انبیاء سے عہد و میثاق یہاں بیان ہو رہا ہے کہ حضرت آدم سے لے کر حضرت عیسیٰ تک کے تمام انبیاء کرام سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ لیا کہ جب کبھی ان میں سے کسی کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کتاب و حکمت دے اور وہ بڑے مرتبے تک پہنچ جائے پھر اس کے بعد اسی کے زمانے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم آجائے تو اس پر ایمان لانا اور اس کی نصرت و امداد کرنا اس کا فرض ہو گا یہ نہ ہو کہ اپنے علم و نبوت کی وجہ سے اپنے بعد والے نبی کی اتباع اور امداد سے رک جائے ، پھر ان سے پوچھا کہ کیا تم اقرار کرتے ہو؟ اور اسی عہد و میثاق پر مجھے ضامن ٹھہراتے ہو ۔ سب نے کہا ہاں ہمارا اقرار ہے تو فرمایا گواہ رہو اور میں خود بھی گواہ ہوں ۔ اب اس عہد و میثاق سے جو پھر جائے وہ قطعی فاسق ، بےحکم اور بدکار ہے ، حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں٠ کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی سے عہد لیا کہ اس کی زندگی میں اگر اللہ تعالیٰ اپنے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجے تو اس پر فرض ہے کہ وہ آپ پر ایمان لائے اور آپ کی امداد کرے اور اپنی امت کو بھی وہ یہی تلقین کرے کہ وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور آپ کی تابعداری میں لگ جائے ، طاؤس حسن بصری اور قتادہ فرماتے ہیں نبیوں سے اللہ نے عہد لیا کہ ایک دوسرے کی تصدیق کریں ، کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ تفسیر اوپر کی تفسیر کے خلاف ہے بلکہ یہ اس کی تائید ہے اسی لئے حضرت طاؤس رحمۃ اللہ علیہ سے ان کے لڑکے کی روایت مثل روایت حضرت علی اور ابن عباس کے بھی مروی ہے ۔ مسند احمد کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ میں نے ایک دوست قریظی یہودی سے کہا تھا کہ وہ تورات کی جامع باتیں مجھے لکھ دے اگر آپ فرمائیں تو میں انہیں پیش کروں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیر ہو گیا ۔ حضرت عبداللہ ثابت نے کہا کہ تم نہیں دیکھتے کہ آپ کے چہرہ کا کیا حال ہے؟ تو حضرت عمر کہنے لگے میں اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر محمد کے رسول ہونے پر خوش ہوں ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ دور ہوا اور فرمایا قسم ہے اس اللہ تعالیٰ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر حضرت موسیٰ تم میں آجائیں اور تم ان کی تابعداری میں لگ جاؤ اور مجھے چھوڑ دو تو تم سب گمراہ ہو جاؤ تمام امتوں میں سے میرے حصے کی امت تم ہو اور تمام نبیوں میں سے تمہارے حصے کا نبی میں ہوں ، مسند ابو یعلی میں لکھا ہے اہل کتاب سے کچھ نہ پوچھو وہ خود گمراہ ہیں تو تمہیں راہ راست کیسے دکھائیں گے بلکہ ممکن ہے تم کسی باطل کی تصدیق کر لو یا حق کی تکذیب کر بیٹھو اللہ کی قسم اگر موسیٰ بھی تم میں زندہ موجود ہوتے تو انہیں بھی بجز میری تابعداری کے اور کچھ حلال نہ تھا ، بعض احادیث میں ہے اگر موسیٰ اور عیسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری اتباع کے سوا چارہ نہ تھا ، پس ثابت ہوا کہ ہمارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور امام اعظم ہیں جس زمانے میں بھی آپ کی نبوت ہوتی آپ واجب الاطاعت تھے اور تمام انبیاء کی تابعداری پر جو اس وقت ہوں آپ کی فرمانبرداری مقدم رہتی ، یہی وجہ تھی کہ معراج والی رات بیت المقدس میں تمام انبیاء کے امام آپ ہی بنائے گئے ، اسی طرح میدان محشر میں بھی اللہ تعالیٰ کی فیصلوں کو انجام تک پہنچانے میں آپ ہی شفیع ہوں گے یہی وہ مقام محمود ہے جو آپ کے سوا اور کو حاصل نہیں تمام انبیاء اور کل رسول اس دن اس کام سے منہ پھیر لیں گے بالاخر آپ ہی خصوصیت کے ساتھ اس مقام میں کھڑے ہوں گے ، اللہ تعالیٰ اپنے درود و سلام آپ پر ہمیشہ ہمیشہ بھیجتا رہے قیامت کے دن تک آمین ۔
81۔ 1 یعنی ہر نبی سے یہ وعدہ لیا گیا کہ اس کی زندگی اور دور نبوت میں اگر دوسرا نبی آئے گا تو اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہوگا جب نبی کی موجودگی میں آنے والے نئے نبی پر خود اس نبی کو ایمان لانا ضروری ہے تو ان کی امتوں کے لئے تو اس نئے نبی پر ایمان لانا بطریق اولیٰ ضروری ہے بعض مفسرین نے اس کا یہی مفہوم مراد لیا ہے۔ یعنی حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بابت تمام نبیوں سے عہد لیا گیا کہ اگر ان کے دور میں وہ آجائیں تو اپنی نبوت ختم کر کے ان پر ایمان لانا ہوگا لیکن یہ واقعہ ہے پہلے معنی میں ہی یہ دوسرا مفہوم از خود آجاتا ہے اس لئے الفاظ قرآن کے اعتبار سے پہلا مفہوم ہی زیادہ صحیح ہے اس مفہوم کے لحاظ سے بھی یہ بات واضح ہے کہ نبوت محمدی کے سراج منیر کے بعد کسی بھی نبی کا چراغ نہیں جل سکتا جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر (رض) تورات کے اوراق پڑھ رہے تھے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دیکھ کر غضب ناک ہوئے اور فرمایا کہ " قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے کہ اگر موسیٰ (علیہ السلام) بھی زندہ ہو کر آجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کے پیچھے لگ جاؤ تو گمراہ ہوجاؤ گے۔ (مسند احمد بحوالہ ابن کثیر) بہرحال اب قیامت تک واجب الاتباع صرف محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور نجات انہی کی اطاعت میں منحصر ہے نہ کہ کسی امام کی اندھی تقلید یا کسی بزرگ کی بیعت میں۔ جب کسی پیغمبر کا سکہ اب نہیں چل سکتا تو کسی اور کی ذات غیر مشروط اطاعت کی مستحق کیوں کر ہوسکتی ہے ؟ اصر بمعنی عہد اور ذمہ ہے۔
[٧١] اللہ تعالیٰ نے ایک عہد تو تمام بنی آدم سے عالم ارواح میں لیا تھا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے جس کا ذکر سورة اعراف کی آیت نمبر ١٧٧ میں آتا ہے اور دوسرا عہد انبیاء سے لیا گیا تھا۔ جس کا ذکر اس آیت میں ہے اور مفسرین کی رائے کے مطابق یہ عہد بھی عالم ارواح میں ہی لیا گیا تھا اور وہ عہد یہ تھا کہ اگر تمہاری زندگی میں کوئی ایسا نبی آئے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود کتاب کی تصدیق کرتا ہو تو تمہیں اس پر ایمان بھی لانا ہوگا اور اس کی مدد بھی کرنا ہوگی۔ یہ حکم دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے اس حکم کی بجا آوری کی توثیق بھی کرائی۔ بیشمار انبیاء تو ایسے ہیں جو ہم عصر تھے۔ جسے حضرت ابراہیم اور لوط، حضرت موسیٰ اور ہارون، حضرت عیسیٰ اور یحییٰ وغیرہ وغیرہ اور یہ سب دعوت الی اللہ کے کام میں ایک دوسرے کے معاون اور مددگار تھے۔ پھر جو عہد انبیاء سے لیا گیا تھا اس کو پورا کرنے کی ذمہ داری ہر نبی کی امت پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے یہود پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ عیسیٰ اور دوسرے انبیاء پر ایمان لاتے اور ان کے کام میں مددگار ثابت ہوتے۔ اسی طرح یہود، نصاریٰ اور مشرکین مکہ (جو اپنے آپ کو دین ابراہیم کا پیرو کار سمجھتے تھے) سب پر یہی ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاتے اور ان کے معاون و مددگار ثابت ہوتے۔ پھر یہ بات صرف اس عہد تک ہی محدود نہ تھی بلکہ ہر نبی کی کتاب میں بعد میں آنے والے نبی کی بشارت بھی دی جاتی رہی اور اس نبی اور اس کی امت سے اسی قسم کا عہد لیا جاتا رہا۔- واضح رہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کے انبیاء سے یہ عہد لیا گیا تھا اور ان کی کتابوں میں آنے والے نبی کی بشارت بھی دی گئی تھی۔ لیکن آپ سے اس قسم کا عہد نہیں لیا گیا کیونکہ آپ خاتم النبیین ہیں۔ نہ ہی قرآن و حدیث میں کسی آنے والے نبی کی بشارت دی گئی ہے۔ اس کے برعکس قرآن میں آپ کو خاتم النبیین کہا گیا ہے اور بیشمار احادیث صحیحہ سے یہ بات واضح ہے کہ آپ کے بعد تاقیامت کوئی نبی نہیں آئے گا۔ البتہ قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ ضرور نازل ہوں گے۔ مگر اس وقت ان کی حیثیت آپ کے متبع کی ہوگی یعنی وہ شریعت محمدیہ کی ہی اتباع کریں گے۔
وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ ۔۔ : ان آیات سے مقصود ایسے دلائل کی وضاحت ہے جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت ثابت ہوتی ہے۔ (رازی) یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) اور ان کے بعد ہر نبی سے عہد لیا کہ وہ اپنے بعد آنے والے نبی کی تصدیق اور اس کی مدد کرے گا اور اس بارے میں کسی قسم کی گروہ بندی اور عصبیت اس کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔ اگر وہ نبی اس کی زندگی میں آجائے تو بذات خود اس پر ایمان لائے گا اور اگر اس کی وفات کے بعد آئے تو وہ اپنی امت کو بعد میں آنے والے نبی پر ایمان لانے اور اس کی مدد کرنے کا حکم دے کر جائے گا۔ اس اعتبار سے گویا موسیٰ (علیہ السلام) سے عیسیٰ (علیہ السلام) پر اور عیسیٰ (علیہ السلام) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا ہے۔ طبری اور ابن ابی حاتم میں حسن سند کے ساتھ ابن عباس (رض) کا قول منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے عہد لیا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری زندگی میں آجائیں تو تم ان پر ایمان لاؤ گے۔ ابن کثیر (رض) فرماتے ہیں کہ یہ تفسیر کوئی الگ نہیں بلکہ پہلی تفسیر ہی میں شامل ہے۔ بہرحال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور واجب الاتباع ہیں، اب آپ کے سوا کسی اور نبی کی اتباع جائز نہیں۔ - ” اِصْرٌ“ کسی چیز کے باندھنے اور زبردستی بند کرنے کو کہتے ہیں، یعنی بھاری بوجھ۔ اسی طرح مؤکد عہد کو بھی ” اِصْرٌ“ کہتے ہیں، کیونکہ وہ انسان کو باندھ دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب انبیاء سے یہ عہد اور اقرار لیا، انھیں اس کی شہادت کا حکم دیا اور خود بھی شہادت دی۔
اور (وہ وقت بھی قابل ذکر ہے) جب کہ اللہ تعالیٰ نے عہد لیا (حضرات) انبیاء (علیہم السلام) سے کہ جو کچھ تم کو کتاب اور علم (شریعت) دوں (اور) پھر تمہارے پاس کوئی (اور) پیغمبر آوے جو مصداق ( اور موافق) ہو اس (علامت) کا جو تمہارے پاس (کی کتاب اور شریعت میں) ہے (یعنی دلائل معتبرہ عند الشرع سے اس کی رسالت ثابت ہو) تو تم ضرور اس رسول (کی رسالت) پر (دل سے) اعتقاد بھی لانا اور (ہاتھ پاؤں سے) اس کی مدد بھی کرنا (پھر یہ عہد بیان کر کے ارشاد فرمایا کہ آیا تم نے قرار کیا اور لیا اس (مضمون) پر میرا عہد (اور حکم قبول کیا) وہ بولے کہ ہم نے اقرار کیا، ارشاد فرمایا تو (اپنے اس اقرار پر) گواہ بھی رہنا (کیونکہ گواہی سے پھرنے کو ہر شخص ہر حال میں برا سمجھتا ہے، بخلاف اقرار کرنے والے کے کہ بوجہ صاحب غرض ہونے کے اس کا پھرجانا زیادہ مستبعد نہیں ہوتا، اسی طرح تم صرف اقراری نہیں بلکہ گواہ کی طرح اس پر قائم رہنا) اور میں (بھی) اس (مضمون) پر تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ( یعنی واقعہ کی اطلاع اور علم رکھنے والا) ہوں، سو جو شخص (امتوں میں سے) روگردانی کرے گا (اس عہد سے) بعد اس کے (کہ انبیاء تک سے عہد لیا گیا اور امتیں تو کس شمار میں ہیں) تو ایسے ہی لوگ (پوری) نافرمانی کرنے والے (یعنی کافر) ہیں، کیا (دین اسلام سے جس کا عہد لیا گیا ہے روگردانی کر کے) پھر (اس) دین خداوندی کے سوا اور کسی طریقہ کو چاہتے ہیں حالانکہ حق تعالیٰ (کی یہ شان ہے کہ ان) کے (حکم کے) سامنے سب سر افگندہ ہیں جتنے آسمانوں میں (ہیں) اور (جتنے) زمین میں ہیں (بعضے) خوشی (اور اختیار سے) اور (بعضے) مجبوری سے اور (اول تو اس عظمت ہی کا مقتضی یہ تھا کہ کوئی ان کے عہد کی مخالفت نہ کرے خاص کر جبکہ آئندہ سزا کا بھی ڈر ہو چنانچہ) سب خدا ہی کی طرف (قیامت کے روز) لوٹائے (بھی) جاویں گے (اور اس وقت مخالفین کو سزا ہوگی) (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (دین اسلام کے اظہار کے لئے خلاصہ کے طور پر یہ) فرمادیجیے کہ ہم ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور اس (حکم) پر جو ہمارے پاس بھیجا گیا اور اس (حکم) پر جو (حضرت) ابراہیم و اسماعیل و یعقوب (علیہم السلام) اور اولاد یعقوب (میں جو نبی گزرے ہیں ان) کی طرف بھیجا گیا اور اس (حکم و معجزہ) پر بھی جو (حضرت) موسیٰ و عیسیٰ (علیہما السلام) اور دوسرے نبیوں کو دیا گیا ان کے پروردگار کی طرف سے (سو ہم ان سب پر ایمان رکھتے ہیں، اور ایمان بھی) اس کیفیت سے کہ ہم ان (حضرات) میں سے کسی ایک میں بھی (ایمان لانے کے معاملہ میں) تفریق نہیں کرتے (کہ کسی پر ایمان رکھیں اور کسی پر نہ رکھیں) اور ہم تو اللہ ہی کے مطیع ہیں (اس نے ہی دین ہم کو بتلایا ہم نے اختیار کرلیا) ۔- معارف و مسائل :- اللہ تعالیٰ کے تین عہد :- اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے تین طرح کے عہد لئے ہیں۔ ایک کا ذکر سورة اعراف میں (الست بربکم۔ ٧: ١٧٢) کے تحت کیا گیا ہے، اس عہد کا مقصد یہ تھا کہ تمام بنی نوع انسان خدا کی ہستی اور ربوبیت عامہ پر اعتقاد رکھے کیونکہ مذہب کی ساری عمارت اسی سنگ بنیاد پر ہے، جب تک یہ اعتقاد نہ ہو، مذہبی میدان میں عقل و فکر کی رہنمائی کچھ نفع نہیں پہنچا سکتی، اس کی مزید تفصیل انشاء اللہ اپنے مقام پر آئے گی۔ دسرے کا ذکر (واذ اخذ اللہ میثاق الذین اوتوا الکتب لتبیننہ للناس ولا تکتمونہ۔ ٣: ١٨٧) سے کیا گیا، یہ عہد صرف اہل کتاب کے علماء سے لیا گیا تھا کہ وہ حق کو نہ چھپائیں، بلکہ صاف اور واضح طور پر بیان کریں۔ تیسرے عہد کا بیان واذ اخذ اللہ میثاق النبیین لما اتیتکم من کتب و حکمۃ سے کیا گیا ہے اس کی تفصیل آگے آئے گی۔ (تفسیر احمدی)- میثاق سے کیا مراد ہے اور یہ کہاں ہوا ؟ میثاق کہاں ہوا ؟ یا تو عالم ارواح میں ہوا یا دنیا میں بذریعہ وحی ہوا، دونوں احتمال ہیں۔ (بیان القرآن)- میثاق کیا ہے ؟ اس کی تصریح تو قرآن نے کردی ہے۔ لیکن یہ میثاق کس چیز کے بارے میں لیا گیا ہے اس میں اقوال مختلف ہیں۔ حضرت علی اور حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اس سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ عہد تمام انبیاء سے صرف محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں لیا تھا کہ اگر وہ خود ان کا زمانہ پائیں تو ان پر ایمان لائیں اور ان کی تائید و نصرت کریں اور اپنی اپنی امتوں کو بھی یہی ہدایت کر جائیں۔- حضرت طاؤس، حسن بصری اور قتادہ رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ یہ میثاق انبیاء سے اس لئے لیا گیا تھا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کی تائید و نصرت کریں۔ (تفسیر ابن کثیر) اس دوسرے قول کی تائید اللہ تعالیٰ کے قول (واذ اخذنا من النبیین میثاقھم ومنک ومن نوح و ابراہیم و موسیٰ و عیسیٰ ابن مریم واخذنا منھم میثاقا غلیظا۔ ٣٣: ٧۔ احزاب) سے بھی کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ یہ عہد ایک دوسرے کی تائید و تصدیق کے لئے لیا گیا تھا۔ (تفسیر احمدی)- درحقیقت مذکورہ دونوں تفسیروں میں کوئی تعارض نہیں ہے، اس لئے دونوں ہی مراد لی جاسکتی ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر)- تمام انبیاء سے ایمان کے مطالبے کا فائدہ :- بظاہر یہاں یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو علیم وخبیر ہیں ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی نبی کی موجودگی میں تشریف نہیں لائیں گے تو پھر انبیاء کے ایمان لانے کا کیا فائدہ ؟- ذرا غور کیا جائے تو فائدہ بالکل ظاہر معلوم ہوگا کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات والا صفات پر ایمان قبول کرنے کا پختہ ارادہ کریں گے تو اسی وقت سے ثواب پائیں گے۔ (صاوی بحوالہ جلالین)- حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت عامہ :- ( واذ اخذ اللہ میثاق النبیین) ان آیات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے یہ پختہ عہد لیا کہ جب تم میں سے کسی نبی کے بعد دوسرا نبی آئے جو یقینا پہلے انبیاء اور ان کی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہوگا، تو پہلے نبی کے لئے ضروری ہے کہ پچھلے نبی کی سچائی اور نبوت پر ایمان خود بھی لائے اور دوسروں کو بھی اس کی ہدایت کرے، قرآن کے اس قاعدہ کلیہ سے روز روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بھی اسی طرح کا عہد انبیاء سے لیا ہوگا جیسا کہ علامہ سبکی (رح) اپنے رسالہ " التعظیم والمنۃ فی لتومنن بہ ولتنصرنہ " میں فرماتے ہیں کہ " آیت میں رسول سے مراد محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور کوئی نبی بھی ایسا نہیں گزرا جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات والا صفات کے بارے میں تائید و نصرت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا عہد نہ لیا ہو، اور کوئی بھی ایسا نبی نہیں گزرا جس نے اپنی امت کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے اور تائید و نصرت کی وصیت نہ کی ہو، اور اگر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت انبیاء کے زمانے میں ہوتی تو ان سب کے نبی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ہوتے اور وہ تمام انبیاء آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت میں شمار ہوتے، اس سے معلوم ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان محض نبی الامت ہی کی نہیں ہے بلکہ نبی الانبیاء کی بھی ہے۔ چناچہ ایک حدیث میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر آج موسیٰ (علیہ السلام) بھی زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری اتباع کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ تھا۔ اور ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) نازل ہوں گے تو وہ بھی قرآن حکیم اور تمہارے نبی ہی کے احکام پر عمل کریں گے۔ (تفسیر ابن کثیر) اس سے معلوم ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت " عامہ اور شاملہ " ہے، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت میں سابقہ تمام شریعتیں مدغم ہیں، اس بیان سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اشاد " بعثت الی الناس کافۃ " کا صحیح مفہوم بھی نکھر کر سامنے آجاتا ہے کہ اس حدیث کا مطلب یہ سمجھنا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے سے قیامت تک کے لئے ہے صحیح نہیں، بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا زمانہ اتنا وسیع ہے کہ آدم (علیہ السلام) کی نبوت سے پہلے شروع ہوتا ہے، جیسا کہ ایک حدیث میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ " کنت نبیا و ادم بین الروح والجسد " محشر میں شفاعت کبری کے لئے پیش قدمی کرنا اور تمام بنی آدم کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جھنڈے تلے جمع ہونا اور شب معراج میں بیت المقدس کے اندر تمام انبیاء کی امامت کرانا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اسی سیاست عامہ اور امامت عظمی کے آثار میں سے ہے۔
وَاِذْ اَخَذَ اللہُ مِيْثَاقَ النَّبِيّٖنَ لَمَآ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّحِكْمَۃٍ ثُمَّ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ ٠ ۭ قَالَ ءَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰي ذٰلِكُمْ اِصْرِيْ ٠ ۭ قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا ٠ ۭ قَالَ فَاشْہَدُوْا وَاَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰہِدِيْنَ ٨١- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- وثق - وَثِقْتُ به أَثِقُ ثِقَةً : سکنت إليه واعتمدت عليه، وأَوْثَقْتُهُ : شددته، والوَثَاقُ والوِثَاقُ : اسمان لما يُوثَقُ به الشیء، والوُثْقَى: تأنيث الأَوْثَق . قال تعالی: وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر 26] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] - والمِيثاقُ :- عقد مؤكّد بيمين وعهد، قال : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران 81] ، وَإِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثاقَهُمْ [ الأحزاب 7] ، وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء 154] - والمَوْثِقُ الاسم منه . قال : حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف 66] - ( و ث ق )- وثقت بہ اثق ثقتہ ۔ کسی پر اعتماد کرنا اور مطمئن ہونا ۔ اوثقتہ ) افعال ) زنجیر میں جکڑنا رسی سے کس کر باندھنا ۔ اولوثاق والوثاق اس زنجیر یارسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کو باندھ دیا جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر 26] اور نہ کوئی ایسا جکڑنا چکڑے گا ۔- حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد 4] یہ ان تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑے جائیں ان کو قید کرلو ۔- المیثاق - کے منیق پختہ عہدو پیمان کے ہیں جو قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران 81] اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا ۔ وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء 154] اور عہد بھی ان سے پکالیا ۔- الموثق - ( اسم ) پختہ عہد و پیمان کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف 66] کہ جب تک تم خدا کا عہد نہ دو ۔- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ- [ التوبة 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً- [ النساء 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة 116]- ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - إِقْرَارُ- : إثبات الشیء، قال : وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحامِ ما نشاء إِلى أَجَلٍ [ الحج 5] ، وقد يكون ذلک إثباتا، إمّا بالقلب، وإمّا باللّسان، وإمّا بهما والإقرار بالتّوحید وما يجري مجراه لا يغنی باللّسان ما لم يضامّه الإقرار بالقلب، ويضادّ الإقرار الإنكار، وأمّا الجحود فإنما يقال فيما ينكر باللّسان دون القلب، وقد تقدّم ذكره قال : ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ [ البقرة 84] ، ثُمَّ جاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِما مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلى ذلِكُمْ إِصْرِي قالُوا أَقْرَرْنا [ آل عمران 81] ، الاقرار ( افعال) کے معنی کسی چیز کو ٹھہرا دینے کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحامِ ما نشاء إِلى أَجَلٍ [ الحج 5] اور ہم جس کو چاہتے ہیں ایک میعاد مقرر تک پیٹ میں ٹھہرائے رکھتے ہیں ۔ اور کبھی اس کے معنی ثابت کرنا بھی آجاتے ہیں اور اقرار کبھی دل سے ہوتا ہے اور کبھی زبان سے اور کبھی ان دونوں سے ۔ توحید اور دیگر ایمانیات کے بارے میں صرف زبان سے اقرار کرلینا کافی نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے ساتھ دل سے بھی اقرار نہ کرنے ۔ اقراء کی ضد انکار آتی ہے اور حجود صرف زبان سے انکار کردینے پر بولا جاتا ہے خواہ دل سے اسے تسلیم ہی کیوں نہ کرتا ہو جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ [ البقرة 84] پھر تم نے اقرار کرلیا اور تم اس بات ک گواہ ہو ۔ ثُمَّ جاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِما مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلى ذلِكُمْ إِصْرِي قالُوا أَقْرَرْنا [ آل عمران 81] پھر تمہارے پاس کوئی پیغمبر آئے جو تمہاری کتاب کی تصدیق کرے ۔ تو تمہیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا ۔ اور ضرور اس کی مدد کرنی ہوگی ( اور عہد لینے کے بعد ) پوچھا کہ بھلاتم نے اقرار کیا اور اقرار پر میرا ذمہ لیا ۔ انہوں نے کہا ہاں ہم نے اقرار کیا ۔ - أصر - الأَصْرُ : عقد الشیء وحبسه بقهره، يقال : أَصَرْتُهُ فهو مَأْصُورٌ ، والمَأْصَرُ والمَأْصِرُ : محبس السفینة . قال اللہ تعالی: وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ [ الأعراف 157] أي : الأمور التي تثبطهم وتقيّدهم عن الخیرات وعن الوصول إلى الثواب، وعلی ذلك : وَلا تَحْمِلْ عَلَيْنا إِصْراً [ البقرة 286] ، وقیل : ثقلا «3» . وتحقیقه ما ذکرت، والإِصْرُ : العهد المؤكّد الذي يثبّط ناقضه عن الثواب والخیرات، قال تعالی: أَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلى ذلِكُمْ إِصْرِي [ آل عمران 81] . الإصار : الطّنب والأوتاد التي بها يعمد البیت، وما يَأْصِرُنِي عنک شيء، أي : ما يحبسني .- والأَيْصَرُ : کساء يشدّ فيه الحشیش فيثنی علی السنام ليمكن رکوبه .- ( ا ص ر ) الاصر ۔ ( ض ) کے اصل معنی کسی چیز میں گرہ لگانے اور اس کو زبردستی روک لینا کے ہیں اصر یا صر اصرا فھو ماصور اور ماصر وماصر بندر گاہ پر جہاز کھڑا کرنے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ ( سورة الأَعراف 157) اور ان پر سے بوجھ ۔۔۔ اتارتے ہیں ۔ یہاں اصر سے وہ دشواریاں مراد ہیں جو خیرات اور ثواب تک پہنچے سے ان کے لئے رکاوٹ بنی ہوئی تھیں اور آیت :۔ وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا [ البقرة : 286] میں بھی اصر اسی معنی پر محمول ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ اصر کے معنی بوجھ کے ہیں ۔ لیکن اس کی حقیقیت وہی ہے جو ہم نے بیان کردی ہے ۔ نیز اصر اس عہد موکد کو بھی کہے ہیں جو خلاف ورزی کرنے والے کو ثواب اور خیرات سے روک دے چناچہ قرآن میں ہے :۔ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي [ آل عمران : 81] بھلا تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا پختہ عہد لیا ۔ الاصار رسی یا میخ جن کے سہارے پر خیمہ کو کھڑا کیا جاتا ہے ۔ مایاصرنی عتک شیئ مجھے تیرے پاس پہنچنے سے کوئی چیز مانع نہیں ہے ۔ الایصر۔ وہ کمبل جس میں خشک گھاس بھر کر اونٹ کی کوہان کے گرد لپیٹا جاتا ہے تاکہ اس پر آسانی کے ساتھ سواری ہوسکے ۔- شاهِدٌ- وقد يعبّر بالشهادة عن الحکم نحو : وَشَهِدَ شاهِدٌ مِنْ أَهْلِها[يوسف 26] ، وعن الإقرار نحو : وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَداءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهاداتٍ بِاللَّهِ [ النور 6] ، أن کان ذلک شَهَادَةٌ لنفسه . وقوله وَما شَهِدْنا إِلَّا بِما عَلِمْنا [يوسف 81] أي : ما أخبرنا، وقال تعالی: شاهِدِينَ عَلى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ [ التوبة 17] ، أي : مقرّين . لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا [ فصلت 21] ، وقوله : شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلائِكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ [ آل عمران 18] ، فشهادة اللہ تعالیٰ بوحدانيّته هي إيجاد ما يدلّ علی وحدانيّته في العالم، وفي نفوسنا کما قال الشاعر : ففي كلّ شيء له آية ... تدلّ علی أنه واحدقال بعض الحکماء : إنّ اللہ تعالیٰ لمّا شهد لنفسه کان شهادته أن أنطق کلّ شيء كما نطق بالشّهادة له، وشهادة الملائكة بذلک هو إظهارهم أفعالا يؤمرون بها، وهي المدلول عليها بقوله :- فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات 5] ، اور کبھی شہادت کے معنی فیصلہ اور حکم کے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَشَهِدَ شاهِدٌ مِنْ أَهْلِها[يوسف 26] اس کے قبیلہ میں سے ایک فیصلہ کرنے والے نے فیصلہ کیا ۔ اور جب شہادت اپنی ذات کے متعلق ہو تو اس کے معنی اقرار کے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَداءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهاداتٍ بِاللَّهِ [ النور 6] اور خود ان کے سوا ان کے گواہ نہ ہو تو ہر ایک کی شہادت یہ ہے کہ چار بار خدا کی قسم کھائے ۔ اور آیت کریمہ : ما شَهِدْنا إِلَّا بِما عَلِمْنا [يوسف 81] اور ہم نے تو اپنی دانست کے مطابق ( اس کے لے آنے کا ) عہد کیا تھا ۔ میں شھدنا بمعنی اخبرنا ہے اور آیت کریمہ : شاهِدِينَ عَلى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ [ التوبة 17] جب کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی گواہی دے رہے ہوں گے ۔ میں شاھدین بمعنی مقرین ہے یعنی کفر کا اقرار کرتے ہوئے ۔ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا [ فصلت 21] تم نے ہمارے خلاف کیوں شہادت دی ۔ اور ایت کریمہ ؛ شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلائِكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ [ آل عمران 18] خدا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتے اور علم والے لوگ ۔ میں اللہ تعالیٰ کے اپنی وحدانیت کی شہادت دینے سے مراد عالم اور انفس میں ایسے شواہد قائم کرنا ہے جو اس کی وحدانیت پر دلالت کرتے ہیں ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ (268) ففی کل شیئ لہ آیۃ تدل علی انہ واحد ہر چیز کے اندر ایسے دلائل موجود ہیں جو اس کے یگانہ ہونے پر دلالت کر رہے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ باری تعالیٰ کے اپنی ذات کے لئے شہادت دینے سے مراد یہ ہے کہ اس نے ہر چیز کو نطق بخشا اور ان سب نے اس کی وحدانیت کا اقرار کیا ۔ اور فرشتوں کی شہادت سے مراد ان کا ان افعال کو سر انجام دینا ہے جن پر وہ مامور ہیں ۔ جس پر کہ آیت ؛فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات 5] پھر دنیا کے کاموں کا انتظام کرتے ہیں ۔ دلاکت کرتی ہے ۔
(٨١) اب اللہ تعالیٰ اس عہد ومیثاق کا ذکر فرماتے ہیں جو اس نے تمام انبیاء کرام (اور ان کی قوموں سے) لیا کہ وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں گے اور آپ کی مدد فرمائیں گے، چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر ایک نبی سے یہ عہد لیا گیا کہ وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت اور آپ کے فضائل کو بیان کرے گا جب کہ میں اللہ تعالیٰ تمہیں ایسی کتاب دوں گا، جس میں حلال و حرام تمام چیزوں کا بیان ہوگا اور پھر تم اس بات کا اپنی امت سے بھی عہد لوگے کہ اگر تمہارے پاس ایسا رسول آئے جو تمہاری کتابوں کی توحید کے بیان میں تصدیق کرنے والا ہو تو ضرور تم لوگ اس پر اور اس کے فضائل پر ایمان لاؤ گے اور اس کے دشمنوں کے خلاف جہاد میں اس کی مدد کرو گے ،- پھر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، آیاتم نے اقرار کیا اور میرا یہ عہد قبول کیا ؟ تمام انبیاء کرام نے عرض کیا، بیشک ہم نے اس چیز کو قبول کیا ارشاد ہوا، اس اقرار نامہ پر گواہ رہنا اور میں بھی اس گواہ ہوں ،- اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام سے اس چیز کا عہد لیا اور خود بھی اس چیز پر گواہ بنے چناچہ ہر ایک نبی نے اپنی امت کے سامنے اس چیز کو بیان کیا اور ہر ایک نے اپنی امت سے اس چیز پر عہد لیا اور خود انبیاء کرام بھی اس کے گواہ بنے۔
آیت ٨١ (وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاق النَّبِیّٖنَ ) (لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَ ‘ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ ط) - اس لیے کہ انبیاء و رسل کا ایک طویل سلسلہ چل رہا تھا ‘ اور ہر نبی نے آئندہ آنے والے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کی پیشین گوئی کی ہے اور اپنی امت کو اس کا ساتھ دینے کی ہدایت کی ہے۔ اور یہ بھی ختم نبوت کے بارے میں بہت بڑی دلیل ہے کہ ایسی کسی شے کا ذکر قرآن یا حدیث میں نہیں ہے کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسا کوئی عہد لیا گیا ہو یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کو کسی بعد میں آنے والے نبی کی خبر دے کر اس پر ایمان لانے کی ہدایت فرمائی ہو ‘ بلکہ اس کے برعکس قرآن میں صراحت کے ساتھ آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خاتم النبییّن فرمایا گیا ہے اور متعدد احادیث میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارت دے کر گئے ہیں اور دیگر انبیاء کی کتابوں میں بھی بشارتیں موجود ہیں۔ انجیل برنباس کا تو کوئی صفحہ خالی نہیں ہے جس میں آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارت نہ ہو ‘ لیکن باقی انجیلوں میں سے یہ بشارتیں نکال دی گئی ہیں۔- (قَالَ ءَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ ط) ( قَالُوْآ اَقْرَرْنَا ط) - انبیاء و رسل سے یہ عہد عالم ارواح میں لیا گیا۔ جس طرح تمام ارواح انسانیہ سے عہد الستلیا گیا تھا (اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی) اسی طرح جنہیں نبوت سے سرفراز ہونا تھا ان کی ارواح سے اللہ تعالیٰ نے یہ اضافی عہد لیا کہ میں تمہیں نبی بنا کر بھیجوں گا ‘ تم اپنی امت کو یہ ہدایت کر کے جانا کہ تمہارے بعد جو نبی بھی آئے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد اور نصرت کرنا۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :69 مطلب یہ ہے کہ ہر پیغمبر سے اس امر کا عہد لیا جاتا رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو عہد پیغمبر سے لیا گیا ہو وہ لامحالہ اس کی پیرووں پر بھی آپ سے آپ عائد ہو جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ جو نبی ہماری طرف سے اس دین کی تبلیغ و اقامت کے لیے بھیجا جائے جس کی تبلیغ و اقامت پر تم مامور ہوئے ہو ، اس کا تمہیں ساتھ دینا ہو گا ۔ اس کے ساتھ تعصب نہ برتنا ، اپنے آپ کو دین کا اجارہ دار نہ سمجھنا ، حق کی مخالفت نہ کرنا ، بلکہ جہاں جو شخص بھی ہماری طرف سے حق کا پرچم بلند کرنے کے لیے اٹھایا جائے اس کے جھنڈے تلے جمع ہو جانا ۔ یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہر نبی سے یہی عہد لیا جاتا رہا ہے اور اسی بنا پر ہر نبی نے اپنی امت کو بعد کے آنے والے نبی کی خبر دی ہے اور اس کا ساتھ دینے کی ہدایت کی ہے ۔ لیکن نہ قرآن میں نہ حدیث میں ، کہیں بھی اس امر کا پتہ نہیں چلتا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا عہد لیا گیا ہو یا آپ نے اپنی امت کو کسی بعد کے آنے والے نبی کی خبر دے کر اس پر ایمان لانے کی ہدایت فرمائی ہو ۔