Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71۔ 1 اس میں یہودیوں کے دو بڑے جرائم کی نشان دہی کر کے انہیں ان سے باز رہنے کی تلقین کی جا رہی ہے پہلا جرم حق وباطل اور سچ اور جھوٹ کو خلط ملط کرنا تاکہ لوگوں پر حق اور باطل واضح نہ ہو سکے دوسرا حق چھپانا۔ یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جو اوصاف تورات میں لکھے ہوئے تھے انہیں لوگوں سے چھپانا تاکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کم از کم اس اعتبار سے نمایاں نہ ہو سکے اور یہ دونوں جرم جان بوجھ کر کرتے تھے۔ جس سے ان کی بدبختی دو چند ہوگئی تھی۔ ان کے جرائم کی نشان دہی سورة بقرہ میں بھی کی گئی ہے۔ اہل کتاب کے لفظ کو بعض مفسرین نے عام رکھا ہے جس میں یہود و نصاری دونوں شامل ہیں۔ یعنی دونوں کو ان جرائم مذکورہ سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے اور بعض کے نزدیک اس سے مراد صرف وہ قبائل یہود ہیں جو مدینے میں رہائش پذیر تھے۔ بنو قریظہ، بنونضیر اور بنو قینقاع۔ زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ مسلمانوں کا براہ راست انہی سے معاملہ تھا اور یہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکالفت میں پیش پیش تھے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بالْبَاطِلِ ۔۔ : اہل کتاب کی مذہبی بدبختیوں کی طرف اشارہ ہے، اس سے پہلی آیت میں علمائے یہود کی یہ بدبختی بیان کی گئی ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سچا پیغمبر ہونے کے دلائل جان لینے کے باوجود کفر کر رہے ہیں، اب یہاں بتایا جا رہا ہے کہ حق کو باطل کے ساتھ ملانا اور حق کو چھپانا ان کا عام شیوہ بن چکا ہے۔ پہلی آیت میں ان کی اپنی گمراہی کا بیان تھا، اس آیت میں دوسروں کو گمراہ کرنے کا ذکر ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (٤٢) ۔ (رازی) یہ مقام عبرت ہے کہ ہمارے دور کے فرقہ پرست علماء اور تجدد زدہ حضرات بھی دنیوی اور مادی اغراض و مصالح کے پیش نظر قرآن مجید سے وہی سلوک کر رہے ہیں جو ان کے پیش رو تورات و انجیل کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بالکل صحیح فرمایا : ( لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ ) [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب ما ذکر عن بنی إسرائیل : ٣٤٥٦ ] ” تم لازماً پہلی امتوں کے نقش قدم پر چلو گے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝ ٧١ ۧ- لبس - لَبِسَ الثّوب : استتر به، وأَلْبَسَهُ غيره، ومنه :- يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف 31] واللِّبَاسُ واللَّبُوسُ واللَّبْسُ ما يلبس . قال تعالی: قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] وجعل اللّباس لكلّ ما يغطّي من الإنسان عن قبیح، فجعل الزّوج لزوجه لباسا من حيث إنه يمنعها ويصدّها عن تعاطي قبیح . قال تعالی:- هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة 187] فسمّاهنّ لباسا کما سمّاها الشاعر إزارا في قوله :- فدی لک من أخي ثقة إزاري«1» وجعل التّقوی لِبَاساً علی طریق التّمثیل والتّشبيه، قال تعالی: وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف 26] وقوله : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء 80] يعني به : الدِّرْعَ ، وقوله : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل 112] ، وجعل الجوع والخوف لباسا علی التّجسیم والتشبيه تصویرا له، وذلک بحسب ما يقولون : تدرّع فلان الفقر، ولَبِسَ الجوعَ ،- ( ل ب س ) لبس الثوب - ۔ کے معنی کپڑا پہننے کے ہیں اور البسہ کے معنی دوسرے کو پہنانا کے ۔ قرآن میں ہے : يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف 31] اور وہ سبز کپڑے پہنا کریں گے ۔ اللباس واللبوس واللبس وہ چیز جو پہنی جائے ۔ قرآن میں ہے : قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈاھانپے ۔ اور لباس کا لفظ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے ۔ جو انسان کے برے کاموں پر پردہ ڈال سکے ۔ چناچہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کو قبائح کے ارتکاب سے روکتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة 187] وہ تمہاری پوشاک اور تم ان کی پوشاک ہو ۔ چناچہ اسی معنی میں شاعرنے اپنی بیوی کو ازار کہا ہے ۔ اے میرے قابل اعتماد بھائی پر میری ازار یعنی بیوی قربان ہو ۔ اور تمثیل و تشبیہ کے طور پر تقوی کو بھی لباس قرار دیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف 26] اور جو پر ہیزگاری کا لباس ہے ۔ اور آیت کریمہ : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء 80] اور ہم نے تمہارے لئے ان کو ایک طرح کا لباس بنانا ۔۔۔۔۔ میں لبوس سے زر ہیں مراد ہیں اور آیت کریمہ : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل 112] تو خدا نے ان کے اعمال کے سبب بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر ناشکری کا مزہ چکھا دیا ۔ میں جوں یعنی بھوک اور خوف کی تصویر کھینچے کے لئے اس لباس کے ساتھ تشبیہ دی ہے ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- بطل - البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62]- ( ب ط ل ) الباطل - یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔ - كتم - الْكِتْمَانُ : ستر الحدیث، يقال : كَتَمْتُهُ كَتْماً وكِتْمَاناً. قال تعالی: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 140] ، - ( ک ت م ) کتمہ ( ن ) کتما وکتما نا کے معنی کوئی بات چھپانا کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 140] اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو خدا کی شہادت کو جو اس کے پاس کتاب اللہ میں موجود ہے چھپائے - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧١۔ ٧٢) اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت میں تبدیلی کرتے ہو اور کیوں آپ کی نعت وصفت کو چھپاتے ہو حالانکہ کہ تم اپنی کتابوں میں اس اصل حقیقت کو جانتے ہو، تحویل قبلہ کے بعد کعب بن اشرف اور اس کے ساتھیوں نے جو مشورہ کیا اللہ تعالیٰ اس کا ذکر فرماتے ہیں ہیں، یعنی کعب وغیرہ سرداران یہود نے اپنے لوگوں سے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر دن کے شروع میں یعنی صبح کی نماز کے وقت ایمان لے آؤ اور ظہر کی نماز کے وقت انکار کر بیٹھو، تو لوگ یہ دیکھ کر کہیں گے کہ اہل کتاب اس قبلہ پر ایمان لے آئے جس کی طرف منہ کر کے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں نے صبح کی نماز پڑھی اور اس قبلہ سے انکار کیا جن کی طرف منہ کرکے ان لوگوں نے ظہر کی نماز پڑھی، شاید اس طرح دوسروں کو شک وشبہ میں ڈالنے سے عوام الناس تمہارے قبلہ اور تمہارے دین کی طرف پلٹ آئیں۔- شان نزول : (آیت) ” وقالت طائفۃ “ (الخ)- ابن اسحاق (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ عبداللہ بن صیف، عدی بن زید اور حارث بن عوف ان لوگوں میں سے بعض نے بعض سے کہا کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے اصحاب جو احکام بیان کرتے ہیں ہم ان پر صبح کو ایمان لائیں اور شام کو ان کا انکار کردیں، تاکہ ان کے اصحاب بھی اسی طرح کرنے لگیں اور پھر ممکن ہے کہ ہماری اس تدبیر کے سبب یہ مسلمان ہمارے دین کی طرف لوٹ آئیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” یا ھل الکتاب لم تلبسون الحق “ سے واسع علیم “۔ تک آیات نازل فرمائیں (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧١ (یٰٓاََہْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ) - سورۃ البقرۃ کے پانچویں رکوع میں یہ مضمون بایں الفاظ آیا تھا : (وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ) یٰٓاََہْلَ الْکِتٰبِ کے صیغۂ خطاب کے ساتھ ان آیات میں اسی طرح کا داعیانہ انداز ہے جو سورة البقرۃ کے پانچویں رکوع میں ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani