Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

72۔ 1 یہ یہودیوں کے ایک اور مکر کا ذکر ہے۔ جس سے وہ مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتے تھے کہ انہوں نے باہم طے کیا کہ صبح کو مسلمان ہوجائیں تاکہ مسلمانوں کے دلوں میں بھی اپنے اسلام کے بارے میں شک پیدا ہو کہ یہ لوگ قبول اسلام کے بعد دوبارہ اپنے دین میں چلے گئے ہیں تو ممکن ہے کہ اسلام میں ایسے عیوب اور خامیاں ہوں جو ان کے علم میں آئی ہوں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٣] اسی سلسلہ میں ایک سازش یہ تیار کی گئی کہ یہود کے چند افراد اعلانیہ طور پر مسلمان ہوجائیں۔ پھر چند دنوں بعد یا اسی دن اسلام سے مرتد ہوجائیں۔ اس سازش کا پس منظر یہ تھا کہ یہود عرب بھر میں علوم شرعیہ کے عالم مشہور تھے، حتیٰ کہ یہود اپنے سوا دوسرے سب لوگوں کو امی (ناخواندہ لوگ) کہہ کر پکارتے تھے۔ یہودیوں کے مسلمان ہونے کے بعد پھر سے مرتد ہونے سے عام لوگوں میں خود بخود تاثر پیدا ہوجائے گا کہ اہل علم نے جب اس دین اسلام کا قریب ہو کر مطالعہ کیا تو انہیں ضرور دال میں کچھ کالا نظر آیا ہے۔ ورنہ ایک عالم آدمی کیسے گمراہی کو ترجیح دے سکتا ہے۔ یہ سازش ابھی پک ہی رہی تھی کہ اللہ نے اپنے نبی کے ذریعہ مسلمانوں کو اس سے متنبہ کردیا اور ان کی یہ باطنی خباثت وہیں ختم ہو کر رہ گئی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَتْ طَّاۗىِٕفَةٌ۔۔ : کمزور ایمان والے مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے یہود مختلف سازشیں کرتے رہتے تھے، یہ بھی اس سلسلہ کی ان کی ایک سازش کا بیان ہے کہ صبح کے وقت قرآن اور پیغمبر پر ایمان کا اظہار کرو اور شام کو کفر و انحراف کا اعلان کر دو ، ممکن ہے یہ طریقہ اختیار کرنے سے بعض مسلمان بھی سوچنے لگیں کہ یہ پڑھے لکھے لوگ مسلمان ہونے کے بعد اس تحریک سے الگ ہوگئے ہیں تو آخر انھوں نے کوئی خرابی یا کمزور پہلو ضرور دیکھا ہوگا۔ (ابن کثیر، شوکانی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور بعضے لوگوں نے اہل کتاب میں سے (بطور مشورہ باہم) کہا کہ (مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی ایک تدبیر ہے کہ ظاہرا) ایمان لے آؤ اس (کتاب) پر جو نازل کی گئی ہے (بواسطہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے) مسلمانوں پر ( مراد یہ کہ قرآن پر ایمان لے آؤ) شروع دن میں (یعنی صبح کے وقت) اور (پھر) انکار کر بیٹھو آخر دن (یعنی شام کو) عجب کیا (اس تدبیر سے مسلمانوں کو بھی قرآن اور اسلام کے حق میں شبہ پڑجائے اور) وہ (اپنے دین سے) پھر جاویں، (اور یہ خیال کریں کہ یہ لوگ علم والے ہیں اور بےتعصب بھی ہیں کہ اسلام قبول کرلیا، اس پر بھی جو پھرگئے تو ضرور اسلام کا غیر حق ہونا ان کو دلائل علمیہ سے ثابت ہوگیا ہوگا، اور ضرور انہوں نے اسلام میں کوئی خرابی دیکھی ہوگی جب ہی تو اس سے پھرگئے اور اہل کتاب نے یہ بھی باہم کہا کہ مسلمانوں کے دکھلانے کو صرف ظاہری ایمان لانا) اور (صدق دل سے) کسی کے روبرو (دین کا) اقرار مت کرنا، مگر ایسے شخص کے روبرو جو تمہارے دین کا پیرو ہو (اس کے روبرو تم کو اپنے قدیم دین کا اقرار خلوص سے کرنا چاہئے باقی غیر مذاہب والوں کے یعنی مسلمانوں کے روبرو ویسے ہی بہ مصلحت مذکورہ زبانی اسلام کا اقرار کرلینا حق تعالیٰ ان کی تدبیر کے لچر ہونے کا اظہار فرماتے ہیں کہ) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجیے کہ (ان چالاکیوں سے کچھ نہیں ہوتا، کیونکہ) یقینا ہدایت ( جو بندوں کو ہوتی ہے وہ) ہدایت اللہ کی ( طرف سے ہوتی) ہے (پس جب ہدایت قبضہ خداوندی میں ہے تو وہ جس کو ہدایت پر قائم رکھنا چاہیں اس کو کوئی دوسرا کسی تدبیر سے نہیں بچا سکتا ہے، آگے ان کے اس مشورہ و تدبیر کی علت بتلاتے ہیں کہ اے اہل کتاب تم) ایسی باتیں اس لئے کرتے ہو کہ کسی اور کو بھی ایسی چیز مل رہی ہے جیسی تم کو ملی تھی (یعنی کتاب اور دین آسمانی) یا وہ اور لوگ تم پر غالب آجویں (اس دین حق کی تعیین میں جو) تمہارے رب کے نزدیک (ہے، حاصل علت کا یہ ہوا کہ تم کو مسلمانوں پر حسد ہے کہ ان کو آسمانی کتاب کیوں مل گئی، یا یہ لوگ ہم پر مذہبی مناظرہ میں کیوں غالب آجاتے ہیں، اس حسد کی وجہ سے اسلام اور اہل اسلام کے تنزل کی کوشش کر رہے ہیں، آگے اس حسد کا رد ہے کہ) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجیے کہ بیشک فضل تو خدا کے قبضہ میں ہے وہ اس سے جسے چاہیں عطا فرمادیں اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والے ہیں ( ان کے یہاں فضل کی کمی نہیں اور) خوب جاننے والے ہیں (کہ کس وقت کس کو دینا مناسب ہے اس لئے) خاص کردیتے ہیں اپنی رحمت (و فضل) کے ساتھ، جس کو چاہیں اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والے ہیں ( پس اس وقت برعایت حکمت مسلمانوں پر فضل و رحمت فرمادیا اس میں حسد کرنا فضول اور جہل ہے ) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالَتْ طَّاۗىِٕفَۃٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِيْٓ اُنْزِلَ عَلَي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَجْہَ النَّہَارِ وَاكْفُرُوْٓا اٰخِرَہٗ لَعَلَّھُمْ يَرْجِعُوْنَ۝ ٧٢ ۚ ۖ- طَّائِفَةُ- وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی:- فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك .- الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو )- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - وجه - أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6]- ( و ج ہ ) الوجہ - کے اصل معیج چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔- نهار - والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62]- ( ن ھ ر ) النھر - النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٢ (وَقَالَتْ طَّآءِفَۃٌ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ اٰمِنُوْا بالَّذِیْ اُنْزِلَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَجْہَ النَّہَارِ وَاکْفُرُوْآ اٰخِرَہٗ ) (لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ ) - یہاں یہود کی ایک بہت بڑی سازش کا ذکرہو رہا ہے جو ان کے ایک گروہ نے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو ناکام بنانے کے لیے مسلمانوں کے خلاف تیار کی تھی۔ اس سازش کا پس منظر یہ تھا کہ دنیا کے سامنے یہ بات آچکی تھی کہ جو کوئی ایک مرتبہ دائرۂ اسلام میں داخل ہوجاتا تھا وہ واپس نہیں آتا تھا ‘ چاہے اسے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جائے ‘ بھوکا پیاسا رکھا جائے ‘ حتیٰ کہ جان سے مار دیا جائے۔ اس طرح اسلام کی ایک دھاک بیٹھ گئی تھی کہ اس کے اندر کوئی ایسی کشش ‘ ایسی حقانیت اور ایسی مٹھاس ہے کہ آدمی ایک مرتبہ اسلام قبول کرلینے کے بعد بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار ہوجاتا ہے ‘ لیکن اسلام سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہوتا۔ اسلام کی یہ جو ساکھ بن گئی تھی اس کو توڑنے کا طریقہ انہوں نے یہ سوچا کہ ایسا کرو صبح کے وقت اعلان کرو کہ ہم ایمان لے آئے۔ سارا دن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت میں رہو اور شام کو کہہ دو ہم نے دیکھ لیا ‘ یہاں کچھ نہیں ہے ‘ یہ دور کے ڈھول سہانے ہیں ‘ ہم تو اپنے کفر میں واپس جا رہے ہیں ‘ ہمیں یہاں سے کچھ نہیں ملا۔ اس سے مسلمانوں میں سے کچھ لوگ تو سمجھیں گے کہ انہوں نے سازش کی ہوگی ‘ لیکن یقیناً کچھ لوگ یہ بھی سمجھیں گے کہ بھئی بڑے متقی لوگ تھے ‘ متلاشیانِ حق تھے ‘ بڑے جذبے اور بڑی شان کے ساتھ انہوں نے کلمہ پڑھا تھا اور ایمان قبول کیا تھا ‘ پھر سارا دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محفل میں بیٹھے رہے ہیں ‘ آخر انہوں نے کچھ نہ کچھ تو دیکھا ہی ہوگا جو واپس پلٹ گئے۔ اس انداز سے عام لوگوں کے دلوں میں وسوسہ اندازی کرنا بہت آسان کام ہے۔ چناچہ انہوں نے منافقانہ شرارت کی یہ سازش تیار کی۔ اسلام میں قتل مرتد کی سزا کا تعلق اسی سے جڑتا ہے۔ اسلامی ریاست میں اس طرح کی سازشوں کا راستہ روکنے کے لیے یہ سزا تجویز کی گئی ہے کہ جو شخص ایمان لانے کے بعد پھر کفر میں جائے گا تو قتل کردیا جائے گا ‘ کیونکہ اسلامی ریاست ایک نظریاتی ( ) ریاست ہے ‘ ایمان اور اسلام ہی تو اس کی بنیادیں ہیں۔ چناچہ اس کی بنیادوں کو کمزور کرنے اور اس کی جڑوں کو کھودنے والی جو چیز بھی ہوسکتی ہے اس کا سدباب پوری قوت سے کرنا چاہیے۔ ّ َ

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :61 یہ ان چالوں میں سے ایک چال تھی جو اطراف مدینہ کے رہنے والے یہودیوں کے لیڈر اور مذہبی پیشوا اسلام کی دعوت کو کمزور کرنے کے لیے چلتے رہتے تھے ۔ انہوں نے مسلمانوں کو بد دل کرنے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عامہ خلائق کو بدگمان کر نے کے لیے خفیہ طور پر آدمیوں کو تیار کر کے بھیجنا شروع کیا تا کہ پہلے علانیہ اسلام قبول کریں ، پھر مرتد ہو جائیں ، پھر جگہ جگہ لوگوں میں یہ مشہور کرتے پھریں کہ ہم نے اسلام میں اور مسلمانوں میں اور ان کے پیغمبر میں یہ اور یہ خرابیاں دیکھی ہیں تب ہی تو ہم ان سے الگ ہو گئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

28: بعض یہودیوں نے مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کے لئے یہ اسکیم بنائی تھی کہ ان میں سے کچھ لوگ صبح کے وقت اسلام لانے کا اعلان کردیں اور پھر شام کو یہ کہہ کر اسلام سے پھر جائیں کہ ہم نے آنحضرتﷺ کو قریب سے جاکر دیکھ لیا، آپ وہ پیغمبر نہیں ہیں جن کی خبر تورات میں دی گئی تھی، ان کا خیال تھا کہ اس طرح کچھ مسلمان یہ سوچ کر اسلام سے برگشتہ ہوسکتے ہیں کہ یہ لوگ جو تورات کے عالم ہیں جب اسلام میں داخل ہونے کے بعد بھی اس نتیجے پر پہنچے ہیں توان کی بات میں ضرور وزن ہوگا۔