Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

76۔ 1 قرار پورا کرے کا مطلب وہ عہد پورا کرے جو اہل کتاب سے یا ہر نبی کے واسطے سے ان کی امتوں سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی بابت لیا گیا ہے اور پرہیزگاری کرے یعنی اللہ تعالیٰ کے محارم سے بچے اور ان باتوں پر عمل کرے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمائیں۔ ایسے لوگ یقینا مواخذہ الٰہی سے نہ صرف محفوظ رہیں گے بلکہ محبوب باری تعالیٰ ہونگے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٦۔ ا ] یہود کی باطنی خباثتوں کے ذکر کے درمیان ان کی بددیانتی کا ذکر اس نسبت سے آیا ہے کہ ان دونوں کا منبع ایک ہے اور وہ ہے تقویٰ کا فقدان۔ یعنی یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے ایسے بےباک اور نڈر ہوگئے تھے کہ نہ وہ اللہ کے احکام بیان کرنے میں دیانت سے کام لیتے ہیں اور نہ ہی دوسرے لوگوں سے معاملات میں وہ دیانت کو ملحوظ رکھتے تھے۔ ان کے ذہن میں بس ایک ہی سودا سمایا ہوا تھا کہ وہ چونکہ انبیاء کی اولاد ہیں لہذا جو کچھ بھی وہ کرلیں۔ دوزخ کی آگ ان پر حرام کردی گئی ہے۔ اسی زعم باطل کی بنا پر وہ غیر اسرائیلیوں کے اموال کو ہر جائز و ناجائز طریقے سے ہڑپ کر جانے کو کچھ جرم نہیں سمجھتے تھے اور ان میں چند ایک جو فی الواقع اللہ سے ڈرنے والے تھے۔ وہ نہ اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں کسی قسم کی بددیانتی اور خیانت کے روادار تھے اور نہ لوگوں کے معاملہ میں۔ ایسے ہی متقی لوگوں میں سے ایک عبداللہ بن سلام (رض) اور ان کے حلقہ اثر کے لوگ تھے۔ جو لوگوں سے بھی کسی طرح کی بددیانتی یا ہیرا پھیری نہیں کرتے تھے۔ اور نہ ہی وعدہ خلافی کرتے تھے اور جب انہیں یہ تسلی ہوگئی کہ یہ نبی واقعی وہی نبی ہیں جن کی تورات میں بشارت دی گئی ہے ہے تو وہ بلاخوف لومۃ لائم فوراً اسلام لے آئے تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

” بَلٰي “ (کیوں نہیں) یعنی اس بدعہدی اور خیانت پر ضرور مؤاخذہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ اور محبوب شخص تو وہی ہے جو اللہ تعالیٰ اور بندوں سے کیا ہوا عہد پورا کرتا ہے (اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا عہد بھی داخل ہے) اور پھر ہر معاملہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور اس شریعت کا اتباع کرتا ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر مبعوث ہوئے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ربط آیات :- اوپر ویقولون سے اہل کتاب کے دعوی کی تکذیب مذکور تھی، آگے ان آیات سے اسی تکذیب کی تاکید اور ایفاء عہد کی فضیلت اور نقض عہد کی مذمت کی تصریح ہے۔- خلاصہ تفسیر :- (خائن پر) الزام کیوں نہ ہوگا ( ضرور ہوگا، کیونکہ اس کے متعلق ہمارے یہ دو قانون ہیں، (ایک یہ کہ) جو شخص اپنے عہد کو (خواہ وہ عہد اللہ تعالیٰ سے ہوا ہو، یا بشرط جواز کسی مخلوق سے) پورا کرے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرے تو بیشک اللہ تعالیٰ محبوب رکھتے ہیں (ایسے) متقیوں کو (اور دوسرا قانون یہ ہے کہ) یقینا جو لوگ معاوضہ (یعنی نفع دنیوی) لے لیتے ہیں بمقابلہ اس عہد کے جو (انہوں نے) اللہ تعالیٰ سے کیا ہے (مثلا انبیاء (علیہم السلام) پر ایمان لانا) اور (بمقابلہ) اپنی قسموں کے (مثلا حقوق العباد و معاملات کے باب میں قسم کھا لینا) ان لوگوں کو کچھ حصہ آخرت میں (وہاں کی نعمت کا) نہ ملے گا اور نہ اللہ تعالیٰ ان سے (لطف کا) کلام فرماویں گے پاک کریں گے، اور ان کے لئے دردناک عذاب (تجویز) ہوگا۔- معارف و مسائل :- عہد کی تعریف اور اس کے خلاف کرنے والے پر چند وعیدیں :- عہد اس قول کا نام ہے جو فریقین کے درمیان باہمی بات چیت سے طے ہوتا ہے، جس پر جانبین کو قائم رہنا ضروری ہوتا ہے، بخلاف وعدہ کے کہ وہ صرف جانب واحد سے ہوتا ہے، یعنی عہد عام ہے اور وعدہ خاص ہے۔ ایفائے عہد کی قرآن وسنت میں بہت تاکید آئی ہے، چناچہ اوپر کی آیت نمبر ٧٧ میں بھی عہد کی خلاف ورزی کرنے والے پر پانچ وعیدیں مذکور ہیں۔- (١) ان کے لئے جنت کی نعمتوں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا، ایک حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں کہ جس آدمی نے جھوٹی قسم کے ذریعے کسی مسلمان کا حق دبایا تو اس نے اپنے لئے آگ کو واجب کردیا، راوی نے عرض کیا کہ اگر وہ چیز معمولی سی ہو تب بھی اس کے لئے آگ واجب ہوگی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا اگرچہ وہ درخت کی سبز ٹہنی ہی کیوں نہ ہو۔ (رواہ مسلم بحوالہ مظہری) (٢) اللہ تعالیٰ ان سے خوش کن بات نہیں کریں گے۔ (٣) اور اللہ تعالیٰ ان کی طرف قیامت کے دن رحمت کی نظر سے نہیں دیکھیں گے۔ (٤) اور اللہ تعالیٰ ان کے گناہ کو معاف نہیں کریں گے، کیونکہ عہد کے خلاف کرنے کی وجہ سے عہد کا حق تلف ہوا ہے اور حق العبد کو اللہ تعالیٰ معاف نہیں کریں گے۔ (٥) اور ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

بَلٰي مَنْ اَوْفٰى بِعَہْدِہٖ وَاتَّقٰى فَاِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ۝ ٧٦- وفی پورا - الوَافِي : الذي بلغ التّمام . يقال : درهم وَافٍ ، وكيل وَافٍ ، وأَوْفَيْتُ الكيلَ والوزنَ. قال تعالی: وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء 35] - ( و ف ی) الوافی - ۔ مکمل اور پوری چیز کو کہتے ہیں جیسے : درھم واف کیل واف وغیرہ ذالک اوفیت الکیل والوزن میں نے ناپ یا تول کر پورا پورا دیا ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء 35] اور جب کوئی چیز ناپ کردینے لگو تو پیمانہ پورا پھرا کرو ۔- عهد - العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً.- قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] - ( ع ھ د ) العھد - ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔- تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani