1 2 1ابلاس کے معنی ہیں اپنے موقف کے اثبات میں کوئی دلیل پیش نہ کرسکنا اور حیران و ساکت کھڑے رہنا اسی کو ناامیدی کے مفہوم سے تعبیر کرلیتے ہیں۔ اس اعتبار سے مبلس وہ ہوگا جو ناامید ہو کر خاموش کھڑا ہو اور اسے کوئی دلیل نہ سوجھ رہی ہو قیامت والے دن کافروں اور مشرکوں کا یہی حال ہوگا، یعنی کہ عذاب کے بعد وہ ہر خبر سے مایوس اور دلیل و حجت پیش کرنے سے قاصر ہونگے۔ مجرموں سے مراد کافر و مشرکین ہیں جیسے کہ اگلی آیت میں واضح ہے
[١١] یعنی وہ اپنی نجات سے مایوس ہوجائیں گے اور کسی کی سفارش یا امداد سے بھی۔ اور ان کی حالت ایسی ہوگی۔ جسے کوئی مجرم رنگے ہاتھوں لوگوں کے سامنے جرم کرتا ہوا پکڑا جائے۔ اور ایسے شخص پر سخت افسردگی اور مایوسی کی حالت طاری ہوجاتی ہے کیونکہ اسے اس جرم کی سزا سے بچنے کی کوئی امکانی صورت نظر نہیں آتی۔
وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُوْنَ : ” أَبْلَسَ الرَّجُلُ “ جب کوئی آدمی لاجواب ہو کر خاموش ہوجائے اور اسے مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ملے، مراد ناامید ہونا ہے۔ یعنی جس دن قیامت قائم ہوگی مجرم لوگ نجات سے ناامید ہوجائیں گے، کیونکہ ان کا مجرم ہونا ثابت ہوجائے گا اور انھیں اپنے دفاع میں کہنے کے لیے کوئی بات نہیں ملے گی۔ مجرموں سے مراد یہاں مشرکین ہیں، جیسا کہ اگلی آیت میں آ رہا ہے، گناہ گار مسلمان مراد نہیں ہیں۔
وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُوْنَ ١٢- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - ساعة- السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187]- ( س و ع ) الساعۃ - ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔- بلس - الإِبْلَاس : الحزن المعترض من شدة البأس، يقال : أَبْلَسَ ، ومنه اشتق إبلیس فيما قيل . قال عزّ وجلّ : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم 12] ، وقال تعالی: أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام 44] ، وقال تعالی: وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم 49] . ولمّا کان المبلس کثيرا ما يلزم السکوت وينسی ما يعنيه قيل : أَبْلَسَ فلان : إذا سکت وإذا انقطعت حجّته، وأَبْلَسَتِ الناقة فهي مِبْلَاس : إذا لم ترع من شدة الضبعة . وأمّا البَلَاس : للمسح، ففارسيّ معرّب «1» .- ( ب ل س ) الا بلاس ( افعال ) کے معنی سخت نا امیدی کے باعث غمگین ہونے کے ہیں ۔ ابلیس وہ مایوس ہونے کی وجہ سے مغمون ہوا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسی سے ابلیس مشتق ہے ۔ قرآن میں ہے : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ [ الروم 12] اور جس دن قیامت بر پا ہوگی گنہگار مایوس مغموم ہوجائیں گے ۔ أَخَذْناهُمْ بَغْتَةً فَإِذا هُمْ مُبْلِسُونَ [ الأنعام 44] توہم نے ان کو نا گہاں پکڑلیا اور وہ اس میں وقت مایوس ہوکر رہ گئے ۔ وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ [ الروم 49] اور بیشتر تو وہ مینہ کے اترنے سے پہلے ناامید ہو رہے تھے ۔ اور عام طور پر غم اور مایوسی کی وجہ سے انسان خاموش رہتا ہے اور اسے کچھ سوجھائی نہیں دیتا اس لئے ابلس فلان کے معنی خاموشی اور دلیل سے عاجز ہونے ب کے ہیں ۔ بلست الناقۃ فھی مبلاس آواز نہ کرو ناقہ زغایت خواہش کش اور کلاس بمعنی ٹاٹ فارسی پل اس سے معرب ہے ۔- جرم - أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة :- ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، - قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] ، - ( ج ر م ) الجرم ( ض)- اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے - متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔
وہ تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ دے گا اور جس دن قیامت قائم ہوگی اس روز مشرکین ہر بھلائی سے مایوس ہوجائیں گے۔
سورة الروم حاشیہ نمبر : 14 یعنی اللہ تعالی کی طرف پلٹنے اور اس کے حضور پیش ہونے کی ساعت ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 15 اصل میں لفظ ابلا من استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں سخت مایوسی اور صدمے کی بنا پر کسی شخص کا گم سم ہوجانا ، امید کے سارے راستے بند پاکر حیران و ششدر رہ جانا ، کوئی حجت نہ پاکر دم بخود رہ جانا ۔ یہ لفظ جب مجرم کے لیے استعمال کیا جائے تو ذہن کے سامنے اس کی یہ تصویر آتی ہے کہ ایک شخص عین حالت جرم میں بھرے ہاتھوں ( - ) پکڑا گیا ہے ، نہ فرار کی کوئی راہ پاتا ہے ، نہ اپنی صفائی میں کوئی چیز پیش کر کے بچ نکلنے کی توقع رکھتا ہے ، اس لیے زبان اس کی بند ہے اور وہ انتہائی مایوسی و دل شکستگی کی حالت میں حیران و پریشان کھڑا ہے ۔ اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ یہاں مجرمین سے مراد صرف وہی لوگ نہیں ہیں جنہوں نے دنیا میں قتل ، چوری ، ڈاکے اور اسی طرح کے دوسرے جرائم کیے ہیں ، بلکہ وہ سب لوگ مراد ہیں جنہوں نے خدا سے بغاوت کی ہے ، اس کے رسولوں کی تعلیم و ہدایت کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے ، آخرت کی جواب دہی کے منکر یا اس سے بے فکر رہے ہیں ، اور دنیا میں خدا کے بجائے دوسروں کی یا اپنے نفس کی بندگی کرتے رہے ہیں ، خواہ اس بنیادی گمراہی کے ساتھ انہوں نے وہ افعال کیے ہوں یا نہ کیے ہوں جنہیں عرف عام میں جرائم کہا جاتا ہے ۔ مزید برآں اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے خدا کو مان کر ، اس کے رسولوں پر ایمان لاکر ، آخرت کا اقرار کر کے پھر دانستہ اپنے رب کی نافرمانیاں کی ہیں اور آخر وقت تک اپنی اس باغیانہ روش پر ڈٹے رہے ہیں ۔ یہ لوگ جب اپنی توقعات کے بالکل خلاف عالم آخرت میں یکایک جی اٹھیں گے اور دیکھیں گے کہ یہاں تو واقعی وہ دسری زندگی پیش آگئی ہے جس کا انکار کر کے ، یا جسے نظر انداز کر کے وہ دنیا میں کام کرتے رہے تھے تو ان کے حواس باختہ ہوجائیں گے اور وہ کیفیت ان پر طاری ہوگی جس کا نقشہ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُوْنَ کے الفاظ میں کھینچا گیا ہے ۔