Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بددیانت یہودی اللہ تعالیٰ مومنوں کو یہودیوں کی خیانت پر تنبیہہ کرتا ہے کہ ان کے دھوکے میں نہ آجائیں ان میں بعض تو امانتدار ہیں اور بعض بڑے خائن ہیں بعض تو ایسے ہیں کہ خزانے کا خزانہ ان کی امانت میں ہو تو جوں کا توں حوالے کر دیں گے پھر چھوٹی موٹی چیز میں وہ بددیانتی کیسے کریں گے؟ اور بعض ایسے بددیانت ہیں کہ ایک دینار بھی واپس نہ دیں گے ہاں اگر ان کے سر ہو جاؤ تقاضا برابر جاری رکھو اور حق طلب کرتے رہو تو شاید امانت نکل بھی آئے ورنہ ہضم بھی کر جائیں جب ایک دینار تو مشہور ہی ہے ، ابن ابی حاتم میں حضرت مالک بن دینار کا قول مروی ہے کہ دینار کو اس لئے دینار کہتے ہیں کہ وہ دین یعنی ایمان بھی ہے اور نار یعنی آگ بھی ہے ، مطلب یہ ہے کہ حق کے ساتھ لو تو دین ناحق لو تو نار یعنی آتش دوزخ ، اس موقع پر اس حدیث کا بیان کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے جو صحیح بخاری شریف میں کئی جگہ ہے اور کتاب الکفالہ میں بہت پوری ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے کسی اور شخص سے ایک ہزار دینار قرض مانگے اس نے کہا گواہ لاؤ کہا اللہ کی گواہی کافی ہے اس نے کہا ضامن لاؤ اس نے کہا ضمانت بھی اللہ ہی دیتا ہوں وہ اس پر راضی ہو گیا اور وقت ادائیگی مقرر کر کے رقم دے دی وہ اپنے دریائی سفر میں نکل گیا جب کام کاج سے نپٹ گیا تو دریا کنارے کسی جہاز کا انتظار کرنے لگا تاکہ جا کر اس کا قرض ادا کر دے لیکن سواری نہ ملی تو اس نے ایک لکڑی لی اور اسے بیچ میں سے کھوکھلا کر کے اس میں ایک ہزار دینار رکھ دئیے اور ایک خط بھی اس کے نام رکھ دیا پھر منہ بند کر کے اسے دریا میں ڈال دیا اور کہا اے اللہ تو بخوبی جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لئے تیری شہادت پر اور تیری ضمانت پر اور اس نے بھی اس پر خوش ہو کر مجھے دے دئیے اب میں نے ہر چند کشتی ڈھونڈی کہ جا کر اس کا حق مدت کے اندر ہی اندر دے دوں لیکن نہ ملی پس اب عاجز آکر تجھ پر بھروسہ کر کے میں اسے دریا میں ڈال دیتا ہوں تو اسے اس تک پہنچا دے یہ دعا کر کے لکڑی کو سمندر میں ڈال کر چلا آیا لکڑی پانی میں ڈوب گئی ، یہ پھر بھی تلاش میں رہا کہ کوئی سواری ملے تو جائے اور اس کا حق ادا کر آئے ادھر قرض خواہ شخص دریا کے کنارے یا کہ شاید مقروض کسی کشتی میں اس کی رقم لے کر آرہا ہو جب دیکھا کہ کوئی کشتی نہیں آئی اور جانے لگا تو ایک لکڑی کو جو کنارے پر پڑی ہوئی تھی یہ سمجھ کر اٹھا لیا کہ جلانے کے کام آئے گی گھر جا کر اسے چیرا تو مال اور خط نکلا کچھ دنوں بعد قرض دینے والا شخص آیا اور کہا اللہ تعالیٰ جانتا ہے میں نے ہر چند کوشش کی کہ کوئی سواری ملے تو آپ کے پاس آؤں اور مدت گذرنے سے پہلے ہی آپ کا قرض ادا کر دوں لیکن کوئی سواری نہ ملی اس لئے دیر لگ گئی اس نے کہا تو نے جو رقم بھیج دی تھی وہ اللہ نے مجھے پہنچا دی ہے تو اب اپنی یہ رقم واپس لے جا اور راضی خوشی لوٹا جا ، یہ حدیث بخاری شریف میں تعلیق کے ساتھ بھی ہے لیکن جزم کے صیغے کے ساتھ اور بعض جگہ اسناد کے حوالوں کے ساتھ بھی ہے ۔ علاوہ ازیں اور کتابوں میں بھی یہ روایت موجود ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ امانت میں خیانت کرنے حقدار کے حق کو نہ ادا کرنے پر آمادہ کرنے والا سبب ان کا یہ غلط خیال ہے کہ ان بددینوں ان پڑھوں کا مال کھا جانے میں ہمیں کوئی حرج نہیں ہم پر یہ مال حلال ہے ، جس پر اللہ فرماتا ہے کہ یہ اللہ پر الزام ہے اور اس کا علم خود انہیں بھی ہے کیونکہ ان کی کتابوں میں بھی ناحق مال کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے ۔ لیکن یہ بیوقوف خود اپنی من مانی اور دل پسند باتیں گھڑ کر شریعت کے رنگ میں انہیں رنگ لیتے ہیں ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے لوگ مسئلہ پوچھتے ہیں کہ ذمی یا کفار کی مرغی بکری وغیرہ کبھی غزوے کی حالت میں ہمیں مل جاتی ہے تو ہم تو سمجھتے ہیں کہ اسے لینے میں کوئی حرج نہیں تو آپ نے فرمایا ٹھیک یہی اہل کتاب بھی کہتے تھے کہ امتیوں کا مال لینے میں کوئی حرج نہیں ، سنو جب وہ جزیہ ادا کر رہے ہیں تو ان کا کوئی مال تم پر حلال نہیں ہاں وہ اپنی خوشی سے دے دیں تو اور بات ہے ( عبدالرزاق ) سعید بن جبیر فرماتے ہیں جب اہل کتاب سے حضور علیہ السلام نے یہ بات سنی تو فرمایا دشمنان الہ جھوٹے ہیں جاہلیت کی تمام رسمیں میرے قدموں تلے مٹ گئیں اور امانت تو ہر فاسق و فاجر کی بھی ادا کرنی پڑے گی ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ لیکن جو شخص اپنے عہد کو پورا کرے اور اہل کتاب ہو کر ڈرتا رہے پھر اپنی کتاب کی ہدایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اس عہد کے مطابق جو تمام انبیاء سے بھی ہو چکا ہے اور جس عہد کی پابندی ان کی امتوں پر بھی لازم ہے اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے اجتناب کرے اس کی شریعت کی اطاعت کرے رسولوں کے خاتم اور انبیاء کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری تابعداری کرے وہ متقی ہے اور متقی اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

75۔ 1 (ان پڑھ۔ جاہل) سے مراد مشرکین عرب ہیں یہود کے بددیانت لوگ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ چونکہ مشرک ہیں اس لئے ان کا مال ہڑپ کرلینا جائز ہے اس میں کوئی گناہ نہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں اللہ تعالیٰ کس طرح کسی کا مال ہڑپ کر جانے کی اجازت دے سکتا ہے اور بعض تفسیری روایات میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی یہ سن کر فرمایا کہ اللہ کے دشمنوں نے جھوٹ کہا زمانہ جاہلیت کی تمام چیزیں میرے قدموں تلے ہیں سوائے امانت کے کہ وہ ہر صورت میں ادا کی جائے گی چاہے وہ کسی نیکوکار کی ہو یا بدکار کی۔ (ابن کثیر وفتح القدیر) افسوس ہے کہ یہود کی طرح آج بعض مسلمان بھی مشرکین کا مال ہڑپ کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ دارالحرب کا سود ناجائز ہے اور حربی کے مال کے لیے کوئی عصمت نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٦] سود یہودیوں پر بھی حرام کیا گیا تھا۔ لیکن ان کے فقہاء نے کچھ اس طرح موشگافیاں اور نکتہ آفرینیاں کیں جن کی رو سے انہوں نے غیر یہود سے سود وصول کرنا جائز قرار دے لیا تھا ( جیسا کہ آج کل مسلمانوں میں سے ایک گروہ ایسا ہے جو فقہی موشگافیاں پیدا کرکے حربی کافروں سے سود لینا جائز سمجھتا ہے) پھر ان کی یہ سود خوری کی عادت فقط سود تک محدود نہ رہی بلکہ وہ کہتے تھے غیر یہودی کا مال جس طریقے سے ہڑپ کیا جاسکے، جائز ہے۔ یہود کی اس طرح کی حرام خواری کا ذکر اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر فرمایا ہے۔ گویا اس طرح وہ دہرا جرم کرتے تھے۔ ایک حرام خواری دوسرے اسے شریعت سے مستنبط مسئلہ قرار دے کر اسے جائز سمجھنا۔ گویا وہ اپنی اختراع کو اللہ کی طرف منسوب کردیتے تھے۔ سود خوری سے انسان کی طبیعت پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں، وہ ہیں خود غرضی، سنگ دلی، بخل اور مال سے غیر معمولی محبت اور اس کے بعد حرام طریقوں سے مال جمع کرنے کی فکر، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جو ایسے شخص کی مثال دی ہے کہ اگر اسے ایک دینار بھی دے بیٹھیں تو اس سے واپس لینا مشکل ہوجاتا ہے تو وہ اسی قسم کے مال کی محبت میں گرفتار آدمی کی مثال ہے۔ رہی دیانتدار آدمی کی مثال تو وہ ہر قوم اور ہر امت میں کچھ اچھے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں۔ اگرچہ وہ کم ہی ہوتے ہیں۔ یہودیوں میں ایسے لوگ وہ تھے جو سود خوری اور دوسرے ناجائز طریقوں کو فی الواقعہ حرام سمجھتے تھے۔ عبداللہ بن سلام (رض) ایسے ہی شخص تھے۔ کسی نے ان کے پاس بارہ اوقیہ سونا بطور امانت رکھا تھا اور جب مالک نے اپنی امانت طلب کی تو فوراً ادا کردی۔ اب ان کے مقابلہ میں ایک یہودی فحاص نامی تھا۔ کسی نے ایک اشرفی اس کے پاس امانت رکھی ہوئی تھی۔ جب اس نے اس سے امانت طلب کی تو وہ مکر ہی گیا۔- یہود کا غیر اسرائیلیوں کے مال کو ہر جائز و ناجائز ذریعہ سے ہڑپ کر جانے کا جواز ان کی اپنی کتابوں سے ثابت ہے۔ تلمود میں کہا گیا ہے کہ اگر اسرائیلی کا بیل کسی غیر اسرائیلی کے بیل کو زخمی کر دے تو اس پر کوئی تاوان نہیں۔ مگر غیر اسرائیلی کا بیل اگر اسرائیلی کے بیل کو زخمی کردے تو اس پر تاوان ہے۔ نیز اگر کسی کو کوئی گری پڑی چیز ملے تو اسے دیکھنا چاہئے کہ گردوپیش آبادی کن لوگوں کی ہے۔ اگر اسرائیلیوں کی ہو تو اسے اعلان کرنا چاہئے۔ اور اگر غیر اسرائیلیوں کی ہو تو اسے بلا اعلان وہ چیز رکھ لینی چاہیئے۔ ربی شموایل کہتا ہے کہ اگر امی اور اسرائیلی کا مقدمہ قاضی کے پاس آئے تو اگر قاضی اسرائیلی قانون کے مطابق اپنے مذہبی بھائی کو جتوا سکتا ہو تو اس کے تحت جتوائے اور کہے کہ یہ ہمارا قانون ہے اور اگر امیوں کے قانون کے مطابق جتوا سکتا ہو تو اس کے تحت جتائے اور کہے کہ یہ تمہارا قانون ہے۔ اور اگر دونوں قانون ساتھ نہ دیتے ہوں تو پھر جس حیلے سے بھی وہ اسرائیلی کو کامیاب کرسکتا ہو کرے۔ ربی شموایل کہتا ہے کہ غیر اسرائیل کی ہر غلطی سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ (تفہیم القرآن، ج ١ ص ٢٦٦، حاشیہ نمبر ٦٤)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنْ تَاْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ يُّؤَدِّهٖٓ اِلَيْكَ ۚ: اللہ تعالیٰ کا انصاف ملاحظہ فرمائیں کہ اہل کتاب کی مذمت کے دوران بھی اگر ان کے کچھ لوگوں میں کوئی خوبی تھی تو اس کا اعتراف فرمایا ہے، مذمت صرف ان کی فرمائی ہے جو اس کے حق دار تھے۔ ایک خزانہ امانت ادا کردینے والوں کی بہترین مثال صحیح بخاری میں مذکور وہ تفصیلی واقعہ ہے جس میں بنی اسرائیل کے ایک شخص نے دوسرے اسرائیلی سے ایک ہزار دینار قرض مانگا، پھر پہنچانے کے لیے کشتی نہ ملنے پر لکڑی میں ڈال کر سمندر کے حوالے کردیا، پھر بعد میں خود بھی لے کر حاضر ہوا۔ مگر دوسرے نے بھی امانت کا مظاہرہ کیا اور بتایا کہ مجھے تمہاری طرف سے لکڑی میں بھیجی ہوئی رقم مل گئی تھی۔ [ بخاری، الکفالۃ، باب الکفالۃ فی القرض ۔۔ : ٢٢٩١ ] - لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْاُمِّيّٖنَ سَبِيْلٌ ۚ: سر پر کھڑا رہنے کے بغیر ایک دینار بھی ادا نہ کرنے کی وجہ ان کے کہنے کے مطابق یہ ہے کہ اُمّی (عرب) لوگوں کا مال کھا جانے میں ہم پر کوئی گرفت نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھ رہے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کبھی امانت میں خیانت کا حکم نہیں دیا، خواہ وہ اسرائیلی ہو یا عرب، بلکہ اسلام نے تو کسی ذمی کے مال کو بھی بلا اجازت لینا جائز قرار نہیں دیا اور کسی حربی کافر کے مال کو بھی خیانت سے کھانے کی اجازت نہیں دی، چناچہ فرمایا : (اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا ۙ ) [ النساء : ٥٨ ]” بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حق داروں کو ادا کرو۔ “ افسوس کہ یہود کی طرح بعض مسلمان بھی کفار کے ممالک میں سود کے لین دین کے لیے کہتے ہیں کہ دار الحرب میں سود جائز ہے اور دار الحرب بھی اپنی مرضی کا بنایا ہوا ہے، خواہ ان سے جنگ ہو رہی ہو یا نہ۔- ہمارے ایک تاجر دوست نے اس آیت سے استدلال کیا کہ کوئی شخص کتنا بھی قرض واپس نہ کرنے والا ہو، اگر آپ بار بار اس سے تقاضا کرتے رہیں گے تو آخر کار آپ کے پیسے نکل آئیں گے، بشرطیکہ آپ نہ اس سے لڑیں، نہ اسے لڑنے کا موقع دیں، کیونکہ پھر بار بار تقاضا ممکن نہیں رہتا۔ اس نے کہا یہ میرا تجربہ ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات :- اوپر کی آیتوں میں اہل کتاب کی خیانت فی الدین کا ذکر تھا، یعنی ان کا کفر کرنا آیات اللہ کے ساتھ اور خلط کرنا حق اور باطل کا، اور حق کے چھپانے کا، اور تدبیر کرنا مومنین کی گمراہی کی، اگلی آیت میں ان کے اموال میں خیانت کرنے کا ذکر ہے، اور ان میں سے چونکہ بعض امانت دار بھی تھے، اس لئے دونوں قسموں کو ذکر فرمایا۔- خلاصہ تفسیر :- اور اہل کتاب میں سے بعض شخص ایسے ہے کہ ( اے مخاطب) اگر تم اس کے پاس انبار کا انبار مال بھی امانت رکھ دو تو وہ (مانگنے کے ساتھ ہی) اس کو تمہارے پاس لا رکھے اور ان ہی میں سے بعض وہ شخص ہے کہ اگر تم اس کے پاس ایک دینار بھی امانت رکھ دو تو وہ بھی تم کو ادا نہ کرے (بلکہ امانت رکھانے کا بھی اقرار نہ کرے) مگر جب تک کہ تم (امانت رکھ کر) اس کے سر پر (برابر) کھڑے رہو (اس وقت تک تو انکار نہ کرے اور جہاں الگ ہوئے پھر ادا کرنے کا تو کیا ذکر ہے، سرے سے امانت ہی سے مکر جاوے) یہ (امانت کا ادا نہ کرنا) اس سبب سے ہے کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم پر غیر اہل کتاب کے (مال کے) بارے میں (اگر چوری چھپے لیا جاوے مذہبا) کسی طرح کا الزام نہیں (یعنی غیر اہل کتاب مثلا قریش کا مال چرا لینا یا چھین لینا سب جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ آگے ان کے اس دعوی کی تکذیب فرماتے ہیں) اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ لگاتے ہیں (کہ اس فعل کو حلال سمجھتے ہیں) اور دل میں وہ بھی جانتے ہیں ( اللہ تعالیٰ نے اس کو حلال نہیں کیا محض تراشیدہ دعوی ہے - معارف و مسائل :- کسی غیر مسلم کے اچھے اوصاف کی مدح کرنا درست ہے :- (ومن اھل الکتاب من ان تامنہ بقنطار یودہ الیک) اس آیت میں بعض لوگوں کی امانت دار ہونے پر مدح کی گئی ہے اگر اس بعض سے مراد وہ اہل کتاب ہیں جو ایمان لاچکے تھے تو ان کی تعریف کرنے میں کوئی اشکال نہیں، لیکن اگر خاص مومن مراد نہ ہوں بلکہ مطلقا اہل کتاب ہوں جن میں غیر مسلم بھی شامل ہیں تو اس صورت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کافر کا کوئی عمل مقبول نہیں ہوتا تو پھر ان کی مدح سے کیا فائدہ ؟- جواب یہ ہے کہ کسی چیز کا مقبول ہونا اور چیز ہے اور اس کی مدح کرنا اور چیز ہے، مدح کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ اللہ کے ہاں مقبول بھی ہے، اس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ اچھی بات گو کافر کی ہو وہ بھی کسی درجہ میں اچھی ہی ہے، جس کا فائدہ اس کو دنیا میں " نیک نامی " ہے، اور آخرت میں عذاب کی کمی۔- اس بیان سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام تعصب اور تنگ نظری سے کام نہیں لیتا بلکہ وہ کھلے دل سے اپنے مخالف کے ہنر کی بھی اس کے مرتبہ کے مطابق داد دیتا ہے۔ (الا ما دمت علیہ قائما) اس آیت سے امام ابوحنیفہ (رح) نے استدلال کیا ہے کہ دائن کو یہ حق ہے کہ وہ مدیون سے اپنا حق وصول کرنے تک اس کا پیچھا کرتا رہے۔ (قرطبی، جلد ٤)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِقِنْطَارٍ يُّؤَدِّہٖٓ اِلَيْكَ۝ ٠ ۚ وَمِنْھُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِدِيْنَارٍ لَّا يُؤَدِّہٖٓ اِلَيْكَ اِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْہِ قَاۗىِٕمًا۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْاُمِّيّٖنَ سَبِيْلٌ۝ ٠ ۚ وَيَقُوْلُوْنَ عَلَي اللہِ الْكَذِبَ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ۝ ٧٥- أمن - أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، - ( ا م ن ) الامن ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ - قنطار - ( القناطیر) ، جمع القنطار، قيل النون فيه أصليّة فوزنه فعلال بکسر الفاء، وقیل هي زائدة لأنه من قطر يقطر باب نصر إذا جری، فالفضّة والذهب يشبّهان بالماء في الکثرة وسرعة التقلّب، وعلی هذا فوزنه فنعال . واختلف في وزن القنطار قدیما وحدیثا ولکنّ الغالب أنه مائة رطل .( المقنطرة) ، اسم مفعول من قنطر الرباعيّ ، وزنه مفعللة بضمّ المیم وفتح اللامین .- أدى- الأداء : دفع الحق دفعةً وتوفیته، كأداء الخراج والجزية وأداء الأمانة، قال اللہ تعالی: فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمانَتَهُ [ البقرة 283] ، إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَماناتِ إِلى أَهْلِها [ النساء 58] ، وقال : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، وأصل ذلک من الأداة، تقول : أدوت بفعل کذا، أي : احتلت، وأصله : تناولت الأداة التي بها يتوصل إليه، واستأديت علی فلان نحو : استعدیت - ( ا د ی ) الاداء کے معنی ہیں یکبارگی اور پورا پورا حق دے دینا ۔ چناچہ خراج اور جزیہ کے دے دینے اور امانت کے واپس کردینے کو اداء کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ (1 فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ ( سورة البقرة 283) تو امانت دار کو چاہیے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کرے ۔ (1 إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا ( سورة النساء 58) خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے حوالہ کردیا کرو ۔ (1 وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ( سورة البقرة 178) اور پسندیدہ طریق سے خون بہا اسے پورا پورا ادا کرنا ۔ اصل میں یہ اداۃ سے ہے محاورہ ہے ادوت تفعل کذا ۔ کسی کام کے لئے حیلہ اور تدبیر کرنا اصل میں اس کے معنی اداۃ ( کسی چیز ) کو پکڑنے کے ہیں جس کے ذریعہ دوسری چیز تک پہنچا جاسکے ۔- ( دينار)- ، أصله دنّار بنون مشدّدة، فاستثقل اللفظ بهذه النون فأبدلت أولی النونین ياء للتخفیف، وذلک لکثرة الاستعمال، ويعود تضعیف النون في التکثير فيقال دنانیر أو في التصغیر فيقال دنینیر .. والدینار معرّب .- دوم - أصل الدّوام السکون، يقال : دام الماء، أي : سكن، «ونهي أن يبول الإنسان في الماء الدائم» ۔ وأَدَمْتُ القدر ودوّمتها : سكّنت غلیانها بالماء، ومنه : دَامَ الشیءُ : إذا امتدّ عليه الزمان، قال تعالی: وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيداً ما دُمْتُ فِيهِمْ [ المائدة 117]- ( د و م ) الدام - ۔ اصل میں دوام کے معنی سکون کے ہیں کہا جاتا ہے ۔ دام المآء ( پانی ٹھہر گیا ) اور ( حدیث میں یعنی کھڑے پانی میں پیشاب کرنے سے منع کیا گیا ہے تھوڑا سا پانی ڈالکر ہانڈی کو ٹھنڈا کردیا ۔ اسی سے دام الشئی کا محاورہ ہے یعنی وہ چیز جو عرصہ دراز تک رہے قرآن میں ہے : ۔ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيداً ما دُمْتُ فِيهِمْ [ المائدة 117] اور جب تک میں ان میں رہا ان ( کے حالات ) کی خبر رکھتا رہا ۔ إِلَّا ما دُمْتَ عَلَيْهِ قائِماً [ آل عمران 75] جب تک اس کے سر پر ہر قت کھڑے نہ رہو ۔- قائِمٌ- وفي قوله : أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد 33] . وبناء قَيُّومٍ :- ( ق و م ) قيام - أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد 33] تو کیا جو خدا ہر نفس کے اعمال کا نگہبان ہے ۔ یہاں بھی قائم بمعنی حافظ ہے ۔- أُمِّيُّ- هو الذي لا يكتب ولا يقرأ من کتاب، وعليه حمل : هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ [ الجمعة 2] قال قطرب : الأُمِّيَّة : الغفلة والجهالة، فالأميّ منه، وذلک هو قلة المعرفة، ومنه قوله تعالی: وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لا يَعْلَمُونَ الْكِتابَ إِلَّا أَمانِيَّ [ البقرة 78] أي : إلا أن يتلی عليهم .- قال الفرّاء : هم العرب الذین لم يكن لهم کتاب، والنَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوباً عِنْدَهُمْ فِي التَّوْراةِ وَالْإِنْجِيلِ [ الأعراف 157] قيل : منسوب إلى الأمّة الذین لم يکتبوا، لکونه علی عادتهم کقولک : عامّي، لکونه علی عادة العامّة، وقیل : سمي بذلک لأنه لم يكن يكتب ولا يقرأ من کتاب، وذلک فضیلة له لاستغنائه بحفظه، واعتماده علی ضمان اللہ منه بقوله : سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى [ الأعلی 6] . وقیل : سمّي بذلک لنسبته إلى أمّ القری.- الامی ۔ وہ ہے جو نہ لکھ سکتا ہو ، اور نہ ہ کتاب میں سے پڑھ سکتا ہو چناچہ آیت کریمہ ؛۔ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ ( سورة الجمعة 2) وہی تو ہے جس نے ان پڑھو میں انہی میں سے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) کو پیغمبر بناکر بھیجا ۔ میں امیین سے یہی مراد ہے قطرب نے کہا ہے کہ امییہ بمعنی غفلت جہالت کے ہے اور اسی سے امی ہے کیونکہ اسے بھی معرفت نہیں ہوتی چناچہ فرمایا ؛۔ وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ ( سورة البقرة 78) اور بعض ان میں سے ان پڑھ ہیں کہ اپنے خیالات باطل کے سواخدا کی کتاب سے ) واقف نہیں ہیں ۔ یہاں الا امانی کے معنی الا ان یتلیٰ علیھم کے ہیں یعنی مگر یہ کو انہین پڑھ کر سنا یا جائے ۔ فراء نے کہا ہے کہ امیون سے مراد ہیں جو اہل کتاب نہ تھے اور آیت کریمہ ؛ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا ( سورة الأَعراف 157) اور ہو جو ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) رسول ( اللہ ) نبی امی کی پیروی کرتے ہیں جن ( کے اوصاف ) کو وہ اپنے ہاں توراۃ اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ امی اس امت یعنی قوم کی طرف منسوب ہے جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو جس طرح کہ عامی اسے کہتے ہیں جو عوام جیسی صفات رکھتا ہو ۔ بعض نے کہا ہے کہ آنحضرت کو امی کہنا اس بنا پر ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ لکھنا جانتے تھے اور نہ ہی کوئی کتاب پڑھتے تھے ۔ بلکہ وحی الہی کے بارے میں اپنے حافظہ اور خدا کی اس ضمانت پر کہ سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَى ( سورة الأَعلی 6) ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم فراموش نہ کرو گے ۔ اعتماد کرتے تھے یہ صفت آپ کے لئے باعث فضیلت تھی ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ ام القریٰ یعنی مکہ کی طرف نسبت ہے - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (ومن اھل الکتب من ان تامنہ بقنطاریؤدہ الیک، اہل کتاب میں سے کوئی تو ایسا ہے کہ اگر تم اس کے اعتماد پر مال ودولت کا ایک ڈھیر بھی دے دوتو وہ تمھارامال تمہیں اداکردے گا) یہاں لفظ (بقنطار) کے معنی، علی قنطار، کے ہیں اس لیے کہ اس جیسے موقع پر حرف باء اور حرف علی ایک دوسرے کے متعاقب ہوتے ہیں۔ مثلا آپ یہ کہتے ہیں، مررت بفلان ومررت علیہ، (میراگذرفلاں کے پاس سے ہوا، میراگذرفلاں پر ہوا) قنطار کے متعلق حسن سے مروی ہے کہ ایک ہزاردوسومثقال ہوتا ہے (ایک مثقال عرف میں ڈیڑھ درہم کے وزن کا ہوتا ہے) ابونضرہ کا قول ہے کہ بیل کی کھال میں بھرے ہوئے سونے کی مقدارکوقنطارکہتے ہیں۔ مجاہد کا قول ہے کہ اس کی مقدارسترہزا رہے۔ ابوصالح نے کہا ہے کہ یہ ایک سورطل ہے (ایک رطل بارہ وقیہ یعنی چالیس تولے کا ہوتا ہے۔ ) اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر بعض اہل کتاب کی امانت کی واپسی کے سلسلے میں تعریف فرمائی ہے ایک قول ہے کہ اس سے مراد نصاری ہیں۔- بعض اہل عم نے ا سے اہل کتاب کی آپس میں ایک دوسرے کے خلاف گواہی قبول کرلینے پر استدلال کیا ہے اس لیے کہ گواہی امانت کی ایک صورت ہے جس طرح کہ امانت دار مسلمانوں کی ان کی امانت کی بناپر گواہی قابل قبول ہوتی ہے اسی طرح اہل کتاب میں سے اگر کوئی امانت دارہو تو آیت اس پر دال ہے کہ غیرمسلموں کے خلاف اس کی گواہی قابل قبول ہونی چاہیئے۔- اگریہ کہاجائے کہ درج بالااستدلال سے پھر یہ لازم آتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف بھی ان کی گواہی قابل قبول ہونی چاہیئے۔ اس لیے کہ آیت میں جس چیز کی تعریف کی گئی ہے وہ یہی ہے کہ جب مسلمان کسی امانت کے سلسلے میں ان پر اعتماد کرتے ہیں تو یہ امانت انہیں واپس کردیتے ہیں۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ ظاہر آیت تو اسی بات کا متقاضی ہے لیکن ہم نے بالاتفاق اس کی تخصیص کردی ہے۔ جو تخصیص کی ایک درست شکل ہے۔ نیز آیت میں صرف جو ازثابت ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے حق میں گواہی دے سکتے ہیں۔ اس لیے کہ مسلمانوں کو ان کی امانتوں کی واپسی دراصل مسلمانوں کے حق کی واپسی ہوتی ہے۔ لیکن مسلمانوں کے خلاف گواہی دینے کا جواز تو اس پر آیت میں کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔- قول باری ہے (ومنھم من انتامنہ بدینا رلایؤد ہ الیک الامادمت علیہ قائما، اور کسی کا حال یہ ہے کہ اگر تم ایک دینا رکے معاملے میں بھی اس پر بھروسہ کروتو وہ ادانہ کرے گا الایہ کہ تم اس کے سرپرسوار ہوجاؤ) مجاہد اور قتادہ کا قول ہے کہ ، الایہ کہ تم اس سے ادائیگی کا مسلسل تقاضا کرتے رہو۔ سدی کا قول ہے کہ، تم اس کے سرپرسواررہو اور اس کاپیچھا نہ چھوڑو۔ لفظ میں تقاضا کرنے اور پیچھانہ چھوڑنے دونوں معنوں کا احتمال موجود ہے اس لیے لفظ کو ان معنوں پر محمول کیا جائے گا۔ تاہم قول باری (الا مادمت علیہ قائما) میں پیچھانہ چھوڑنے کا مفہوم پیچھاکیئے بغیر مسلسل تقاضا کرنے کے مفہوم سے اولی ہے۔ آیت کی اس پر دلالت ہورہی ہے کہ طالب دین یعنی قرض خواہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مطلوب یعنی مقروض کاپیچھا نہ چھوڑے۔- کوئی قوم کسی قوم پر بلاعمل فوقیت نہیں رکھتی - قول باریے (ذلک بانھم قالوالیس علینا فی الامین سبیل، ان کی اس اخلاقی حالت کا سبب یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں۔ امیوں (غیر یہودی لوگوں) کے معاملہ میں ہم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ ) قتادہ اور سدی سے مروی ہے کہ یہودیہ کہتے تھے۔ عربوں کے اموال میں سے جو کچھ ہم ہتھیالیں اس پر ہمیں کوئی مواخذہ نہیں ہوگا اس لیے کہ یہ سب مشرک ہیں۔ ان کا یہ دعوی تھا کہ ان کی کتاب میں یہ حکم موجود ہے ایک قول ہے کہ ان تمام لوگوں کے متعلق ان کا یہی نظریہ تھا جوان کے مذہب کے مخالف تھے وہ اپنے مخالفین کے مال کو ہتھیا لینا حلال سمجھتے تھے کیونکہ اپنے بارے میں وہ یہ تصور کھتے تھے کہ تمام لوگوں پر ان کی پیروی واجب ہے۔ اور اللہ کے بارے میں یہ دعوی کرتے تھے کہ اس نے ہی ان پر یہ حکم نازل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس کذب بیانی کی خبردیتے ہوئے فرمایا (ویقولون علی اللہ الکذب وھم یعلمون، اور یہ لوگ جھوٹ گھڑکراللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں حالانکہ انہیں معلوم ہے) کہ یہ جھوٹ ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٥۔ ٧٦) اب اہل کتاب کی امانت اور خیانت کو اللہ تعالیٰ واضح فرماتے ہیں، یہود میں سے حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی ایسے ہیں کہ اگر سونے کی تھیلیاں اور انبار ان کے پاس بطور امانت رکھ دو تو وہ مانگتے ہی اسی طرح تمہیں لوٹا دیں اور ان میں ہی میں سے کوئی فرد ایسا بھی ہے کہ اگر ایک دینار بھی تم اس کو دو گے تو وہ بھی واپس نہیں دے گا مگر یہ کہ تم اس سے مسلسل تقاضہ کرتے رہو، اور یہ مثالی کعب اور اس ساتھیوں کی ہے۔- اور یہ دوسرے کے مالوں کا کھاجانا اور خیانت کرنا اس بنا پر ہے کہ وہ اس بات کے مدعی ہیں کہ اہل کتاب کے علاوہ عربوں کا مال کھا جانے میں کوئی گناہ نہیں اور وہ خود جانتے ہیں کہ وہ اس چیز میں جھوٹے ہیں، خائن پر الزام ضرور ہوگا کیوں کہ جو شخص عہد خداوندی اور لوگوں کے وعدوں کو پورا کرے اور خیانت اور عہد توڑنے سے ڈرے، تو یقیناً اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو محبوب رکھتے ہیں اور وہ عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی ہیں۔ (جو ایسے اعلی کردار کے مالک ہیں )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

فرمایا :- آیت ٧٥ (وَمِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِقِنْطَارٍ یُّؤَدِّہٖٓ اِلَیْکَ ج ) یعنی ان میں امانت دار لوگ بھی موجود ہیں۔ - (وَمِنْہُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِدِیْنَارٍ لاَّ یُؤَدِّہٖٓ اِلَیْکَ ) (اِلاَّ مَا دُمْتَ عَلَیْہِ قَآءِمًا ط) - اگر تم اس کے سر پر سوار ہوجاؤ اور اس کو ادائیگی پر مجبور کر دو تب تو تمہاری امانت واپس کر دے گا ‘ ورنہ نہیں دے گا۔ ان میں سے اکثر کا کردار تو یہی ہے ‘ لیکن اہل کتاب میں سے جو تھوڑے بہت دیانت دار تھے ان کی اچھائی کا ذکر بھی کردیا گیا۔ بالفعل اس قسم کے کردار کے حامل لوگ عیسائیوں میں تو موجود تھے ‘ یہودیوں میں نہ ہونے کے برابر تھے ‘ لیکن اہل کتاب کے عنوان سے ان کا ذکر مشترک طور پر کردیا گیا۔ آگے خاص طور پر یہود کا تذکرہ ہے کہ ان میں یہ بددیانتی ‘ بےایمانی اور خیانت کیوں آگئی ہے۔ - (ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوْا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ ج ) - یہودیوں کا یہ عقیدہ تورات میں نہیں ہے ‘ لیکن ان کی اصل مذہبی کتاب کا درجہ تورات کی بجائے تالمود کو حاصل ہے۔ یوں سمجھئے کہ تورات تو ان کے لیے اُمّ الکتاب ہے ‘ جبکہ ان کی ساری شریعت ‘ قوانین و ضوابط اور عبادات کی ساری تفاصیل تالمود میں ہیں۔ اور تالمود میں یہ بات موجود ہے کہ یہودی کے لیے یہودی سے جھوٹ بولنا حرام ہے ‘ لیکن غیر یہودی سے جیسے چاہو جھوٹ بولو۔ یہودی کے لیے کسی یہودی کا مال ہڑپ کرنا حرام اور ناجائز ہے ‘ لیکن غیر یہودی کا مال جس طرح چاہو ‘ دھوکہ ‘ فریب اور بددیانتی سے ہڑپ کرو۔ ہم پر اس کا کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ ان کے نزدیک انسانیت کا شرف صرف یہودیوں کو حاصل ہے اور غیر یہودی انسان ہیں ہی نہیں ‘ یہ اصل میں انسان نما حیوان ( ) ہیں اور ان سے فائدہ اٹھانا ہمارا حق ہے ‘ جیسا کہ گھوڑے کو تانگے میں جوتنا اور بیل کو ہل کے اندر جوت لینا انسان کا حق ہے۔ یہودی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان انسان نما حیوانوں سے ہم جس طرح چاہیں لوٹ کھسوٹ کا معاملہ کریں اور جس طرح چاہیں ان پر ظلم و ستم کریں ‘ اس پر ہماری کوئی پکڑ نہیں ہوگی ‘ کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔ امریکہ میں اس پر ایک مووی بھی بنائی گئی ہے :- " " یہ دستاویزی فلم وہاں کے عیسائیوں نے بنائی ہے اور اس میں ایک شخص نے ایک یہودی کتب خانے میں جا کر وہاں ان کی کتابیں نکال نکال کر ان کے حوالے سے یہودیوں کے نظریات کو واضح کیا ہے اور یہودیت کا اصل چہرہ دنیا کو دکھایا ہے۔ (اب اسی عنوان سے کتاب بھی شائع ہوچکی ہے۔ )- (وَیَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ ) اور وہ جھوٹ گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کر رہے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں (کہ اللہ نے ایسی کوئی بات نہیں فرمائی) ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :64 یہ محض یہودی عوام ہی کا جاہلانہ خیال نہ تھا ، بلکہ ان کےہاں کی مذہبی تعلیم بھی یہی کچھ تھی ، اور ان کے بڑے بڑے مذہبی پیشواؤں کے فقہی احکام ایسے ہی تھے ۔ بائیبل قرض اور سود کے احکام میں اسرائیلی اور غیر اسرائیلی کے درمیان صاف تفریق کرتی ہے ( استثناء ١۵:۳ ۔ ۲۳:۲۰ ) ۔ تلمود میں کہا گیا ہے کہ اگر اسرائیلی کا بیل کسی غیر اسرائیلی کے بیل کو زخمی کر دے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ، مگر غیر اسرائیلی کا بیل اگر اسرائیلی کے بیل کو زخمی کرے تو اس پر تاوان ہے ۔ اگر کسی شخص کو کسی جگہ کوئی گری پڑی چیز ملے تو اسے دیکھنا چاہیے کہ گرد و پیش آبادی کن لوگوں کی ہے ۔ اگر اسرائیلیوں کی ہو تو اسے اعلان کرنا چاہیے ، غیر اسرائیلیوں کی ہو تو اسے بلا اعلان وہ چیز رکھ لینی چاہیے ۔ ربی اشماعیل کہتا ہے کہ اگر امی اور اسرائیلی کا مقدمہ قاضی کےپاس آئے تو قاضی اگر اسرائیلی قانون کے مطابق اپنے مذہبی بھائی کو جتوا سکتا ہو تو اس کے مطابق جتوائے اور کہے کہ یہ ہمارا قانون ہے ۔ اور اگر امیوں کے قانون کے تحت جتوا سکتا ہو تو اس کے تحت جتوائے اور کہے کہ یہ تمہارا قانون ہے ۔ اور اگر دونوں قانون ساتھ نہ دیتے ہوں تو پھر جس حیلے سے بھی وہ اسرائیلی کو کامیاب کر سکتا ہو کرے ۔ ربی شموایل کہتا ہے کہ غیر اسرائیلی کی ہر غلطی سے فائدہ اٹھانا چاہیے ( تالمودِک مِسّلینی ، پال آئزک ہر شون ، لندن ١۸۸۰ء ، صفحات ۳۷ ۔ ۲١۰ ۔ ۲۲١ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani