مقصد نبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب یہودیوں اور نجرانی نصرانیوں کے علماء جمع ہوئے اور آپ نے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی تو ابو راقم قرظی کہنے لگا کہ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح نصرانیوں نے حضرت عیسیٰ بن مریم کی عبادت کی ہم بھی آپ کی عبادت کریں؟ تو نجران کے ایک نصرانی نے بھی جسے آئیس کہا جاتا تھا یہی کہا کہ کیا آپ کی یہی خواہش ہے؟ اور یہی دعوت ہے؟ تو حضور علیہ السلام نے فرمایا معاذ اللہ نہ ہم خود اللہ وحدہ لاشریک کے سوا دوسرے کی پوجا نہ کریں کسی اور کو اللہ کے سوا دوسرے کی عبادت کی تعلیم دیں نہ میری پیغمبری کا یہ مقصد نہ مجھے اللہ حاکم اعلیٰ کا یہ حکم ، اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں ، کہ کسی انسان کو کتاب و حکمت اور نبوت و رسالت پا لینے کے بعد یہ لائق ہی نہیں کہ اپنی پرستش کی طرف لوگوں کو بلائے ، جب انبیائے کرام کا جو اتنی بڑی بزرگی فضیلت اور مرتبے والے ہیں یہ منصب نہیں تو کسی اور کو کب لائق ہے کہ اپنی پوجا پاٹ کرائے ، اور اپنی بندگی کی تلقین لوگوں کو کرے ، امام حسن بصری فرماتے ہیں ادنی مومن سے بھی یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ لوگوں کو اپنی بندگی کی دعوت دے ، یہاں یہ اس لئے فرمایا یہ یہود و نصاریٰ آپس میں ہی ایک دوسرے کو پوجتے تھے قرآن شاہد ہے جو فرماتا ہے ( آیت اتخذوا احبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ الخ ، ) یعنی ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ اپنے عالموں اور درویشوں کو اپنا رب بنا لیا ہے ۔ مسند ترمذی کی وہ حدیث بھی آرہی ہے کہ حضرت عدی بن حاتم نے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ تو ان کی عبادت نہیں کرتے تھے تو آپ نے فرمایا کیوں نہیں؟ وہ ان پر حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر دیتے تھے اور یہ ان کی مانتے چلے جاتے تھے یہی ان کی عبادت تھی ، پس جاہل درویش اور بےسمجھ علماء اور مشائخ اس مذمت اور ڈانٹ ڈپٹ میں داخل ہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی اتباع کرنے والے علماء کرام اس سے یکسو ہیں اس لئے کہ وہ تو صرف اللہ تعالیٰ کے فرمان اور کلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کرتے ہیں اور ان کاموں سے روکتے ہیں جن سے انبیاء کرام روک گئے ہیں ، اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے حضرت انبیاء تو خالق و مخلوق کے درمیان سفیر ہیں حق رسالت ادا کرتے ہیں اور اللہ کی امانت احتیاط کے ساتھ بندگان رب عالم کو پہنچا دیتے ہیں نہایت بیداری ، مکمل ہوشیاری ، کمال نگرانی اور پوری حفاظت کے ساتھ وہ ساری مخلوق کے خیر خواہ ہوتے ہیں وہ احکام رب رحمن کے پہچاننے والے ہوتے ہیں ۔ رسولوں کی ہدایت تو لوگوں کو ربانی بننے کی ہوتی ہے کہ وہ حکمتوں والے علم والے اور حلم والے بن جائیں سمجھدار ، عابد و زاہد ، متقی اور پارسا ہیں ۔ حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ قرآن سیکھنے والوں پر حق ہے کہ وہ با سمجھ ہوں تعملون اور تعلمون دونوں قرأت ہیں پہلے کے معنی ہیں معنی سمجھنے کے دوسرے کے معنی ہیں تعلیم حاصل کرنے کے ، تدرسون کے معنی ہیں الفاظ یاد کرنے کے ۔ پھر ارشاد ہے کہ وہ یہ حکم نہیں کرتے کہ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کرو خواہ وہ نبی ہو بھیجا ہوا خواہ فرشتہ ہو قرب الہ والا ، یہ تو وہی کر سکتا ہے جو اللہ کے سوا دوسرے کی عبادت کی دعوت دے اور جو ایسا کرے وہ کافر ہو اور کفر نبیوں کا کام نہیں ان کا کام تو ایمان لانا ہے اور ایمان نام ہے اللہ واحد کی عبادت اور پرستش کا ، اور یہی نبیوں کی دعوت ہے ، جیسے خود قرآن فرماتا ہے ( آیت وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الہ الا انا فاعبدون ) یعنی تجھ سے پہلے بھی ہم نے جتنے رسول بھیجے سب پر یہی وحی نازل کی کہ میرے سوا کوئی معبود ہے ہی نہیں تم سب میری عبادت کرتے رہو اور فرمایا ( آیت ولقد بعثنا فی کل امتہ رسولا ان اعبدوا اللہ واجتنبوا الطاغوت ) یعنی ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اللہ کے سوا ہر کسی کی عبادت سے بچو ، ارشاد ہے تجھ سے پہلے تمام رسولوں سے پوچھ لو کیا ہم نے اپنی ذات رحمان کے سوا ان کی عبادت کے لئے کسی اور کو مقرر کیا تھا ؟ فرشتوں کی طرف سے خبر دیتا ہے کہ ( آیت من یقل منھم الخ ) ان میں سے اگر کوئی کہدے کہ میں معبود ہوں بجز اللہ تو اسے بھی جہنم کی سزا دیں اور اسی طرح ہم ظالموں کو بدلہ دیتے ہیں ۔
79۔ 1 یہ عیسائیوں کے ضمن میں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا بنایا ہوا ہے حالانکہ وہ ایک انسان تھے جنہیں کتاب و حکمت اور نبوت سے سرفراز کیا گیا تھا۔ ایسا کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے پجاری اور بندے بن جاؤ بلکہ وہ تو یہی کہتا ہے کہ رب والے بن جاؤ رَبَّانِیُّ رب کی طرف منسوب ہے، الف اور نون کا اضافہ مبالغہ کے لئے ہے۔ (فتح القدیر) 79۔ 2 یعنی کتاب اللہ کی تعلیم و تدریس کے نتیجے میں رب کی شناخت اور رب سے خصوصی ربط وتعلق قائم ہونا چاہئے، اسی طرح کتاب اللہ کا علم رکھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ لوگوں کو بھی قرآن کی تعلیم دے۔ اس آیت سے واضح ہے کہ جب اللہ کے پیغمبروں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی عبادت کرنے کا حکم دیں، تو کسی اور کو یہ کیونکر حاصل ہوسکتا ہے۔ (ابن کثیر)
[٦٩] اس آیت کی شان نزول کے بارے میں کئی اقوال ہیں اور وہ سب ہی درست معلوم ہوتے ہیں مثلاً ان میں سے ایک یہ ہے، جب نجران کے عیسائی آپ سے بحث و مناظرہ کرنے آئے تو یہود ان کے ساتھ مل گئے اور طنزاً آپ سے کہنے لگے کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی پرستش کیا کریں۔ تب یہ آیت نازل ہوئی اور تیسرا یہ قول ہے کہ کسی صحابی نے آپ سے عرض کیا کہ رومی اور ایرانی اپنے اپنے بادشاہوں کو سجدہ کیا کرتے ہیں کیا ہم بھی آپ کو سلام کے بجائے سجدہ نہ کریں ؟ تو آپ نے اس بات سے سختی سے منع کیا اور فرمایا کہ اللہ کے سوا اگر کسی کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے کیونکہ شوہر کا بیوی پر بہت حق ہے۔ (ترمذی، ابو اب الرضاع والطلاق، باب ماجاء فی حق الزوج علی المراۃ) تب یہ آیت نازل ہوئی۔ جو کچھ بھی ہو اس آیت میں ایسی تمام باتوں کی جامع تردید ہے جو مختلف قوموں نے پیغمبروں کی طرف منسوب کرکے اپنی مذہبی کتابوں میں شامل کردی ہیں۔ جن کی رو سے کوئی پیغمبر یا فرشتہ معبود قرار پاتا ہے۔ ان آیات میں ایک قاعدہ کلیہ بیان کردیا گیا ہے کہ کوئی ایسی تعلیم جو اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی سکھاتی اور بندے کو خدا کے مقام تک لے جاتی ہو، وہ ہرگز کسی پیغمبر کی تعلیم نہیں ہوسکتی اور جہاں کسی مذہبی کتاب میں کوئی ایسی بات پائی جائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ گمراہ کن عقیدہ لوگوں کی تحریفات کا نتیجہ ہے۔- [٧٠] یہودیوں کے وہ علماء جو مذہبی عہدہ دار ہوتے تھے۔ ربانی کہلاتے تھے۔ ان کا کام مذہبی امور میں لوگوں کی رہنمائی کرنا اور عبادات کا قیام اور احکام دین کا اجرا کرنا ہوتا تھا۔ اس آیت میں بتلایا جارہا ہے کہ نبی کا کام یہ نہیں ہوتا کہ پہلے لوگوں کو اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دے۔ پھر جب وہ اس کی اطاعت کرنے لگیں تو ان سے اپنی پرستش کرانا شروع کر دے بلکہ اس کا کام ربانی قسم کے لوگ تیار کرنا ہوتا ہے اور جو کتاب اسے دی جاتی ہے اور جسے تم لوگ پڑھتے پڑھاتے ہو اس کا بھی یہی تقاضا ہوتا ہے۔ کیونکہ انبیاء کا کام کفر و شرک کو مٹانا ہوتا ہے۔ پھیلانا نہیں ہوتا اور انبیاء یا کسی دوسرے کو رب بنا لینے سے بڑھ کر کفر و شرک کی اور کیا بات ہوسکتی ہے ؟- واضح رہے کہ اپنے علماء و مشائخ کی باتوں کے سامنے بلاتحقیق سر تسلیم کردینا بھی انہیں اپنا رب قرار دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ جب یہ آیت ( اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭسُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ 31) 9 ۔ التوبہ :31) نازل ہوئی تو حضرت عدی بن حاتم (جو پہلے عیسائی تھے) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ہم نے اپنے علماء و مشائخ کو رب تو نہیں بنا رکھا تھا۔ آپ نے فرمایا : کیا یہ بات نہ تھی کہ جس چیز کو وہ حلال کہتے تم اسے حلال اور جسے وہ حرام کہتے تم اسے حرام تسلیم کرتے تھے ؟ عدی بن حاتم کہنے لگے ہاں یہ بات تو تھی۔ آپ نے فرمایا : یہی رب بنانا ہوتا ہے (ترمذی ابو اب التفسیر، زیر تفسیر آیت مذکورہ)
مَا كَانَ لِبَشَرٍ ۔۔ : تورات و انجیل میں اہل کتاب کی تحریف بیان کرنے کے بعد اشارہ فرمایا ہے کہ انجیل میں عیسیٰ (علیہ السلام) کی خدائی کے دعویٰ کی خاطر بھی تحریف کی گئی ہے، ورنہ نبی تو بشر ہوتے ہیں اور وحی و نبوت ایسی صفات سے مشرف ہونے کے بعد ان کی طرف سے اپنے الٰہ (خدا) ہونے کا دعویٰ محال ہے۔ (رازی)- پھر جب نبی کا یہ حق نہیں کہ لوگ اس کی عبادت کریں تو دوسرے مشائخ اور ائمہ اس مرتبے پر کیسے فائز ہوسکتے ہیں اور انھیں یہ حق کیسے حاصل ہوگیا کہ اپنے مریدوں کو چوبیس گھنٹے اپنی صورت آنکھوں اور ذہن کے سامنے رکھنے کا حکم دیں اور ان سے یہ عہد لیں کہ میری ہر بات تمہیں ماننا ہوگی، صحیح معلوم ہو یا غلط اور جب مصیبت پیش آئے تو ہمیں یاد کرو گے۔ بتائیے خدائی اور کیا ہوتی ہے ؟ نبی ہونے کی حیثیت سے انبیاء کی پیروی اور ان کا ہر حکم ماننا واجب ہوتا ہے، مشائخ اور ائمہ تو واجب الاتباع بھی نہیں ہوتے۔- كُوْنُوْا عِبَادًا لِّيْ : اس سے معلوم ہوا کہ عبد المسیح یا عبد الرسول یا عبد المصطفی نام رکھنا جائز نہیں۔ - ” اَلرَّبَّانِیُّ “ لفظ ” رب “ پر الف نون بڑھا کر یاء نسبت کی لگا دی گئی ہے اور اس کے معنی عالم باعمل کے ہیں۔ مبرّد فرماتے ہیں کہ یہ ” رَبَّہُ یَرُبُّہُ فَہُوَ رَبَّانُ “ ہے، یعنی صیغہ صفت۔ ” رَبَّانُ “ کے ساتھ ” یاء “ ملائی گئی ہے۔ (فتح البیان) صحیح بخاری میں ہے کہ ابن عباس (رض) نے فرمایا، آیت : ( كُوْنُوْا رَبّٰـنِيّٖنَ ) کا معنی ہے حکماء، فقہاء بنو اور کہا : ” کہا جاتا ہے ” الربانی “ وہ ہے جو علم کی بڑی باتوں سے پہلے اس کی چھوٹی باتوں کے ساتھ لوگوں کی تربیت کرے۔ [ بخاری، العلم، باب العلم قبل القول والعمل ۔۔ ، بعد ح : ٦٧]- بِمَا كُنْتُمْ : اس میں ” باء “ برائے سببیت ہے، چونکہ تم تعلیم و دراست کا مشغلہ رکھتے ہو، اس لیے تمہیں عالم باعمل اور اللہ کے عبادت گزار بندے بننا چاہیے۔ (بیضاوی)- كُوْنُوْا رَبّٰـنِيّٖنَ : شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” ہاں، تم کو (اے اہل کتاب ) یہ کہنا ہے کہ تم میں جو آگے دین داری تھی، یعنی کتاب کا پڑھنا اور سکھانا، وہ اب نہیں رہی۔ اب میری صحبت میں پھر وہی کمال حاصل کرو۔ “ (موضح) اور یہ بات اب قرآن کریم کے پڑھنے پڑھانے اور سیکھنے سکھانے ہی سے حاصل ہوسکتی ہے۔ - کسی شخص میں اگر علم اور کتب الٰہیہ کے پڑھنے پڑھانے سے اللہ تعالیٰ کی بندگی کی خصلت پیدا نہیں ہوتی تو یہ مشغلہ وقت ضائع کرنا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے علم سے پناہ مانگی ہے، آپ دعا کیا کرتے تھے : ( اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عِلْمٍ لَّا یَنْفَعُ ) [ مسلم، الذکر والدعاء، باب فی الأدعیۃ : ٢٧٢٢ ] ” اے اللہ میں ایسے علم سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو نفع نہ دے۔ “ (فتح البیان)
معارف و مسائل :- عصمت انبیاء (علیہم السلام) کی ایک دلیل :- (ما کان لبشر) وفد نجران کی موجودگی میں بعض یہود و نصاری نے کہا تھا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تمہاری اسی طرح پرستش کرنے لگیں جیسے نصاری عیسیٰ بن مریم کو پوجتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، معاذ اللہ : کہ ہم غیر اللہ کی بندگی کریں، یا دوسروں کو اس کی دعوت دیں، حق تعالیٰ نے ہم کو اس کام کے لئے نہیں بھیجا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ " یعنی جس بشر کو حق تعالیٰ کتاب و حکمت اور قوت فیصلہ دیتا اور پیغمبری کے منصب جلیل پر فائز کرتا ہے کہ وہ ٹھیک ٹھیک پیغام الہی پہنچا کر لوگوں کو اس کی بندگی اور وفاداری کی طرف متوجہ کرے، اس کا یہ کام کبھی نہیں ہوسکتا کہ ان کو خالص ایک خدا کی بندگی سے ہٹا کر خود اپنا یا کسی دوسری مخلوق کا بندہ بنانے لگے، اس کے تو یہ معنی ہوں گے کہ خداوند قدوس نے جس کو جس منصب کا اہل جان کر بھیجا تھا فی الواقع وہ اس کا اہل نہ تھا۔ دنیا کی کوئی حکومت بھی اگر کسی شخص کو ایک ذمہ داری کے عہدے پر مامور کرتی ہے تو پہلے دو باتیں سوچ لیتی ہے۔- (١) یہ شخص حکومت کی پالیسی کو سمجھنے اور اپنے فرائض انجام دینے کی لیاقت رکھتا ہے یا نہیں ؟- (٢) حکومت کے احکام کی تعمیل کرنے اور رعایا کو جادہ وفاداری پر قائم رکھنے کی کہاں تک اس سے توقع کی جاسکتی ہے، کوئی بادشاہ یا پارلیمنٹ ایسے آدمی کو نائب السلطنت یا سفیر مقرر نہیں کرسکتی جس کی نسبت حکومت کے خلاف بغاوت پھیلانے یا اس کی پالیسی اور احکام سے انحراف کرنے کا ادنی شبہ ہو، بیشک یہ ممکن ہے کہ ایک شخص کی قابلیت یا جذبہ وفاداری کا اندازہ حکومت صحیح طور پر نہ کرسکی ہو، لیکن خداوند قدوس کے یہاں یہ بھی احتمال نہیں، اگر کسی مرد کی نسبت اس کو علم ہے کہ یہ میری وفاداری اور اطاعت شعاری سے بال برابر تجاوز نہ کرے گا تو محال ہے کہ وہ آگے چل کر اس کے خلاف ثابت ہوسکے، ورنہ علم الہی کا غلط ہونا لازم آتا ہے، العیاذ باللہ۔ یہی سے عصمت انبیاء (علیہم السلام) کا مسئلہ واضح ہوجاتا ہے۔ پھر جب انبیاء (علیہم السلام) ادنی عصیان سے پاک ہیں تو شرک اور خدا کے مقابلہ میں بغاوت کرنے کا امکان کہاں باقی رہ سکتا ہے۔ اس میں نصاری کے اس دعوی کا بھی رد ہوگیا جو کہتے تھے کہ ابنیت و الوہیت مسیح کا عقیدہ ہم کو خود مسیح (علیہ السلام) نے تعلیم فرمایا تھا، اور ان مسلمانوں کو بھی نصیحت کردی گئی جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا تھا کہ ہم سلام کے بجائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سجدہ کیا کریں تو کیا حرج ہے ؟ اور اہل کتاب پر بھی تعریض ہوگئی جنہوں نے اپنے احبارو رہبان کو خدائی کا درجہ دے رکھا تھا، (العیاذ باللہ) ۔ (فوائد عثمانی)
مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّؤْتِيَہُ اللہُ الْكِتٰبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّۃَ ثُمَّ يَقُوْلَ لِلنَّاسِ كُوْنُوْا عِبَادًا لِّيْ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰـنِيّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ ٧٩ ۙ- بشر - وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] ،- ( ب ش ر ) البشر - اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔ - إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - حکمت ( نبوۃ)- قال اللہ تعالی: وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم 12] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «الصمت حکم وقلیل فاعله» أي : حكمة، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران 164] ، وقال تعالی: وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] ، قيل : تفسیر القرآن، ويعني ما نبّه عليه القرآن من ذلک : إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة 1] ، أي : ما يريده يجعله حكمة، وذلک حثّ للعباد علی الرضی بما يقضيه . قال ابن عباس رضي اللہ عنه في قوله : مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] ، هي علم القرآن، ناسخه، مُحْكَمه ومتشابهه .- قرآن میں ہے : ۔ وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم 12] اور ہم نے ان کو لڑکپن میں ہی دانائی عطا فرمائی تھی ۔ اور آنحضرت نے فرمایا کہ خاموشی بھی حکمت ہے ۔ لیکن بہت تھوڑے لوگ اسے اختیار کر ٹے ہیں ۔ یہاں ( آیت اور حدیث میں ) حکم کے معنی حکمت کہ میں قرآن میں ہے : ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران 164] اور ان ( لوگوں ) کو کتاب اور دانائی سکھایا کرے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو ۔ میں حکمت سے مراد تفسیر قرآن ہے یعنی جس پر کہ قرآن نے آیت إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة 1] میں تنبیہ کی ہے کہ اللہ جس چیز کو چاہتا ہے حکمت بنادیتا ہے تو اس میں ترغیب ہے کہ لوگوں کو اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیئے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ۔ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب 34] میں حکمت سے ناسخ منسوخ محکم اور متشابہات کا علم مراد ہے ۔- نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔- دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- علم ( تعلیم)- اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] - تعلیم - کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو - درس - دَرَسَ الدّار معناه : بقي أثرها، وبقاء الأثر يقتضي انمحاء ه في نفسه، فلذلک فسّر الدُّرُوس بالانمحاء، وکذا دَرَسَ الکتابُ ، ودَرَسْتُ العلم : تناولت أثره بالحفظ، ولمّا کان تناول ذلک بمداومة القراءة عبّر عن إدامة القراءة بالدّرس، قال تعالی: وَدَرَسُوا ما فِيهِ- [ الأعراف 169] ، وقال : بِما كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتابَ وَبِما كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ [ آل عمران 79] ، وَما آتَيْناهُمْ مِنْ كُتُبٍ يَدْرُسُونَها [ سبأ 44] ، وقوله تعالی: وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ [ الأنعام 105] ، وقرئ : دَارَسْتَ أي : جاریت أهل الکتاب، وقیل : وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف 169] ، ترکوا العمل به، من قولهم : دَرَسَ القومُ المکان، أي : أبلوا أثره، ودَرَسَتِ المرأةُ : كناية عن حاضت، ودَرَسَ البعیرُ : صار فيه أثر جرب .- ( د ر س ) درس الدار ۔ گھر کے نشان باقی رہ گئے اور نشان کا باقی رہنا چونکہ شے کے فی ذاتہ مٹنے کو چاہتا ہے اس لئے دروس کے معنی انمحاء یعنی مٹ جانا کرلئے جاتے ہیں اسی طرح کے اصل معنی کتاب یا علم حفظ کرکے اس کا اثر لے لینے کے ہیں اور اثر کا حاصل ہونا مسلسل قراءت کے بغیر ممکن نہیں اس لئے درست الکتاب کے معیر مسلسل پڑھنا کے آتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف 169] اور جو کچھ اس ( کتاب ) میں لکھا ہ اس کو انہوں نے پڑھ بھی لیا ہے ۔ بِما كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتابَ وَبِما كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ [ آل عمران 79] کیونکہ تم کتاب ( خدا کی ) تعلیم دینے اور اسے پڑھتے پڑھاتے رہتے ہو ۔ وَما آتَيْناهُمْ مِنْ كُتُبٍ يَدْرُسُونَها [ سبأ 44] اور ہم نے نہ تو ان کو کتابیں دیں جن کو یہ پڑھتے ہیں اور یہ آیت کریمہ : ۔ وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ [ الأنعام 105] میں ایک قراءت وارسلت بھی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ کافر یہ نہ کہیں کہ تم نے کتاب کو دوسروں سے پڑھ لیا ۔ بعض نے کہا ہے وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف 169] کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے اس پر عمل ترک کردیا اور یہ کے محاورہ سے ماخوذ ہے ۔ یعنی انہوں نے مکان کے نشانات مٹادیئے درست المرءۃ ( کنایہ ) عورت کا حائضہ ہونا ۔ درس البعیر ۔ اونٹ کے جسم پر خارش کے اثرات ظاہر ہونا ۔
(٧٩۔ ٨٠) انبیاء کرام میں سے کسی سے یہ نہیں ہوسکتا کہ دین کی فہم عطا ہونے کے بعد وہ کہے تو لوگ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ۔- وہ تو یہی کہے گا کہ کہ تم علماء، فقہاء اللہ تعالیٰ کے تابعدار بندے ہوجاؤ کیوں کہ تم خود بھی کتاب الہی کو جانتے ہو اور دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دیتے ہو، اے گروہ قریش یاد رکھو وہ اللہ کا بندہ (ربانی) یہود ونصاری کو ہرگز نہیں کہے گا کہ تم فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بناؤ، اور یہی معاملہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بھی رہا کہ وہ ہر طرح کے شرک سے بیزار رہے گا اور وہ ابراہیم (علیہ السلام) جب تمہیں اسلام کا حکم دے چکے کہ (آیت) ” فلا تموتن الا وانتم مسلمون (اور تمہاری موت اللہ کی توحید پر ہی آئے) پھر الیعاذ باللہ وہ کفر کے بارے میں کیسے حکم دیں گے ،- اللہ تعالیٰ نے جس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی بھیجا، اسے دعوت اسلام پر مامور کرکے بھیجا ہے، یہودیت نصرانیت اور بت پرستی کے لیے نہیں بھیجا، جیسا کہ یہ کفار بکتے ہیں اور کہا گیا ہے کہ یہ آیت کریمہ یہودیوں کے مقولہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے تھے کہ آپ ان باتوں کا اس لیے ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم آپ سے محبت کریں اور جیسا کہ نصاری نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو معبود بنایا، اسی طرح آپ کو بھی معبود بنائیں، اسی طرح نصاری اور مشرکین کہتے تھے،- شان نزول : (آیت) ” ماکان لبشر “ (الخ)- ابن اسحاق (رح) اور بیہقی (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جس وقت اہل نجران میں سے یہود اور نصاری کے عالم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جمع ہوئے اور آپ نے سب کو اسلام کی دعوت دی تو رافع قرقلی بولا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کو معبود بنالیں، جیسا کہ نصاری نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو معبود بنایا آپ نے یہ سن کر فرمایا معاذ اللہ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی اور عبدالرزاق نے اپنی تفسیر میں حسن (رض) سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ہم آپ کو اس طرح سلام کرتے ہیں جیسا کہ آپس میں کرتے ہیں تو کیا پھر آپ کو سجدہ کریں، آپ نے فرمایا نہیں، بلکہ اپنے نبی کی عزت کرو اور جو حق بات (اسلام) کہتا ہے اسے سمجھو،- کسی کے لیے ہرگز یہ جائز نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے سامنے سرجھکائے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ ماکان البشر، نازل فرمائی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
آیت ٧٩ (مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّؤْتِیَہُ اللّٰہُ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ ) (ثُمَّ یَقُوْلَ للنَّاسِ کُوْنُوْا عِبَادًا لِّیْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ) - یہ اب نصرانیوں کی طرف اشارہ ہو رہا ہے کہ ہم نے تمہاری طرف رسول بھیجے ‘ پھر عیسیٰ ( علیہ السلام) ابن مریم کو بھیجا ‘ انہیں کتاب دی ‘ حکمت دی ‘ نبوت دی ‘ معجزات دیے۔ اور اس کا تو کوئی امکان نہیں کہ وہ ( علیہ السلام) کہتے کہ مجھے اللہ کے سوا اپنا معبود بنا لو - (وَلٰکِنْ کُوْنُوْا رَبّٰنِیّٖنَ بِمَا کُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْکِتٰبَ وَبِمَا کُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ ) ۔- کتابِ الٰہی کی تعلیم و تعلّم کا یہی تقاضا ہے۔ دین کا سیکھنا ‘ سکھانا ‘ قرآن کا پڑھنا پڑھانا اور حدیث و فقہ کا درس و تدریس اس لیے ہونا چاہیے کہ لوگوں کو اللہ والے بنایا جائے ‘ نہ یہ کہ اپنے بندے بنا کر اور ان سے نذرانے وصول کر کے ان کا استحاصل کیا جائے۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :67 یہودیوں کے ہاں جو علماء مذہبی عہدہ دار ہوتے تھے اور جن کا کام مذہبی امور میں لوگوں کی رہنمائی کرنا اور عبادات کے قیام اور احکام دین کا اجراء کرنا ہوتا تھا ، ان کے لیے لفظ رَبَّانِی استعمال کیا جا تا تھا جیسا کہ خود قرآن میں ارشاد ہوا ہے لَوْ لَا یَنْھٰھُمُ الرَّبَّانِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِھِمُ الْاِثْمَ وَ اَکْلِھِمُ السُّحْت ( ان کے ربّانی اور ان کے علماء ان کو گناہ کی باتیں کرنے اور حرام کے مال کھانے سے کیوں نہ روکتے تھے ) ۔ اسی طرح عیسائیوں کے ہاں لفظ ( ) بھی ”ربّانی “ کا ہی ہم معنی ہے ۔
29: یہ عیسائیوں کی تردید ہورہی ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا یا خدا کا بیٹا مان کر گویا یہ دعویٰ کرتے تھے کہ خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ہی ان کو اپنی عبادت کا حکم دی اہے۔ یہی حال ان بعض یہودی فرقوں کا تھا جو حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا مانتے تھے۔