اعمال کے مطابق فیصلے فرمان باری ہے کہ سب سے پہلے مخلوقات کو اسی اللہ نے بنایا اور جس طرح وہ اس کے پیدا کرنے پر اس وقت قادر تھا اب فناکر کے دوبارہ پیدا کرنے پر بھی وہ اتنا ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ قادر ہے تم سب قیامت کے دن اسی کے سامنے حاضر کئے جانے والے ہو ۔ وہاں وہ ہر ایک کو اسکے اعمال کا بدلہ دے گا ۔ قیامت کے دن گنہگار ناامید رسوا اور خاموش ہوجائیں گے ۔ اللہ کے سوا جن جن کی دنیا میں عبادت کرتے رہے ان میں سے ایک بھی ان کی سفارش کے لئے کھڑا نہ ہوگا ۔ اور یہ انکے پوری طرح محتاج ہونگے لیکن وہ ان سے بالکل آنکھیں پھیر لیں گے اور خود ان کے معبودان باطلہ بھی ان سے کنارہ کش ہوجائیں گے اور صاف کہدیں گے کہ ہم میں انمیں کوئی دوستی نہیں ۔ قیامت قائم ہوتے ہی اس طرح الگ الگ ہوجائیں گے جس کے بعد ملاپ ہی نہیں ۔ نیک لوگ تو علیین میں پہنچا دئے جائیں گے اور برے لوگ سجین میں پہنچا دئیے جائیں گے وہ سب سے اعلیٰ بلندی پر ہونگے یہ سب سے زیادہ پستی میں ہونگے پھر اس آیت کی تفصیل ہوتی ہے کہ نیک نفس تو جنتوں میں ہنسی خوشی سے ہونگے اور کفار جہنم میں جل بھن رہے ہونگے ۔
1 1 1یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ پہلی مرتبہ پیدا کرنے پر قادر ہے، وہ مرنے کے بعد دوبارہ انھیں زندہ کرنے پر بھی قادر ہے، اس لئے کہ دوبارہ پیدا کرنا پہلی مرتبہ سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔ 1 1 2یعنی میدان محشر اور موقف حساب میں جہاں وہ عدل و انصاف کا اہتمام فرمائے گا۔
[١٠] اس کی تشریح کے لئے دیکھئے سورة النمل کی آیت نمبر ٦٤ کا حاشیہ نمبر ٦٩ اور سورة العنکبوت کی آیت نبر ١٩ کا حاشیہ نمبر ٣١
اَللّٰهُ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ ۔۔ : پچھلی آیات کا حاصل یہ ہے کہ اللہ سبحانہ دوبارہ زندہ کرنے اور آخرت برپا کرنے پر قادر ہے۔ اب یہی بات صراحت کے ساتھ بطور دعویٰ ذکر فرمائی اور اس طرح فرمائی کہ اس کی دلیل بھی ساتھ ہے، چناچہ فرمایا : (ۧاَللّٰهُ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ) اب تک جو خلق بھی پیدا ہوئی ہے وہ اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی ہے اور وہ اب بھی ہر لمحے جو چاہتا ہے نئی سے نئی مخلوق پیدا کر رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ یہ بات تم بھی مانتے ہو کہ دوسرے کسی نے نہ خلق کی ابتدا کی، نہ کر رہا ہے، نہ کرے گا اور نہ کسی میں جرأت ہے کہ یہ دعویٰ ہی کرے۔ جب یہ حق ہے تو یہ بھی حق ہے کہ وہ اس خلق کو دوبارہ بھی پیدا کرے گا، کیونکہ اس کے لیے پہلی دفعہ پیدا کرنا اور دوبارہ پیدا کرنا یکساں ہے۔ پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے، تاکہ ہر شخص کو اس کے عمل کی جزا ملے، جیسا کہ فرمایا : (لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۢ بِمَا تَسْعٰي) [ طٰہٰ : ١٥ ] ” تاکہ ہر شخص کو اس کا بدلا دیا جائے جو وہ کوشش کرتا ہے۔ “
خلاصہ تفسیر - اللہ تعالیٰ خلق کو اول بار بھی پیدا کرتا ہے پھر وہی دوبارہ بھی اس کو پیدا کرے گا پھر (پیدا ہونے کے بعد) اس کے پاس (حساب کتاب کے لئے) لائے جاؤ گے اور جس روز قیامت قائم ہوگی ( جس میں اعادہ مذکور ہونے والا ہے) اس روز مجرم (یعنی کافر) لوگ (باز پرس کے وقت) حیرت زدہ رہ جائیں گے (یعنی کوئی معقول بات ان سے نہ بن پڑے گی۔ اور ان کے (تراشے ہوئے) شریکوں میں سے (جن کو شریک عبادت بناتے تھے) ان کا کوئی سفارشی نہ ہوگا اور (اس وقت خود) یہ لوگ (بھی) اپنے شریکوں میں سے منکر ہوجائیں گے (کہ واللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ ) اور جس روز قیامت قائم ہوئی اس روز (علاوہ واقعہ مذکورہ کے ایک واقعہ یہ بھی ہوگا کہ مختلف طریقوں کے) سب آدمی جدا جدا ہوجائیں گے۔ یعنی جو لوگ ایمان لائے تھے اور انہوں نے اچھے کام کئے تھے وہ تو (بہشت کے) باغ میں مسرور ہوں گے اور جن لوگوں نے کفر کیا تھا اور ہماری آیتوں کو اور آخرت کے پیش آنے کو جھٹلایا تھا وہ لوگ عذاب میں گرفتار ہوں گے (یہ معنی ہیں جدا جدا ہونے کے، جب ایمان و عمل صالح کی فضیلت تم کو معلوم ہوگئی) سو تم اللہ کی تسبیح (اعتقاداً و قلباً بھی جس میں ایمان آ گیا اور قولاً و لساناً بھی جس میں اقرار و دیگر اذکار آگئے اور عملاً و ارکاناً بھی جس میں تمام عبادتیں عموماً اور نماز خصوصاً آگئیں، غرض تم اللہ کی تسبیح ہر وقت کیا کرو (اور خصوصاً ) شام کے وقت اور صبح کے وقت اور (اللہ کی تسبیح کرنے کا جو حکم ہوا ہے تو وہ واقع میں اس کا مستحق بھی ہے، کیونکہ) تمام آسمانوں اور زمین میں اسی کی حمد ہوتی ہے (یعنی آسمان میں فرشتے اور زمین میں بعض اختیار اور بعض اضطراراً اس کی حمد وثناء کرتے ہیں۔ کقولہ تعالیٰ وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ پس جب وہ ایسا محمود الصفات کامل الذات ہے تو تم کو بھی ضرور اس کی تسبیح کرنی چاہئے) اور بعد زوال (بھی تسبیح کیا کرو) اور ظہر کے وقت (بھی تسبیح کیا کرو کہ یہ اوقات تجدد نعمت و زیادت ظہور آثار قدرت کے ہیں ان میں تجدید تسبیح کی مناسب ہے بالخصوص نماز کے لئے یہی اوقات مقرر ہیں، چناچہ مَسَا میں مغرب و عشاء آگئی اور عَشِی میں ظہر اور عصر دونوں داخل تھے مگر ظہر صراحۃً مذکور ہے اس لئے صرف عصر مراد رہ گئی، اور صبح بھی تصریحاً مذکور ہے اور اس کو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے، کیونکہ اس کی ایسی قدرت ہے کہ) وہ جاندار کو بےجان سے باہر لاتا ہے اور بےجان کو جان دار سے باہر لاتا ہے۔ (مثلاً نطفہ اور بیضہ سے انسان اور بچہ اور انسان اور پرندہ سے نطفہ اور بیضہ) اور زمین کو اس کے مردہ (یعنی خشک) ہونے کے بعد زندہ (یعنی تازہ و شاداب) کرتا ہے اور اسی طرح تم لوگ (قیامت کے روز) قبروں سے نکالے جاؤ گے۔
رکوع نمبر 5- اَللہُ يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُہٗ ثُمَّ اِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَ ١١- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- بدأ - يقال : بَدَأْتُ بکذا وأَبْدَأْتُ وابْتَدَأْتُ ، أي : قدّمت، والبَدْءُ والابتداء : تقدیم الشیء علی غيره ضربا من التقدیم . قال تعالی: وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسانِ مِنْ طِينٍ [ السجدة 7] - ( ب د ء ) بدء ات - بکذا وابتدءات میں نے اسے مقدم کیا ۔ اس کے ساتھ ابتدا کی ۔ البداء والابتداء ۔ ایک چیز کو دوسری پر کسی طور مقدم کرنا قرآن میں ہے وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ ( سورة السجدة 7) اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا ۔ - خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - عود - الْعَوْدُ : الرّجوع إلى الشیء بعد الانصراف عنه إمّا انصرافا بالذات، أو بالقول والعزیمة . قال تعالی: رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون 107] - ( ع و د ) العود ( ن)- کسی کام کو ابتداء کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہاجاتا ہی خواہ وہ پلٹا ھذایۃ ہو ۔ یا قول وعزم سے ہو ۔ قرآن میں ہے : رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون 107] اے پروردگار ہم کو اس میں سے نکال دے اگر ہم پھر ( ایسے کام ) کریں تو ظالم ہوں گے ۔- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے
اللہ تعالیٰ انسان کو پہلی بار نطفہ سے پیدا کرتا ہے اور اس کو قیامت کے دن پھر پیدا کرے گا اور پھر تم قیامت کے دن اس کے سامنے لائے جاؤ گے۔
آیت ١١ (اَللّٰہُ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ ) ” - یہ الفاظ قرآن حکیم میں بار بار آئے ہیں۔ یُعِیْدُہٗ فعل مضارع ہے اور اس لحاظ سے اس میں حال اور مستقبل دونوں زمانوں کے معنی پائے جاتے ہیں۔ اگر اس کا ترجمہ فعل حال میں کیا جائے تو دنیا میں مخلوقات کی بار بار پیدائش ( ) مراد ہوگی ‘ جیسے ایک فصل بار بار کٹتی ہے اور بار بار پیدا ہوتی ہے ‘ جبکہ فعل مستقبل کے ترجمے کی صورت میں اس کا مفہوم عالم آخرت میں انسانوں کے دوبارہ جی اٹھنے تک وسیع ہوجائے گا۔
سورة الروم حاشیہ نمبر : 13 یہ بات اگرچہ دعوے کے انداز میں بیان فرمائی گئی ہے مگر اس میں خود دلیل دعوی بھی موجود ہے ۔ صریح عقل اس بات پر شہادت دیتی ہے کہ جس کے لیے خلق کی ابتدا کرنا ممکن ہو اس کے لیے اسی خلق کا اعادہ کرنا بدرجہ اولی ممکن ہے ۔ خلق کی ابتدا تو ایک امر واقعہ ہے جو سب کے سامنے موجود ہے ۔ اور کفار و مشرکین بھی مانتے ہیں کہ یہ اللہ تعالی ہی کا فعل ہے ۔ اس کے بعد ان کا یہ خیال کرنا سراسر نامعقول بات ہے کہ وہی خدا جس نے اس خلق کی ابتدا کی ہے ، اس کا اعادہ نہیں کرسکتا ۔
4: جو لوگ اِس بات کو ناممکن سمجھتے تھے کہ اِنسان کے مرنے اور گلنے سڑنے کے بعد اسے دوبارہ کیسے زندہ کیا جائے گا، یہ اُن کا جواب ہے۔ یعنی ہرچیز کا قاعدہ یہ ہے کہ اُسے پہلی بار بنانا زیادہ مشکل ہوتا ہے، لیکن جب کوئی چیز ایک مرتبہ بنالی جائے تو دوبارہ اُسی جیسی چیز بنانا اِتنا مشکل نہیں ہوتا۔ یہ آیت بتارہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہی تمام چیزوں کو پہلی بار پیدا فرمایا ہے، اِس لئے اﷲ تعالیٰ کے لئے اُنہیں دوبارہ پیدا کردینا کیا مشکل ہے؟