Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

خالق کل مقتدر کل ہے اس رب تعالیٰ کا کمال قدرت اور عظمت سلطنت پر دلالت اس کی تسبیح اور اس کی حمد سے ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی رہبری کرتا ہے اور اپنا پاک ہونا اور قابل حمد ہونا بھی بیان فرما رہا ہے ۔ شام کے وقت جبکہ رات اپنے اندھیروں کو لے آتی ہے اور صبح کے وقت جبکہ دن اپنی روشنیوں کو لے آتا ہے ۔ اتنا بیان فرما کر اس کے بعد کاجملہ بیان فرمانے سے پہلے ہی یہ بھی ظاہر کردیا کہ زمین وآسمان میں قابل حمد وثنا وہی ہے ان کی پیدائش خود اس کی بزرگی پر دلیل ہے ۔ پھر صبح شام کے وقتوں کی تسبیح کا بیان جو پہلے گذرا تھا اس کے ساتھ عشاء اور ظہر کا وقت ملالیا ۔ جو پوری اندھیرے اور کامل اجالے کا وقت ہوتا ہے ۔ بیشک تمام پاکیزگی اسی کو سزاوار ہے جو رات کے اندھیروں کو اور دن کے اجالوں کو پیدا کرنے والا ہے ۔ صبح کا ظاہر کرنے والا رات کو سکون والی بنانے والا وہی ہے ۔ اس جیسی آیتیں اور بھی بہت سی ہیں ۔ آیت ( وَالنَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا Ǽ۝۽ ) 91- الشمس:3 ) اور ( وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى Ǻ۝ۙ ) 92- الليل:1 ) ٰ ( اور ) ( وَالضُّحٰى وَالَّيْلِ اِذَا سَـجٰى Ǻ۝ۙ ) 93- الضحى:1-2 ) وغیرہ ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کا نام خلیل ( وفادار ) کیوں رکھا ؟ اس لئے کہ وہ صبح شام ان کلمات کو پڑھاکرتے تھے ۔ پھر آپ نے آیت ( فَسُـبْحٰنَ اللّٰهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ سے وَلَهُ الْحَمْــدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِـيًّا وَّحِيْنَ تُظْهِرُوْنَ 18؀ ) 30- الروم:18 ) تک کی دونوں آیتیں تلاوت فرمائیں ۔ طبرانی کی حدیث میں ان دونوں آیتوں کی نسبت ہے کہ جس نے صبح وشام یہ پڑھ لیں اس نے دن رات میں جو چیز چھوٹ گئی اسے پالیا ۔ پھر بیان فرمایا کہ موت وزیست کا خالق مردوں سے زندوں کو اور زندوں سے مردوں کو نکالنے والا وہی ہے ۔ ہر شے پر اور اس کی ضد پر وہ قادر ہے دانے سے درخت درخت سے دانے مرغی سے انڈہ انڈے سے مرغی نطفے سے انسان انسان سے نطفہ مومن سے کافر کافر سے مومن غرض ہر چیز اور اسکے مقابلہ کی چیز پر اسے قدرت حاصل ہے ۔ خشک زمین کو وہی تر کرتا ہے بنجر زمین سے وہی زراعت پیدا کرتا ہے جیسے سورۃ یاسین میں فرمایا کہ خشک زمین کا ترو تازہ ہو کر طرح طرح کے اناج وپھل پیدا کرنا بھی میری قدرت کا ایک کامل نشان ہے ۔ ایک اور آیت میں ہے تمہارے دیکھتے ہوئے اس زمین کو جس میں سے دھواں اٹھتاہو دوبوند سے تر کرکے میں لہلہادیتا ہوں اور ہر قسم کی پیداوار سے اسے سرسبز کردیتا ہوں ۔ اور بھی بہت سی آیتوں میں اس مضمون کو کہیں مفصل کہیں مجمل بیان فرمایا ۔ یہاں فرمایا اسی طرح تم سب بھی مرنے کے بعد قبروں میں سے زندہ کرکے کھڑے کردئیے جاؤ گے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٤] یعنی مشرکین کے عقائد باطلہ سے اللہ کی تزیہہ بیان کرو۔ مشرکین اپنے عقائد باطلہ کی ایک دلیل یہ بھی دیتے ہیں کہ اللہ اکیلا اس ساری کائنات کا انتظام کیسے سنبھال سکتا ہے لہذا ضروری ہے کہ وہ کچھ اختیارات دوسری ہستیوں کو تفویض کر دے۔ لہذا مسلمانوں کو حکم ہوا کہ وہ ایسے بیہودہ اور لچر عقائد سے اللہ کی پاکیزگی بیان کریں۔ اکثر مفسرین نے یہاں تسبیح سے مراد نماز لی ہے اور اس کا قرینہ یہ ہے کہ یہاں نمازوں کے اوقات بیان ہوئے ہیں۔ مشرکوں کی اکثریت ایسی ہری ہے جو انسانی زندگی پر سیاروں کے اثرات اور تاثیر کے قائل تھے۔ اور سورج کی تاثیر سے چونکہ تمام زمینی مخلوق متاثر ہوتی ہے۔ لہذا اسے معبود اکبر سمجھ کر مختلف رنگوں میں سورج کی اور آگ کی پوجا کی جاتی رہی ہے۔ سورج پرست عموماً طلوع آفتاب اور غروب کے وقت اس کی پرستش کرتے تھے۔ لہذا مسلمانوں کو حکم ہوا کہ ان اوقات کوئی فرض نماز تو کجا نفلی نماز بھی ادا نہ کی جائے۔ نیز سورج پرست سورج کی پوجا ان اوقات میں کیا کرتے تھے جب سورج مائل بہ عروج ہو۔ یعنی طلوع آفتاب سے نصف النہار تک۔ لہذا اس دوران کسی فریضہ نماز کا وقت مقرر نہیں کیا گیا۔ دو نمازیں تو اس وقت آتی ہیں جب سورج زوال پذیر ہو اور تین نمازیں اس وقت مقرر کی گئیں جبکہ سورج غائب ہوتا ہے۔ آیت نمبر ١٧ میں صبح اور شام کی نماز کا ذکر آگیا اور بعض کے نماز تُمْسُوْنَ میں شام اور عشاء دونوں شامل ہیں اور آیت نمبر ١٨ میں تیسرے پہر یعنی عصر کی نماز اور ظہر کی نماز کا ذکر آگیا۔ اور نماز بجائے خود اللہ کی تسبیح و تمہید کی بہترین شکل ہے۔- اور اگر ان دو آیات سے چار نمازوں کا ہی وقت سمجھا جائے تو سورة ہود کی آیت نمبر ١٤، بنی اسرائیل کی آیت نمبر ٧٨ اور سورة طٰٰہٰ کی آیت نمبر ١٣٠ کو سامنے رکھا جائے تو قرآن سے ہی پانچ نمازوں کے اوقات کی صراحت ثابت ہوجاتی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَسُـبْحٰنَ اللّٰهِ : ” سُبْحَان اللّٰہِ “ فعل محذوف ” سَبِّحُوْا “ کا مفعول مطلق ہے۔ ” پس تم اللہ کی تسبیح کرو “ میں ” پس “ کا مطلب یہ ہے کہ جب تم جان چکے کہ ایمان اور عمل صالح والوں کا حال کیا ہوگا اور اللہ کی آیات کا انکار اور ان تکذیب کرنے والوں کا انجام کیا ہوگا، تو تم پر لازم ہے کہ جنت کے عالی شان باغوں میں جانے کے لیے اور عذاب الٰہی سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرو۔ اسے ہر شریک، ہر عیب اور ہر کمزوری سے پاک مانو۔ مشرکین و کفار اللہ کے شریک بنا رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو قیامت قائم کرنے سے عاجز قرار دے رہے ہیں، تم ان سب باتوں سے اللہ تعالیٰ کے پاک ہونے کا اعلان کرو اور اس کی تسبیح کرو۔- حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ ۔۔ : زبان اور عمل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کے اظہار اور اعلان کی بہترین اور جامع صورت نماز ہے۔ اس لیے مفسرین نے یہاں تسبیح سے مراد نماز لی ہے اور یہاں اس کا واضح قرینہ بھی موجود ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح تو دن رات کے ہر لمحے میں ہوسکتی ہے اور ہونی چاہیے، اس کے لیے اوقات مقرر کرنے کا مطلب یہی ہے کہ یہاں تسبیح کی خاص صورت کا حکم دیا جا رہا ہے، جو نماز پنج گانہ ہے۔ چناچہ ” حِيْنَ تُمْسُوْنَ “ (جب تم شام کرتے ہو) سے مغرب اور عشاء مراد ہیں، ” وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ “ (جب تم صبح کرتے ہو) سے صبح کی نماز مراد ہے، ” عشیا “ (پچھلے پہر) سے عصر کی نماز اور ” حین تظھرون “ (جب تم ظہر کے وقت میں داخل ہوتے ہو) سے مراد ظہر کی نماز ہے۔ یاد رہے نمازوں کے یہ اوقات اجمالاً بیان ہوئے ہیں، ان کے اول و آخر کی تعیین اور نمازوں کی ادائیگی کا طریقہ حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بیان ہوا ہے، جس کے بغیر قرآن مجید کے حکم پر عمل ممکن ہی نہیں۔ قرآن مجید میں نمازوں کے اوقات کے بیان کے لیے سورة بنی اسرائیل (٧٨) ، ہود (١١٤) اور طٰہٰ (١٣٠) کی تفسیر پر بھی ایک نگاہ ڈال لیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

فَسُـبْحٰنَ اللّٰهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ ، وَلَهُ الْحَمْــدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِـيًّا وَّحِيْنَ تُظْهِرُوْنَ ، لفظ سـبْحٰنَ اللّٰهِ مصدر ہے، اس کا فعل محذوف ہے یعنی سبحوا اللہ سبحانا، حِيْنَ تُمْسُوْنَ ، یعنی جب تم شام کے وقت میں داخل ہو اور وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ ، یعنی جب تم پر صبح کا وقت آئے وَلَهُ الْحَمْــدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یہ جملہ درمیان میں بطور دلیل کے لایا گیا ہے کہ صبح شام اللہ کی تسبیح اس لئے ضروری ہے کہ آسمان و زمین میں صرف وہی مستحق حمد ہے اور تمام آسمان و زمین والے اس کی حمد کرنے میں مشغول ہیں اور جس طرح شروع آیت میں صبح شام کی تسبیح کا حکم ہے، آخر آیت میں عَشِـيًّا اور حِيْنَ تُظْهِرُوْنَ سے اور دو وقتوں میں تسبیح کرنے کا حکم دیا گیا ہے ایک وقت عَشِی جو دن کے آخری حصہ کو کہا جاتا ہے جو عصر کا وقت ہے دوسرا وقت ظہر یعنی بعد زوال آفتاب کے۔- اور ترتیب بیان میں جس طرح شام کو صبح سے مقدم کر کے بیان کیا گیا ہے اسی طرح دن کے آخری حصہ کو ظہر پر مقدم کر کے بیان کیا گیا ہے، شام یعنی رات کو مقدم کرنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اسلامی تاریخ میں رات مقدم ہوتی ہے اور تاریخ غروب آفتاب سے بدلتی ہے اور عشی یعنی وقت عصر کو ظہر سے مقدم کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عصر کا وقت عموماً کاروبار کی مشغولیت کا وقت ہوتا ہے، اس میں کوئی دعا تسبیح یا نماز عادة مشکل ہے۔ اسی لئے قرآن کریم میں صلوة وسطی جس کی تفسیر جمہور کے نزدیک نماز عصر ہے، اس کی خصوصی تاکید آئی ہے۔ حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى۔- آیت مذکورہ کے الفاظ میں نماز یا صلوة کی تصریح نہیں۔ اس لئے ہر قسم کے ذکر اللہ قولی اور عملی کو شامل ہے، جیسا کہ خلاصہ تفسیر میں بیان کیا گیا ہے اور ذکر اللہ کی تمام اقسام میں چونکہ نماز سب سے اعلی اور افضل ہے، اس لئے وہ اس میں بدرجہ اولی داخل ہے۔ اسی لئے علماء نے کہا ہے کہ اس آیت میں پانچوں نمازوں کا مع ان کے اوقات کے ذکر آ گیا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس سے کسی نے دریافت کیا کہ کیا قرآن میں پانچ نمازوں کا ذکر صریح ہے ؟ تو فرمایا ہاں اور استدلال میں یہی آیت پیش کر کے فرمایا کہ حِيْنَ تُمْسُوْنَ میں نماز مغرب اور حِيْنَ تُصْبِحُوْنَ میں نماز فجر اور عَشِـيًّا میں نماز عصر اور حِيْنَ تُظْهِرُوْنَ میں نماز ظہر کا ذکر صریح موجود ہے۔ اب صرف ایک نماز عشاء رہی، اس کے ثبوت میں دوسری آیت کا جملہ ارشاد فرمایا مِنْۢ بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَاۗءِ ۔- اور حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ حِيْنَ تُمْسُوْنَ میں نماز مغرب و عشاء دونوں داخل ہیں۔- فائدہ عظیمہ :- یہ آیت حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوة والسلام کی وہ دعا ہے جس کی وجہ سے قرآن کریم نے ان کو دعائے عہد کا خطاب دیا ہے، ارشاد فرمایا وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّيٰٓ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہ کلمات صبح شام پڑھا کرتے تھے۔- جیسا کہ اسانید صحیحہ کے ساتھ حضرت معاذ بن انس (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تعریف وفاء عہد سے کرنے کا سبب ان کی یہ دعا تھی۔- اور ابو داؤد، طبرانی، ابن سنی وغیرہ نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فَسُـبْحٰنَ اللّٰهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ ، وَلَهُ الْحَمْــدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِـيًّا وَّحِيْنَ تُظْهِرُوْنَ ، يُخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْـحَيِّ وَيُـحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَ آ وَكَذٰلِكَ تُخْرَجُوْنَ ، ان دو آیتوں کے متعلق فرمایا کہ جس شخص نے صبح کو یہ کلمات پڑھ لئے تو دن بھر میں اس کے عمل میں جو کوتاہی ہوگی وہ ان کلمات کی برکت سے پوری کردی جائے گی اور جس نے شام کے وقت یہ کلمات پڑھ لئے تو اس کے رات کے اعمال کی کوتاہی اس کے ذریعے پوری کردی جائے گی۔ (روح)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَسُـبْحٰنَ اللہِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ۝ ١٧- سبحان - و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر - «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة .- ( س ب ح ) السبح - ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔- حين - الحین : وقت بلوغ الشیء وحصوله، وهو مبهم المعنی ويتخصّص بالمضاف إليه، نحو قوله تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] - ( ح ی ن ) الحین - ۔ اس وقت کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز پہنچے اور حاصل ہو ۔ یہ ظرف مبہم ہے اور اس کی تعین ہمیشہ مضاف الیہ سے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] اور وہ رہائی کا وقت نہ تھا ۔ - صبح - الصُّبْحُ والصَّبَاحُ ، أوّل النهار، وهو وقت ما احمرّ الأفق بحاجب الشمس . قال تعالی: أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود 81] ، وقال : فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات 177] ، والتَّصَبُّحُ : النّوم بالغداة، والصَّبُوحُ : شرب الصّباح، يقال : صَبَحْتُهُ : سقیته صبوحا، والصَّبْحَانُ : الْمُصْطَبَحُ ، والْمِصْبَاحُ : ما يسقی منه، ومن الإبل ما يبرک فلا ينهض حتی يُصْبَحَ ، وما يجعل فيه الْمِصْبَاحُ ، قال : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور 35] ، ويقال للسّراج : مِصْبَاحٌ ، والْمِصْبَاحُ : مقرّ السّراج، والْمَصَابِيحُ : أعلام الکواكب . قال تعالی: وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک 5] ، وصَبِحْتُهُمْ ماء کذا : أتيتهم به صَبَاحاً ، والصُّبْحُ : شدّة حمرة في الشّعر، تشبيها بالصّبح والصّباح، وقیل : صَبُحَ فلان أي : وَضُؤَ - ( ص ب ح) الصبح والصباح دن کا ابتدائی حصہ جبکہ افق طلوع آفتاب کی وجہ سے سرخ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود 81] کیا صبح کچھ دور ہے ۔ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات 177] تو جن کو ڈرسنا یا گیا ہے ۔ ان کے لئے برادن ہوگا ۔ التصبح صبح کے وقت سونا ۔ الصبوح صبح کی شراب کو کہتے ہیں اور صبحتہ کے معنی صبح کی شراب پلانے کے ہیں ۔ الصبحان صبح کے وقت شراب پینے والا ( مونث صبحیٰ ) المصباح (1) پیالہ جس میں صبوحی پی جائے (2) وہ اونٹ جو صبح تک بیٹھا رہے (3) قندیل جس میں چراغ رکھا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور 35] اس کے نور کی مثال ایسی ہے گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ اور چراغ ایک قندیل میں ہے ۔ اور چراغ کو بھی مصباح کہاجاتا ہے اور صباح کے معنی بتی کی لو کے ہیں ۔ المصا بیح چمکدار ستارے جیسے فرمایا : وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک 5] اور ہم نے قریب کے آسمان کو تاروں کے چراغوں سے زینت دی ۔ صبحتم ماء کذا میں صبح کے وقت انکے پاس فلاں پانی پر جاپہنچا اور کبھی صبیح یا صباح کی مناسبت سے بالوں کی سخت سرخی کو بھی صبح کہا جاتا ہے ۔ صبح فلان خوبصورت اور حسین ہونا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

سو تم مغرب و عشاء اور صبح کی نماز کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کیا کرو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الروم حاشیہ نمبر : 22 یہ پس اس معنی میں ہے کہ جب تمہیں یہ معلوم ہوگیا کہ ایمان و عمل صالح کا انجام وہ کچھ اور کفر و تکذیب کا انجام یہ کچھ ہے تو تمہیں یہ طرز عمل اختیار کرنا چاہیے ۔ نیز یہ پس اس معنی میں بھی ہے کہ مشرکین و کفار حیات اخروی کو ناممکن قرار دے کر اللہ تعالی کو دراصل عاجز و درماندہ قرار دے رہے ہیں ۔ لہذا تم اس کے مقابلہ میں اللہ کی تسبیح کرو اور اس کمزوری سے اس کے پاک ہونے کا اعلان کرو ۔ اس ارشاد کے مخاطب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے واسطے سے تمام اہل ایمان ہیں ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 23 اللہ کی تسبیح کرنے سے مراد ان تمام عیوب اور نقائص اور کمزوریوں سے ، جو مشرکین اپنے شرک اور انکار آخرت سے اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ، اس ذات بے ہمتاکے پاک اور منزہ ہونے کا اعلان و اظہار کرنا ہے ۔ اس اعلان و اظہار کی بہترین صورت نماز ہے ۔ اسی بنا پر ابن عباس ، مجاہد ، قتادہ ، ابن زید ( رضی اللہ عنہم ) اور دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ یہاں تسبیح کرنے سے مراد نماز پڑھنا ہے ۔ اس تفسیر کے حق میں یہ صریح قرینہ خود اس آیت میں موجود ہے کہ اللہ کی پاکی بیان کرنے کے لیے اس میں چند خاص اوقات مقرر کیے گئے ہیں ۔ ظاہر بات ہے کہ اگر محض یہ عقیدہ رکھنا مقصود ہو کہ اللہ تمام عیوب و نقائص سے منزہ ہے تو اس کے لیے صبح و شام اور ظہر و عصر کے اوقات کی پابندی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ، کیونکہ یہ عقیدہ تو مسلمان کو ہر وقت رکھنا چاہیے ۔ اسی طرح اگر محض زبان سے اللہ کی پاکی کا اظہار مقصود ہو ، تب بھی ان اوقات کی تخصیص کے کوئی معنی نہیں ، کیونکہ یہ اظہار تو مسلمان کو ہر موقع پر کرنا چاہیے ۔ اس لیے اوقات کی پابندی کے ساتھ تسبیح کرنے کا حکم لا محالہ اس کی ایک خاص عملی صورت ہی کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ اور یہ عملی صورت نماز کے سوا اور کوئی نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani