1 4 1اس سے مراد ہر فرد کا دوسرے فرد سے الگ ہونا نہیں ہے۔ بلکہ مطلب مومنوں کا اور کافروں کا الگ الگ ہونا ہے اہل ایمان جنت میں اور اہل کفر و شرک جہنم میں چلے جائیں گے اور ان کے درمیان دائمی جدائی ہوجائے گی، یہ دونوں پھر کبھی اکٹھے نہیں ہوں گے یہ حساب کے بعد ہوگا۔ چناچہ اسی علیحدگی کی وضاحت اگلی آیات میں کی جارہی ہے۔
وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ يَوْمَىِٕذٍ يَّتَفَرَّقُوْنَ : دنیا میں مومن و کافر اور موحد و مشرک اکٹھے رہ رہے ہیں، ان کے درمیان وطن، نسب، کاروبار، پیشے اور دوستی وغیرہ کے تعلقات بھی ہوتے ہیں، مگر قیامت کے دن ان کے درمیان ایسی جدائی واقع ہوجائے گی کہ پھر کبھی اکٹھے نہیں ہوں گے، چناچہ کہا جائے گا : (وَامْتَازُوا الْيَوْمَ اَيُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ ) [ یٰس : ٥٩ ] ” اور الگ ہوجاؤ آج اے مجرمو “ اور تمام اہل محشر دو گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے، فرمایا : (فَرِيْقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيْقٌ فِي السَّعِيْرِ ) [ الشورٰی : ٧ ] ” ایک گروہ جنت میں ہوگا اور ایک گروہ بھڑکتی آگ میں۔ “
وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ يَوْمَىِٕذٍ يَّتَفَرَّقُوْنَ ١٤- ساعة- السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187]- ( س و ع ) الساعۃ - ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔- تَّفْرِيقُ ( فرقان)- أصله للتّكثير، ويقال ذلک في تشتیت الشّمل والکلمة . نحو :- يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة 102] ، رَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرائِيلَ- [ طه 94] ، وقوله : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ [ البقرة 285] ، وقوله : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ البقرة 136] ، إنما جاز أن يجعل التّفریق منسوبا إلى (أحد) من حيث إنّ لفظ (أحد) يفيد في النّفي، وقال : إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ [ الأنعام 159] ، وقرئ :- فَارَقُوا «1» والفِراقُ والْمُفَارَقَةُ تکون بالأبدان أكثر . قال : هذا فِراقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ [ الكهف 78] ، وقوله : وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِراقُ [ القیامة 28] ، أي : غلب علی قلبه أنه حين مفارقته الدّنيا بالموت، وقوله : وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ [ النساء 150] ، أي :- يظهرون الإيمان بالله ويکفرون بالرّسل خلاف ما أمرهم اللہ به . وقوله : وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ النساء 152] ، أي : آمنوا برسل اللہ جمیعا، والفُرْقَانُ- أبلغ من الفرق، لأنه يستعمل في الفرق بين الحقّ والباطل، وتقدیره کتقدیر : رجل قنعان : يقنع به في الحکم، وهو اسم لا مصدر فيما قيل، والفرق يستعمل في ذلک وفي غيره، وقوله : يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال 41] ، أي : الیوم الذي يفرق فيه بين الحقّ والباطل، والحجّة والشّبهة، وقوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقاناً- [ الأنفال 29] ، أي : نورا وتوفیقا علی قلوبکم يفرق به بين الحق والباطل «1» ، فکان الفرقان هاهنا کالسّكينة والرّوح في غيره، وقوله : وَما أَنْزَلْنا عَلى عَبْدِنا يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال 41] ، قيل :- أريد به يوم بدر «2» ، فإنّه أوّل يوم فُرِقَ فيه بين الحقّ والباطل، والفُرْقَانُ : کلام اللہ تعالی، لفرقه بين الحقّ والباطل في الاعتقاد، والصّدق والکذب في المقال، والصالح والطّالح في الأعمال، وذلک في القرآن والتوراة والإنجیل، قال : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ [ البقرة 53] ، وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء 48] ، تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان 1] ، شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة 185] .- والفَرَقُ : تَفَرُّقُ القلب من الخوف، واستعمال الفرق فيه کاستعمال الصّدع والشّقّ فيه . قال تعالی: وَلكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ [ التوبة 56] ، ويقال : رجل فَرُوقٌ وفَرُوقَةٌ ، وامرأة كذلك، ومنه قيل للناقة التي تذهب في الأرض نادّة من وجع المخاض : فَارِقٌ وفَارِقَةٌ «3» ، وبها شبّه السّحابة المنفردة فقیل : فَارِقٌ ، والْأَفْرَقُ من الدّيك : ما عُرْفُهُ مَفْرُوقٌ ، ومن الخیل : ما أحد وركيه أرفع من الآخر، والفَرِيقَةُ : تمر يطبخ بحلبة، والفَرُوقَةُ : شحم الکليتين .- التفریق - اصل میں تکثیر کے لئے ہے اور کسی چیز کے شیر ازہ اور اتحاد کو زائل کردینے پر بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة 102] جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں ، رَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ طه 94] کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا ۔ اور آیت کریمہ : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ [ البقرة 285] ۔ اور کہتے ہیں کہ ہم اس کے پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے ۔ نیز آیت : ۔ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ البقرة 136] ہم ان پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے میں احد کا لفظ چونکہ حرف نفی کے تحت واقع ہونے کی وجہ سے جمع کے معنی میں ہے لہذا تفریق کی نسبت اس کی طرف جائز ہے اور آیت کریمہ : إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ [ الأنعام 159] جن لوگوں نے اپنے دین میں بہت سے رستے نکالے ۔ میں ایک قرات فارقوا ہے اور فرق ومفارقۃ کا لفظ عام طور پر اجسام کے ایک دوسرے سے الگ ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هذا فِراقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ [ الكهف 78] اب مجھ میں اور تجھ میں علیحد گی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِراقُ [ القیامة 28] اس ( جان بلب ) نے سمجھا کہ اب سب سے جدائی ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ اسے یقین ہوجاتا ہے کہ بس اب دنیا سے مفارقت کا وقت قریب آپہنچا ہے اور آیت کریمہ : وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ [ النساء 150] اور خدا اور اس کے پیغمبروں میں فرق کرنا چاہتے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ ظاہر تو یہ کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے ہیں مگر حکم الہی کی مخالفت کر کے اس کے پیغمبروں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ النساء 152] اور ان میں کسی میں فرق نہ کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ تمام پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ - الفرقان - یہ فرق سے ابلغ ہے کیونکہ یہ حق اور باطل کو الگ الگ کردینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور یہ رجل وقنعان ( یعنی وہ آدمی جس کے حکم پر قناعت کی جائے ) کی طرح اسم صفت ہے مصدر نہیں ہے اور - فرق کا لفظ عام ہے جو حق کو باطل سے الگ کرنے کے لئے بھی آتا ہے اور دوسری چیزوں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقاناً [ الأنفال 29] مومنوں اگر تم خدا سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لئے امر فارق پیدا کر دیگا ( یعنی تم کو ممتاز کر دے گا ۔ میں فر قان سے مراد یہ ہے کہ وہ تمہارے دلوں کے اندر نور اور توفیق پیدا کر دیگا جس کے ذریعہ تم حق و باطل میں امتیاز کرسکو گے تو گویا یہاں فرقان کا لفظ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ سکینۃ اور روح کے الفاظ ہیں اور قرآن نے یوم الفرقان اس دن کو کہا ہے جس روز کہ حق و باطل اور صحیح وغلط کے مابین فرق اور امتیاز ظاہر ہوا چناچہ آیت : ۔ وَما أَنْزَلْنا عَلى عَبْدِنا يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال 41] اور اس ( نصرت ) پر ایمان رکھتے ہو جو ( حق و باطل میں ) فرق کرنے کے دن نازل فرمائی ۔ میں یوم الفرقان سے جنگ بدر کا دن مراد ہے کیونکہ وہ ( تاریخ اسلام میں ) پہلا دن ہے جس میں حق و باطل میں کھلا کھلا امتیاز ہوگیا تھا ۔ اور کلام الہی ( وحی ) بھی فرقان ہوتی ہے کیونکہ وہ حق اور باطل عقائد میں فرق کردیتی ہے سچی اور جھوٹی باتوں اور اچھے برے اعمال کو بالکل الگ الگ بیان کردیتی ہے اس لئے قرآن کریم تورات اور انجیل کو فرقان سے تعبیر فرما گیا ہے چناچہ توراۃ کے متعلق فرمایا : ۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء 48] اور ہم نے موسیٰ اور ہارون هْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة 185] (علیہ السلام) کو ہدایت اور گمراہی میں ) فرق کردینے والی ۔ ،۔۔ عطا کی ۔ تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان 1] وہ خدائے عزوجل بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ [ البقرة 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے ۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء 48] اور ہم نے موسیٰ اور ہارون کو معجزے دیئے روزوں کا مہینہ رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( اول اول ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور جس میں ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور حق و باطل کو ) الگ الگ کرنے والا ہے - الفرق - کے معنی خوف کی وجہ سے دل کے پرا گندہ ہوجانے کے ہیں اور دل کے متعلق اس کا استعمال ایسے ہی ہے جس طرح کہ صدع وشق کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ [ التوبة 56] اصل یہ ہے کہ یہ ڈر پوک لوگ ہے ۔ اور فروق وفروقۃ کے معنی ڈرپوک مرد یا عورت کے ہیں اور اسی سے اس اونٹنی کو جو درندہ کی وجہ سے بدک کر دور بھاگ جائے ۔ فارق یا فارقۃ کہا جاتا ہے اور تشبیہ کے طور پر اس بدلی کو بھی فارق کہا جاتا ہے جو دوسری بد لیوں سے علیحد ہ ہو ۔ وہ مرغ جس کی کلفی شاخ در شاخ ہو ( 2 ) وہ گھوڑا جس کا ایک سرین دوسرے سے اونچا ہو ۔ الفریقۃ دودھ میں پکائی ہوئی کھجور ۔ الفریقہ گردوں کی چربی ۔
اور قیامت کے دن سب جدا جدا ہوجائیں گے۔
آیت ١٤ (وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ یَوْمَءِذٍ یَّتَفَرَّقُوْنَ ) ” - بنی نوع انسان کی یہ تقسیم ( ) کس بنیاد پر ہوگی ؟ اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
سورة الروم حاشیہ نمبر : 18 یعنی دنیا کی وہ تمام جتھ بندیاں جو آج قوم ، نسل ، وطن ، زبان ، قبیلہ و برادری ، اور معاشی و سیاسی مفادات کی بنیاد پر بنی ہوئی ہیں ، اس روز ٹوٹ جائیں گی ، اور خالص عقیدے اور اخلاق و کردار کی بنیاد پر نئے سرے سے ایک دوسرے گروہ بندی ہوگی ۔ ایک طرف نوع انسانی کی تمام اگلی پچھلی قوموں میں سے مومن و صالح انسان الگ چھانٹ لیے جائیں گے اور ان سب کا ایک گروہ ہوگا ۔ دوسری طرف ایک ایک قسم کے گمراہانہ نظریات و عقائد رکھنے والے ، اور ایک ایک قسم کے جرائم پیشہ ولگ اس عظیم الشان انسانی بھیڑ میں سے چھانٹ چھانٹ کر الگ نکال لیے جائیں گے اور ان کے الگ الگ گروہ بن جائیں گے ۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھنا چاہیے کہ اسلام جس چیز کو اس دنیا میں تفریق اور اجتماع کی حقیقی بنیاد قرار دیتا ہے اور جسے جاہلیت کے پرستار یہاں ماننے سے انکار کرتے ہیں ، آخرت میں اسی بنیاد پر تفریق بھی ہوگی اور اجتماع بھی ۔ اسلام کہتا ہے کہ انسانوں کو کاٹنے اور جوڑنے والی اصل چیز عقیدہ اور اخلاق ہے ۔ ایمان لانے والے اور خدائی ہدایت پر نظام زندگی کی بنیاد رکھنے والے ایک امت ہیں ، خواہ وہ دنیا کے کسی گوشے سے تعلق رکھتے ہوں اور کفر و فسق کی راہ اختیار کرنے والے ایک دوسرے امت میں ، خواہ ان کا تعلق کسی نسل و وطن سے ہو ۔ ان دونوں کی قومیت ایک نہیں ہوسکتی ۔ یہ نہ دنیا میں ایک مشترک راہ زندگی بنا کر ایک ساتھ چل سکتے ہیں اور نہ آخرت میں ان کا انجام ایک ہوسکتا ہے ۔ دنیا سے آخرت تک ان کی راہ اور منزل ایک دوسرے سے الگ ہے ۔ جاہلیت کے پرستار اس کے برعکس ہر زمانے میں اصرار کرتے رہے ہیں اور آج بھی اسی بات پر مصر ہیں کہ جتھ بندی نسل اور وطن اور زبان کی بنیادوں پر ہونی چاہیے ، ان بنیادوں کے لحاظ سے جو لوگ مشترک ہوں انہیں بلا لحاظ مذہب و عقیدہ ایک قوم بن کر دوسرے ایسی ہی قوموں کے مقابلے میں متحد ہونا چاہیے ، اور اس قومیت کا ایک ایسا نظام زندگی ہونا چاہیے جس میں توحید اور شرک اور دہریت کے معتقدین سب ایک ساتھ مل کر چل سکیں ۔ یہی تخیل ابوجہل اور ابو لہب اور سرداران قریش کا تھا ، جب وہ بار بار محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام رکھتے تھے کہ اس شخص نے آکر ہماری قوم میں تفرقہ ڈال دیا ہے ۔ اسی پر قرآن مجید یہاں متنبہ کررہا ہے کہ تمہاری یہ تمام جتھ بندیاں جو تم نے اس دنیا میں غلط بنیادوں پر کر رکھی ہیں آخر کار ٹوٹ جانے والی ہیں ، اور نوع انسانی میں مستقل تفریق اسی عقیدے اور نظریہ حیات اور اخلاق و کردار کی بنیاد پر ہونے والی ہے جس پر اسلام دنیا کی اس زندگی میں کرنا چاہتا ہے ۔ جن لوگوں کی منزل ایک نہیں ہے ان کی راہ زندگی آخر کیسے ایک ہوسکتی ہے ۔