1 3 1شریکوں سے مراد معبودان باطلہ ہیں جن کی مشرکین، یہ سمجھ کر عبادت کرتے تھے کہ یہ اللہ کے ہاں ان کے سفارشی ہوں گے، اور انھیں اللہ کے عذاب سے بچالیں گے۔ لیکن اللہ نے یہاں وضاحت فرما دی کہ اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے اللہ کے ہاں کوئی سفارشی نہیں ہوگا ۔ 1 3 2یعنی وہاں ان کی الوہیت کے منکر ہوجائیں گے کیونکہ وہ دیکھ لیں گے کہ یہ تو کسی کو کوئی فائدہ پہنچانے پر قادر نہیں ہیں دوسرے معنی ہیں کہ یہ معبود اس بات سے انکار کردیں گے کہ یہ لوگ انھیں اللہ کا شریک گردان کر ان کی عبادت کرتے تھے۔ کیونکہ وہ تو ان کی عبادت سے ہی بیخبر ہیں۔
[١٢] دنیا میں جن چیزوں کو اللہ کا شریک سمجھاتا جاتا رہا ہے یا اس کی صفات و اختیارات میں شریک بنایا جاتارہا ہے ان کی تین ہی قسمیں ہوسکتی ہیں۔ ایک بےجان اشیاء جیسے پتھر کے بت یا شمس و قمر اور ستارے یا دوسرے شجر و حجر۔ دوسرے ایسے جاندار جنہوں نے کبھی اپنی خدائی کا دعویٰ نہ کیا ہو۔ جیسے ملائکہ، انبیائ، اولیاء اور صالحین۔ نیز بعض جاندار حیوانات، جیسے سانپ اور گائے وغیرہ۔ ان میں انبیاء اور صالحین تو ایسے لوگ ہیں جو دوسروں کو شرک سے سختی سے منع بھی کرتے رہے چہ جائیکہ وہ خود خدائی اختیارات کے طالب ہوں اور تیسرے وہ جاندار جو اپنی خدائی سے لوگوں سے منوانا چاہتے ہیں جیسے شیاطین، اللہ کے نافرمان بادشاہ، ادارے یا حکومتیں اور وہ اولیاء حضرات جنہوں نے اپنے مریدوں کی سفارش کی ذمہ داری اٹھا رکھی ہے یا یہ کہتے ہیں کہ پیر اپنے مریدوں کے اعمال و احوال سے ہر وقت باخبر رہتا ہے اور مشکل کے وقت انھیں پکارنے پر وہ فریاد کو بھی پہنچ جاتا ہے۔- اب دیکھئے پہلی قسم کے یعنی بےجان معبودوں سے تو سفارش کی توقع ہی عبث ہے۔ البتہ ان پتھروں اور شجر حجر کو بھی مشرکوں کے ساتھ جہنم میں ڈال دیا جائے گا تاکہ ایسے نعمتوں کی حسرت میں اضافہ ہو نیز یہ اشیاء جہنم کی آگ کو مزید بھڑکا کر ان کے لئے مزید عذاب کا باعث بنجائے۔ دوسری قسم کے معبود اللہ کے حضور صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو ان کمبختوں کو شرک سے منع ہی کرتے رہے ہمیں کیا خبر تھی کہ یہ بدبخت ہماری ہی عبادت شروع کردی گے۔ لہذا یہ لوگ بھی اپنے عابدوں سے سخت بیزار ہوں گے۔ وہ ان کی سفارش کیا کریں گے۔ تیسری قسم کے لوگ جو فی الواقعہ مجرم ہوں گے۔ وہ تو خود گرفتار بلد اور عذاب میں ماخوذ ہوں گے۔ وہ اس بات کو غنیمت سمجھیں گے کہ اپنے عابدوں کے گناہوں کا کچھ حصہ ان پر نہ ضالا جائے گا لہذا وہ ایسے دلائل دینا شروع کردیں گے جن سے یہ ثابت کرسکیں کہ یہ عابد حضرات اپنے جرائم کے خود ہی ذمہ دار تھے۔ اور اس طرح ان کے دشمن بن جائیں گے اور اپنے آپ کو ان سے چھڑانا چاہیں گے۔ اس حال میں بھلا وہ کیا سفارش کرسکیں گے۔ غرضیکہ مشرکوں کے شریکوں میں سے کوئی بھی اللہ کے ہاں ان کی سفارش نہ کرے گا یا کرنے کے قابل ہی نہ ہوگا۔
وَلَمْ يَكُنْ لَّهُمْ مِّنْ شُرَكَاۗىِٕهِمْ شُفَعٰۗـــؤُا : یعنی مشرکین نے جن ہستیوں کو اللہ کا شریک بنا رکھا تھا ان میں سے کوئی بھی ان کی شفاعت نہیں کرے گی، کیونکہ اس دن نہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر سفارش کرسکے گا اور نہ کسی ایسے شخص کے حق میں سفارش ہو سکے گی جس کے لیے شفاعت کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اذن نہ ہو۔ دیکھیے آیت الکرسی اور سورة طٰہٰ (١٠٩) ۔- وَكَانُوْا بِشُرَكَاۗىِٕهِمْ كٰفِرِيْنَ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (١٦٧) اور سورة انعام (٢٢، ٢٣) ۔
وَلَمْ يَكُنْ لَّہُمْ مِّنْ شُرَكَاۗىِٕہِمْ شُفَعٰۗـؤُا وَكَانُوْا بِشُرَكَاۗىِٕہِمْ كٰفِرِيْنَ ١٣- شرك ( شريك)- الشِّرْكَةُ والْمُشَارَكَةُ : خلط الملکين، وقیل : هو أن يوجد شيء لاثنین فصاعدا، عينا کان ذلک الشیء، أو معنی، كَمُشَارَكَةِ الإنسان والفرس في الحیوانيّة، ومُشَارَكَةِ فرس وفرس في الکمتة، والدّهمة، يقال : شَرَكْتُهُ ، وشَارَكْتُهُ ، وتَشَارَكُوا، واشْتَرَكُوا، وأَشْرَكْتُهُ في كذا . قال تعالی:- وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه 32] ، وفي الحدیث : «اللهمّ أَشْرِكْنَا في دعاء الصّالحین» «1» . وروي أنّ اللہ تعالیٰ قال لنبيّه عليه السلام : «إنّي شرّفتک وفضّلتک علی جمیع خلقي وأَشْرَكْتُكَ في أمري» «2» أي : جعلتک بحیث تذکر معي، وأمرت بطاعتک مع طاعتي في نحو : أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد 33] ، وقال تعالی: أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ- [ الزخرف 39] . وجمع الشَّرِيكِ شُرَكاءُ. قال تعالی: وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء 111] ، وقال : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر 29] ، أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری 21] ، وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل 27] .- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - کے معنی دو ملکیتوں کو باہم ملا دینے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک چیز میں دو یا دو سے زیادہ آدمیوں کے شریک ہونے کے ہیں ۔ خواہ وہ چیز مادی ہو یا معنوی مثلا انسان اور فرس کا حیوانیت میں شریک ہونا ۔ یا دوگھوڑوں کا سرخ یا سیاہ رنگ کا ہونا اور شرکتہ وشارکتہ وتشارکوا اور اشترکوا کے معنی باہم شریک ہونے کے ہیں اور اشرکتہ فی کذا کے معنی شریک بنا لینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه 32] اور اسے میرے کام میں شریک کر ۔ اور حدیث میں ہے (191) اللھم اشرکنا فی دعاء الصلحین اے اللہ ہمیں نیک لوگوں کی دعا میں شریک کر ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (علیہ السلام) کو فرمایا ۔ (192) انی شرفتک وفضلتک علی ٰجمیع خلقی واشرکتک فی امری ۔ کہ میں نے تمہیں تمام مخلوق پر شرف بخشا اور مجھے اپنے کام میں شریک کرلیا ۔ یعنی میرے ذکر کے ساتھ تمہارا ذکر ہوتا رہے گا اور میں نے اپنی طاعت کے ساتھ تمہاری طاعت کا بھی حکم دیا ہے جیسے فرمایا ۔ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد 33] اور خدا کی فرمانبرداری اور رسول خدا کی اطاعت کرتے رہو ۔ قران میں ہے : ۔ أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف 39]( اس دن ) عذاب میں شریک ہوں گے ۔ شریک ۔ ساجھی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء 111] اور نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے ۔ اس کی جمع شرگاء ہے جیسے فرمایا : ۔ : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر 29] جس میں کئی آدمی شریک ہیں ( مختلف المزاج اور بدخو ۔ أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری 21] کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرد کیا ہے ۔ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل 27] میرے شریک کہاں ہیں ۔ - شَّفَاعَةُ- : الانضمام إلى آخر ناصرا له وسائلا عنه، وأكثر ما يستعمل في انضمام من هو أعلی حرمة ومرتبة إلى من هو أدنی. ومنه : الشَّفَاعَةُ في القیامة . قال تعالی: لا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً- [ مریم 87] ، لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ [ طه 109] ، لا تُغْنِي شَفاعَتُهُمْ شَيْئاً [ النجم 26] ، وَلا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضى[ الأنبیاء 28] ، فَما تَنْفَعُهُمْ شَفاعَةُ الشَّافِعِينَ [ المدثر 48] ، أي : لا يشفع لهم، وَلا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الشَّفاعَةَ [ الزخرف 86] ، مِنْ حَمِيمٍ وَلا شَفِيعٍ [ غافر 18] ، مَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً حَسَنَةً- [ النساء 85] ، وَمَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً سَيِّئَةً [ النساء 85] ، أي : من انضمّ إلى غيره وعاونه، وصار شَفْعاً له، أو شَفِيعاً في فعل الخیر والشّرّ ، فعاونه وقوّاه، وشارکه في نفعه وضرّه .- وقیل : الشَّفَاعَةُ هاهنا : أن يشرع الإنسان للآخر طریق خير، أو طریق شرّ فيقتدي به، فصار كأنّه شفع له، وذلک کما قال عليه السلام : «من سنّ سنّة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها، ومن سنّ سنّة سيّئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها» «1» أي : إثمها وإثم من عمل بها، وقوله : ما مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ [يونس 3] ، أي :- يدبّر الأمر وحده لا ثاني له في فصل الأمر إلّا أن يأذن للمدبّرات، والمقسّمات من الملائكة فيفعلون ما يفعلونه بعد إذنه . واسْتَشْفَعْتُ بفلان علی فلان فَتَشَفَّعَ لي، وشَفَّعَهُ : أجاب شفاعته، ومنه قوله عليه السلام : «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» «2» والشُّفْعَةُ هو : طلب مبیع في شركته بما بيع به ليضمّه إلى ملكه، وهو من الشّفع، وقال عليه السلام : «إذا وقعت الحدود فلا شُفْعَةَ»- الشفاعۃ - کے معنی دوسرے کے ساتھ اس کی مدد یا شفارش کرتے ہوئے مل جانے کے ہیں ۔ عام طور پر کسی بڑے با عزت آدمی کا اپنے سے کم تر کے ساتھ اسکی مدد کے لئے شامل ہوجانے پر بولا جاتا ہے ۔ اور قیامت کے روز شفاعت بھی اسی قبیل سے ہوگی ۔ قرآن میں ہے َلا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم 87]( تو لوگ) کسی کی شفارش کا اختیار رکھیں گے مگر جس نے خدا سے اقرار لیا ہو ۔ لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ [ طه 109] اس روز کسی کی شفارش فائدہ نہ دے گی ۔ مگر اس شخص کی جسے خدا اجازت دے ۔ لا تُغْنِي شَفاعَتُهُمْ شَيْئاً [ النجم 26] جن کی شفارش کچھ بھی فائدہ نہیں دیتی ۔ وَلا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضى[ الأنبیاء 28] وہ اس کے پاس کسی کی سفارش نہیں کرسکتے مگر اس شخص کی جس سے خدا خوش ہو ۔ فَما تَنْفَعُهُمْ شَفاعَةُ الشَّافِعِينَ [ المدثر 48]( اس حال میں ) سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے حق میں کچھ فائدہ نہ دے گی ۔ یعنی جن معبودوں کو یہ اللہ کے سو سفارش کیلئے پکارتے ہیں ۔ وہ ان کی سفارش نہیں کرسکیں گے ۔ مِنْ حَمِيمٍ وَلا شَفِيعٍ [ غافر 18] کوئی دوست نہیں ہوگا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات قبول کی جائے ۔ مَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً حَسَنَةً [ النساء 85] جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس ( کے ثواب ) میں سے حصہ ملے گا ۔ اور جو بری بات کی سفارش کرے اس کو اس ( کے عذاب ) میں سے حصہ ملے گا ۔ یعنی جو شخص اچھے یا برے کام میں کسی کی مدد اور سفارش کرے گا وہ بھی اس فعل کے نفع ونقصان میں اس کا شریک ہوگا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں شفاعت سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کے لئے کسی اچھے یا برے مسلک کی بنیاد رکھے اور وہ اس کی اقتداء کرے تو وہ ایک طرح سے اس کا شفیع بن جاتا ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا :«من سنّ سنّة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها، ومن سنّ سنّة سيّئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها» کہ جس شخص نے اچھی رسم جاری کی اسے اس کا ثواب ملے گا اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی اسے اجر ملے گا اور جس نے بری رسم جاری کی اس پر اس کا گناہ ہوگا ۔ اور جو اس پر عمل کرے گا اس کے گناہ میں بھی وہ شریک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ ؛ما مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ [يونس 3] کوئی ( اس کے پاس ) اس کا اذن لیے بغیر کسی کی سفارش نہیں کرسکتا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اکیلا ہی ہر کام کی تدبیر کرتا ہے اور نظام کائنات کے چلانے میں کوئی اس کا ساجھی نہیں ہے ۔ ہاں جب وہ امور کی تدبیر و تقسیم کرنے والے فرشتوں کو اجازت دیتا ہے تو وہ اس کی اجازت سے تدبیر امر کرتے ہیں ۔ واسْتَشْفَعْتُ بفلان علی فلان فَتَشَفَّعَ لي، میں نے فلاں سے مدد طلب کی تو اس نے میری مدد لی ۔ وشَفَّعَهُ : ۔ کے معنی کسی کی شفارش قبول کرنے کے ہیں ۔ اور اسی سے (علیہ السلام) کافرمان ہے (196) «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» کہ قرآن شافع اور مشفع ہوگا یعنی قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی ۔ الشُّفْعَةُ کے معنی ہیں کسی مشترکہ چیز کے فروخت ہونے پر اس کی قیمت ادا کر کے اسے اپنے ملک میں شامل کرلینا ۔ یہ شفع سے مشتق ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا :«إذا وقعت الحدود فلا شُفْعَةَ» جب حدود مقرر ہوجائیں تو حق شفعہ باقی نہیں رہتا ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔
اور ان بتوں کے پجاریوں کے لیے ان معبودوں میں سے ان کا کوئی سفارشی نہ ہوگا کہ عذاب الہی سے بچانے کے لیے ان کی سفارش کرے اور یہ لوگ خود بھی اپنے معبودوں کی پرستش سے منکر ہوجائیں گے۔- اور عرض کریں گے کہ اللہ کی قسم اے پروردگار ہم مشرک نہ تھے۔
آیت ١٣ (وَلَمْ یَکُنْ لَّہُمْ مِّنْ شُرَکَآءِہِمْ شُفَعٰٓؤُا وَکَانُوْا بِشُرَکَآءِہِمْ کٰفِرِیْنَ ) ” - جب وہ دیکھیں گے کہ جن سے انہوں نے امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں وہ ان کی کسی قسم کی کوئی مدد نہیں کر رہے تو وہ ان کے منکر ہوجائیں گے۔
سورة الروم حاشیہ نمبر : 16 شرکاء کا اطلاق تین قسم کی ہستیوں پر ہوتا ہے ۔ ایک ملائکہ ، انبیاء ، اولیاء اور شہداء و صالحین جن کو مختلف زمانوں میں مشرکین نے خدائی صفات و اختیارات کا حامل قرار دے کر ان کے آگے مراسم عبودیت انجام دیے ہیں ۔ وہ قیامت کے روز صاف کہہ دیں گے کہ تم یہ سب کچھ ہماری مرضی کے بغیر ، بلکہ ہماری تعلیم و ہدایت کے سراسر خلاف کرتے رہے ہو ، اس لیے ہمارا تم سے کوئی واسطہ نہیں ، ہم سے کوئی امید نہ رکھو کہ ہم تمہاری شفاعت کے لیے خدائے بزرگ کے سامنے کچھ عرض معروض کریں گے ۔ دوسری قسم ان اشیاء کی ہے جو بے شعور یا بے جان ہیں ، جیسے چاند ، سورج ، سیارے ، درخت ، پتھر اور حیوانات وغیرہ ۔ مشرکین نے ان کو خدا بنایا اور ان کی پرستش کی اور ان سے دعائیں مانگیں ، مگر وہ بے چارے بے خبر ہیں کہ اللہ میاں کے خلیفہ صاحب یہ ساری نیاز مندیاں ان کے لیے وقف فرما رہے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے بھی کوئی وہاں ان کی شفاعت کے لیے آگے بڑھنے والا نہ ہوگا ۔ تیسری قسم ان اکابر مجرمین کی ہے جنہوں نے خود کوشش کر کے ، مکر و فریب سے کام لے کر ، جھوٹ کے جال پھیلا کر ، یا طاقت استعمال کر کے دنیا میں خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرائے ، مثلا شیطان ، جھوٹے مذہبی پیشوا اور ظالم و جابر حکمراں وغیرہ ۔ یہ وہاں خود گرفتار بلا ہوں گے ، اپنے ان بندوں کی سفارش کے لیے آگے بڑھنا تو درکنار ان کی تو الٹی کوشش یہ ہوگی کہ اپنے نامہ اعمال کا بوجھ ہلکا کریں اور داور محشر کے حضور یہ ثابت کردیں کہ یہ لوگ اپنے جرائم کے خود ذمہ دار ہیں ، ان کی گمراہی کا وبال ہم پر نہیں پڑنا چاہیے ۔ اس طرح مشرکین کو وہاں کسی طرف سے بھی کوئی شفاعت بہم نہ پہنچے گی ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 17 یعنی اس وقت یہ مشرکین خود اس بات کا اقرار کریں گے کہ ہم ان کو خدا کا شریک ٹھہرانے میں غلطی پر تھے ۔ ان پر یہ حقیقت کھل جائے گی کہ فی الواقع ان میں سے کسی کا بھی خدائی میں کوئی حصہ نہیں ہے ، اس لیے جس شرک پر آج وہ دنیا میں اصرار کر رہے ہیں ، اسی کا وہ آخرت میں انکار کریں گے ۔
5: یعنی ایک مرحلے پر یہ مشرک لوگ صاف جھوٹ بول جائیں گے کہ ہم نے دنیا میں کبھی شرک ہی نہیں کیا تھا، چنانچہ سورۂ انعام میں قرآن کریم نے ان کا مقولہ نقل فرمایا ہے کہ واللہِ رَبِّنَا مَاکُنَّا مُشْرِکِیْنَ (ہم اللہ اپنے پروردگار کی قسم کھاکر کہتے ہیں کہ ہم لوگ مشرک نہیں تھے۔) دیکھئے سورۂ انعام (٦۔ ٢٣)-