70۔ 1 قائل ہونے کا مطلب ہے کہ تمہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت و حقانیت کا علم ہے۔
لِمَ تَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ۔۔ : اللہ کی آیات سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی وہ بشارتیں ہیں جو پہلے انبیاء سے منقول تھیں۔ یہود ان کو صحیح سمجھتے تھے مگر مانتے نہیں تھے۔ اللہ کی آیات سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارتوں پر مشتمل آیات کے ساتھ ساتھ عقائد و احکام وغیرہ پر مشتمل دوسری آیات بھی مراد ہوسکتی ہیں، یعنی وہ لوگ صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق ہی نہیں، بلکہ دوسری آیات کو بھی اللہ کا کلام سمجھنے کے باوجود ان پر ایمان نہیں لاتے تھے۔
معارف و مسائل : (انتم تشھدون) اور (انتم تعلمون) کے الفاظ سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اگر وہ اقرار حق نہ کریں یا ان کو علم نہ ہو تو ان کے لئے کفر جائز ہوگا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ کفر اپنی ذات کے اعتبار سے ایک قبیح فعل ہے، یہ ہر حالت میں ناجائز ہے، البتہ علم و اقرار کے بعد کفر اختیار کرنے میں ملامت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللہِ وَاَنْتُمْ تَشْہَدُوْنَ ٧٠- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- شهد - وشَهِدْتُ يقال علی ضربین :- أحدهما - جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول :- أشهد . والثاني يجري مجری القسم،- فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، - ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ - شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے
(٧٠) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی مرسل ہیں، پھر کیوں انکار کرتے ہو، اور کیوں اپنی کتابوں میں حق بات کے ساتھ باطل کو ملاتے ہو۔
آیت ٧٠ (یٰٓاََہْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَاَنْتُمْ تَشْہَدُوْنَ ) - تم قرآن اور صاحب قرآن (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حقانیت کے قائل ہو ‘ ان کو پہچان چکے ہو ‘ دل میں جان چکے ہو
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :60 دوسرا ترجمہ اس فقرہ کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ”تم خود گواہی دیتے ہو“ ۔ دونوں صورتوں میں نفس معنی پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی ، اور صحابہ کرام کی زندگیوں پر آپ کی تعلیم و تربیت کے حیرت انگیز اثرات ، اور وہ بلند پایہ مضامین جو قرآن میں ارشاد ہو رہے تھے ، یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ کی ایسی روشن آیات تھیں کہ جو شخص انبیا کے احوال اور کتب آسمانی کے طرز سے واقف ہو اس کے لیے ان آیات کو دیکھ کر آنحضرت کی نبوت میں شک کرنا بہت ہی مشکل تھا ۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ بہت سے اہل کتاب ( خصوصاً ان کے اہل علم ) یہ جان چکے تھے کہ حضور وہی نبی ہیں جن کی آمد کا وعدہ انبیا سے سابقین نے کیا تھا ، حتٰی کہ کبھی کبھی حق کی زبردست طاقت سے مجبور ہو کر ان کی زبانیں آپ کی صداقت اور آپ کی پیش کردہ تعلیم کے برحق ہونے کا اعتراف تک کر گزرتی تھیں ۔ اسی وجہ سے قرآن باربار ان کو الزام دیتا ہے کہ اللہ کی جن آیات کو تم آنکھوں سے دیکھ رہے ہو ، جن کی حقانیت پر تم خود گواہی دیتے ہو ان کو تم قصداً اپنے نفس کی شرارت سے جھٹلا رہے ہو ۔
27: یہاں آیتوں سے مراد تورات اور انجیل کی وہ آیتیں ہیں جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کی خبر دی گئی تھی، اور مطلب یہ ہے کہ ایک طرف تم تورات اور انجیل کے من جانب اللہ ہونے کی گواہی دیتے ہو، اور دوسری طرف ان پیشینگوئیوں کے مصداق یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا انکار کرتے ہو جو بالواسطہ ان آیتوں کا انکار ہے۔