[٧٥] اس آیت میں پہلی بات کو ہی دوسرے الفاظ میں دہرایا گیا ہے۔ یعنی دور نبوی کے یہود و نصاریٰ کی زبانوں سے اس امر کی شہادت ادا ہوچکی تھی کہ آپ جو تعلیم لائے ہیں وہ وہی ہے جو سابقہ انبیاء کی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے جو مخالفت کی تو اس کی وجہ محض تعصب اور مفاد پرستی تھی۔ لہذا ایسے لوگوں کا کوئی عمل بھی قابل قبول نہ ہوگا اور آخرت میں ان کے لیے خسارہ ہی خسارہ ہے جس کے بدلے انہیں دردناک عذاب برداشت کرنا پڑے گا۔
وَمَنْ يَّبْتَـغِ ۔۔ : یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبعوث ہوجانے کے بعد جو شخص آپ کی فرماں برداری اور اطاعت کا راستہ چھوڑ کر کوئی اور راستہ اختیار کرے گا، یا کسی پہلے راستے پر چلتا رہے گا، وہ چاہے کتنا توحید پرست کیوں نہ ہو اور پچھلے انبیاء پر ایمان رکھنے والا ہو، اگر وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں رکھتا تو اس کی دین داری اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہوگی اور وہ آخرت میں نامراد و ناکام ہوگا۔ واضح رہے کہ اگرچہ تمام انبیاء کا دین اسلام تھا، مگر آخری پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کے بعد اسلام صرف آپ کی پیروی کا نام ہے۔ قرآن کی اصطلاح میں بھی اب اسلام سے یہی مراد ہوتا ہے، اس معنی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ ) [ مسلم، الأقضیۃ، باب نقض الأحکام الباطلۃ ۔۔ : ١٨ ١٧١٨، عن عائشۃ (رض) ] ” جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا امر نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔ “
خلاصہ تفسیر - اور جو شخص اسلام کے سوا کسی دوسرے دین کو طلب کرے گا تو وہ (دین) اس (شخص) سے (خدا تعالیٰ کے نزدیک) مقبول و (منظور) نہ ہوگا اور (وہ شخص) آخرت میں تباہ کاروں میں سے ہوگا (یعنی نجات نہ پائے گا) ۔- معارف و مسائل :- اسلام کی تعریف اور اس کا مدار نجات ہونا :- " اسلام " کے لفظی معنی اطاعت و فرمانبرداری کے ہیں، اور اصطلاح میں خاص اس دین کی اطاعت کا نام " اسلام " ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے انسانوں کی ہدایت کے لئے بھیجا ہے، کیونکہ اصول دین تمام انبیاء (علیہم السلام) کی شریعتوں میں ایک ہی ہیں۔ پھر لفظ " اسلام " کبھی تو اس عام مفہوم کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور کبھی صرف اس آخری شریعت کے لئے بولا جاتا ہے جو خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی، قرآن کریم میں یہ دونوں طرح کے اطلاقات موجود ہیں، انبیاء سابقین کا اپنے آپ کو مسلم کہنا اور اپنی امت کو امت مسلمہ کہنا بھی نصوص قرآن سے ثابت ہے، اور نام کا خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے ساتھ مخصوص ہونا بھی مذکور ہے۔- (ھو سمکم المسلمین من قبل وفی ھذا۔ ٢٢: ٧٨) خلاصہ یہ کہ ہر دین الہی جو کسی نبی و رسول کے ذریعے دنیا میں آیا اس کو بھی " اسلام " کہا جاتا ہے، اور امت محمدیہ کے لئے یہ خاص لقب کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ قرآن کریم میں اس جگہ " اسلام " کے لفظ سے کونسا مفہوم مراد ہے۔ - صحیح بات یہ ہے کہ دونوں میں سے جو بھی مراد لیا جائے، نتیجہ کے اعتبار سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، کیونکہ انبیاء سابقین کے دین کو جو اسلام کا نام دیا گیا ہے وہ ایک محدود طبقہ اور مخصوص زمانے کے لئے تھا، اسوقت کا اسلام وہی تھا، اس طبقہ اور امت کے علاوہ دوسروں کے لئے اس وقت بھی وہ اسلام معتبر نہ تھا اور جب اس نبی کے بعد اور کوئی نبی بھیج دیا گیا تو اب وہ اسلام نہیں رہا، اس وقت کا اسلام وہ ہوگا جو جدید نبی پیش کرے، جس میں یہ تو ظاہر ہے کہ کوئی اصولی اختلاف نہیں ہوگا مگر فروعی احکام مختلف ہوسکتے ہیں، اور خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو اسلام دیا گیا وہ ناقابل نسخ دائمی تا قیامت رہے گا، اور حسب قاعدہ مذکورہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد پچھلے تمام ادیان منسوخ ہوگئے، اب وہ اسلام نہیں بلکہ اسلام صرف وہ دین ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطہ سے پہنچا، اسی لئے احادیث صحیحہ معتبرہ میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آج اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) زندہ ہوتے تو اس وقت ان پر بھی میرا ہی اتباع لازم ہوتا۔ اور ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ قریب قیامت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نازل ہوں گے، تو باوجود اپنے وصف نبوت اور عہدہ نبوت پر قائم رہنے کے اس وقت وہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی شریعت کا اتباع کریں گے۔- اس لئے اس جگہ خواہ اسلام کا مفہوم عام مراد لیں یا مخصوص امت محمدیہ کا دین مراد لیں، نتیجہ دونوں کا ایک ہی ہے کہ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد صرف وہی دین اسلام کہلائے گا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ دنیا کو پہنچا ہے۔ وہی تمام انسانوں کے لئے مدار نجات ہے، آیت مذکورہ میں اسی کے متعلق ارشاد فرمایا گیا کہ اسلام کے سوا کوئی دوسرا دین جو شخص اختیار کرے وہ اللہ کے نزدیک مقبول نہیں، اس مضمون کی مزید تفصیل اسی سورة کی آیت (ان الدین عنداللہ الاسلام) کے تحت جلد دوم میں گزر گئی ہے۔
وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْہُ ٠ ۚ وَھُوَفِي الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ٨٥- وأمّا الابتغاء - فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] - ( ب غ ی ) البغی - الا بتغاء - یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - سلم - والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . - والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین :- أحدهما : دون الإيمان،- وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] .- والثاني : فوق الإيمان،- وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] ،- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ - شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں - کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔ - دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- خسر - ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] ،- ( خ س ر) الخسروالخسران - عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔
(٨٥) اور جو شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو طلب کرے گا تو وہ جنت اور اس کی نعمتوں سے محروم ہونے والوں اور دوزخ میں جانے والوں اور آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔- شان نزول : (آیت) ” ومن یبتغ غیر الاسلام “ (الخ)- سعید بن منصور نے عکرمہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب (آیت) ” ومن یبتغ غیر الاسلام “۔ یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو یہودی بولے کہ وہ مسلمان ہیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا کہ مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ نے حج بیت اللہ فرض کیا ہے وہ بولے ان پر فرض نہیں ہے اور حج کرنے سے انکار کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی (آیت) ” ومن کفر فان اللہ غنی “ (الخ) کہ جو منکر ہو تو اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں سے غنی ہیں۔