلَيْكُمْ اَهْلَ الْبَيْتِ ) کے الفاظ سے مخاطب کر رہے ہیں، یعنی ” اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں تم پر اے اہل بیت “ [ ہود : ٧٣ ]
مباہلہ کی تعریف :- (فقل تعالوا ندع الخ) اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مباہلہ کرنے کا حکم دیا ہے، جس کی تعریف یہ ہے کہ اگر کسی امر کے حق و باطل میں فریقین میں نزاع ہوجائے اور دلائل سے نزاع ختم نہ ہو تو پھر ان کو یہ طریقہ اختیار کرنا چاہئے کہ سب ملکر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ جو اس امر میں باطل پر ہو اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وبال اور ہلاکت پڑے، کیونکہ لعنت کے معنی رحمت حق سے بعید ہوجانا ہے، اور رحمت سے بعید ہونا قہر سے قریب ہونا ہے، پس حاصل معنی اس کے یہ ہوئے کہ جھوٹے پر قہر نازل ہو، سو جو شخص جھوٹا ہوگا وہ اس کا خمیازہ بھگتے گا، اس وقت پوری تعیین صادق و کاذب کی منکرین کے نزدیک بھی واضح ہوجائے گی، اس طور پر دعا کرنے کو " مباہلہ " کہتے ہیں، اور اس میں اصل خود مباحثہ کرنے والوں کا جمع ہو کر دعا کرنا ہے، اپنے اعزہ و اقارب کو جمع کرنے کی ضرورت نہیں، لیکن اگر جمع کیا جائے تو اس سے اور اہتمام بڑھ جاتا ہے۔- واقعہ مباہلہ اور رد روافض :- اس کا پس منظر یہ ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نجران کے نصاری کی جانب ایک فرمان بھیجا جس میں تین چیزیں ترتیب وار ذکر کی گئی تھیں۔ (١) اسلام قبول کرو (٢) یا جزیہ ادا کرو ( ٣) یا جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ۔ نصاری نے آپس میں مشورہ کر کے شرجیل، عبداللہ بن شرحبیل اور جبار بن قیص کو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھیجا، ان لوگوں نے آکر مذہبی امور پر بات چیت شروع کی، یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی الوہیت ثابت کرنے میں ان لوگوں نے انتہائی بحث و تکرار سے کام لیا، اتنے میں یہ آیت مباہلہ نازل ہوئی، اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نصاری کو مباہلہ کی دعوت دی اور خود بھی حضرت فاطمہ (رض) ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ، امام حسن اور حسین (رض) کو ساتھ لے کر مباہلہ کے لئے تیار ہو کر تشریف لائے۔ شرحبیل نے یہ دیکھ کر اپنے دونوں ساتھیوں سے کہا کہ تم کو معلوم ہے کہ یہ اللہ کا نبی ہے، نبی سے مباہلہ کرنے میں ہماری ہلاکت ہے، بربادی یقینی ہے، اس لئے نجات کا کوئی دوسراراستہ تلاش کرو، ساتھیوں نے کہا کہ تمہارے نزدیک نجات کی کیا صورت ہے ؟ اس نے کہا کہ میرے نزدیک بہتر صورت یہ ہے کہ نبی کی رائے کے موافق صلح کی جائے، چناچہ اسی پر سب کا اتفاق ہوگیا، چناچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر جزیہ مقرر کر کے صلح کردی، جس کو انہوں نے بھی منظور کرلیا۔ (تفسیر ابن کثیر، جلد ١) - اس آیت میں ابناءنا سے مراد صرف اولاد صلبی نہیں ہے بلکہ عام مراد ہے خواہ اولاد ہو یا اولاد کی اولاد ہو، کیونکہ عرفا ان سب پر اولاد کا اطلاق ہوتا ہے۔ لہذا ابناءنا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نواسے حضرات حسنین (رض) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے داماد حضرت علی (رض) داخل ہیں۔ خصوصا حضرت علی (رض) کو ابناءنا میں داخل کرنا اس لئے بھی صحیح ہے کہ آپ (رض) نے تو پرورش بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آغوش میں پائی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اپنے بچوں کی طرح پالا پوسا اور آپ (رض) کی تربیت کا پورا پورا خیال رکھا، ایسے بچے پر عرفا بیٹے کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ اس بیان سے یہ بات واضح ہوگئ کہ حضرت علی (رض) اولاد میں داخل ہیں، لہذا روافض کا آپ کو ابناءنا سے خارج کر کے اور انفسنا میں داخل کر کے آپ (رض) کی خلافت بلافصل پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔
فَمَنْ حَاۗجَّكَ فِيْہِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَاۗءَنَا وَاَبْنَاۗءَكُمْ وَنِسَاۗءَنَا وَنِسَاۗءَكُمْ وَاَنْفُسَـنَا وَاَنْفُسَكُمْ ٠ ۣ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللہِ عَلَي الْكٰذِبِيْنَ ٦١- حاجَّة- : أن يطلب کلّ واحد أن يردّ الآخر عن حجّته ومحجّته، قال تعالی: وَحاجَّهُ قَوْمُهُ قالَ : أَتُحاجُّونِّي فِي اللَّهِ [ الأنعام 80] ، فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ [ آل عمران 61] ، وقال تعالی: لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْراهِيمَ [ آل عمران 65] ، وقال تعالی: ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ فِيما لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيما لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ [ آل عمران 66] ، وقال تعالی: وَإِذْ يَتَحاجُّونَ فِي النَّارِ [ غافر 47] ، وسمّي سبر الجراحة حجّا، قال الشاعر :- 105 ۔ يحجّ مأمومة في قعرها لجف - ۔ الحاجۃ - ۔ اس جھگڑے کو کہتے ہیں جس میں ہر ایک دوسرے کو اس کی دلیل اور مقصد سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَحاجَّهُ قَوْمُهُ قالَ : أَتُحاجُّونِّي فِي اللَّهِ [ الأنعام 80] اور ان کی قوم ان سے بحث کرنے لگی تو انہوں نے کہا کہ تم مجھ سے خدا کے بارے میں ( کیا بحث کرتے ہو ۔ فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ [ آل عمران 61] پھر اگر یہ عیسیٰ کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں اور تم حقیقت الحال تو معلوم ہو ہی چکی ہے ۔ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْراهِيمَ [ آل عمران 65] تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو ۔ ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ فِيما لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيما لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ [ آل عمران 66] دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا جس کا تمہیں کچھ علم تھا بھی مگر ایسی بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تم کو کچھ بھی علم نہیں ۔ وَإِذْ يَتَحاجُّونَ فِي النَّارِ [ غافر 47] اور جب وہ دوزخ میں جھگڑیں گے ۔ اور حج کے معنی زخم کی گہرائی ناپنا بھی آتے ہیں شاعر نے کہا ہے ع ( بسیط) یحج مامومۃ فی قھرھا لجف وہ سر کے زخم کو سلائی سے ناپتا ہے جس کا قعر نہایت وسیع ہے ۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - ( تَعالَ )- قيل : أصله أن يدعی الإنسان إلى مکان مرتفع، ثم جعل للدّعاء إلى كلّ مکان، قال بعضهم : أصله من العلوّ ، وهو ارتفاع المنزلة، فكأنه دعا إلى ما فيه رفعة، کقولک : افعل کذا غير صاغر تشریفا للمقول له . وعلی ذلک قال : فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا[ آل عمران 61] ، تَعالَوْا إِلى كَلِمَةٍ [ آل عمران 64] ، تَعالَوْا إِلى ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ النساء 61] ، أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ [ النمل 31] ، تَعالَوْا أَتْلُ [ الأنعام 151] . وتَعَلَّى: ذهب صعدا . يقال : عَلَيْتُهُ فتَعَلَّى، و ( عَلَى) : حَرْفُ جرٍّ ، وقد يوضع موضع الاسم في قولهم : غدت من عليه - تعالٰی ۔ اس کے اصل معنی کسی کو بلند جگہ کی طرف بلانے کے ہیں پھر عام بلانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے بعض کہتے ہیں کہ کہ یہ اصل میں علو ہے جس کے معنی بلند مر تبہ کے ہیں لہذا جب کوئی شخص دوسرے کو تعال کہہ کر بلاتا ہے تو گویا وہ کسی رفعت کے حصول کی طرف وعورت دیتا ہے جیسا کہ مخاطب کا شرف ظاہر کرنے کے لئے افعل کذا غیر صاغر کہا جاتا ہے چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا[ آل عمران 61] تو ان سے کہنا کہ آ ؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں ۔ تَعالَوْا إِلى كَلِمَةٍ [ آل عمران 64] تعالو ا الیٰ کلمۃ ( جو ) بات ( یکساں تسلیم کی گئی ہے اس کی ) طرف آؤ تَعالَوْا إِلى ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ النساء 61] جو حکم خدا نے نازل فرمایا ہے اس کی طرف رجوع کرو ) اور آؤ أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ [ النمل 31] مجھ سے سر کشی نہ کرو ۔ تَعالَوْا أَتْلُ [ الأنعام 151] کہہ کہ ( لوگو) آؤ میں ( تمہیں ) پڑھ کر سناؤں ۔ تعلیٰ بلندی پر چڑھا گیا ۔ دور چلا گیا ۔ کہا جاتا ہے علیتہ متعلٰی میں نے اسے بلند کیا ۔ چناچہ وہ بلند ہوگیا ۔ ( علیٰ ) علٰی ۔ یہ حروف جارہ سے ہے مگر کبھی بطور اسم کے استعمال ہوتا ہے جیسے عدت من علیہ اس پر اوپر کی جانب سے حملہ گیا ۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - ( ابْنُ )- أصله : بنو، لقولهم في الجمع :- أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر - أولاک بنو خير وشرّ كليهما - وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] - وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ .- الابن ۔- یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔- نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - بهل - أصل البَهْل : كون الشیء غير مراعی، والباهل : البعیر المخلّى عن قيده أو عن سمة، أو المخلّى ضرعها عن صرار . قالت امرأة : أتيتک باهلا غير ذات صرار «1» ، أي : أبحت لک جمیع ما کنت أملكه لم أستأثر بشیء من دونه، وأَبْهَلْتُ فلانا : خلّيته وإرادته، تشبيها بالبعیر الباهل . والبَهْل والابتهال في الدعاء : الاسترسال فيه والتضرع، نحو قوله عزّ وجل : ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكاذِبِينَ [ آل عمران 61] ، ومن فسّر الابتهال باللعن فلأجل أنّ الاسترسال في هذا المکان لأجل اللعن، قال الشاعر :- نظر الدّهر إليهم فابتهل أي : استرسل فيهم فأفناهم .- ( ب ھ ل ) البھل ( ف ) اس کے اصل معنی کسی چیز کا اس حال میں ہونا ہے کہ اس کی دیکھ بھال نہ کی جائے اسی سے الباھل اس اونٹ کو کہتے ہیں جو پائے بند یا نشان لگائے بغیر آزاد دیا جائے یا وہ اونٹنی جسے تھن باندھے بغیر چھوڑ دیا ہو چناچہ کسی عورت نے اپنے خاوند سے کہا : ۔ کہ تمہیں پوری آزادی ہے جس طرح چاہو لطف انوزی کرو اور الباھل اونٹ کے ساتھ تشبیہ دے کر ابھلت فلانا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی کو اس کی رائے اور اراوہ میں آزاد چھوڑ دینا کے ہیں ۔ البھل الابتھال فی الدعاء کھل کر عاجزی سے دعا کرنا قرآن میں ہے : ۔ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكاذِبِينَ [ آل عمران 61] پھر دونوں فریق ( خدا سے دعا والتجا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت بھیجیں ۔ جن لوگوں نے یہاں ابتھال کے معنی لعنت کئے ہیں وہ محض اس بناء پر کئے ہیں کہ یہاں درا لعنت کے لئے ہے : شاعر نے کہا ہے ع ( رمل ) یعنی زمانہ ان کی طرف تیزی سے چلا اور انہیں فنا کردیا ۔- لعن - اللَّعْنُ : الطّرد والإبعاد علی سبیل السّخط، وذلک من اللہ تعالیٰ في الآخرة عقوبة، وفي الدّنيا انقطاع من قبول رحمته وتوفیقه، ومن الإنسان دعاء علی غيره . قال تعالی: أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود 18]- ( ل ع ن ) اللعن - ۔ کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا ۔ خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق سے اثر پذیر ہونے محروم ہوجائے اور آخرت عقوبت کا مستحق قرار پائے اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنی بد دعا کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود 18] سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے ۔ - كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے
مباہلہ کا جواز - قول بارے ہے (فقل تعالواند ع ابناء نا وایتاء کم ونساء ناونساء کم وانفسنا وانسکم، اے محمد ان سے کہو، آؤہم اور تم خود بھی آجائیں اور اپنے اپنے بال کو بھی لے آئیں) عیسائیوں کے اس قول کے خلاف کہ حضرت مسیح ابن اللہ ہیں اس آیت سے استدلال پہلے گذرچکا ہے نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد جس میں ان کا سردار اورنائب سرداردونوں تھے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا تھا۔ ان دونوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال تھا کہ آپ نے بن باپ کا کوئی بچہ دیکھا ہے ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل ادم، اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی مثال کی طرح ہے) حضرت ابن عباس حسن اور قتادہ سے یہی روایت ہے، قتادہ کا قول ہے کہ یہ بات اس وقت کہی گئی جب قرآن کے الفاظ میں حضرت عیسیٰ کا قول اس طرح نقل کیا گیا (ولاحل لکم بعض الذی حرم علیکم وجئتکم بایۃ من ربکم فاقم ا اللہ واطیعون ان اللہ ربی وربکم فاعبدوہ ، تاکہ میں تمہارے لیے بعض وہ باتیں حلال کردوں جو تم پر حرام تھیں۔ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک بڑی نشانی لے کرآیاہوں، اس لیئے اللہ سے ڈرو اورمیری پیروی کرو۔ لیے شک اللہ میرا اور تمھارارب ہے۔ اس لیے اسی کی عبادت کرو۔- واضح رہے کہ یہ باتیں انجیل میں بھی موجو د ہیں اس میں حضرت عیسیٰ کا یہ قول موجود ہے۔ میں اپنے اور تمھارے باپ اور اپنے اور تمہارے رب کی طرف جارہاہوں۔ اس زبان میں آقا اور مالک پر اب کے لفظ کا اطلاق ہوتا تھا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ حضرت عیسیٰ نے فرمایا۔ اپنے اور تمھارے باپ کی طرف۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ آپ کی اس سے وہ ابوۃ یعنی باپ ہونے کی صفت مراد نہیں ہے۔ جو کسی کے بیٹا ہونے کی متقاضی ہوتی ہے۔ جب عیسائیوں پر ان دلائل کی بناپرحجت قائم ہوگئی جن سے وہ واقف تھے اور جن کا انہیں اعتراف تھا نیز بن باپ کے بیٹا ہونے کے متعلق حضرت آدم (علیہ السلام) کی مثال دے کر ان کا شبہ باطل کردیاگیا توا نہیں مباہلہ کی دعوت دی گئی چناچہ قول باری ہے (فمن حاجک فیہ من بعدماجاء ک من العلم فقل تعالواندع ایناء نا واینائکم علیہ علم آجانے کے بعد اب جو کوئی بھی اس معاملہ میں تم سے جھگڑاکرے تو اے محمد اس سے کہو۔ آؤہم تم خودبھی آجائیں اور اپنے اپنے بال بچوں کو بھی لے آئیں) تاآخر آیت سیروتواریخ کے راویوں اور ناقلین روایات نے متفقہ طورپریہ نقل کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) ، حضرت فاطمہ (رض) حضرت حسن (رض) حضرت حسین (رض) کا ہاتھ پکڑا اور بحث کرنے والے عیسائیوں کو مباہلہ کی دعوت دی۔ لیکن وہ ڈرکرپیچھے ہٹ گئے اور مباہلہ سے کنارہ کش ہوگئے۔ وہ آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے۔ کہ اگر تم نے مباہلہ کرلیا تو تمھارے لیئے یہ وادی آگ کا آلاؤبن جائے گی اور پھر قیامت تک ایک عیسائی مرد یا عورت بائی نہیں رہے گی۔- ان آیات میں عیسائیوں کے اس شبہے کو باطل کردیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ (نعوذباللہ) الٰہ یا الٰہ کے بیٹے ہیں۔ اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صحت پر بھی دلالت موجود ہے۔ اس لیے کہ اگر انہیں یقینی طورپر یہ معلوم نہ ہوتا کہ آپ نبی ہیں توا نہیں مباہلہ کرنے سے کونسی چیز ردک سکتی تھی۔ ؟ لیکن جب اس معاملے میں انہوں نے منہ کی کھائی اور پہلوبچاگئے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ انہیں گذشتہ انبیاء کرام کی کتابوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بیان کردہ نشانیوں اور لاجواب کردینے والے دلائل کے بند پر آپ کی نبوت کی صحت کا پوراپوراعلم تھا۔- حضور کے نواسے اولاد میں شامل ہیں - اس میں اس بات کی دلیل بھی موجود ہے کہ حضرت حسن (رض) اور حسین حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیٹے ہیں اس لیئے کہ جب آپ نے مباہلہ کے لیے جانے کا ارادہ کیا تو حضرت حسن (رض) اور حضرت حسین (رض) کے ہاتھ پکڑلیے اور عیسائیوں سے فرمایا۔ ہم تم خودبھی آجائیں اور اپنے بال بچوں کو بلالیں۔ اس وقت ان دونوں نواسوں کے سوا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے حضرت حسن سے فرمایا (ان ابنی ھذاسید، میرایہ بیٹا سردار ہے) اسی طرح جب ان دونوں سے ایک نے آپ پر پیشاب کردیاتو آپ نے فرمایا (لاتزرموا ابنی، میرے اس بیٹے کو مت روکو) حضرت حسن (رض) اور حضرت حسین (رض) آپ کی ذریت یعنی اولاد میں سے بھی ہیں جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو حضرت ابراہیم کی ذریت یعنی اولاد میں سے قراردیا۔ چناچہ ارشاد باری ہے (ومن ذریتہ داؤد و سلیمان، اور ابراہیم کی اولاد میں سے داؤ د اور سلیمان کو۔ ) تاقول باری (وذکریا ویحیٰ وعیسیٰ ، اور زکریا یحییٰ اور عیسیٰ کو) حضرت ابراہیم کی طرف نسبت ماں کے داسطے سے ہے اس لیے کہ حضرت عیسیٰ بن باپ کے تھے۔- بعض لوگوں کا یہ قول ہے کہ حضرت حسن (رض) اور حضرت حسین (رض) کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیٹے کہنا صرف ان دونوں کے ساتھ خاص ہے۔ کسی اور پر اس کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلے میں ایک روایت بھی منقول ہے جوان دونوں حضرات کی اس خصوصیت پر دلالت کرتی ہے جس میں کوئی اور شامل نہیں۔ آپ سے یہ مروی ہے (کل سبب ونسب منقطع یوم القیا مۃ الاسبہی ونسبی، قیامت کے دن ہر تعلق اور ہر رشتہ منقطع ہوجائے گا، صرف میرے ساتھ تعلق اور میرارشتہ باقی رہے گا) امام محمد کا قول ہے کہ کوئی شخص کسی شخص کے ولد کے لیے کوئی وصیت کرے اور اس شخص کی کوئی صلبی اولاد نہ البتہ اس کے بیٹے اور بیٹی کی اولاد ہو تو اس صورت میں وصیت کی حق دار اس کے بیٹے کے اولاد ہوگی۔ بیٹی کی ادلاد نہیں ہوگی۔ تاہم حسن بن زیادہ نے امام ابوحنیفہ سے روایت کی ہے کہ بیٹی کی اولاداس میں داخل ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس بارے میں قول باری اور قول نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روشنی میں یہ صرف حضرت حسن (رض) اور حضرت حسین (رض) کی خصوصیت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف علی الاطلاق ان کی نسبت کرنا جائز ہے۔- بچوں کا نسب ماں کے بجائے باپ کی طرف ہوگا - ان کے سوایاتی ماندہ تمام لوگوں کی نسبت ان کے اپنے آباء اور آباء کو قوم کی طرف ہوگی۔ ماؤں کی قوم کی طرف نہیں ہوگی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کسی ہاشمی کے گھر اس کی روحی یاحبشی لونڈی کے بطن سے کوئی بچہ پیدا ہوجائے تو اس بچے کی نسبت اس کے باپ کی قوم کی طرف ہوگی ماں کی قوم کی طرف نہیں۔- شاعرنے بھی اپنے ایک شعر میں یہی کچھ کہا۔- ؎ بنونابنوابناء نا وبناتنا بنوھن ابناء الرجال الاباعد - ہماری اولاد وہ ہے جو ہمارے بیٹوں اور بیٹیوں کی اولاد ہے اور ان عورتوں کی الادوہ ہے جو اجنبی اور دور کے رشتہ داروں کے صلب سے پیداہوئی ہے۔ اس لیے حضرت حسن (رض) اور حضرت حسین (رض) کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف علی الاطلاق بیٹے ہونے کی نسبت صرف ان دونوں حضرات کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس میں ان کے سوا کوئی اور شامل نہیں ہے ان دونوں حضرات کی نسبت کے سوالوگوں میں جو ظاہر اور متعارف بات ہے وہ یہی ہے کہ نسبت باپ اور باپ کی قوم کی طرف ہوتی ہے ماں کی قوم کی طرف نہیں۔
(٦١) وفد بنی نجران نے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اس چیز کے بیان کردینے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثال حضرت آدم (علیہ السلام) کے طریقہ پر ہے جو مخاصمہ کیا اس کا اللہ تعالیٰ ذکر فرماتے ہیں۔- وہ لوگ بولے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں جیسا کہ آپ کہتے ہیں کہ وہ نہ خدا ہیں اور نہ اس کے بیٹے اور نہ اس کے شریک ہیں ایسا نہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو شخص حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں جیسا کہ آپ کہتے ہیں کہ وہ نہ خدا ہیں اور نہ اس کے بیٹے اور نہ اس کے شریک ہیں ایسا نہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو شخص حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں آپ سے حجت کرے جب کہ آپ کے پاس علم واقعی آچکا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نہ خدا ہیں اور نہ اس کے بیٹے اور نہ اس کے شریک ہیں تو اگر یہ دلیل سے نہیں جاننا چاہتے تو آپ فرما دیجیے کہ ہم بھی اپنے بیٹوں کو باہر نکالتے ہیں تم بھی نکال لو اور ہم بھی اپنے عورتوں کو باہر لاتے ہیں، تم بھی لے آؤ۔ اور ہم خود بھی آتے ہیں تم بھی آجاؤ پھر سب مل کر خوب کوشش اور آہ زاری کے ساتھ دعا کریں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے باے میں جو ہم میں سے جھوٹا ہو، اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔
آیت ٦١ (فَمَنْ حَآجَّکَ فِیْہِ مِنْم بَعْدِ مَا جَآءَ کَ مِنَ الْعِلْمِ ) - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تو العلمآ چکا ہے ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو بات کہہ رہے ہیں علیٰ وجہ البصیرۃ کہہ رہے ہیں۔ اس ساری وضاحت کے بعد بھی اگر نصاریٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حجت بازی کر رہے اور بحث و مناظرہ سے کنارہ کش ہونے کو تیار نہیں ہیں تو ان کو آخری چیلنج دے دیجیے کہ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مباہلہکر لیں۔ نجران سے نصاریٰ کا جو ٧٠ افراد پر مشتمل وفد ابوحارثہ اور ابن علقمہ جیسے بڑے بڑے پادریوں کی سرکردگی میں مدینہ آیا تھا ‘ اس سے دعوت و تبلیغ اور تذکیر و تفہیم کا معاملہ کئی دن تک چلتا رہا اور پھر آخر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا کہ اگر یہ اس قدر سمجھانے پر بھی قائل نہیں ہوتے تو انہیں مباہلے کی دعوت دے دیجیے۔ - (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ ) (وَنِسَآءَ نَا وَنِسَآءَ کُمْ ) (وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ قف) (ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ ) ۔- ہم سب جمع ہو کر اللہ سے گڑگڑا کر دعا کریں اور کہیں کہ اے اللہ جو ہم میں سے جھوٹا ہو ‘ اس پر لعنت کر دے۔ یہ مباہلہ ہے۔ اور یہ مباہلہ اس وقت ہوتا ہے جبکہ احقاقِ حق ہوچکے ‘ بات پوری واضح کردی جائے۔ آپ کو یقین ہو کہ میرا مخاطب بات پوری طرح سمجھ گیا ہے ‘ صرف ضد پر اڑا ہوا ہے۔ اس وقت پھر یہ مباہلہ آخری شے ہوتی ہے تاکہ حق کا حق ہونا ظاہر ہوجائے۔ اگر تو مخالف کو اپنے موقف کی صداقت کا یقین ہے تو وہ مباہلہ کا چیلنج قبول کرلے گا ‘ اور اگر اس کے دل میں چور ہے اور وہ جانتا ہے کہ حق بات تو یہی ہے جو واضح ہوچکی ہے تو پھر وہ مباہلہ سے راہ فرار اختیار کرے گا۔ چناچہ یہی ہوا۔ مباہلہ کی دعوت سن کر وفد نجران نے مہلت مانگی کہ ہم مشورہ کر کے جواب دیں گے۔ مجلس مشاورت میں ان کے بڑوں نے ہوش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سے کہا : اے گروہ نصاریٰ تم یقیناً دلوں میں سمجھ چکے ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی مرسل ہیں اور حضرت مسیح ( علیہ السلام) کے متعلق انہوں نے صاف صاف فیصلہ کن باتیں کہی ہیں۔ تم کو معلوم ہے کہ اللہ نے بنی اسماعیل میں نبی بھیجنے کا وعدہ کیا تھا۔ کچھ بعید نہیں یہ وہی نبی ہوں۔ پس ایک نبی سے مباہلہ و ملاعنہ کرنے کا نتیجہ کسی قوم کے حق میں یہی نکل سکتا ہے کہ ان کا کوئی چھوٹا بڑا ہلاکت یا عذاب الٰہی سے نہ بچے اور پیغمبر کی لعنت کا اثر نسلوں تک پہنچ کر رہے۔ بہتر یہی ہے کہ ہم ان سے صلح کر کے اپنی بستیوں کی طرف روانہ ہوجائیں ‘ کیونکہ سارے عرب سے لڑائی مول لینے کی طاقت ہم میں نہیں۔ چناچہ انہوں نے مقابلہ چھوڑ کر سالانہ جزیہ دینا قبول کیا اور صلح کر کے واپس چلے گئے۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :55 فیصلہ کی یہ صورت پیش کرنے سے دراصل یہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ وفد نجران جان بوجھ کر ہٹ دھرمی کر رہا ہے ۔ اوپر کی تقریر میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے کسی کا جواب بھی ان لوگوں کے پاس نہ تھا ۔ مسیحیت کے مختلف عقائد میں سے کسی کے حق میں بھی وہ خود اپنی کتب مقدسہ کی ایسی سند نہ پاتے تھے جس کی بنا پر کامل یقین کے ساتھ یہ دعویٰ کر سکتے کہ ان کا عقیدہ امر واقعہ کے عین مطابق ہے اور حقیقت اس کے خلاف ہرگز نہیں ہے ۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ، آپ کی تعلیم اور آپ کے کارناموں کو دیکھ کر اکثر اہل وفد اپنے دلوں میں آپ کی نبوت کے قائل بھی ہو گئے تھے یا کم از کم اپنے انکار میں متزلزل ہو چکے تھے ۔ اس لیے جب ان سے کہا گیا کہ اچھا اگر تمہیں اپنے عقیدے کی صداقت کا پورا یقین ہے تو آؤ ہمارے مقابلہ میں دعا کرو کہ جو جھوٹا ہو اس پر خدا کی لعنت ہو ، تو ان میں سے کوئی اس مقابلہ کے لیے تیار نہ ہوا ۔ اس طرح یہ بات تمام عرب کے سامنے کھل گئی کہ نجرانی مسیحیت کے پیشوا اور پادری ، جن کے تقدس کا سکہ دور دور تک رواں ہے ، دراصل ایسے عقائد کا اتباع کر رہے ہیں جن کی صداقت پر خود انہیں کامل اعتماد نہیں ہے ۔
25: اس عمل کو مباہلہ کہا جاتا ہے۔ جب بحث کا کوئی فریق دلائل کو تسلیم کرنے کے بجائے ہٹ دھرمی پر تل جائے تو آخری راستہ یہ ہے کہ اسے مباہلہ کی دعوت دی جائے جس میں دونوں فریق اﷲ تعالیٰ سے یہ دُعا کریں کہ ہم میں سے جو جھوٹا یا باطل پر ہو وہ ہلاک ہوجائے۔ جیسا کہ اس سورت کے شروع میں بیان ہوا ہے، شہر نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد آنحضرتﷺ کی خدمت میں آیا تھا، اس نے آپ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدائی پر بحث کی جس کا اطمینان بخش جواب قرآنِ کریم کی طرف سے پچھلی آیتوں میں دے دیا گیا۔ جب وہ کھلے دلائل کے باوجود اپنی گمراہی پر اصرار کرتے رہے تو اس آیت نے آنحضرتﷺ کو حکم دیا کہ وہ انہیں مباہلے کی دعوت دیں۔ چنانچہ آپﷺ نے ان کو یہ دعوت دی اور خود اس کے لئے تیار ہو کر اپنے اہل بیت کو بھی جمع فرمالیا، لیکن عیسائیوں کا وفد مباہلے سے فرار اختیار کرگیا۔